اشاعتیں

جنوری, 2009 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

Tale of a macabre country

Holiday International Some of the Pakistani newspapers have quoted a particular news agency stating that according to a recent release by World Health Organisation two hundred sixty-two thousand people were killed in 1971 Bangladesh War of Independence. Although I could not get hold of any such report on the Internet, yet the news item provides an opportunity to do some stocktaking. The emergence of Bangladesh draws an analogy at least in one aspect with 1857 upheaval. What for the Subcontinent was the war of independence was mutiny to British historians. While to Bangladeshis the 1971 event was the War of Independence, Pakistanis term as "separation of East Pakistan". Today when we look back, tragic paradoxes dominate the scene. Take for example Muhammad Ali Jinah's speech at Dhaka in which he declared Urdu as the only national language of Pakistan. Whosoever drafted that speech was either unaware of cultural and linguistic history of East Bengal or was not sincere to hi...

بھیتر بھیتر آگ

پانچ سال صرف پانچ سال۔ جو شیرشاہ سوری کو وقت کے بے کنار خلا سے میسر آئے۔ آخر کیا حیثیت رکھتے ہیں۔ مجید امجد کے بقول…؎ زمانے کی پھیلی ہوئی بیکراں وسعتوں میں یہ دوچار لمحوں کی میعاد طلوع و غروب مہ و مہر کے جاودانی تسلسل کی دوچار کڑیاں یہ لمحۂ مختصر جو مری زندگی میرا زادِ سفر ہے یہی کچھ ہے لے دے کے میرے لئے اس خراباتِ شام و سحر میں یہی کچھ لیکن ان پانچ سالوں میں جو کچھ شیرشاہ سوری نے کر دکھایا‘ وہ اکبر اور اورنگ زیب کے پچاس‘ پچاس سالوں‘ شاہ جہان کے اکتیس اور جہانگیر کے بائیس سالوں پر بھاری ہے۔ شاید ہی تاریخ کا کوئی ایسا طالب علم ہو جس کے ذہن میں‘ شیرشاہ سوری کے عہد کا جائزہ لیتے ہوئے یہ خیال نہ آیا ہو کہ اگر اس افغان کو بھی پچاس سال مل جاتے تو کیا عجیب آج کا برصغیر مختلف ہوتا۔ میرے ناقص علم کیمطابق افغانوں کے پلے سوائے ان پانچ سال کے اور کچھ ہے بھی نہیں جس پر وہ فخر کرسکیں۔ اُسکے بہت سے کارناموں سے قطع نظر (جن کے بیان کا یہ موقع نہیں) ایک کارنامہ ایسا ہے جو آج بہت یاد آ رہا ہے اور بری طرح یاد آ رہا ہے۔ شیرشاہ سوری اس معاملے میں حد درجہ حساس تھ...

خطرے کی کوئی بات نہیں

نامعلوم مقام پر یہ اجلاس کئی گھنٹوں سے ہو رہا تھا۔ دروازے آہنی تھے، کھڑکیاں بند تھیں، برآمدوں پر جگہ جگہ سنگین بردار پہریدار کھڑے تھے۔ فصیل کے اوپر برج تھے اور ہر برج پر توپ نصب تھی۔ چڑیا پر نہیں مار سکتی تھی۔ مکھی کے بھنبھانے کی آواز بھی دھماکہ لگتی تھی۔ بڑے سے بڑا منصب دار بھی روکا جا رہا تھا، اجلاس کئی گھنٹوں سے جاری تھا۔ بھارتی اور امریکی مندوب اسرائیل کے نمائندے پر برس رہے تھے۔ ان کا موقع واضح تھا۔ اسرائیل کو انتظار کرنا چاہئے تھا۔ فلسطینیوں پر حملہ کرنے کا یہ کون سا وقت تھا؟ یہ سراسر حماقت کا ارتکاب تھا۔ بھارتی اور امریکی مندوب اسرائیل کو سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ دن دیہاڑے کھلم کھلی جارحیت کا ارتکاب کر کے اسرائیل نے سارے منصوبے پر پانی پھیر دیا تھا۔ منصوبے کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ شب خون مارے جائیں، ہر کام چھپ کر کیا جائے تاکہ مسلمانوں کو متحد ہو نے کا موقعہ نہ ملے۔ وہ غافل ہی رہیں پھر جب سب کچھ کھوکھلاہو جائے تو آخری وار کیا جائے اور آخری وار کا وقت ابھی نہیںآیا تھا۔ غزہ پر چڑھائی کر کے اسرائیل نے سارے پلان کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ پوری دنیا میں مسلمان متحد ہو رہے ہ...