آپ کا کیا خیال ہے کون سا طبقہ سب سے زیادہ محب وطن ہے؟
عساکر؟ جو وطن کی خاطر شہید ہو تے ہیں؟ پولیس؟ جو ہر وقت جان ہتھیلی پر رکھے ہے! سیاستدان؟ جو پھانسیاں پاتے ہیں۔ گولیاںکھاتے ہیں۔ جیلوں میں جاتے ہیں۔ جلا وطن کر دیے جاتے ہیں! کسان؟ جو خون پسینہ ایک کر کے غلہ اُگاتے ہیں۔ مزدور؟ جو فیکٹریوںمیں لوہے کے ساتھ بھِڑتے ہیں! اساتذہ؟ جونئی پود کی نگہداشت کرتے ہیں۔
نہیں! جناب نہیں! سب سے زیادہ محب وطن طبقہ تاجروں کا ہے۔ تاجر سراپا حب الوطنی ہیں! اب اوقاتِ کار کا مسئلہ ہی دیکھ لیجیے۔بیچاری تاجر برادری ہر حکومت کو سمجھاتی رہی ہے کہ ترقی کا راز اس میں ہے کہ بازار دن کے بارہ ایک بجے کھلیں اور رات بارہبجے تک کھلے رہیں۔ یہی حب الوطنی کی معراج ہے۔ مگر افسوس! صد افسوس! حکومتیں یہ بات سمجھتیں نہیں! ان کی سوئی اسیبات پر اٹکی ہوئی ہے کہ توانائی کا زیاں ہوتا ہے اور یہ کہ سارے ترقی یافتہ ملکوں میں بازار صبح سویرے کھلتے ہیں اور شام پانچچھ بجے بند ہو جاتے ہیں! ہر حکومت نے کوشش کی مگر تاجروں نے ہر بار حب الوطنی کے زور پر یہ کوشش ناکام بنا دی۔ موجودہحکومت ایک بار پھر کوشش کررہی ہے۔ الحمدللہ! تاجر برادری اس بار بھی حکومتی کوشش کو ناکام بنانے کے لیے متحد ہے۔ تاجربرادری کا مؤقف یہ ہے کہ رات کو جاگنا‘ شام کا کھانا رات بارہ ایک بجے تناول کرنا‘ دن کو سونا‘ یہ سب اچھی صحت کے لیے لازمہے! وہ جو بچوں کو پڑھایا جاتا تھا کہ
منہ اندھیرے جاگ اٹھنا عاقلوں کا کام ہے!
دن چڑھے تک سوئے رہنا غافلوں کا کام ہے
وہ اب پرانا ہو چکا ہے۔ ہمارے تاجروں نے اسے یوں کر دیا ہے:
منہ اندھیرے جاگ اٹھنا غافلوں کا کام ہے
دن چڑھے تک سوئے رہنا عاقلوں کا کام ہے
کیا حکومت‘ کیا عوام‘ سب عقل سے عاری ہیں! کسی کو بھی وطن سے محبت نہیں! اگر تاجروں کا مؤقف یہ ہے کہ دن کے بارہ بجےسے لے کر رات کے بارہ بجے تک کے اوقات بہترین اوقاتِ کار ہیں تو حکومت کو اور قوم کو یہ مؤقف نہ صرف تسلیم کر لینا چاہیے بلکہاس کی پیروی بھی کر نی چاہیے۔ ظاہر ہے تاجر ایک سیانا طبقہ ہیں۔ ایک تاجر کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتا۔ تاجر کا سارا کام‘ سارا فلسفۂ زندگی صرف ایک شے کے گرد گھومتا ہے اور وہ شے ہے نفع! تو پھر یقینا ان اوقاتِ کار میں بھی نفع ہے! بجائے اس کےکہ تاجروں کو مجبور کیا جائے کہ وہ اوقات کار بدلیں‘ ہم ان کی پیروی کیوں نہ کریں؟ پوری قوم کو یہی اوقات کار اپنانے چاہئیں! سبسے پہلے تعلیمی اداروں کے اوقات دن بارہ بجے سے رات بارہ بجے تک کر دیجیے۔ تاجروں کا اس میں اضافی فائدہ یہ ہو گا کہ بازارجاتے ہوئے‘ دن کے بارہ بجے‘ بچوں کو سکول چھوڑتے جائیں گے اور رات بارہ بجے واپس لیتے آئیں گے۔ یوں ڈبل اخراجات سے بچجائیں گے۔ کچہریوں اور تھانوں کا بھی یہی وقت ہو۔ بینک بھی یہی اوقات اپنائیں۔ تمام سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر کے بھی یہیاوقات کار ہوں۔ تمام عدالتیں انہی اوقات میں کام کریں۔ کسان کھیتوں میں اور مزدور کارخانوں میں رات کو کام کریں! بسوں‘ ٹرینوںاور ہوائی جہازوں کے بھی یہی اوقات ہوں۔ غیر ملکی معززین کو بتا دیا جائے کہ ہمارے صدر یا وزیراعظم سے ملاقات کرنی ہو تو دنکے بارہ ایک سے پہلے یہ ممکن نہیں ہوگا۔ پوری قوم کو رات جاگنے کے اور دن کو سونے کے طبی اور روحانی فوائد بتائے جائیں۔عشائیے کا سرکاری وقت رات بارہ بجے کے بعد کا مقرر کیا جائے۔ اسی طرح ناشتے کا سرکاری وقت دن کے پونے بارہ بجے ہو۔ آپدیکھیے گا کہ تاجروں کے اوقات کار کی پیروی کرنے سے ملک میں ایک ہمہ جہتی قسم کا انقلاب آجائے گا۔ عوام کی صحت بہتر ہوجائے گی۔ دن کو سونے اور رات کو جاگنے کی وجہ سے چہرے نورانی ہو جائیں گے۔ ملک ترقی کرے گا بلکہ سیدھا‘ تیر کی طرح ‘ اوپرجائے گا۔ دوسرے ممالک ہماری معجزانہ ترقی دیکھ کر‘ ہمارے اوقات کار اپنائیں گے اور یوں ہمارے جینیس تاجر پوری دنیا میں ایکآئیڈیل کے طور پر دیکھے جائیں گے۔
