Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, February 29, 2024

کیا جہالت اور انتہا پسندی ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں؟؟

پوری دنیا میں ہم تماشا بنے ہوئے ہیں!! 

ایک طرف عملی طور پر ہم بطور مسلمان ہی نہیں‘ بطور انسان بھی بدترین ہیں! ہماری تجارت بددیانتی سے عبارت ہے۔ ہم میں سے بھاری اکثریت‘ بہت بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو جھوٹ کو جھوٹ نہیں سمجھتے! آپ کسی کا انتظار کر رہے ہیں۔ پوچھتے ہیں کہاں ہو؟ وہ گھر بیٹھا ہے مگر کہے گا کہ بس جی شیر پاؤ پُل سے گزر رہا ہوں۔ غور کیجیے! کیا اکثر ایسا نہیں ہوتا؟ وعدہ خلافی ہمارا معمول ہے۔ ملاوٹ‘ ناروا منافع خوری‘ ٹیکس چوری‘ پڑوسیوں اور اقربا کے حقوق سے غفلت‘ یہ سب برائیاں ہماری پہچان بن چکی ہیں۔ ہماری ٹریفک قانون اور انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ وقت کی پابندی حکمرانوں سے لے کر عام آدمی تک عنقا ہے۔ ہم ہر وہ کام کر رہے ہیں جس کی ہمارے مذہب نے ممانعت کی ہے اور وعید سنائی ہے۔ 
دوسری انتہا یہ ہے کہ ہمارے ہاں مذہبی مدارس کی تعداد کسی بھی مسلمان ملک سے زیادہ ہے۔ تبلیغی جماعت کا عالمی مرکز ہمارے ملک میں واقع ہے۔ ہر مسلک کی تبلیغی جماعتیں شہر شہر‘ گاؤں گاؤں‘ محلہ محلہ‘ گلی گلی رات دن پھر رہی ہیں۔ مسجدوں میں صبح شام قرآن پاک اور حدیث کے درس دیے اور سنے جاتے ہیں۔ جمعہ کی نماز کے لیے اس قدر نمازی ہوتے ہیں کہ مسجدوں میں جگہ نہیں ملتی۔ باپردہ خواتین اور باریش مرد اکثریت میں ہیں۔ ہر سال لاکھوں پاکستانی عمرے اور حج سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ غریب سے غریب خاندان بھی بڑی عید پر قربانی کرتا ہے۔ ہماری خواتین آئے دن آیتِ کریمہ کے حوالے سے اور میلاد کے سلسلے میں مقدس محفلیں منعقد کرتی ہیں! محرم میں ہم سینہ کوبی کرتے ہیں‘ روتے ہیں اور امام حسین علیہ السلام کے اسوہ پر چلنے کا عزم کرتے ہیں۔ حرمتِ رسول پر‘ اہلِ بیت اور صحابہ پر جان قربان کرنے کے لیے ہر پاکستانی مسلمان‘ جس مسلک کا بھی ہے‘ ہر گھڑی تیار بیٹھا ہے۔ کشمیر‘ فلسطین‘ چیچنیا اور دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے لیے ہم خون کے آنسو روتے ہیں! اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کوئی مذاق سے بھی کرے تو ملک میں ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک ٹینشن پھیل جاتی ہے۔
تیسری انتہا دیکھیے۔ عوام نے سیاسی جماعتوں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ مذہب کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے خوب خوب استعمال کریں! اگر کوئی اپنے لیڈر کے بارے میں کھلم کھلا‘ دن دہاڑے کہتا ہے کہ ''اللہ کے بعد جو ہستی ہے‘ یہی لیڈر ہے‘‘۔ تو کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ کوئی کہتا ہے کہ عمرے پر کیوں گئے ہو‘ میرا ساتھ دو۔ کوئی کہتا ہے حج پر جانے سے زیادہ ضروری اس کے لیڈر کا استقبال ہے۔ کسی پارٹی کے سٹیج سے یہ اعلان ہوتا ہے کہ دنیا میں والدین دو ہی عظیم ہیں۔ ایک آقائے دو جہاںﷺ کے والدین اور دوسرے اس پارٹی کے لیڈر کے والدین!!! اس گستاخی پر اس پارٹی کے صفِ اول کے رہنما سٹیج پر کھڑے مسکرا مسکرا کر تالیاں بجاتے ہیں۔ اہلِ مذہب سمیت پوری قوم ان دیدہ دلیریوں کو بہت آرام سے ہضم کر جاتی ہے!
مگر چوتھی طرف یہ انتہا دیکھیے اور سر پیٹیے کہ ایک خاتون کی عبایا پر ''حلوہ‘‘ کا لفظ لکھا ہے اور آن کی آن میں ہجوم اسے کلامِ پاک کی توہین قرار دے کر اس کی جان کے درپے ہو جاتا ہے۔ اسے قتل کرنے کے لیے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ خاتون پولیس افسر اپنی جان پر کھیل کر‘ اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر اسے اس خونخوار ہجوم کی وحشت سے بچاتی ہے۔ کبھی ایک بینک کا گارڈ‘ بینک کے منیجر کو ذاتی رنجش کی وجہ سے قتل کرتا ہے اور پورا شہر اسے ہیرو بنا کر جلوس نکالتا ہے۔ کبھی فیکٹری کے غیرملکی منیجر سے ذاتی بدلہ لینے کے لیے اس پر توہینِ مذہب کا الزام لگایا جاتا ہے اور بے دردی سے ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ کبھی زندہ انسانوں پر پٹرول چھڑک کر انہیں آگ میں جلایا جاتا ہے۔ کبھی لاشوں کو موٹر سائیکل کے پیچھے باندھ کر گلیوں میں گھسیٹا جاتا ہے۔ کبھی محلوں کے محلے ویران کرکے بے گناہ‘ معصوم‘ غریب پاکستانیوں کو بے گھر کر دیا جاتا ہے۔ 
یہ سب کیا ہے؟ جہالت ہے یا انتہا پسندی؟ یا دونوں ایک ہی چیز ہیں؟ ایک طرف سیاسی لیڈروں کی پرستش! اور وہ بھی اس حد تک کہ مقدس ہستیوں کی توہین اور اسلامی شعائر کی تخفیف برملا کی جائے! اور کوئی چُوں بھی نہ کرے! دوسری طرف مذہب کے نام پر بے جا‘ بلا جواز‘ تشدد اور قتل و غارت!! دنیا ہم پر ہنس رہی ہے۔ پہلے ہم جہالت کا مذاق اڑاتے تھے یہ کہہ کر کہ دو عرب آپس میں جھگڑ رہے تھے اور ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ رہے تھے کہ ایک پاکستانی نے‘ جو وہاں موجود سب سُن رہا تھا‘ کہا: سبحان اللہ! جھگڑتے وقت بھی مقدس کلام پڑھتے ہیں! مگر اب ہماری جہالت اتنی عام ہو چکی ہے کہ عربی حروف کو کلامِ الٰہی سمجھ کر خونریزی پر اُتر آتے ہیں! ہماری جہالت اس حقیقت سے ناآشنا ہے کہ عرب ملکوں میں ڈیڑھ‘ دو کروڑ مسیحی آباد ہیں۔ ان کی مادری زبان عربی ہے۔ یہ عربی لکھتے ہیں۔ عربی بولتے ہیں اور عربی پڑھتے ہیں۔ سب سے زیادہ مسیحی مصر میں ہیں‘ اس کے بعد لبنان میں! لبنان کے آئین کی رو سے صدر مسیحی‘ وزیر اعظم سُنّی مسلمان اور سپیکر شیعہ مسلمان ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ کے اراکین نصف مسیحی اور نصف مسلمان ہیں۔ عربی زبان کی معتبر ترین اور مقبول و مشہور لغت 'المُنجِد‘ کے مصنف دو مسیحی سکالر تھے! یہ کالم نگار اٹلی میں ایک کورس کر رہا تھا تو ایک کلاس فیلو کا نام عبداللہ تھا جو خرطوم (سوڈان) سے تھا اور مسیحی تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نام بھی ایک جیسے ہیں۔ یہاں ایک دلچسپ واقعہ یاد آرہا ہے۔ میلبورن میں جہاں میرا قیام ہوتا ہے‘ وہاں قریب ہی ایک مال ہے جہاں چائے اور کافی کی دکانیں ہیں اور سودا سلف بھی مل جاتا ہے۔ وہاں اکثر و بیشتر‘ دن کے وقت جو گارڈ نظر آتا ہے‘ اس کا تعلق مصر سے ہے۔ میں اس سے گپ شپ کے بہانے اپنی ٹوٹی پھوٹی عربی کی مشق کرتا ہوں۔ ایک دن اس سے پوچھا کہ حلال کھانا مہیا کرنے والے ریستوران اس محلے میں کون کون سے ہیں؟ اس پر اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا ''مجھے نہیں معلوم کیونکہ میں تو حرام کھاتا ہوں‘‘۔ اس کے بعد اس نے بتایا کہ وہ مصر کی مسیحی کمیونٹی سے ہے!!
صورتحال سنجیدہ غور و فکر کا تقاضا کرتی ہے۔ ہماری یونیورسٹیوں اور تھنک ٹینکس کو ریسرچ کرکے مسئلے کی تہہ تک پہنچنا ہوگا کہ اس ہجوم گردی‘ اس سفاک انتہا پسندی اور اس ہولناک تشدد کے اسباب کیا ہیں؟ اس کے بعد ریاست کا فرض ہے کہ ان اسباب پر کام کرے اور معاشرے کو نارمل بنانے کی سعی کرے! یہاں قوم کی بہادر بیٹی‘ سی ایس ایس افسر‘ سیدہ شہر بانو نقوی (اے ایس پی) کو خراجِ تحسین پیش کرنا لازم ہے جس کے بروقت ایکشن سے ملک ایک بہت بڑے سانحہ سے بچ گیا! جمیل مظہری کا یہ شعر قابلِ غور ہے:
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغِ مصطفوی 
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بولہبی

Tuesday, February 27, 2024

تشدد کا ایشو اور اس کا حل


بجلی کے پنکھوں سے پہلے کپڑے کے مستطیل پنکھے ہوتے تھے جو کمرے کے درمیان‘ چھت سے لٹکائے جاتے تھے۔ ان کے ساتھ رسی بندھی ہوتی تھی۔ ایک آدمی اس رسی کو کھینچنے پر مامور ہوتا تھا۔ رسی کھینچنے سے پنکھا ہلتا تھا اور کمرے میں بیٹھے ہوئے افراد کو ہوا لگتی تھی۔ انگریز دور میں یہی پنکھا استعمال ہوتا تھا جسے مقامی ( یعنی ہندوستانی ) خدام کھینچتے تھے۔ قدرت اللہ شہاب نے' شہاب نامہ‘ میں لکھا ہے کہ سخت گرمی اور تھکاوٹ کی وجہ سے نوکر کبھی سو بھی جاتا تھا۔ ایسے میں انگریز افسر اسے جگانے کے لیے پاؤں سے ٹھوکر مارتا تھا۔کبھی کبھی بوٹ کی ٹھوکراس طرح لگتی تھی اور ایسی جگہ لگتی تھی کہ نوکر کی موت واقع ہو جاتی تھی۔قتل کے اس جرم میں سفید فام قاتل کو سزا دی جاتی تھی جو دو روپیہ جرمانے کی صورت میں ہوتی تھی!
آپ کا کیا خیال ہے کہ سفید چمڑی کے جانے کے بعد صورت حال بدل گئی ہو گی؟ نہیں! پولیس تشدد سے جن شہریوں کی موت واقع ہوتی ہے اس کے بدلے میں کتنے قاتلوں کو پھانسی دی گئی ہے؟ کتنوں کو عمر قید کی سزا ملی ہے؟ اگر کسی پارلیمنٹ کے جسم میں ریڑھ کی ہڈی ہوتی تو اس حوالے سے اعداد و شمار پوچھتی اور قوم کو بھی بتاتی! اب تو دو روپے جرمانے والی سزا بھی نہیں ہے!! دو دن پہلے راولپنڈی میں پولیس تشدد کے دو واقعات پیش آئے۔ ایک نوجوان کو حوالات میں ہنٹر سے مارا گیا۔دوسرا واقعہ ٹیکسلا کا ہے۔ ایک ملزم کی ماں‘ ملزم کی گرفتاری میں مزاحم ہو رہی تھی۔ اسے پولیس نے دھکے دیے اور تھپڑ مارے۔ ماں تو ماں ہے۔ ملزم کی ہو یا منصف کی ! اسے سمجھایا جا سکتا تھا اور گرفتاری ماں پر تشدد کے بغیر بھی عمل میں لائی جاسکتی تھی! رونے پیٹنے کے علاوہ بیچاری نے کیا کرنا تھا۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ پولیس کے محکمے نے تشدد کے ذمہ داروں کے خلاف کیا ایکشن لیا۔ دونوں معاملات میں تشدد کے ذمہ دار پولیس اہلکاروں کو معطل کیا گیا۔ اورمعاملہ کی انکوائری کر کے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا گیا۔
یہ ہے وہ کھیل جو ایک طویل عرصے سے کھیلا جا رہا ہے۔انسان کا بچہ تھانے میں مر جائے یا بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنے ‘ یہی دو ''ایکشن‘‘ لیے جاتے ہیں۔ اہلکار یا اہلکاروں کو معطل کر دیا جاتا ہے اور انکوائری کا حکم دے دیا جاتا ہے۔ یہ مذاق کے علاوہ کچھ نہیں !! اخبار کی خبر شام تک مر جاتی ہے۔ دوسرے دن کس نے پوچھنا ہے کہ معطل کرنے کے بعد کیا ہوا اور انکوائری کا کیا نتیجہ نکلا۔ اور معطل کر دینا کونسی سزا ہے؟ یہ تو ایسی تعطیل ہے جس کے دوران تنخواہ پوری ملتی ہے۔یعنی  
Paid holidays!!

