Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, July 12, 2011

عمران خان سے کوئی خطرہ نہیں

یہ دانشوروں کا اجتماع تھا۔ سیکورٹی سخت تھی۔ سکینر لگے ہوئے تھے۔ صرف تین ملکوں کے دانشور اندر آ سکتے تھے۔ مجھے اپنا حُلیہ بدلنا پڑا۔ واسکٹ پہنی ماتھے پر راکھ ملی۔ دھوتی پیچھے سے اُڑسی ۔ ہاتھ میں مالا پکڑی اور رام رام رام جپتا پہنچ گیا۔ دروازے سے گزرتے وقت مالا کے منکے تیزی سے چلانے شروع کر دیے اور آنکھیں بند کر لیں۔ اندر سے ڈر بھی رہا تھا۔ بہر طور خیریت گزری اور ہال میں داخل ہو گیا۔



یہ منظر میں زندگی میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ اسرائیل اور بھارت کے خفیہ گٹھ جوڑ کا ذکر اپنے ملک میں بارہا سنا تھا لیکن دیکھنے کا اتفاق یہاں ہوا، جس طرح بھارتی مندوب اسرائیل کے نمائندوں کےساتھ بے تکلفی سے مل رہے تھے، حیرت انگیز تھا۔ صاف پتہ چل رہا تھا کہ یہ لوگ برسوں سے ایک دوسرے سے مل رہے ہیں۔ تعارفی خطاب ایک امریکی دانشور نے کیا۔ اس کا لبِ لباب یہ تھا کہ اب تک ہم پاکستان کے حالات سے مطمئن تھے۔ جو کچھ ہو رہا تھا، ہماری خواہشات کے عین مطابق ہو رہا تھا، تین چیزیں پاکستان کو مسلسل کھائی کی طرف دھکیل رہی تھیں، کرپشن ، اقربا پروری اور ٹیکس چوری اور یہی ہمارے لئے اطمینان کا باعث تھیں۔ ہم امداد اس لئے دیتے تھے کہ بس پاکستان رینگ رینگ کر چلتا رہے، جاں بلب رہے، مرے نہ جیئے‘ ہم نے جب بھی امداد کے لئے شرطیں لگائیں، ان میں کبھی یہ نہیں کہا کہ اقربا پروری نہیں ہو گی، وزیراعظم کے صوابدیدی اختیارات ختم کرنے ہونگے یا کرپٹ لوگوں سے دولت واپس لینا ہو گی، ہم مطمئن تھے۔ ایک اور وجہ ہمارے اطمینان کی یہ تھی کہ عوام کو متحرک کرنے میں علماءبہت بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ کروڑوں لوگ جمعہ کے خطبات سُن کر متاثر ہوتے ہیں لیکن ہماری خوش قسمتی کہ ٹیکس چوری، اقربا پروری اور اکِل حرام کےخلاف اس ملک کے علما نے کبھی تحریک چلائی نہ منظم کوشش کی۔ رہیں سیاسی جماعتیں، تو وہ تو جاگیریں ہیں۔ ایک ایک پارٹی ایک ایک خاندان کی ملکیت ہے۔ باپ کے بعد بیٹا تیار ہے۔ پارٹیوں کے اندر انتخابات کا کوئی امکان نہیں۔ پرویز مشرف نے سترھویں ترمیم میں ایک شق اسکے متعلق رکھی تھی۔ وہ اٹھارھویں ترمیم میں ختم کر دی گئی۔ جاوید ہاشمی، سعد رفیق اور کشمالہ بی بی نے اس پر احتجاج کیا تھا لیکن انہیں اپنی اپنی پارٹی کی طرف سے مناسب سرزنش کر دی گئی تھی! قصہ کوتاہ ۔ سب کچھ اسی طرح ہو رہا تھا جیسا ہم چاہتے تھے۔ لیکن اب ہمیں خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔ اس کی تفصیل ایک اور مندوب بیان کریں گے۔


