اشاعتیں

اپریل, 2010 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

زمین کا بوجھ

اٹھارویں ترمیم کی رو سے سیاسی پارٹیوں کے اندر انتخابات کرانے کی شق ختم کر دی گئی ہے۔ اب سیاسی پارٹیاں ہمیشہ کیلئے چند مخصوص خاندانوں کی جاگیریں بن کر رہ گئی ہیں۔ ہر سیاسی پارٹی میں جو ایک ’’پڑھے لکھے دانشور قسم کے کارکن ہیں جیسے مشاہد حسین، احسن اقبال، اعتزاز احسن وہ اِن مالک خاندانوں کا پڑھائی لکھائی کا کام کرتے رہیں گے۔ لیکن یہ وہ مسئلہ نہیں جو اِس وقت ملک اور قوم کو درپیش ہے۔ پنجاب میں ان دنوں جاگیرداری کے حوالے سے بہت باتیں ہو رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا فیوڈل سسٹم صرف نعروں سے ختم ہو گا یا اس مقصد کیلئے ٹھوس ہوم ورک کی ضرورت ہے؟ کیا وہ سیاسی جماعتیں جو ایک طویل عرصہ سے سندھ اور مرکز کی سطح پر ہر حکومت کا حصہ رہی ہیں۔ آج تک زرعی اصلاحات کیلئے کچھ کام کر سکی ہیں؟ کیا سندھ اسمبلی میں یا قومی اسمبلی میں اس سلسلے میں کوئی بِل پیش کیا گیا ہے؟ اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہماری سیاسی جماعتوں کے پاس تھنک ٹینک ہیں؟ اور کیا اپوزیشن کے پاس SHADOW- CABINET ہے؟ لیکن آپ اس سارے جھنجٹ میں نہ پڑیں۔ قوم کو جو مسئلہ اس وقت درپیش ہے، وہ اور ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں بیک وقت کئی ...

مظلوم اقبال

چوک پر لوگوں کا ہجوم تھا۔ ایک آدمی اونچی جگہ پر کھڑا ان سے مخاطب تھا۔ انوریؔ سننے کے لئے نزدیک ہو گیا۔ وہ شخص انوریؔ ہی کے شعر سنا رہا تھا اور لوگ داد و تحسین کے ڈونگرے برسا رہے تھے۔ سنانے والا دم لینے کیلئے رکا تو انوری نے چیخ کر کہا…’’ یہ تو انوری کے اشعار ہیں! اس آدمی نے اثبات میں سر ہلایا…‘‘ہاں یہ انوری ہی کے اشعار ہیں۔ ’’تو تم کیوں سنا رہے ہو؟‘‘ ’’میں انوری ہی تو ہوں‘‘ اس موقع پر انوری نے اپنا وہ فقرہ کہا جو آج تک مشہور ہے کہ ’’شعر تو چوری ہوتے سنے تھے۔ شاعر چوری ہوتے نہیں دیکھا تھا۔ وسط ایشیائی مسلمانوں کے ساتھ ہونیوالے المیے کا ذکر کرتے وقت ہم آخر اس بات پر افسوس کرتے ہیں کہ رسم الخط بدل کر انہیں اپنے ماضی سے کاٹ دیا گیا لیکن ہم شاید یہ کبھی نہیں سوچتے کہ ہماری تو پوری کی پوری زبان ہی بدل دی گئی! جیسے صرف شعر نہیں، شاعر بھی چوری ہوگیا۔ ہر سال یوم اقبال آتا ہے تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ٹیلی ویژن چینلوں پر اقبال کے اشعار گائے جاتے ہیں اقبال کے نام پر بننے والے اداروں کے وہ سربراہ جو اپنے نام نہاد عملی تصوف اور کھوکھلے علم کی تشہیر کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ...

بسم اللہ

فرض کریں میاں محمد شہبازشریف یا امیر حیدر ہوتی یا سید قائم علی شاہ نے اپنی فیکٹری چلانی ہے اور اس کیلئے وہ ایک لائق فائق منیجر تعینات کرتے ہیں۔ منیجر اپنے فرائض کے بارے میں پوچھتا ہے اور اسے اس کا کام سمجھایا جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ سہولیات کے متعلق استفسار کرتا ہے۔ اسے بتایا جاتا ہے کہ اسے ایک گھر اور ایک گاڑی مہیا کی جائیگی۔ اب وہ منیجر کتنا ہی لائق کیوں نہ ہو، اسے ایک کے بجائے دو یا تین یا چار گھر رکھنے کی اجازت کبھی نہیں دی جائے گی۔ نہ ہی اسے کئی گاڑیاں رکھنے دی جائیں گی۔ وجہ ظاہر ہے۔ فیکٹری کے قانون میں یہی لکھا ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر منیجر کو کھلی چھٹی دے دی گئی تو اس کے ماتحت بھی اسی رویے کی توقع کریں گے اور توقع نہ پوری ہوئی تو بددلی پھیلے گی۔ کارکردگی متاثر ہوگی اور فیکٹری کی پیداوار کم ہو جائے گی۔ یہ نجی شعبے کا عمومی رویہ ہے۔ یہ فرد کا رویہ بھی ہے۔ میاں شہبازشریف یا سید قائم علی شاہ فرد کی حیثیت میں، غیر سرکاری حیثیت میں، اپنے ذاتی نجی کاروبار کے ضمن میں جو فیصلہ بھی کریں گے، نپا تُلا اور جچا ہوا ہوگا۔ کسی کو اس کے حق سے زیادہ دیں گے نہ کم۔ مہذب ملکوں میں اس اصول کا فرد سے آگے ب...