ماضی میں قانون یہ تھا کہ معطلی کے دوران آدھی تنخواہ ملتی تھی۔ یہ زیادہ نہیں تو تھوڑی سی سزا ضرور تھی۔ پھر یہ قانون بدل دیا گیا۔ اب پوری تنخواہ ملتی ہے۔ کیا خوب سزا ہے۔ گھر میں بیٹھیے۔ کام کوئی نہیں! تنخواہ پوری پائیے۔ سزا نہ ہوئی پکنک ہو گئی!! سزا وہ ہوتی ہے جس سے دوسرے عبرت پکڑیں! کچھ دن کے بعد معطل کیا جانے والا اہلکار بحال کر دیا جاتا ہے! زیادہ سے زیادہ اس کا تبادلہ کر دیا جاتا ہے۔ تبادلہ بھی سزا نہیں ہے۔ یہ تو ملازمت کا حصہ ہے ! اسی لیے تھانوں اور حوالات میں تشدد کا سلسلہ لامتناہی ہے۔ اس کے ختم ہونے کی ایک ہی صورت ہے۔ سخت اور عبرتناک سزا! یعنی کم سے کم ملازمت سے مکمل بر طرفی! اور زیادہ سے زیادہ ‘ برطرفی کے ساتھ قید! اعداد و شمار مہیا نہیں مگر وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ آج تک تشدد کرنے کے جرم میں پولیس کا کوئی اہلکار نوکری سے نکالا نہیں گیا!
بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہماری پولیس سے عام شہری ڈرتا ہے۔ خوف زدہ ہے۔ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ جائز کام کے لیے بھی تھانے نہ جائے۔ گیا تو مصیبت میں پھنس جائے گا۔ ایسا کیوں ہے ؟ کیا اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی گئی؟ کیا اوپر کی سطح کے پولیس افسروں نے اس پر غور کیا ہے؟ کیا حکومت نے کبھی سوچا ہے؟ کیا پارلیمنٹ نے کبھی اس سوال کو موضوعِ بحث بنایا ہے؟ مہذب ملکوں میں عوام پولیس سے خوف زدہ نہیں ہوتے بلکہ اس کا احترام کرتے ہیں اور اس سے محبت کرتے ہیں!
ان ملکوں میں جہاں واردات ہو ‘ پولیس خود وہاں پہنچتی ہے۔ ہمارے ہاں متاثرہ شخص یا خاندان کو خود چل کر تھانے جانا پڑتا ہے اور بتانا پڑتا ہے کہ چوری یا قتل ہو گیا ہے۔ اس کے بعد رپورٹ کرنے والا ایک جال میں پھنس جاتا ہے۔ بلکہ ایک شکنجے میں جکڑا جاتا ہے۔ اس کی آئندہ نسلیں بھی کانوں کو ہاتھ لگاتی ہیں! ایف آئی آر کٹوانا تو ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کے برابر ہے۔
ہماری پولیس عوام کی خدمتگار نہیں‘ حکومت کی خدمتگار ہے۔ یہ حکومت کی کنیز ہے۔ ہر حکومت کی !! گویا یہ ریاست کی ملازم نہیں‘ حکومت کی ملازم ہے! ہم یہ نکتہ پہلے بھی کہیں عرض کرچکے ہیں کہ ہمارے ہاں پولیس اور حکومت کے درمیان ایک غیر تحریری معاہدہ طے پا چکا ہے! پولیس حکومت کی زر خرید غلام بن کر رہے گی! حکومت کا ہر جائز ناجائز کام کرے گی۔بغیر وارنٹ کے گھروں میں گھسے گی۔ بغیر جرم کے لوگوں کو گرفتار کرے گی۔ حکومتِ وقت کے اشارے پر ہر غیر قانونی کام کرے گی۔اس کے بدلے میں حکومت پولیس کے ''معاملات‘‘ میں دخل اندازی نہیں کرے گی! پولیس تشدد سے ملزم کو ہلاک کردے ‘ اس کے ہاتھ پاؤں توڑ دے‘ملزم کے گھر سے اس کی بے گناہ خواتین کو اُٹھا لے‘ انہیں دھکے دے‘ تھپڑ مارے ‘ ہنٹر چلائے‘حکومت کوئی مداخلت نہیں کرے گی! حکومت نہیں پوچھے گی کہ تھانیدار یا بڑے افسر کی یا اس سے بھی بڑے افسر کی تنخواہ کتنی ہے اور اس کے گھر کا خرچ کتنا ہے ؟ یہ ہے حکومت اور پولیس کے درمیان‘ غیر تحریری معاہدہ جس پر ‘ فریقین کامیابی سے عمل کر رہے ہیں!!
اور صوبے کی پولیس کے سربراہ کی اپنی پوزیشن کیا ہے؟ کیا اُسے وہی اختیارات حاصل ہیں جو اس کے ہم منصب کو امریکہ‘ برطانیہ‘ سنگاپور یا جاپان میں حاصل ہیں ؟ کیا وہ خود مختار یا کم از کم نیم خود مختار ہے؟ نہیں! ہر گز نہیں ! اسے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ اسے کب تک اس پوسٹ پر رہنا ہے۔ جن ماتحتوں سے اس نے کام لینا ہے وہ کسی اور کے حکم سے تبدیل ہو سکتے ہیں! وہ اپنی مرضی کی ٹیم تیار کر ہی نہیں سکتا۔ ان افسروں کو تو آئے دن ایئر پورٹوں پر جا کر قطار میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ کوئی پوچھے کہ چیف منسٹر نے یا وزیر اعظم نے کہیں آنا جانا ہو تو ایس پی‘ آئی جی‘ ڈی سی اور کمشنر کا کیا کام کہ اس کا استقبال کرے یا اُسے رخصت کرے؟ پروٹو کول کی یہ مضحکہ خیز ڈیوٹی کیا ان افسروں کے کارِ منصبی میں خلل نہیں ڈالتی؟ کوئی ہے جو اس غلامانہ ڈرل کو ختم کرے؟ نصف سے زیادہ پولیس حکمرانوں‘ وزیروں اور بڑے لوگوں کے محلات پر پہرے دے رہی ہے! کروڑوں اربوں کا خرچ! حاصل صفر!!
پس نوشت: یہ سطور لکھی جارہی تھیں کہ خبر ملی ٹیکسلا میں جس اہلکار نے ملزم کی ماں سے بد سلوکی کی اُسے ملازمت سے برطرف (ڈسمس) کر دیا گیا ہے۔ اگر یہ خبر درست ہے اور واقعی اسے ملازمت سے فارغ کر دیا گیا ہے تو یہ ایک خوش آئند خبر ہے اور ایک اچھا آغاز ہے۔ امید ہے کہ تشدد کے انسداد کے لیے مزید اقدامات بھی کیے جائیں گے۔ پولیس کے جس افسر یا افسروں نے یہ قدم اٹھایا ہے وہ تحسین کے مستحق ہیں۔

Monday, February 26, 2024

عصا اور فرعون



……

پہلی بار عصا پکڑنے کی ضرورت اُس وقت محسوس ہوئی جب میں ابھی ، نسبتا” ، جوان تھا۔ 

{

طبیعت خراب ہوئی تو وفاقی دار الحکومت کے سب سے بڑے ہسپتال میں لے جایا گیا ۔ وہاں ایک بہت بڑے ڈاکٹر صاحب  تھے۔ ان کے نام کے ساتھ ڈگریوں کی قطار لگی تھی۔ ساتھ یہ بھی لکھا تھا کہ  مشرق وسطیٰ کے  فلاں بادشاہ کے ذاتی معالج ( پرسنل فزیشن) رہے ہیں!  ان کے علاج سے فائدہ تو کیا ہوتا، کئی مزید عارضے لاحق ہو گئے۔ یہاں تک کہ چلنے میں دقت ہونے لگی! بالآخر عصا کا سہارا لینا پڑا!  ان بہت بڑے ڈاکٹر صاحب کی تشخیص ہی غلط تھی۔ چونکہ تشخیص غلط تھی اس لیے علاج بھی غلط تھا۔ وہ ایک ایسی بیماری کا علاج کرتے رہے جو دور دور تک نہیں تھی! 

{
دوسری بار عصا کا سہارا تب لینا پڑا جب ایک فٹ پاتھ پر چلتے چلتے معلوم ہی نہ ہؤا اور فٹ پاتھ ختم ہو گیا۔ پاؤں مُڑ گیا۔ دوسرے دن صبح اٹھا تو درد بے پناہ تھا! ایکس رے سے معلوم ہؤا کہ ہئیر لائن

( Hairline) 
  فریکچر  ہو گیا ہے۔ تھا تو ہئیر لائن مگر چلنا ممکن نہ رہا۔ پلستر کئی ہفتے لگا رہا۔ یہ  

1998-99 
کے دن تھے۔ فروری 

1999

میں، میرے دوست،   مشہور شاعر ، غلام محمد قاصر کا انتقال ہؤا تو میں پلستر لیے، بستر پر پڑا تھا۔ جنازے میں شرکت کے لیے پشاور جانا ممکن نہ تھا۔ قاصر کو ہیپی ٹائیٹس بی ، یا ، سی تھا۔ آخر تک وہ اپنی صحت کے بارے میں اچھی خبریں دیتا رہا۔فون پر اس سے مسلسل رابطہ تھا۔ ہر بار یہی کہتا کہ بیماری تیس فیصد رہ گئی ہے یا یہ کہ پہلے سے چالیس فی صد افاقہ ہے۔ مگر ساری تسلیاں جھوٹی تھیں! قاصر  کے کچھ اشعار تو ضرب المثل ہو چکے ہیں۔؎

تم   یونہی   ناراض   ہوئے   ہو  ورنہ   میخانے   کا   پتہ 

ہم نے ہر اُس شخص سے پوچھا جس کے نَین نشیلے تھے۔ 

کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام 
مجھے   تو  اور  کوئی   کام  ہی نہیں  آتا 

مکاں خالی نہیں  رہتا ہے قاصر 
کبھی  شہلا، کبھی  شہناز دل میں 

بہر طور، بستر سے اٹھا تو کئی ہفتے عصا پر چلنا پڑا! 

{

تیسری بار عصا  نے ٹھیک دس سال قبل دستگیری کی۔اچانک چُک پڑی۔ پٹھوں کے شدید کھنچاؤ نے چلنے سے معذور کر دیا ۔ گھر کے ہر فرد نے دیکھ بھال کی مگر جو خدمت عصا نے کی، بے مثال تھی۔ وہاں بھی کام آیا جہاں ساتھ کوئی نہیں ہوتا تھا۔ رات رات بھر پلنگ کے ساتھ کھڑا رہتا! مخلص اور خدمت گار عصا!! 

 یہ تینوں مواقع عارضی تھے۔تکلیف آئی۔ عصا نے سہارا دیا۔ تکلیف دور ہوئی تو عصا بھی رخصت ہو گیا۔ مگر لگتا ہے عصا سے،  آہستہ آہستہ، وقت کے ساتھ ساتھ ،  مستقل دوستی رکھنا پڑے گی۔   بہت دیر بیٹھے رہنے کے بعد، اٹھتے وقت، اچانک تیز چل پڑنے سے چکر آنے لگتے ہیں۔ اصولی طور پر  اٹھنے کے بعد کچھ دیر، چند سیکنڈ، کھڑا رہنا چاہیے۔ اس کے بعد چلنا چاہیے۔  مگر اٹھتے وقت یاد ہی نہیں رہتا کہ چند سیکنڈ توقف کرنا ہے۔ تیز چلنے کی عادت شروع سے ہے۔ اٹھتے ہی تیز رفتاری آغاز ہو جاتی ہے۔ بقول ظفر اقبال ؎
جاگ کر بھاگ اٹھے تھے یونہی بے سمت ظفر
اب   کھڑے   سوچئے   آوازہ   کدھر   سے   آیا

اس کا حل یہ نکالا گیا کہ  اٹھتے وقت عصا پکڑ لیا جائے۔ تاکہ چکر آئے تو عصا مدد کرے۔ مگر جس طرح اٹھتے وقت چند سیکنڈ کھڑے رہنا  یاد نہیں رہتا، بالکل اسی طرح عصا پکڑنا بھی یاد نہیں رہتا۔ ایک بار پھر ظفر اقبال کا شعر ؎
مقرر  کر بھی  دوں کوئی  جو مجھ  کو  یاد دلوائے
تو میں اُس آدمی کو  ساتھ رکھنا بھول جاتا ہوں 

ایک تصویر میں علامہ اقبال عصا کے ساتھ چلتے نظر آتے ہیں۔ فراق گورکھپوری یونیورسٹی جاتے تھے تو عصا ساتھ رکھتے تھے! اس کا مطلب یہ ہؤا کہ کسی زمانے میں عصا ساتھ رکھنا رواج میں  شامل تھا۔  اس کا عمر سے کوئی تعلق نہ تھا۔ جیسے گاؤں میں کسان اور گڈریے جوان ہوں، تب بھی عصا ساتھ رکھتے ہیں ۔ گڈریے کے لیے تو عصا  یوں بھی ضروری ہے کہ ریوڈ ہانکنے کے کام آتا ہے۔ جس درخت کو جنگلی زیتون کہا جاتا ہے اس کا نام مقامی زبان میں کؤو ہے۔ کسان اسی درخت کی لاٹھی کو ترجیح دیتا ہے۔ جب سفر پیدل یا گھوڑوں  پر ہوتا تھا تب بھی عصا ساتھ رکھنا لازم ہوتا تھا کیونکہ کتوں اور دیگر جانوروں سے بچاؤ کے  کام آتا تھا۔ 

{
عجیب بات ہے کہ عصا بیک  وقت  کمزوری کی  علامت ہے   اور طاقت کی بھی !!  موسی علیہ السلام کا  عصا طاقت کی نشانی تھی۔ اقبال تو موسی کی کلیمی کے لیے عصا کو لازم گردانتے ہیں ؎

رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم 
عصا   نہ  ہو  تو کلیمی   ہے  کار  بے بنیاد 

فاقوں سے یعنی عجز اور ضُعف سے کام نہیں بنتا۔ کامیابی کے لیے قوت کی ضرورت ہے۔ حبیب جالب بھی اسی نتیجے پر پہنچے ؎

نہ گفتگو سے نہ وہ شاعری سے جائے گا
عصا اٹھاو کہ فرعون اسی سے جائے گا

فرعون کی شکلیں ہر عہد میں مختلف رہی ہیں! جناب  موسی کلیم اللہ  یہ سبق سکھا گئے ہیں کہ فرعون جہاں بھی ہو، جس زمانے میں بھی ہو، جس صورت میں بھی ہو، علاقائی  ہو یا بین الاقوامی ہو، جب تک اس کے سامنے خم ٹھونک  کر کھڑے نہیں ہو گے، فتح کا کوئی امکان نہیں ہو گا!  غالب نے بھی تو یہی تلقین کی ہے ؎
عجز و نیاز سے   تو  نہ  آیا  وہ راہ  پر 
 دامن کو آج اس کے حریفانہ کھینچیے 

بعض اوقات منت سماجت، مذاکرات، دلائل، منطق ، وظیفے، تعویذ کچھ بھی سود مند نہیں ہوتا! صرف ڈنڈا مدد کرتا ہے۔پنجابی میں مثال ہے  
ڈنڈا  پِیر  اے  وگڑیاں  تگڑیاں  دا ۔علامہ نے   بھی  کہا ہے ؎

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے 
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات  

دوسری  طرف یہی عصا  پیری اور ناتوانی کی علامت ہے۔   مصحفی کے بقول تو  دل سے آہ بھی خود نہیں اُٹھُ سکتی جب تک کہ عصاکا سہارا نہ لے ؎
اب دل سے بے عصا نہیں اٹھتی ہے آہ بھی 

یاں تک  تو ضُعفِ  قلب نے   ہم کو  بٹھا  دیا 

بڑھاپے پر مصحفی کا ایک شعر بہت مشہور ہے ؎
بھلا درستئ اعضائے پِیر کیوں کر ہو 
کہ جیسے رسّی سے ٹوٹا کواڑ باندھ دیا 

نئی  نسل کو کیا علم کہ کواڑ   کیا ہوتا ہے  اور جب وہ اکھڑتا ہے تو رسی سے جیسے باندھتے ہیں! 

