اشاعتیں

جون, 2010 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

جیالوں کا خون

رہائش کیلئے مناسب ترین شہروں میں تیسرے نمبر پر آنیوالے شہر میلبورن میں اور پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ایک خوبصورت مشابہت پائی جاتی ہے‘ اسلام آباد کے شمال میں مارگلہ پہاڑیوں کا دلفریب سلسلہ ہے‘ ان پہاڑیوں پر جنگلات ہیں‘ دامنِ کوہ سے ہوتی ہوئی ایک سڑک بلندی تک گئی ہے‘ جہاں ایک یا دو ریستوران ہیں‘ دامنِ کوہ کے نیچے چڑیا گھر ہے‘ پہلے تو تعطیل کے دن پاکستانی صرف دامنِ کوہ تک جاتے تھے لیکن جب سے تنورِ شکم بھرنے کا سامان چوٹی پر ہوا ہے‘ ’’سیاحوں‘‘ کے قافلے چوٹی تک جاتے ہیں۔ جب یہ ریستوران نہیں تھے‘ غیرملکی تب بھی ان پہاڑوں پر جاتے تھے‘ مرد بھی اور عورتیں بھی‘ مہم جوئی بھی کرتے تھے‘ وزرش بھی اور تفریح بھی‘ دامنِ کوہ اور پہاڑ کی چوٹی کے ایک طرف پرانا گائوں سیدپور ہے۔  آسٹریلیا کے دوسرے بڑے شہر میلبورن کے مشرق میں بھی اسی طرح کا پہاڑی سلسلہ ہے‘ جو جنگلات سے اٹا ہوا ہے‘ اس سلسلے کو ’’ڈینڈی نانگ‘‘ کہا جاتا ہے‘ دامنِ کوہ کی طرح یہاں بھی اونچائی پر کھڑے ہو کر سیاح شہر کا نظارہ کرتے ہیں۔ سیدپور کی طرح یہاں بھی پہاڑوں کے دامن میں ایک گائوں ہے جس کا نام ’’سسا فراز‘‘ ہے لیکن میلبورن اور اس...

مناظر

پہلا منظر: … ایک بڑے ہال میں بہت سے نوجوان مرد اور عورتیں جمع ہیں سب شائستہ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔انکے ہاتھوں میں ڈگریاں اور قلم ہیں۔ انکی آنکھوں میں چمک ہے۔ انکے چہروں پر فطانت ہے انکے ماتھے روشن ہیں لیکن انکے لباس معمولی ہیں۔ ان نوجوان مردوں اور عورتوں کے ساتھ کوئی نہیں‘ سب اپنے اپنے گھر سے اکیلے آئے ہیں۔ اچانک ایک طرف سے پردہ سرکنے لگتا ہے۔ایک بڑا سٹیج نظر آتا ہے جس پر دبیز خوبصورت قالین بچھے ہیں۔ زرنگار کرسیاں لگی ہیں۔ان پر کم خواب کی گدیاںہیں ۔کرسیوں پر جو نوجوان عورتیں اور مرد فروکش ہیں وہ بیش بہا لباس پہنے ہوئے ہیں۔ہر نوجوان کی پشت پر ایک ایم این اے یا سینیٹر کھڑا ہے۔ایک خاتون مائک پر آتی ہے اور ہال میں موجود لوگوں سے خطاب کرتی ہے کہ جس کا کوئی قریبی عزیز منتخب نمائندہ یا منصب دار ہے ،وہ سٹیج پر آجائے۔ سب ایک دوسرے کا منہ دیکھتے ہیں ۔کوئی بھی سٹیج پر نہیں آتا۔ مائک پر دوبارہ اعلان ہوتا ہے۔سٹیج پر بیٹھے ہوئے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو بیرون ملک سفارت خانوں میں کمرشل قونصلر تعیناتی کے کاغذات دئیے جاتے ہیں۔ دوسرا منظر:… یہ جون2009ء ہے۔ پنجاب پبلک سروس کمیشن اخبارات میں ...

