اشاعتیں

اکتوبر, 2009 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

نئے کسریٰ

کوئی ایک مصیبت اس قوم پر ہوتی تو اس کا علاج بھی ممکن ہوتا‘ یہاں تو پے درپے مصیبتیں ہیں ڈھانچہ ایک ہے اور اس کو بھنبھوڑنے والے زیادہ ہیں۔ صرف وہ تو نہیں جو پنجوں سے نوچ رہے ہیں۔ وہ بھی ہیں جن کے دانت نوکیلے لمبے اور تیز ہیں۔ وہ تو ہڈیاں تک چبا رہے ہیں۔ وہ بھی ہیں جن کی چونچیں کدالوں جیسی ہیں۔ ان میں سے ایسا کوئی بھی نہیں جسے دیکھ کر عفریت کانوں کو ہاتھ نہ لگائیں۔ اس قوم پر کوئی ایک مصیبت تو نہیں! ابھی تو ملک بنا بھی نہیں تھا کہ یونینسٹ پارٹی کی شکل میں جاگیردار چھری کانٹے لے کر انتظار میں کھڑے ہو گئے۔ کیا ہی نامبارک گھڑی تھی جس وقت ٹوڈیوں کے اس گروہ کو مسلم لیگ میں آنے دیا گیا!کاش ایسا نہ ہوتا! یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی عرضداشت ملکہ برطانیہ کو پیش کی تھی کہ برصغیر سے انگریز نہ جائے۔ یہ عید کے دن انگریز ڈپٹی کمشنر کی کوٹھی پر مبارکباد دینے جاتے تھے۔ گھنٹوں کھڑے رہتے چپڑاسی آ کر بتاتا تھا کہ صاحب بہادر نے مبارک باد قبول کر لی ہے۔ اس پر یہ غیرت مند ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہوئے گلے ملتے تھے۔ تاریخ کو ابھی تک یاد ہے کہ اپنے ہم وطنوں سے فرعونوں کا سلوک کرنے والی یہ گاجر مولیاں جب ...

’’وڈیروں سے وردی تک‘‘

مجھے جب اس تقریب کے منتظم اعلیٰ جناب سعید اختر ملک نے شرکت کا حکم دیا تو میں اپنی جھونپڑی کے سامنے زمین پر بیٹھا دھوپ سینک رہا تھا۔ میں نے اپنی سی کوشش کی کہ مجھے کچھ نہ کہا جائے لیکن ملک صاحب نہ مانے۔ مجھے یہ بتانے بلکہ تسلیم کرنے میں کوئی باک نہیں کہ میں ایک اُجڈ اور منہ پھٹ دیہاتی ہوں۔ مجھے جہاں کئی اور عوارض لاحق ہیں، دو تکلیفیں، خاص طور پر دوسروں کیلئے، تکلف دہ ہیں۔ ایک یہ کہ میرا تعلق اٹک سے ہے اور دوسرے میں اعوان ہوں۔ اٹک جسے وڈیروں نے نقصان پہنچایا اور وردی نے فائدہ کوئی نہیں دیا۔ ہاں یہ ضر ور ہے کہ اٹک کے علاقے نے فوج کو جوان بہت دیئے اور بہادر جوان دیئے۔ مجھے یاد ہے میں کالج پڑھتا تھا جب 1965ء کی جنگ چھڑی اور میں نے سنا کہ گائوں کا ایک جوان جو کمانڈو تھا مہم پر دشمن کے علاقے میں اُترا اور پھر کبھی واپس نہ آیا۔ یہ وہی گائوں ہے جس نے کچھ عرصہ ہوا خادمِ پنجاب کی خدمت میں پریس کے ذریعے فریاد کی ہے کہ ڈسپنسری منظور ہوئے پانچ سال ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک ایک پتّہ بھی نہیں ہلا۔ ابھی تک یہ فریاد سُنی نہیں گئی۔ حالانکہ گائوں والے یہ یقین دلانے کیلئے تیار ہیں کہ اگر یہ ڈسپنسری بن گئی ت...

