اشاعتیں

2009 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

کسی مرد کو بلاؤ

اس حال میں بھی میرزا صاحب نے خاندانی وقار کا سودا نہیں کیا۔ پھٹی ہوئی قمیض‘ مفلر اور جرابیں سوراخوں سے اٹی ہوئی‘ لیکن ہمیشہ شیروانی اور چوڑی دار پاجامے میں ملبوس ہوتے۔ مسکرا کر سلام کا جواب دیتے اور بیٹھک میں اگرچہ صرف تین چار پرانی وضع کی کرسیاں تھیں لیکن جو بھی آتا‘ چائے کی پیالی پئے بغیر جانے نہ دیتے۔ تنگدستی روایتی شیروانی ہی کے نیچے نہ تھی‘ گھر میں بھی یہی حال تھا۔ کھانے میں اکثر دال اور چٹنی ہوتی‘ کبھی وہ بھی نہ ہوتی۔ کئی بار بجلی کا کنکشن بل نہ ادا کرنے کی وجہ سے کٹ گیا اور میرزا صاحب اور ان کے اہل خانہ اندھیرے میں راتیں گزارتے رہے لیکن کبھی کسی سے ذکر نہ کیا۔ وہ اپنی اُس خاندانی روایت کو نبھاتے چلے جا رہے تھے کہ مہمان کھانا کھانے لگے تو کسی نہ کسی بہانے چراغ بجھا دو تاکہ اسے معلوم نہ ہو گھر والے صرف منہ ہلا رہے ہیں۔ زرعی زمین کا آخری ٹکڑا انہوں نے بیٹی کی شادی پر فروخت کر دیا۔ کسی سے کبھی قرض مانگا نہ اپنی حالتِ زار سے پردہ اٹھایا۔ وہ اس خاندان سے تھے جس کے بڑے میر اور میرزا کہلواتے تھے۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب دروازے پر ہاتھی جھومتے تھے اور نوبت بجتی تھی‘ خادماؤں اور ملاز...

بیلٹ

’’یوسف رضا گیلانی نے گرم جوشی سے ہاتھ ملایا اور مجھے بیلٹ باندھنے کا حکم دے دیا۔ میں نے ہنس کر بیلٹ باندھی اور ساتھ ہی عرض کیا ’’آپ بھی اپنی بیلٹ پر نظر رکھیں‘‘ ۔ انہوں نے اپنی بیلٹ کی طرف دیکھا، پھر میری طرف دیکھا اور ہنس کر بولے ’’ فکر نہ کریں۔ میں سیّد ہوں اور سید ہمیشہ اپنی بیلٹ کا خیال رکھتے ہیں‘‘۔ یہ اقتباس ایک معروف کالم نگار (اور محترم دوست) کی تحریر سے ہے جو وزیراعظم کے ساتھ ہوائی جہاز میں تھے۔ جناب یوسف رضا گیلانی کا یہ فقرہ کہ … میں سید ہوں اور سید ہمیشہ اپنی بیلٹ کا خیال رکھتے ہیں‘‘۔ پرسوں سے رہ رہ کر یاد آ رہا ہے۔ میں نے جس وقت سے وزیراعظم کا وضع کردہ قاعدہ کلیّہ سنا ہے کہ ’’گرفتار کرنے والا گرفتار کس طرح ہو سکتا ہے‘‘ اور جس وقت سے جناب بابر اعوان کو وزیراعظم کی یہ تلقین سنی ہے کہ …ع ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘ اس وقت سے وزیراعظم کا یہ فقرہ جو انہوں نے جہاز میں اپنی بیلٹ کے بارے میں کہا تھا، سر پر ہتھوڑے کی طرح برس رہا ہے۔ کیا قانون کے بارے میں اور احتساب کے بارے میں جناب وزیراعظم کا رویہ اتنا سرسری ہے؟ ۔ لیکن قانون اور احتساب کے بارے میں امیر الم...

