اشاعتیں

جون, 2009 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

ایک اور دن

جب پھوٹی کونپل دھوپ کی ہم گھر سے نکلے پھر شہر کی بہتی دھار میں ہلکورے کھائے اک لہر کی دست درازیاں ساحل تک لائیں اک ریستوران میں چائے پی اور جسم سکھایا اب دھوپ درخت جوان تھا،چھتنار ہوا تھا سو ہم نے تنہا ریت پر تنہائی تانی اور اس کے نیچے رنگ رنگ کی باتیں کھولیں کچھ باتیں گزرے وقت کی، جو ہم نے دیکھا کچھ آنے والے وقت کی جو کس نے دیکھا ڈاکٹر وحید احمد کی نظم’’ایک دن‘‘ جس کا پہلا نصف حصہ اوپر دیا گیا ہے، ان تیرہ بختوں کی روداد ہے جن کا کوئی دن کامرانی سے ہم کنار نہیں ہوتا۔ جو ہر آنے والے دن کا رشتہ امید سے باندھتے ہیں لیکن ظفراقبال کے بقول…؎ درِ امید سے ہو کر نکلنے لگتا ہوں تویاس روزنِ زنداں سے آنکھ مارتی ہے ایک دن…جو دوسرے دنوں سے مختلف نہیں۔ کس طرح کٹتا ہے۔ کاٹنے والے ہی کو معلوم ہے ۔میں صبح اٹھتا ہوں۔ ابھی اخبارات کا پلندہ گیٹ کے پاس نظر نہیں آتا۔ غسل خانے میں جا کر بارش کرنے والے ولایتی آلے کے نیچے کھڑا ہوتا ہوں۔ صابن جسم پر ملا ہوا ہے۔ پانی ختم ہو جاتا ہے۔ میں چیخ کر کہتا ہوں ’’پانی والی موٹر چلائو‘‘۔ بیوی اسی طرح چیخ کر باورچی خانے سے جواب دیتی ہے۔’’بجلی نہیں ہے۔‘‘ ناقابل بیان مراحل سے...

جانگیا

تاریخ پر مجھ سے زیادہ آپکی نظر گہری ہے، آپ جانتے ہیں کہ سلطان محمد تغلق کو پڑھا لکھا ہوا بے وقوف کہا جاتا ہے۔ اچھا بھلا دارالحکومت دلی میں تھا مزاج شاہی میں ابال آیا اسے دولت آباد لے گیا، وہاں جا کر حماقت کا احساس ہوا تو واپسی کا حکم دیا کچھ لوگ جانے میں اور بہت سے واپسی کے دوران ہلاک ہوئے۔ خزانہ خالی ہو گیا۔لیکن بادشاہ کے اللے تللے وہی رہے اس نے اتنے ٹیکس لگائے کہ خلق خدا چیخ اٹھی ہم لوگ اس وقت لاہور میں رہتے تھے صبح کا کھانا کھاتے تو شام کو فاقہ ہوتا۔ شام کو سوکھی روٹی چائے میں گھول کر تنور شکم بھرتے تو اگلی صبح گھر میں خدا کا نام ہوتا۔میرے پاس ایک پرانی گدھا گاڑی تھی بالکل شکستہ، انچر پنجر ہلا ہوا، قرض لیکر اور بچوں کا پیٹ کاٹ کر نئی خریدی، سواری کے بغیر گزارہ مشکل تھا عورتوں کے عجیب موڈ ہوتے ہیں گھر والی کو نئی گدھا گاڑی دیکھ کر اپنا پرانا شوق سیاحت یاد آیا اور بچوں کو تیار کر کے ایتوار کی صبح اس نے اعلان کیا کہ ہم اسلام آباد کی سیر کو جا رہے ہیں۔ میں نے پوچھا کیسے جاؤ گی تو تنک کر جواب دیا کہ تم اپنی نئی گدھا گاڑی پر لیکر جاؤ گے۔بچے نہائے دھوئے ہوئے سروں کو تیل سے چوپڑے خوش خوش بی...

نہیں! جناب وزیر اعظم! نہیں!

جون کے دوسرے ہفتے کا آغاز ہے۔ وزیر اعظم پاکستان کے دفتر سے تین اہم وزارتوں کے سیکرٹریوں کو ایک خط لکھا جاتا ہے۔ خط میں بتایا جاتا ہے کہ ایک وزیر اور ایک ایم این اے نے تجویز پیش کی ہے کہ فلاں افسر کو مندرجہ ذیل چھ عہدوں میں سے کسی ایک پر لگایا جائے۔ ان چھ میں سے دو عہدے بیرون ملک ہیں۔ (امریکہ اور برطانیہ کی تخصیص کی گئی ہے) اور باقی ایسے ہیں کہ تنخواہ اور مراعات لاکھوں میں ہیں۔ اور قضا و قدر پر قبضہ الگ ہے۔ خط میں تینوں سیکرٹریوں کو حکم دیا جاتا ہے کہ بارہ دن کے اندر اندر اس بارے میں رپورٹ حاضر کی جائے۔ وزیر اعظم کے اس حکم نامے سے مندرجہ ذیل اصول وضع ہوتے ہیں۔ 1۔ وزیر اور ایم این اے اپنی پسند کے اہلکاروں کے لئے اپنی پسند کے عہدے تجویز کر سکتے ہیں۔ 2۔ وزیر اعظم کے دفتر سے ان تجاویز پر کارروائی کے لئے ہدایات جاری کی جائیں گی۔ 3۔ ان عہدوں پر فائز ہونے کیلئے ضروری ہے کہ کسی ایم این اے یا وزیر سے سفارش کرائی جائے۔ 4۔ وزیر اعظم یا ان کا دفتر ’’تجویز‘‘ کرنے والے وزیروں یا ایم این اے کو یہ نہیں کہے گا کہ اس سلسلے میں کوئی طریق کار موجود ہے جس میں آپ کی سفارش یا ’’تجویز‘‘ کی گنجائش نہیں ہے۔ ان چ...

