اشاعتیں

اگست, 2010 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

بٹیرے اور بارود

سب دائرے میں بیٹھے ہوئے ہیں۔  کچھ آلتی پالتی مارے،  کچھ اُکڑوں،  کچھ پائوں کے بل  لیکن سب زمین پر ہیں۔  کچھ جو نوجوان ہیں۔ پیچھے کھڑے ہیں۔  کچھ نے پشاوری چیلیں پہنی ہوئی ہیں لیکن زیادہ تر ہوائی چپلوں میں ہیں  ٹوپیاں تقریباً سب کے سروں پر ہیں۔  سب شلوار قمیض پہنے ہیں۔  کچھ باریش ہیں، کچھ نہیں یہ  سب ایک تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ آگے چھوٹا سا میدان ہے۔ اس میں دو شخص آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ دونوں کے ایک ایک ہاتھ میں سرکنڈوں سے بنا ہوا۔ پنجرہ ہے۔ دونوں کے درمیان نیچے، زمین پر دو بٹیرے آپس میں لڑ رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو ٹھونگیں مار رہے ہیں۔ ہر ٹھونگ پر داد و تحسین کے ڈونگرے برستے ہیں اور مجمع فرطِ جذبات سے بے حال ہو جاتا ہے۔ اگر ایک بٹیرہ پیچھے ہٹتا ہے تو آدھا مجمع خاموش رہتا ہے لیکن دوسرا آدھا فتح کی خوشی میں سرمست ہو جاتا ہے پھر شکست خوردہ بٹیرا ہمت مجتمع کرتا ہے اور آگے بڑھنے لگتا ہے اب مدمقابل کے پیچھے ہٹنے کی باری ہے۔ مجمع کا آدھا حصہ جو خموش تھا، اب ہاہاکار سے آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔ مقابلہ کئی گھنٹے جاری رہتا ہے۔ بالآخ...

اجتماعی توبہ---------مگر کیسے

تصویر

محمد بشیر کا محل

نام محمد بشیر، گاؤں پیر کوٹ، تحصیل ہجیرہ، ضلع راولا کوٹ۔ لیکن ٹھہریے۔ اُدھر دیکھئے، خیبر پختون خواہ شکایت کر رہا ہے۔ خیبرپختون خواہ کا شکوہ یہ ہے کہ نیشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی National Disaster Management Authority  ( این ڈی ایم اے) ایک قومی ادارہ ہے لیکن اُسکے طرزِ عمل سے جانبداری کی بو آرہی ہے۔ اکلوتے فرزند کی شدت پسندوں کے ہاتھوں شہادت پر بہادری اور صبر دکھانے والے صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخار نے تو صاف کہا ہے کہ این ڈی ایم اے سیلاب زدگان میں امدادی اشیاء بانٹنے کے ضمن میں خیبرپختون خواہ کو محروم رکھ رہا ہے اور اس کا زور کسی ’’اور‘‘ جانب ہے! پشاور کی وادی میں سات لاکھ افراد تو اٹھائیس جولائی ہی کو بے گھر ہو گئے تھے لیکن این ڈی ایم اے ہوائی جہازوں کی مدد سے امدادی اشیاء ملتان اور سکھر بھیجتا رہا۔ خیبرپختون خواہ کے پاس جو دستاویزات ہیں وہ بتا رہی ہیں کہ بیس بڑے جنریٹر اور دواؤں کی بڑی مقدار 4 اگست کو سکھر اور ملتان بھیجی گئی، پھر 7 اگست کو لوبیا کے ایک سو چالیس بیگ، دودھ کے ایک سو پچاس کارٹن، چاول کی ایک سو بوریاں، دال کے دو سو چوبیس بیگ، خوردنی تیل کے ایک سو کنستر، پانی کی...

After the deluge:disaster begets dissent begets disaster

( published in  daily  The Age  Australia   on 14 August 2010 ) THERE were still two hours before daybreak. The town was swept over by a silence filled with heat and humidity. Four hundred thousand human beings were sleeping in their homes. Almost the same number were sheltered in the refugee camps in and around the town. They had been displaced from their homes in the surrounding villages, which had been inundated. Two hours before daybreak the pitch-dark silence was pierced by loud announcements relayed from the mosques dotted all around. The people were being asked to vacate the town. The flood was approaching them fast. The two rivers, guarding the town on its right and left, had swelled. In no time, all types of vehicles from cars, trucks and wagons to horse-driven carts, had choked the road to Multan, the nearest city. In South Asia, on all such occasions two things happen: traffic lawlessness that makes the caravan move at snail's pace an...

