Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, April 27, 2023

میری تدفین


''اگر بیٹھے ہوئے ہو تو اُٹھ پڑو اور اگر کھڑے ہو تو چل پڑو‘‘
یہ وہ پیغام تھا جو دادی جان نے قاصدوں کے ذریعے بھیجا! بی اے کا طالب علم تھا جب گاؤں میں دادا جان کی وفات ہوئی۔ چار سمتوں میں پیام رساں دوڑائے گئے۔ بسی بستی‘ قریہ قریہ! قصبہ قصبہ! ان کو ہدایت تھی کہ راستے میں رکنا نہیں اور حرف بہ حرف یہی پیغام پہنچانا ہے۔
مگر یہ ستاون سال پہلے کی بات ہے۔ اب جب میرا انتقال ہوا ہے تو یہ قاصدوں‘ ایلچیوں اور پیام رسانوں کا زمانہ نہیں تھا۔ یہ ٹیلیفون‘ ای میل اور ایس ایم ایس سے بھی آگے کی دنیا تھی۔ یہ وٹس ایپ کا زمانہ تھا۔ ایک پیغام تیار کیا گیا۔ اسے وٹس ایپ پر چڑھا دیا گیا۔ آناً فاناً خبر ہر طرف پھیل گئی۔ اس پیغام کا اہم ترین حصہ نمازِ جنازہ کا وقت تھا جو عصر کی نماز کے فوراً بعد پونے چھ بجے فکس کیا گیا۔
یہ اطلاع میرے پرانے دوست رشید خان کو ملی تو فرطِ غم سے اس کی حالت غیر ہو گئی۔ دیر تک اپنے اہلِ خانہ کو میرے محاسن بتاتا رہا۔ سرکاری نوکری میں وہ ایک طویل عرصہ میرا رفیقِ کار رہا تھا۔ اس دور میں اس پر میں نے کچھ احسانات کیے تھے۔ ان احسانات کی تفصیل گھر والوں کو بتاتا رہا۔ دو بار اس کی آواز بھرا بھی گئی۔ پھر اس نے ہمارے مشترکہ دوستوں کو جنازے کے وقت سے مطلع کیا۔ چار بجے تک اس کا پختہ ارادہ تھا کہ وہ جنازے میں شریک ہو گا۔ ساڑھے چار بجے اس کی بیگم نے اطلاع دی کہ بیگم کی چھوٹی بہن آرہی ہے اور اس کا جہاز بھی عین پونے چھ بجے لینڈ کر رہا ہے‘ اس کا ایئر پورٹ جانا ضروری تھا‘ خاص طور پر جب بیگم نے یہ دلیل بھی دے دی کہ جنازے میں شریک ہو بھی گئے تو مرنے والا کون سا واپس آجائے گا اور یہ کہ دعائے مغفرت تو کہیں بھی‘ کسی بھی وقت‘ کی جا سکتی ہے۔ بس یہ مجبوری تھی جس کی بنا پر رشید جنازے میں شریک نہ ہو سکا۔ ورنہ تو وہ تدفین تک موجود رہتا اور اپنے حصے کی مٹی ڈال کر آخری دعا میں بھی شریک ہوتا۔
ایک معروف اینکر بھی میرے قریبی دوستوں میں شمار ہوتا تھا۔ موت کی خبر سن کر اس کی ہچکی بندھ گئی۔ اس نے میرے بچوں کو اسی وقت فون کیا۔ روتے روتے اس نے انہیں بتایا کہ مرحوم کا نعم البدل تو کوئی نئیں ہو سکتا تاہم وہ اسے اپنا چچا سمجھیں اور کوئی بھی مسئلہ ہو تو صرف اسے ہی بتائیں۔ پھر اس نے اپنی بیگم سے کہا کہ اس کی شلوار قمیض نکالے تاکہ جنازے پر روانہ ہونے سے پہلے وہ لباس تبدیل کر سکے۔ اس نے اپنے ڈرائیور کو بھی طلب کر لیا۔ مگر اتفاق سے عین اسی وقت اس کے ٹی وی چینل والوں نے رابطہ کرکے اطلاع دی کہ اس نے ملک کی ایک اہم شخصیت کی پریس کانفرنس میں جانا ہے۔ پہلے تو اس نے سوچا کہ معذرت کر دے کیونکہ چینل کے پاس ایک سے ایک بڑھ کر صحافی موجود تھا مگر پھر پیشہ ورانہ احساسِ ذمہ داری اس پر غالب آگیا۔ پریس کانفرنس میں جو جاندار اور اوریجنل سولات وہ کر سکتا تھا‘ کسی اور کے بس کی بات نہیں تھی۔ تعزیت کے لیے وہ مرحوم کے گھر بعد میں کسی بھی وقت جا سکتا تھا؛ چنانچہ اس نے چینل والوں کو بتا دیا کہ وہ پریس کانفرنس میں شرکت کرے گا۔
