اشاعتیں

2010 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

پیش ِ مادر آ

چین کی حکومت نے یہ حکم جاری کیا ہے تو اس لئے کہ وہاں ایک صحت مند معاشرہ ہے۔ مقتدر طبقات قوم کا درد رکھتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قانون سب کیلئے یکساں ہے جہاں اہل اقتدار اور صرف اہل اقتدار نہیں، سارا بالائی طبقہ، ساری اپر کلاس لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہو وہاں زبان پر توجہ کون دیگا؟ قوم کس زبان میں گفتگو کر رہی ہے اور کس زبان میں تعلیم حاصل کر رہی ہے؟ ان سوالوں پر تو وہ حکمران سوچتے ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا قوم ہو اور اپنی ذات کو انہوں نے پوٹلی میں بند کر کے ایک کونے میں رکھ دیا ہو! چین کے حکمران قانون سے ماورا نہیں، انکی دولت غیر ملکی بنکوں میں ہے نہ انکی جائیدادیں تین براعظموں پر پھیلی ہوئی ہیں۔ انکے پاس بس اتنا ہی ہے کہ وہ دو وقت کا کھانا کھا لیں اور باعزت لباس پہن سکیں، ایسے ہی حکمران ہوتے ہیں جو صرف قوم کی اقتصادیات اور دفاع کے بارے میں ہی نہیں قوم کی ثقافت، تہذیب اور زبان کے بارے میں بھی فکر مند ہوتے ہیں اسی لئے تو چین کی حکومت نے یہ حکم جاری کیا۔ چین کی حکومت نے اخباروں، اشاعت گھروں، ویب سائٹوں، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کو حکم دیا ہے کہ چینی زبان بولتے اور لکھتے وقت غیر ملکی زبانوں کے ا...

کہ اپنے آپ کو اس صحن میں بو دوں

مزارع کا لڑکا پڑھ لکھ کر افسر بن گیا تو اس نے اسی چودھری کی بیٹی سے شادی کرنے کی ضد کی جس کی زمین پر اس کا باپ ہل چلاتا تھا۔ مزارع نے جا کر اظہار مدعا کر دیا۔ چودھری نے سنا تو آگ بگولا ہو گیا اور اپنے ’’خاص‘‘ ملازموں کو حکم دیا کہ سائل کا دماغ درست کیا جائے۔ دماغ کی درستی کے دوران مزارع کو جہاں زخم آئے‘ ہڈیاں ٹوٹیں اور کپڑے تار تار ہوئے وہاں اس کی پگڑی بھی کھل گئی۔ وہ اٹھا‘ رہے سہے کپڑے جھاڑے اور کھلی ہوئی پگڑی سر پر باندھنے لگا۔ پگڑی باندھتے ہوئے اس نے چودھری سے فیصلہ کن لہجے میں پوچھا کہ ’’چودھری صاحب! آپ کی طرف سے پھر میں انکار ہی سمجھوں؟‘‘ مشرقی پاکستان چودھری تھا‘ نہ مغربی پاکستان مزارع‘ لیکن یہ لطیفہ اس لئے یاد آیا کہ گذشتہ ہفتے مشرقی پاکستان کی افسوس ناک علیحدگی کی انتالیسویں برسی پر ہمارے ٹیلی ویژن چینل جو پروگرام دکھاتے رہے ان میں سے کچھ کے موضوع اس قسم کے تھے۔ ’’کیا مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان دوبارہ اکٹھے ہو سکتے ہیں؟‘‘ کیا پاکستان اور بنگلہ دیش ایک بار پھر ایک ملک بن سکتے ہیں؟ ’’مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں ہندوؤں کا کردار‘‘ وغیرہ وغیرہ! ہمیں نہیں معلوم کہ بنگلہ دیش ک...

سب مزے میں ہیں

نہیں میرے دوست! نہیں! پاکستان ترکی نہیں بن سکتا۔  ترکی نہ ملائیشیا نہ ہی متحدہ عرب امارات! بھلا صومالیہ اور زمبابوے جیسے ملک ترکی اور ملائیشیا کی سطح پر کیسے آ سکتے ہیں؟ آج اگر کوشش شروع بھی کر دی جائے تو کئی دہائیاں لگیں گی اور کوشش شروع ہونے کے دور دور تک کوئی آثار نہیں! یہ کسی دور افتادہ پس ماندہ گائوں کا واقعہ نہیں، یہ واقعہ دارالحکومت سے نصف گھنٹے کی مسافت پر واقع ایک جدید اور ترقی یافتہ ٹائون کا ہے اور یہ برسوں پہلے کا واقعہ نہیں، چند ہفتے پہلے کا ہے۔ مسجد بھری ہوئی تھی، جمعہ کا خطبہ دیا جا رہا تھا ۔ تیس سے چالیس فیصد نمازی پتلونوں میں ملبوس تھے اس لیے کہ وہ دفتروں اور کارخانوں میں ڈیوٹی دیکر سیدھے مسجد آئے تھے۔ خطبہ دینے والے مولانا نے اعلان کیا ’’پتلون پہننا حرام ہے‘‘ ۔ کسی نے چوں تک نہ کی۔ ایک ایسا عالم دین بھی نمازیوں میں بیٹھا تھا جو آٹھ دس سال مغربی ملکوں میں گزار کر آیا تھا۔ نماز کے بعد اس نے حضرت سے پوچھا کہ جو برازیل یا میکسیکو یا امریکہ میں پیدا ہوا اور اس کا لباس ہی پتلون ہے تو کیا مسلمان ہونے سے پہلے وہ پاکستان سے یا سعودی عرب سے لباس منگوائے گا اور پھر کلمہ...

لنڈورے، کبڑے اور اندھے

کیا  آپ سامنے وہ اونچا میدان دیکھ رہے ہیں؟ وہاں سے تین بھیڑے اتر کر آئے ان میں سے دو تو لنڈورے تھے، ایک کی دم نہیں تھی! جس بھیڑیے کی دم نہیں تھی وہ تین دریاوں میں تیرتا تھا۔ ان میں سے دو دریا خشک تھے، تیسرے میں پانی ہی نہیں تھا۔ جس دریا میں پانی نہیں تھا اسکے کنارے تین شہر تھے۔ دو شہر اجڑے ہوئے تھے، تیسرا آباد ہی نہیں تھا۔ جو شہر آباد نہیں تھا‘ اس میں تین کمہار رہتے تھے، دو کمہار کبڑے تھے، ایک سیدھا ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ جو کمہار سیدھا نہیں کھڑا ہو سکتا تھا، اس نے تین ہانڈیاں بنائیں۔ دو ہانڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں، ایک کا پیندا ہی نہیں تھا۔ جس ہنڈیا کا پیندا نہیں تھا، اس میں چاول کے تین دانے پکائے گئے۔ دو دانے سخت نکلے ایک نرم ہی نہیں ہوا۔ چاول کا جو دانہ سخت تھا، اسے تین مہمانوں کو پیش کیا گیا۔ دو مہمان بھوکے رہے، ایک کا پیٹ ہی نہیں بھرا۔ جس مہمان کا پیٹ نہ بھر سکا اسکے پاس تین عدد گائے تھیں۔ دو بانجھ تھیں اور ایک دودھ ہی نہیں دیتی تھی۔ جو گائے دودھ نہیں دیتی تھیں اسے تین روپے میں فروخت کر دیا گیا، دو روپے کھوٹے تھے اور ایک کو لیتا ہی کوئی نہیں تھا۔ جس روپیہ کو کوئی نہیں قبول کرتا تھ...

