زیر طبع خود نوشت سے ایک ورق … (3
) پلٹ کر دیکھتا ہوں تو ڈھاکہ یونیورسٹی میں گزارا ہوا عرصہ زندگی کے دلکش ترین ٹکڑوں میں ایک نمایاں ٹکڑا لگتا ہے۔ بے فکری تھی اور آسودگی! ڈھاکہ یونیورسٹی کا ماحول مجموعی طور پر میری اُفتادِ طبع کے عین مطابق تھا۔ ذہین اور طباع لوگ! جو بات کو فوراً سمجھ جاتے تھے۔ ادب اور سیاست‘ بین الاقوامی تاریخ‘ بین الاقوامی تعلقات‘ بر صغیر کی تاریخ‘ غرض اردو اور فارسی شاعری کو چھوڑ کر ان سارے موضوعات پر بات کرنے اور بات سمجھنے والے وہاں موجود تھے۔ میں گورنمنٹ کالج راولپنڈی سے گیا تھا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں پنجاب یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج لاہور کے طلبہ بھی آن ملے تھے۔ علم و دانش کا جو ماحول ڈھاکہ یونیورسٹی میں تھا وہ مغربی پاکستان کے اکثر و بیشتر تعلیمی اداروں میں عنقا تھا۔ جب مغربی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ کوٹ پتلون اور ٹائی میں ملبوس ہو کر کلاسوں میں تشریف لاتے تھے‘ ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ کی اکثریت کرتا پاجامہ اور چپل پہن کر یونیورسٹی آتی تھی۔ یہ لوگ روکھا سوکھا کھاتے تھے۔ والدین سے اتنی ہی رقم منگواتے تھے جو قوتِ لایموت کیلئے ناگزیر تھی۔ بہت سے تو اخبارات میں مضامین لکھ کر اپنا ...