عزیزن

بیس سالہ عزیزن کو کوئی جا کر بتائے کہ ابھی ہم زیادہ اہم مسائل میں اْلجھے ہوئے ہیں۔ یہ درست ہے کہ اس کا مسئلہ سنگین ہے۔ جو کچھ اسکے ساتھ ہوا، پتھر بھی سنے تو پگھل جائے۔ فرشتوں کا بس چلے تو آسمان سے چٹانیں برسائیں لیکن انہیں حکم نہیں دیا جا رہا۔ حکم دینے والا رسی کو ڈھیل دے رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ عزیزن کا مسئلہ سنگین ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم کہیں اور پھنسے ہوئے ہیں۔ ہم فی الحال عالم اسلام کی قیادت میں مصروف ہیں۔ چیچنیا ہو یا عراق، افغانستان ہو یا فلسطین، سب ہمارے مسئلے ہیں۔ ہم نے ان سارے ملکوں کے مجاہدوں کو اپنے ہاں پناہ دینی ہے۔ ہمارے مدرسوں میں پوری دنیا کے طالبان علم نے آ کر پڑھنا ہے۔ سعودی عرب اور مصر کی ہمارے مقابلے میں کیا حیثیت ہے؟ عالم اسلام کی زمام تو ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ہم فیصلہ کرینگے کہ جہاد کہاں ہونا ہے اور کہاں نہیں ہونا اور یہ اہم تر مسائل ہمیں اس قدر الجھا رہے ہیں کہ ہم ابھی عزیزن کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتے۔ عزیزن اگر اس خوش فہمی میں ہے کہ اس ملک کے علماء کرام اسکے مسئلے کی سنگینی کی وجہ سے آسمان سر پر اٹھا لیں گے تو وہ بہت سادہ لوح ہے یہ درست ہے کہ جو کچھ اسکے س...

کیا مائی لارڈ چیف جسٹس اس کا نوٹس لیں گے

مملکتیں جہاں ادارے بے توقیر ہوں، دیکھتے ہی دیکھتے ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہیں! ایسی مملکتوں کو کوئی نہیں بچا سکتا۔ نہ بین الاقوامی معاہدے، نہ کوئی قوتِ قاہرہ اور نہ مسلح لشکر۔ محفوظ تو کچھوا بھی ہوتا ہے لیکن اسے بچانے والی سخت کھال اتنی بھاری ہوتی ہے کہ وہ خطرے کے وقت بھاگ ہی نہیں سکتا اور وہی ’’بچانے‘‘ والی کھال اسے پکڑوا دیتی ہے! ملکوں کو ادارے بچاتے ہیں اور قوموں کو بین الاقوامی برادری میں عزت اس بنیاد پر ملتی ہے کہ ان قوموں کے ادارے کتنے مضبوط ہیں! اگر ذاتی پسند یا ناپسند اداروں کے انتظام میں دخل اندازی کرے اور سسٹم کوئی نہ ہو تو ادارے تباہ ہو جاتے ہیں اور یہ بات کسی کو پسند آئے یا بُری لگے، بات یہی ہے کہ ادارے تباہ ہو رہے ہوں تو یہ ملک کیلئے بدشگونی ہوتی ہے! کوئی ادارہ شاہ جہان اور اورنگ زیب عالم گیر کی وفات کے بعد تخت نشینی کا فیصلہ کرنے والا ہوتا تو برصغیر کی تاریخ وہ نہ ہوتی جو آج ہے! پاکستان کے صرف دو ادارے ایسے ہیں جہاں بھرتی کے حوالے سے میرٹ کی حکمرانی ہے! ان میں سے ایک کاکول ہے جہاں بّری فوج کیلئے افسر تیار ہوتے ہیں( معاملے کو آسان رکھنے کیلئے ہم فضائیہ اور بحریہ کی اکیڈ...