طِبّی معائنے کیلئے سات سمندر پار

جس بچے سے ہم نے ابن بطوطہ کے مزار کا پتہ پوچھا وہ ہمیں ساتھ لے کر چلنا شروع ہوگیا لیکن یوں لگتا تھا زمانہ بھی اور ہے اور جہان بھی دوسرا ہے۔ عجیب و غریب طلسماتی کوچے ایک دوسرے کے اندر سے نکلتے اور ایک دوسرے کے اندر ہی گُم ہو جاتے۔ کہیں سیڑھیاں نیچے جا رہی تھیںاور کہیں اُوپر۔سینکڑوں سال پہلے تعمیر کی گئی یہ گلیاں عجیب ڈیزائن اور نقشے کی تھیں۔ ہوا بھی تھی اور دھوپ بھی،  کئی منزلہ گھر، قدیم دروازے جو خوبصورت بھی تھے اور پُراسرار بھی، اور کم سن گائیڈ رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ شک ہوا کہ نہ جانے اسے مزار کے بارے میں معلوم بھی ہے یا نہیں، لیکن پوچھنے پر اُس کی خوداعتمادی میں کوئی کمی نہ آئی۔ آخر کار ایک گلی میں جو نشیب سے بلندی کی طرف جا رہی تھی، وہ رُکا اور بائیں طرف واقع ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا جو افسوس! مقفل تھا۔ اور جس شخص کے پاس مزارکے بند دروازے کی چابی تھی وہ شہر کے جدید حصے کی طرف گیا ہوا تھا اور کئی گھنٹوں بعد اُس نے لوٹنا تھا۔ دس بارہ سالہ عرب لڑکی جس کا نام سبرین تھا اور جو مسلسل میری گھر والی کے ساتھ اچھی خاصی انگریزی میں گفتگو کر رہی تھی خوش تھی، چاہتی تھی کہ ہم...

گندم کے درخت کی اونچائی

ان میں کوئی بھی تھری پیس یا ٹُو پیس سُوٹ پہنے ہوئے نہیں تھا۔ کسی نے نیلی شلوار قمیض پر نیلی واسکٹ (جواب متکبر سیاست دانوں کے ساتھ مختص ہو چکی ہے) ملبوس نہیں کی ہوئی تھی۔ کسی کے چہرے پر رعونت نہیں تھی‘ اسی لئے جب ظہرانہ شروع ہونے کا اعلان ہوا تو کوئی پلیٹ ہاتھ میں لیکر دوڑانہ کسی نے کسی کو دھکا دیا۔ یہ ایک گائوں تھا۔ محرومیوں اور عُسرت کا شکار گائوں! لیکن دعوتِ ولیمہ کے شرکا تہذیب کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔ اکثریت آرام سے بیٹھی رہی اور جو اُٹھے وہ قطار میں کھڑے ہو کر کھانا لیتے رہے۔ اور جنہوں نے کھانا لیا‘ اُنکی پلیٹیں اور پیٹ دیکھ کر ایک اور شہر یاد آیا نہ ایک اور برادری جو دونوں چیزوں کے لئے بدنامی کی حد تک ’’مشہور‘‘ ہے!  میرا عقیدہ ہے اور اس پر میرے شہری دوستوں نے ہمیشہ مجھے لعن طعن کی ہے اور کئی بار مارنے کُٹنے کا عزم کیا ہے کہ تہذیب ہمیشہ دیہات میں اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ وہیں سے اسکے سوتے پھُوٹتے ہیں اور جو کوئی بھی استفادہ کرتا ہے‘ انہیں سوتوں سے کرتا ہے۔ اب اگر تہذیب سے کوئی مبہوت کرنیوالی عمارتیں‘ مرمر‘ فانوس اور بیش قیمت سواریاں مراد لیتا ہے تو اسکی اپنی ہمتِ فکر ہے‘ لیکن ...

