اشاعتیں

فروری, 2009 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

Will tomorrow come?

Why do we Pakistanis leave everything to future? Why do we brush past aside? Has mitti pao become our national symbol of compromise? President Asif Ali Zardari, soon after he landed in the magnificent palace located behind the Parliament, proceeded to Saudi Arabia to perform Umra. True to the tradition of Pakistani rulers he took a bunch of 250 associates along with him who were housed in top class hotels in the vicinity of holy places. This was done at a cost of Rs 24.9 million. What followed was drastically different from past practice of rulers. The president, in the third week of January deposited this amount into national exchequer out of his personal resources. Barring early years of Pakistan, this act of the sitting president can safely be termed as unprecedented. Muhammad Ali Jinnah was meticulously honest for not financing his personal requirements from the exchequer. So was Liaquat Ali Khan. It is said that Chaudhry Muhammad Ali, as former PM, accepted Rs 18 (or 28) thousands...

یرقان

زمانہ 1850ء کے لگ بھگ کا ہے۔ مقام دلی ہے۔ وقت صبح کے ساڑھے تین بجے کا ہے۔ سول لائن میں بگل بج اٹھا ہے۔ پچاس سالہ کپتان رابرٹ اور اٹھارہ سالہ لیفٹیننٹ ہینری دونوں ڈرل کیلئے جاگ گئے ہیں۔ دو گھنٹے بعد طلوع آفتاب کے وقت انگریز سویلین بھی بیدار ہو کر ورزش کر رہے ہیں۔ انگریز عورتیں گھڑ سواری کو نکل گئی ہیں۔ سات بجے انگریز مجسٹریٹ دفتروں میں اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ چکے ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے سفیر سر تھامس مٹکاف دوپہر تک کام کا اکثر حصہ ختم کر چکا ہے۔ کوتوالی اور شاہی دربار کے خطوں کا جواب دیا جا چکا ہے۔ بہادر شاہ ظفر کے تازہ ترین حالات کا تجزیہ آگرہ اور کلکتہ بھیج دیا گیا ہے۔ دن کے ایک بجے سرمٹکاف بگھی پر سوار ہو کر وقفہ کرنے کیلئے گھر کی طرف چل پڑا ہے۔ یہ ہے وہ وقت جب لال قلعہ کے شاہی محل میں ''صبح'' کی چہل پہل شروع ہو رہی ہے۔ صبح صادق کے وقت مشاعرہ ختم ہوا تھاجس کے بعد ظلِ الٰہی اور عمائدین خواب گاہوں کو گئے تھے۔ اب کنیزیں نقرئی برتن میں ظلِ الٰہی کا منہ ہاتھ دھلا رہی ہیں اور تولیہ بردار مہ جبینیں چہرہ، پائوں اور شاہی ناک صاف کر رہی ہیں اور حکیم چمن لال شاہی پائے مبارک کے...

Pakistan's High Commissioner for Bangladesh

Mr. Alqama Khairuddin, the nominated High Commissioner is son of Khwaja Khairuddin who hailed from Dhaka's nawab family. The Nation The Bangladesh Today A section of Pakistani Press has slated Bangladesh's rejection of Pakistan's proposed High Commissioner. It is astonishing that even after thirty eight years, what is now left as Pakistan has not done any soul-searching in the context of losing the major chunk of its population as well as territory. One can only take pity on the intelligentsia of the country who, even now, are harping that the decision to declare Urdu as the only national language was correct. The conditions which led to breakup of Quaid-e-Azam's Pakistan are still prevailing and are holding the same potential. In this background it is not at all surprising that Pakistan is incapable of appreciating Bangladesh's inability to accept the recent nomination of High Commissioner. Mr.Alqama Khairuddin, the nominated High Commissioner is son of Khwaja Kha...

مجھے کیا خبر تھی کہ اصل میں وہ فرشتہ تھا

میں کنکر، مٹی اور پتے صاف کر رہا تھا اور میرا بیٹا دونوں ہاتھ منہ پر رکھے کچھ پڑھ رہا تھا۔ یہاں وہ شخص سویا ہوا تھا جو میرے گھر واپس آنے تک سوتا ہی نہ تھا، اور اب یہ حال تھا کہ میں اس کی خواب گاہ کی چھت سے کنکر، مٹی اور پتے ہاتھوں سے ہٹا رہا تھا اور وہ کروٹ بدل کر، جاگ کر، دیکھتا ہی نہیں تھا۔ اور کہہ ہی نہیں رہا تھا کہ ''میرے بچے! دیکھنا، کہیں کنکر چُبھ نہ جائیں، اور دیکھو، تمہارے ہاتھ خراب نہ ہو جائیں۔ یہاں وہ شخص محوِ خواب تھا جس کے ساتھ میں نے اپنی زندگی کے ساٹھ میں سے تقریباً چوّن سال گزارے اور کوئی ایک دن بھی ایسا نہ تھا جس دن میں نے کوئی نئی چیز نہ سیکھی ہو اور جس دن اس نے مجھے کوئی نیا نکتہ بتا کر حیران نہ کردیا ہو اور جس دن مجھے شدید احساسِ زیاں نہ ہوا ہو کہ افسوس! بحرِ دخار گھر میں تھا اور میں پیاسا ہی رہا۔ حکمت کا منبع اور علم کا مصدر میرے پاس تھا اور میں اِدھر اُدھر بھٹکتا رہا۔ سورج صحن میں تھا۔ دنیا آ کر روشنی جھولیوں میں بھر بھر کر لے جاتی رہی اور میں چراغ کی لو سیدھی کرتا رہا! میں نے کئی دفعہ کہا ہے اور لکھا ہے… ؎ بار ہا گفتہ ام و بارِ دگر می گویم پھر کہہ رہا ہوں ...