مگر جو تصویر ریاض خیر آبادی نے کھینچی ہے ، لاجواب ہے ؎

کمر سیدھی کرنے ذرا میکدے میں 
عصا  ٹیکتے کیا  ریاض   آرہے  ہیں 
آج کے لٹریچر ، خصوصا” شاعری کے شائقین کی زیادہ تعداد  ریاض خیر آبادی کے نام ہی  سے نا آشنا ہے۔  ریاض ایک عجیب و غریب شخصیت تھے۔ ساری زندگی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا مگر شاعری شراب پر کی۔ اسی لیے انہیں “ خمریاتی شاعر “ کہا جاتا ہے۔ شاعری میں جو تلازمے انہوں نے استعمال کیے ہیں سب کے ڈانڈے مے نوشی سے ملتے ہیں۔ جیسے   دُختِ رز، سبو، ساقی ، خم و ساغر!! ان کی غزل کا رنگ دیکھیے ؎

پی لی ہم نے شراب پی لی = تھی آگ ! مثالِ آب پی لی 
اچھی پی لی ، خراب پی لی = جیسی   پائی  شراب   پی  لی
منہ چوم لے کوئی اس ادا پر= سرکا  کے  ذرا نقاب  پی لی
منظور تھی شُستگی زباں کی = تھوڑی سی شرابِ ناب پی لی 

میرے مستقل قارئین جانتے ہیں کہ میرے مشاغل میں سے ایک مشغلہ شَو ہارن جمع کرنا بھی ہے۔ لگتا ہے کہ اب عصا بھی  جمع  کرنے پڑیں گے۔مری مال روڈ کی دکانوں پر قسم قسم کی 

Sticks 
مل جاتی ہیں مگر اب مری میں وہ ہنگامہ اور ہجوم رہتا ہے کہ  مری نہ جانے میں زیادہ سکون اور تفریح ہے! بہر طور استعمال ہوں یا نہ ہوں، خوبصورت اور مختلف قسم کے عصا ہونے چاہییں اور بہت سے ہونے چاہییں !  ……………………………………………………………

Thursday, February 22, 2024

وزیراعظم مودی کے دو چہرے


وزیراعظم مودی کے دو چہرے ہیں۔ ایک چہرہ اس دنیا کے لیے ہے جو بھارت سے باہر ہے۔ یہ چہرہ متین‘ نرم اور متبسّم ہے! بھارت کے روزنامہ ''ہندو‘‘ نے تازہ ترین اشاعت میں لکھا ہے کہ بھارت اور متحدہ عرب امارات دونوں ''برداشت اور اجتماعیت‘‘ جیسی اقدار کے مشترکہ مالک ہیں! بھارت کی اس سفارتی کامیابی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے دنیا کے سامنے جو چہرہ رکھا ہوا ہے‘ دنیا سمجھ رہی ہے کہ وہی اصل چہرہ ہے! مشرقِ وسطیٰ کی کچھ ریاستیں بھارت کے اس دوغلے پن کی خاص طور پر شکار ہو رہی ہیں! سفارتی محاذ پر اسے پاکستان کی ناکامی بھی کہا جا سکتا ہے۔ کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ 2014ء سے لے کر آج تک مودی سات مرتبہ یو اے ای کا دورہ کر چکے ہیں۔ جی ہاں! نو سال میں سات بار!! ابھی ابھی دبئی میں جو ورلڈ گورنمنٹ سمٹ 
(World Government Summit)
 منعقد ہوئی ہے‘ اس میں بھی مودی نے شرکت کی ہے۔ جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے‘ پاکستان کی نمائندگی نہیں تھی۔ بھارت اور یو اے ای کے درمیان دس دو طرفہ معاہدے بھی ہوئے ہیں۔ باہمی سرمایہ کاری کے معاہدے پر بھی دستخط کیے گئے ہیں۔ یو اے ای دنیا کا واحد ملک ہے جس کے ساتھ بھارت کا نہ صرف تجارتی معاہدہ ہے بلکہ سرمایہ کاری کا معاہدہ بھی ہے۔ ان دس معاہدوں کی تفصیلات ہوشربا ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو جس میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ مربوط نہیں! اب تو یو اے ای برکس
 (BRICS) 
کا بھی رکن بن گیا ہے۔ بھارت پہلے ہی اس کا رکن ہے۔ اس حوالے سے بھی دونوں ملک مل کر کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں! مودی نے حالیہ دورے کے دوران ابو ظہبی میں بنائے گئے مندر کا بھی افتتاح کیا ہے!! یہ بھی یاد رہے کہ دبئی میں ہر تیسرا شخص بھارتی ہے۔ یعنی شہر کی 33فیصد آبادی بھارت سے ہے! 
اوپر برکس 
(BRICS)
 کا ذکر کیا گیا ہے! برکس کیا ہے؟ یہ بنیادی طور پر چار ملکوں کی تنظیم تھی۔ برازیل‘ روس‘ انڈیا اور چین کی! تب اس کا نام برک

 (BRIC)
 تھا۔ یہ جنوب کے ملکوں کی انجمن ہے جو اس زاویے سے بنائی گئی کہ شمال کے ممالک جیسے امریکہ اور مغربی یورپ کے ممالک‘ جو عالمی معیشت پر چھائے ہو ئے ہیں‘ ان کا مقابلہ کیا جائے۔ بعد میں جنوبی افریقہ کو بھی شامل کر لیا گیا یوں برک کے آخر میں ساؤتھ افریقہ کا ''ایس‘‘ لگا اور تنظیم کا نام برکس 
(BRICS) 
ہو گیا۔ سالِ رواں میں چھ مزید ممالک (سعودی عرب‘ ایتھوپیا‘ یو اے ای‘ مصر‘ ارجنٹائن اور ایران) اس کے رکن بنے ہیں۔ پاکستان نے عرضی تو ڈالی ہوئی ہے مگر اس ضمن میں خوش فہمی پالنے کی ضرورت نہیں! بھارت پوری کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان کی رکنیت روکی جائے۔ پاکستان کا اندرونی عدم استحکام بھی اس ناکامی کا سبب ہے! پھر رکن ممالک کی باہمی پالیٹکس بھی کردار ادا کرتی ہے!! مجموعی طور پر عالمی حوالے سے ہم روز بروز پیچھے ہی جا رہے ہیں!!
یہ جو روزنامہ ''ہندو‘‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ ''برداشت اور اجتماعیت‘‘ یو اے ای اور بھارت کی مشترکہ اقدار ہیں‘ اس سے بڑا دردناک اور سفاک مذاق شاید ممکن ہی نہیں! تازہ ترین خبر یہ ہے کہ مغربی بنگال میں انتہا پسند ہندو عدالت گئے ہیں صرف اس لیے کہ ایک شیرنی اور شیر چڑیا گھر میں اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ شیر کا نام اکبر ہے‘ شیرنی کا نام‘ ایک ہندو دیوی کے نام پر‘ سیتا ہے۔ اکبر یعنی شہنشاہ اکبر‘ جتنا بھی آزاد خیال تھا اور ہندوئوں پر مہر بان تھا‘ تھا تو مسلمان! اس لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ اکبر نامی شیر سیتا نامی شیرنی کے ساتھ رہ سکے!! یہ ہلکی سی جھلک ہے بھارتی ''برداشت‘‘ کی!! یہ مائنڈ سیٹ مودی کا لایا ہوا ہے۔ یہ ہے اصل چہرہ وزیراعظم مودی کا جسے باہر کی دنیا دیکھنے سے قاصر ہے یا جان بوجھ کر دیکھنا نہیں چاہتی۔ بی جے پی کی حکومت میں کون سا ظلم ہے جو مسلمانوں پر نہیں کیا جا رہا! مودی کے دو قریبی رفقا اس معاملے میں پیش پیش ہیں۔ امیت شاہ اور ادتیہ ناتھ! امیت شاہ وزیر داخلہ ہے۔ مودی کے پرانے ساتھیوں میں سے ہے۔ ماضی میں بی جے پی کا صدر بھی رہا ہے۔ گجرات میں مودی نے جتنے مظالم مسلمانوں پر ڈھائے‘ امیت شاہ ان میں برابر کا ذمہ دار ہے۔ ادتیہ ناتھ ایک متعصب پنڈت ہے۔ 24کروڑ آبادی والی بھارتی ریاست یو پی کا وزیراعلیٰ ہے۔ شہروں کے نام بدلنے کا یہی ذمہ دار ہے۔ جس شہر کے نام میں بھی مسلمانوں کی جھلک نظرآتی ہے‘ اس کا نام بدل دیتا ہے۔ الہ آباد‘ علی گڑھ‘ آگرہ اور کئی اور شہروں کے نام بدل دیے گئے ہیں! ادتیہ ناتھ کی مسلم دشمنی کا یہ عالم ہے کہ اس نے تقریر کرتے ہوئے ہندو نوجوانوں کو باقاعدہ اُکسایا کہ وہ مسلمان خواتین کے ساتھ زیادتی کریں! اسے مودی کا جانشین بھی کہا جاتا ہے۔ اگر خدانخواستہ ادتیہ ناتھ وزیراعظم بنا تو مودی سے چار ہاتھ آگے ہو گا!
جب سے بی جے پی کی یعنی مودی کی حکومت آئی ہے‘ مسلمانوں کی زندگی جہنم بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ گائے کے نام پر سینکڑوں مسلمان مارے جا چکے ہیں! مسلمانوں کو ان کے گھروں میں گھس کر لوٹا اور قتل کیا جاتا ہے۔ کوئی مسلمان گائے فروخت کرنے بھی جارہا ہو تو مار دیا جاتا ہے۔ کل پرسوں ہی ایک امام مسجد کو شہید کیا گیا ہے۔ آسام میں مسلمان دشمنی زوروں پر ہے۔ وہاں صدیوں سے رہنے والے مسلمانوں سے شہریت کے ثبوت مانگے جا رہے ہیں۔ مسلمانوں سے شہریت چھینی جا رہی ہے اور زرعی اراضی سے بے دخل کیا جا رہا ہے! آسام کا چیف منسٹر ہمنتا بسوا شرما بی جے پی کا رکن ہے۔ اس نے مسلمانوں کو زمین سے بے دخل کرنے کا لمبا چوڑا منصوبہ بنایا ہے۔ اس نے تقریر میں یہ بھی کہا ہے کہ لوگ مغلوں کے جبر کی وجہ سے مسلمان ہو گئے تھے۔ اب اگر انہیں زرعی زمین چاہیے تو واپس ہندو ازم کو قبول کریں! ایسا کرنے والا زمین کا حقدار ہو جائے گا! ایودھیا کی بابری مسجد کے بعد باقی مسجدوں کو منہدم کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ یہ ہے وہ ''برداشت‘‘ جس کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے!
یہ درست ہے کہ بھارت کے مسلمانوں اور مسلمانوں کے آثار کا تعلق بنیادی طور پر پاکستان سے ہے۔ مگر باقی مسلم ممالک‘ بھارتی مسلمانوں پر کیے جانے والے مظالم سے لا تعلق کس طرح رہ سکتے ہیں؟ بدقسمتی سے پاکستان ایک معاشی اور سیاسی گرداب میں پھنسا ہوا ہے اور اس پوزیشن میں نہیں کہ بھارت کی چیرہ دستیوں کو روک سکے۔ دوسری طرف مسلم ممالک بے حسی اور خود غرضی کا شکار ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اُمہ کے وجود پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔ اُمہ کہاں ہے؟ مسلم ممالک‘ مسلمان اقلیتوں کی کیا مدد کریں گے‘ وہ تو ایک دوسرے کے دشمن ہو رہے ہیں! غزہ کے مسلمانوں کے لیے اُمہ نے کیا کیا ہے؟ اسرائیل کے ساتھ قربتوں کے تانے بانے بُنے جا رہے ہیں! ایران‘ یو اے ای اور کچھ اور مسلم ملکوں کے تعلقات بھارت سے بہت دوستانہ ہیں۔ یہ ممالک ایک ہلکا سا اشارہ بھی کر دیں تو بھارت کا رویہ بھارت کے مسلمانوں کے ساتھ تبدیل ہونے میں دیر نہیں لگے گی مگر سوال یہ ہے کہ یہ ممالک ایسا کیوں کریں گے؟ ''نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر‘‘ والی میٹھی اور سہانی باتیں قوالیوں اور ترانوں کی حد تک تو درست ہیں‘ حقیقی دنیا میں ان کا کوئی وجود نہیں! ڈفلی بھی اپنی اپنی ہے اور راگ بھی اپنا اپنا !!