کھیل کا منطقی انجام

یہ منظر جانا پہچانا ہے۔ یہاں سے ہم پہلے گذر چکے ہیں۔ یہ سماں ہم نے کئی بار دیکھا ہے۔ پلاسٹک کے وزیراعظم شوکت عزیز کا عہد تھا۔ پنجاب میں برسراقتدار، دو اہم سیاست دا ن کچھ دن بعد شوکت عزیز کو ملتے تھے۔ اخبارات کے پہلے صفحے پر تصویر آتی تھی۔ چند روز گزرتے تھے کہ ایک اور تصویر چھپتی تھی۔ راولپنڈی کا ایک سیاست دان جو فوجی آمر کی تعریف میں رطب اللسان رہتا تھا، پنجاب کے برسراقتدار سیاست دان کو مل رہا ہوتا تھا۔ نہیں معلوم کسی کو یاد بھی ہے یانہیں کہ اس سوئی ہوئی قوم کا حافظہ مکڑی کے بنے ہوئے تار سے زیادہ کمزور ہے۔ ان ملاقاتوں کی تصویریں اس کثرت اور اس تواتر سے اور اس ترتیب سے شائع ہوتی تھیں کہ ہنسی تک آنا رک گئی تھی! وہی منظر ہے، وہی تصویریں ہیں۔ وہی کثرت ہے اور وہی تواتر ہے۔ صرف نام بدلتے ہیں۔ کردار وہی رہتے ہیں۔ ایک رات ایسی آتی ہے جب ایکڑ بدل دیئے جاتے ہیں اور شاعر پکار اٹھتا ہے …؎ کیا رات تھی بدلے گئے جب نام ہمارے پھر صبح کو خیمے تھے نہ خدام ہمارے خیمے اور خدام کسی اور کے ہو جاتے ہیں اور سٹیج سے غائب ہونے والے اداکاروں کے نام تک گرد میں چھپ جاتے ہیں۔ تازہ منظر میں ایک معروف مذہبی رہ...

آسان اسلام

کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ قرآن پاک کی تلاوت ہو رہی تھی سننے والا اسکے سحر میں گرفتار تھا، وہ پوری طرح اس میں ڈوبا ہوا تھا، اچانک ایک بدقسمت تلاوت بند کر دیتا ہے۔ جو آیت پڑھی جا رہی تھی، مکمل بھی نہ ہوئی تھی۔ آدھی تلاوت ہو چکی تھی، بقیہ آدھی رہتی تھی، سننے والا آنکھیں بند کر کے سُن رہا تھا۔ درمیان میں نعوذ بااللہ کاٹ دی گئی۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ اللہ کے رسول کی شانِ اقدس میں نعت پڑھی جا رہی ہو، آپؐ کی تعریف ہو رہی ہو، سننے والا بے خود ہو، اتنے میں کوئی بدبخت نعت کو درمیان میں کاٹ دے ابھی تو جو شعر پڑھا جا رہا تھا، مکمل بھی نہ ہوا تھا، ایک مصرع پڑھا گیا تھا دوسرا پڑھا جانا تھا کہ نعت سنانی بند کر دی گئی، سننے والا چاہتا تھا کہ رسالت مآبؐ کی شان میں نعت ہوتی رہے، اور وہ سنتا رہے۔ کلامِ پاک کی شان میں یہ گستاخی اور نعتِ رسول کی یہ بے ادبی ہمارے اردگرد مسلسل ہو رہی ہے، صبح و شام، رات دن اسکا ارتکاب ہو رہا ہے لیکن گستاخانہ خاکوں پر اپنے ہی ملک کی ٹریفک جام کرنے والوں اور اپنی ہی گاڑیوں کے شیشے توڑنے والوں کو اس کا شعور ہے نہ پرواہ۔ آپ کسی کو موبائل پر ٹیلی فون کرتے ہیں، جواب میں نارمل گ...

ہم مسکین پاکستانی

یہ نومبر 2010 کی سولہ تھی۔ منگل کا دن تھا۔ دن کے سوا دو بجے کا وقت تھا۔ پشاور ائرپورٹ پر ایک جہاز اترنے والا تھا۔ اس جہاز کے مسافروں کا استقبال کرنے کیلئے ہوائی اڈے پر ایک ہجوم انتظار کر رہا تھا۔ انتظار کرنے والے یہ لوگ صوبے کے دور دراز علاقوں سے آئے تھے۔ دیر اور سوات سے‘ مالاکنڈ اور مردان سے‘ کوہاٹ اور وانا سے‘ بنوں اور میران شاہ سے‘ کرک سے‘ باجوڑ سے‘ وزیرستان سے‘ ڈیرہ اسماعیل خان سے اور نہ جانے کہاں کہاں سے‘ کوئی ٹیکسی کرکے آیا تھا‘ کوئی تین بسیں بدل کر‘ کوئی پوری سوزوکی کرائے پر لیکر‘ کوئی اپنی کار پر‘ اور یہ لوگ جو پشاور کے ہوائی اڈے پر تھے انکی تعداد تو کچھ بھی نہیں تھی۔ ہر استقبال کرنیوالا اپنے پیچھے دس سے پندرہ فراد گھر میں چھوڑ کر آیا تھا۔ گھروں میں پوپلے منہ لئے بوڑھی مائیں منتظر تھیں‘ بار بار دروازے کی طرف دیکھتی ہوئیں‘ چلم پیتے باپ حجروں میں ایک ایک لمحہ کن رہے تھے‘ سہاگنیں دلوں میں دھڑکنیں بسائے زندگی کے ساتھیوں کی راہ تک رہی تھیں۔ پھول سے چہروں والے بچے اپنے اپنے ابو کیلئے بے قرار تھے‘ کھلونوں کی جھنکار ان کے دلوں میں گدگدی مچا رہی تھی۔ وہ نئے کپڑوں کا انتظار کر رہے تھے۔ ا...

