اشاعتیں

اپریل, 2009 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

اے خوشا شہرے…

یہ ایک ہفتہ پہلے کی بات ہے جدہ ائرپورٹ پر سپرمارکیٹ کے ساتھ' ہال کے ایک گوشے میں مسجد نما جگہ بنی ہوئی ہے میں وہاں عشاء کی نماز پڑھ رہا تھا۔ ایک عرب آیا سب سے اگلی صف میں اکیلا' بلند آواز سے نماز پڑھنے لگا۔ یوں جیسے نماز باجماعت کی امامت کرا رہا تھا پوری ایک رکعت اس نے اکیلے ادا کی جہری قرأت کیساتھ دوسری رکعت کے وسط میں ایک اور عرب آ کر اسکے ساتھ شریک ہوا۔ پھر ایک اور' جب اس نے سلام پھیرا تو پچھلی صف بھر چکی تھی۔ سعودیوں کی دو باتیں بھلی لگتی ہیں اور اپنے ہاں کے حوالے سے شدید احساسِ محرومی دیتی ہیں۔ انہوں نے نماز کو اپنی زندگیوں میں اس طرح رچا لیا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ ہماری طرح مسئلہ نہیں بنایا۔ جوتے صاف ہوں تو انکے ساتھ پڑھ لیتے ہیں۔ جرابیں ہوں تو ان پر مسح کر لیتے ہیں۔ گاڑی پر ڈیڑھ سو کلومیٹر فی گھنٹہ جا رہے ہوں اور نماز کا وقت آ جائے تو روکتے ہیں۔ اترتے ہیں اور کار کیساتھ کھڑے ہو کر پڑھ لیتے ہیں۔ دو ہوں تو کبھی اکیلے نہیں پڑھتے۔ جماعت کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ یہ بھی ممکن نہیں کہ وہ مسجد جائیں تو تحیتہ المسجد نہ ادا کریں۔ مجھے یاد نہیں کہ جمعہ کے خطبوں میں ہمارے ''علمائ...

عذاب … مگر کن کیلئے

اب اگر لوٹ مار کرنیوالے چاہتے ہیں کہ انہیں روکنے والا بھی کوئی نہ ہو اور اگر ان کی لوٹ مار کا ردِ عمل ہو تو وہ بھی انکی مرضی کا ہو تو وہ ظالم ہونے کیساتھ ساتھ احمق بھی ہیں۔ ہے کوئی ایسا اندھیر جو مملکتِ خداداد میں ان باسٹھ برسوں میں نہ ہوا ہو۔ پلاسٹک کے وزیر اعظم شوکت عزیز کے زمانے میں اٹھائیس ''بلٹ پروف مرسڈیز کاریں خریدی گئیں اور کیا آپ ظلم کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ کابینہ ڈویژن ان عظیم ہستیوں کے نام نہیں بتا رہا جو ان کاروں کو اپنے استعمال کی عزت بخش رہی ہیں۔ قومی اسمبلی کو کابینہ ڈویژن کے سیکرٹری بتاتے ہیں کہ یہ کاریں کابینہ ڈویژن کے افسر استعمال کر رہے ہیں اور صحافی جب پوچھتے ہیں کہ کون سے افسر… تو سیکرٹری صاحب فرماتے ہیں کہ نہیں یہ تو چھاپہ خانے کی غلطی ہے۔ ورنہ میرے افسر تو یہ کاریں استعمال ہی نہیں کر رہے۔ کون کر رہے ہیں…؟ منتخب نمائندوں کو کوئی بتانے کیلئے تیار نہیں! اس ملک کے معاملات پر ہر دوسرے ملک کو اختیار حاصل ہے' سوائے اس ملک کے عوام کو ۔ پطرس نے مرزا کی بائسیکل کے بارے میں لکھا تھا کہ اسکی ہر شے بجتی تھی۔ سوائے گھنٹی کے ہزاروں انسانوں کے قاتل اور ملک کی آزادی ...

