اشاعتیں

جنوری, 2010 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

چودہ لاکھ ڈالر

نصرانیوں اور یہود و ہنود کا برا ہو جو ہم مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ ہمارے تین تین چار چار سال کے معصوم بچے سمگل ہو کر جس ملک میں جاتے ہیں وہ جغرافیائی لحاظ سے بھی ہمارے نزدیک ہے اور روحانی حوالے سے بھی دور نہیں۔ امت مسلمہ کے افراد جہاں بھی ہوں‘ انکے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔ جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو پورا جسم بے چین ہوتا ہے۔ یہی حال امت کا بھی ہے۔ یہی تو وہ اتحاد ہے جس سے نصرانی اور یہود و ہنود لرزاں اور ترساں ہیں! مغربی تہذیب تباہی و بربادی سے دوچار ہو اور ہماری آنکھیں اور جگہ ٹھنڈی ہو‘ یہ تین تین چار چار سال کے معصوم بچے وہاں پہنچتے ہیں تو ہاتھوں ہاتھ لئے جاتے ہیں۔ انہیں ایک عظیم مقصد کیلئے درآمد کیا جاتا ہے۔ یہ مقصد اتنا عظیم الشان ہے کہ اہل مغرب… خدا انہیں نیست و نابود کرے۔ اس کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ اسی مقصد سے وابستہ ہے۔ اہل پاکستان قسمت کے دھنی ہیں کہ انکے تین تین چار چار سال کے معصوم لخت ہائے جگر تاریخ کا دھارا بدلنے میں ایک ناقابل فراموش کردار ادا کر رہے ہیں…ع یہ نصیب! اللہ اکبر! لوٹنے کی جائے ہے ان بچوں کو صحرا میں‘ آبادیوں سے دور رکھا جاتا ہے۔ انہی...

عیاری اور یاری

ج پاکستان کو دنیا کی برادری میں قابلِ رشک حیثیت حاصل ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی میں وہ پوری دنیا کی قیادت کر رہا ہے۔ خواندگی کا تناسب صد در صد ہے۔ اس وقت پاکستان اُن ملکوں میں سرفہرست ہے جہاں لوگ دنیا کے کونے کونے سے آ کر آباد ہونا چاہتے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں غیر ملکی طلبہ کا ہجوم ہے۔ فرقہ واریت کا کوئی وجود نہیں۔ امن و امان کا یہ عالم ہے کہ ایک اکیلی عورت زیورات سے لدی پھندی گلگت سے کراچی تک پیدل سفر کرے تو اُسے آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی جرأت کوئی نہیں کرسکتا۔ سوات اور فاٹا میں ہارورڈ اور آکسفورڈ کے مقابلے کے تعلیمی ادارے ہیں۔ ملک میں چینی آٹا گیس برقی روشنی اور پٹرول وافر اور ارزاں ہیں۔ یہ سب کچھ تو اطمینان بخش ہے لیکن ملک کے اہلِ دانش ایک طویل عرصہ سے اس موضوع پر بحث کر رہے ہیں کہ اس قابلِ رشک مقام کا اصل سبب کیا ہے۔ آخر وہ کون سے محرکات اور عوامل ہیں جو وطن عزیز کو اس اوج پر لیکر آئے ہیں کچھ اصحاب کا خیال ہے کہ پے در پے قبضہ کرنیوالی عسکری حکومتیں اس ترقی کا سبب ہیں۔ کچھ یہ سہرا نوکر شاہی کے سر پر باندھنا چاہتے ہیں لیکن اکثریت کی رائے یہ ہے کہ یہ سب اہلِ سیاست کی کرم نوازی ہے کیونکہ کی...

نمستے

میں ابھی دکان پر پہنچا ہی تھا کہ پیچھے سے بیوی کا فون آگیا۔ ’’تم نے موم بتیاں خریدیں تو نہیں؟‘‘ ’’نہیں، بس ابھی دکان میں قدم رکھا ہے خریدنے لگا ہوں۔‘‘ ’’مت خریدو اور فوراً واپس آ جائو‘‘ ایک زمانہ تھا کہ بیوی مجھے ’’آپ‘‘ کہہ کر مخاطب ہوتی تھی لیکن یہ لوڈ شیڈنگ سے پہلے کی بات ہے۔ میں نے ارادہ کیا کہ اس سے احکام میں تبدیلی کی وجہ پوچھوں لیکن لہجہ دیکھ کر ارادہ بدل دیا۔ گھر پہنچا تو دروازے کے سامنے گلی میں حجام چارپائی پر بیٹھا میرے دونوں چھوٹے بیٹوں کے سر مونڈ رہا تھا۔ بچے رو رہے تھے۔ میں نے پوچھا توکہنے لگے ’’پتا جی! ماتا جی کا حکم ہے۔‘‘ میرا سر چکرانے لگا۔ ’’کیا بکواس کر رہے ہو۔ ابو کہنے کے بجائے پتا جی اور امی کے بجائے ماتا جی کا راگ الاپ رہے ہو۔ پاگل تو نہیں ہوگئے؟‘‘ ’’یہ بھی ماتا جی نے کہا ہے۔‘‘ میں غصے سے تلملاتا گھر میں داخل ہوا۔ بیوی کو دیکھا تو آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ ساری باندھے بیٹھی تھی اور ماتھے پر تلک تھا لیکن وہ اتنے غصے میں تھی کہ کچھ پوچھنے کی ہمت نہ پڑی۔ ایک دوبار کوشش بھی کی لیکن تھوک نگل کر رہ گیا۔ لفظ ادا نہ ہوسکے۔مگر ذہن میں طوفان اٹھ رہا تھا۔ یہ نیم صحیح الدم...

