اشاعتیں

نومبر, 2009 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

اگر کھڑے ہو تو چل پڑو

ایم کیو ایم کو واضح ہو کہ اس نے پہلے ہی بہت دیر کر دی ہے۔ اسے پیغام تو اسی وقت بھیج دیا گیا تھا جب مریض کے حلق نے دوا آگے گزارنے سے انکار کر دیا تھا۔ قاصد کو تلقین کی گئی تھی کہ اس نے راستے میں کہیں نہیں رکنا بس چلتے جانا ہے۔ ایک بستی سے دوسری بستی کی طرف‘ دوسری سے تیسری اور تیسری سے چوتھی بستی کی طرف اور اگر رکنا بھی پڑے تو صرف روٹی کے چند نوالوں اور پانی کے چند گھونٹ پینے کیلئے رکے اور ایم کیو ایم کو جا کر پیغام دے کہ اگر بیٹھے ہوئے ہو تو اٹھ کھڑے ہو جائو اور اگر کھڑے ہوئے ہو تو چل پڑو! ایم کیو ایم کو واضح ہو کہ قاصد چاشت کے وقت روانہ ہو گیا تھا پھر دوپہر ہو گئی اور مریض کی حالت زیادہ بگڑنے لگی۔ سب کی آنکھیں دروازے پر لگی تھیں۔ لیکن جنوب سے کوئی نہ آیا‘ قاصد نہ کبوترنہ رقعہ! سہ پہر کو مریض کے حلق سے ڈرائونی آوازیں آنے لگ گئیں‘ جھاڑ پھونک کرنے والے آ گئے‘ عورتوں نے سروں پر پٹیاں باندھ لیں اور سینوں پر دو ہتھڑ مارنے لگ گئیں۔ مردوں نے شملوں والی پگڑیاں اتار کر پھینک دیں اور چارپائیاں اور کڑھے ہوئے غلافوں والے تکیے جمع کرنے گلی گلی گھر گھر پھیل گئے۔ نوشتہ دیوار پڑھا جا رہا تھا‘ لیکن...

تابوت

اس کوشش میں عرصہ ہی لگ گیا، اس اثنا میں جناب پروفیسر فتح محمد ملک نے مقتدرہ قومی زبان کے چیئرمین کا منصب چھوڑتے وقت، اپنے جانشین کے طور پر جو تین نام تجویز کئے، ان میں سرفہرست اس فقیر کا نام تھا۔ ملک صاحب کی منطق یہ تھی کہ نفاذ اردو کیلئے زمین ہموار ہو چکی ہے اور اب مقتدرہ کا سربراہ کسی ایسے شخص کو ہونا چاہئے جو بیوروکریسی سے، کسی احساس کم تری کے بغیر بات کرسکے اور افسر شاہی کے اندر اور باہر کو بخوبی جانتا ہو، ظاہر ہے حکومت کا ظاہری مرکز اسلام آباد لیکن اصل مرکز ملتان تھا۔ پینل میں شامل ایک اور دوست ملتان سے تھے اور نظریاتی طور پر بھی وہ اربابِ حل و عقد کو زیادہ راس آسکتے تھے۔ میرا نام سرفہرست ہونے پر ذوالکفل بخاری کی مسرت کی انتہا نہ تھی۔ میں نے اسے بتایا کہ پی آر میں صفر ہونے کی وجہ سے میری کامیابی کا کوئی امکان نہیں، لیکن اس نے نظریاتی طور پر صف بندی کرلی اور میرے لئے کوششیں کرنے لگا۔ نظریاتی حوالے سے اپنے (اور میرے) کسی نہ کسی حوالے سے اسے مقتدرہ اور اوپر کے فیصلہ سازی کے مرکزوں کی خبریں ملتی رہتی تھیں اور وہ مجھے معاملے کی پیش رفت سے آگاہ کرتا رہتا۔ اس کی بے تابی سے بعض اوقات مجھ...