جنازے کا وقت‘ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے‘ پونے چھ بجے کا تھا۔ پانچ بجے لوگوں نے آنا شروع کر دیا۔ رینٹ پر منگوائی گئی کرسیاں پورچ میں اور کچھ سامنے گلی میں رکھوائی گئی تھیں۔ یہ تو مجھے اب معلوم ہوا کہ مرنے کے بعد کتنے مزے ہیں۔ میں یہیں گھوم پھر رہا تھا‘ مگر سب کی نگاہوں سے ماورا! میں توقع کر رہا تھا کہ یہ حضرات میرے ہی بارے میں باتیں کریں گے‘ میری نیکیاں‘ اگر ہیں تو‘ ایک دوسرے سے شیئر کریں گے‘ میری نجات کے لیے کچھ دعائیں اور‘ اوراد کریں گے‘ مگر میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے اپنے کانوں سے حاضرین کی گفتگو سنی! شیخ صاحب‘ ملک آفاق کی بغل میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ مسلسل منڈی کی صورتحال پر تبصرہ کر رہے تھے۔ ڈالر کا اُتار چڑھاؤ‘ ایل سی پر پابندیاں‘ مارکیٹ کی غیریقینی صورتحال! حرام ہے جو ان دونوں نے‘ جو میرے انتہائی قریبی دوست تھے‘ ایک بار بھی میرا ذکر کیا ہو! ان کے سامنے والی لائن میں ڈاکٹر انعام اور بیرسٹر اشرف بیٹھے تھے‘ ڈاکٹر انعام مسلسل اپنے بیٹے کے اوصاف پر گفتگو کر رہے تھے کہ کس طرح صاحبزادے نے امریکی یونیورسٹی کا امتحان آن لائن امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ یونیورسٹی میں کون کون سے کلبوں اور سوسائٹیوں کا رکن رہا۔ جلسۂ تقسیمِ اسناد میں کس طرح امریکی صدر کے ہاتھوں ایوارڈ وصول کیا‘ بیرسٹر اشرف بھی جب موقع ملتا‘ مقابلے میں اپنے صاحبزادے کی کامیابیوں کا ذکر کرتے‘ مگر غلبہ ڈاکٹر انعام ہی کا رہا۔ ذرا ہٹ کر دوسری طرف میرے کچھ سابق ماتحت بیٹھے تھے۔ وہ اپنی ترقی اور سالانہ انکریمنٹ پر بحث کر رہے تھے۔ کبھی وزارتِ خزانہ کی برائی کرتے‘ کبھی اپنے اپنے باس کی اور اپنے اپنے محکمے کی! میں نے سروس کے درمیان ہر موقع پر ان کی مدد کی تھی مگر انہیں شاید یہ بھی یاد نہ تھا کہ وہ میرے جنازے پر آئے ہوئے ہیں۔
پھر جنازہ اٹھایا گیا۔ عورتوں نے رو رو کر آسمان سر پر اٹھا لیا۔ میری نواسی زینب کی حالت غیر ہو رہی تھی۔ ہم دونوں ہمیشہ بیسٹ فرینڈ رہے تھے۔ میں ایک کونے میں کھڑا‘ اپنے جسم کو چارپائی پر رکھا‘ لوگوں کے کندھوں پر اٹھتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ فانی بدایونی کا شعر یاد آگیا:
وہ اُٹھا شورِ ماتم آخری دیدارِ میت پر
اب اٹھا چاہتی ہے نعشِ فانی دیکھتے جاؤ
جنازے کے بعد میت کو قبرستان لے کر جانا تھا جو زیادہ دور نہیں تھا۔ میں نے نوٹ کیا کہ ڈاکٹر انعام‘ بیرسٹر اشرف‘ ملک آفاق‘ شیخ صاحب اور بہت سے احباب جنازہ گاہ ہی سے رخصت ہو گئے۔ بیرسٹر صاحب کی نئی بی ایم ڈبلیو آج پہلی بار دیکھی! وہ بھی مرنے کے بعد! ڈرائیور سے انہیں کہتے سنا ''بھئی جلدی کرو‘ پہلے ہی دیر ہو چکی!‘‘ میت قبر کے پاس رکھی گئی۔ اب بہت کم لوگ رہ گئے تھے‘ زیادہ تعداد قریبی اعزہ کی تھی۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں‘ میت کو قبر میں اتارنے سے لے کر‘ دعا مانگنے تک کافی وقت لگتا ہے۔ قبر کے گرد جمگھٹا تھا۔ چند احباب جو تدفین تک رکے تھے‘ ادھر اُدھر کھڑے تھے! قبر کو سامنے دیکھ کر بھی‘ جس میں ان کے قریبی دوست کو اتارا جانا تھا‘ انہیں اپنے اپنے کاموں کی پڑی تھی۔ رانا صاحب کو ایک دعوت میں پہنچنا تھا۔ ساتھ کھڑے ترمذی صاحب کو کہہ رہے تھے کہ جنازے کے بعد چلے جاتے مگر اس خیال سے کہ مرحوم کے بچے کیا کہیں گے‘ رک گئے اور یہ کہ تدفین میں غیرمعمولی دیر لگائی جا رہی ہے۔ اُدھر میت کو قبر میں اتارا جارہا تھا۔ میرے جسم کے درمیان میں‘ یعنی کمر کے گرد‘ چادر کو پٹکا بنا کر ڈالا گیا تا کہ قبر میں اتارا جا سکے۔ بیٹے اور بھانجے نے جو قبر میں اترے ہوئے تھے‘ میت وصول کی اور لحد میں رکھی۔ پھر پتھر کی سلیں‘ سلوں کے درمیانی گیپ میں گارا‘ پھر منوں مٹی‘ پھر دعا!