Tuesday, February 20, 2024

بوٹی‘ شوربا اور دیگچی


وسط ایشیا کے کسی شہر کے لوگ کنجوسی میں اپنی مثال آپ تھے۔ اس ضمن میں ایک حکایت ہے کہ اُس شہر سے تعلق رکھنے والے چار دوست سفر کر رہے تھے۔ کھانے کے لیے انہوں نے دکان سے گوشت خریدا۔ یہ گوشت صرف چار بوٹیوں پر مشتمل تھا۔ پکانے کے لیے دیگچی چولہے پر چڑھائی گئی۔ ہر شخص نے بوٹی کو دھاگے سے باندھا۔ بوٹی کو دیگچی میں ڈالا اور دھاگے کا دوسرا سرا ہاتھ میں پکڑ لیا۔ آخر وقت تک سب نے اپنی اپنی بوٹیوں کے دھاگے پکڑے رکھے۔ رہا شوربہ‘ تو وہ برابر برابر تقسیم کر لیا۔ ہمارے اہلِ سیاست کا یہی حال ہے۔ دیگچی میں گوشت پک رہا ہے۔ سب نے اپنی اپنی بوٹیاں نشان زد کی ہوئی ہیں۔ مگر جھگڑا پڑا ہوا ہے۔ جن کے پاس بوٹی نہیں‘ وہ بھی حصہ مانگ رہے ہیں۔ ان کی دلی خواہش یہ ہے کہ اگر انہیں کچھ نہیں ملتا تو دیگچی ہی اُلٹا دی جائے! دستبردار ہونے کو کوئی تیار نہیں! دھاگہ چھوڑنا تو دور کی بات ہے‘ گرفت ڈھیلی بھی کوئی نہیں کر رہا!! دعا کیجیے دیگچی سلامت رہے!
ہماری تاریخ عجیب و غریب ہے۔ آج تک کسی وزیراعظم نے اپنی مدت پوری نہیں کی اور سوائے یحییٰ خان کے جتنے آمر آئے‘ دس سال سے کم کسی کا تسلط نہیں رہا! لیاقت علی خان چار سال 63دن وزیراعظم رہے۔ خواجہ ناظم الدین کی وزارتِ عظمیٰ ایک سال 182دن رہی۔ محمد علی بوگرہ دو سال 117دن‘ چودھری محمد علی ایک سال 31دن‘ سہروردی صاحب ایک سال 35دن‘ آئی آئی چندریگر صرف 55دن اور فیروز خان نون صرف دو سو 95دن!! اس کے بعد جنرل ایوب خان نے کم و بیش گیارہ سال حکومت کی! نور الامین صرف 13دن وزیراعظم رہے! بھٹو صاحب کی وزارتِ عظمیٰ کی مدت تین سال 325دن سے زیادہ نہ ہو سکی! پھر جنرل ضیاء الحق نے پورے دس سال بادشاہت کی! اس نے اپنے مہیب پروں کے نیچے جونیجو صاحب کو وزارتِ عظمیٰ کا لولی پاپ دیا وہ بھی صرف تین سال 66دن کے لیے! بے نظیر بھٹو پہلی بار وزیراعظم بنیں تو صرف ایک سال اور 247دنوں کے لیے! پھر نواز شریف نے دو سال 254دن حکومت کی۔ بے نظیر کی دوسری مدت بھی تین سال 17دن سے زیادہ نہ ہو سکی! نواز شریف دوسری بار دو سال 237دن وزیراعظم رہے۔ جنرل پرویز مشرف نے‘ اپنے پیشرو آمروں کی پیروی میں‘ دس سال حکمرانی کے مزے لُوٹے! اس دوران اپنے مُغبچوں کے منہ میں چوگ بھی ڈالتے رہے۔ جمالی صاحب کو وزارتِ عظمیٰ کی یہ چوگ ایک سال 216دن کے لیے ملی۔ چودھری شجاعت حسین 54دن کے لیے وزیراعظم بنے۔ آرڈر پر بنے ہوئے پلاسٹک کے وزیراعظم‘ شوکت عزیز‘ اس لاٹری سے تین سال 80دن کے لیے لطف اندوز ہوئے۔ یوسف رضا گیلانی کی مدت چار سال 86دن رہی۔ راجہ پرویز اشرف صرف 275دن وزیراعظم رہے۔ نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بنے تو ان کی مدت چار سال 53دن سے زیادہ نہ تھی۔ شاہد خاقان عباسی صرف 303دن وزیراعظم رہے۔ عمران خان کی مدت تین سال 235دن سے زیادہ نہ ہو سکی۔ اس کے بعد شہباز شریف وزیراعظم بنے۔ ان کی حکومت ایک سال 125دن رہی۔ طویل ترین مدت یوسف رضا گیلانی کی رہی‘ یعنی چار سال 86دن!! تقسیمِ ہند کے بعد‘ 77برسوں میں ہم نے 23 وزرائے اعظم دیکھے۔ ان 77برسوں میں سے 33سال آمریت کے نکال دیجیے‘ باقی بچے 44سال! گویا ان 23 وزرائے اعظم کا کُل عرصۂ حکمرانی 44سال تھا یعنی اوسطاً ہر ایک کا عرصہ دو سال سے کم!! دوبارہ نوٹ کیجیے: 44برسوں میں 23 وزرائے اعظم۔ اس کے مقابلے میں بھارت کی صورتِ حال پر بھی غور فرما لیجیے۔
77برسوں کے دوران چودہ وزرائے اعظم!! اوسطاً ہر وزیراعظم نے ساڑھے پانچ سال حکومت کی! نہرو کا عرصۂ حکومت سولہ سال سے زیادہ تھا۔ اندرا گاندھی پہلی بار گیارہ سال اور دوسری بار چار سال سے زیادہ وزیراعظم رہیں۔ من موہن سنگھ دس سال وزیراعظم رہے۔ مودی کا یہ دسواں سال ہے! اس طویل موازنے کے بعد ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ جن سے ہم الگ ہوئے تھے وہ کہاں کھڑے ہیں اور ہم نے اپنا کیا حال کر رکھا ہے! یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا سیاست دانوں کے تعاون کے بغیر آمریت کا دور دس دس‘ گیارہ گیارہ سال تک رہ سکتا تھا؟ ہمیں سب سے پہلے اُن سیاست دانوں کی فہرستیں تیار کرنی چاہئیں جنہوں نے آمروں کے ادوار میں مناصب قبول کیے اور آمروں کے ہاتھ مضبوط کیے۔ اگر ہم میں‘ من حیث القوم‘ عزتِ نفس ہوتی تو آمروں کے ساتھیوں کو کسی بھی جمہوری حکومت میں شامل نہ کیا جاتا! ایسا کیا جاتا تو مقتدرہ کو بھی سبق حاصل ہوتا! مگر ہم عجیب لوگ ہیں۔ آمریت کی مذمت بھی کرتے ہیں اور آمروں کے پُشتیبانوں کو سر پر بھی بٹھاتے ہیں!
جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج کی کمان چھوڑتے وقت جو باتیں کہیں وہ مقتدرہ سمیت قوم کے ہر شعبے کے لیے لمحۂ فکریہ ہیں۔ یہ باتیں انہوں نے 23نومبر 2022ء کو یومِ شہدائے پاکستان کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔ میڈیا نے ان کی جو تقریر رپورٹ کی اس کی رُو سے ان کا کہنا تھا ''دنیا میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہندوستانی فوج کرتی ہے۔ لیکن ان کے عوام کم ہی ان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ اس کے برعکس ہماری فوج دن رات قوم کی خدمت میں مصروف رہتی ہے‘ اور پھر بھی تنقید کا نشانہ بنتی ہے۔ میرے نزدیک اس کی بڑی وجہ 70سال سے فوج کی مختلف صورتوں میں مداخلت ہے جو غیر آئینی ہے‘‘۔ گویا سطورِ بالا میں پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی حکومتی مدتوں کا جو تقابل پیش کیا گیا ہے‘ اس کا سبب جنرل قمر جاوید باجوہ نے انتہائی جامعیت کے ساتھ نہ صرف اپنی قوم کے سامنے بلکہ پوری دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے۔ اس کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ''پچھلے سال فروری میں فوج نے بڑی سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ فوج کسی سیاسی معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم اس پر سختی سے کاربند ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے‘‘۔
اس وقت ہم جس افراتفری اور غیر یقینی صورتِ حال کا سامنا کر رہے ہیں‘ اس کے اسباب ہم سب جانتے ہیں اور بخوبی جانتے ہیں۔ یہ اسباب بیان کیے جائیں یا نہ کیے جائیں‘ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا! بقول سعدی:
گر نہ بیند‘ بروز‘ شپرہ چشم
چشمۂ آفتاب را چہ گناہ
دن کے اجالے میں بھی اگر چمگادڑ کی آنکھ دیکھنے سے قاصر ہے تو اس میں سورج کا کیا قصور ہے؟
واپس دیگچی کی طرف چلتے ہیں! دیگچی بچانے کی ایک ہی صورت ہے۔ سب اپنی اپنی بوٹی سے تھوڑا سا حصہ کاٹ کر اُن کے دہانوں میں ٹھونسیں جن کے پاس بوٹی نہیں ہے۔ شوربے کا بھی ایک ایک گھونٹ انہیں بخشش میں دیں! ورنہ یہ طفیلی اس قدر شور و غوغا برپا کریں گے اور اتنی بدامنی پھیلائیں گے کہ اصل مالک بھی اپنی اپنی بوٹی نہیں کھا سکیں گے۔ کسی کو تو قربانی دینا پڑے گی۔ قربانی وہی دیتا ہے جو مخلص ہو۔ دو عورتوں میں بچے کے بارے میں جھگڑا تھا۔ دونوں ماں ہونے کا دعویٰ کر رہی تھیں۔ جج نے فیصلہ کیا کہ بچے کے دو ٹکڑے کر کے دونوں کو ایک ایک ٹکڑا دے دیا جائے۔ جعلی ماں نے کہا: ٹھیک ہے۔ اصل ماں تڑپ اٹھی اور کہنے لگی: سارا بچہ دوسری عورت کو دے دیا جائے تاکہ بچے کی زندگی سلامت رہے! اصل ماں اور جعلی ماں میں فرق کرنا بہت ضروری ہے!

Monday, February 19, 2024

اپنے کالج میں


میں پھر رہا تھا برآمدوں میں اور راہداریوں میں! کمروں میں جھانک رہا تھا۔ گراؤنڈ کا چکر لگارہا تھا مگر کوئی  بھی تو دکھائی نہیں دے رہا تھا !
لوگ تو موجود تھے! مگر جنہیں میں تلاش کر رہا تھا‘ ان میں سے کوئی نہیں نظر آ رہا تھا! میرے استاد کہاں تھے؟ پروفیسر اقبال بخت کیوں نہیں نظر آ رہے تھے؟ پڑھانے میں ان کا جواب نہ تھا اور خوش لباس اُن جیسا کوئی نہ تھا! پروفیسر سجاد حیدر ملک کہاں تھے جو انگریزی شاعری اور ڈراما پڑھاتے تھے۔ جنہیں معلوم تھا کہ لٹریچر کا ذوق طلبہ میں کیسے پیدا کیا جاتا ہے! جو خود سراپا لٹریچر تھے! پروفیسر اختر شیخ کلاس میں تھے نہ سٹاف روم میں! انہوں نے ہمیں برٹرنڈ رسل کے مشکل 
Sceptical Essays 
اس طرح پڑھائے تھے جیسے ان سے زیادہ سہل کوئی مضمون نہ ہو! پروفیسر اشفاق علی خان‘ جو ہمارے پرنسپل تھے‘ کہاں تھے؟ میرے ہم جماعت کہاں تھے؟ مسکراتا دانیال ہمیں کیوں نہیں ڈھونڈ رہا تھا؟ حسن زیدی کے گھر جا کر کھانا کہاں تھا! وہ کیوں غائب تھا؟ ٹی ایس ایلیٹ کی بلّی پر نظم‘ جس کا عنوان 
Macavity 

تھا‘ پڑھنے کے بعد ہم نے طاہر اکرام کا نام مکیویٹی رکھ دیا تھا‘ وہ بھی کہیں نہیں نظر آ رہا تھا! مولانا خلیق کہاں تھے؟ افضال بیدار ،مہتاب نقوی‘ اختر کاظمی‘ قمر قریشی‘ پوری کلاس غائب تھی! کیا یہ وہی کالج ہے جہاں کئی دہائیاں پہلے میں پڑھتا تھا؟ برآمدوں‘ رہداریوں اور گراؤنڈ میں طلبہ اور طالبات آج بھی آ جا رہی تھیں۔ کسی کو معلوم تھا نہ پروا کہ یہ سفید ریش شخص کون ہے۔ یہاں کیا کر رہا ہے؟ کسے ڈھونڈ رہا ہے؟ انہیں کیا معلوم کہ میں اپنے آپ کو ڈھونڈ رہا تھا! میں وقت کو ڈھونڈ رہا تھا! مٹی کا ایک ایک ذرہ چھان رہا تھا مگر وقت نہیں مل رہا تھا! وہ ایک اور وقت تھا! ایک اور زمانہ تھا! وہ وقت لد چکا! وہ زمانہ گم ہو چکا! مگر کالج اب بھی موجود تھا! میرے دل میں آباد تھا! اس کے برآمدے‘ اس کی روشیں‘ اس کے کلاس روم‘ اس کے لیکچر ہال سب مجھ میں آباد تھے! یوں کہ کبھی دل سے نکلے ہی نہیں! آج میں جو کچھ بھی تھا‘ افتاں و خیزاں جہاں تک پہنچا‘ جو بھی ٹوٹی پھوٹی پہچان بنائی‘ جو کچھ حاصل کیا‘ اس میں اس درسگاہ کا‘ اس کے اساتذہ کا‘ اس کے کمروں کا‘ اس کی رہداریوں کا‘ اس کے باغ کے پھولوں کا‘ اس کی مٹی کا بہت بڑا عمل دخل ہے!
میں مدتوں بعد اپنی مادردرسگاہ کو پلٹا تھا! گورنمنٹ کالج اصغر مال!! مجھے فخر ہے کہ میں اس کا طالبعلم رہا ہوں! اس کی مٹی میرے لیے مقدس ہے! اس کے در و دیوار تو کیا‘ اس کی گھاس کا ایک ایک تنکا میرا محسن ہے! میں نے یہاں ادب پڑھا! ادب سیکھا! یہاں زندگی گزارنے کا نہیں‘ زندگی بسر کرنے کا ڈھنگ پایا! زندگی بھر اپنے اساتذہ کا پانی بھرتا رہوں تو ان کے احسانات کا بدلہ نہ چُکا سکوں۔ میرے لیے تو میرے اساتذہ کے قدموں کی دھول بھی مقدس ہے! ہم اساتذہ سے بچھڑ کر عملی زندگی کی پُرپیچ جدوجہد میں کھو جاتے ہیں! ملازمت‘ کاروبار‘ گھر بار‘ بیوی بچے‘ ذمہ داریاں اور فکرِ معاش اجازت ہی نہیں دیتے کہ اساتذہ کی زیارت مسلسل کرتے رہیں! اور ان کی خدمت کریں! زندگی کی ضروریات اور مکروہات آہنی پنجوں میں جکڑے رکھتی ہیں! جب بڑھاپا فراغت کی گھڑی لاتا ہے اور پلٹ کر دیکھتے ہیں تو اساتذہ جا چکے ہوتے ہیں! پھر کفِ افسوس ملتے ہیں! خدا انہیں اپنی بے پایاں رحمتوں سے نوازے!
اچانک مجھے اپنا نام سنائی دیتا ہے۔ پلٹ کر دیکھتا ہوں۔ یہ کالج کے موجودہ پرنسپل ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر عبد الکبیر محسن! عربی ادب کے استاد‘ سکالر‘ کئی کتابوں کے مصنف اور مترجم! وہ مجھے اپنے دفتر لے جاتے ہیں! یہ وہی کمرہ ہے جہاں ہمارے پرنسپل‘ پروفیسر اشفاق علی خان اور ان کے بعد پروفیسر ڈاکٹر سید صفدر حسین بیٹھا کرتے تھے۔ تب ہمیں اس کمرے میں داخل ہونے سے پہلے سو بار سوچنا پڑنا تھا! دیوار پر سابق پرنسپل صاحبان کی تصویریں آویزاں تھیں۔ کرسی پر بیٹھتے ہوئے مجھے یوں لگا جیسے اپنے پرنسپل صاحبان کی تصویروں کی موجودگی میں بیٹھ کر میں سوء ادب کا مرتکب ہو رہا ہوں! مجھے کھڑا رہنا چاہیے تھا۔کچھ دیر کے بعد پرنسپل صاحب کالج کے وسیع و عریض آڈیٹوریم میں لے جاتے ہیں! آڈیٹوریم طلبہ اور طالبات سے بھرا ہوا ہے! اساتذہ بھی موجود ہیں! پرنسپل صاحب سٹیج پر اپنے ساتھ بیٹھنے کا اعزاز عطا کرتے ہیں! ہال میں شور ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر وسیم باقر ڈائس سنبھالتے ہیں! وہ دایاں ہاتھ بلند کرکے ایک بار، صرف ایک بار‘ کہتے ہیں ''آواز نہ آئے‘‘ اور ہال میں سناٹا چھا جاتا ہے! پروفیسر صاحب میرا تعارف کرانے کے بعد مجھے طلبہ و طالبات سے گفتگو کرنے کا حکم دیتے ہیں! میں طلبہ اور طالبات کو بتاتا ہوں کہ میری سب سے بڑی کوالیفکیشن‘ سب سے بڑا اعزاز اور سب سے بڑی اہلیت یہ ہے کہ میں اس کالج کا طالب علم رہا ہوں! میں انہیں بتاتا ہوں کہ جو اساتذہ آج اس کالج میں پڑھا رہے ہیں وہ بھی میرے لیے قابلِ احترام ہیں۔ میں انہیں ایک ضعیف العمر شخص کے بارے میں بتاتا ہوں جسے میں نے ایک ڈیڑھ سالہ بچی کے پاؤں چومتے دیکھا تھا! پوچھنے پر اس نے بتایا تھا کہ یہ بچی اُس کے استاد کی پڑپوتی ہے اور‘ اپنے استاد کی نسبت سے‘ اس کے لیے قابلِ احترام ہے! میں انہیں بتاتا ہوں کہ علم اور رزم گاہِ زندگی میں کامیابی‘ استاد کا ادب اور احترام کرنے سے حاصل ہوتی ہیں! طلبہ و طالبات کے ساتھ سوال جواب کا سیشن چلتا ہے۔
تشویشناک معاملہ یہ ہے کہ اصغر مال کالج کی اصل‘ قدیم عمارت خستہ شکستہ حالت میں ہے۔ یہ ایک یاد گار عمارت ہے۔ اس کی حیثیت تاریخی ہے۔ یہ راولپنڈی کا بہت نمایاں لینڈ مارک ہے۔ مگر افسوس کہ پنجاب حکومت کے متعلقہ محکمے اس عمارت کی مرمت‘ تجدید‘ تزین اور آرائش سے یکسر غافل ہیں۔ محکمۂ تعلیم اور محکمۂ عمارات دونوں کو اس ضمن میں اپنے اپنے فرائض کا احساس کرنا چاہیے! پنجاب کے مستعد اور محنتی وزیراعلیٰ جناب محسن نقوی کی خدمت میں خصوصی گزارش ہے کہ اس عمارت کی بقا اور 
Renovation 
کے لیے ضروری احکام جاری کریں اور وزارتِ خزانہ کو فنڈز کی فراہمی کا حکم بھی دیں!
اصغر مال کالج کی یہ عمارت 1913ء میں سناتن دھرم ہائی سکول کے لیے تعمیر کی گئی تھی۔ پاکستان بنا تو پنجاب حکومت نے 1948ء کے اواخر میں اسے کالج کا درجہ دے دیا! گزشتہ پون صدی کے دوران اس عظیم الشان تعلیمی ادارے میں ہزاروں لاکھو ں نونہالانِ وطن نے تعلیم پائی! یہ سلسہ بدستور جاری ہے۔ یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ و طالبات ملک کے مختلف شعبوں میں کام کر کے قومی ترقی میں اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں! بجا کہ نئے بلاک تعمیر ہو گئے ہیں مگر کالج کی اصل شناخت پرانی اور اصل عمارت ہی سے ہے۔ اس کے سرخ‘ منفرد نوعیت کے مینار کالج کی پہچان ہیں! ان کا تحفظ لازم ہے! زندہ قومیں افسروں اور حکمرانوں کے محلات کی تعمیر و تزیین کو نہیں بلکہ تعلیمی عمارات کو فوقیت دیتی ہیں! کالج کے وسیع و عریض احاطے میں اتنی گنجائش موجود ہے کہ اساتذہ کی قیام گاہیں تعمیر کی جا سکیں! کثیر المنزلہ اپارٹمنٹس بنائے جا سکتے ہیں اور بنانے چاہئیں! کتنا بڑا المیہ ہے کہ کلرک سے لے کر سیکشن افسر تک اور مجسٹریٹ سے لے کر کمشنر تک‘ تمام سرکاری ملازموں کو سرکاری قیام گاہیں دی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ سرکار کی طرف سے ان کے گھروں میں ٹیلیفون بھی لگائے جاتے ہیں۔ ان کے موبائل ٹیلی فونوں کا بار بھی قومی خزانے پر پڑتا ہے مگر اساتذہ کو‘ جو ہماری آئندہ نسلوں کے معمار ہیں‘ ان کو بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا جاتا ہے! ہماری موجودہ عبرتناک حالت کا بہت بڑا سبب یہ ہے کہ ہم تعلیم اور اساتذہ کو وہ مقام نہیں دے رہے جو ترقی یافتہ ملکوں میں دیا جاتا ہے! اس مائینڈ سیٹ کو تبدیل نہ کیا گیا تو ہم اسی طرح اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں گے!!

