اشاعتیں

مارچ, 2009 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

اوقات

پہلا منظر: … کون کہتا ہے کہ بچوں کی شادیاں کرنے کے بعد فراغت ہو جاتی ہے۔ میرا حال تو یہ ہے کہ کئی مہینوں سے بھمبھیری کی طرح چکر پہ چکر کھا رہی ہوں۔ پہلے دو ماہ ٹورنٹو رہی' رضیہ کے ہاں بچے کی ولادت تھی۔ آئی تو کراچی جانا پڑا۔ بیٹے اور اسکے بچوں کو ملے بہت دن ہو گئے تھے۔ اگرچہ یہ پیچھے بیمار تھے لیکن میں نے یہی کہا کہ نوکر آپکو سنبھال لے گا۔ اب بچوں ہی کیلئے ہے آخر ہماری زندگی جو تھوڑی بہت بچ گئی ہے۔ کراچی سے واپس آئی تو شاہدہ اور اسکے بچوں کو بلایا' کئی مہینوں سے بچے ننھیال نہیں آئے تھے۔ اگرچہ شاہدہ کے میاں کی سخت مصروفیت کے دن تھے اور اس کا کہنا تھا کہ ذہنی تنائو کے ان ایام میں بیوی کا اُسکے پاس ہونا ضروری ہے لیکن میں نے داماد کو سمجھایا کہ شاہدہ کو آنے دے۔ پندرہ دن ہی کی تو بات ہے۔ شاہدہ کے ابو کی تو اپنی مصروفیات ہیں۔ صبح گھر سے نکل جاتے ہیں۔ کبھی اس دوست کے پاس' کبھی اُس دوست کے پاس۔ شام کو آتے ہیں۔ ویسے اگر دن کو گھر رہیں بھی تو میں تو بچوں میں الجھی ہوئی ہوتی ہوں۔ میں شاہدہ کے ابو کو وقت بھی کہاں دے سکتی ہوں۔ بچوں کو نہلانا' سلانا' ہزار دھندے ہیں۔ اُدھر احمد بل...

نمرود سا بھی خانہ خراب آئے تو ہے کم

میری اس سے کوئی دشمنی نہیں ہے میرا آخر اس سے کیا جھگڑا ہے؟ میں ایک عام کالم نگار جس کے پاس جاہ و حشم ہے نہ کروفر تو دور کی بات ہے۔ دو وقت کی روٹی پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں اور کل کیلئے توکل کرتا ہوں۔ اور… وہ … ایوان میں دیوان پر متمکن بادشاہوں کیساتھ کندھا ملا کر چلنے والا اقتدار کی راہداریوں میں چہل قدمی کرنیوالا کم خواب اور حریر و اطلس جس کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ جہازی سائز کی لیموزین جس کیلئے چوبیس گھنٹے وسیع و عریض پورچ میں کھڑی ہیں خدام جس کے اشارے پر جیسے ہوا میں تیرتے ہوئے آتے ہیں۔ میرا اور اس کا کیا مقابلہ؟ میری بات گلی کا چوکیداربھی توجہ سے نہیں سنتا اور اس کے ایک اشارے پر ہلچل مچ جائے وہ کسی وزیر کسی وفاقی سیکرٹری' کسی صوبائی میر منشی' کسی سیٹھ' کسی جاگیردار' کسی صنعت کار کو ابرو کا اشارہ بھی کر دے تو کچے دھاگے سے بندھا چلا آئے۔ میرا اور اس کا کیا مقابلہ میرا اور اس سے کیا جھگڑا نہ ہماری جائیداد مشترکہ نہ ہمارے گھروں کی دیواریں سانجھی نہ ہماری رشتہ داری' نہ ایک دوسرے کے شریک' میں نے تو اسے دیکھا بھی نہیں' جن راہداریوں پر وہ حریر و اطلس اوڑھے چہل قدمی...

اے اہل ِ وطن !

یہ ایک تصویر تھی جو میں نے دیکھی اور میں دل گیر ہوا۔ میں دل گیر ہوا کہ کیا ہماری تقدیر یہی ہے؟ یہ تصویر کیا ہے، ہماری ساٹھ سالہ تاریخ کا نچوڑ ہے۔ ہماری نفسیات، ہماری معاشرت، ہماری ذہنی سطح، ہماری ذہنیت کا اس سے بہتر اور جامع تر ذکر ناممکن ہے۔ اس تصویر میں کوئی خاص بات بھی نہیں۔ یہ عبدالرحمان چغتائی کے موقلم کا شہکار ہے نہ مغل منی ایچر کا نمونہ ہے۔ اس میں عام رنگ ہیں نہ آئل کلر ہیں اگر دیکھو تو ایک عام تصویر ہے جو پاکستان کے ہر گلی کوچے کی ہر وقت کی عکاسی کرتی ہے۔ اگر سمجھو تو یہ تصویر پاکستان کا سب کچھ ہے۔ پاکستان کی تاریخ بھی جغرافیہ بھی قسمت بھی، ماضی بھی حال بھی اور جانِ استقبال بھی!کیا ہے اس تصویر میں؟ ایک عام پاکستانی ہے۔ اس کے چہرے پر کرب اور الم نظر آ رہا ہے۔ درد کی شدت سے دانت نظر آ رہے ہیں۔ آنکھیں بند ہیں۔ گال کنپٹیوں تک کھینچے ہوئے ہیں۔ کندھے جْھکے ہوئے ہیں اس پر قیامت گزر رہی ہے افسوس! کہ قیامت آ نہیں رہی۔ وہ تین آدمیوں کے نرغے میں ہے۔ تینوں نے اسے قابو میں کر رکھا ہے۔ تین میں سے ایک پولیس کی وردی میں ہے دو ''سفید'' کپڑوں میں ہیں۔ ان دو سفید کپڑوں والوں میں س...