یہ فیصلہ اب امامِ کعبہ ہی کریں

جدہ سے مکہ کی طرف سفر کریں تو راستے میں خشک پہاڑ ہیں' سنگلاخ زمینیں' اور کہیں کہیں مختصر میدان جو دراصل ٹیلے ہیں۔ ان ٹیلوں پر اونٹ بھی چر رہے ہوتے ہیں اور سعودیوں کی کاریں بھی کھڑی ہوتی ہیں۔ پکنک منانے کیلئے کسی خاص پکنک سپاٹ کی قید نہیں وہ شہر سے باہر کسی بھی جگہ قالین بچھا لیتے ہیں…؎ منعم بکوہ و دشت و بیاباں غریب نیست ہر جا کہ رفت' خیمہ زد و بارگاہ ساخت لیکن یہ خشک پہاڑ' یہ سنگلاخ زمینیں اور یہ ٹیلہ نما میدان' اہل پاکستان کی واحد پناہ گاہ ہیں۔ اس لئے کہ جس دلدل میں پاکستانیوں کو اتار دیا گیا ہے اور جس میں وہ مسلسل دھنسے جا رہے ہیں اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں سوائے اس کے کہ جو برداشت حرم میں ہے' وہ برداشت پاکستان میں بھی اپنائی جائے۔ ان سنگلاخ زمینوں میں پتھر کھا کر دعائیں دینے والے پیغمبرؐ نے جو محبت' رواداری اور اکرامِ مسلمہ سکھایا پاکستان میں اسکی آج شدید ضرورت ہے۔ یہ Life Saving Drog یہ زندگی بچانے والی دوا اگر اس مریض کو فوراً مہیا نہ کی گئی تو اندیشہ ہے کہ یہ جاں بلب بیمار تڑپ تڑپ کر جان دے دے گا! ہر رنگ کے پھول کی خوشبو بھی اپنی ہے۔ وہ دیکھئے کیرا...

افغانوں کا حق

ء1885 کا سال تھا اور مارچ کا مہینہ! افغانستان سرد تھا ' بالکل اسی طرح جس طرح زارِ روس اور برطانوی ہند کے تعلقات سرد تھے۔ روس جوں جوں جنوب کی طرف بڑھ رہا تھا' خیوا' بخارا' سمرقند اور ترمذ کو اپنی باہوں میں جکڑنے کیلئے برصغیر پر قابض انگریز اتنے ہی خوف زدہ ہوتے تھے اور ان کی وہ مکاری اور عیاری بروئے کار آنے لگتی تھی جس میں شاید ہی اُن کا کوئی ثانی ہو اور ستم ظریفی دیکھئے کہ دو درندوں کے درمیان … بکریوں کی اس تقسیم کو … ''گریٹ گیم'' کا نام دیا گیا ہے ! مسلمانوں کے رہنما آج تک یہ سمجھنے سے اور سمجھانے سے قاصر ہیں کہ آخر وہ بکریاں کیوں تھے؟ وہ تر نوالہ کیوں تھے؟ روسیوں نے جب انہیں ہڑپ کیا تو بخارا اور خیوا کے …کن ''مشاغل'' میں ''مصروف'' تھے؟ جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال اور بہار کی دیوانی لی تو مغل کیا کر رہے تھے؟ اور کانپور چھاؤنی میں جب توپیں پالش کی جا رہی تھیں نواب واجد علی کن ''کارہائے اہم'' میں سرتاپا غرق تھے اور نظامِ دکن کیا کر رہا تھا۔ ماسکو سے خیوا تک … آپ کو شاید معلوم نہ ہو … کرہِ ارض کی ہولناک ترین ...