ہال میں بیٹھنے کی ترتیب یوں تھی کہ سامنے سٹیج تھا۔ سٹیج کے دائیں طرف اسرائیلی تھے، بائیں طرف بھارتی اور سامنے امریکی۔ میں بھارتیوں کے حصے میں سب سے پیچھے بیٹھا، آنکھیں بند کئے مسلسل مالا جپ رہا تھا۔ کنکھیوں سے سب کچھ دیکھتا تھا۔ کارروائی کا ایک ایک لفظ غور سے سُن رہا تھا اور کوشش کر رہا تھا کہ سب کچھ ذہن میں محفوظ ہوتا جائے! جس خطرے کی نشان دہی تعارفی خطاب میں کی گئی، اس کی تفصیل بتانے کےلئے اسرائیلی مندوب سٹیج پر پہنچا۔


”ہمارے لئے عمران خان خطرہ بن کر ابھر رہا ہے۔ اسکی تحریک زور پکڑ رہی ہے۔ نوجوان کثیر تعداد میں اسکے گرد جمع ہو رہے ہیں، اُس نے جو منصوبہ بندی پیش کی ہے اس میں تین باتیں ایسی ہیں جن سے یہ ملک نشیب سے مزید نیچے جانے کے بجائے واپس پلٹ سکتا ہے۔ اول، وہ کرپشن کے سخت خلاف ہے۔ باتیں تو کرپشن کےخلاف دوسری جماعتیں بھی کرتی ہیں لیکن وہ تو خود کرپشن میں گلے گلے تک ڈوبی ہوئی ہیں۔ عمران خان کبھی حکومت میں نہیں رہا۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ آ کر کرپشن کا خاتمہ کر دے۔ دوم، اس کا خطرناک ترین ارادہ ٹیکس چوری کا خاتمہ ہے۔ آپ اندازہ لگائیے، اس وقت پاکستان میں صرف دو فی صد آبادی ٹیکس ادا کر رہی ہے یعنی سرکاری ملازم، وہ بھی اس لئے کہ انکی تنخواہوں سے ٹیکس کٹتا ہے اور وہ اس کٹوتی کو روک نہیں سکتے۔ باقی ساڑھے سترہ کروڑ لوگ کوئی ٹیکس نہیں دے رہے۔ جھوٹ اور بدعنوانی کی حد دیکھئے کہ منتخب نمائندے جو اثاثے ظاہر کرتے ہیں انکی رُو سے انکے پاس گاڑیاں تک نہیں۔ ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ نے پانچ ہزار روپے ٹیکس دیا۔ یہ لوگ عوام کو دھوکہ دیکھنے کےلئے بتاتے ہیں کہ اُنکی فیکٹریوں نے اتنا زیادہ ٹیکس دیا حالانکہ وہ ٹیکس تو فیکٹریوں کی پیدا کردہ مصنوعات کی قیمتوں میں جمع کر کے خریداروں کی جیب سے نکلوایا جاتا ہے‘ اگر عمران خان تاجروں، صنعت کاروں اور زمینداروں سے ٹیکس لینے میں کامیاب ہو گیا تو یہ ملک اتنا امیر ہو جائےگا کہ غیر ملکی امداد سے بے نیاز ہی ہو جائے گا اور پھر اسکی پالیسیاں بھی آزاد ہو جائینگی۔ اس شخص کا تیسرا خطرناک ارادہ اقربا پروری کا خاتمہ ہے۔ اس وقت سب سیاسی جماعتیں اقربا پروری کا شکار ہیں۔ آپ اندازہ لگائیے سرحد کا وزیر اعلیٰ اور کراچی میں اس سیاسی جماعت کا سربراہ، دونوں پارٹی چیف کے بھانجے بھتیجے ہیں۔ پنجاب کی بڑی سیاسی جماعت میں نمایاں اصحاب سارے کے سارے ایک ہی خاندان سے ہیں۔ بھائی، داماد، بھتیجا، یا پھر ایک ہی برادری سے ہیں۔ پبلک سروس کمیشن ہر صوبے میں سفارشیوں کا دارالامان ہے۔ ایسے میں عمران خان اگر اقربا پروری کے انسداد میں کامیاب ہو گیا تو یہ ملک سنگا پور بن سکتا ہے، جاپان بن سکتا ہے اور کچھ بھی بن سکتا ہے۔ ہمیں اس کا تدارک کرنا ہو گا۔“