Tuesday, February 13, 2024

اگر عمران خان دوبارہ وزیر اعظم بنے


عوام نے فیصلہ کر دیا ہے! یہ فیصلہ کسی کو پسند ہو یا نہ ہو‘ اس فیصلے کا احترام ہونا چاہیے! اس فیصلے پر عمل ہونا چاہیے! تمام رکاوٹوں اور نامساعد حالات کے باوجود تحریک انصاف نے میدان مار لیا ہے۔ اس کامیابی کا بڑا سبب وہ وابستگی ہے جو لوگوں کو عمران خان کے ساتھ ہے اور جنون کی حد تک ہے! وہ عمران خان کو ایک دیومالائی‘ ایک مافوق الفطرت شخصیت سمجھتے ہیں! وہ ان کا لیڈر نہیں ہیرو ہے! اس کی غلطیاں بھی انہیں اس کے کارناموں کی طرح لگتی ہیں! وہ اس کے پرستار ہیں! اور پرستش دل کا معاملہ ہے۔ اس میں دماغ کا کچھ عمل دخل نہیں! اس وابستگی اور اس جنون کے علاوہ‘ کامیابی کا دوسرا سبب وہ مار دھاڑ ہے جو تحریک انصاف کے حامیوں کے ساتھ روا رکھی گئی! ہر عمل کا ایک ردِ عمل ہوتا ہے۔ بہت سے ووٹ ہمدردی کے بھی پڑے! 
آخر میاں صاحبان‘ زرداری صاحب اور بلاول میں اتنی سیاسی دور اندیشی اور اخلاقی جرأت کیوں نہیں کہ وہ اپوزیشن میں بیٹھیں! ایک مضبوط اپوزیشن ملک کی اتنی ہی خدمت کر سکتی ہے جتنی کہ حکومتی پارٹی! اگر تحریک انصاف ملک کے لیے اچھی کارکردگی دکھائے گی تو اپوزیشن کا بھی اس میں کردار ہو گا۔ اگر تحریک انصاف کی پرفارمنس اچھی نہیں ہو گی تو عوام اگلے انتخابات میں اپنا فیصلہ بدل سکتے ہیں! 
میاں نواز شریف کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ پاکستان میں صرف اسی صورت میں رہ سکتے ہیں جب اقتدار میں ہوں! لندن کی زندگی کے وہ دلدادہ ہیں! اس حوالے سے اکثر تصویریں اور خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ لندن کے ریستورانوں‘ کافی شاپس‘ سپر سٹوروں اور اپارٹمنٹس میں بہت کشش ہے۔ کون ہے جسے لندن میں رہنا پسند نہ ہو۔ پھر اگر استطاعت بھی ہو تو کیا کہنے!! مگر پاکستان کے عوام اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ حکومت کرنے کے لیے پاکستان میں رہا جائے اور حکومت نہ ملے تو لندن کو مستقر بنایا جائے‘ یہاں تک کہ عید بھی لندن میں کی جائے! میاں صاحب کو یہ تاثر زائل کرنا چاہیے! لازم ہے کہ وہ اپوزیشن میں بیٹھیں! اور لوگوں کی یہ غلط فہمی دور کر دیں کہ وہ حکمرانی کے بغیر پاکستان میں نہیں رہ سکتے! یوں بھی رائیونڈ کے محلات اور وسیع و عریض جاگیر لندن سے کم نہیں!
ووٹ دینے والوں کی اکثریت عمران خان کو وزیراعظم دیکھنا چاہتی ہے۔ ہم فرض کرتے ہیں کہ عمران خان رہا ہو جاتے ہیں اور وزیراعظم بن جاتے ہیں! ہم یہ بھی فرض کرتے ہیں کہ پنجاب اور کے پی میں بھی انہی کی حکومت ہو گی۔ اس صورت میں ذہن کچھ سوالات اٹھاتا ہے۔ کیا وہ پہلے کی طرح پنجاب کو اپنی مٹھی ہی میں رکھنا چاہیں گے؟ اگر اب کے بھی ان کی خواہش یا پالیسی یہی ہوئی تو اس مقصد کے لیے کیا پھر کسی بزدار کا انتخاب کیا جائے گا؟ کیا پھر پنجاب میں سیکرٹریوں‘ ڈپٹی کمشنروں‘ کمشنروں اور پولیس افسروں کی میوزیکل چیئر کھیلی جائے گی؟ کیا تقرریوں‘ تبادلوں اور ترقیوں کے لیے پھر روپیہ فیصلہ کن کردار ادا کرے گا؟ گجر صاحب کا کیا کردار ہو گا؟ کیا وہ اور ان کی بیگم‘ عمران خان کے دوبارہ وزیراعظم بننے کے بعد پاکستان واپس آجائیں گی؟ کیا زلفی بخاری‘ جو عمران خان کو مصیبت میں دیکھ کر واپس بیرونِ ملک چلے گئے‘ واپس آکر پھر سے کوئی اہم ذمہ داری سنبھالیں گے؟ کیا شہباز گل صاحب بھی امریکہ سے واپس آکر‘ ایک بار پھر‘ چیف آف سٹاف یا ترجمان کے طور پر فرائض سرانجام دیں گے؟ کیا شیخ رشید کے ساتھ دوبارہ ان کا اتحاد ہو گا؟ چودھری پرویز الٰہی نے استقامت کا مظاہرہ کیا ہے۔ کئی ماہ سے جیل میں ہیں! تحریک انصاف کو نہیں چھو ڑا۔ عمران خان انہیں یقینا کسی بڑے منصب سے نوازیں گے! مگر کیا وہ اعتراف کریں گے کہ پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہنے والی بات غلط تھی؟ کیا عمران خان اپنے دوسرے عہدِ اقتدار میں پہلے کی نسبت ‘ قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے شرکت کیا کریں گے؟ 
کیا عمران خان اس بار بھی‘ ہر روز‘ ہیلی کاپٹر ہی کے ذریعے دفتر آیا جایا کریں گے یا یورپ کے ان حکمرانوں کی طرح عام شہریوں کا انداز اپنائیں گے جن کی وہ مثالیں دیتے رہے ہیں؟ کیا اس بار بھی بڑے بڑے مناصب پر تقرریوں کے فیصلے افسروں کی تصویریں دیکھ کر کیے جائیں گے؟ کیا زرداریوں اور شریفوں سے دولت واپس لینے کی کوششیں دوبارہ کی جائیں گی؟ اور کیا شہزاد اکبر صاحب دوبارہ وہی ذمہ داریاں سنبھالیں گے؟ 
عمران خان طالبان کے لیے ہمیشہ سے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے دورِ حکومت میں کوشش کی کہ ٹی ٹی پی (جو پاکستان پر مسلسل حملے کر رہی ہے) کے پانچ ہزار ارکان اپنے خاندانوں سمیت پاکستان منتقل ہو جائیں۔ اس امر کے بارے میں کبھی کوئی وضاحت نہیں ہوئی کہ کیا یہ افراد اپنے ہتھیاروں سمیت منتقل ہونے تھے یا غیر مسلح ہو کر؟ دوبارہ وزیراعظم بننے کی صورت میں کیا عمران خان اسی پالیسی پر عمل پیرا ہوں گے؟ سعودی عرب کے ساتھ ان کے زمانے میں تعلقات بہت اچھے نہیں رہے تھے۔ اس میں‘ مبینہ طور پر‘ کسی گھڑی کا بھی معاملہ تھا۔ شہزادے کے جہاز پر سوار ہو کر عمران خان امریکہ گئے تھے۔ واپسی پر کچھ ہوا اور یہ جہاز سفر کے دوران ہی واپس منگوا لیا گیا۔ ایک اور دراڑ یوں بھی پڑی تھی کہ عمران خان‘ مہاتیر اور اردوان اسلامی کانفرنس کے مقابلے میں ایک اور تنظیم کھڑی کرنا چاہتے تھے۔ روایت ہے کہ خان صاحب‘ کسی ملک کے کہنے پر‘ پیچھے ہٹ گئے اور پھر اس ملک کا نام بھی لے لیا تھا۔ بین الاقوامی تعلقات اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کے طالب علم کے طور پر‘ ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا عمران خان ان تعلقات کی تجدید کریں گے؟
عمران خان کے دورِ اقتدار میں عام شہریوں کے لیے صحت کارڈ جاری کیے گئے تھے۔ یہ ایک انتہائی عوام دوست پالیسی تھی۔ ان کی حکومت ختم ہونے کے بعد‘ بد قسمتی سے‘ یہ سہولت غیر اعلانیہ طور پر ختم کر دی گئی۔ کیا تحریک انصاف کی حکومت اس پالیسی کا احیا کرے گی؟ تحریک انصاف کی حکومت کا ایک اور تعمیری منصوبہ یہ تھا کہ دو یا تین پاکستانی جزیروں کو سیاحت کے نقطۂ نظر سے ڈویلپ کرنا تھا۔ اس میں رخنہ یہ آن پڑا کہ سندھ حکومت نے اس منصوبے کی اجازت نہ دی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ عمران خان اپنے عہدِ اقتدار میں کسی سیاسی مخالف کے ساتھ بات کرتے تھے نہ ہاتھ ملا تے تھے۔ جب کراچی جاتے تھے تو سندھ کے وزیراعلیٰ کو ان کے دورے کی خبر ہوتی تھی نہ وزیراعلیٰ کو کسی اجلاس میں بلایا جاتا تھا۔ تعلقات کا یہ انقطاع بھی ان جزیروں کے ترقیاتی منصوبے کی ناکامی کا سبب تھا۔ عمران خان اپنے مخالفین کو چور اور ڈاکو کہتے تھے۔ اپوزیشن کا ان کے نزدیک وجود ہی نہ تھا! اس بچکانہ رویے نے کاروبارِ حکومت کو متاثر کیا۔ ویسے عمران خان نے اس بات کا جواب کبھی نہیں دیا کہ جس سیاستدان کو وہ پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے‘ اس کے ساتھ ان کے تعلقات انتہائی گہرے کیوں تھے۔ اسے ان کے زمانے میں بہت بڑا منصب ملا۔ اس کے بیٹے کو وزارت دی گئی۔ اصولی طور پر خان صاحب کو باقی چوروں سے بھی ہاتھ ملا لینا چاہیے تھا یا پھر کسی سے بھی نہ ملاتے!
کیا دوبارہ وزیراعظم بننے کے بعد بھی وہ اپوزیشن کے وجود کو تسلیم نہیں کریں گے؟ ان سوالوں کا جواب وقت ہی دے گا۔ بہر طور‘ عوام کے فیصلے کا احترام لازم ہے!