تنی ہوئی رسی اور اس پر چلنے والے

’’چھوٹے سے گھر میں چار باورچی خانے؟‘‘ ان پڑھ دکاندار نے ان پڑھ بیوی سے پوچھا ’’ہاں! چھوٹے سے گھر میں چار باورچی خانے!! میں ایک باورچی خانے میں سب بہوؤں کومقید کرکے انہیں مجبور نہیں کرنا چاہتی کہ انہیں اپنے لئے الگ الگ مکان ڈھونڈنے پڑیں۔ میں پہلے دن ہی انہیں بتا دینا چاہتی ہوں کہ اس گھر میں یہ تمہارے کمرے ہیں اور یہ تمہارا باورچی خانہ جی چاہے تو گوشت پکاؤ اور جی چاہے تو چٹنی کیساتھ کھاؤ۔ خوش رہو یا جھگڑے کرو‘ تمہیں کوئی روک ٹوک نہیں! ان پڑھ شوہر کو ان پڑھ بیوی کی بات سمجھ آگئی لیکن ہمارے سیاستدانوں اور پالیسی سازوں کویہ نکتہ ماضی میں سمجھ آیا نہ اب آرہا ہے! پہلے انہوں نے ون یونٹ کا بت تراشا اور عددی اکثریت رکھنے والے بنگالیوں کو مصنوعی برابری کے مکروہ جال میں پھانسا‘ پھر فوج کوان پر مسلط کرکے عساکر پاکستان کو بدنام کیا اور اب ایک طرف پشتو بولنے والوں کو پریشان کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف ہزارہ میں قتل وغارت کا کھیل کھیلا جا رہا ہے! مشہور امریکی مورخ باربرا ٹک مین نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف MARCH-OF- FOLLIES میں یہی تو کہا ہے کہ حکومتیں عقل و دانش کی بنیاد پر فیصلے نہیں کرتیں۔ لیکن فرد ا...

ڈاکٹر چلا گیا

اٹھارھویں ترمیم سے اور تو کچھ ہوا یا نہیں، ڈاکٹر چلا گیا! ڈاکٹر گیارہ سال پہلے وطن واپس آیا تھا۔ اس کے پاس امریکہ کی بلند ترین ڈگریاں تھیں اور بہت بھاری تنخواہ چھوڑ کر لوٹا تھا۔ اسے یورپ میں ایک بڑے طبی ادارے کی سربراہی کی پیشکش بھی کی گئی تھی لیکن اس نے خاندان کی مخالفت کے باوجود سب کچھ تج دیا اور مفلوک الحال پاکستانی مریضوں کی خدمت کے جذبے سے سرشار واپس آگیا۔ اسے دو طبّی اداروں نے مغرب میں اور ایک نے مشرق وسطیٰ میں کسی بھی وقت آجانے کا بلینک چیک دے دیا۔ پاکستان میں ان دنوں جمہوری حکومت تھی لیکن حالات حوصلہ فرسا تھے، ایک خاص شہر اور ایک خاص برادری مرکز میں چھائی ہوئی تھی۔ پھر مارشل لاء آگیا اورجنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھال لیا۔ یہ وہ ساعت تھی جب سیاست دانوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں۔ ڈاکٹر پرامید ہوگیا۔ جنرل مشرف کے پہلے تین سال نسبتاً بہتر تھے، لیکن ظفر اللہ جمالی وزیراعظم بنے تو انہوں نے فیڈرل پبلک سروس کمیشن سے گریڈ سولہ سے نیچے کی بھرتی کے اختیارات واپس لے لئے۔ ڈاکٹر پر مایوسی چھاگئی، جمالی صاحب ایک لحاظ سے واضح اعلان کر رہے تھے کہ سیاسی مداخلت کے بغیر بھرتیاں اہل سیاست کو نہیں ر...