اب قبر کو تنہا چھوڑ کر جانے کا مرحلہ تھا! بیٹے‘ بھائی بھانجے اور دیگر اعزہ‘ آہستہ آہستہ‘ بوجھل قدموں سے واپس آرہے تھے۔ تاہم میں نے نوٹ کیا کہ اکثر حضرات بہت تیزی سے اپنی اپنی گاڑیوں کی طرف گئے۔ کئی گاڑیوں کے سٹارٹ ہونے کی آواز بیک وقت آئی۔ یہ سب اتنی تیزی سے گئے جیسے میری قبر ان کا تعاقب کر رہی تھی!

Tuesday, April 25, 2023

چوڑیاں اور لپ سٹک بازار میں دستیاب ہے!


کیا آپ نے خلیل حامدی کا نام سنا ہے؟
بہت بڑے سکالر تھے۔ عربی کے بہت بڑے عالم تھے۔ کئی کتابوں کے مصنف!ہمعصر مسلم ہسٹری پر اتھارٹی تھے۔ ''عالم اسلام اور اس کے افکار و مسائل‘‘ اور '' ترکی قدیم و جدید'' ان کی ایسی تصانیف تھیں کہ مقابلے کے امتحانوں میں حصہ لینے والے اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلبہ استفادہ کرتے تھے۔ مشرقِ وسطیٰ کے سکالرز سے ان کے ذاتی مراسم تھے۔ کیا آپ جانتے ہیں ان کی وفات کیسے ہوئی؟ وہ سفر میں تھے۔ لاہور واپس آرہے تھے۔ گنّے ڈھونے والی ایک ٹرالی نے ان کی گاڑی کو ٹکر ماری اور وہ جاں بحق ہو گئے۔ وحشی ڈرائیور کے نزدیک یہ کوئی خاص بات نہ تھی۔ٹرالی کے ذریعے انسان کو قتل کرنا اس کے لیے معمول تھا۔ جس موسم میں گنّے کھیتوں سے اٹھا کر شوگر ملوں میں پہنچائے جاتے ہیں‘اس موسم میں علاقے کی شاہراہوں پر ان وحشی ڈرائیوروں کا راج ہوتا ہے۔ ایک ایک ٹرالی پر پانچ پانچ ٹرالیوں کا وزن لادا جاتا ہے۔گنے ٹرالی کے اوپر یوں لادے جاتے ہیں کہ دائیں بائیں اور پیچھے کئی کئی فٹ تک باہر لٹک رہے ہوتے ہیں۔ کراس کرنے والی گاڑیوں کے پاس کچے پر اترنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔پولیس ان علاقوں سے غائب ہو جاتی ہے۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ ڈاکٹرطیب منیر کون تھے؟ وہ پروفیسر تھے۔ یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے۔ اس سے پہلے کئی کالجوں میں پڑھا چکے تھے۔ کئی نسلوں کو جہالت کی تاریکی سے نکال کر علم کے نور میں لائے تھے۔جب بھی دیکھا مسکراتے ہوئے ملے۔شائستگی اور تہذیب کا ایک ایسا نمونہ تھے جو اب خال خال نظر آتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں ان کا انجام کیا ہوا؟ ایک ڈمپر ان کی کار پر چڑھ دوڑا۔کیا آپ کو معلوم ہے کہ ڈمپروں کو اس ملک میں لوگوں کو قتل کرنے کی کھلی چھٹی ہے۔ آج تک کسی ڈمپر ڈرائیور کو قتل کی سزا نہیں ملی!ٹریکٹر ٹرالیوں اور ڈمپروں نے سینکڑوں انسانوں کو مارا ہے۔ ہزاروں گاڑیوں کو کچلا ہے۔ ان کی لائٹیں‘ اشارے‘ کچھ بھی نہیں ہوتا‘ پولیس کو یہ کبھی نہیں نظر آئے۔ پاکستان میں ٹریفک پولیس کا عملاً ( بارِ دگر عرض ہے عملاً) وجود ہی کوئی نہیں ! ایک غیر ملکی نے ہماری ٹریفک کے بارے میں ایک سادہ سا جملہ کہا تھا مگر کیا زبردست جملہ تھا:People have been left on roads to kill each other۔لوگوں کو شاہراہوں پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ ایک دوسرے کو قتل کریں۔
