اشاعتیں

اگست, 2009 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

وطن اور تارکینِ وطن

میں کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں ہوں اور ناخوش ہوں۔ ٹورنٹو آبادی کے لحاظ سے کینیڈا کا سب سے بڑا شہر ہے۔انٹاریو صوبے کا یہ دارالحکومت جھیل انٹاریو کے کنارے ایک سرسبز کھیت کی طرح لہلہا رہا ہے۔اس شہر کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اسکے تقریباََ پچاس فی صد باشندے کینیڈا سے باہر پیدا ہوئے ہیں۔ٹورنٹو کو دنیا کے ان چند شہروں میں سرِ فہرست قرار دیا گیا ہے جو رہنے کیلئے بہترین ہیں۔اس امتیاز کی وجہ یہ ہے کہ یہاں جرائم کی شرح کم ہے،ماحول صاف ستھرا ہے، معیارِزندگی بلند ہے اور مختلف رنگوں،نسلوں اور مذہبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ باہم شِیر و شکر ہو کر رہ رہے ہیں۔ ٹورنٹو پہنچنے کے تھوڑی دیر بعد نمازِجمعہ کا وقت ہو گیا۔میزبان ایک مسجد میں لے گئے۔مولانا جو مملکتِ خداداد سے درآمد کیے گئے تھے استعمار سے کئی سو سال کی غلامی کا بدلہ یوں لے رہے تھے کہ اُن کی زبان کی ایسی تیسی کر رہے تھے۔انگریزی میں خطبہ دیتے وقت وہ گرامر،لغت،لہجہ ہر شے سے اپنے بنیادی اختلاف کا اظہار کر رہے تھے لیکن افاقہ مجھے اُس وقت آیا جب انفاق فی سبیل اللہ کے تمام مطالب،تمام مفاہیم اور تمام تشریحات کا اطلاق حضرت نے اُس چندے پر کیا جو اُنکے مرکز کے...

مری خصلت بیابانی رہے گی

غصہ مجھے بھی بہت آتا ہے جب تارکین وطن اپنے انتہائی آرام دہ اپارٹمنٹوں میں یا بڑے بڑے محلات میں یا جہاز سائز کی کاروں میں بیٹھ کر ملک کیلئے پریشانی کا اظہار کرتے ہیں‘ میرا بھی دل چاہتا ہے انہیں کہوں کہ اتنی ہی تشویش ہے تو چھوڑ کرکیوں آئے؟ میں بھی انہیں طعنہ دینا چاہتا ہوں کہ آپ کو جانا ہے تو جائیں ایسی کوئی بات نہیں بیت ہی جائے گی آخر تکلیف کی پہلی رات نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ غصہ جائز ہو گا‘ اور کیا یہ طعنہ زنی حق بجانب ہوگی؟ نظرآتا ہے جو کچھ اصل میں ایسا نہیں ہے مگر تم نے میری جاں! مسئلہ سمجھا نہیں ہے اسی لئے تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے دعا مانگی تھی کہ پروردگار! مجھے چیزیں اس طرح دکھا جس طرح اصل میں ہیں‘ اس طرح نہیں جیسے نظر آتی ہیں! اگر کوئی صرف اس لئے جاتا ہے کہ مچھر پریشان کرتے ہیں‘ سیوریج ٹھیک نہیں ہے‘ بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے تو اس کا جانا نا جائز ہے۔ تکلیف آئے تو مل کر کاٹنی چاہئے۔ بھوک پیاس گرمی سردی سب کیلئے برابر ہو تو کوئی یہ ملک چھوڑ کر نہ جائے لیکن جب لوڈشیڈنگ سے خلق خدا بے حال ہو رہی ہو‘ ساٹھ ساٹھ گھنٹے لوگ بجلی کے بغیر رہیں اور اسی ملک میں ایک اقلیت ایسی بھی ہے...

اقتدار کا قاف

چاچے غلام محمد نے گھوڑی پر زین رکھی اور نوار کی اُس چوڑی پٹی کو جسے ’’تنگ‘‘ کہاجاتا ہے، گھوڑی کے پیٹ سے دوسری طرف لا کر زین کسَی۔ پھر اُس نے وسیع و فراح حویلی میں گھوڑی کو کئی چکر لگوائے جب کہ خود اُسکے آگے آگے لگام پکڑ کر چلتا رہا۔ وہ گھوڑی کو وارم اَپ کررہاتھا! پھر وہ اُسے حویلی سے نکال کر دوسری حویلی کی طرف لایا جس میں رہائشی حصے تھے اور دروازے کے باہر چبوترے کے نزدیک انتہائی جچے تُلے حساب کتاب کیساتھ اس طرح کھڑا کیا کہ چبوترے پر کھڑے ہو کر سوار ہونیوالی خاتون کو ذرا بھی دقت نہ ہو۔خاتون سوار ہوئی اور فراخ زین پر جو جگہ باقی تھی وہاں، خاتون کے آگے بچے کو بٹھا دیا گیا۔اس بچے کو چاچا غلام محمد آج بھی کل کی طرح یاد ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ جس دن بچے نے چاچے کو صرف غلام محمد کہہ کر پکارا تھا، دادا نے تھپڑ رسید کیا تھا کہ یہ غلام محمد نہیں چاچا ہے۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ چاچے نے دانت کبھی بھول کر بھی صاف نہیں کئے تھے۔ ویسے تھپڑ بچے کو اُس دن بھی پڑا تھا جس دن اُس نے خود کُشی کو خود کَشی کہا تھا اور تھپڑ مارنے والے نے تھپڑ مار کر کہا تھا کہ لوگ کیا کہیں گے کہ یہ جھنڈیال والے بابے کا پوتا ہے...

شیر شاہ سوری

دو ہزار نو کی جولائی کا دسواں دن تھا۔ اس دن بھی مملکتِ خداداد میں لوڈشیڈنگ زوروں پر تھی۔ اس دن بھی صدر، وزیراعظم، وزرائ، گورنروں اور وزرائے اعلیٰ کے محلات میں اس قدر ٹھنڈک تھی کہ مکینوں کو کمبل اور رضائیاں کرنا پڑی تھیں۔ خدا کے نام پر حاصل کی گئی اس مملکت میں اس دن بھی آقاؤں اور غلاموں کی زندگیاں الگ الگ بسر ہو رہی تھیں۔ انکے محلے الگ الگ تھے، ان کے بچوں کے تعلیمی ادارے الگ الگ تھے۔ انکی خریداری کے بازار الگ الگ تھے۔ یہاں تک کہ غلاموں اور آقاؤں کے لباس بھی الگ الگ تھے۔ جولائی کا دسواں دن تھا۔ گرم اور حبس آلود موسم میں وہ وزارتِ خارجہ میں چار بجے تک بیٹھا کام کرتا رہا۔ اس وزارت کا سارا حساب کتاب اسکے ذمے تھا۔ ایک تھکا ہوا دن کاندھوں پر لادے وہ اٹھا، چھوٹی پرانی گاڑی میں بچے کھچے پیسوں سے سی این جی ڈلوائی اور لاہور کی طرف چل پڑا۔ اس دن بھی شاہراہوں پر غلاموں کو روکا گیا تھا جہاں بھی وہ تھے اور جس حال میں بھی وہ تھے، خواہ وہ ہسپتال کی طرف دم توڑتے مریضوں کو لے جا رہے تھے یا ٹرینوں اور جہازوں کو پکڑنے کیلئے دوڑ رہے تھے یا اپنے بیمار بچوں کو دوا جلد پہنچانے کیلئے بے تاب تھے۔ وہ جہاں بھی تھے...