دو ہتھڑ

میں رویا اورٹوٹ کر رویا۔ میں نے سسکیاں لیں، میری ہچکی بندھ گئی، میری سفید داڑھی آنسوؤں سے تر ہو گئی، میری آنکھیں سُوج گئیں، میرے رخساروں پر تیز کٹیلے آنسوؤں سے گڑھے پڑ گئے جیسے میرے آنسوؤں میں نمک نہیں تھا،  تیزا ب تھا، شکیب جلالی نے یہ شعر میرے ہی لئے تو کہا تھا…ع کیا   کہوں  دیدہء تر!     یہ تو  مرا  چہرہ   ہے سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گرے اس ملک کی باسٹھ سالہ تاریخ میں میں پہلا وزیر تھا جو دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔ ایک طرف میری وزارت کا وفاقی سیکرٹری کھڑا تھا جو مجھے چُپ کرانے کی مسلسل کوشش کر رہا تھا۔ دوسری طرف میرا پرائیویٹ سیکرٹری رومال سے میرے آنسو پونچھ رہا تھا۔ سامنے وزارت کے دوسرے افسر اور اہلکار درجہ بدرجہ کھڑے تھے اور سب پریشان تھے۔ ’’سرکار! کچھ بتائیں تو! آخر کیوں رو رہے ہیں؟‘‘ وفاقی سیکرٹری نے خالص افسرانہ لہجے میں، جسے چاپلوسی کا تڑکا لگا تھا، پوچھا میرے پرائیویٹ سیکرٹری کو وفاقی سیکرٹری کی یہ ادا ایک آنکھ نہ بھائی اس نے اسے نیچا دکھاتے ہوئے میرے رخساروں پر رومال قدرے زور سے رگڑا او...

بابا جی

مسئلے تو بہت ہیں مثلاً یہ کہ وزیر مملکت برائے داخلہ حکومتِ پاکستان نے دو ماہ کے عرصہ میں ممنوعہ بور کے صرف پانچ ہزار چھ سو اناسی لائسنس جاری کئے ہیں۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی نے اس پر ’تشویش‘ کا باقاعدہ اظہار کیا ہے اور ’انصاف‘ کے تقاضے پورے کرنے کیلئے تین سیکشن افسروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے! سیکشن افسروں کا اصل جرم غالباً یہ ہے کہ وہ اس طبقے سے تعلق نہیں رکھتے جس طبقے سے سینٹ کے ارکان تعلق رکھتے ہیں۔ وزیر مملکت برائے داخلہ کا تعلق بھی اسی طبقے سے ہے اگر ’انصاف‘ کے تقاضے پورے کرنے ہوں تو یہ تجویز بھی پیش کی جا سکتی ہے کہ گرفتار شدہ سیکشن افسر قطعاً رہا نہ کئے جائیں اور وزیر مملکت برائے داخلہ بدستور لائسنس جاری کرتے ہیں۔ اخبارات نے تو یہ اطمینان بخش خبر بھی شائع کی ہے کہ جس پرائیویٹ (یعنی غیر سرکاری) شخص کو اسلحہ کے شعبے کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کا کام دیا گیا تھا، اسی نے چھبیس ہزار لائسنس خود ہی جاری کر دئیے!۔ مسئلے بہت ہیں مثلاً حافظ حسین احمد صاحب اور محمد علی درانی صاحب نے بہاولپور میں پریس کانفرنس سے اکٹھا خطاب کیا لیکن یہ اصل خبر نہیں ہے۔ اصل خبر یہ ہے کہ حافظ حسین احمد نے پریس کانفرنس می...