سی این جی … مائی لارڈ … سی این جی

اگر آپ شمال کی طرف سفر کریں اور کرتے جائیں تو کرۂ ارض کے آخری چپٹے سرے پر بحیرۂ آرکٹک ہے۔ پھر قطب شمالی۔ جہاں زمین ختم ہو جاتی ہے یا یوں کہئے کہ گول ہونے کی وجہ سے دوسری طرف نکل جاتی ہے۔ کرۂ ارض کے اس جگہ ختم ہونے کے بعد اگر آپ سمجھتے ہیں کہ وہاں خلا ہے‘ تو آپ غلطی پر ہیں۔ وہاں ایک ملک کرۂ ارض سے الگ‘ سب سے جدا‘ سب سے انوکھا بستا ہے۔ آج جو کہانی ہم سنا رہے ہیں وہ اسی انوکھے ملک کی ہے۔ ہمارا اشارہ حاشا و کلّا کسی اور ملک کی طرف نہیں۔ اُس ملک میں چرواہے کو ہٹا کر بھیڑیا مالک بن بیٹھا۔ کالی بھیڑیں بھیڑئیے کے ساتھ مل گئیں۔ کالی بھیڑوں کو قاف اتنا پسند آیا کہ وہ اپنے آپکو کالی کے بجائے ’’قالی‘‘ بھیڑیں کہلاتی تھیں۔ اس بھیڑیے نے بھیڑوں کو پکڑ پکڑ کر دوسرے بھیڑیوں کے حوالے کرنا شروع کر دیا اور دوسرے بھیڑیوں کو آزادی فراہم کی۔ اس قدر کہ وہ جب چاہتے آتے اور بھیڑوں کو ہلاک کر جاتے یا پکڑ کر لے جاتے۔ قاف کی کالی بھیڑوں کے تعاون سے بھیڑیا اس قدر بے باک ہو گیا کہ اُس نے سب سے بڑے جج کو اُسی کے اہلِ خانہ سمیت قید کر دیا اور اپنی مرضی کے ایک اہلکار کو اس کی جگہ جج مقرر کر دیا۔ کالے کوٹوں میں ملبوس وکی...

غلیل

بچہ کافی دیر سے وہاں کھڑا تھا۔ لیکن میں نے اُس کی موجودگی اُس وقت محسوس کی جب وہ بورڈ کی طرف مسلسل دیکھے جا رہا تھا اور ہنسنے لگا تھا۔عمر یہی بارہ تیرہ سال ہوگی۔ شلوار قمیض میں ملبوس‘ پیروں میں پشاوری چپل پہنے وہ بچہ بالکل عام بچوں جیسا لگ رہا تھا لیکن جب وہ تحریکِ انصاف کے بورڈ کو دیکھ کر ہنسنے لگا اور پھر ہنستا ہی رہا تو مجھے اچنبھا ہوا۔ بورڈ پر صرف اتنا لکھا تھا ’’دفتر تحریکِ انصاف‘‘ اس میں ہنسنے کی بات تو کوئی نہیں تھی۔ بچے کی ہنسی اور تحریکِ انصاف کا بورڈ … میں یہ پہیلی بوجھنے کیلئے اُسکے پاس چلا گیا اور اُس سے ہنسی کا سبب پوچھا۔ میرا سوال سن کر وہ پھر ہنسا۔ مجھے فراق کا شعر یاد آ گیا …؎ رونا فراق کا تری تصویر دیکھ کررونے کے بعد پھر تری تصویر دیکھنابالآخر وہ مجھ سے مخاطب ہوا۔’’بڑے میاں! آپ کو تعجب ہو رہا ہے کہ میں تحریکِ انصاف کے بورڈ کی طرف دیکھ کر ہنس رہا ہوں۔ آپ کا تعجب بجا ہے۔ میرے اعصاب مضبوط ہیں کیونکہ میں کسی شہری بابو کا GIRLISH بچہ نہیں ہوں۔ میں قبائلی بچہ ہوں۔ میرے اعصاب مضبوط ہیں۔ ورنہ یہ بورڈ دیکھ کر تو مجھے رونا چاہئے تھا! مجھے تو تعجب اسکے اندازِ تخاطب پر ہو رہا تھا ...