اب بھارتی مندوب کی باری تھی۔ وہ آیا، دھوتی کو ٹھیک کیا، ہاتھ باندھ کر سامنے، دائیں بائیں آداب بجا لایا۔ وہ مسکرا رہا تھا۔ اُسکے چہرے پر اطمینان تھا۔


”حضرات! اس خطے کا باسی بھارت ہے۔ امریکہ اور اسرائیل نہیں۔ یہاں کی نفسیات سے ہم واقف ہیں اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ خطرے کی کوئی بات نہیں!“


سب چوکنے ہو گئے، اسرائیلی اور امریکی دانشوروں کے چہروں سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ بھارتی دانشور کی اس بڑ کا مذاق اڑا رہے ہیں لیکن بھارتی مندوب مسلسل مسکرا کرائیں بائیں دیکھ رہا تھا۔ وہ پھر گویا ہوا ”حضرات! کیا عمران خان نے آج تک زرعی اصلاحات کی بات کی ہے؟ کیا اس نے ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں سرداری نظام کے خاتمے کا کبھی ذکر کیا ہے، میرے سوال کا جواب دیجئے۔“


شرکا نے اپنے سامنے پڑے ہوئے کاغذات کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔ سب نے جواب نفی میں دیا۔ بھارتی دانشور نے اپنا خطاب جاری رکھا۔


”حضرات، امریکی اور اسرائیلی دانشور برصغیر کی تاریخ، نفسیات اور سماجیات سے بے بہرہ ہیں۔ 1951ءمیں جب ہم نے بھارت میں زرعی اصلاحات نافذ کیں تو ہمیں ڈر تھا کہ پاکستان بھی کہیں زرعی اصلاحات کی طرف قدم نہ بڑھا دے۔ ہم سخت اضطراب میں تھے۔ بالآخر ہماری امید بر آئی اور پاکستان میں ایسا نہ ہوا۔ ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ تقسیم سے عین پہلے جاگیردار مسلم لیگ میں جوق در جوق یوں ہی تو نہیں داخل ہوئے تھے ۔ مسلم لیگ کے منشور میں زرعی اصلاحات کا ذکر تک نہ تھا۔ بھٹو نے یہ اصلاحات کیں لیکن وقت گزر چکا تھا۔ جاگیرداروں نے یہ کوشش سبوتاژ کر دی۔ زمینیں نوکروں کے نام کر دی گئیں، آج صورتِ حال یہ ہے کہ سارا جنوبی پنجاب، سندھ کا سارا اندرونی حصہ اور بلوچستان سارا جاگیرداروں اور سرداروں کی مٹھی میں ہے۔ عمران خان ان علاقوں سے کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ کروڑوں ہاری، مزارع اور کارندے صرف ٹھپہ لگاتے ہیں، وہ بھی وہاں جہاں حویلیوں والے بتاتے ہیں، عمران خان فردِ واحد ہے اسکے پاس اپنی پارٹی کو دوسری پارٹیوں سے مختلف انداز میں چلانے کا  کوئی میکانزم نہیں۔ اسکی پارٹی میں بے شمار عہدہ دار تو وہ ہیں جو دوسری جماعتوں میں منہ مار کر آئے ہیں اور جن کی شہرت مجہول ہے۔ آپ عمران خان کی ”بصیرت“ کا اندازہ اس سے لگائیے کہ اُس نے ایک ایسے ریٹائرڈ سرکاری ملازم کو پارٹی میں شمولیت کےلئے کہا جس کی اخلاقی دیانت کا یہ عالم ہے کہ وہ جب ایک محکمے کا سربراہ بنا تو اس نے سب سے پہلے ایک قریبی عزیز کو بیرون ملک تعینات کیا۔ دیگ کے باقی چاولوں کا حساب اسی سے لگا لیجئے۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ عمران خان کے گرد جو لوگ جمع ہیں ان میں سے کسی کو ادراک ہی نہیں کہ ملکیتِ زمین کا موجودہ ڈھانچہ
land ownership pattern
 ملک میں کسی بنیادی تبدیلی کو آنے ہی نہیں دےگا۔ وہی جدی پُشتی نمائندے اسمبلیوں میں آئینگے اور اقربا پروری کےخلاف ہر کوشش کو سبوتاژ کر دینگے۔ شہروں سے لی گئی چند نشستیں عمران خان کو کچھ بھی نہیں کرنے دینگی!  رہے عمران خان کے ارادے دہشت گردی کے خلاف  توجب تک سندھ اور جنوبی پنجاب میں جاگیرداری ہے اور قبائلی علاقوں میں رشوت خور خان موجود ہیں، نوجوان دہشت پسند تنظیموں کے پاس جانے کے علاوہ کر بھی کیا سکیں گے۔!“