چیونٹیاں

جنگل ہے اور گھنا جنگل، راستہ ہے نہ روشنی، الامان والحفیظ! طُوس فردوسی اور امام غزالیؒ کا وطن ہے، اسی طوس سے ایک شاعر اسدی طوسی بھی تھا کچھ تذکرہ نویس اسدی کو فردوسی کا استاد کہتے ہیں لیکن شبلی نعمانی اس سے اختلاف کرتے ہیں۔ اسدی طوسی گھنے جنگل کی تعریف یُوں کرتا ہے…؎ چنان تنگ ودرہم یکی بیشہ بُود کہ رفتن دران کارِ اندیشہ بُود ایک جنگا اتنا گھنا تھا کہ اس میں صرف خیال ہی چل سکتا تھا…؎ درخشانش سر در کشیدہ بسر چو خط دبیراں یک اندر دگر اونچے درخت یوں پاس پاس تھے جیسے خوش نویسوں کی سطریں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہوتی ہیں…؎ کماں شاخہاشاں، ہمہ گرز بار سپر برگ ہا و سنان نوک خار ان درختوں کی شاخیں کمان تھیں، ان کے پھل گُرز تھے ان کے پتے ڈھال تھے اور کانٹے برچھیوں کی مثال تھے…؎ نتابیدہ اندر وی از چرخ ہور ز تنگی رہش پوست رفتی زمور اس جنگل میں آسمان سے کبھی سورج نہ چمکا تھا اور اتنا گھنا تھا کہ چیونٹی بھی اس میں چلتی تو اسکی کھال ادھڑنے لگتی۔ جنگل ہے اور گھنا جنگل، راستہ ہے نہ روشنی، لیکن یہاں درخت نہیں ہیں جو سورج کی کرنیں روکے ہوئے ہیں یہاں مردم خور چیتے، ...

امریکہ کا محسن

ڈاکٹر فاطمہ حسین دلی یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں۔ ان کا تعلق بھارت ہی سے ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ان کی نئی تصنیف کی تقریب رونمائی حکومت پاکستان (وزارت تعلیم) کے ماتحت ادارے پاکستان اکادمی ادبیات نے منعقد کی ہے۔ پاکستان اکادمی ادبیات جب جولائی 1976ء میں قائم ہوئی تو حکومت پاکستان نے اسکے قیام کا مقصد پاکستانی ادب کی ترویج اور پاکستانی ادیبوں کی بہبود بیان کیا تھا۔ اکادمی کی سرکاری ویب سائٹ پر کم از کم یہی لکھا ہوا ہے۔ اگر آپ انٹرنیٹ پر (pal.gov.pk) ٹائپ کریں تو اکادمی ادبیات کے بیس اغراض و مقاصد پر نظر پڑیگی۔ اس میں کہیں بھی نہیں لکھا ہوا کہ بھارتی ادیبوں کی فلاح و بہبود بھی حکومت پاکستان کے اس ادارے کے فرائض میں شامل ہوگی جو پاکستانیوں کے ادا کردہ ٹیکسوں سے پرورش پا رہا ہے۔ ہمیں قطعاً یہ اعتراض نہیں کہ بھارتی ادیبوں کی پذیرائی حکومت پاکستان کیوں کر رہی ہے۔ ہم تو صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ حکومت پاکستان، وزارت تعلیم کے اس نیم خود مختار ادارے کے اغراض و مقاصد میں ترمیم کرکے اس میں ’’پاکستانی ادیبوں‘‘ کے ساتھ ’’بھارتی ادیبوں‘‘ کے الفاظ بھی شامل کردے تاکہ قانونی سقم دور ہو جائے۔ بھارت کا...

چرواہا

سبزہ زار دیکھ کر میں نے گاڑی روکی۔ کیا خوبصورت منظر تھا! ذرا فاصلے پر جھیل تھی۔ نیلے پانیوں کے اندر لہریں دھوپ میں چمک رہی تھیں۔ کنول کے پھول تیر رہے تھے اور سفید پرندے اُن پر اُڑ رہے تھے۔ ہَوا ٹھنڈی تھی۔ درخت جھوم رہے تھے۔ میں گاڑی سے اترا اور موبائل فون کے ضعیف کیمرے سے منظر کی تصویریں لینے لگا۔ اچانک ایک ٹیلے کی اوٹ سے دس بارہ سال کا لڑکا نمودار ہوا‘ اسکے ہاتھ میں لاٹھی تھی جس سے وہ اس ریوڑ کو ہانک رہا تھا جو اسکے آگے آگے بیزاری سے چل رہا تھا۔ میں نے لڑکے پر کوئی توجہ نہ دی لیکن میں ٹھٹھک گیا جب میرے نزدیک آ کر اس نے اچانک سلام دیا اور کہا ’’چاچا! تصویریں کھنیچ رہے ہو؟‘‘ ۔’’چاچا‘‘ کا لفظ یوں بھی چونکانے والا تھا۔ میرے بچوں کے دوست تو مجھے انکل کہتے ہیں! اور انکل ہی ان دنوں باعزت لفظ سمجھا جاتا ہے۔ جبھی تو صدر پاکستان نے بھی چند دن پہلے نوڈیرو میں تقریر کرتے ہوئے بلاول کے انکلوں کو سلام پیش کیا ہے۔ میں نے لڑکے کے سلام کا جواب دیا اور کہا کہ سفر کے دوران یہ منظر دل کو بھایا اور میں رُک گیا۔ ’’چاچا! تصویر میں مجھے اور میرے مویشیوں کو نہ آنے دینا‘ تمہارے منظر کی خوبصورتی داغدار ہو ...