اشاعتیں

فروری, 2010 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

Pakistan Civil Service : Concubine Of politicians

The bald headed gentleman, with grey sideburns and a face to which crinkles had started making inroads, was fuming. “Do I deserve all this? I have given prime period of my life to Public Service. I served for more than three decades honestly and selflessly. On my retirement, the government allots me a plot in the capital city on which I cannot raise a house during at least next ten years… or maybe more but who will survive by that time? And who cares?” “Your problem is genuine” I intervened. “You are not the only one facing this--- but then, what is the solution?” “Solution is simple” he says. “Hand over this task to Pakistan Army and I assure you that every civil servant will be able to start constructing his house on the next day of his retirement, if not earlier.” Burst out by this tormented retired public servant reminds one of readers’ letters which keep on appearing in national dailies impressing on the Government to assign the civil housing schemes to Defence. ...

صاحب کردار

پچاس ایکڑ پر بنی ہوئی کوٹھی کے گیٹ پر پولیس کا پہرا ہے۔ گیٹ سے اندر داخل ہوں تو وسیع و عریض لان پر مخمل جیسی گھاس بچھی ہے۔ اردگرد پھولوں بھری کیاریوں حاشیہ ہے۔ کیاریوں سے ہٹ کر‘ آسمان کو چھولینے والے درخت ہیں۔ فضا حکمرانی کی ہے۔ ایسی حکمرانی جس میں آسودگی کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ لان میں پندرہ بیس موٹے اور لمبے اشخاص کھڑے آپس میں گفتگو کر رہے ہیں۔ انہوں نے اچکنیں پہنی ہوئی ہیں اور کلف لگی سفید دستاریں سروں پر رکھی ہوئی ہیں۔ دستاروں پر طرے ہیں۔ سفید‘ اکڑے ہوئے طرے‘ یوں اوپر اٹھے ہوئے جیسے ابھی آسمان کی طرف اڈاری ماریں گے۔ انہیں کھڑے ہوئے تین چار گھنٹے ہو گئے ہیں۔ بیٹھنے کیلئے کرسیاں ندارد‘ اتنے میں اندر کا دروازہ کھلتا ہے۔ چوبدار باہر نکلتا ہے۔ اس نے بھی اچکن پہنی ہوئی ہے اور اتنا ہی اونچا طرہ پگڑی میں سے آسمان کی طرف نکالا ہوا ہے۔ یہ چوبدار لان میں کھڑے معززین کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے کہ صاحب نے آپ حضرات کی طرف سے عید مبارک قبول کر لی ہے۔ یہ سننا تھا کہ تمام افراد ایک دوسرے سے گلے ملنا شروع کر دیتے ہیں اور مبارک دینے لگتے ہیں یہ واقعہ اشوک کے زمانے کا ہے نہ خلجیوں کے عہد کا۔ یہ ایک سو سا...

گوشت کے مزید ٹکڑے

وینس کے تاجر انتونیو نے یہودی ساہوکار سے قرض لیا تھا، اس یہودی ساہوکار کا نام شائی لاک تھا۔ شائی لاک نے معاہدے میں یہ شق لکھوائی تھی کہ اگر رقم وقت پر واپس نہ کی گئی تو شائی لاک انتونیو کے جسم سے ایک پونڈ (تقریباً آدھا کلو) گوشت کاٹ لے گا اور جسم کے جس حصے سے بھی چائے گا کاٹ سکے گا! وینس کے تاجر کی یہ کہانی شیکسپیئر نے چار سو سال سے زیادہ عرصہ ہوا لکھی تھی۔ ان چار صدیوں میں یہ ضرب المثل بن گئی ۔ مظلوم کو انتونیو اور ظالم کو شائی لاک کہا جاتا ہے، لیکن آج ہم آپ کی ملاقات جس مظلوم سے کرا رہے ہیں اس کے مقابلے میں انتونیو پر تو کوئی ظلم ہوا ہی نہیں تھا اور ہم آپ کی ملاقات جس ظالم سے کرا رہے ہیں اس کے مقابلے میں شائی لاک آپ کو رحم و کرم کا پُتلا لگے گا۔ انتونیو کے جسم سے صرف ایک شائی لاک گوشت کاٹنے کے درپے تھا، ہم جس مظلوم کو آپ کی عدالت میں پیش کر رہے ہیں اس کے پیچھے شائی لاک نہیں، کہ وہ تو پھر بھی ایک انسان تھا درندوں اور وحشیوں کا ایک غول چلاتا، دھاڑتا، چلا آ رہا ہے! یہ مظلوم پاکستانی صارف ہے۔! اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی عوام کے پیچھے صرف دولت کی پرستش کرنے والے سیاست دان،...

