ایک اور دن
جب پھوٹی کونپل دھوپ کی ہم گھر سے نکلے پھر شہر کی بہتی دھار میں ہلکورے کھائے اک لہر کی دست درازیاں ساحل تک لائیں اک ریستوران میں چائے پی اور جسم سکھایا اب دھوپ درخت جوان تھا،چھتنار ہوا تھا سو ہم نے تنہا ریت پر تنہائی تانی اور اس کے نیچے رنگ رنگ کی باتیں کھولیں کچھ باتیں گزرے وقت کی، جو ہم نے دیکھا کچھ آنے والے وقت کی جو کس نے دیکھا ڈاکٹر وحید احمد کی نظم’’ایک دن‘‘ جس کا پہلا نصف حصہ اوپر دیا گیا ہے، ان تیرہ بختوں کی روداد ہے جن کا کوئی دن کامرانی سے ہم کنار نہیں ہوتا۔ جو ہر آنے والے دن کا رشتہ امید سے باندھتے ہیں لیکن ظفراقبال کے بقول…؎ درِ امید سے ہو کر نکلنے لگتا ہوں تویاس روزنِ زنداں سے آنکھ مارتی ہے ایک دن…جو دوسرے دنوں سے مختلف نہیں۔ کس طرح کٹتا ہے۔ کاٹنے والے ہی کو معلوم ہے ۔میں صبح اٹھتا ہوں۔ ابھی اخبارات کا پلندہ گیٹ کے پاس نظر نہیں آتا۔ غسل خانے میں جا کر بارش کرنے والے ولایتی آلے کے نیچے کھڑا ہوتا ہوں۔ صابن جسم پر ملا ہوا ہے۔ پانی ختم ہو جاتا ہے۔ میں چیخ کر کہتا ہوں ’’پانی والی موٹر چلائو‘‘۔ بیوی اسی طرح چیخ کر باورچی خانے سے جواب دیتی ہے۔’’بجلی نہیں ہے۔‘‘ ناقابل بیان مراحل سے...