تاجروں کی حب الوطنی کا یہ صرف ایک ثبوت ہے ورنہ ان کے بہت سے اقدامات اسی جذبے سے معمور ہیں۔ ملک بھر میں نارواتجاوزات کی اکثریت تاجر حضرات کی حب الوطنی کا براہِ راست نتیجہ ہے۔ برآمدے‘ فٹ پاتھ‘ راستے‘ گلیاں‘ ہر جگہ ان کے قبضےہیں! شے بیچتے وقت شے کا نقص نہ بتانا بھی عام ہے۔ اس بات کا ماتم تو بارہا ہو چکا ہے کہ غیرمسلم ملکوں میں رمضان اور عید پراشیا کے نرخ کم کر دیے جاتے ہیں مگر ہمارے مسلمان تاجر‘ ملبوسات‘ جوتوں اور اشیائے خورو نوش کی قیمتیں رمضان آتے ہی کئیگنا بڑھا دیتے ہیں! یقینا اس میں بھی ان کی حب الوطنی پوشیدہ ہو گی۔ ریفنڈ پالیسی کا اس ملک میں کوئی وجود نہیں۔ پوری مہذبدنیا میں صارفین کو خریدی ہوئی شے واپس کرنے کا حق حاصل ہے مگر یہاں نہیں! حب الوطنی کے علاوہ ہمارے تاجر نیکوکاری میںبھی نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ خوراک ہے یا ادویات‘ دودھ ہے یا آٹا‘ شہد ہے یا تیل‘ ہر شے میں ہولناک ملاوٹ ہے۔ ٹیکس چوری عام ہے۔مذہب کے نام پر استحصال کیا جاتا ہے۔ دکانوں اور کمپنیوں کے نام مذہبی اصطلاحات اور شعائر پر رکھے جاتے ہیں تا کہ خریدارکشش محسوس کریں! انصاف کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔ ایک تاجر جرم کرے تو اسے بچانے کے لیے سب اکٹھے ہو جاتے ہیں۔پوری پوری مارکیٹوں میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کر دی جاتی ہے۔ یوں قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس ہو کر رہ جاتے ہیں۔ چھوٹےقصبوں کی تو بات ہی کیا ہے‘ بڑے بڑ ے شہروں میں بھی خریدار کو رسید ( واؤچر) نہیں مہیا کی جاتی! ہاں کوئی اصرار کرے تو اوربات ہے۔
مغربی ملکوں میں تاجر حکومت کے قوانین کے سامنے سر جھکا دیتے ہیں! بھلا یہ بھی کوئی حب الوطنی ہے۔ حب الوطنی کسی نےسیکھنی ہے تو ہمارے تاجروں سے سیکھے! اب بھی جب حکومت نے بازار جلد بند کرنے کی بات کی ہے تو سب تاجروں نے‘ ملک بھرمیں‘ بیک آواز‘ ایک ہی نعرہ لگایا ''نہیں! نہیں!‘‘ اور حکومت کانپنے لگی! ترقی یافتہ ملکوں میں گرمیوں کے موسم میں غروبِ آفتاب نوبجے ہوتا ہے! بازار ساڑھے پانچ یا چھ بجے بند ہوتے ہیں۔ اچھی خاصی دھوپ ہوتی ہے۔ سات بجے یہ لوگ‘ ڈنر کر لیتے ہیں! اُس وقتبھی دھوپ دکھائی دے رہی ہوتی ہے۔ یہ بے وقوف اس کے بعد سو جاتے ہیں۔ صبح طلوع آفتاب سے پہلے اٹھتے ہیں اور ٹھیک وقت پرکام پر پہنچ جاتے ہیں! یہاں حساب بالکل الٹ ہے۔ یقین کیجیے‘ ہمارے ایک دوست کے ہاں رات گیارہ بجے یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ کیا پکایاجائے۔ کھانا ایک اور دو بجے کے درمیان کھایا جاتا ہے۔ تاجروں کی ایک دلیل یہ ہے کہ گرمیوں کے موسم میں گاہک شام کے بعد آتےہیں۔ سنگا پور‘ آسٹریلیا اور امریکہ کی جنوبی ریاستوں میں اچھی خاصی گرمی ہوتی ہے۔ مقررہ اوقاتِ کار کے اندر ہی لوگ شاپنگکرتے ہیں۔ پاکستان میں گاہک اس لیے شام کے بعد آتے ہیں کہ انہیں معلوم ہے بازار بارہ بجے تک کھلے ہیں۔ ہاں! ہم جب تاجروں کےاس سخت رویے کی بات کرتے ہیں تو اس میں کتابوں کے تاجر اور فارمیسی والے شامل نہیں! ادویات اور کتابوں کی دکانیں چوبیسگھنٹے کھلی رہنی چاہئیں! ادویات جسم کے لیے اور کتابیں روح کے لیے ضروری ہیں! خطرناک حقیقت یہ ہے کہ بُک شاپس کم ہوتی جارہی ہیں!
روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment