اشاعتیں

جون, 2025 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

زیر طبع خود نوشت سے ایک ورق … (3

) پلٹ کر دیکھتا ہوں تو ڈھاکہ یونیورسٹی میں گزارا ہوا عرصہ زندگی کے دلکش ترین ٹکڑوں میں ایک نمایاں ٹکڑا لگتا ہے۔ بے فکری تھی اور آسودگی! ڈھاکہ یونیورسٹی کا ماحول مجموعی طور پر میری اُفتادِ طبع کے عین مطابق تھا۔ ذہین اور طباع لوگ! جو بات کو فوراً سمجھ جاتے تھے۔ ادب اور سیاست‘ بین الاقوامی تاریخ‘ بین الاقوامی تعلقات‘ بر صغیر کی تاریخ‘ غرض اردو اور فارسی شاعری کو چھوڑ کر ان سارے موضوعات پر بات کرنے اور بات سمجھنے والے وہاں موجود تھے۔ میں گورنمنٹ کالج راولپنڈی سے گیا تھا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں پنجاب یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج لاہور کے طلبہ بھی آن ملے تھے۔ علم و دانش کا جو ماحول ڈھاکہ یونیورسٹی میں تھا وہ مغربی پاکستان کے اکثر و بیشتر تعلیمی اداروں میں عنقا تھا۔ جب مغربی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ کوٹ پتلون اور ٹائی میں ملبوس ہو کر کلاسوں میں تشریف لاتے تھے‘ ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ کی اکثریت کرتا پاجامہ اور چپل پہن کر یونیورسٹی آتی تھی۔ یہ لوگ روکھا سوکھا کھاتے تھے۔ والدین سے اتنی ہی رقم منگواتے تھے جو قوتِ لایموت کیلئے ناگزیر تھی۔ بہت سے تو اخبارات میں مضامین لکھ کر اپنا ...

زیر طبع خود نوشت سے ایک ورق …(2)

1996 ء کے اوائل میں میری تعیناتی بطور کنٹرولر ملٹری اکاؤنٹس ڈیفنس پرچیز  (Defence Purchase)  ہو گئی۔ یہ تعیناتی بہت بڑا چیلنج تھا۔ تینوں مسلح افواج کی تمام ضروریات کے لیے جو کچھ بھی خریدا جاتا تھا اس کا پے ماسٹر کنٹرولر ملٹری اکاؤنٹس ڈیفنس پرچیز تھا۔ پاکستان میں اس جتنی یا اس سے زیادہ ادائیگیاں کسی اور ادارے یا محکمے میں نہیں ہوتیں۔ پٹرول‘ آئل‘  Lubricants‘  اسلحہ‘ سپیئر پارٹس‘ ادویات‘ چارپائیاں‘ یونیفارم‘ ہیلمٹ‘ جوتے‘ چینی‘ گھی‘ آٹا‘ گوشت کے لیے جانور‘ بلند پہاڑوں پر مقیم عساکر کے لیے ڈبوں میں بند خوراک اور دیگر ضروریات‘ ہر شے بھاری مقدار  (bulk)  میں خریدی جاتی ہے۔ ایک ایک ادائیگی کروڑوں روپوں میں ہوتی ہے۔ یہ خریداریاں ملک کے اندر سے بھی ہوتی ہیں اور بیرونِ ملک سے بھی۔ مال سپلائی کرنے والوں کے معاہدے مسلح افواج کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ان معاہدوں کی جانچ پڑتال اور چھان بین بھی سی ایم اے ڈیفنس پرچیز ہی کرتا ہے۔ جب تک کنٹرولر معاہدے کی تصدیق نہ کرے‘ معاہدہ قانونی دستاویز کی شکل نہیں اختیار کر سکتا۔ جتنی بھاری ادائیگیاں تھیں‘ دفتر اتنا ہی بدنام تھا۔ اور یہی میر...

زیر طبع خود نوشت کا ایک ورق

سکول کا دروازہ لوہے کا تھا۔ اس کے دو حصے تھے۔ درمیان سے ایک طرف دھکیلا جاتا تو گزرنے کا راستہ بن جاتا۔ جتنا زیادہ دونوں طرف دھکیلا جاتا اتنا ہی کھلتا جاتا۔ مگر نہ جانے چھٹی کے وقت پورا دروازہ کیوں نہیں کھولتے تھے۔ چنانچہ بچے ایک دوسرے کے پیچھے آہستہ آہستہ چلتے‘ ہجوم بناتے‘ دروازے سے نکل کر باہر سڑک پر آتے۔ اُس دن بھی یہی ہوا۔ چھٹی کی گھنٹی بجی اور ہم پہلی جماعت کے بچے باہر جانے کے لیے دروازے کے ہجوم کا حصہ بن گئے۔ ہم سب آہستہ آہستہ سرک رہے تھے۔ میرے بالکل آگے ایک سکھ بچہ تھا جو مجھ سے بڑا تھا۔ اس کے بالوں کی عجیب سی مینڈھیاں بنی ہوئی تھیں اور بالوں کا ایک حصہ اس کی گردن پر اس طرح پڑا تھا کہ چُٹیا دو حصوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔ ہجوم سرک رہا تھا۔ آہستہ آہستہ۔ چیونٹی کی رفتار سے۔ نہ جانے کیوں میں نے اس کے بال گردن سے پکڑے اور کھینچے۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ جیسے ہی ہم سڑک پر پہنچے اس نے مجھ پر حملہ کر دیا۔ مجھے سڑک پر لٹا کر مارا اور خوب مارا۔ مار کھا کر میں اٹھا‘ اپنا بستہ اور تختی لی اور روتا روتا گھر پہنچا۔ اس دن گاؤں سے نانا جان آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے مجھے ساتھ لیا اور سکول پہنچے مگر ...

ایران، دوسرے مسلمان ممالک اور مغرب

آپ لاکھ کہیں کہ ہم عرب ہیں‘ ہم ایرانی ہیں‘ ہم ترک ہیں‘ ہم نیشن سٹیٹ ہیں۔ مغرب نے آپ کو مسلمان ہی سمجھنا ہے۔ ترکی نے کیا نہیں کیا۔ لباس چھوڑا‘ رسم الخط کی قربانی دی‘ اسرائیل سے اس کے آج بھی سفارتی تعلقات ہیں‘ مگر اسے یورپی یونین کی رکنیت ہزار کوششوں کے باوجود نہیں ملی! اس لیے کہ مغرب کے نزدیک وہ یورپی ہے نہ ترک! وہ صرف اور صرف مسلمان ہے۔ آج اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ حملہ ایران پر ہوا ہے مجھے کیا‘ میں تو عرب ہوں! تو یہ سیاسی کم نظری  (Myopia)  ہے۔ اگرآپ برصغیر پاک و ہندکا نقشہ غور سے دیکھیں تو جنوبی حصے کے مغربی ساحل پر ایک ننھی منی ریاست نظر آئے گی جو پورے نقشے پر ایک نقطے سے زیادہ نہیں! رقبے کے اعتبار سے یہ سب سے چھوٹی بھارتی ریاست ہے۔ اس کے ایک طرف مہاراشٹر اور دوسری طرف کرناٹک ہے۔ یہ گوا ہے۔ گوا کی تاریخ دلچسپ ہے۔ کبھی اس پر دہلی کے سلاطین کا قبضہ تھا۔ پھر یہ جنوب کی دو طاقتوں کے درمیان فٹ بال کی طرف لڑھکتا رہا۔ کبھی وِجیانگر کی ہندو ریاست کا حصہ رہا اور کبھی بہمن مسلم حکومت کا۔ 1510ء میں پرتگال کے بحری بیڑے نے اسے بیجاپور کے سلطان عادل شاہ سے چھین لیا۔ آپ یہ جان کر حی...