میں نے دیکھا کہ سب شرکائے اجلاس بھارتی مندوب سے گلے مل رہے تھے اور مبارکیں دے رہے تھے۔

9 comments:

Unknown said...

کچھ سیاسی جماعتوں کے قائدین کا خیال ہے کہ عمران خان دراصل ان خفیہ ہاتھوں کا مہرہ ہے جو عرصہ دراز سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کو پاکستان کی سیاسی شطرنج کی بساط سے باہر بٹھانا چاہتے ہیں۔

Farigh said...

جن سیاسی قائدین کا یہ خیال ہے کہ وہ سیاسی مہرہ ہے ان ہی کو سب سے ذیادہ خطرہ بھی ہے کیونکہ ان سب کی ڈوریں کوئی اور ھلاتا ہے، کوئی لندن کے اشاروں پر ناچتا ہے تو کوئی سعودی تیل مالش کرتا ہے اور کسی کے سوئٹزرلینڈ میں دولت کے ڈھیر ہیں تو کوئی ڈیزل اسکینڈل میں ایسا ملوث ھوا کہ نام ہی ڈیزل پڑ گیا۔
اگر کسی نے عمراں کو چیلنج کرنا ہے تو اس جیسا کرپشن سےپاک اور اس جیسا عوامی فلاحی منصوبون کا ریکارڈ لانا ہوگا۔

Fareeda Malik. Italy. ( fareedamalik@rocketmail.com said...

مسئلہ عمران کا یا کسی اور شخصیت کا نہیں ملک کا ہے۔ اصل سوال تو وہ ہے جو کالم نگار نے اٹھایا ہے۔کیا زرعی اصلاحات کے بغیر اسمبلیوں میں مڈل کلاس یا نچلا طبقہ آسکتا ہے؟ کیا بلوچستان کے سردار عام آدمی کو اوپر آنے دیں گے؟ کیا ملک کے معدنی وسائل پر سرداروں کا قبضہ جائز ہے ؟

یہ ہیں اصل مسائل۔ عمران خان نے آج تک ان مسائل کے بارے میں کبھی کوئی بات نہیں کی۔ کیا اس کے پاس اتنا وژن ہے ؟
یہ تو طے ہے کہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی میں ان مسائل کا شعور بالکل نہیں ہے

Anonymous said...

