اشاعتیں

مارچ, 2010 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

ہے کوئی وزیراعظم کو بتانے والا؟

ہے کوئی وزیر اعظم کو بتانے والا کہ بھارہ کہو تو پانی میں چھپے ہوئے مہیب برفانی تودے کا صرف نظر آنے والا چھوٹا سا حصہ ہے! …ہے کوئی وزیر اعظم کو بتانے والا کہ خلقِ خدا سے بے نیاز وزراء اور پست بلکہ غایت پست افسر شاہی (جس میں افسری ہے نہ شاہی) وزیر اعظم کی حکومت کے در پے ہے! بڑھتے ہوئے ظالمانہ کرائے تو اسلام آباد کی ساری بستیوں کو خون رُلوا رہے تھے پھر صرف بھارہ کہو کے مظلوم کیوں شاہراہوں پر نکلے؟ اور صرف بھارہ کہو کے لوگوں نے سینوں پر دو ہتھڑ کیوں مارے اور بال کھول کر ماتم کیوں کیا؟ یہ ہزاروں ملین ڈالر کا سوال ہے! خلقِ خدا سے بے نیاز وزراء اور پست افسر شاہی کو تو اس سوال سے یوں بھی کوئی دلچسپی نہیں کہ وہ تو اگلی حکومت میں بھی وزیر ہو جائینگے اور افسری کرینگے لیکن ہنسنے اور رونے کی بات یہ ہے کہ بیسیوں ٹیلی ویژن چینلز پر بزرجمہرانہ باتیں کرنیوالے لاتعداد ’’دانشوروں‘ مفکروں‘ تجزیہ کاروں‘‘ اور ’’اینکر پرسنز‘‘ میں سے کسی نے بھی سوچا نہ بتایا کہ آخر بھارہ کہو ہی نے ماتم کی ابتدا کیوں کی؟ آخر ترنول‘ ٹیکسلا‘ روات‘ ہڈیالہ اور گولڑھ شریف بھی تو نواحی بستیاں ہیں! اس لئے کہ بھارہ کہو وہ واحد آبادی...

تار تار لباس والا شخص اور اْس کا ساتھی

محل تھا اور سلگتا عود تھا اور جھاڑ فانوس تھے۔ ہر پائیں باغ میں عیش و طرب کی محفل برپا تھی۔ ہر دیوان میں دیوانِ عام تھا یا خاص، رقص و سرور تھا اور ہر خواب گاہ سے نقرئی قہقہے چھن چھن کر باہر آ رہے تھے۔ گراں بہا قالینیں تھیں، چاندی کے ظروف تھے۔ بلّور کی صراحیاں تھیں، مور چھل تھے اور کنیزیں، تلواریں تھیں اور چوبدار، محل جنت سے کم نہ تھا! تالی بجانے سے خدّام ظاہر ہوتے تھے جن کے ہاتھوں میں خوان تھے۔ دنیا میں اس سے بہتر انتظام ناممکن تھا!۔ میں غلام گردش سے ہوتا ہوا شیش محل میں داخل ہونے لگا تھا جب میں نے اسے دیکھا۔ اسکے کپڑے تار تار تھے۔ پیروں میں ٹوٹے ہوئے پاپوش تھے۔ کاندھوں پر دریدہ شال تھی۔ سر پر چیتھڑوں جیسی ٹوپی تھی۔ ایک ہاتھ میں کشکول تھا۔ دوسرا ہاتھ زخمی تھا۔ جس سے خون رس رہا تھا! بازوؤں پر پٹیاں بندھی تھیں۔ ضْعف اسکے ایک ایک انگ سے ظاہر تھا۔ پیاس سے ہونٹ سوکھ رہے تھے۔ گال زرد تھے اور پچک گئے تھے‘ میں نے اسے دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا! ’’ تم نے کیا حال بنا رکھا ہے اپنا؟ کب تک ر ہو گے اس حالت میں؟  میں نے پوچھا  جواب میں وہ مسکرایا اور کہنے لگا۔  ’’جس حال میں بھی...