سید برادران

چلئے مان لیا! آصف علی زرداری منصب صدارت سے ہٹ گئے لیکن صرف اتنا بتا دیجئے، آپ سید برادران کا کیا کرینگے؟ اکیس برس پہلے فوجی آمر کا تختِ رواں ہوا میں تحلیل ہوا اور بے نظیر بھٹو سربر آرائے حکومت ہوئیں تو بتایا گیا کہ وہ خرابی کی جڑ ہیں۔ یہ جڑ کاٹ دی گئی لیکن سید برادران وہیں کے وہیں رہے۔ پھر نواز شریف آئے، انہیں بھی ہٹا دیا گیا۔ سید برادران قائم و دائم رہے پھر دوبارہ بے نظیر آئیں ایک بار پھر نواز شریف آئے، دونوں ہٹا دئیے گئے۔ سید برادران وہیں کے وہیں رہے، پھر پرویز مشرف نے شب خون مارا اور آٹھ سال سروں پر منڈلاتا رہا، ہمیں یقین دلایا گیا کہ وہی ساری مصیبتوں کا سبب ہے۔ اسے ہٹانے کیلئے کوشش کرنیوالوں نے کوشش کی، ایڑی چوٹی کا زور لگا، وہ ہٹ گیا تو معلوم ہوا کہ سید برادران کو کچھ فرق نہیں پڑا۔ اب آصف زرداری کو ہٹانے کی باتیں ہو رہی ہیں، مجھے آصف علی زرداری سے کوئی عقیدت ہے نہ ہمدردی! جس صدرِ مملکت کے شب و روز پراسراریت میں لپٹے ہوئے ہوں، اور جو بڑے بڑے سے بڑے حادثے پر کبھی نظر نہ آیا ہو اور جسکے آگے پیچھے ایسے لوگ ہوں، جیسے اب اسکے آگے پیچھے ہیں، اس صدرِ مملکت ک ساتھ کوئی اندھا ہی عقیدت رک...

شکنجے سے آتی ہوئی آوازیں

آل پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے سربراہ جناب سکندر خان کی خدمت میں یہ اطلاع نہایت ادب سے پیش کی جاتی ہے کہ خالد کو جب شکنجے میں کسا گیا تو پہلے یہ اس کے پائوں کو ڈالا گیا، پائوں کی ہڈیاں تڑا تڑ ٹوٹ گئیں، پھر آہستہ آہستہ شکنجے کو اوپر سرکایا جاتا رہا، ہڈیاں ٹوٹتی گئیں، تڑ تڑ تڑ، ہڈیاں ٹوٹنے کی آوازیں وہ لوگ سن رہے تھے جو اس زمانے میں غلے کے ایک ایک دانے کو ترس گئے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ شکنجہ خالد کے سر تک پہنچ گیا اور اس کا دم نکل گیا! فرشتے آسمانوں پر حیران ہیں کہ جب چینی کے کارخانوں کے مالکوں کی طرف سے جناب سکندر خان مسابقتی کمشن میں پیش ہوئے اور نرم برتائو کی درخواست کی تو انہیں یہ حکم کیوں نہیں دیا جا رہا تھاکہ آسمان سے پتھر برسائیں! غضب خدا کا! چینی کی فیکٹریوں کے مالکان نے پہلے گٹھ جوڑ کیا اور کارٹل بنایا۔ کارٹل انگریزی میں اس مجرمانہ اکٹھ کو کہتے ہیں جو کارخانوں کے مالک بے بس صارفین کو اذیت پہنچانے کے لئے کرتے ہیں۔ ان کارخانہ داروں نے سب کچھ کیا۔ ذخیرہ اندوزی کی حالانکہ اللہ کے آخری رسولؐ نے صاف صاف حکم دیا تھا کہ ’’جس نے ذخیرہ اندوزی کی وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔ پھر انہوں...

مسّلح افواج اور سول سروس… ایک تقابل

سرپر بال کسی زمانے میں ہوں گے، اب نہیں تھے جو جھالر کی صورت میں باقی تھے، سفید تھے۔ جُھریوں کا لشکر چہرے کی طرف ہر اول دستہ بھیج چکا تھا اور چہرے کے کچھ حصے پر قبضہ بھی کر چکا تھا۔ لہجے میں دُکھ تھا۔ بے پناہ دُکھ۔ احتجاج تھا، ایسا احتجاج کہ اگر اس کا بس چلتا تو شاہراہ دستور پر واقع طاقتور ’’اداروں‘‘ کو وہ ضرور تہس نہس کر دیتا۔ ’’میں نے حکومت پاکستان کو اپنی زندگی کا بہترین حصہ دیا۔ اڑتیس سال۔ دیانت داری سے کام کیا۔ حکومت کے خزانے کے اربوں کھربوں روپے بچائے اور حکومت نے میرے ساتھ کیاکیا؟ ریٹائرمنٹ پر ایک پلاٹ دیا تاکہ میں گھر بنا کر سر چھپا سکوں لیکن ایسی جگہ جہاں اگلے دس سال تک گھر نہیں بنایا جاسکتا۔ وہاں تو گائوں کے گائوں آباد ہیں۔ وہاں تو سڑک تک نہیں بنی اور وہ جو ساری زندگی ’’صحیح‘‘ طریقے سے ’’نوکری‘‘ کرتے رہے، انہوں نے راتوں رات اپنے پلاٹ ’’وی آئی پی‘‘ سیکٹروں میں ’’منتقل‘‘ کرا لئے، یہ ہے اس حکومت کا انصاف!‘‘ اُس کا سانس پھول چکا تھا۔ میں نے اُس کیلئے پانی منگوایا اور تسلّی دینے کی کوشش کی۔ ’’آپ کی شکایت حق بجانب ہے، لیکن ایسا تو بہت سے سرکاری ملازموں کے ساتھ ہوا ہے اور مسل...

