اشاعتیں

نومبر, 2021 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

واعظ اور استاد

ذہن میں کچھ سوالات تھے ۔ پہلے واعظ کی خدمت میں حاضر ہؤا۔ رعب تھا اور طمطراق! دستار بھی تھی، قبا  بھی  اور عصا بھی !  حاضرین ہمہ تن گوش تھے۔ بیان میں روانی تھی۔ الفاظ موسلا دھار بارش کی صورت برس رہے تھے۔  کہیں آبشار، کہیں میدان میں چلتی ہوئی ندی کی طرح خوش خرام !کہیں اشعار! کہیں امثال! کہیں قصے! کہیں حورو غلمان کے تذکرے اور ایسے کہ دماغ نہ مانے مگر واہ واہ کے ڈونگرےبرسیں! تشریف لے جانے لگے تو خوش عقیدگی رخصت کرنے  دور تک  آئی!  آنجناب اپنی بیش قیمت سواری پر بیٹھنےلگے تو اپنے بابرکت ہاتھوں کو چوما پھر ہاتھ لہرا کر  یہ بوسہ سامعین  کو  پہنچایا۔ بار بار یہ عمل  دہرایا۔ فرنگی اسے” فلائینگ کِس” کہتے ہیں ۔ عموما” یہ حرکت  نوخیز نوجوان  کرتے ہیں  مگر واعظ جب کریں تو اس پر تقدیس کا رنگ چڑھتا ہے ۔ عقیدتمند تتبّع کرتے ہیں ۔ تاہم میرا مسئلہ حل نہ ہؤا۔ ذہن میں جو سوالات تھے ان کے پوچھنے کی نوبت ہی نہ آئی۔ ان کے  متوسّلین سے بات کی  تو انہوں نے اسے گستاخی پر محمول کیا۔ ان کا موقف تھا کہ وعظ سنتے رہیے۔ آہستہ آہستہ سوالات ک...

وقتِ دعا ہے!

پنجابی کا ایک محاورہ ہے‘ جس کا ترجمہ ہے: بھیڑیا چھوڑنا‘ یعنی ایک پُرامن جگہ کو تباہی سے دوچار کر دینا۔ پنجابی ایک پرانی، بڑی اور وسیع زبان ہے۔ عین ممکن ہے کوئی زیادہ پڑھا لکھا پنجابی اس محاورے کا مفہوم بہتر انداز میں سمجھا سکے۔ ہم ضلع اٹک کے لوگ یوں بھی کنارے پر رہتے ہیں۔ لاہور آئیں تو احباب استقبال کرتے ہوئے کہتے ہیں ''اچھا! پنجاب آئے او‘‘۔ جناب نجم حسین سید پنجابی زبان و ادب پر اتھارٹی ہیں۔ ان کی تصانیف بیرون ملک یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ معلوم نہیں اہل لاہور کو علم ہے یا نہیں کہ یہ فقیر منش عالم ان کے شہر میں رہتا ہے‘ اور اگر علم ہے تو ان کی قدر ہے یا نہیں۔ وہ سول سروس کی افسری چھوڑ کر کچھ عرصہ پنجاب یونیورسٹی کے پنجابی ادب کے شعبے میں پڑھاتے بھی رہے۔ نجم صاحب سول سروس میں جب بڑے بڑے عہدوں پر فائز تھے تو بس یا ویگن میں دفتر تشریف لاتے تھے یا پیدل! ایک بار انہیں زچ کرنے کے لیے ان کے حکام بالا نے انہیں اسلام آباد آنے پر مجبور کیا۔ وجہ اس غیر ضروری تبادلے کی یہ بتائی گئی کہ اگلے گریڈ میں ترقی ہو گی حالانکہ ان ظلم رساں (Sadist) حکام کو معلوم تھا کہ نجم صاحب ترقی قبول کریں...

مارشل پلان اور پچپن مسلم ملک

دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا تو یورپ زخم زخم تھا۔ مسلسل بمباری سے شہر مجروح ہو چکے تھے۔ لاکھوں افراد مہاجر کیمپوں میں پناہ گزین تھے۔ خوراک کی سخت قلت تھی۔ ریلوے، پُل، بندرگاہیں ناقابل استعمال تھیں۔ سامان سے بھرے بحری جہاز ڈبو دیئے گئے تھے۔ ہر طرف تباہی ہی تباہی تھی۔ اس صورت حال میں امریکہ آگے بڑھا۔ یورپ، خاص طور پر مغربی یورپ کے ساتھ امریکہ کی ہمدردیاں مذہبی بنیادوں کے علاوہ اس لیے بھی تھیں کہ کمیونزم مشترکہ دشمن تھا۔ امریکہ نے مارشل پلان کے نام سے ایک بہت بڑا منصوبہ بنایا جس کا مقصد یورپ کی اقتصادی بحالی تھا۔ اس نے تیرہ ارب (اُس زمانے کے تیرہ ارب) ڈالر یورپ کو دیئے تاکہ شہروں کی تعمیرِ نو ہو، صنعت کو جدید کیا جائے، بزنس کے ماڈرن طریقے اپنائے جائیں اور مجموعی پیداوار میں اضافہ ہو۔ اٹھارہ یورپی ممالک مارشل پلان سے فیض یاب ہوئے۔ برطانیہ، فرانس اور مغربی جرمنی ان میں سر فہرست تھے۔ جارج مارشل اُس وقت امریکہ کا وزیر خارجہ تھا۔ اس نے ہارورڈ یونیورسٹی میں ایک تقریر کے دوران تباہ حال یورپ کی تعمیرِ نو کا تصور پیش کیا۔ اسی تصور نے مارشل پلان کی صورت اختیار کی۔ منصوبے کی تیاری میں زیادہ حصہ بھی و...

کیا پھل وہی کھاتا ہے جو بیج بوتا ہے؟؟

معلوم نہیں جناب آصف علی زرداری نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہے یا نہیں، اور کیا ہے تو کتنا کیا ہے مگر جو بات انہوں نے کہی ہے‘ تاریخ کا نچوڑ وہی ہے۔ بیج کوئی بوتا ہے اور پھل کوئی اور کھاتا ہے۔ پندرہ سال ہمایوں نے، بے پناہ مصائب جھیل کر، سلطنت واپس لی۔ چاہتا تو ہندوستان سے باہر، علم و فضل کے حصول اور تدریس میں باقی عمر گزار دیتا۔ عالم فاضل شخص تھا۔ شاید نہیں، بلکہ یقینا بابر سے لے کر اورنگ زیب عالم گیر تک تمام شاہانِ مغلیہ میں سب سے زیادہ پڑھا لکھا! مگر پندرہ سال، مہینے جس کے ایک سو اسی بنتے ہیں، جدوجہد میں بسر کر دیے ! تخت و تاج دوبارہ حاصل کرنے کے لیے خطرات مول لیے۔ دکھ اٹھائے! بھائیوں کی بد عہدیاں برداشت کیں! مسلسل نقل مکانی کی! حالت یہ ہو گئی کہ بادشاہ کا کھانا پکانے کے لیے دیگچی تک میسر نہ تھی۔ اس کے لیے خود میں گوشت پکایا گیا۔ اکبر کی ولادت کی خبر سنی تو سوائے مُشکِ نافہ کے کچھ بھی پاس نہ تھا۔ اسی کو حاضرین مجلس میں تقسیم کیا۔ سندھ سے افغانستان گیا۔ بھائی خون کے پیاسے تھے۔ اکبر کو وہیں چھوڑ کر ایران گیا۔ ایک سال وہاں رہ کر ایرانی کمک ساتھ لایا۔ کابل پر حملہ کیا تو بھائی نے اکبر کو فصیل پ...

سنتا جا! شرمانے کی ضرورت نہیں!!

آپ کے گھر میں دو بھائی دست و گریباں ہو جائیں، محلے والے سب کچھ سنیں اور دیکھیں تو آپ اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ لڑنے والے میرے بھائی یا میرے بچے تھے۔ میرا اُس لڑائی سے کوئی تعلق نہیں! لڑائی آپ کے گھر میں ہوئی۔ انگلیاں آپ کی طرف اٹھیں گی۔ بھول جائیے کہ یہ تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ یہ بھی بھول جائیے کہ اس سے پہلے نون کی حکومت تھی یا پی پی پی کی یا قاف کی یا کسی آمر کی! بس یہ ذہن میں رکھیے کہ جس کی بھی حکومت تھی، جب بھی تھی، پاکستانیوں ہی کی تھی! دھرنے دینے والے بھی پاکستانی تھے۔ خون میں نہائے ہوئے پولیس مین بھی پاکستانی تھے۔ ماڈل ٹاؤن کے چودہ مقتولوں پر گولیاں بھی پاکستانیوں نے چلائی تھیں۔ دنیا میں کوئی یہ نہیں کہتا کہ عمران خان کی حکومت میں ایسا ہوا یا نواز شریف کے زمانے میں یہ حال تھا۔ دنیا والے اچھا ہو یا برا، پاکستان کے کھاتے میں ڈالتے ہیں! ہمارے پاسپورٹ پر کسی حکمران کا کسی حزب اختلاف کا، کسی فوجی آمر کا نام نہیں لکھا ہوا۔ صرف اور صرف پاکستان کا نام ہے۔ ہماری کرنسی پاکستان کی کرنسی ہے‘ کسی حکومت کی نہیں۔ عالمی منڈی میں جب اس کی بے قدری ہوتی ہے تو کوئی نہیں کہ...

کیا اب تمہاری جیب میں وعدے نہیں رہے ؟؟

غزل کی حالیہ تاریخ میں کچھ معزز شعرائے کرام نے‘ جن میں چند مرحومین بھی شامل ہیں‘ مکالماتی غزل کے بانی ہونے کا دعویٰ کیا ! مگر یہ درست نہیں۔ '' ایجادِ بندہ‘‘ کا رواج بدقسمتی سے ہر زمانے میں رہا ہے۔ مکالماتی غزل برصغیر میں وہیں سے آئی ہے جہاں سے غزل آئی ہے۔ مولانا روم کی یہ مکالماتی غزل مشہور ہے۔ گفتا کہ کیست بر در گفتم کمین غلامت گفتا چہ کار داری گفتم مھا سلامت اس نے پوچھا دروازے پر کون ہے؟ میں نے جواب دیاکہ عاجز غلام۔ پوچھا :کام کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اے چاند! سلام عرض کرنا ہے! رومی کی اس مکالماتی غزل کے چند  باقی اشعار کاترجمہ دیکھیے۔ میں نے عشق کا دعویٰ کیا ہے۔قسمیں کھائی ہیں۔خود مختاری اور حکومت کو محبت کے لیے تج دیا ہے۔ س نے کہا دعویٰ کے ثبوت میں قاضی گواہ طلب کرتا ہے۔ میں نے کہا میرے آنسو میرے گواہ ہیں اور چہرے کی زردی شہادت۔ اس نے کہا ساتھ کون آیا ہے ؟ میں نے کہا حضور ! آپ کا خیال! اس نے کہا بلایا کس نے ہے؟ میں نے کہا آپ کے ساغر کی خوشبو نے!  اس نے کہا کیا ارادہ ہے ؟میں نے کہا وفا اور دوستی کا ! اس نے کہا مجھ سے کیا چاہتے ہو ؟ میں نے کہا آپ کا لطفِ عام !  اس نے ک...

افغانستان… سہیلی بوجھ پہیلی

جنگیں صرف بندوقوں سے نہیں جیتی جاتیں! جیت تب ہوتی ہے جب جیتنے کے بعد کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے پڑیں! یہ سبق ماضی کی تاریخ کا نہیں! یہ سبق اُس تاریخ کا ہے جو ہمارے سامنے ہے! ہم، آپ نے یہ تاریخ اپنی آنکھوں سے بنتے دیکھی ہے! اِس تاریخ کا تازہ ترین واقعہ زمانے کے صفحے پر دو دن پہلے رقم ہوا ہے۔ صرف دو دن پہلے!! اُس قلاش کی تیرہ بختی کا اندازہ لگائیے جس کے گھر پر گاؤں کا چوہدری قبضہ کر لے۔ وہ مقابلہ کرے! سخت مقابلہ! عزیمت اس کی بے مثال ہو! شیر دلاور کی طرح لڑے۔ مقابلے میں گھر کے کئی افراد کام آ جائیں! ایک طویل مزاحمت کے بعد وہ چوہدری کو گھر سے نکالنے میں کامیاب ہو جائے مگر اس فتح کے بعد اسی چوہدری سے روٹی بھی مانگے، کپڑا بھی، دوا بھی اور پیسے بھی! اور ستم ظریفی کی انتہا یہ کہ اپنے آپ کو فاتح بھی سمجھے! طالبان نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف طویل جنگ لڑی۔ ہزاروں افغان کھیت رہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے۔ خاندان کے خاندان اجڑ گئے۔ یتیموں اور بیواؤں کی تعداد میں ہولناک اضافہ ہوا۔ زمینیں پامال ہوئیں۔ پہاڑ ریزہ ریزہ ہوئے۔ کھیتیاں جل گئیں۔ باغ بنجر ہو گئے۔ بالآخر امریکہ نے خود ہار مانی۔ سامان ا...

اور اب آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا ادارہ…

سفید ہاتھیوں کی تعداد دنیا میں کم ہے! بہت ہی کم۔ یہ جو جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک ہیں، تھائی لینڈ، لاؤس‘ برما، کمبوڈیا، ان ملکوں میں اگر حکمران کے فیل خانے میں سفید ہاتھی ہوں تو انہیں انصاف، خوش بختی اور طویل المیعاد اقتدار کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ مغل بادشاہ بھی سفید ہاتھی کی بہت قدر کرتے تھے۔ 2016ء میں تھائی لینڈ کے بادشاہ کے پاس دس سفید ہاتھی تھے۔ سفید سے مراد یہ نہیں کہ سارا ہاتھی سفید رنگ کا ہو۔ اگر اس پر کہیں کہیں سفید نشانات ہوں تب بھی اسے سفید ہی کہا جاتا ہے۔ سفید ہاتھی سے مشقت کا کام لینا اس کی توہین سمجھی جاتی ہے۔ اگر بادشاہ کسی کو سفید ہاتھی تحفے میں دے دے تو اس کو مصیبت پڑ جاتی ہے۔ ایک تو اس سے کام نہیں لیا جاتا، دوسرے اس کی خوراک کا انتظام دیوالیہ کر کے رکھ دیتا ہے۔ تھائی لینڈ کے بادشاہ کے پاس صرف دس سفید ہاتھی تھے جن کی بدولت وہ خوش بخت تھا۔ پاکستانی حکمرانوں کے پاس تو سفید ہاتھی ان گنت تعداد میں ہیں۔ قومی ایئر لائن، سٹیل ملز، ریلوے، یہ سب سفید ہاتھی ہی تو ہیں۔ انہی کے وجود سے پاکستان میں برکتوں کا نزول رہتا ہے۔ وفاقی اور صوبائی کابینہ، منتخب قومی اور صوبائی مقدس ادارے، گور...

آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ

پھر یوں ہوا کہ جو بھی ضروری کام ہوتا‘ پایۂ تکمیل تک نہ پہنچتا۔ لڑکی والوں سے بات چیت کر کے تاریخ طے کی۔ شادی ہال بُک کرا لیا۔ رقم کی ادائیگی کرنے لگا تو شادی ہال کا منیجر کہنے لگا کہ ابھی رقم نہیں لے سکتے۔ یہ کچھ دن بعد‘ او کے ہو گا۔ ہم آپ کو بلا کر معاملات فائنل کر لیں گے۔ مینیو دیا تو اس کے بارے میں بھی یہی کہا گیا کہ بعد میں منظوری دیں گے۔ مکان تعمیر کرنا تھا۔ نقشہ بنوایا۔ بورڈ کے دفتر میں منظوری کے لیے جمع کرایا تو بتایا گیا کہ چھ ماہ لگیں گے۔ پوچھا: چھ ماہ کیوں ؟ چیف انجینئر‘ جس نے حتمی منظور ی دینی ہے‘ ساتھ والے کمرے میں بیٹھتا ہے۔ کلرک کے چہرے پر ایک عجیب اداسی سی چھا گئی۔ میں باہر نکل آیا۔ گاڑی خریدنی تھی۔ شو روم گیا۔ ایک اوسط درجے کی گاڑی اچھی لگی۔ استطاعت کے اندر بھی تھی۔ ساری رقم اسی وقت کیش میں ادا کی۔ چابی مانگی تو سیلزمین کہنے لگا ''صاحب! ابھی تشریف لے جائیے۔ منظوری آنے پر گاڑی آپ کے گھر پہنچا دیں گے‘‘۔ میں حیران ہوا۔ پھر خیال آیا کہ کمپنی کا ہیڈ آفس کراچی میں ہے۔یہ ہر فروخت کی اطلاع کراچی دیتے ہوں گے۔ اسی میں کچھ وقت لگتا ہو گا۔ نواسی کو گیارہویں جماعت میں داخل ک...

مقتولین کی فہرست میں ایک اور کا اضافہ

ناظم جوکھیو کی میت کی پوسٹ مارٹم رپورٹ آ گئی ہے۔ اس کے سارے جسم پر زخموں کے نشان تھے۔ لاش ملیر (کراچی) کے ایک فارم ہاؤس سے ملی تھی۔ فارم ہاؤس سندھ کی حکمران پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک ایم پی اے کی ملکیت بتایا جا رہا ہے۔ ایم پی اے نے گرفتاری دے دی ہے۔ کیا مجرم کو سزا ملے گی یا ویسا ہی انصاف ہو گا جیسا کوئٹہ کے ایک چوک پر ڈیوٹی دینے والے ٹریفک پولیس کے سپاہی کے ساتھ ہوا تھا‘ جسے ایک وڈیرے کی گاڑی نے کچل دیا تھا؟ اس سوال کا جواب ہم سب کو معلوم ہے۔ سندھ کے گورنر نے مقتول کے پسماندگان سے ملاقات کی اور اُس جے آئی ٹی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا جو سندھ کی حکومت نے بنائی ہے۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ وفاق کی سطح پر جے آئی ٹی بنوائیں گے۔ معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اس نوجوان کی درد ناک موت کا بہت افسوس ہے۔ اگر وہ مجرم کو قرار واقعی سزا دلوا سکیں تو یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہو گا۔ کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں کہ وہ مقتول کے ساتھ ہمدردی اس لیے کر رہے ہیں کہ ملزم کا تعلق ایسی پارٹی سے ہے جو وفاقی حکومت کی مخالف صف میں ہے۔ یہ سوچنا کہ یہ حبِ علی نہیں بغضِ معاویہ ہے، قرینِ انصاف نہیں ہو گا۔ اگر اجازت ہو تو ا...

— شکنجہ کسا جا رہا ہے

دشمن کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ سب کو ایک ہی طریقے سے ختم نہیں کیا جاتا۔ کچھ زہر سے مر تے ہیں تو کچھ گُڑ سے! لیبیا کو ختم کرنا تھا تو اس کے لیے خاص قسم کی تکنیک استعمال ہوئی۔ عراق کو مارنا تھا تو مہلک ہتھیاروں کا جھوٹا الزام لگا کر صدام حسین کو ختم کیا۔ پھر سنی شیعہ تفریق کو ہوا دی۔ کرد زیادہ تر سُنی ہیں مگر انہیں قومیت کی بنیاد پر عربوں کے سامنے کھڑا کر دیا۔ جس کی گردن میں جو پھندہ فّٹ آیا، ڈال دیا! کہیں فرقہ واریت! کہیں قومیت! مراکش اور شرق اوسط کے ملکوں کو بادشاہی نظام کے ذریعے قابو کیا۔ پارلیمنٹ کا دخل نہ پریس کا ٹنٹا۔ بادشاہ یا کسی طاقتور شہزادے کو پکڑا اور کٹھ پتلی بنا لیا۔ جمہوریت کے چیمپئن بنتے ہیں مگر جہاں اپنے استعماری مقاصد بادشاہت کے ذریعے پورے ہوتے دکھائی دیتے ہیں وہاں بادشاہت کی حمایت کر ڈالی! کسی بادشاہ نے آنکھیں دکھائیں تو وہاں پیٹ میں جمہوریت کا مروڑ اٹھنے لگا۔ شام کو کمزور کرنے کے لیے مختلف ترکیب آزمائی۔ شام اور عراق دونوں لہو تھوک رہے ہیں۔ ایسی آگ لگائی جو کسی کے تصور میں نہ تھی۔ ایران کو جاں بلب کرنے کے لیے ایک نیا فارمولا ایجاد کیا کہ ایٹمی طاقت کیوں بننا چاہتا ہے؟ اسرائ...