پارلیمنٹ کو یہ قتلِ عام آج تک نظر نہیں آیا۔اس نے ڈمپروں‘ ٹریکٹر ٹرالیوں اور گنے ڈھونے و الی قاتل ٹرالیوں کے بارے میں کبھی نہیں سوچا نہ کبھی بات ہی کی۔ اسے وہ بے گناہ مقتول کبھی نہیں نظر آئے جنہیں یہ جنگلی پہیے آئے دن کچلتے ہیں۔ اور اب تباہی اور بربادی کی یہ آگ پارلیمنٹ کے اپنے گھر تک پہنچ گئی ہے۔ ایک وحشی ڈرائیور نے ممبر پارلیمنٹ‘ وفاقی وزیر‘ مولانا عبد الشکور کو اپنی لاقانونیت کے بھینٹ چڑھا دیا ہے۔کیا آپ یقین کریں گے کہ جس ڈرائیور نے وفاقی وزیر کو جان سے مارا‘ اس کے خلاف‘ تیز رفتاری کے جرم میں تیرہ بار چالان ہوئے ہیں؟ یہ چالان کتنے عرصہ کے دوران ہوئے؟ صرف ساڑھے تین ماہ کے دوران! جنوری سے لے کر پندرہ اپریل تک! پندرہ اپریل ہی کو وفاقی وزیر کو اس قاتل نے مارا ! آپ کا کیا خیال ہے‘ ہر چالان پر اس وحشی انسان نما جانور کو کتنے روپے کا جرمانہ کیا گیا ہوگا؟ آپ یقینا کہیں گے کہ چونکہ تیز رفتاری انسانوں کی ہلاکت کا سبب بنتی ہے اس لیے تیز رفتاری کے جرم میں اتنا جرمانہ ہونا چاہیے کہ مجرم کی کمر ٹوٹ جائے اور وہ آئندہ اس وحشیانہ جرم کا سوچے بھی نہیں! مگر یہ وہ ملک ہے جس میں قانون سازی کرنے والے اپنے‘ اپنے خاندان اور اپنی کلاس کے سوا کچھ نہیں سوچتے! آنکھیں بند کر لیجیے! ہاتھ دل پر رکھ لیجیے! سانس روک لیجیے! میں آپ کو جرمانے کی رقم بتانے لگا ہوں! ہر بار اسے دو سو روپے کا‘ نصف جن کے ایک سو ہوتے ہیں‘ جرمانہ کیا گیا۔ اب بھی اگر اس ملک کو بنانا ری پبلک نہ کہا جائے تو کب کہا جائے گا! جس فرد نے یا جس ادارے نے تیز رفتاری کے جرم میں جرمانے کی رقم دو سو رکھی‘ کوئی مہذب ملک ہو تا تو اس فرد یا ادارے کو وفاقی وزیر کے ساتھ ہی قبر میں دفنا دیا جاتا!اور متعلقہ پولیس کے چہرے پر سفید کریم مل کر‘ قیمتی خوبصورت گھوڑے پر سوار کر کے‘اسے پورے شہر میں گھمایا جاتا!آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ سفید کریم اور قیمتی گھوڑے سے میری مراد کیا ہے! اس پولیس نے وحشی ڈرائیور کے تیرہ بار پکڑے جانے کے باوجود اس کی گاڑی بند کی‘ نہ اسے گرفتار کیا‘ نہ اس کا لائسنس منسوخ کیا! یعنی جنوری فروری مارچ کے چار چار ہفتے اور اپریل کے دو ہفتے۔ کل چودہ ہفتے ہوئے۔ چودہ ہفتوں میں تیرہ چالان ! جس کا مطلب ہے کہ یہ ڈرائیور ہر ہفتے تیز رفتاری کا مرتکب ہو رہا تھا!سیف سٹی کے کیمرے بھی سب کچھ دیکھ رہے تھے۔پولیس بھی دو دو سو روپے کے چالان کیے جا رہی تھی۔ ڈرائیور کو کھلی چھٹی تھی۔ ریاست اس کا ساتھ دے رہی تھی۔اگر وہ وفاقی وزیر کو نہ قتل کرتا‘ کسی عام شہری کو قتل کرتا تو کیا اسے گرفتار کیا جاتا ؟ اور اگر کیا جاتا تو کتنے دنوں یا کتنے ہفتوں کے لیے؟ اس سوال کا جواب ہر پاکستانی شہری آسانی سے دے سکتا ہے!