ماں بھکارن اور بیٹا گھوڑوں کا خریدار

بخت سیاہ ہو تو کچھ کام نہیں آتا۔ تعلیم نہ دولت۔ ہم پاکستانی ساری زندگیاں ترقی یافتہ ملکوں کے ان معاشروں میں گزار دیتے ہیں جو نظم و ضبط، سچائی اور دیانت سے عبارت ہیں لیکن اپنا دامن بچا کر رکھتے ہیں۔ سچائی اور دیانت کو قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتے۔ اس لئے کے بخت سیاہ ہو تو کچھ کام نہیں آتا۔ تعلیم نہ دولت۔ گرین کارڈ نہ کینیڈا کی شہریت! فرض کریں میں آپ سے کہتا ہوں کہ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے یا کراچی کے تاجروں کی انجمن نے پلاسٹک کے وزیراعظم شوکت عزیز کو اپنی سالانہ تقریب میں مہمان خصوصی کے طور پر بلایا تو کیا آپ یقین کر لیں گے؟ کبھی نہیں۔ کوئی غیرت مند پاکستانی، یا پاکستانیوں کی کوئی انجمن، بقائمی ہوش و حواس، پلاسٹک کے وزیراعظم شوکت عزیز کو بلانے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ یہ کام جن مرد کے بچوں نے کیا ہے وہ ہمارے تارکین وطن بھائی ہیں۔ کینیڈا پاکستان بزنس کونسل نے اپنی سالانہ تقریب میں شوکت عزیز کو مہمان خصوصی کا اعزاز دیا ۔ یہ شوکت عزیز وہی ہیں جو آٹھ سال تک اس ملک پر مسلط رہے‘ پہلے وزیر خزانہ کے طور پر اور بعد میں وزیراعظم کی صورت میں، وہی شوکت عزیز جنہوں نے لال مسجد ایکشن کی آخ...

نئی سازش کا خطرہ

اُس زمانے میں دہشت گرد تھے نہ اغواء کرنے والے۔ دیہات اس قدر محفوظ تھے کہ گھروں کے دروازے نہیں ہوتے تھے۔ جن حویلیوں میں مال مویشی باندھے جاتے تھے انکے بھی گیٹ نہیں رکھے جاتے تھے۔ گھروں میں داخل ہونے کے ان کْھلے راستوں کو مغربی پنجاب میں ’’درُنڈے‘‘ کہا جاتا تھا لیکن وہ زمانہ یوں ہوا کہ جیسے کبھی تھا ہی نہیں، اب تو دیواروں کے اوپر بھی خاردار تاروں کے جنگل اْگے ہیں۔مجھے میلبورن میں آئے پندرہ دن ہو چکے ہیں۔ آسٹریلیا کے اس دوسرے بڑے شہر میں اکثریت ایسے گھروں کی ہے جن کے گیٹ یا صدر دروازے نہیں ہیں۔ بس ’’درْنڈے‘‘ ہیں۔ اندر کاریں کھڑی نظر آ رہی ہیں۔ بہت سے گھر تو چار دیواری سے بھی بے نیاز ہیں۔ عالمی تحقیقی ادارے ہر سال ایک فہرست جاری کرتے ہیں کہ دنیا میں رہنے کیلئے بہترین شہر کون کون سے ہیں۔ گذشتہ کئی برس سے کینیڈا کا شہر وین کوور اور آسٹریلیا کا شہر میلبورن اس میں سرفہرست آ رہے ہیں اس سال آسٹریا کا شہر ویانا بھی ٹاپ پر آیا ہے۔ محفوظ ترین شہروں میں دبئی کا نام بھی آتا ہے۔ استنبول جدہ اور مدینہ منورہ بھی پہلے چالیس پچاس بہترین شہروں میں شمار ہوتے ہیں۔ اس فہرست کی تیاری میں بہت سے عوامل ...

حکایت اور اس سے نکلنے والے نکتے

بچوں کی عام سی لڑائی تھی لیکن زمیندار آخر زمیندار تھا۔ یہ شجاع آباد کے نواح کا واقعہ ہے۔ زمیندار نے سات سالہ بچی اور تین سالہ بچے پر خونخوار کتا چھوڑ دیا۔ ہسپتال میں دوائیں نہیں تھیں۔ جراثیم نے اپنا کام کر ڈالا۔ دونوں بچوں نے پہلے ایک دوسرے کو اور پھر والدین کو کاٹنا شروع کر دیا۔ ڈاکٹروں نے بچوں کے والد کو ویکسین لانے کیلئے کہا۔ ویکسین ملتان میں مل سکتی تھی۔ والد کے پاس کرایہ ہی نہیں تھا انصاف کیلئے وہ تھانے گیا تو مقدمہ درج کرنے سے انکار کر دیا گیا۔ فارسی کے کلاسیکی شعرا کا قاعدہ تھا کہ اخلاقیات اور تصوف کے موضوع پر لکھتے تو اپنا مافی الضمیر واضح کرنے کیلئے حکایت بیان کرتے پھر حکایت سے نتیجے نکالتے جاتے اور نتیجوں کی روشنی میں موضوع کے ایک ایک پہلو کو تفصیل سے بیان کرتے‘ پردے گرتے جاتے‘ حجابات اُٹھتے  جاتے اور پڑھنے والے کے دل میں اٹھتے ہوئے سوالات اپنے جواب پا لیتے۔ اس ملک کے مسائل‘ یوں لگتا ہے اتنے ہی مشکل ہو گئے ہیں۔ جتنے فلسفے اور اخلاقیات کے موضوع ہیں۔ یہ حکایت جو ہم نے اوپر بیان کی ہے اور جو پانچ دن پہلے کا واقعہ ہے‘ اپنے اندر بہت سے نکتے لئے ہوئے ہے۔ پہلا نکتہ کاٹنے ک...