تاخیر مت کیجیے

پروفیسر صاحب کالج میں اس کے استاد تھے۔ خبر ملی کہ بیمار رہنے لگے ہیں۔ اسی دن اس نے ارادہ کر لیا کہ ان کی خدمت میں حاضر ہو گااور ان کے لیے پھل اور نیالباس لے کر جائے گا۔ ان سے پوچھے گا کہ ادویات کون کون سی لے رہے ہیں۔ پھر باقاعدگی سے ادویات پہنچایا کرے گا۔ کچھ رقم بھی ان کی خدمت میں پیش کرے گا۔ آج وہ جو کچھ بھی ہے‘ جس پوزیشن میں‘ مالی آسودگی کے ساتھ‘ اپنے اساتذہ کی وجہ سے ہے۔ اسے سکندر اعظم کا قول یاد آیا کہ والد مجھے آسمان سے زمین پرلایا اور استاد زمین سے اٹھا کر‘ دوبارہ آسمان جتنی بلندی پر لے گیا۔ اس کا پروگرام تھا کہ اسی اتوار کو ان کی خدمت میں حاضر ہو گا۔ اتفاق سے اتوار کی صبح گاؤں سے اس کا پرانا دوست آگیا جو شام تک اس کے پاس رہا۔ یوں معاملہ اگلے اتوار پر جا پڑا۔ اگلے اتوار اسے طبیعت میں اضمحلال سا محسوس ہوا۔ وہ دو پہر تک بستر ہی میں پڑا رہا۔ اس سے اگلے اتوار سسرال میں ایک دعوت تھی۔ ہفتے اسی طرح مہینے بن بن کر گزرتے رہے۔ اس نے اپنے آپ کو ملامت کی اور مصمم ارادہ کیا کہ اس اتوار کو سارے کام چھوڑ کر‘ہر حال میں‘ جائے گا۔ تاہم موت کے فرشتے نے اس کے مصمم ارادے سے اتفاق نہ کیا۔ اتوار آنے س...

حالات کو زیادہ خراب کیسے کیا جائے؟؟

حکومتیں حماقتوں کا ارتکاب کرتی ہیں جب کہ فرد اپنے فیصلے عقل مندی سے کرتا ہے۔ گلستانِ سعدی اور قابوس نامہ کے علاوہ حکمرانوں کو ایک اور کتاب جو ضرور پڑھنی چاہیے، وہ خاتون امریکی تاریخ دان باربرا ٹَک مَین کی شہرۂ آفاق تصنیف 'حماقتوں کا مارچ‘ ہے‘ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے حکمران ایسی کتابیں پڑھتے ہیں؟ بلکہ زیادہ معقول سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے حکمران کتابیں پڑھتے بھی ہیں یا نہیں؟ لیاقت علی خان اپنے آخری سفر کے دوران بین الاقوامی تاریخ پر لکھی ہوئی، اُس وقت کی، تازہ ترین کتاب پڑھ رہے تھے۔ بھٹو صاحب کتابیں پڑھتے تھے۔ بے نظیر بھٹو بھی۔ ان کے بعد جو آئے، ان کے بارے میں کہنے کی نسبت کچھ نہ کہنا بہتر ہے۔ باربرا ٹک مین کی طرف واپس آتے ہیں۔ ان کا نظریہ یہ ہے کہ حکومتوں کے مقابلے میں فرد کے فیصلے دانش مندانہ ہوتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ایک فرد جب فیصلہ کرتا ہے کہ بزنس کون سا کرے، بچوں کی شادیاں کہاں کرے، مکان کیسا بنائے، تو خوب سوچ سمجھ کر اور معاملات کی تمام جہتوں کو پیشِ نظر رکھ کر کرتا ہے۔ حکومتوں کے فیصلے اس کے مقابلے میں احمقانہ ہوتے ہیں۔ آپ نجی ایئر لائنوں کا مقابلہ قومی ایئر لائن سے کر ک...