Monday, February 12, 2024

کیا بنگلہ دیش ماڈل یہاں چل سکتا ہے؟؟


اروَند سہارن نوجوان صحافی ہیں۔ تعلق بھارت سے ہے۔ نیوزی لینڈ میں رہتے ہیں۔ اُردو لکھ پڑھ لیتے ہیں۔ یوٹیوب پر ان کا ایک مستقل فیچر ''سرحد کے اُس پار‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں وہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں سے انٹرویو کرتے ہیں۔ تقریباً دو سال پہلے انہوں نے میرا بھی انٹرویو لیا جو دو نشستوں میں مکمل ہوا۔ اچھی بات یہ تھی کہ میرے جوابات کو انہوں نے ایڈٹ نہیں کیا اور بلا کم و کاست نشر کیا۔ بھارتی ناظرین اور سامعین نے مجھے جی بھر کر بُرا بھلا کہا‘ یہاں تک کہ اروند سہارن کو کہنا پڑا کہ ان کے مہمان کے ساتھ ایسا نہ کیا جائے۔ اصل بات جو بتانی ہے‘ یہ ہے کہ انہوں نے بنگلہ دیش کی ترقی اور بہتر اقتصادی اشاریوں کا ذکر کرتے ہوئے پوچھا کہ آخر بنگلہ دیش پاکستان سے آگے کیوں نکل گیا؟ اس کا فوری جواب میں نے یہ دیا کہ بنگلہ دیش کی خوش بختی ہے کہ اس کے پڑوس میں کوئی افغانستان آباد نہیں ہے!
یہ بات اس لیے یاد آئی کہ آج کل بنگلہ دیش ماڈل کا‘ پاکستان کے حوالے سے‘ بہت چرچا ہے! تاریخ بھی کیسے کیسے مذاق کرتی ہے۔ جنوبی کوریا کے بارے میں روایت ہے کہ پاکستان کے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبوں کو اس نے اپنایا اور سرخرو ٹھہرا! (معلوم نہیں یہ بات کہاں تک درست ہے) آج ہم بنگلہ دیش ماڈل کی پیروی کرنے کا سوچ رہے ہیں! بقول غالب:
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رَو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
کسی بھی ملک میں کامیاب ہونے والے ماڈل کو کسی دوسرے ملک پر منطبق کرنا اول تو ناممکن ہے‘ مگر فرض کیجیے اگر منطبق ہو بھی گیا تو اس کی کامیابی معجزے سے کم نہیں اور معجزات کا زمانہ لَد چکا! دنیا میں دو گھر بھی ایک جیسے نہیں ہو سکتے‘ دو ملک کیسے ایک جیسے ہو سکتے ہیں؟ بنگلہ دیش اپنی جی ڈی پی کا کتنے فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے اور پاکستان کتنے فیصد؟ بنگلہ دیش کو ایسے بہت سے فوائد حاصل ہیں جن سے پاکستان محروم ہے! دفاع کا بجٹ ایک بہت بڑا عامل ہے۔ افغانستان‘ ٹی ٹی پی‘ مشرقی سرحد‘ لائن آف کنٹرول‘ یہ سب وہ زخم ہیں جو پاکستان کے جسم پر موجود ہیں اور جن سے وقتاً فوقتاً لہو رستا رہتا ہے! بنگلہ دیش کا بجٹ اس قسم کی مجبوریوں سے آزاد ہے۔ بنگلہ دیش کے تین طرف بھارت ہے۔ بھارت سے بنگلہ دیش کو کوئی عسکری خطرہ نہیں! اسی لیے اس کا خرچ دفاع پر پاکستان کی نسبت بہت کم ہے! حکومت سازی میں جو کردار اسٹیبلشمنٹ کا پاکستان میں ہے اور رہا ہے‘ بنگلہ دیش میں نہیں ہے! صرف ایک فرق ہی دیکھ لیجیے۔ بنگلہ دیش کی وزارتِ دفاع کا سیکرٹری ایک سول سرونٹ ہے جبکہ ہمارے ہاں بہت عرصہ سے ایسا نہیں ہے!
بنگلہ دیش ماڈل کے حوالے سے جو بات بہت زیادہ کی جا رہی ہے‘ وہ حکومت کا تسلسل ہے۔ حسینہ واجد پندرہ سال سے وزیر اعظم چلی آرہی ہیں! پاکستان میں کوئی وزیراعظم پانچ سال بھی مکمل نہیں کر سکا! اس سے بھی زیادہ بدقسمتی یہ ہے کہ ہر نئی حکومت‘ گزشتہ حکومت کے منصوبوں کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کرتی ہے! پالیسیوں کے تسلسل کا پاکستان میں سوچا بھی نہیں جا سکتا! ہر حکومت الف سے شروع کرتی ہے۔ ابھی مشکل سے سین شین تک پہنچ پاتی ہے کہ ختم ہو جاتی ہے۔ آنے والی حکومت پھر الف سے شروع کرتی ہے! ایک عرصہ سے ملک اسی دائرے کے اندر چکر کاٹ رہا ہے! یہاں ایک دلچسپ موازنہ کرنا شاید نامناسب نہ ہو! معاشی مسائل اور معاشی منصوبوں کے متعلق جو اجلاس ہوتے ہیں‘ حسینہ واجد ان اجلاسوں کی صدارت خود کرتی ہیں۔ یہ اجلاس دس دس گھنٹے مسلسل جاری رہتے ہیں اور وہ بیٹھی رہتی ہیں۔ ہمارے ہاں صورتِ حال قابل رحم ہے اور مضحکہ خیز بھی! جسے 

Span of attention 

کہتے ہیں یعنی توجہ کی مدت پندرہ‘ بیس منٹ یا آدھے گھنٹے سے زیادہ نہیں! نہ فائل خود پڑھتے ہیں! اس سلسلے میں کئی حقائق تو لطیفوں کی صورت اختیار کر چکے ہیں! آج اگر بنگلہ دیش کی برآمدات حیران کن حد تک زیادہ ہیں اور دیگر اقتصادی اشاریے مثبت ہیں تو اس کی پشت پر وزیراعظم اور ان کی ٹیم کی شبانہ روز محنت کا کردار ہے!
افغانستان کا ذکر اوپر عسکری حوالے سے کیا گیا ہے! معاشی نقطۂ نظر سے ہمارا یہ پڑوسی ہماری معیشت پر مستقل بوجھ ہے۔ یہ آج کی بات نہیں‘ موجودہ پاکستان کے علاقے صدیوں سے افغانوں کی جولان گاہ رہے ہیں۔ موجودہ افغانستان 1747ء میں ریاست کے طور پر وجود میں آیا مگر اس سے پہلے بھی یہ لوگ حملہ آور ہوتے تھے اور اناج‘ مویشی‘ سونا چاندی لوٹ کر لے جاتے تھے۔ احمد شاہ ابدالی آٹھ بار حملہ آور ہوا اور ہر بار لوٹ مار کر کے گیا۔ اُس زمانے کی ایک پنجابی بولی آج تک تاریخ میں محفوظ ہے۔ کھادا پیتا لاہے دا‘ تے باقی احمد شاہے دا! حملوں کا زمانہ ختم ہوا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ افغانستان خودکفیل ہو گیا۔ حملہ آوروں کی لوٹ مار کی جگہ سمگلنگ نے لے لی جو لوٹ مار کا دوسرا نام ہے! گندم‘ چینی‘ ادویات‘ سیمنٹ‘ سریا‘ کون سی شے ہے جو سمگل ہو کر نہیں جاتی۔ بنگلہ دیش اور پاکستان میں ایک بہت بڑا فرق یہ ہے کہ بنگلہ دیش صرف اپنے ملک کے لیے کماتا‘ اُگاتا اور بناتا ہے جبکہ پاکستان نے اپنے علاوہ افغانستان کے لیے بھی کمانا‘ اُگانا اور بنانا ہے! ڈالر کی مہنگائی میں‘ ہم سب جانتے ہیں کہ افغانستان کا بہت بڑا کردار ہے! بدقسمتی سے ہماری حکومتوں کی ہمدردیاں اپنے لوگوں کی نسبت افغانستان کے ساتھ زیادہ رہیں! پاکستان کئی دہائیوں سے چالیس لاکھ افغان مہاجرین کو برداشت کر رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں صرف نو لاکھ ساٹھ ہزار روہنگیا مہاجر بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تو بنگلہ دیش کا رویہ سرد مہری کا‘ بلکہ معاندانہ رہا ہے۔ اس کی پوری کوشش ہے کہ یہ مہاجر جلد سے جلد واپس چلے جائیں۔ انہیں مزدوری یا نوکری کرنے کی اجازت نہیں۔ یہ کیمپوں میں مقید ہیں! بنگلہ دیش ماڈل کی بات کرنے سے پہلے یہ بھی دیکھنا اور سوچنا چاہیے کہ بنگلہ دیش لسانی اور نسلی حوالے سے ایک اکائی ہے اور مضبوط‘ ایک دوسرے سے جُڑی ہوئی اور باہم پیوست اکائی ہے۔ حکومت کے تسلسل میں یہ عامل بہت اہم ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کئی لسانی اور نسلی ٹکڑوں میں بٹا ہوا ہے۔ کسی بھی حکومت کے نیچے سے زمین کھینچنا یہاں بہت آسان ہے۔ پاکستان جاگیرداروں‘ وڈیروں‘ سرداروں اور خوانین و ملوک کا ملک ہے۔ بنگلہ دیش ان بلاؤں سے پاک اور محفوظ ہے! مشرقی پاکستان کے الگ ہونے میں اس سرداری نظام اور وڈیرہ شاہی کا بھی کردار تھا۔ مزاج الگ الگ تھے۔ مائنڈ سیٹ مختلف تھے۔ سیاسی رویّوں میں فرق تھا۔ یہ فرق آج بھی موجود ہے۔ اگر ترقی کرنے کی نیت ہو اور لیڈر شپ مخلص ہو تو کسی دوسرے ملک کا ماڈل اپنانے کے بجائے اپنا ماڈل خود بنانا ہوتا ہے۔ ہر ملک کے حالات مختلف ہیں۔ 
ملائیشیا کے مہاتیر اور سنگاپور کے لی کوان ییو نے اپنے اپنے ملک کے ماڈل خود تیار کیے۔ تھائی لینڈ اور تائیوان نے اپنی اپنی پالیسیاں خود وضع کیں! ہانگ کانگ کا اپنا طریقّ کار تھا! پاکستان اگر ترقی کرنے میں سنجیدہ ہے تو اسے اپنے مخصوص اندرونی اور خارجی مسائل کو سامنے رکھ کر ایسی طویل المیعاد پالیسیاں وضع کرنا ہوں گی جو صرف اسی کے لیے ہوں گی! کسی دوسرے ملک کا ماڈل ہماری دستگیری نہیں کر سکتا! یہ جو ہمارے ہاں محاورہ رائج ہے کہ کوّا چلا ہنس کی چال‘ اپنی بھی بھول گیا‘ تو یہ محاورہ نظامی گنجوی کے اس شعر کا بالکل لفظی ترجمہ ہے:
کلاغی تگِ کَبک را گوش کرد
تگِ خویشتن را فراموش کرد