صرف وزارتیں یا عزت بھی؟

برطانوی وزیراعظم کے لکڑ دادا فوج میں گھوڑ سوار تھے۔ انہوں نے ہندوستانیوں کی 1857ء کی جنگ آزادی کو کچلنے میں بھرپور حصہ لیا۔ ان کا نام ولیم لو (LOW) تھا۔ ولیم لو نے تفصیل سے بیان کیا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی تلوار سے ’’باغیوں‘‘ کو قتل کیا اور پھر کس طرح سول آبادی کو کثیر تعداد میں پھانسی دینے میں سرگرم کردار ادا کیا۔ اس سے پہلے وزیراعظم نے خود بھی کہا تھا کہ اُنکے آباؤ اجداد نے ہندوستان میں’’سلطنت کی تعمیر‘‘ میں حصہ لیا تھا۔ ’’10 جون 1857ء کو چھاؤنی میں پلاٹون نمبر 69 کو بغاوت کے شبہ میں نہتا کیا گیا اور پلاٹون کمانڈر کو جمعہ دس سپاہیوں کے توپ کے آگے رکھ کر اُڑا دیا گیا۔ بقیہ نہتی پلاٹون کو شبہ ہوا کہ انہیں چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں فارغ کیا جائے گا اور تھوڑا تھوڑا کر کے تہہ تیغ کر دیا جائیگا۔ سپاہیوں نے بغاوت کر دی۔ تقریباً بارہ سو سپاہیوں نے بغاوت کا علم بلند کیا۔ انگریزوں کیخلاف بغاوت کرنیوالے مجاہدین کو شہر اور چھاؤنی کے درمیان واقع پُل شوالہ پر سجادہ نشین نے انگریزی فوج کی قیادت میں اپنے مریدوں کے ہمراہ گھیرے میں لے لیا اور تین سو کے لگ بھگ نہتے مجاہدین کو شہید کر دیا۔‘‘ اوپر کی س...

The Pseudo Graduates of Pakistani Ruling Class.

The recent uproar in the elected house of Punjab, the largest Pakistani province, has once again proved that the ruling class has no lower limit in moral bankruptcy and can turn blatantly audacious to defend it also. The members were furious against the media who, according to them, was out to drag them through the mud on the issue of fake educational degrees. Academic degrees of a considerably large number of parliamentarians have turned out phony. These notorious politicians come from almost all political parties. Higher Education Commission(HEC), The top education body of the country, has declared degrees of a large number of parliamentarians fake. Punjab parliament ,however, passed a resolution accusing the media of “irresponsibility that is damaging the democracy”. They however failed to clarify whether findings of Higher Education Commission were not based on facts. Journalists, in reaction, protested outside the assembly for more than three hours, chanting slogans against...

ہمارے دو عالی شان اوصاف

مسلمان ملکوں کے بارے میں جو غلط فہمیاں آج کل کی دنیا میں پائی جاتی ہیں ان میں سرفہرست غلط فہمی جمہوریت کے حوالے سے ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ بیسیوں مسلمان ملکوں میں سے صرف ترکی، پاکستان، ایران، ملائیشیا اور انڈونیشیا ہی میں صحیح معنوں میں انتخابات ہوتے ہیں اور باقی سارے ممالک میں آمریت کا بھوت ناچ رہا ہے لیکن حقیقت اسکے برعکس ہے۔ دنیا بھول جاتی ہے کہ مصر میں مکمل جمہوری نظام ہے۔ جناب حسنی مبارک نے جمہوری عمل کے نتیجے ہی میں صدارت سنبھالی اور 1981ء سے یعنی گزشتہ انتیس برس سے صدارت سنبھالتے چلے آ رہے ہیں۔ انکی صدارت کا یہ تسلسل ایک مکمل انتخابی عمل کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوتا ہے۔ محمد علی پاشا کے بعد وہ مصر کے طویل ترین عرصہ تک ریاست کے سربراہ رہنے والے شخص ہیں۔ 1987ئ، 1993ء اور پھر 1999ء میں صاف شفاف غیر جانبدار ریفرنڈم کے نتیجے میں مصری عوام نے حسنی مبارک کو صدر منتخب کیا۔ اب اگر مقابلے میں کوئی کھڑا نہیں ہوتا تھا تو اس میں حسنی مبارک کا کوئی قصور نہیں تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ مصری آئین ایک امیدوار کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو صدارتی انتخابات میں کھڑا ہونے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ دشمنوں ...