یہ چند ماہ پہلے کا واقعہ ہے۔سڈنی میں ایک خاتون گاڑی چلارہی تھی۔ اس کا پانچ سالہ بچہ‘ پچھلی سیٹ پر‘ بچوں کی خصوصی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ بچے نے بیلٹ لگائی ہوئی تھی۔ بچے نے یوں کیا کہ بیلٹ کو سینے سے ذرا نیچے کر لیا۔ ٹریفک پولیس نے گاڑی روکی اور خاتون کا چالان کر دیا۔خاتون نے دلیل دی کہ گاڑی چلاتے ہوئے وہ پیچھے بیٹھے ہوئے بچے کو کیسے دیکھ سکتی تھی۔ مگر پولیس کی دلیل تھی کہ بیلٹ غلط طریقے سے لگی ہوئی تھی! آپ کا کیا خیال ہے‘ کتنا جرمانہ ہوا ہو گا؟ پاکستانی حساب کی رُو سے بیس ڈالر؟ پچاس ڈالر؟ نہیں جناب! جرمانہ ساڑھے چارسو ڈالر کا کیا گیا! پاکستانی روپوں میں یہ پچاسی ہزار بنتا ہے۔ چلئے ہمارے روپے کی تو قیمت ہی گری ہوئی ہے۔ آسٹریلیا کے حساب سے بھی یہ جرمانہ بہت بھاری تھا۔میاں بیوی کو دن میں تارے نظر آگئے۔ عدالت میں اپیل کی۔مگر اپیل نا منظور ہو گئی!یہ ہے انسانی جان کی حفاظت کا طریقہ! ایک شیطان صفت عادی مجرم پر دو سو روپے کا جرمانہ! کیا راول ڈیم میں اتنا پانی بھی نہیں کہ ڈوب مرا جائے؟
اب اس المیے کا ایک اور تاریک اور افسوسناک پہلو دیکھیے۔ پارلیمنٹ کے ایک معزز رکن نے اپنی تقریر میں احتجاج کیا تو اس بات پر کہ مرحوم ( یعنی مقتول) وزیر کے ساتھ پروٹوکول کیوں نہیں تھا اور ان کے پاس بڑی گاڑی کیوں نہیں تھی۔ یہ نہیں کہا کہ دار الحکومت میں کسی ڈرائیور کی جرأت ہی کیوں ہو کہ وہ اوور سپیڈنگ کر کے لوگوں کو مارتا پھرے۔ وہ بھی شاہراہِ دستور پر! ایوانِ صدر اور وزیر اعظم کے دفتر کے سامنے! پارلیمنٹ کی بغل میں! وزارتِ داخلہ کی ناک کے عین نیچے ! یہ ہے وہ رویہ جس نے اس ملک کو اس حالِ زبوں تک پہنچایا ہے۔یعنی ٹریفک کی لا قانونیت کی فکر ہے نہ پروا! شاید علم بھی نہیں! گاڑی بڑی ہو تا کہ حادثے کی صورت میں جان بچ جائے! تو پھر عالی جاہ! عوام کو بھی بڑی گاڑیاں مہیا کیجیے تا کہ وہ بھی اس قتلِ عام سے بچ سکیں! رہی ٹریفک پولیس ! تو چوڑیاں اور لپ سٹک بازار میں عام دستیاب ہے !

روزنامہ دنیا

Thursday, April 20, 2023

طالبان؟؟؟


27 سالہ نور مقدم 20جولائی 2021ء کو اسلام آباد کے ایک مہنگے سیکٹر کے مہنگے گھر میں قتل ہوئی۔ ظاہر جعفر نامی شخص کو اس سلسلے میں گرفتار کیا گیا۔ طویل اور صبر آزما مراحل کے بعد 24فروری 2022ء کو اسلام آباد سیشن کورٹ نے مجرم کو سزائے موت سنائی۔ یعنی قتل کے آٹھ ماہ کے بعد! مجرم نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس سزا کو چیلنج کر دیا۔ ایک برس اور ایک مہینہ مزید گزر گیا۔ گزشہ ماہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ سنایا جس میں سیشن کورٹ کے سزائے موت کے فیصلے کو بر قرار رکھا گیا ہے۔
ایک ہفتہ پہلے مجرم نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی ہے اور مختلف دلائل کی بنیاد پر اس فیصلے کو چیلنج کیا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ یہ دلائل کیا ہیں؟ سوال یہ ہے کہ یہ نظام کیسا ہے جس میں انصاف کا انتظار کرتے کرتے مظلوم کبھی قبر میں جا لیٹتے ہیں‘ کبھی زندہ درگور ہو جاتے ہیں۔ قابلِ احترام عدلیہ سیاسی تنازعوں کو فوقیت دے رہی ہے۔ عوام کے کتنے مقدمے نگاہِ عدل کے منتظر ہیں اور کب سے منتظر ہیں؟ کتنے ملزم‘ جن کو ابھی مجرم ثابت نہیں کیا گیا‘ زندانوں میں محبوس ہیں؟ ان کے لواحقین کن حالات سے گزر رہے ہیں؟ کتنوں کے ان مقدموں کے تعاقب میں گھر بار‘ کھیت کھلیان‘ مویشی بِک گئے؟ کتنے لواحقین کچہریوں اور عدالتوں کے طواف کرتے کرتے دنیا سے رخصت ہو گئے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب کسی کے پاس نہیں! پوچھنے کی ہمت اور اجازت بھی نہیں! کہ بقول سعدی:
اگر یک سرِ موئی برتر پرم
فروغ ِ تجلی بسوزد پرم!
بال برابر بھی آگے بڑھے تو پر جل جائیں گے!
