اشاعتیں

جولائی, 2010 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

کون ہے یہ گستاخ ٫ تاخ تراخ

برطانیہ کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کی سربراہ سعیدہ وارثی پاکستان تشریف لائیں تو بہت سی نئی باتوں کا علم ہوا۔ مثلا یہ کہ ہمارے ہاں شہریوں کو حقوق دینے کا ایک خاص طریق کار ہے اور حکومت اس طریق کار کی پابند ہے۔ وفاقی وزیر نے سعیدہ وارثی کی آمد کے موقع پر انکے گائوں کیلئے گیس کی فراہمی کا اعلان کیا۔ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ اگر کسی گائوں کو گیس چاہیے تو لازم ہے کہ اس سے تعلق رکھنے والی کوئی شخصیت کسی مغربی ملک میں کسی سیاسی جماعت کی سربراہ ہو اور پھر وہاں سے آ کر اپنے گائوں میں اجتماع سے خطاب کرے۔ یہ حکومت کا طریق کار ہے۔ چنانچہ جس جس گائوں کو گیس درکار ہے، وہ یہ طریق کار اپنائے۔ کسی اور کو اس سے تسکین خاطر حاصل ہوئی ہے یا نہیں، مجھے بہرحال اطمینان قلب نصیب ہوا ہے۔ وہ یوں کہ اس کالم نگار کے گائوں کیلئے ڈسپنسری منظور کی جا چکی ہے۔ ضلع کے موجودہ حاکم نے دو ملین روپے کا بجٹ بھی حکومت پنجاب سے مانگا ہے۔ گائوں کے لوگوں نے چیف منسٹر اور چیف سیکرٹری کو اپیلیں بھی کی ہیں۔ اخبارات میں بھی آہ وزاری کی ہے لیکن تاحال شنوائی نہیں ہوئی۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شہباز شریف اس کالم نگار سے ناراض ہوں اور بدل...

نہ بھائی! ہماری تو قدرت نہیں

اگر ہتھیلی پر بال اگ سکتے ہیں اور سوئی کے سوراخ سے اونٹ گذر سکتا ہے تو پھر یہ کہنا بھی درست ہے کہ پاکستان کے چار فوجی آمروں کی پشت پر صرف جرنیل، جج اور پریس تھے اور اگر یہ درست ہے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ سعدی نے غلط کہا تھا…؎ گر نہ بیند بروز شپرہ  چشم چشمۂ آفتاب را چہ گناہ یعنی اگر چمگادڑ دن کے وقت نہیں دیکھ سکتی تو اس میں سورج کا کیا قصور ہے؟ یہ 2004ء کی جنوری تھی‘ حج کے ایام تھے۔میں حرم کے ایک گوشے میں بیٹھا تھا۔ پاس ایک خان صاحب تشریف فرما تھے۔ مجھ سے باتیں کرنے لگے۔ میں نے پوچھا کہاں سے ہیں؟ ہنس کر کہنے لگے آدھا راولپنڈی کا ہوں اور آدھا خوست کا کیونکہ تعلق خوست سے ہے اور جائیداد پنڈی میں ہے۔ مجھے شرارت سوجھی، پوچھا خان صاحب! خدانخواستہ اگر ایسا وقت آیا کہ آپکی وفاداری کو افغانستان اور پاکستان میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو آپ کس کو چنیں گے؟ خان صاحب نے اللہ کے گھر کی طرف دیکھا اور ایک عجیب یقین کے ساتھ کہا کہ ایسا وقت کبھی نہیں آئیگا۔ میں نے انشاء اللہ کہا اور مجھے ان پڑھ افغان کی پاکستان سے محبت پر یقین آ گیا۔ یہ واقعہ پانچ سال کے بعدمجھے آج مسلسل یاد آ رہا ہے او...

نہ بھائی ہماری تو قدرت نہیں

اگر ہتھیلی پر بال اگ سکتے ہیں اور سوئی کے سوراخ سے اونٹ گذر سکتا ہے تو پھر یہ کہنا بھی درست ہے کہ پاکستان کے چار فوجی آمروں کی پشت پر صرف جرنیل، جج اور پریس تھے اور اگر یہ درست ہے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ سعدی نے غلط کہا تھا…؎ گر نہ بیند بروز شپر چشم چشمۂ آفتاب را چہ گناہ یعنی اگر چمگادڑ دن کے وقت نہیں دیکھ سکتی تو اس میں سورج کا کیا قصور ہے؟ یہ 2004ء کی جنوری تھی‘ حج کے ایام تھے۔میں حرم کے ایک گوشے میں بیٹھا تھا۔ پاس ایک خان صاحب تشریف فرما تھے۔ مجھ سے باتیں کرنے لگے۔ میں نے پوچھا کہاں سے ہیں؟ ہنس کر کہنے لگے آدھا راولپنڈی کا ہوں اور آدھا خوست کا کیونکہ تعلق خوست سے ہے اور جائیداد پنڈی میں ہے۔ مجھے شرارت سوجھی، پوچھا خان صاحب! خدانخواستہ اگر ایسا وقت آیا کہ آپکی وفاداری کو افغانستان اور پاکستان میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو آپ کس کو چنیں گے؟ خان صاحب نے اللہ کے گھر کی طرف دیکھا اور ایک عجیب یقین کے ساتھ کہا کہ ایسا وقت کبھی نہیں آئیگا۔ میں نے انشاء اللہ کہا اور مجھے ان پڑھ افغان کی پاکستان سے محبت پر یقین آ گیا۔ یہ واقعہ پانچ سال کے بعدمجھے آج مسلسل یاد آ رہا ہ...