مکھی اڑانے کیلئے پتھر

آخرایک سرکاری ملازم اور سیاست دان میں کیا فرق ہوتا ہے؟ اول یہ کہ سرکاری ملازم صرف ایک فرد کو جواب دہ ہوتا ہے۔ جس کا وہ ماتحت ہے۔ سیاست دان پوری قوم کو جواب دہ ہے۔ بالخصوص ان لاکھوں افراد کو جن کے حلقے سے وہ منتخب ہو کر آیا ہے اور جن کی وہ نمائندگی کر رہا ہے۔ سرکاری ملازم کا باس کہیں اور چلا جائے تو ماتحت فورا نئے افسر کا وفادار ہو جائے گا لیکن سیاستدان مرغِ باد نما نہیں بن سکتا۔ اسے تو موت تک اپنے حلقۂ انتخاب کے سامنے پیش ہوتے رہنا ہے۔ دوم …یہ کہ سرکاری ملازم کے سامنے بے جان فائلیں اور مسلیں ہوتی ہیں۔ رقعے، توقیعات اور نوٹنگ ہوتی ہے‘ اور بس۔ لیکن سیاستدان کے سامنے انسان ہوتے ہیں۔جیتے جاگتے انسان، جن کے درمیان اس نے چلنا پھرنا ہے، انکی سننی ہے اور اپنی کہنی ہے۔ سوم …اور یہ اصل فرق ہے۔ سیاست دان نے پالیسی بنانا ہے اور سرکاری ملازم نے اس پالیسی کی پیروی کرنا ہے۔ دنیا کی مشہور کتابیں سیاست دانوں کی تربیت کیلئے لکھی گئی ہیں۔ نہ کہ سرکاری ملازموں کیلئے میکیاولی کی پرنس سے لیکر سیاست نامہ طوسی تک اور قابوس نامہ سے لیکر اخلاقِ جلالی تک‘ اس لئے کہ اہل سیاست نے لاکھوں افراد کیلئے پالیسیاں طے...

ہمیشہ نئی سرنج پر اصرار کیجئے

صحت اور تعلیم دو ایسے شعبے ہیں جن کے ساتھ ہر حکومت نے ’’مناسب‘‘ سلوک روا رکھا! وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کے محلات پر اٹھنے والے اخراجات کہیں زیادہ ہیں۔ اس ’’ترجیحی‘‘ برتائو کا نتیجہ یہ ہے کہ آج وطن عزیز میں جہالت اور بیماری دونوں زوروں پر ہیں۔ ٹی بی جس کا ماضی میں انسداد ہو گیا تھا۔ شدومد کے ساتھ دوبارہ زندہ ہو گئی ے۔ ہیپا ٹائٹس بی اور سی آبادی کے بہت بڑے حصے پر حملہ آور ہو چکے ہیں۔ یاد نہیں یہ اعداد و شمار کس حد تک درست ہیں لیکن ایک اندازے کیمطابق جنوبی پنجاب کی آبادی کا ساٹھ فیصد حصہ ان مہلک بیماریوں کے نرغے میں ہے۔ غربت اور جہالت، بیماری کی چچازاد بہنیں ہیں‘ چنانچہ وہ خاندان جو غریب ہیں اور غیر تعلیم یافتہ بھی ہیں، پورے کے پورے، ہیپا ٹائٹس بی اور سی کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔  نیم حکیم، عطائی، نام نہاد ہومیو پیتھ،  بسوں، اڈوں اور فٹ پاتھوں پر دوائیاں بیچنے والے ٹھگ ، تعویز فروش، ’’روحانی علاج کرنیوالے اٹھائی گیرے، ’’نقش‘‘ فروخت کرنیوالے،  نجومی، اور ’’ہر بیماری‘‘ کا علاج کرنیوالے زبدۃ الحکما قسم کے انسانی جانوں کے تاجر۔ یہ سب خلق خدا کو ’’علاج‘‘ کے راستے سے قبرستانوں میں...