Tuesday, February 06, 2024

کراچی‘ لاہور‘ اسلام آباد


ایک حالیہ سروے کے مطابق چوبیس فیصد لوگوں نے اسلام آباد کو ملک کا خوبصورت ترین شہر قرار دیا ہے۔ پندرہ فیصد نے یہ اعزاز لاہور کو دیا ہے اور نو فیصد نے کراچی کو! باقی شہروں کا بھی ذکر ہے۔ نہیں معلوم یہ سروے کیوں کیا گیا اور کتنا قابلِ اعتبار ہے مگر‘ بہرطور‘ یہ سروے آواز دے رہا ہے کہ اپنے شہروں کی خبر لو!
ساٹھ اور ستر کی دہائی میں کراچی اس خطے کا مقبول ترین شہر تھا۔ تب دبئی منظرپر تھا نہ سنگاپور! یورپی ملکوں کے سفیر ریٹائرمنٹ کے بعد کراچی میں مقیم ہونا پسند کرتے تھے۔ دنیا بھر کے جہاز کراچی اترتے تھے! غیر ملکی سیاحوں کے ہجوم ہوا کرتے تھے۔ یہ جو علاقہ ہے‘ ریجنٹ پلازا ( پرانا نام تاج محل) سے لے کر میٹرو پول ہوٹل تک‘ اور اس سے آگے میریٹ تک‘ یہ سارا علاقہ سیاحوں کے لیے جنت تھا۔ زینب مارکیٹ غیر ملکی خریداروں سے چھلک رہی ہوتی تھی۔ ریگل کراچی کا مرکز تھا۔ امن و امان اس قدر مثالی تھا کہ رات رات بھر دکانیں کھلی رہتی تھیں! اس کالم نگار نے ملازمت کا آغاز کراچی سے کیا۔ ستر کی دہائی تھی! ہم چند دوست رات کے دو بجے‘ پیدل چلتے ہوئے‘ بندو خان کے ریستوران میں جایا کرتے تھے۔ واپسی پر ایرانی ریستوران سے‘ جو اس وقت کھلے ہوتے تھے‘ کافی پیا کرتے تھے۔ گورنمنٹ ہوسٹل چڑیا گھر (گاندھی گارڈن) کے بالکل سامنے تھا۔ وہاں سے لے کر صدر تک پیدل جانا پکنک کی طرح لگتا تھا! صدر میں فرزند قلفی والے کی دکان پر کتنے ہی گم شدہ دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ ایمپریس مارکیٹ کے سامنے والی گلیاں مسیحی اور پارسی آبادیوں سے بھری ہوئی تھیں! کراچی کے حوالے سے محمد خالد اختر کا شہرہ آفاق ناول ''چاکی واڑہ میں وصال‘‘ منظرِ عام پر آ چکا تھا۔ کراچی کے گلی کوچوں سے واقفیت کے بعد‘ اس ناول کو ہم نے بار بار پڑھا اور ہر بار نیا لطف اٹھایا۔ سنا ہے فیضؔ صاحب کا بھی یہ پسندیدہ ناول تھا۔ محمد خالد اختر کا اسلوب خاص ہے اور اسے پسند کرنے کے لیے اس کا ذوق پالنا پڑتا ہے۔ کئی دہائیاں پہلے‘ اسلام آباد میں منعقدہ‘ اہلِ قلم کانفرنس کے دوران مستنصر تارڑ صاحب نے مجھے محمد خالد اختر سے ملایا۔ وہ طویل قامت تھے۔ دھان پان! مجھے فخر ہے کہ میں نے انہیں دیکھا اور ان سے ہاتھ ملایا!
اُس رنگارنگ‘ خوبصورت‘ دل آویز اور شیشے جیسے صاف شفاف کراچی کو کیا ہوا؟ کس کی نظر لگ گئی؟ پہلا مجرم‘ اس ضمن میں‘ علاقائیت پرستی تھی! ہم پاکستانی ہونے کے بجائے پنجابیوں‘ پٹھانوں‘ سندھیوں‘ بلوچوں‘ سرائیکیوں‘ براہویوں میں بٹ گئے! کراچی یونیورسٹی میں پندرہ کے لگ بھگ طلبہ تنظیمیں تھیں جو لسانی‘ صوبائی اور نسلی بنیادوں پر قائم تھیں! جب ہر طرف یہی کچھ ہو رہا تھا تو الطاف حسین نے بھی مہاجر کی بنیاد پر طلبہ کی تنظیم بنائی۔ ردِعمل ہمیشہ شدید اور غیر منطقی ہوتا ہے۔ اس ردِعمل میں پورس کے ہاتھیوں کی طرح کراچی ہی کو برباد کر دیا گیا۔ اس بربادی کی تفصیل ہم سب جانتے ہیں! دوسرا مجرم نااہلی اور نالائقی تھا۔ لسانی بنیادوں پر کراچی کی آبادی تقسیم ہو گئی۔ حکمران کوتاہ اندیش تھے اور سخت نالائق اور خود غرض! یہاں جدید سنگاپور کے معمار لی کوآن ییو کی فراست اور دور اندیشی یاد آتی ہے۔ سنگاپور میں تین قومیتیں آباد ہیں۔ چینی‘ مَلے اور انڈین۔ کسی بھی بلڈنگ میں ممکن نہیں کہ صرف چینی یا صرف انڈین یا صرف مَلے رہ سکیں۔ سب کو مکس ہو کر رہنا پڑے گا! فلیٹوں کی ہر عمارت میں ان کے کوٹے مقرر ہیں! ہم اہلِ پاکستان کی نالائقی اور نااہلی کی انتہا یہ ہے کہ آج تک متبادل بندرگاہ نہیں بن سکی۔ اگر گوادر آباد ہو جاتا تو اندرونِ ملک سے لوگوں کا رُخ اُس کی طرف ہو جاتا! موجودہ صورتِ حال میں کراچی کی آبادی ہر سال‘ ہر ماہ‘ ہر روز‘ ہر لمحہ بڑھ رہی ہے!
یہی کوتاہ اندیشی اور عقل کا اندھا پن لاہور کو بھی برباد کرنے کے درپے ہے!! لسانی بنیاد پر پاکٹس (Pockets) بن رہی ہیں اور بڑھتی جا رہی ہیں ! اگر ان لسانی جزیروں کو روکا نہ گیا تو کل یہاں سہراب گوٹھ بھی بن جائے گا اور لسانی بنیادوں پر انتخابات بھی شروع ہو جائیں گے! اس کوتاہ اندیشی کی ایک مثال ذہن سے کبھی نہیں اترتی! شہباز شریف جب چیف منسٹر تھے تو کلرکہار کے دورے پر گئے۔ وہاں ایک لسانی تنظیم نے ان سے مطالبہ کیا کہ آبادی کے ایک خاص حصے کو ایمبولنس دی جائے! وزیراعلیٰ کو یہ کہنا چاہیے تھا کہ ایمبولنس دی جائے گی مگر کسی خاص تنظیم اور کسی خاص لسانی گروہ کے لیے نہیں بلکہ یہ تمام لوگوں کے لیے ہو گی خواہ وہ کوئی سی زبان بولتے ہوں یا کسی بھی نسل یا گروہ سے تعلق رکھتے ہوں! مگر ہمارے حکمرانوں میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کم ہی ہوتی ہے۔ ایمبولنس منظور کی گئی مگر صرف ایک خاص کمیونٹی کے لیے! اسے کہتے ہیں اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارنا!! خدا لاہور کے مستقبل کو محفوظ رکھے اور ایک اور کراچی بننے سے روکے!
چوبیس فیصد لوگوں نے اسلام آباد کو ملک کا خوبصوت ترین شہر قرار دیا! یہ شہر کبھی خوبصورت تھا مگر اب نہیں! عرصہ ہوا ایک دوست جو بھارت سے ہو کر آیا تھا‘ اسلام آباد کا موازنہ چندی گڑھ سے کر رہا تھا! دونوں شہر نئے ہیں اور منصوبہ بندی سے بنے ہیں! اُس کا کہنا تھا کہ اسلام آباد‘ چندی گڑھ کی نسبت زیادہ صاف ستھرا ہے! تب ایسا ہی تھا! آج کا اسلام آباد 
Slums 
کا مجموعہ ہے! اگر آپ نے ملک کا سب سے زیادہ غلیظ بازار دیکھنا ہو تو میلوڈی مارکیٹ جا کر دیکھیے! یہ شہر کا دل ہے! نام نہاد دل! نالیوں سے سیوریج کا پانی باہر چھلک رہا ہے‘ گٹر ابل رہے ہیں اور اس سب کے درمیان لوگ بیٹھے کھانے کھا رہے ہیں اور چائے پی رہے ہیں! شہر کے حاکم کو پروا ہے نہ ریستورانوں کے مالکوں کو! پارکنگ کا برا حال ہے۔ نیشنل بینک کی بڑی عمارت کھوکھوں کی کثرت اور پارکنگ کی ہڑبونگ کا شکار ہے! اسی طرح سپر مارکیٹ اور جناح سپر مارکیٹ بھی کھو کھوں سے اَٹی پڑی ہیں! صفائی عنقا ہے!
اسلام آباد کا زوال جنرل ضیاء الحق کے تاریک دور میں شروع ہوا۔ ماسٹر پلان کی دھجیاں اُڑائی گئیں! پلاٹوں کی بندر بانٹ ہوئی۔ جنرل صاحب نے نرسریاں اور فارم اپنی ذاتی پسند‘ ناپسند کی بنیاد پر بانٹے۔ گرین ایریاز میں خوب خوب نقب لگائی گئی! بعد میں آنے والے حکمرانوں نے غلط بخشیوں کا یہ کاروبار جاری رکھا! نوازشیں جاری رہیں! شہر گہناتا گیا! پارک اور گرین ایریا کم ہوتے گئے۔ سیمنٹ اور سریا غلبہ پاتا رہا! مخصوس مافیا مکانوں اور پلاٹوں کی قیمتیں بڑھاتا رہا! یہاں تک کہ یہ قیمتیں عام پاکستانیوں کی پہنچ سے باہر ہو گئیں! ساتھ ساتھ پانی کی قلت ہوتی گئی! کراچی کی طرح ٹینکر مافیا بھی وجود میں آگیا! جولائی2016 ء میں سپریم کورٹ نے ایل ڈی اے کو ملک کا کرپٹ ترین ادارہ قرار دیا۔ اس پر اس کالم نگار نے سی ڈی اے کو شرم دلائی کہ یہ اعزاز تو آپ کا تھا۔ جا کر سپریم کورٹ میں فریاد کیجیے کہ کرپٹ ترین ادارہ ہم ہیں! شہروں کی خوبصورتی کو بر قرار رکھنا‘ بڑھانا‘ آبادیوں اور بستیوں کو سائنسی بنیادوں پر کنٹرول کرنا مقامی حکومتوں کا کام ہے! یہاں تو مقامی حکومتیں ہی غائب ہیں! اسلام آباد اپنے میئر سے محروم ہے اور بیورو کریسی کے رحم و کرم پر ہے! یہ طے ہے کہ بیورو کریسی سینے میں دل نہیں رکھتی اور سر میں بھیجا نہیں رکھتی! اس بیورو کریسی کی خوش قسمتی دیکھیے کہ جن حکمرانوں نے اسے کنٹرول کرنا ہے وہ خود نیم تعلیم یافتہ ہیں!!

Monday, February 05, 2024

More of the same


بس کر دو! خدا کے لیے بس کر دو! کب تک منافقت کے پیچھے اصل چہرا چھپاتے رہو گے؟ کوئی کہتا ہے بوتل میں پانی تھا جو پیر صاحب نے دم کیا تھا؟ کوئی کہتا ہے گاڑی میں جو بوتلیں تھیں ان میں شہد تھا۔ کوئی کہتا ہے ہسپتال‘ اس کے کمرے میں جو بوتلیں پڑی تھیں ان میں کوکنگ آئل تھا! تم منافقوں سے تو وہ رند اچھے ہیں جن کے چہروں پر نیکوکاری کی تہہ نہیں ہوتی! منافقت کے علاوہ یہ تمہاری بزدلی بھی ہے! وہ کام کرتے کیوں ہو جس کا اعتراف نہیں کر سکتے؟ کرتے ہو تو اعتراف بھی کرو! تم چاہتے ہو کہ اندر خانے موج مستی بھی کرو‘ عیش و عشرت کے تقاضے بھی پو رے کرو اور اوپر سے لبادہ بھی نہ اُترے! لوگ سمجھدار ہو گئے ہیں! انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ پیر کے دم کیے ہوئے پانی سے کیا مراد ہے‘ شہد کا کیا مطلب ہے اور خوردنی تیل کیسا تھا! تم جو چاہو کرو! کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ تمہیں روکے! جو معاملات بندے اور خدا کے درمیان ہیں‘ ان میں انسانوں کو دخل نہیں دینا چاہیے! مگر ڈرامے کرنا‘ ملمع سازیاں کرنا‘ جھوٹ بولنا‘ پاکبازی کی جعلی قبائیں پہننا‘ ان سب حرکتوں سے ذلت میں اضافے کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہو گا!
اور یہ ہم کس زمانے میں پہنچ گئے ہیں! ہمارے کلچر میں تو ماؤں‘ بہنوں‘ بیویوں اور بیٹیوں کا عدالتوں میں جانا ہی ناقابلِ تصور تھا‘ چہ جائیکہ ان کی موجودگی میں‘ انہی کے بارے میں‘ ایسے سوالات اور ایسی باتیں جنہیں سُن کر مردوں کے کان بھی سرخ ہو جائیں! لوگ مر جاتے تھے‘ اپنے گھروں کی خواتین کو کچہریوں میں نہیں جانے دیتے تھے! یہ کیسے لوگ ہیں جو اس سارے شرمناک تماشے کے دوران‘ زمین میں گڑنے کے بجائے‘ ہنستے رہے اور انگلیوں سے فتح کے نشان بناتے رہے! کیسی بے حسی ہے! اور بے حسی کی کیسی انتہا ہے! سچی مثال ہے وہ جو کسی کو شرم دلانے کے لیے کہا گیا کہ تمہاری پشت پر کیکر اُگا ہے تو اس نے‘ شرم کرنے کے بجائے‘ آگے سے جواب دیا تھا کہ اچھا ہے‘ اس کی چھاؤں میں بیٹھیں گے!
ایک بار چہرے سے حیا کی چادر اُتر جائے تو پھر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ بے حرمتی کتنی بار ہو رہی ہے یا کتنی ہو رہی ہے یا کہاں کہاں ہو رہی ہے! کاش انتہائی ذاتی معاملات ذاتی ہی رہنے دیے جاتے! بندوں کو ان معاملات میں نہیں پڑنا چاہیے جو بندوں اور خدا کے درمیان ہیں!
کسی خاتون قیدی کو اگر اپنے گھر میں نظربندی کی رعایت دینا ہی تھی تو ڈاکٹر یاسمین راشد سے زیادہ اس رعایت کی مستحق کوئی نہ تھی! ہو بھی نہیں سکتی! اس ملک میں کتنی خواتین ہیں جو اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے ان کے برابر ہو سکتی ہیں؟ انہوں نے ساری عمر تعلیم کے شعبے میں خدمات انجام دیں! ہزاروں طلبہ اور طالبات کو پڑھایا۔ ان کی تصنیف کردہ کتابیں نصاب میں شامل ہیں! چکوال کی اس جینیئس بیٹی نے برطانیہ سے گائناکالوجی میں اعلیٰ ترین ڈگریاں حاصل کیں! کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) جیسے معتبر ترین ادارے میں شعبے کی سربراہ رہیں! پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن پنجاب کی صدر رہیں! کئی یونیورسٹیوں میں کام کیا! اتنی لائق اور بلند ترین اہلیت کی مالک خاتون جیل میں عام قیدیوں کی سی زندگی گزار رہی ہے۔ عمر بھی ان کی ستر سے زیادہ ہے! اس کے مقابلے میں ایک ایسی خاتون کو گھر میں نظر بندی کی سہولت دی گئی ہے جو تعلیم و تعلّم میں ان کے پاسنگ تک نہیں! ایک اور سَو کا فرق ہے! ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ جس خاتون کو یہ بیش بہا رعایت ملی ہے‘ اسے نہیں ملنی چاہیے یا اس سے یہ رعایت واپس لے لینی چاہیے۔ مگر ایسی رعایت ڈاکٹر یاسمین راشد جیسی قابل پروفیسر کو بھی ملنی چاہیے تھی! 
اور صرف ڈاکٹر یاسمین راشد ہی نہیں‘ کتنی ہی خواتین عام قیدیوں کی زندگی گزار رہی ہیں! ذلت آمیز زندگی!! 
2019

ء کے اعداد و شمار کی رُو سے‘ صرف پنجاب کے زندانوں میں ساڑھے چار سو سے زیادہ عورتیں پڑی ہیں جن کے مقدمات کے فیصلے ہی نہیں ہوئے۔ کتنی عورتوں کو وکیل ہی میسر نہیں! کتنی ہی عورتیں جیل میں بجوں کو جنم دیتی ہیں۔ یہ بچے بھی سزا کاٹتے ہیں!
2021