اگر پاکستان نہ بنتا

سید افتخار گیلانی معروف صحافی ہیں۔ اُن کا تعلق بھارت (مقبوضہ کشمیر) سے ہے۔ وہ گزشتہ تین دہائیوں سے جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کو کَور کر رہے ہیں۔ بڑے بڑے بھارتی اور غیرملکی اخبارات کے لیے کام کیا۔ تہلکہ ڈاٹ کام کے سیاسی بیورو کی سربراہی کی۔ کئی زبانوں میں شائع ہونے والے اخبار ''کشمیر ٹائمز‘‘ کے دہلی بیورو کے اینکر رہے۔ بھارتی پارلیمنٹ کی پریس ایڈوائزری کمیٹی کے ڈپٹی چیئرمین رہے۔ پریس ایسوسی ایشن آف انڈیا کے نائب صدر رہے۔ کئی بھارتی تھنک ٹینکس کے لیے تحقیقی کام کیا۔ انہیں بھارتی حکومت نے گرفتار کر کے جیل میں بھی رکھا۔ ان ایامِ اسیری کی سرگزشت انہوں نے My days in Prison کے عنوان سے رقم کی۔ اسے  Penguin نے شائع کیا ہے۔ کچھ عرصہ سے آپ ترکیہ میں مقیم ہیں اور میڈیا کے بین الاقوامی میدانوں میں اپنی ذہانت‘ علم اور تجربے کے جوہر دکھا رہے ہیں۔ میری خوش قسمتی کہ سید افتخار گیلانی میرے کالموں کے مندرجات کے حوالے سے رابطے میں رہتے ہیں۔ بھارتی مسلمانوں کے بارے میں میری رہنمائی کرتے رہتے ہیں اور اپنی قیمتی آرا اور مشوروں سے نوازتے ہیں۔ حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران‘ اور جنگ کے بعد میں نے ...

دو عیدیں اور غزہ

میلبورن ( آسٹریلیا) میں کتنے مسلمان ہوں گے؟ لاکھ‘ زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ لاکھ۔ یہ مٹھی بھر مسلمان اس بات پر متفق نہ ہو سکے کہ عید کس دن کرنی ہے! ماشاء اللہ دو عیدیں ہوئیں۔ یورپ اور امریکہ میں بھی یہی حال رہا۔ اندازہ لگائیے‘ جو لوگ عید کے تہوار پر متفق نہیں ہو سکتے‘ وہ غزہ کو دشمن کے پنجے سے چھڑائیں گے!! چلیے‘ ہم پاکستان میں رہنے والے تو پسماندہ ہیں اور تارکینِ وطن کی نگاہوں میں قابلِ رحم! مگر یہ حضرات جن کی زندگیاں ان ترقی یافتہ ملکوں میں گزریں اور بہت سوں کی تو پیدائش ہی وہیں کی ہے‘ یہ لوگ ایک عید کیوں نہیں کر لیتے؟ یا تو اس بات پر اتفاق کر لیں کہ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے ساتھ عید کریں یا کیلنڈر کے مطابق کر لیں۔ جن حضرات کو اپنی آنکھوں سے چاند دیکھنے پر اصرار ہے وہ رمضان المبارک میں چھت پر چڑھ کر کیوں نہیں دیکھتے کہ سحری کا وقت ختم ہو گیا ہے یا نہیں؟ حکم تو یہ ہے کہ کھاؤ اور پیو‘ جب تک کہ تمہارے لیے سفید دھاری سیاہ دھاری سے فجر کے وقت صاف ظاہر ہو جائے۔ مگر چاند کو آنکھ سے دیکھنے پر اصرار کرنے والے اس بات کا کبھی جواب نہیں دیتے کہ سحری کے وقت گھڑی دیکھ کر کھانا پینا کیوں بند کر تے...