کسی مرد کو بلاؤ
اس حال میں بھی میرزا صاحب نے خاندانی وقار کا سودا نہیں کیا۔ پھٹی ہوئی قمیض‘ مفلر اور جرابیں سوراخوں سے اٹی ہوئی‘ لیکن ہمیشہ شیروانی اور چوڑی دار پاجامے میں ملبوس ہوتے۔ مسکرا کر سلام کا جواب دیتے اور بیٹھک میں اگرچہ صرف تین چار پرانی وضع کی کرسیاں تھیں لیکن جو بھی آتا‘ چائے کی پیالی پئے بغیر جانے نہ دیتے۔ تنگدستی روایتی شیروانی ہی کے نیچے نہ تھی‘ گھر میں بھی یہی حال تھا۔ کھانے میں اکثر دال اور چٹنی ہوتی‘ کبھی وہ بھی نہ ہوتی۔ کئی بار بجلی کا کنکشن بل نہ ادا کرنے کی وجہ سے کٹ گیا اور میرزا صاحب اور ان کے اہل خانہ اندھیرے میں راتیں گزارتے رہے لیکن کبھی کسی سے ذکر نہ کیا۔ وہ اپنی اُس خاندانی روایت کو نبھاتے چلے جا رہے تھے کہ مہمان کھانا کھانے لگے تو کسی نہ کسی بہانے چراغ بجھا دو تاکہ اسے معلوم نہ ہو گھر والے صرف منہ ہلا رہے ہیں۔ زرعی زمین کا آخری ٹکڑا انہوں نے بیٹی کی شادی پر فروخت کر دیا۔ کسی سے کبھی قرض مانگا نہ اپنی حالتِ زار سے پردہ اٹھایا۔ وہ اس خاندان سے تھے جس کے بڑے میر اور میرزا کہلواتے تھے۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب دروازے پر ہاتھی جھومتے تھے اور نوبت بجتی تھی‘ خادماؤں اور ملاز...