کلی سے صبا تک

تمہیں جہاز پر بٹھا کر ائر پورٹ سے واپس گھر پہنچا تو میں بالکل نارمل تھا۔ نیند کی گولی تو میں نے بس یونہی کھا لی تھی۔ لاؤنج والے بڑے صوفے پر آنکھیں مُوندے دو دن تک بے سُدھ نہ جانے میں کیوں پڑا رہا۔ رات کو لاؤنج کا وہ حصہ جس میں تمہارا لیپ ٹاپ اور اس سے ملحق تاروں کے گچھے بکھرے رہتے تھے‘ خالی لگ رہا تھا لیکن بار بار آنکھوں سے جو آنسو نکل آتے تھے جنہیں میں کبھی قمیض کے دامن سے اور کبھی قیمض کے کف سے پونچھتا تھا‘ اُن کا تمہارے جانے سے تو کوئی تعلق نہیں تھا! تمہارے جانے پر رونے کا یوں بھی کوئی جواز نہیں تھا۔ تمہارے بھائی نے بلایا تو میں نے خود ہی اجازت دی تھی جسکے بعد تم نے یونیورسٹی میں درخواست دی اور تمہیں داخلہ مل گیا۔ گویا دوسرے ملک میں بھی تم میرے ہی گھر میں ہو۔ تمہاری بڑی بہن کی رخصتی پر میں ایک ماہ بستر سے لگا رہا تو اس کا تو جواز تھا کہ وہ بابل کا گھر چھوڑ کر پیا کے گھر سدھار گئی تھی مگر تم تو بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے گئی ہو! لیکن میں اس کا کیا کروں کہ تمہارے جانے کے بعد گھر کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔ جسم سے لگتا ہے تب و تاب رخصت ہو گئی ہے۔ جہاں بیٹھ جاؤں‘ وہیں بیٹھا رہتا ہوں‘ جہاں لیٹ...

آندھی کے مقابل

خیبر پختونخواہ کے نام پر پاکستانی بھنگڑے ڈال رہے ہیں۔ کچھ نے سرخ ٹوپیاں پہن رکھی ہیں۔ ایک بھی پاکستانی خوش ہو تو دیکھنے والے کے دل کی کلی کھل اٹھتی ہے اور یہاں تو بہت سے پاکستانی مسرت سے ہم کنار ہو رہے ہیں۔ کیا ہی مبارک موقع ہے اور کیا ہی دلکش منظر ہے۔ دل کی گہرائیوں سے دعا اٹھتی ہے کہ پاکستان کا ہر فرد خوش ہو،مطمئن ہو اور آسودہ حال ہو اور بقول احمد ندیم قاسمی، کسی پاکستانی کیلئے بھی …ع حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو خوشی کی مزید خبریں تلاش کرنے کیلئے میں صبح صبح اخبار دیکھتا ہوں، ناگاہ دل ڈوب سا جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے ایک دھڑکن درمیان سے غائب ہوگئی ہے۔ شاید چکر آیا ہے۔ اخبارات کا پلندہ پورچ میں کھڑی گاڑی کے بونٹ پر رکھ دیتا ہوں اور حواس مجتمع کرنے کیلئے زمین پر بیٹھ جاتا ہوں۔ جو خبر میں نے پڑھی ہے، آپ بھی پڑھیے۔ ایبٹ آباد صوبے کا نام خیبر پختونخواہ رکھنے کیخلاف اور صوبہ ہزارہ کے حق میں ایبٹ آباد میں مظاہرے تیسرے روز بھی جاری رہے۔ فوارہ چوک پر مظاہرین نے ٹائر جلا کر شاہراہ ریشم بند رکھی اور دھرنا دیا۔ اس موقع پر مقررین نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم خیبر پختونخواہ کو مسترد کرتے ہیں اور ح...

جتھے

جَتھّے ہیں جو ایک دوسرے سے لڑرہے ہیں اور قبیلہ وار لڑ رہے ہیں۔ جیسے یہ ملک نہیں، چراگاہ ہے جس میں خانہ بدوشوں کے کئی گروہ باہم برسرپیکار ہیں۔ خانہ بدوش جن کے خیمے خچروں پر لدے ہیں اور وہ اس وقت خیمے گاڑ کر سکون سے بیٹھیں گے جب دوسرا گروہ غارت ہو جائیگا! جنگ و جدل کرنے والے یہ جتھّے ان پڑھ چرواہوں پر مشتمل نہیں۔ نہ ہی یہ تاتاری ہیں نہ قازق۔ درد کا معاملہ یہ ہے کہ کوئی جتھّہ ڈاکٹروں کا ہے، کوئی وکیلوں کا ،کوئی قانون ساز عوامی نمائندوں کا اور کوئی ان کا جو بظاہر اسلام کا پھریرا لہرا رہے ہیں۔ عبرت کا مقام ہے۔ آنکھیں رکھنے والو عبرت پکڑو… خدا کیلئے عبرت حاصل کرو، وقت بہت کم ہے۔ ہر وہ سرزمین جہاں جتھّے آپس میں دست و گریبان ہوں، اپنی شناخت کھو بیٹھتی ہے۔ میرا صاحبِ اسلوب کالم نگار دوست کہتا ہے کہ یہ سرزمین رمضان کی ستائیسویں کو وجود میں آئی تھی، اسے کچھ نہیں ہوسکتا! افسوس! ہم شام کا تارا چمکتا دیکھ کر بھی اصرار کرتے ہیں کہ یہ صبح ہے! اللہ کی سنت کبھی نہیں بدلتی۔ کیا مدینہ کی ریاست سے زیادہ مقدس ریاست کوئی ہوسکتی ہے؟ کیا میسور کی سلطنت خداداد نہیں تھی؟ لیکن اللہ کی سنت تبدیل نہ ہوئی۔ کائنات...