مائی لارڈ

مائی لارڈ! عالی مرتبت چیف جسٹس جناب افتخار چودھری! میں نہایت احترام کے ساتھ' سینے پر ہاتھ باندھ کر… ادب سے گردن خم کر کے عرض گزار ہوں اور پوچھنے کی جسارت کرتا ہوں کہ کیا ڈیڑھ سالہ ہاشم کا مستقبل اب اِس ملک میں محفوظ ہے؟ مائی لارڈ…! ڈیڑھ سالہ ہاشم جس کا ماموں وطن چھوڑ کر دُور کے ایک ایسے دیس میں جا بسا ہے جہاں انصاف کا دور دورہ ہے۔ وہ ماحول کے ایک شعبے میں طِب کا ماہر ہے یعنی SPECIALIST فزیشن ہے جس کا پاکستان میں وجود تو کیا ہو گا' تصور ہی نہیں ہے۔ ELDERLY MEDICINE یعنی بوڑھوں کا ڈاکٹر۔ اس بہت بڑے نوجوان ڈاکٹر نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ بے بس ہو کر کیا تھا جب اُس نے دیکھا کہ اُس کے بوڑھے باپ کے ساتھ جس نے دیانتداری کے ساتھ حکومتِ پاکستان کی ملازمت کی تھی' ریٹائرمنٹ پر کیا سلوک ہوا تھا۔ جب اُس نے دیکھا کہ ریٹائر ہونے والے کروڑ پتی اور شراب میں نہانے والے فرعون صفت افسروں کو دو دو لاکھ مہینے کی ملازمتیں دی گئیں اور اس کے باپ کو۔ جس کی شہرت ان سب سے بہتر تھی' اور جس نے ریاست کے لئے اربوں کھربوں روپے بچائے تھے' ٹھوکروں پر رکھا گیا۔ اُس نوجوان ڈاکٹر نے فیصلہ کیا کہ آج اُس کا ...

کالی بھیڑ

کالی سیاہ رات تھی' ہَوا شائیں شائیں کر رہی تھی۔ گلیاں ٹھٹھری ہوئی تھیں۔ سب لوگ گھروں میں دبکے ہوئے تھے۔ بھیڑیا آیا اس نے چرواہے کو گردن سے پکڑا' انگوٹھا گلے پر رکھا' دبایا اور پنجرے میں ڈال دیا۔ صبح جب بھیڑیں اٹھیں تو چرواہے کی چوکی پر بھیڑیا بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے مختصر سی تقریر کی جس کا لبِ لباب یہ تھا کہ: '' چرواہا تمہارا دشمن ہے۔ تمہارے مفاد میں' میں نے یہ قدم مجبوراً اٹھایا ہے۔ میں تمہارے لئے وہ وہ کام کروں گا کہ تم چرواہے کو بھول جاؤ گی۔ تمہارے لئے نئی چراگاہیں دریافت کروں گا' تمہارے تھان جو گارے کے بنے ہوئے ہیں سیمنٹ اور رنگین ٹائلوں سے پکے کراؤں گا' تمہارے کھونٹوں کی لکڑی میں خالص سونے کی آمیزش ہو گی۔ تمہارے چارے کی کوالٹی میں زبردست قسم کی تبدیلیاں لائی جائیں گی' ان میں حیاتین' لمحیات اور کاربو ہائیڈریٹ کا تناسب اس طرح کیا جائے گا کہ تمہاری باں باں کم ہو جائے گی بلکہ ختم ہی ہو جائے گی لیکن تمہاری خوبصورتی میں اضافہ ہو جائے گا' تمہاری پشم ریشم کا مقابلہ کرے گی اور تمہارے دودھ کے سامنے آسٹریلیا کی گائے کا دودھ بھی شرمائے گا۔ '' ک...

گر‘ یہ نہیں تو بابا

ایک طویل کوشش کے بعد ' جو کئی صدیوں پر محیط تھی' روس نے وسط ایشیا کو اپنے بنچوں میں جکڑ لیا۔ ترکستان اور ماسکو کے درمیان کئی دریا اور کئی برف زار پڑتے تھے۔ ایسا بھی ہوا کہ روسی فوجیں برف کے طوفانوں میں تباہ و برباد ہو گئیں لیکن سفید ریچھ نے ہمت نہ ہاری۔ اس پر مستزاد یہ کہ نئی ٹیکنالوجی روس کو طاقتور سے مزید طاقتور کرتی رہی اور وسط ایشیائی مسلمان … باقی دنیا کے مسلمانوں کی طرح … لکیر کے فقیر رہے۔ ہر نئی ایجاد سے انہیں خوف آتا تھا۔ رہی سہی کسر مذہبی طبقوں نے پوری کر دی۔ برصغیر کی تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ جہانگیر کے دربار میں گوا ۔ سے آنے والا پرتگالی پادری پریس لایا تھا لیکن اُسے نامنظور کر دیا گیا جس کی ایک وجہ یہ تلاش کی گئی کہ ہمارے خطاط بے روزگار ہو جائیں گے۔ استنبول میں بھی ایسا ہی ہوا۔ جرمنی سے آنے والے ایک شخص نے عثمانی خلیقہ کی خدمت میں ماڈرن چھاپہ خانہ پیش کیا لیکن مفتیٔ اعظم نے اس کے عدم جواز کا فتویٰ دے دیا۔ یہی کچھ وسط ایشیا میں ہوا۔ ماسکو ترقی کی منزلیں طے کرتا رہا اور جنیوا' سمر قند' بخارا اور تاشقند میں وقت اپنی جگہ پر ساکت رہا۔ گھڑیاں رکی رہیں۔ ثمرقن...