شہباز شریف اور سچ کا قتل

سب سے پہلا قتل جنگ میں سچ کا ہوتا ہے، جامعہ نعیمیہ میں تو جنگ بھی نہیں تھی لیکن افسوس! پھر بھی وہاں سچ کا قتل ہوا اور شہبازشریف کو اس سب کچھ کی وضاحت کرنا پڑی جو انہوں نے کہا ہی نہیں تھا یا کم از کم جو ان کا مطلب نہیں تھا! اس کالم نگار کی تحریریں گواہ ہیں کہ اسے شہباز شریف سے کوئی حسنِ ظن نہیں ہے۔ وہ پورے پنجاب کے حاکمِ اعلیٰ ہونے کے باوجود ذہنی طور پر لاہور سے باہر  نہیںنکل سکتے اس حقیقت کو کون جھٹلا سکتا ہے کہ لاہور پنجاب کا دل ہے لیکن کیا کبھی کوئی جسم صرف دل ہی پر مشتمل ہوا؟ دل کا تو بھرم ہی اس وقت تک قائم ہے جب تک پورا جسم اور جسم کا ایک ایک حصہ اور ایک ایک رگ اور ایک ایک شریان اور ایک ایک مسام دل کا ساتھ دے رہا ہے! پنجاب کے ایک غریب دورافتادہ بستی کے رہنے والوں کی فریاد خادمِ اعلیٰ تک پہنچائی گئی تھی جو زمین پنجاب حکومت کے نام پر کرنے کے باوجود پانچ سالوں سے ڈسپنسری کا انتظار کر رہے ہیں اور اب تو ڈی سی او نے اس کیلئے وزیراعلیٰ سے دو ملین روپے مانگ بھی لئے ہیں۔ ہاں! اس کالم نگار کو خادمِ اعلیٰ سے کوئی حسنِ ظن نہیں ہے لیکن سچ سچ ہوتا ہے اور جب سچ قتل ہو رہا ہو تو نہ بولنا اپن...

ہوشیار! اعظم سواتی صاحب! ہوشیار

پارلیمنٹ میں سناٹا چھا گیا…’’میری دائیں جیب میں ایک کاغذ ہے۔ ایک کاغذ میری بائیں جیب میں بھی ہے، پارلیمنٹ کے ارکان دونوں میں سے جس کاغذ کو چاہیں منظور کر لیں۔ یہ الفاظ ڈاکٹر طہٰ حسین کے تھے، تین سال کی عمر میں بینائی سے محروم ہونے والا طہٰ حسین ایک غریب بچہ تھا لیکن اس نے فرانس سے ایک نہیں دو پی ایچ ڈی کی ڈگریاں لیں اور مصر میں مذہب کو اندھی مُلائیت کے شکنجے سے آزاد کرانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ وزیر تعلیم بنا اس کی دائیں جیب میں پرائمری تک مفت تعلیم کا بل تھا بائیں جیب میں استعفیٰ تھا۔ مصر کی پارلیمنٹ نے بل منظور کر لیا۔ ہر مصری بچہ پرائمری تک مفت تعلیم کا حق دار ہو گیا بعد میں یہ سہولت دسویں جماعت تک دے دی گئی۔ مصری آج تک طہٰ حسین کے احسان مند ہیں! تعلیم کے بارے میں ڈاکٹر طہٰ حسین کا یہ قول دنیا بھر میں مشہور ہے کہ ’’تعلیم اتنی ہی ضروری ہے جتنی سانس لینے کیلئے ہوا اور پینے کیلئے پانی‘‘ مجھے یہ واقعہ اعظم سواتی کی نوائے وقت سے خصوصی بات چیت پڑھ کر یاد آیا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر اعظم سواتی اس سے پہلے مانسہرہ ضلع کے منتخب شدہ ناظم تھے۔ ...

قانون اور دستار

مجھے درختوں سے نفرت ہے۔ مجھے ان پہاڑیوں سے نفرت ہے جن پر درخت اگتے ہیں اور کھڑے رہتے ہیں! مجھے یقین ہے کہ آپ اس سے اختلاف کریں گے اور درختوں کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیں گے۔ میں خود درختوں کی تعریف میں بہت کچھ لکھ سکتا ہوں۔ مثلاً یہ کہ درخت زیتون کے ہوں یا انجیر کے‘ شہتوت کے ہوں یا املتاس کے‘ میوہ دار ہوں یا بانجھ‘ میٹھا بور لئے ہوں یا نوکیلے کانٹے‘ اجڑے ہوئے صحن میں ہوں یا آباد پائیں باغ میں‘ وہ مقدس ہوتے ہیں۔ درخت پرندوں کے گھر ہوتے ہیں اور معصوم بچوں کے امانت دار درختوں سے بنی ہوئی لاٹھیوں سے اندھے راستہ ڈھونڈتے ہیں۔ درختوں کے تنوں میں پناہ لینے والے پیغمبروں نے شہادت پائی ہے۔ درختوں کے سائے تلے مرنے کی بیعت اور محبت کے قول و قرار ہوتے ہیں۔ درختوں کے پتے پانی میں ابال کر ماتم کرتے ہوئے لوگ اپنے پیاروں کی میتیں نہلاتے ہیں۔ درختوں کی چھال پر عاشق معشوقوں کے نام کھودتے ہیں اور درختوں کی شاخوں سے رسے باندھ کر آزادی کی جنگ لڑنے والوں کو پھانسیاں دی جاتی ہیں۔ میں تو جتنے راستوں پر چلا ہوں اور میں نے جتنے دریا عبور کئے ہیں اور میں جتنے پہاڑوں پر چڑھا ہوں اور میں نے جتنی مسرتیں...