Of Small And Big Funerals

I had no intention of visiting Zainab Market and roaming about in Elphinstone (now Zaibun nisa) street at that hour of the evening as the driver was to be set free after he would drop me back. I would come later on foot and spend, as usual, hours in that part of the city. This was my standing habitué for last many decades whenever I would travel to Karachi. But when I did not see the age-old sign board of Almaas Book Shop in front of Zainab Market, I got panicky and asked the driver to sideline the vehicle. A panwaala was handling his customers at the closed door of the shop. I, while sitting in the car, called him. He moved towards my open glass window after a considerable period of time elapsed. “There used to be a book shop here. Has it been closed?” “yes. It has been sold out”. “and where is the old shopkeeper? “I do not know.” The doomed shopkeeper was an elderly Persian speaking Parsi whom I used to visit whenever I came to Karachi. Besides practicing my rust...

کیا پیپلز پارٹی میں کوئی رجلِ رشید نہیں ؟

ہجوم اُس گھر کی طرف بڑھ رہا تھا! بستی کے نام نہاد شرفا‘ سردار اور چوہدری بھی ہجوم میں تھے اور غنڈے‘ لقندرے اور تلنگے بھی تھے۔ یہ کس طرح ممکن تھا کہ بستی میں خوبصورت نوجوان آئیں اور بچ کر نکل جائیں‘ خواہ وہ مہمان ہی کیوں نہ ہوں! ہجوم نے گھر پر ہلہ بول دیا۔ میزبان نے انہیں سمجھایا‘ ڈانٹا‘ منت سماجت کی اور آخری چارۂ کار کے طور پر پوچھا کہ ’’کیا تم میں کوئی رجلِ رشید‘ کوئی بھلے مانس‘ کوئی سمجھانے والا نہیں؟‘‘ یہ میزبان ‘ جس کے گھر میں مہمان آئے تھے‘ خدا کا پیغمبر تھا۔ اگر اُس ہجوم میں‘ جس میں سردار بھی تھے اور عام گامے ماجھے بھی‘ کوئی بھلے مانس ہوتا‘ کوئی رجلِ رشید ہوتا‘ تو اس قوم کا انجام تباہی نہ ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا پوری پیپلز پارٹی میں کوئی رجلِ رشید نہیں جو زرداری صاحب کو اور اُن کے پسند کردہ وزیراعظم کو سمجھائے کہ جس راستے پر وہ چل رہے ہیں‘ تباہی کا راستہ ہے۔ پیپلز پارٹی کے بھلے مانسوں کا یہ حال ہے کہ پارٹی کی سیکرٹری اطلاعات کو جس بات پر اعتراض ہے وہ یہ ہے کہ عدالتیں راتوں کو نہیں لگتیں اور حکومت کے وزیر اطلاعات فرماتے ہیں کہ ’’ہم نے آئین کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔‘‘ پارٹی کی س...