نور مقدم اور ظاہر جعفر کا یہ مقدمہ آناً فاناً ملک بھر میں مشہور ہو گیا۔ اس لیے کہ دونوں خاندان اَپر کلاس سے تعلق رکھتے تھے۔ ورنہ اس دیار میں عورتیں ہر روز قتل ہوتی ہیں۔ کبھی کلہاڑی سے‘ کبھی بندوق کی گولی سے‘ کبھی وحشیانہ زدو کوب سے‘ کبھی کسی جاگیردار کے عقوبت خانے میں اور کبھی کسی سردار کی نجی جیل میں! نور مقدم کا سر تن سے الگ کر دیا گیا۔ یہ سلوک بھی اکثر عورتوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ تیزاب سے ان کے چہرے مسخ ہو رہے ہیں! یاد رہے کہ عورتوں پر جسمانی تشدد سب سے کم مڈل کلاس میں کیا جاتا ہے اور سب سے زیادہ طبقۂ زیریں اور اَپر کلاس میں! جاگیر دار‘ زمیندار اور سردار بیوی کو باندی بنا کر رکھتے ہیں!
اَپر کلاس سے تعلق رکھنے والے قاتل اس ملک میں کبھی سزا نہیں پاتے۔ شاہ رُخ جتوئی کا کیس دیکھ لیجیے۔ زین کا کیس مشہور ہے۔ ایک جاگیردار کے لختِ جگر نے اسے لاہور میں مار ڈالا۔ کوئٹہ میں جو ٹریفک کانسٹیبل چوک پر کھڑا تھا‘ اسے ایک سردار نے گاڑی کے نیچے کچل دیا۔ کسی کو سزا نہیں ملی ؟ کیوں؟ وجوہ بیان کرتے ہوئے پر جلتے ہیں! ہونٹ سوئی دھاگے سے سلے ہوئے ہیں! اوپر دیکھیں تو ہماری دستار گر جاتی ہے! یہ چند کیس وہ ہیں جو مشہور ہیں۔ ورنہ بڑے خاندان کے چشم و چراغ انسان نما کیڑوں کو اتنی کثیر تعداد میں قتل کرتے ہیں کہ شمار ممکن نہیں! خاک نشینوں کا خون ہر روز رزقِ خاک ہوتا ہے۔ زمین نے سارا حساب اپنے پیٹ میں رکھا ہوا ہے۔ ایک دن اگل دے گی۔ نور مقدم اگر ایک سابق سفیر کی بیٹی نہ ہوتی تو یہ قتل بھی کیڑے مکوڑوں کے قتل میں گنا جاتا۔ مقطع میں سخن گسترانہ بات یہ آن پڑی کہ مقتولہ کا خاندان بھی ایلیٹ کلاس میں شمار ہوتا ہے!
مگر ٹھہریے! اس مقدمے کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟ ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا! ہنوز شب درمیان است! 
ہزاروں لغزشیں باقی ہیں لب تک جام آنے میں
عدالتِ عالیہ اس اپیل کا فیصلہ سنانے میں کتنے ہفتے‘ کتنے مہینے‘ کتنے سال لگاتی ہے؟ اس کے بعد کے قانونی تکلفات کتنے ہیں؟ کوئی نہیں جانتا۔ اس باپ کی حالت کا تصور کیجیے جس کی جوان بیٹی کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ دو سال سے وہ انصاف کی راہداریوں میں بھٹک رہا ہے۔ کبھی یہاں دھکے کھاتا ہے‘ کبھی وہاں! اور اس کی تِیرہ بختی دیکھیے کہ ہر بار اسے اس شخص کو دیکھنا پڑتا ہے جس نے اس کی لختِ جگر کو مار کر اس کی لاش کا مثلہ کیا! کیا اس اذیت کو لفظوں میں بیان کیا جا سکتا ہے؟ کیا اس سے بڑی کوئی ایذا‘ کوئی تعذیب ممکن ہے؟ اور ابھی تو یہ سلسلہ جاری ہے! بدقسمت باپ کو ابھی یہ اذیت مزید جھیلنی ہے!
سرحد پار طالبان ہیں! جیسے بھی ہیں‘ مظلوم کو انصاف دیتے ہیں! جلد دیتے ہیں۔ اور ایسا انصاف دیتے ہیں جو دکھائی دیتا ہے! کسی کو برُا لگے تو بے شک بُرا لگے مگر خدا کی سنت کسی کے لیے تبدیل نہیں ہوتی! خدا کی سنت یہ ہے کہ جب لوگوں کو انصاف نہ ملے‘ جب شاہ رُخ جتوئی‘ جب سردار‘ جب بڑے خاندان عام لوگوں کو کیڑے سمجھ کر ماریں اور ان کا بال بھی بیکا نہ ہو تو پھر مظلوم دعائیں مانگتے ہیں کہ طالبان آئیں اور انصاف دیں۔ اور یہ تو سب کو معلوم ہے کہ مظلوم کی دعا قبول ہوتی ہے! یہ مشہور شعر معلوم نہیں کس کا ہے مگر ہے بہت ڈرانے والا:
بترس از آہِ مظلومان کہ ہنگامِ دعا کردن
اجابت از درِ حق بہرِ استقبال می آید
ڈرو مظلوموں کی آہ و زاری سے کہ وہ دعا مانگیں تو قبولیت آگے بڑھ کر دعا کا استقبال کرتی ہے!