مڈل کلاس‘ امید یا فریب ؟

پیپلز پارٹی کے وزیر جناب اعجاز جکھرانی کے اثاثے ڈیڑھ کروڑ روپے سے چھ کروڑ ہو گئے ہیں۔ سید خورشید شاہ کی دولت چوبیس ملین روپے سے بڑھ کر اکاون ملین ہو گئی ہے۔ جناب منظور وٹو کے اثاثے سوا سات کروڑ روپے تھے اور اب ساڑھے پندرہ کروڑ کا روپ دھار گئے ہیں۔ ایم کیو ایم کے ڈاکٹر اے کیو خانزادہ کے اثاثے ایک سال میں ساٹھ لاکھ سے بڑھ کر ایک کروڑ پچھتر لاکھ ہو گئے ہیں۔ محترمہ خوش بخت شجاعت کے احوال گزشتہ برس ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ تھے اس سال پہاڑ کی چوٹی ایک کروڑ اسّی لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ جناب بابر غوری کے اثاثے بیس کروڑ (دو سو ملین) کو چُھو رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ۔۔ اور بہت کچھ اور بھی ۔۔ منظر عام پر آ چکا ہے۔ اخبارات کے پہلے صفحوں پر تذکرے ہوئے ہیں اور الیکٹرانک میڈیا نے اس پر مختلف النوع پروگرام کئے ہیں لیکن ایم کیو ایم کے دو سیاست دانوں کے علاوہ کسی ایم این اے یا سینیٹرز نے ردِعمل کا اظہار نہیں کیا۔ اس سے بالائی طبقات کی رعونت مکمل طور پر ظاہر ہوتی ہے یعنی ’’جو کرنا ہے کر لیں‘‘ ۔۔ یا ’’ہمارا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے!‘‘ بابر غوری اور محترمہ خوش بخت شجاعت نے اثاثوں میں غیر معمولی اضافے کے جواز پر بات کی ہے۔...

اثاثے

’لیکن سر! یہ کس طرح ممکن ہے؟ میں اپنے سولہ لاکھ جوانوں اور افسروں کو بیک جنبشِ قلم کس طرح فارغ کر سکتا ہوں اوروہ کہاں جائیں گے؟‘‘ ’یہ مسئلے کا دوسرا پہلو ہے۔ اس کی طرف ہم بعد میںآئیں گے۔ پہلے اصولی طور پر ہم اصل مسئلہ طے کر لیں۔ بھارت کو فوج کی اور اتنی بڑی فوج کی۔ ضرورت نہیں!‘۔ ’سر!، آپ کیمبرج سے پی ایچ ڈی ہیں۔ آپ نے دنیا کی معروف یونیورسٹیوں میں پڑھایا بھی ہے، آپ وزیر خزانہ کے طور پر بھی کامیاب رہے ہیں، لیکن معاف کیجئے عسکری معاملات میں آپ کا علم ہے، نہ تجربہ، ہمیں پاکستان جیسے دشمن کا سامنا ہے۔ آپ کو پاکستان کی مسلح افواج کی شہرت کا علم ضرور ہوگا۔ یہ بہت خطرناک فوج ہے۔ پوری مسلم دنیا میں اسکے مقابلے کی فوج نہیں اور آپ کہہ رہے ہیں کہ بھارت کو فوج کی ضرورت نہیں!‘۔ پھر، آپکو یہ بھی معلوم ہے کہ پاکستان اب ایک ایٹمی طاقت ہے۔ یہ لوگ کچھ بھی کر سکتے ہیں ان کی آج بھی دلی لکھنو حیدرآباد اور پٹنہ پر نظرر ہے اور یہ ان تمام علاقوں کو اپنی میراث سمجھتے ہیں۔ جہاں مسلمانوں کی حکومت رہی ہے۔ سر! مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کی بات سے اتفاق نہیں کر سکتا۔ یہ درست ہے کہ آپ حکومت کے سربراہ ہیں آپ کا فیص...