Life without Ijtihad

The Nation Miss Hanadi Zakariyya Al-Hindi has created history by being the first female pilot in Saudi Arabia. Prince Al-Waleed, a business tycoon, owner of The Kingdom Holding Company, has employed the pilot for next ten years through a lucrative contract. His company, The Kingdom Holding Company, is the proud owner of a full-fledged fleet of jet airplanes. Al-Waleed was genuinely concerned with the emancipation and uplift of Saudi women. He celebrated the commission of the first female pilot by publishing full-page supplements in the Kingdom's newspapers. This all, however, did not go well will the hawks. They came down on the whole affair with heavy hands. The most thunderous was the voice of one Sheikh Yousuf Al-Ahmed, a professor of Islamic Law at Islamic University of Riyadh. The argument was that since a Muslim woman was not supposed to travel alone, unless accompanied by mahram (a male first relation like husband, father, brother etc) and since the pilot was a 'wom...

مُٹھی بھر مٹی

آذر بائیجان کا دارالحکومت باکو ہے لیکن ایک زمانہ تھا کہ گنجہ ساری دنیائے علم و ادب میں مشہور تھا۔ برصغیر کے علمی حلقوں میں گنجہ' نظامی گنجوی کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ وہی نظامی جو اپنے ''خمسہ'' کی وجہ سے معروف ہے۔ اس نے پانچ مثنویاں لکھیں جو خمسہ کہلاتی ہیں۔ اُس کے جواب میں کئی شعرا نے خمسے لکھے لیکن تاریخِ ادب نے نظامی کے بعد عزت صرف دو کو بخشی۔ جامی اور امیر خسرو کو۔ لیکن گنجہ مہستی گنجوی کے لئے بھی مشہور ہے۔ فارسی کی شاعرہ جس نے اپنے علم اور شاعری سے ادب کی تاریخ میں اپنا نام پیدا کیا۔ گیارھویں صدی عیسوی میں پیدا ہونے والی مہستی نے امیر احمد سے محبت کی اور برملا اظہارِ عشق کیا۔ رباعی کہنے میں وہ عمر خیام سے پیچھے نہیں۔ چشم چو بچشمِ خویش چشمِ تُو بدید بی چشمِ تو خوابِ چشم از چشم رمید ای چشمِ ہمہ چشم بچشمت روشن چون چشمِ تو چشمِ من دگر چشم ندید میری آنکھ نے جب اپنی آنکھ سے تمہاری آنکھ کو دیکھا تو تمہاری آنکھ کے فراق میں آنکھ سے' آنکھ کی نیند اُڑ گئی۔ تمہاری آنکھ ہی سے تو ساری آنکھوں کی آنکھ روشن ہے۔ میری آنکھ نے آج تک تمہاری آنکھ جیسی کوئی آنکھ نہیں دیکھی! … مہس...

اجل ان سے مِل

کوئی جا کر سوات کے مولانا صوفی محمد کی خدمت میں عرض کرے کہ حضرت ! آپ نے فرمایا ہے کہ جمہوریت کفر ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ جمہوریت واقعی کفر ہے تو آپ پاکستان کے غم میں دُبلے نہ ہوں۔ اس کفر کا پاکستان میں دور دور تک وجود نہیں ہے اور نہ مستقبل قریب میں کوئی خطرہ ہے! پاکستان میں جمہوریت…! کیسی جمہوریت…! اگر یہ سچ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت ہے تو پھر یہ بھی سچ ہے کہ ہتھیلی پر بال اُگتے ہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ بلی بچے نہیں انڈے دیتی ہے …! کسی پڑھے لکھے سنجیدہ پاکستانی کو پیپلزپارٹی یا مسلم لیگ سے کوئی امید ہے نہ قلبی تعلق۔ نون لیگ کو وہ لوگ بھی ووٹ دینے کیلئے پہلی بار نکلے جنہیں عدلیہ کے قتل کا دکھ تھا اور جو نوازشریف کے غیر مشروط اعلانِ جدوجہد سے متاثر تھے۔ نوازشریف نے عدلیہ کیلئے موقف اختیار کیا۔ اُس پر ثابت قدم رہے لیکن افسوس ! ان میں اتنی انقلابی فکر نہیں ہے کہ پارٹی کے اندر انتخابات کرانے والے پہلے پاکستانی سیاستدان بنیں! کسی پڑھے لکھے سنجیدہ پاکستانی کو پیپلزپارٹی سے یا مسلم لیگ سے کیا اُمید ہو سکتی ہے اور کیا تعلق ہو سکتا ہے ! ایک ہوش مند باضمیر پاکستانی ہمیشہ یہ کہے گا کہ میں ای...