روحوں سے ملاقات

میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ان لوگوں کی جو‘ اب اس دنیا میں نہیں ہیں‘ روحیں مجھے ملنے آئیں گی اور وہ بھی آدھی رات کو! مجھے تسلیم کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ ہے نہ جھجک کہ میں ایک ڈرپوک آدمی ہوں اور یہ آج سے نہیں‘ بچپن سے ہے۔ گائوں میں چرواہے شام کو اپنے ریوڑ واپس لاتے تھے۔ میں گلی میں کھیل رہا ہوتا‘ اور کوئی بیل یا راکھی کرنیوالا کتا گزرتا تو میں دیوار کے ساتھ لگ جاتا۔ میرے ساتھی میری یہ حالت دیکھ کر قہقہے لگاتے اور شام کے بعد صحن سے اٹھ کر اندھیرے کمرے میں جانے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ اسکے برعکس میرے بہن بھائی لالٹین لیکر بے دھڑک اندر چلے جاتے! یہ دو دن پہلے کی بات ہے۔ میں آدھی رات کو بیدار ہوا۔ کیوں؟ اسکی وجہ مجھے نہیں معلوم! مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے کسی نے بہت آہستگی سے میرے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔ مجھے پیاس محسوس ہوئی۔ میری بیوی ایک بڑے تھرموس میں پانی ڈال کر گلاس سمیت میری چارپائی کے پاس رکھ دیتی ہے۔ میں نے ایک گلاس پانی غٹاغٹ پیا‘ لیکن عجیب بات ہے کہ میری پیاس میں اس سے اضافہ ہو گیا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے میں دھوپ میں کئی میل پیدل چل کر آیا ہوں۔ ابھی میں نے دوسرا گلاس...

ہلیری کلنٹن کی اس فقیر کے گھر میں تشریف آوری

’’یہ اگست کی بات ہے، ایک سینئر سیاست دان مری جا رہا تھا اسکا روٹ طے ہو چکا تھا اور اسکے مطابق ہی اسکی گاڑیوں کے قافلے کیلئے راستہ ’’صاف‘‘ کر دیا گیا تھا لیکن اس کا روٹ بغیر کسی اطلاع کے تبدیل کر دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ نئی صورتحال میں ٹریفک وارڈنوں کو اتنا وقت نہ مل سکا کہ وہ نئے روٹ پر ٹریفک کو ہٹا سکتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لوئر ٹوپہ کے نزدیک سیاست دان کے قافلے کو کچھ دیر کیلئے رک جانا پڑا۔ فی الفور چیف سیکرٹری سے رابطہ کر کے شکایت کی گئی اور چیف ٹریفک افسر کو طلب کیا گیا۔ چیف ٹریفک افسر نے 30 سے زیادہ ٹریفک وارڈن معطل کر دیئے۔ الزام یہ تھا کہ وہ سیاست دان کے قافلے کو راستہ نہ ’’مہیا‘‘ کر سکے۔ اسکے بعد ایک انکوائری کی گی اور 25 ستمبر کو چار ٹریفک وارڈن ملازمت ہی سے برطرف کر دیئے گئے۔ دس دوسرے وارڈنوں کی ملازمتیں بھی معطل کر دی گئیں اور بیس کیخلاف محکمانہ کارروائی جاری ہے۔ یہ سب کچھ تو ہوا ہی، اسکے علاوہ یہ بھی ہوا کہ آئی جی پنجاب نے مری کے ڈی ایس پی ٹریفک کو بھی معطل کر دیا۔ پیارے ہم وطنو! یہ ہے ہمارا پاکستان!!‘‘ راولپنڈی کے ٹریفک وارڈن کے اس خط کا جو تیس اکتوبر کے اخبارات میں شائع ہ...