نہایت ادب سے اظہار صاحب سے اختلاف کرتے ہوئے عرض کروں گا کہ بھٹو صاحب مرحوم کی زرعی اصلاحات بھی ظاہری لیپا پوتی کے سوا کچھ نہ تھیں۔
نیکی ہمیشہ گھر سے شروع ہوتی ہے۔ اگر مرحوم واقعی زرعی اصلاحات چاہتے تو سب سے پہلے خود اپنی ہی مقررہ حد سے زائد زمین اپنے پاس رکھ کر باقی زمین سرکار کے حوالے کر دیتے تا کہ وہ بے زمین مزارعوں میں تقسیم کر دی جاتی۔ لیکن انھوں نے ایسا نہ کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ بھٹو خاندان آج بھی پاکستان کے سب سے بڑے جاگیر دار گھرانوں میں شامل ہے ۔
انھوں نے اپنے ساتھی جاگیرداروں سے بھی صرفِ نظر کیا۔ چنانچہ بڑے بڑے جاگیردار پارٹی پر چھائے رہے۔ بلکہ 77 کے الیکشن میں مرحوم نے بیشتر ٹکٹیں بھی انھہ لوگوں کو عطا کیں۔
غلام مرتضیٰ علی

Farigh said...

محترمہ فریدہ ملک صاحبہ: عمران خان کی پالیسیوں میں بے شک خامیاں ہیں لیکن کیا آپ کو اس کی نیت یا ایمانداری پر کوئی شک ہے؟ اقتدار میں آنے سے پہلے وہ کیسے ذمینداری نظام ختم کر دے؟ حتی کہ اقتدار میں آنے کے فوری بعد بھی اس پر عمل درآمد کانٹوں پر چلنے کے مترادف ہے۔ایم کیو ایم روز اول سے جاگیرداری نظام کے خاتمے کی بات کرتی ہے لیکن دس سال اقتدار میں رہنے کے باوجود کچھ عمل نہ کیا۔ بھٹو کے متعلق غلام مرتضی لکھ ہی چکے ہیں۔۔ کیا آپ کو ایسے ہی باتوں کے شیر پسند ہیں یا وہ جن کی نیت پر خلوص اور ماضی شاندار ہو؟

Anonymous said...

شاندار ماضی کہہ کر شرمندہ تو نہ کریں!
یہ تو باتوں کے بھی شیر نہیں،کہ ان کے ایجینڈے میں اس ملک کا سب سے بڑا ناسور جاگیر دارانہ وڈیرانہ نظام کا خاتمہ شامل نہیں،
ایم کیو ایم تو اتنی طاقت بھی نہیں رکھتی کہ سندھ میں کمشنری نظام لگنے سے رکوا سکتی،پھر بھی سینہ تان کر حق بات کرتے ہیں اورگولیاں کھاتے ہیں ،
کسی آنکھ اور عقل کے اندھے کو اپنے ہم زباں کی محبت میں یہ سب کیوں دکھائی نہیں دیتا،سوال یہ ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

Abdullah

Javed Iqbal said...

دیکھیں یہی تو بات ہے ہم لوگ تنقید کو بھی برداشت نہیں کرسکتے لڑناشروع کردیتےہیں واقعی ایم کیوایم تقریبا دس سال سےحکومت میں ہے لیکن جاگیردارانہ نظام کے خلاف جوبھی تقاریرکیں ہیں اس کے خلاف کچھ بھی عملی قدم نہیں اٹھایااس پرتوانگلیاں اٹھتی ہیں اورباقی توتمام جماعتیں ان نظاموں کی پیداوارہیں صرف ایم کیو ایم ان سےمختلف ہےلیکن انہوں نےبھی اس کے لئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایاہے اورحس نثارصاحب نےایک کالم میں کہاتھاعمران خان کے اوپراب پھر کردارکشی سےحملہ کیاجائے گااوران کاکردارکواس طرح کشید کیاجائے گاکہ تمام عوام ان سے شاکی ہوجائيں۔ واللہ اعلم بالغیب

Anonymous said...