…عقل اگر بازار سے مل سکتی

عقل اگر بازار سے مل سکتی تو آج سب سے زیادہ کن کے پاس ہوتی؟ …امریکی ریاست منی سوٹا میں ایک چھوٹا سا قصبہ راچسٹر ہے جہاں دنیا کا مشہور ترین ہسپتال میو کلینک ہے۔ ایک روایت کے مطابق دنیا کا پہلا بائی پاس (دل کا آپریشن) وہیں ہوا تھا۔ مشرقی اوسط کے ایک بادشاہ نے (سعودی نہیں) وہاں علاج کرانا تھا۔ راچسٹر کے ایک بڑے ہوٹل کی کئی منزلیں خرید لی گئیں' پھر ان میں تبدیلیاں کی گئیں تاکہ جہاں پناہ کے ''معیارِ زندگی'' سے مناسبت پیدا ہو۔ ان بہت سی تبدیلیوں میں ایک یہ بھی تھی کہ کمروں کے کنڈے تالے' چابیاں' غسل خانوں کی ٹونٹیاں اور وہ چیزیں جن کو ہاتھ سے چھونا پڑتا ہے' خالص سونے کی لگائی گئیں۔ نائن الیون کے بعد حالات بدل گئے' ہوٹل والوں نے یہ چیزیں نیلام میں فروخت کرنے کی کوشش کی لیکن امریکیوں نے خریدنے سے انکار کر دیا اس لئے کہ زندگی کو آرام دہ بنانے میں انکا کوئی کردار نہیں تھا۔ عقل اگر بازار میں مل سکتی تو آج سب سے زیادہ کن کے پاس ہوتی؟ 27 سالہ سعودی خاتون کپتان ہنادی ذکریا ہندی نے ہوا بازی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور پہلی سعودی خاتون پائلٹ ہونے کا اعزاز حاصل کیا شہز...

جمہوریت … نسل در نسل

''میرے مرنے کے بعد سوائے میری لڑکی کے کوئی جانشینی کے قابل نہیں۔'' جمہوریت کا یہ پہلا بیج میری تاریخ میں سلطان شمس الدین التمش نے بویا تھا۔ شمس الدین التمش تو دل و جان سے چاہتا تھا کہ جمہوری روایات کے عین مطابق اہل ترین فرد تخت پر بیٹھے خواہ وہ شاہی خاندان سے نہ ہو … خواہ وہ خاکروب ہی کیوں نہ ہو … لیکن مشکل یہ آن پڑی کہ رضیہ سلطانہ کے علاوہ اور کسی میں اہلیت تھی ہی نہیں۔ چنانچہ عین جمہوری طریقے کے مطابق باپ کے بعد بیٹی نے تاج پہنا۔ پھر علائوالدین خلجی نے جب اپنے محسن جلال الدین خلجی کو قتل کیا تو جمہوریت کا ایک اور بیج بویا گیا۔ خود علائوالدین تخت نشین ہوا۔ پھر غیاث الدین تغلق بادشاہ بنا۔ بنگال کی بغاوت فروکر کے دارالحکومت واپس آیا تو اس کے فرزند جوناخان نے استقبال کیلئے لکڑی کا محل بنوایا۔ ''اتفاق'' دیکھئے کہ چھت گر گئی اور حضرتِ والا دب کر مر گئے۔ جمہوریت پھر بروئے کار آئی اور جونا خان نے محمد تغلق کے نام سے قوم کیلئے قربانی دینے کا عزم کیا۔ رخصت ہوا تو اپنے چچا زاد فیروز تغلق کو جمہوری طریقے سے جانشین بنوا گیا۔ پھر بہلول لودھی آیا۔ لودھی خاندان کا ارا...