سرخ پتوں والے درختوں کا شہر

کتنے ہی اقلیم دیکھے اور انکے رنگ رنگ کے بلد۔ ہر ایک کا سرما نرالا ہی جلوہ لئے ہوئے تھا۔ میں آج تک نہیں بھول پایا۔ دسمبر کی ایک رات تھی اور میں تاشقند میں تھا۔ برفباری ختم ہونے کے تھوڑی دیر بعد چاند نکلا تھا۔ میں نے دو سال کی پیلالا کو اٹھایا ہوا تھا اور شاہراہ پر چلتا، سرائے کی طرف واپس جا رہا تھا۔ روس سے آئے ہوئے ولایتی درختوں کی شاخوں پر برف یوں لگ رہی تھی جیسے آسمان سے کسی طاقت ور بازو نے ہر طرف چاندی چھڑک دی ہو۔ شبیں تھیں اطلس کی، دن تھے چاندی کے تار جیسے بہشت اْترا   ہوا تھا   جیچوں   کے      پار      جیسے میں نے بحرِ روم کے ساحلوں پر ناپولی کا سرما بھی دیکھا ہے اور سوادِ روم کا بھی۔ بارشوںاور دھند میں لپٹی ہوئی اداسی لیکن زندگی اسی تیز رفتاری سے بھاگتی ہوئی! ہسپانیہ کے دلکش، سحر طاری کر دینے والے شہر بار سلونا کا سرما بھی دیکھا۔ شہر کے وسط سے گزرتی ہوئی شاہراہ جسے رم لاس کہتے ہیں اور جس پر صرف پیدل چلا جاتا ہے۔ بحرِ مراد کے کنارے بیٹھ کر اْس پار سے نظر آنیوالے اسرائیل کا سرما بھی دیکھا۔ خوں ...

پھانسی

میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ دونوں فریق ساڑھے گیارہ مرلے کے اس گھر میں اکٹھے ہوں گے جو کرائے کا ہے اور جہاں میری رہائش ہے۔ کوئی جانتا تھا کہ آگ اور پانی، شیر(طالبان) اوربکری، بھیڑیا (امریکہ) اور میمنا ایک جگہ پائے جائینگے اور وہ بھی اس حال میں کہ دونوں نہ چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کو تقویت پہنچا رہے ہونگے۔ جیسا کہ ہر خاص و عام کو معلوم ہے، میں جب طے کر لوں کہ فلاں مسئلہ اب حل کرنا ہی کرنا ہے تو پھر اس عزمِ صمیم کے سامنے کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں ہوسکتی۔ اگر بظاہر یہ ناممکنات میں سے بھی ہو تو ہر چہ بادا باد کہہ کر میں میدان عمل میں کود پڑتا ہوں۔ یہ جو ملک میں جھگڑا برپا تھا اور دونوں گروہوں نے ایک دوسرے کو گلے سے پکڑا ہوا تھا تو میں نے جھگڑا ختم کرانے کا فیصلہ کیا۔ ایک گروہ کہتا تھا کہ جتنی مصیبتیں اس ملک پر ٹوٹ رہی ہیں ان کی ذمہ داری طالبان پر ہے۔ یہ اقتصادی پسماندگی، لاقانونیت، یہ پتھر کے زمانے کے رسم و رواج، یہ بھوک یہ ننگ یہ بدحالی، یہ واماندگی اور یہ خستگی سب کچھ اس لئے ہے کہ ہمارے درمیان طالبان پائے جاتے ہیں۔ انکی پگڑیاں، ان کی داڑھیاں، ان کی گھٹنوں سے اوپر شلواریں، انکی ٹو...

SHOE - HORN

کچھ باتیں، کچھ واقعات اور کچھ شخصیات … بچپن کے حوالے سے کبھی نہیں بھلائی جا سکتیں۔ ایک بزرگ آتے تھے انہوں نے پاؤں میں چرمی موزے پہنے ہوتے تھے۔ تہمند، چرمی موزے اور کْھسہ نما جوتے ان کی شخصیت کا لازمی حصہ تھے۔ ایک اور بزرگ تشریف لاتے تو بوٹ پہننے کیلئے جیب سے لوہے کا ایک ہموار چوڑا ٹکڑا نکالتے جسے وہ چمچ کہتے تھے۔ جوتا پہنتے وقت وہ اس چمچ کو جوتے کے پچھلے حصے کی دیوار کے اندر رکھتے تھے۔ ہینڈل انکے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ جوتے کے آگے کے حصے میں پاؤں کا پنجہ ڈالتے تو ایڑی چمچ کے ساتھ پھسلتی ہوئی بڑی سہولت کے ساتھ خود بخود اندر چلی جاتی۔ استعمال کرنے کے بعد وہ کبھی بھول کر بھی جوتے کے اس چمچ کو باہر نہیں رکھتے تھے اور ہمیشہ جیب میں ڈال لیتے تھے۔ تقریباً دو سال پہلے مجھے احساس ہوا کہ جوتے پہنتے وقت دقت ہوتی ہے۔ وہ بزرگ یاد آئے۔ مجھے جوتوں والے چمچ کی ضرورت محسوس ہوئی [کیا اس چمچ کا عمر کے ساتھ کوئی ربط  ہے  ؟  کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ بہرطور میں نے کسی نوجوان یا جوان شخص کو یہ آلہ سہولت استعمال کرتے نہیں دیکھا۔]ایک دکان سے مجھے وہ چمچ مل گیا لیکن  خیال آیا کہ چمچ لمبے سائز...