ء کے اعداد و شمار کے حساب سے ایک ہزار چار سو سے زیادہ خواتین جیلوں میں بند ہیں! ان بے کس‘ بے بس عورتوں کو گھر میں نظر بندی کی عیاشی کیوں نہیں میسر؟ کیا یہ پاکستانی نہیں؟ کیا یہ حوّا کی بیٹیاں نہیں؟ اس رعایت کا معیار کیا ہے؟ تعلیم؟ عمر؟ یا صرف سوشل سٹیٹس؟ سوشل سٹیٹس تو مریم نواز اور فریال تالپور کا بھی کم نہ تھا! بلکہ بہت زیادہ تھا! کئی نسلوں سے امیر زادیاں تھیں اور حکمران خاندانوں کی بیٹیاں!! سوشل سٹیٹس اور خاندانی امتیاز کی بنیاد پر ایسی رعایت دینا اور لینا انصاف کا خون کرنے کے برابر ہے! انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ بوڑھی خواتین قیدیوں کو گھروں میں نظربند کیا جائے اور اُن عورتوں کو بھی جن کے ساتھ بچے ہیں! رہی اُس سلوک کی بات جو ہمارے جیلوں میں خواتین قیدیوں سے روا رکھا جاتا ہو گا‘ تو اس کے تصور ہی سے دل میں ہول اٹھنے لگتا ہے۔ ہم سب اس سلوک کی نوعیت کو اچھی طرح جانتے ہیں! کوئی غلط فہمی نہیں! ظلم‘ تشدد‘ اور وہ سب کچھ جو ناگفتنی ہے اور ناقابلِ بیان‘ ان خواتین قیدیوں کے ساتھ ہوتا ہو گا اور یقینا ہوتا ہو گا! خدا دشمن کی خواتین کو بھی جیل سے بچائے!
ہنسنے ہنسانے کا موسم زوروں پر ہے! ذرا ٹیلی ویژن سکرین کے سامنے بیٹھیے! لگتا ہے دنیا بھر کے کلاؤن‘ مسخرے اور مداری یہاں آ گئے ہیں! رنگا رنگ پگڑیاں پہن کر تقریریں کی جا رہی ہیں! اچھل اچھل کر دعوے اور چھلانگیں لگا لگا کر وعدے کیے جا رہے ہیں! ایسی ایسی مضحکہ خیز باتیں کی جا رہی ہیں کہ الامان و الحفیظ! ایک دوسرے کے کردار کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں! کل جو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر حکومت بنا رہے تھے اور حکومت کر رہے تھے‘ آج ایک دوسرے کو چیر پھاڑ رہے ہیں! حیرت تو یہ ہے کہ ہر نئے الیکشن سے پہلے پارٹی بدلنے والے بھی انقلاب کے خواب فروخت کر رہے ہیں! قیمتیں نیچے لانے کا وعدہ کیا جا رہا ہے۔ مگر کیسے؟ یہ نہیں بتاتے! پی ڈی ایم کی حکومت میں تو سمدھی صاحب کوئی معجزہ نہ دکھا سکے! دیکھیے! اب کے کیا کرتب دکھاتے ہیں! ہم اپنے آپ کو تسلی دیتے ہیں کہ چلو جیسی بھی لُولی لنگڑی جمہوریت ہے‘ جمہوریت تو ہے! مگر سچ یہ ہے کہ یہ لولی لنگڑی جمہوریت بھی نہیں‘ یہ اولی گارکی 

(Oligarchy) 

ہے۔ یعنی امرا شاہی! ارسطو 

Oligarchy

کو ارسٹوکریسی (اشرافیہ کی حکومت) کی بدتر قسم کہتا ہے! آپ ضیاء الحق کی کابینہ سے لے کر آج تک کی کابینہ کا تجزیہ کر کے دیکھ لیجیے! وہی اشرافیہ! وہی امرا! ثروت مندوں کے وہی ٹولے! نسل در نسل! پشت در پشت! ساتھ ساتھ نئے امرا بھی شامل ہوتے جاتے ہیں! وہ جو مڈل کلاس کے نام پر سیاست میں آئے تھے‘ ان کے کنبے بھی امریکی شہروں کے گراں ترین علاقوں میں منتقل ہو گئے ہیں ! پاکستان کی اشرافیہ نے پکا پکا اصول بنا لیا ہے کہ حکومت کرنے کے لیے پاکستان اور رہنے کے لیے لندن‘ دبئی‘ جدہ‘ سپین اور امریکہ!! جو سیاستدان آج کل اپنا اصلی وطن‘ لندن‘ چھوڑ کر پاکستان آئے ہوئے ہیں‘ ان کا قوم پر اور ملک پر احسانِ عظیم ہے! کہاں لندن کے کافی ہاؤس‘ سپر سٹور‘ اور شاپنگ! اور کہاں غریب‘ گرد آلود‘ پاکستان!! مگر حکومت میں ایک بار پھر آنے کے لیے قربانی تو دینا پڑتی ہے! ہاں! حکومت ہاتھ آگئی تو پھر پہلے کی طرح لندن کے پے در پے ''سرکاری‘‘ دورے یعنی چُپڑی اور دو دو!! پھر کابینہ کے نہ اسمبلی کے اجلاسوں میں حاضری!! فرنگیوں نے کیا جامع محاورہ نکالا ہے 

More of the same!! 

یعنی یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے۔

Thursday, February 01, 2024

وصال اور فراق کا کھیل


''میں پاکستان کو آسٹریلیا سے کہیں زیادہ چاہتا ہوں! اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے مال اور بازار میں زیادہ مزہ آتا ہے۔ آپ کے پاس اگر ویک اینڈ کے لیے کوئی اور ایجنڈا نہیں تو مال میں چلے جائیے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں آپ خاندان کے افراد کے ساتھ وقت گزار سکتے ہیں! مجھے تارکِ وطن 
(Expat)
 کہلانا بالکل پسند نہیں۔ میرے ابو کو بھی نہیں پسند! ہم چاہتے ہیں کہ اپنے شہروں میں اپنے رشتہ داروں کے پاس رہیں!‘‘

گیارہ سالہ تیمور رو رہا تھا۔ پوچھا کیا ہوا! کہنے لگا: میں آسٹریلیا نہیں جانا چاہتا۔ یہیں پاکستان میں رہنا چاہتا ہوں! اس کا دل بہلانے کے لیے کہا کہ لکھ کر بتائیے آپ کیوں نہیں جانا چاہتے! اس پر اس نے دو پیرا گراف لکھ کر دکھائے جن کا ترجمہ اوپر دیا ہے۔ اس کا باپ بھی غم زدہ تھا مگر بیٹے کے آنسو کام آئے نہ باپ کی اداسی! تین دن پہلے ایک طاقتور‘ قوی ہیکل فولادی پرندے نے انہیں اپنے بازوؤں میں جکڑا اور گیارہ ہزار کلومیٹر دور جا کر بحر الکاہل کے کنارے اُگل دیا!
کئی برسوں بعد اب کے سب بچوں کو تعطیلات ایک ہی وقت ملیں! دسمبر میں سب اکٹھے تھے۔ خوب ہنگامے رہے! جس گھر میں دو عمر رسیدہ میاں بیوی‘ گویا چوکیداری کر رہے تھے‘ آباد ہو گیا! کہیں نقرئی قہقہے تھے‘ کہیں سنہری آوازیں! اپنے اپنے کمروں میں سونے کے بجائے سب لاؤنج یا بیٹھک میں اکٹھے بیٹھتے! فرش پر سونا گوارا تھا مگر ایک دوسرے سے الگ ہونا نہیں! رات رات بھر جاگتے! کبھی کیرم بورڈ ہو رہا ہوتا تو کبھی کسوٹی! کبھی پیزا آ رہا ہوتا تو کبھی برگر! چھوٹے بچے تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد آکر کاغذ مانگتے۔ نہیں معلوم یہ ان کاغذوں کا کیا کرتے۔ بس میز کے ارد گرد بیٹھ کر ہر بچہ کوئی نہ کوئی شہکار تخلیق کر رہا ہوتا! پیسے اکٹھے کرکے محلے کی دکان پر جاتے اور کئی بار جاتے! بڑے بچے باہر گلی میں کرکٹ کھیلتے۔ مصطفی زیدی کے بقول:
افسانہ در افسانہ تھی مڑتی ہوئی سیڑھی
اشعار در اشعار تھا ہر در اسی گھر میں
قرب کی اس دیوار میں پہلا شگاف زرین نے ڈالا! اس کا سکول کھلنے والا تھا! وہ جاتے وقت ازحد اداس تھی۔ بالکل خاموش! اتنے ہنگامے‘ اتنی چہل پہل‘ اتنی ہماہمی چھوڑ کر جانا آسان نہ تھا۔ میں نے سینے سے لگایا تو ڈر رہا تھا کہ رو نہ پڑے۔ مگر وہ ایک بت کی طرح‘ گُھٹے ہوئے منہ کے ساتھ‘ بالکل بے حس و حرکت رہی! چند دن اور گزرے تو لاہور والوں نے رختِ سفر باندھا! زینب اب ماشاء اللہ اتنی بڑی ہو گئی ہے کہ چھوٹے کزنز کا خیال رکھ سکے۔ کل کی بات لگتی ہے کہ منی سوٹا کے ایک ہسپتال میں اس کا ورود ہوا تو ہسپتال میں شور مچ گیا کہ ایک بچی سیاہ بالوں والی پیدا ہوئی ہے۔ سنہری بالوں کی اس دنیا میں سیاہ بال عجوبہ تھے۔ نرسیں دیکھنے آتی تھیں اور دیکھ کر خوش ہوتی تھیں!! معلوم ہوا کہ نومود بچوں کو شہد کی گُھٹی دینے کی اجازت نہیں! زینب کی نانو اس قانون کو کہاں ماننے والی تھیں! عملے سے چھپ کر گھٹی دی۔ زینب پہلی 
Grand child  

ہے۔ اس کی پیدائش کے بعد ہی معلوم ہوا کہ زندگی کا شیریں ترین میوہ تو بچوں کے بچے ہیں!
پوتوں نواسیوں کے چمن زار واہ واہ
اولاد پر بہشت کے میوے لگے ہوئے
زینب کا چھوٹا بھائی‘ ہاشم خان‘ روہیلہ پٹھانوں کی روایت بر قرار رکھتے ہوئے پندرہ برس کی عمر میں چھ فٹ کا ہو چکا ہے۔ اسے سکول میں اپنی بہن پر مضمون لکھنے کے لیے کہا گیا تو اس نے مضمون میں یہ بھی لکھا کہ زینب نانا ابو کی پہلی 
grand child.  
ہے اور ان کی چہیتی ہے۔ ویسے اس میں کوئی خاص بات نہیں! یہ لوگ لاہور واپس چلے گئے تو رونق آدھی رہ گئی!! کچھ دن اور گزرے تو حمزہ‘ زہرہ اور سمیر کی بیرونِ ملک روانگی سر پر آگئی۔ جوں جوں جانے کی تاریخ نزدیک آتی گئی‘ زہرہ پہلے سے زیادہ لپٹنے لگی! کہیں کھڑا ہوتا یا بیٹھا ہوتا تو آکر لپٹ جاتی! بچوں کو سر پر کھڑی جدائی کا پورا ادراک ہوتا ہے مگر اظہار نہیں کر سکتے! بعض اوقات بچوں کو اپنی پسندیدہ شخصیت کے فراق میں بخار بھی ہو جاتا ہے! یہ درست ہے کہ بچے جلد بھول جاتے ہیں اور اپنے نئے مشاغل میں مصروف ہو جاتے ہیں مگر جدائی کا فوری ردِ عمل ان پر شدید ہوتا ہے۔
تیمور نے مندرجہ بالا نوٹ چند روز پہلے لکھا اور پرسوں چلا گیا۔ جہاز کی روانگی سے پہلے ہم ایئر پورٹ کے ریستوران میں بیٹھے رہے۔ اسے اور اس کے چھوٹے بھائی سالار کو کھانے پینے کی چیزیں لے کر دیں اور وہ خوش ہوئے! رخصت ہوتے وقت وہ بار بار مڑ مڑ کر ہاتھ ہلاتا رہا‘ بالکل بڑے آدمیوں کی طرح!! واپسی پر میں اور اس کی دادی گاڑی میں‘ بے حس و حرکت‘ خاموش بیٹھے رہے! گاڑی میں اندھیرا تھا۔ معلوم نہیں اسے میرے رونے کا پتا چلا یا نہیں مگر مجھے معلوم تھا کہ وہ رو رہی ہے! زیادہ دکھ یہ سوچ سوچ کر ہو رہا تھا کہ تیمور جانا نہیں چاہتا تھا۔ جانے سے پہلے اس نے کئی بار پوچھا ''آپ کا نیا ویزا کب تک لگ جائے گا‘‘؟ یہ لوگ میلبورن پرسوں رات نو بجے پہنچے۔ گھر پہنچتے پہنچتے گیارہ بارہ بج گئے۔ وہاں آدھی رات تھی جب تیمور کے ابو نے فون کیا کہ تیمور راستے میں بھی روتا رہا اور اب گھر پہنچ کر بہت زیادہ رو رہا ہے۔ میں نے اسے وڈیو کال پر چپ کرانے کی کوشش کی۔ مگر وہ سسکیاں لے رہا تھا اور ایک ہی بات پوچھے جا رہا تھا کہ آپ کے آنے میں کتنے دن باقی ہیں؟ آپ کتنے دن بعد آرہے ہیں؟ آپ کب آئیں گے؟
وصال و فراق کا یہ کھیل ہر دوسرے نہیں تو تیسرے گھر میں ضرور جاری ہے! خاندان بٹ گئے ہیں۔ کنبے بکھر گئے ہیں! ملکوں ملکوں! دیس دیس! ہاں! بعض افراد کے اعصاب ''فولادی‘‘ ہوتے ہیں! کچھ طبائع حساس نہیں ہوتے! ہمارے ایک دوست ہیں جنہیں اپنے ہی پوتوں نواسوں کا شور بُرا لگتا ہے۔ ہم جیسے ''کمزور‘‘ اعصاب کے لوگ بچوں کے شور میں لکھنے پڑھنے کا کام بھی کرتے رہتے ہیں۔ مجھے تو اپنے بچوں کا شور دلفریب موسیقی کی طرح لگتا ہے! ''فولادی‘‘ اعصاب تو ان صاحب کے بھی تھے جو بارگاہِ رسالت میں حاضر تھے۔ ان کے سامنے رسالت مآبﷺ نے اپنے نواسے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو بوسہ دیا۔ ان صاحب نے بتایا کہ ان کے دس بیٹے ہیں مگر انہوں نے کبھی کسی کو نہیں چوما۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا ''اگر اللہ تعالیٰ نے تمہارے دل سے رحمت نکال لی ہے تو میں اس کا مالک تو نہیں ہوں‘‘!
اپنے بچے چھوٹے ہوتے ہیں تو ان سے لطف اندوز ہونے کا وقت کم ہی ملتا ہے۔ زندگی کی بے مہریاں تب عروج پر ہوتی ہیں۔ غمِ روزگار نے گھیرا ہوتا ہے۔ بقول ناصر کاظمی:
صبح نکلے تھے فکرِ دنیا میں
خانہ برباد دن ڈھلے آئے
دیکھتے ہی دیکھتے بچے بڑے ہو جاتے ہیں۔ جب ان کے بچے وارد ہوتے ہیں تب فرصت ہی فرصت ہوتی ہے۔ ذمہ داری ان کے ماں باپ پر اور لطف اندوزی دادا ‘دادی یا نانا‘ نانی کے حصے میں! بچوں کی بات توجہ سے ماں باپ نہیں بلکہ دادا‘ نانا سنتے ہیں! ایک خاموش‘ غیر تحریری معاہدہ طے ہو جاتا ہے۔ دادا‘ نانا بچوں کے وکیل ہوتے ہیں۔ ایسے میں بچوں کے ماں باپ کی سب سے بڑی دلیل وہی ہوتی ہے جو نسل در نسل چلی آتی ہے کہ ''آپ نے اسے یا انہیں 
Spoil 
کر دیا ہے‘‘۔ ہاں! کر دیا ہے! اس لیے کہ دادا‘ نانا کو قدرت نے یہی کردار سونپا ہے!
اب میرے پاس رستم اور آزادِہ ہیں! رستم دو برس کا ہونے والا ہے۔ چائے اور رَس کا ناشتہ میرے ساتھ بہت شوق سے کرتا ہے۔ ہاں! تیمور کا مضمون فریم کرا رہا ہوں کہ محفوظ ہو جائے!
 

powered by worldwanders.com