اشاعتیں

دسمبر, 2008 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

پروفائل

آخر استاد اتنے یقین کے ساتھ کیسے پیش گوئی کر دیتا ہے کہ اُس کا فلاں شاگرد بُری طرح فیل ہوگا اور فلاں طالب علم امتیازی پوزیشن کے ساتھ کامیاب ہوگا ! باپ ان پڑھ بھی ہو تو اُسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کون سا بیٹا کس پیشے کیلئے موزوں ہے اور کس کو کون سا شعبہ اختیار نہیں کرنا چاہئے۔ آخر کیوں ؟ اس لئے کہ شاگرد یا بیٹے کا ماضی سامنے ہوتا ہے۔ اُس کی عادات‘ خصائل‘ ذہانت‘ مستقل مزاجی‘ … سب کچھ معلوم ہوتا ہے۔ ذہن میں اُس کی شخصیت کے سارے اجزا موجود ہوتے ہیں۔ ان اجزا کی مدد سے اُس کا آئندہ کا رویہ اور مستقبل کی کارکردگی کے بارے میں ٹھوس پیشگوئی کر دی جاتی ہے ! امریکیوں نے اس عمل کو باقاعدہ سائنس بنا دیا ہے اور اس کا نام پروفائلنگ (Profiling) رکھا ہے یعنی کسی شخص کے طرز عمل کا مطالعہ کرنا اس کے نفسیاتی رجحانات کا تجزیہ کرنا اور پھر اس کی بنیاد پر پیشگوئی کرنا کہ مستقبل میں اس کا رویہ کیا ہوگا یا کسی خاص حوالے سے یہ کیا کچھ کر سکے گا۔ یوں تو اس ضمن میں طویل عرصہ سے تحقیقی اور تجرباتی کام ہو رہا تھا لیکن جان ڈگلس (John Douglas) وہ شخص ہے جس نے اس میدان میں انقلاب برپا کیا۔ اُس نے 1970ء میں ایف بی آئی م...

واحد راستہ

ٹھیک ہے خلقِ خدا بے بس ہے۔ مان لیا اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں انصاف نہیں ہے اور کبھی تھا بھی نہیں، لیکن طاقت ور، قانون کو پیروں تلے روندتے وقت یہ کیوں نہیں سوچتے کہ جب پنڈلی سے پنڈلی لپٹے گی اور مرے ہوئے عزیز سامنے نظر آ رہے ہوں گے، اس وقت دھاندلیوں کے بارے میں پوچھا جائے گا!۔ نوے کی دہائی تھی۔ قومی ائر لائن میں۔ جہاں سالہا سال تک چور دروازے کْھلے رہے۔ دو خواتین ڈاکٹر تعینات کی گئیں۔ ایک وقت کے طاقت ور وزیراعلیٰ کی صاحبزادی تھیں، اور دوسری بھی ایک مقتدر شخصیت کی بیٹی تھیں۔ نہ مدعی نہ شہادت۔ نہ اشتہار نہ مقابلہ، ملک کی سینکڑوں بیٹیاں بہتر ریکارڈ کے باوجود ایسی تعیناتی کا سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔ پھر طاقت ور وزیراعلیٰ ملک سے باہر چلا گیا۔ پھر چشمِ فلک نے ایک اور تماشہ دیکھا۔ وہ طاقت ور شخص ملک میں واپس آیا لیکن اس کرسی پر بیٹھا تھا جس کے نیچے پہیے لگے ہوئے ہیں۔ کینسر نے اسے ہڈیوں کے ڈھانچے میں بدل دیا تھا۔ ٹھیک ہے خلق خدا اس خداداد ملک میں بے بس ہے، مگر دھاندلی کرنیوالے وہ وقت یاد کریں جب پنڈلی سے پنڈلی لپٹے گی اور جھاڑ پھونک کرنے والے کچھ نہ کر سکیں گے۔ مرے ہوئے عزیزوں کیساتھ ق...

ڈھاکہ! ہم شرمندہ ہیں

اے مسجدوں اور باغوں کے شہر ڈھاکہ! آج مجھے ہم سے روٹھے پورے 37 سال ہوگئے۔ چار دہائیوں سے صرف تین سال کم! جب تونے تھک ہار کر ہم سے منہ موڑا تھا، ہم اس وقت مدہوش تھے، ہلاکت کے گڑھے میں تھے ہم پر عقل ماتم کر رہی تھی۔ آج چار دہائیوں کے بعد بھی افسوس! صد افسوس! ہم مدہوش ہیں، ہلاکت کے گڑھے میں ہیں اور آج نہ صرف یہ کہ عقل۔ بلکہ دنیا بھی ہمارے حال پر ماتم کناں ہے۔ 37 سال پہلے جب تجھے ہمارے وجود سے کاٹ کر الگ کیا جا رہا تھا، اس وقت ایک ڈکٹیٹر ہماری تقدیر کا مالک تھا اور اس کے منافقت کا یہ عالم تھا کہ جب بھارتی فوجیں اپنے ناپاک قدم تیری پوتر مٹی پر رکھ رہی تھیں۔ ڈکٹیٹر کے سرکاری ریڈیو سے مسجدوں کا شہر ڈھاکہ زندہ باد کے نغمے گائے جا رہے تھے۔ تیرے سقوط کا علم تو اس بدبخت قوم کو غیر ملکی ذرائع ابلاغ سے ہوا تھا۔ یہ تیرے سقوط ہی کے بعد کا واقعہ ہے کہ کسی جرنیل کی تنی ہوئی چھاتی پر دمکتے ہوئے تمغوں (MEDALS) کی بھرمار دیکھ کر نواب زادہ نصر اللہ خان نے پوچھا تھا کہ ’’حضور! ان میں سقوط ڈھاکہ کا تمغہ کون سا ہے‘‘ ہم نے اس کے بعد کوئی سبق نہیں سیکھا۔ تجھے ایک آمر کی نذر کرنے کے بعد ہم نے ایک اور آمر کو...