کچھ دیر آگرہ میں

آنکھیں چمک دار،ناک بلند، داڑھی خشخشی، مونچھیں بڑی، لباس وہی جو محمد شاہ رنگیلے کے زمانے میں دہلی میں رائج تھا۔ یعنی کھڑکی دار پگڑی، گاڑھے کا انگرکھا، نیچے کرتا، ایک بَر کا پاجامہ، انگلیوں میں فیروزے اور عقیق کی انگوٹھیاں۔ یہ حُلیہ اُس شخص کا ہے جس سے بڑا شاید ہی نظم کا کوئی شاعر گزرا ہو اور جو کچھ نظم کیا، عملی طور پر کرکے دکھایا۔ یہاں تک کہ ریچھ اور بندر نچائے، کبوتر اُڑائے، چوسر اور شطرنج کھیلی، آم، جامن کے ٹوکرے سر پراٹھائے، دال اور پاپڑ کی دکان لگائی، عید پر میلوں ٹھیلوں میں گئے۔ ہولی پر رنگ پھینکے، بسنت آئی تو پتنگ اُڑاتے۔ شبِ برات پر پٹاخے چھوڑے۔ یہ تھے نظیر اکبر آبادی جن کی نظموں میں آج تک برصغیر کی عوامی زندگی اُسی طرح تازہ ہے جیسے اڑھائی سو سال پہلے نظر آتی تھی۔ اٹھارھویں صدی عیسوی کا آگرہ ہے۔ وہ دیکھئے، نظیر اکبر آبادی ٹٹو پر سوار آرہے ہیں۔ ٹٹو ایسا سدھایا ہے کہ کسی نے سلام کیا تو خود ہی ٹھہر گیا۔ راہ چلتے لوگ نظموں کی فرمائش کر رہے ہیں۔ کنجڑا ملا تو کہہ رہا ہے کہ میاں ککڑی پر کچھ کہہ دو۔ فقیر ملا کہ کوئی قصہ کہہ دیجئے کہ اس کے ذریعے بھیک مانگ کھائوں۔ ایک بار کھانا کھا رہے...

بوم بوم آفریدی

کم ہی ایسا ہوا ہوگا کہ منہ اندھیرے رو کر دعا مانگی۔ پھول ساتھ روئے۔ پھر طلوع ہونیوالے سورج کی شعائوں نے پھولوں کے رخساروں سے شبنم کے قطرے صاف کئے، ہرطرف روشنی پھیل گئی اور دعا قبول ہوگئی!… یہی تو میرے ساتھ ہوا! پانچ فروری کی ٹھٹھرتی صبح تھی، میں منہ اندھیرے اٹھا، آج یوم یک جہتی کشمیر تھا۔ نیم سرد پانی سے وضو کرتے ہوئے میں مسلسل اُس جنت نظیر خطے کے بارے میں سوچ رہا تھا جس پر بھوتوں چڑیلوں چمگادڑوں اور اُلوئوں کا قبضہ ہے‘ جسکے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اگر فردوس بر روئی زمین است۔ ہمیں است وہمیں است وہمیں است۔یہ خطہ کب آزاد ہو گا؟   رخساروں پر آنسو گرتے رہے اور ڈھلک ڈھلک کر سفید بالوں میں جذب ہوتے رہے۔ دَھم کی آواز آئی اور پورچ میں اخباروں کا بنڈل گرا۔ میں باہر نکلا۔ دھوپ کا ہر اول دستہ سردی کو پسپائی پر مجبور کررہا تھا۔ میں نے اخبارات کھولے۔ غنچۂ دل وا ہوا، یوں لگا کچھ دیر پہلے میں نے جو آنسو بہائے تھے، قبولیت کا شرف حاصل کرگئے! وزارتوں نے کشمیر کے حوالے سے اخبارات میں پورے پورے صفحوں کے ایڈیشن نکلوائے تھے۔ ان رنگین صفحات پر چھ تصویریں تھیں۔ صدر پاکستان، وزیراعظم پاکستان ، صدر ...