مرزا فرحت اللہ بیگ اپنے ایک مضمون میں انصاف کے حوالے سے دلچسپ واقعہ لکھتے ہیں۔ شاید یہ ان کا ایک افسانہ ہے۔ قانون کے امتحان میں قتل کا ایک کیس دے کر پوچھا گیا کہ کیا فیصلہ کرو گے؟ ایک شخص نے کسی کو قتل کر دیا۔ قتل کے دو گواہ موجود ہیں۔ مقتول نے ایک بیوہ اور دو بچے چھوڑے ہیں! مرزا صاحب نے امتحان کے پرچے میں فیصلہ لکھا کہ مقتول کی بیوہ کی شادی قاتل سے کر دی جائے۔ بچوں کو یتیم خانے میں داخل کر دیا جائے۔ رہے دو گواہ تو انہیں جیل میں بند کر دیا جائے! اور پٹیالہ کے جسٹس کھڑک سنگھ نے تو پہلے مقدمے ہی میں کمال کر دیا تھا! اس کی عدالت میں چار قاتل ایک طرف کھڑے تھے۔ دوسری طرف ایک بیوہ آنسو بہاتی کھڑی تھی۔ پیشکار نے فائل سامنے رکھی اور بتایا کہ بڑھیا کا دعویٰ ہے کہ اس کے میاں کو ان چار افراد نے قتل کیا ہے! کھڑک سنگھ نے بڑھیا سے تفصیل پوچھی۔ اس نے بتایا ان چار میں سے فلاں کے ہاتھ میں برچھی تھی‘ فلاں کلہاڑی لیے تھا۔ گنے کے کھیت سے نکلے اور میرے شوہر کو مار ڈالا۔ کھڑک سنگھ نے چاروں ملزموں کو گھور کر دیکھا۔ انہوں نے اپنی صفائی پیش کی کہ ہم اسے مارنا نہیں چاہتے تھے۔ کھڑک سنگھ نے سیدھی بات کی کہ مر تو گیا نا! وہ فیصلہ لکھنے لگا تھا کہ کالا کوٹ پہنے ایک شخص آگے بڑھا اور ملزموں کی صفائی پیش کرنے لگا۔ کھڑک سنگھ نے پیشکار سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ اس نے بتایا کہ ملزموں کا وکیل ہے۔ جسٹس کھڑک سنگھ نے کہا کہ اچھا‘ یہ بھی انہی کا ساتھی ہے۔ اس نے وکیل کو حکم دیا کہ جا کر ملزموں کے ساتھ کھڑا ہو جائے۔ پھر اس نے ایک سطر میں فیصلہ دیا کہ ملزموں کو اور ان کے وکیل کو پھانسی دے دی جائے۔ روایت ہے کہ جب تک وہ جج رہا‘ پٹیالہ ریاست میں قتل کوئی نہیں ہوا!

Tuesday, April 18, 2023

غور کرنے کے کچھ مقامات


آپ شام کو گھر سے باہر ٹہل رہے ہیں۔ ایک صاحب‘ جو جاننے والے ہیں‘ مخالف سمت سے چہل قدمی کرتے آرہے ہیں۔ اب آپ لاکھ کوشش کریں‘ ان سے بچ نہیں سکتے! یہاں آپ کو اُس انتہائی تنگ پُل کی یاد آگئی جس کی کہانی آپ نے بچپن میں سنی تھی۔ ایک بکری اس طرف سے تو دوسری مخالف سمت سے آرہی تھی۔ دونوں آمنے سامنے ہوئیں تو راستہ بند پایا۔ دونوں نے سینگوں کو آزمایا۔ کمزور بکری پل سے نیچے گر گئی۔ دوسری کو راستہ صاف مل گیا مگر آپ کے بچنے کی کوئی صورت نہیں۔ انہوں نے حال احوال پوچھا اور پھر ٹھک سے وہ سوال کیا ''کیا آپ روزے رکھ رہے ہیں؟‘‘۔
یہ بالکل اسی طرح کا سوال ہے جیسے کیا آپ نے نماز پڑھ لی؟ کیا آپ نے زکوٰۃ ادا کی ہے؟ آپ نے روزہ رکھا ہے یا نہیں‘ جان بوجھ کر چھوڑا ہے یا معقول عذر ہے‘ یہ آپ کے اور آپ کے پروردگار کے درمیان ہے! مگر ہمارا جو کلچر ہے‘ اس میں اس جیسے بیشمار سوال پوچھے جاتے ہیں۔ بقول اقبالؔ آپ بھی شرمسار ہو‘ مجھ کو بھی شرمسار کر۔ کبھی پوچھا جائے گا آپ کے بچے نہیں ہیں؟ اوہ! شادی کو کتنا عرصہ ہوا ہے؟ کوئی پوچھے گا مکان اپنا ہے یا کرائے کا ہے؟ اور تو اور یہ بھی پوچھیں گے کہ تنخواہ کتنی ہے؟ کتنے بہن بھائی ہیں؟ کیا کرتے ہیں! کتنوں کی شادیاں ہو چکی ہیں؟ بچے کیا کرتے ہیں؟ آپ ٹرین میں بیٹھے کراچی جا رہے ہیں۔ ساتھ والے صاحب سے غلطی سے کوئی بات کر بیٹھے! اب بھگتیے! کراچی جانے تک یا تو وہ آپ کا شجرۂ نسب حفظ کر چکے ہوں گے یا اپنا شجرۂ نسب آپ کو ازبر کرا چکے ہوں گے! آپ اپنے آپ کو کوسیں گے کہ ایک ذرا سی بات کرکے کتنی بڑی مصیبت آپ نے خرید لی! جو کتاب راستے میں پڑھنے کے لیے ساتھ رکھی تھی‘ وہ دھری کی دھری رہ گئی!