مدارس ہمارے قلعے ہیں

میکالے نے فارسی کو قتل کیا اور اور ہماری خواندہ آبادی راتوں رات ان پڑھ قرار دی گئی۔ اس وقت مدرسے بقا کی جنگ نہ لڑتے تو جانے ہمارا کیا حال ہوتا! تنقید کرنی آسان ہے اور نکٹائی کی گرہ ٹھیک کرکے‘ ناک سکوڑ کر‘ باریش نوجوانوں کو نگاہ غلط انداز سے دیکھنا چنداں مشکل نہیں۔ لیکن جو جنگ مدارس نے لڑی ہے۔ وہ ایک طویل جنگ تھی۔ انہیں پیٹ پر پتھر باندھنا پڑے اور سفید چمڑی والوں اور ان کے گندمی رنگ کے حواریوں کی بہت باتیں سننا پڑیں لیکن وہ ثابت قدم رہے اور تقسیم ہند تک اپنا کردار نبھاتے آئے۔ وہ جو مدارس میں پڑھ رہے ہیں‘ کیا وہ ہمارے ہی لخت ہائے جگر نہیں؟ کیا وہ ہماری آنکھوں کی پتلیاں نہیں؟ کیا وہ پرائے ہیں اور ہمارے صرف وہ ہیں جو آکسفورڈ اور کیمبرج کے نصاب ازبر کر رہے ہیں؟ نہیں! ہرگز نہیں! یہ باریش نوجوان ہمارے اپنے ہیں۔ ہمارے جسم کا حصہ ہیں۔ ہمار ے دلوں کے ٹکڑے اور ہماری آنکھوں کی روشنی ہیں لیکن ان کے کچھ حقوق ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کے حقوق انہیں دئیے جا رہے ہیں؟ ان کا پہلا حق… سب سے بڑا حق… یہ ہے کہ انہیں وہ تعلیم دی جائے جو انہیں آج کی دنیا میں کسی احساس کم تری کا شکار نہ ہونے دے اور ا...

گھاس کے ایک گٹھڑ کے عوض

شاعر اور پروفیسر جلیل عالی اور اس کی پروفیسر اہلیہ کو اگر یہ معلوم ہوتا کہ چھتیس چھتیس برس (جو کل بہتر برس بنتے ہیں) پڑھانے کے بعد اُن کے چھوٹے سے گھر میں دن دہاڑے پانچ ڈاکو آئیں گے اور سب سے بڑے صوبے کی انتہائی نیک نام پولیس اُن کی عمر بھر کی کمائی کی ایک رمق بھی واگزار نہیں کرا سکے گی تو وہ دونوں کبھی پروفیسر نہ بنتے۔ سکندراعظم نے کہا تھا کہ ’’باپ مجھے آسمان سے زمین پر لایا لیکن استاد مجھے پھر زمین سے آسمان پر لے گیا۔‘‘ پروفیسر جلیل عالی اور اس کی اہلیہ ان بہتر سالوں میں ہزاروں بچوں اور بچیوں کو آسمان کی رفعتوں پر لے گئے۔ انہوں نے اپنے بچے کو پالا‘ پوسا‘ پڑھایا‘ جوان کیا‘ ڈاکٹر بنایا‘ ڈاکٹری میں مزید اعلیٰ تعلیم دلا کر سرجن بنایا اور پھر وہ بچہ افواجِ پاکستان کو سونپ دیا۔ اگر انہیں معلوم ہوتا کہ اُن کے ساتھ یہ کچھ ہوگا جس کے بعد کچھ بھی نہیں ہوگا تو وہ بیٹے کو ڈاکٹر بنا کر فوج میں بھیجنے کے بجائے پولیس کا افسر بناتے۔ پھر اُن کے گھر کے باہر ایک پکٹ (Picket) ہوتی۔ لکڑی کا کمرہ ہوتا‘ ہر آٹھ گھنٹے بعد پہریداروں کی ٹولیاں بدلتیں‘ راہگیر قریب سے گزرنے کی بھی ہمت نہ کرتے۔ کیا پنجاب کے عوام ...

تم نے انسان کو گملے میں سجا رکھا ہے

تصویر

ہائے یہ مریض

تصویر

Growing Polarization of Religious elements in Pakistan

Daily The Bangladesh Today, Dhaka June 2, 2009 ------------------------------------------------ With every passing day the line between pro Taliban and Anti Taliban ulama (religious scholars) is getting sharper- and more trenchant. The most important question is: are the ulama, belonging to the school of thought to which Taliban too belong, doing enough to diffuse the sectarian rift rising dangerously?It is no secret that Taliban, of whatever hue, belong to Deobandi School of thought. Right from Mulla Umar, who once ruled over Afghanistan, to Maulana Sufi Muhammad and his son in law Maulana Fazlullah, all subscribe to Deobandi school of thought. In Zia's days when "jihad" in Afghanistan was going on in full swing, former students of Madrasa Haqqanya were at the forefront. This madrasa located on Grand Trunk Road between Indus and Peshawar, has been a landmark in the then anti Soviet Union struggle. Although present situation is different but the over all faith...