نیلم کا لشکارا دیکھ کے خلق غلام ہوئی

یہ تو ہمیشہ سے اندازہ تھا کہ نوائے وقت کی مار دور تک ہے لیکن یہ نہیں سوچا تھا کہ کرہ ارض کے ہر گوشے سے ردعمل آئیگا اور ردعمل بھی ایسا شدید کہ اس کالم نگار کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔ ردعمل امانت ہوتا ہے اور اگر معاملے میں کالم نگار کے مفادات ملوث نہ ہوں تو یہ امانت قارئین کے پاس پہنچانی چاہیے۔ گزشتہ کالم (26 نومبر) جس میں ایم کیو ایم کو وقت ضائع کئے بغیر پنجاب کا رخ کرنے کی تلقین کی گئی تھی پڑھنے والوں کو پسند نہیں آیا اور اس ناپسندیدگی کا اظہار کرنے میں انہوں نے کسی قسم کا تکلف‘ لحاظ یا رعایت روا نہیں رکھی اور یہ ان کا حق تھا۔ اندرون ملک خاص کر کراچی اور لاہور سے اور بیرون ملک سے ٹیلی فون کالوں کا تانتا بندھا رہا اور ای میلوں سے اِن باکس بھرتا رہا۔ شکایت کرنے والوں کے لہجے میں رنج تھا اور کرب‘ درد تھا اور دلسوزی اور رنجیدگی تھی اور دل گیری۔ کراچی سے ایک صاحب نے تو چیلنج کیا کہ آپ آ کر کراچی میں قربانی کریں اور پھر کھال نہ دے کر اپنا حشر دیکھیں۔ نیویارک سے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان نے جس کی علمیت بلاشبہ قابل رشک ہے‘ مدلل ای میل بھیجی جس کا ایک حصہ یوں ہے : ’’شمالی ہند اور پنجاب ...

اگر کھڑے ہو تو چل پڑو

ایم کیو ایم کو واضح ہو کہ اس نے پہلے ہی بہت دیر کر دی ہے۔ اسے پیغام تو اسی وقت بھیج دیا گیا تھا جب مریض کے حلق نے دوا آگے گزارنے سے انکار کر دیا تھا۔ قاصد کو تلقین کی گئی تھی کہ اس نے راستے میں کہیں نہیں رکنا بس چلتے جانا ہے۔ ایک بستی سے دوسری بستی کی طرف‘ دوسری سے تیسری اور تیسری سے چوتھی بستی کی طرف اور اگر رکنا بھی پڑے تو صرف روٹی کے چند نوالوں اور پانی کے چند گھونٹ پینے کیلئے رکے اور ایم کیو ایم کو جا کر پیغام دے کہ اگر بیٹھے ہوئے ہو تو اٹھ کھڑے ہو جائو اور اگر کھڑے ہوئے ہو تو چل پڑو! ایم کیو ایم کو واضح ہو کہ قاصد چاشت کے وقت روانہ ہو گیا تھا پھر دوپہر ہو گئی اور مریض کی حالت زیادہ بگڑنے لگی۔ سب کی آنکھیں دروازے پر لگی تھیں۔ لیکن جنوب سے کوئی نہ آیا‘ قاصد نہ کبوترنہ رقعہ! سہ پہر کو مریض کے حلق سے ڈرائونی آوازیں آنے لگ گئیں‘ جھاڑ پھونک کرنے والے آ گئے‘ عورتوں نے سروں پر پٹیاں باندھ لیں اور سینوں پر دو ہتھڑ مارنے لگ گئیں۔ مردوں نے شملوں والی پگڑیاں اتار کر پھینک دیں اور چارپائیاں اور کڑھے ہوئے غلافوں والے تکیے جمع کرنے گلی گلی گھر گھر پھیل گئے۔ نوشتہ دیوار پڑھا جا رہا تھا‘ لیکن...

تابوت

اس کوشش میں عرصہ ہی لگ گیا، اس اثنا میں جناب پروفیسر فتح محمد ملک نے مقتدرہ قومی زبان کے چیئرمین کا منصب چھوڑتے وقت، اپنے جانشین کے طور پر جو تین نام تجویز کئے، ان میں سرفہرست اس فقیر کا نام تھا۔ ملک صاحب کی منطق یہ تھی کہ نفاذ اردو کیلئے زمین ہموار ہو چکی ہے اور اب مقتدرہ کا سربراہ کسی ایسے شخص کو ہونا چاہئے جو بیوروکریسی سے، کسی احساس کم تری کے بغیر بات کرسکے اور افسر شاہی کے اندر اور باہر کو بخوبی جانتا ہو، ظاہر ہے حکومت کا ظاہری مرکز اسلام آباد لیکن اصل مرکز ملتان تھا۔ پینل میں شامل ایک اور دوست ملتان سے تھے اور نظریاتی طور پر بھی وہ اربابِ حل و عقد کو زیادہ راس آسکتے تھے۔ میرا نام سرفہرست ہونے پر ذوالکفل بخاری کی مسرت کی انتہا نہ تھی۔ میں نے اسے بتایا کہ پی آر میں صفر ہونے کی وجہ سے میری کامیابی کا کوئی امکان نہیں، لیکن اس نے نظریاتی طور پر صف بندی کرلی اور میرے لئے کوششیں کرنے لگا۔ نظریاتی حوالے سے اپنے (اور میرے) کسی نہ کسی حوالے سے اسے مقتدرہ اور اوپر کے فیصلہ سازی کے مرکزوں کی خبریں ملتی رہتی تھیں اور وہ مجھے معاملے کی پیش رفت سے آگاہ کرتا رہتا۔ اس کی بے تابی سے بعض اوقات مجھ...

سید برادران

چلئے مان لیا! آصف علی زرداری منصب صدارت سے ہٹ گئے لیکن صرف اتنا بتا دیجئے، آپ سید برادران کا کیا کرینگے؟ اکیس برس پہلے فوجی آمر کا تختِ رواں ہوا میں تحلیل ہوا اور بے نظیر بھٹو سربر آرائے حکومت ہوئیں تو بتایا گیا کہ وہ خرابی کی جڑ ہیں۔ یہ جڑ کاٹ دی گئی لیکن سید برادران وہیں کے وہیں رہے۔ پھر نواز شریف آئے، انہیں بھی ہٹا دیا گیا۔ سید برادران قائم و دائم رہے پھر دوبارہ بے نظیر آئیں ایک بار پھر نواز شریف آئے، دونوں ہٹا دئیے گئے۔ سید برادران وہیں کے وہیں رہے، پھر پرویز مشرف نے شب خون مارا اور آٹھ سال سروں پر منڈلاتا رہا، ہمیں یقین دلایا گیا کہ وہی ساری مصیبتوں کا سبب ہے۔ اسے ہٹانے کیلئے کوشش کرنیوالوں نے کوشش کی، ایڑی چوٹی کا زور لگا، وہ ہٹ گیا تو معلوم ہوا کہ سید برادران کو کچھ فرق نہیں پڑا۔ اب آصف زرداری کو ہٹانے کی باتیں ہو رہی ہیں، مجھے آصف علی زرداری سے کوئی عقیدت ہے نہ ہمدردی! جس صدرِ مملکت کے شب و روز پراسراریت میں لپٹے ہوئے ہوں، اور جو بڑے بڑے سے بڑے حادثے پر کبھی نظر نہ آیا ہو اور جسکے آگے پیچھے ایسے لوگ ہوں، جیسے اب اسکے آگے پیچھے ہیں، اس صدرِ مملکت ک ساتھ کوئی اندھا ہی عقیدت رک...

شکنجے سے آتی ہوئی آوازیں

آل پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے سربراہ جناب سکندر خان کی خدمت میں یہ اطلاع نہایت ادب سے پیش کی جاتی ہے کہ خالد کو جب شکنجے میں کسا گیا تو پہلے یہ اس کے پائوں کو ڈالا گیا، پائوں کی ہڈیاں تڑا تڑ ٹوٹ گئیں، پھر آہستہ آہستہ شکنجے کو اوپر سرکایا جاتا رہا، ہڈیاں ٹوٹتی گئیں، تڑ تڑ تڑ، ہڈیاں ٹوٹنے کی آوازیں وہ لوگ سن رہے تھے جو اس زمانے میں غلے کے ایک ایک دانے کو ترس گئے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ شکنجہ خالد کے سر تک پہنچ گیا اور اس کا دم نکل گیا! فرشتے آسمانوں پر حیران ہیں کہ جب چینی کے کارخانوں کے مالکوں کی طرف سے جناب سکندر خان مسابقتی کمشن میں پیش ہوئے اور نرم برتائو کی درخواست کی تو انہیں یہ حکم کیوں نہیں دیا جا رہا تھاکہ آسمان سے پتھر برسائیں! غضب خدا کا! چینی کی فیکٹریوں کے مالکان نے پہلے گٹھ جوڑ کیا اور کارٹل بنایا۔ کارٹل انگریزی میں اس مجرمانہ اکٹھ کو کہتے ہیں جو کارخانوں کے مالک بے بس صارفین کو اذیت پہنچانے کے لئے کرتے ہیں۔ ان کارخانہ داروں نے سب کچھ کیا۔ ذخیرہ اندوزی کی حالانکہ اللہ کے آخری رسولؐ نے صاف صاف حکم دیا تھا کہ ’’جس نے ذخیرہ اندوزی کی وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔ پھر انہوں...

مسّلح افواج اور سول سروس… ایک تقابل

سرپر بال کسی زمانے میں ہوں گے، اب نہیں تھے جو جھالر کی صورت میں باقی تھے، سفید تھے۔ جُھریوں کا لشکر چہرے کی طرف ہر اول دستہ بھیج چکا تھا اور چہرے کے کچھ حصے پر قبضہ بھی کر چکا تھا۔ لہجے میں دُکھ تھا۔ بے پناہ دُکھ۔ احتجاج تھا، ایسا احتجاج کہ اگر اس کا بس چلتا تو شاہراہ دستور پر واقع طاقتور ’’اداروں‘‘ کو وہ ضرور تہس نہس کر دیتا۔ ’’میں نے حکومت پاکستان کو اپنی زندگی کا بہترین حصہ دیا۔ اڑتیس سال۔ دیانت داری سے کام کیا۔ حکومت کے خزانے کے اربوں کھربوں روپے بچائے اور حکومت نے میرے ساتھ کیاکیا؟ ریٹائرمنٹ پر ایک پلاٹ دیا تاکہ میں گھر بنا کر سر چھپا سکوں لیکن ایسی جگہ جہاں اگلے دس سال تک گھر نہیں بنایا جاسکتا۔ وہاں تو گائوں کے گائوں آباد ہیں۔ وہاں تو سڑک تک نہیں بنی اور وہ جو ساری زندگی ’’صحیح‘‘ طریقے سے ’’نوکری‘‘ کرتے رہے، انہوں نے راتوں رات اپنے پلاٹ ’’وی آئی پی‘‘ سیکٹروں میں ’’منتقل‘‘ کرا لئے، یہ ہے اس حکومت کا انصاف!‘‘ اُس کا سانس پھول چکا تھا۔ میں نے اُس کیلئے پانی منگوایا اور تسلّی دینے کی کوشش کی۔ ’’آپ کی شکایت حق بجانب ہے، لیکن ایسا تو بہت سے سرکاری ملازموں کے ساتھ ہوا ہے اور مسل...