اگر اس مقدس زمیں پر مرا خون نہ بہتا

اس خدا کی قسم! جس نے یہ ملک دیا ہے یہ ملک ان کا ہے جنہوں نے اس کی کیاریوں میں پانی کی جگہ اپنا خون بہایا ہے! نہیں! یہ پاکستان جونکوں کا عفریتوں کا نہیں! ہر گز نہیں! یہ پاکستان ان کا ہے جنہوں نے اسے خون دیا اور اسے خون ہمیشہ انہوں نے دیا جنہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ہر قدم شہادت کی طرف جا رہا ہے۔ یہ ملک حوالدار زرخان، حوالدار استحضار حسین، حوالدار ریاض، نائیک رفیق، لانس نائیک شاہد اقبال، حوالدار ایوب لانس نائیک قدرت اللہ، سپاہی رب نواز، شیخ محمد وقاص سول انجینئر وارث علی، نائب قاصد احمد دین، محمد اشتیاق، کرنل وسیم عامر اور بریگیڈئر انوارالحق کا ہے۔ ایسے موقعوں پر ہمیشہ مجید امجد یاد آتا ہے۔ شہید ان لوگوں سے مخاطب ہوتا ہے جو اس ملک کیلئے خون تو دور کی بات ہے ٹیکس تک نہیں دیتے۔ تم اس وقت کیا تھے؟ تمہارے محلوں تمہارے گھروں میں تو سب کچھ تھا آسائشیں بھی وسیلے بھی اس کبریائی کی ہر تمکنت بھی! سبھی کچھ تمہارے تصرف میں تھا، زندگی کا ہر اک آسرا بھی کڑے بام و در بھی خزانے بھی زر بھی چمن بھی ثمر بھی مگر تم خود اس وقت کیا تھے؟ تمہاری نگاہوں میں دنیا دھوئیں ک...

کاشت

فرض کریں مرحوم سوویت یونین افغانستان پر چڑھائی نہ کرتا، افغان مزاحمت نہ کرتے، سی آئی اے کے ذریعے امریکہ مدد نہ کرتا، جنرل ضیاء الحق میدان میں نہ کودتا، اوجھڑی کیمپ کا حادثہ نہ ہوتا، جرنیل زادے کھرب پتی نہ بنتے!  فرض کریں امریکی ڈالروں کی مدد سے کئے گئے اس جہاد کے نتیجے میں ہمارا ملک افغان مہاجروں کیلئے دبئی نہ بنتا، ٹرانسپورٹ اور مزدوری پاکستانیوں کے ہاتھ سے نہ چھینی جاتی ہم کلاشنکوف اور ہیروئن سے محفوظ رہتے!  فرض کریں نائن الیون کا سانحہ (جس نے بھی کیا) نہ ہوتا، امریکہ طالبان کی حکومت ختم نہ کرتا۔ فرض کریں جنرل مشرف کو ٹیلی فون نہ آتا۔ وہ امریکہ کے سامنے رکوع میں نہ جاتا۔ فرض کریں بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود، ملا عمر اسامہ بن لادن، ایمن الظواہری، کوئی بھی نہ ہوتا۔ فرض کریں صوفی محمد نہ ہوتے، ملا فضل اللہ، مولوی شاہِ دوراں، مسلم خان، کسی کا بھی وجود نہ ہوتا!۔ فرض کریں سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، جیش محمد اور دیگر’جہادی‘ تنظیمیں وجود میں نہ آتیں۔ … تو پھر کیا پاکستان میں آج امن وامان ہوتا؟ ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں رواں ہوتیں؟ جرائم کا نام و نشان نہ ہوتا؟ اور اکیلی ع...

غلام

سلطنتِ روما کے جنگی جہاز سینکڑوں کی تعداد میں تھے۔ سمندروں کی نیلگوں وسعتیں اُنکے سامنے سمٹ سمٹ جاتی تھیں۔ زمانۂ امن میں یہ جہاز بادبانوں پر انحصار کرتے تھے لیکن جنگ کی حالت میں چپوئوں سے مدد لینا پڑتی تھی تاکہ آہستہ خرامی شکست کا باعث نہ بنے۔ ہر جنگی جہاز کے نچلے حصے میں دونوں طرف سوراخ کردیئے جاتے تھے۔ ان سوراخوں سے چپوئوں کے سرے باہر نکال لئے جاتے تھے اور اندر، دونوں طرف، چپّو چلانے کیلئے غلاموں کو مامور کیا جاتا تھا! جہاز کے اس نچلے حصے کو گیلی کہتے تھے! آج ہم میں سے بہت کم کو معلوم ہے کہ یہ غلام کی بدترین قسم تھی۔ یہ غلامی جنگی قیدی ہوتے تھے یا سزا یافتہ مجرم۔رات دن مسلسل چپّو اور دیوہیکل جہاز کھینا آسان نہ تھا۔ ان غلاموں کی مسلسل نگرانی کی جاتی تھی۔ وقتاً فوقتاً کوڑوں کی سنسناہٹ ان کی پیٹھوں پر لہو ابھارتے نشان چھوڑتی تھی۔ انہیں زنجیروں کے ساتھ باندھا جاتا تھا اور جہاز ڈوبنے کی صورت میں یہ سب سے پہلے ڈوبتے تھے۔ اگر جہاز کو شکست ہوتی تو فاتح سب سے پہلے ان غلاموں ہی کو قتل کرتے۔ اور اگر فتح ہوتی تو ان کی بے کنار غلامی میں اور وسعت پیدا ہو جاتی! غلاموں کا ایک اور منظر دیکھئے۔ یہ مص...