کشف المحجوب

میں بھاگتا پھر رہا ہوں اور مجھ سے کوئی نہیں پوچھتا کہ کیا ہوا ہے؟ اس لئے کہ ہر کوئی بھاگتا پھر رہا ہے۔ میں انارکلی کی طرف دوڑتا ہوں کہ سعود عثمانی کا وہاں دفتر ہے لیکن ایک ہنگامہ ہے اور راستہ نہیں ملتا۔ ٹولنٹن مارکیٹ کے سامنے سے ہو کر میں یونیورسٹی میں داخل ہو جاتا ہوں، میرا رُخ اورینٹل کالج کی سمت ہے۔ فارسی کے شعبے میں معین نظامی کا کمرہ مجھے پناہ گاہ لگتا ہے، لیکن یہاں تو سب کمرے بند ہیں۔ اب میں نابھا روڈ کی طرف چل پڑتا ہوں، جمیل بھٹی ان دنوں اکاؤنٹنٹ جنرل لگا ہوا ہے اسکے پاس بیٹھوں گا لیکن قدم اٹھ ہی نہیں رہے۔ اس لئے کہ میرے اندر بھی عذر برپا ہے پھر ایک زوردار دھماکہ ہوتا ہے کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی یہ دھماکہ میرے اندر ہوا ہے۔ باہر بھی خون ہے، گوشت کے لوتھڑے ہیں، دست و بازو ہوا میں اُڑ رہے ہیں، سب دوڑ رہے ہیں سب چیخ رہے ہیں۔ میرے اندر بھی خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں، گوشت کے ٹکڑے اُڑ رہے ہیں، ہاتھ اور بازو کٹ کٹ کر گر رہے ہیں جسم ہوا میں اُچھل رہے ہیں۔ میرے اندر بھی چیخیں ہیں، بھاگنے کی آوازیں ہیں۔میں جس کے پاس بھی جاتا ہوں، میری بات کوئی نہیں سنتا۔ میں پیاسا ہوں لیکن مجھے دو...

دوست نوازی اور قطب جنوبی

میں ٹاک شوز سے بیزار ہوگیا تھا! رات دن کے کسی حصے میں کوئی چینل بھی لگاتا تو ایک ہی منظر ہوتا۔ تین ’’عقل مند‘‘ ایک طرف بیٹھے ہوتے اور ایک ’’حد سے زیادہ عقل مند‘‘ دوسری طرف بیٹھا اُن تینوں کو آپس میں لڑا رہا ہوتا۔ ایک دن جہاز میں بیٹھا اور اس دور افتادہ جزیرے میں منتقل ہوگیا ، یہاں سے آگے کچھ نہیں۔ جنوب میں قطب جنوبی ہے۔ مشرق میں بحرالکاہل اور بحرالکاہل میں ایک اور جزیرہ نیوزی لینڈ۔ جس دن بیوی ڈش لگوا رہی تھی، میرا ماتھا ٹھنکا، ڈش سے تو یہ پاکستانی چینل دیکھے گی تو کیا یہاں بھی ٹاک شو …؟ وہ تو خدا کا شکرہے کہ وہ ڈرامے دیکھتی ہے‘ حالانکہ ہر ڈرامے میں ایک ہی کہانی ہے معاشقہ، شادی اور طلاق‘ جس طرح ہمارے مزاحیہ ’’شاعر‘‘ پڑوسن سے آگے جانے کو تیار نہیں، اسی طرح ہمارے ڈرامہ نگار عورت اور شادی کے سوا کسی موضوع پر نہیں لکھ سکتے۔  جملہ معترضہ طویل ہوگیا۔ بہرطور ٹاک شوز سے نجات ملی۔ خوبصورت جزیرے میں چین سے گزر رہی تھی لیکن …؎ ٹوٹے گی کوئی تازہ بلا جانِ نہاں پر لَو شمعِ حوادث کی ہے تھرائی ہوئی سی لو تھرائی اور تازہ بلا ٹوٹ کرگری۔ میں جزیرے میں چھپتا پھر رہا ہوں۔ کبھی اس شہر میں، کبھی ا...