جاوید اقبال یہ ان صاحب نے افتخار اجمل کی اسی قسم کی باتوں پر کچھ سوالات کیئے تھے جنکا جواب دینا انہوں نے اب تک گوارا نہیں کیا،
آپ بھی زرا پڑھیئے اور سر دھنیئے،

بزرگوار،آپکی غلط بیانیاں میں ایک طویل عرصے سے پڑھ رہا ہوں،اور عنیقہ بی بی و کئی دوسرے سمجھدار لوگوں کے بار بار آپکو آئینہ دکھانے کے باوجود آپ باز نہیں آتے،
آپ فرماتے ہیں کہ،
1984سے قبل ایم کیو ایم کے پاس اسلحہ تھا،پھر ایم کیو ایم نے کراچی میں پٹھانوں اور پنجابیوں کی اس طرح نسل کشی کیوں نہیں کی جس طرح ان کی ان قومیتوں پلس ایجینسیوں کے ہاتھوں کی گئی؟
اور وہ اب تک کراچی کو پنجابیوں اور پٹھانوں سے خالی کروانے میں کامیاب کیوں نہ ہوسکے ،جبکہ آپ کے اور آپ کے حواریوں کے بقول کراچی پر بلا شرکت غیرے ایم کیو ایم کی حکومت عرصہ دراز سے قائم ہے؟
آپکے اس تبصرے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپکو مذہبی دہشت گردوں کا گندہ کردار دکھانے پر بے حد تکلیف ہوئی ہے اسی لیئے آپ نے ایسے بے سروپا الزامات عائد کیئے ہیں جن پر کوئی احمق بھی شائد ہی یقین کرے،
اور میرا آخری سوال یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے اتنے مظالم کے باوجود پٹھان اور پنجابی مسلسل اس میں کیوں شامل ہورہے ہیں،ہر گزرتے دن کےساتھ ان کی تعداد میں اضافہ کیوں ہورہا ہے؟

ویسے میں آج کی دو خبروں پر بھی آپ کے تبصرے کا منتظر ہوں،
پہلی خبر لاہور کی شمالی چھاؤنی سے دو من چرس برآمد ہونے کی ہے
اوردوسری فیصل آباد سے ڈھائی کروڑ کی منشیات برآمد ہونے کی ہے
کیا یہ سب بھی ایم کیو ایم کے لوگ کررہے ہیں؟

آپ کے آخری سوال کا جواب بھی دے دوں کہ اگر پختونوں کا اسلحہ بردار ہونا کراچی کے قتل عام کا سبب ہے تو پنجاب میں سندھ سے کئی گنا پختون رہتے ہیں یہاں ایسا کیوں نہیں ہوتا؟راولپنڈی میں پختونوں کی بڑی بڑی آبادیاں ہیں وہاں مار کٹائی کیوں نہیں ہوتی؟
وہاں مار کٹائی کیسے ہوگی وہاں تو ان کے باپ بیٹھے ہیں،جو انہیں پالتے ہیں،
پتلی گردن تو ہم کراچی والوں کی ہے،اور ہماری زمینیں باپ کا مال ہیں،
آج مظہر عباس نے کیپیٹل ٹالک میں یہی بتایا ہے کہ کراچی کی قیمتی زمینیں اصل فساد کی جڑ ہیں،اورکامران خان بھی اپنے تفصیلی پروگرام میں بتا چکا ہے کہ لینڈ مافیا کے سرغنہ پٹھان اور سندھی ہیں، جبکہ پنجاب کی زمینوں پر تو پہلے ہی فوج اور ایجینسیوں کا قبضہ ہے،
جب کمزور پر بس چل رہا ہو تو طاقت ور سرپرستوں کو ناراض کرنے کی حماقت کون کرے گا؟

سعید احمد

Anonymous said...

Imran khan jo apne jalson par young generation ko attract karne ke lie kanjar dance ka arrange karwa kar sonami lata ha. wo agar iqtadar me aa be gea to 2 saal me Pakistan Europe ban jae ga.

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com