نہیں! ڈاکٹر فاروق ستار! نہیں!

ڈاکٹر فاروق ستار صاحب! آپ نے یہ کیا کیا؟ کیا آپ اس ملک میں نہیں رہتے؟ کیا آپ اس کی تاریخ سے واقف نہیں؟ کیا آپ بچے ہیں؟ افسوس! آپ نے ایسی بات کہی جس نے آپ کو ساری اشرافیہ میں تنہا کر دیا ہے! آپ پر لوگ ہنس رہے ہیں۔ انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ اگر آپ کے یہی طور اطوار رہے تو وہ لوگ جو ایم کیو ایم کو مہاجروں تک محدود کئے جانے پر خوش تھے‘ مغموم ہو جائیں گے۔ وہ اب تصور بھی نہیں کر سکتے کہ ایم کیو ایم کو اپنی غلطی کا احساس ہو رہا ہے اور وہ پورے پاکستان کے مسائل کو اپنے مسائل سمجھنے لگی ہے۔ڈاکٹر فاروق ستار! آپ کی یہ جرأت کہ آپ نے زراعت پر ٹیکس لگانے کی بات کی اور وہ بھی کس سے؟ محترمہ حنا ربانی کھر سے؟ یہ نصیب اللہ اکبر! لوٹنے کی جائے ہے۔ کیاآپ شہباز کو یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے پنجے سے لہولہان چڑیا کو چھوڑ دے؟ کیا آپ شیر کو یہ تجویز دے رہے ہیں کہ وہ بکری کا خون آلود ڈھانچہ اپنے دانتوں سے رہا کرکے باہر پھینک دے؟ کیا آپ جنگل کو کہہ رہے ہیں کہ اپنے آپ پر شہر کا قانون نافذ کر دے؟ کیا آپ شہنشاہ کو کہہ رہے ہیں کہ وہ تخت و تاج سے دستبردار ہو کر انتخابات منعقد کرائے؟ کیا آپ ناک کٹے غلام کو فوج کا سپہ سالار ...

برہمن اور مسلمان

مجھے سیاستدان بہت پسند ہیں اور اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں! کیا آپ نے ایک پرائیویٹ نجی ٹیلی ویژن کے ٹاک شو میں وہ پروگرام نہیں دیکھا جس میں ریلوے کے وفاقی وزیر اپنی ماتحت خاتون افسر کے بارے میں فرما رہے تھے کہ وہ انکی بیٹی کی طرح ہے بلکہ عمر میں انکی بیٹیوں سے بھی چھوٹی ہے۔ کیا اس سے زیادہ نرمی، شفقت اور جذبۂ رحم سیاست دانوں کے علاوہ کوئی اور جنس دکھاسکتی ہے؟ اب اگر کوئی یہ پوچھے کہ خاتون سی ایس پی افسر مریم گیلانی کی جگہ واقعی وفاقی وزیر کی دُختر ہوتی تو کیا وہ اسے بھی ایک فہرست دے کر یہ حکم دیتے کہ ان افراد کو ہر حال میں بھرتی کرنا ہے؟ تو یہ تو بال کی کھال اتارنے والی بات ہے ۔سیاست دان مجھے اس لئے بھی پسند ہیں کہ وہ ہمیشہ ہر حال میں سچ بولتے ہیں۔ اسی پروگرام میں محترم وفاقی وزیر نے میرٹ کا ذکر سُن کر کہا کہ کون سی میرٹ؟ لیکن کمال کی بات انہوں نے یہ کہی کہ جرنیل کا بیٹا جرنیل ہوتا ہے اور سیکرٹری کا بیٹا سیکرٹری ہوتا ہے۔ یہ معصومیت اور بے پناہ علم ہی تو سیاست دانوں کا مجھے متاثر کیے رکھتا ہے خدا بھلا کرے فوج کے کمیشن کے طریق کار کا، بے شمار جرنیلوں کے بچے کاکول نہیں پہنچ سکتے اور...