خاک بھی سر پہ ڈالنے کو نہیں

ایک خوش بخت زمانہ اس ملک میں ایسا بھی تھا جب صرف انکم ٹیکس اور کسٹم کے محکمے بدنام تھے۔پولیس کا ذکر آتا تو اس لئے مذمت کی جاتی کہ غریبوں کو پریشان کرتی ہے۔یہ وہ زمانہ تھا جب کوئی ٹیکس یا کسٹم کے محکمے میں ملازمت اختیار کرتا تو اُس کے بزرگ پریشان ہوجاتے کہ ہم لوگوں کو کیسے بتائیں گے کہ برخوردار کہاں کام کرتا ہے! جب سے انجینئروں نے طاقت پکڑی ہے،ٹیکس جیسے محکمے تزک و احتشام کھو بیٹھے ہیں۔کہیں پڑھا تھا کہ مولانا مودودی کے ایک صاحبزادے انجینئر ہوئے تو مولانا نے کہا تھا باپ مولوی اور بیٹا لوہار۔ مولانا نے تو ازراہِ تفنّن کہا ہوگا لیکن اہلِ پاکستانی نے بہت جلد دیکھ لیا کہ انجینئر واقعی لوہار ہیں ۔سوسنار کی ایک لوہار کی۔ جن جن محکموں میں زمامِ کار انجینئروں کے ہاتھ میں ہے ان کی کارکردگی دیکھ لیجئے اور شہرت بھی۔ ریلوے، واپڈا، پی ڈبلیو ڈی، ایم ای ایس لیکن ایک زمانہ وہ بھی آنا تھا جب واپڈا اور پی ڈبلیو ڈی بھی پس منظر میں چلے جانے تھے اور یہی وہ زمانہ ہے جس میں سے ہم گزر رہے ہیں۔ اس ملک کی بد قسمتی کا نیا دروازہ اُس دن کھلا جس دن ملک میں پہلا ترقیاتی ادارہ وجود میں آیا۔ یوں تو ترقیاتی ادارے (...

زمبابوے نے مبارک کیوں نہیں دی؟

صورت حال دلچسپ سے دلچسپ تر ہو رہی ہے۔ ایک طرف عبدالستار ایدھی نے کہا ہے کہ مہنگائی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے اور اسے روکا نہ گیا تو خونی انقلاب آئے گا۔ ایدھی یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ عام آدمی کا جینا اس قدر مشکل ہو گیا ہے کہ اس کے پاس دوا کے پیسے نہیں ہیں۔ معیشت دانوں کا کہنا ہے کہ ملک میں پندرہ کروڑ افراد صرف ایک سو ستر روپے روزانہ کما پاتے ہیں۔  دوسری طرف قاف لیگ کے رہنما چودھری شجاعت حسین نے سیاسی جماعتوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر زیادہ چیخ و پکار نہ کریں۔ چودھری صاحب نے یہ بھی کہا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات میں اضافے سے عام آدمی کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اب ہر شخص کی آمدنی اچھی ہے۔  تیسری طرف ایک سعودی شہزادے نے پاکستان کے چیف جسٹس کو خط لکھا ہے کہ پاکستانی حکام حاجیوں کی رہائش گاہیں جس طریقِ کار اور جن نرخوں پر لے رہے ہیں اس میں بہت زیادہ کرپشن ہے۔ وزارت مذہبی امور نے اس کا زبردست جواب دیا ہے۔ ایسا جواب جو مکمل خاموش کر دے۔ وزارت نے کہا ہے کہ یہ خط جعلی ہے! داغ دہلوی نے کسی ایسے ہی موقع پر کہا تھا؎ پڑا فلک کو کبھی دل جلوں سے کام نہیں جلا ...