جنازے

دکان تھی نہ بورڈ‘ میرا ماتھا ٹھنکا میں نے ڈرائیور سے کہا کہ گاڑی ایک طرف کر کے روکے۔ دکان کے بند دروازے کے سامنے پانی والا اڈا جمائے تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ یہاں ایک دکان ہوا کرتی تھی۔ ’’وہ بیچ کر چلا گیا‘‘ ’’کہاں؟ معلوم نہیں! اس کالم نگار نے اپنی ملازمت کا آغاز ستر کی دہائی میں کراچی سے کیا تھا۔ اس وقت سے لے کر آج تک الفنسٹن سٹریٹ (جو اب زیب النسا سٹریٹ کہلاتی ہے) اور زینب مارکیٹ کا علاقہ میرا پسندیدہ علاقہ رہا ہے لیکن اس علاقے کے ساتھ جو المیے وابستہ ہیں وہ بہت درد ناک ہیں! ستر کی دہائی میں الفنسٹن سٹریٹ میں کتابوں کی کئی دکانیں تھیں اگر آپ ریگل سینما کی طرف سے داخل ہوں تو دائیں طرف ’’کتاب محل‘‘ تھی۔ جہاں اردو کی ادبی کتابیں میسر تھیں۔ یہ دکان عرصہ ہوا وفات پا چکی۔ امریکن بک کمپنی چند سال قبل اپنے انجام کو پہنچی۔ اب دو دکانیں بچی تھیں ۔ ریگل چوک پر ’’تھامس اینڈ تھامس‘‘ اور دوسرے کنارے پر زینب مارکیٹ کے سامنے والماس بک شاپ۔ کراچی کے حالیہ سفر میں معلوم ہوا کہ الماس بک شاپ بھی اس قوم کی ’’علم نوازی‘‘ کی نذر ہو چکی۔ اناللہ وانا الیہ راجعون! کلاسیکی اور جدید فارسی کتابوں کے اس مرک...

برادری

ٹرین کے ڈبے میں ایک صاحب نے سامنے بیٹھے ہوئے بزرگ سے پوچھا ’’آپ کی تعریف؟‘‘ ’’برخوردار! میرا نام حفیظ ہے‘‘! بزرگ نے بتایا۔ پوچھنے والے کے چہرے پر کوئی تاثر نہ ابھرا۔ بزرگ نے دوبارہ بتایا ’’میں حفیظ ہوں۔ شاہنامہ اسلام کا خالق‘‘ برخوردار کی رگِ شناخت اب بھی نہ پھڑکی۔ بزرگ نے ایک بار پھر زور سے کہا ’’ارے بھئی! میں حفیظ ہوں۔ وہی حفیظ جس نے پاکستان کا قومی ترانہ لکھا ہے‘‘ لیکن یوں لگا جیسے برخوردار نے قومی ترانہ کبھی سنا ہے نہ … اس کی اہمیت کا اسے احساس ہے۔ تھک ہار کر حفیظ نے کہا ’’ارے میاں! میرا نام حفیظ جالندھری ہے‘‘ بس یہ سننا تھا کہ برخوردار کو جیسے بجلی کا کرنٹ لگ گیا۔ وہ اٹھا، حفیظ صاحب کو پکڑ کر سیٹ سے اٹھایا اور اپنے سینے سے بھینچتے ہوئے بولا۔ اچھا تو آپ بھی جالندھر کے ہیں! معلوم نہیں یہ واقعہ ہے ‘ یا محض لطیفہ! لیکن یہ جو کچھ بھی ہے ہماری قومی نفسیات کی مکمل تشریح کرتا ہے! ہم تحسین بھی کرتے ہیں تو برادری کی بنیاد پر اور تنقیص بھی کرتے ہیں تو اسلئے کہ جس میں برائی ہے وہ ہماری برادری سے نہیں ہے! تعلیم یافتہ اصحاب انتہائی درد سے دیہی علاقوں کے ان پڑھ لوگوں پر تنقید کرتے ہیں کہ وہ ...