واعظ اور استاد
ذہن میں کچھ سوالات تھے ۔ پہلے واعظ کی خدمت میں حاضر ہؤا۔ رعب تھا اور طمطراق! دستار بھی تھی، قبا بھی اور عصا بھی ! حاضرین ہمہ تن گوش تھے۔ بیان میں روانی تھی۔ الفاظ موسلا دھار بارش کی صورت برس رہے تھے۔ کہیں آبشار، کہیں میدان میں چلتی ہوئی ندی کی طرح خوش خرام !کہیں اشعار! کہیں امثال! کہیں قصے! کہیں حورو غلمان کے تذکرے اور ایسے کہ دماغ نہ مانے مگر واہ واہ کے ڈونگرےبرسیں! تشریف لے جانے لگے تو خوش عقیدگی رخصت کرنے دور تک آئی! آنجناب اپنی بیش قیمت سواری پر بیٹھنےلگے تو اپنے بابرکت ہاتھوں کو چوما پھر ہاتھ لہرا کر یہ بوسہ سامعین کو پہنچایا۔ بار بار یہ عمل دہرایا۔ فرنگی اسے” فلائینگ کِس” کہتے ہیں ۔ عموما” یہ حرکت نوخیز نوجوان کرتے ہیں مگر واعظ جب کریں تو اس پر تقدیس کا رنگ چڑھتا ہے ۔ عقیدتمند تتبّع کرتے ہیں ۔ تاہم میرا مسئلہ حل نہ ہؤا۔ ذہن میں جو سوالات تھے ان کے پوچھنے کی نوبت ہی نہ آئی۔ ان کے متوسّلین سے بات کی تو انہوں نے اسے گستاخی پر محمول کیا۔ ان کا موقف تھا کہ وعظ سنتے رہیے۔ آہستہ آہستہ سوالات ک...