بنیادی مسئلہ ہماری فراغت ہے۔ ہمارے پاس ڈالر ہیں نہ روپے‘ انڈسٹری ہے نہ مشینی زراعت! تعلیم ہے نہ حرفت! اخلاق ہے نہ آداب! صرف ایک جنسِ وافر ہے اور وہ ہے وقت! ہزاروں لاکھوں ٹن وقت! شادی ہال میں ہم دو چپاتیوں اور چند چھٹانک قورمے کے لیے چار گھنٹے بیٹھے رہیں گے! شرم آئے گی نہ انانیت کو ٹھیس پہنچے گی! ٹرین میں یا بس میں یا جہاز میں سب کتاب یا ای ریڈر لیے بیٹھے ہوں گے۔ جو منہ کھولے اوپر دیکھ رہے ہوں گے جہاز یا بس یا ٹرین کی چھت کی طرف‘ وہ ہم پاکستانی ہوں گے! کسی دفتر میں چلے جائیے‘ اندر بیٹھ کر کام کرنے کے بجائے‘ باہر ٹولیوں کی صورت میں کھڑے گپیں ہانک رہے ہوں گے! شاہراہ پر کوئی حادثہ ہو جائے تو اللہ دے اور بندہ لے‘ ستر‘ اَسی فیصد لوگ گاڑیاں اور موٹر سائیکل سڑک کے کنارے باقاعدہ پارک کرکے‘ اُتر کر‘ حادثے سے لطف اندوز ہوں گے! اب جو اس قدر فراغت رکھتے ہیں‘ وہ آپ سے رمضان کے روزوں اور آپ کی تنخواہ اور آپ کے بچوں کے بارے میں کرید کرید کر نہ پوچھیں تو کیا فارغ بیٹھے رہیں؟
جن ملکوں نے ترقی کی ہے‘ ان کی ترقی کا سب سے بڑا سبب فرد کی مصروفیت ہے اور وقت کا بہترین استعمال! اس کے پاس اتنا وقت ہی نہیں کہ آپ کا حدود اربعہ پوچھے! ٹرین یا بس یا جہاز میں آپ کی طرف دیکھیں گے ہی نہیں! گھنٹوں آپ کے رفیقِ سفر رہیں گے‘ زیادہ سے زیادہ موسم کے بارے میں بات کر لیں گے۔ وہ بھی دو تین فقروں سے زیادہ نہیں! کبھی نہیں پوچھیں گے کہ آپ کہاں جا رہے ہیں؟ کہاں سے آرہے ہیں؟ کیا کرتے ہیں؟ کس ملک سے ہیں؟ بجائے اس کے کہ ہم ذاتیات میں نہ پڑنے کے اس کلچر کو سراہیں‘ اپنا احساسِ کمتری چھپانے کے لیے ان پر مشینی زندگی کا الزام لگائیں گے اور کہیں گے کہ وہاں تو کسی کو کسی سے غرض ہے نہ ہمدردی! ہمدردی کا مطلب ہمارے نزدیک یہ ہے کہ وہ ہم سے ہمارے معمولات کا اور خاندان کا اور مستقبل کے ارادوں کا پوچھے! ہم پر توجہ دے اور ہماری پُشتوں اور آئندہ نسلوں کی تعریف کرے! ہماری اَنا کو فربہ کرے!
ایک اور سماجی بیماری ہم لوگوں میں گھورنے کا عمل ہے! خاص طور پر خواتین کو! اس میں بے ریش بھی شامل ہیں اور نیکو کاروں کی شکل والے بھی! ہمارے تمام شہر‘ قصبے اور بستیاں اس مرض میں مبتلا ہیں۔ لندن‘ زیر زمین ریلوے (ٹیوب) میں کئی بار سفر کرنے کا موقع ملا۔ صبح گھر سے جلدی نکلنے والی خواتین میک اَپ گاڑی میں کرتی ہیں۔ کوئی نظر اٹھا کر ان کی طرف نہیں دیکھتا۔ ہم تو وہ قوم ہیں جو ریستوران میں بیٹھے ہوں تو ایک ایک میز پر پڑے کھانے کا یوں جائزہ لیتے ہیں جیسے کبھی کھانا دیکھا نہ ہو۔ قطار اول تو بناتے ہی نہیں‘ بنائیں تو آگے کھڑے ہونے والے شخص کے ساتھ لگ کر کھڑے ہوں گے۔ باقی دنیا میں قطار میں کھڑے افراد کے درمیان اچھا خاصا فاصلہ ہوتا ہے خواہ اے ٹی ایم کی قطار ہو یا دکان پر کاؤنٹر کے سامنے! میں ایک بار دکان سے ملی ہوئی رسید غور سے پڑھ رہا تھا کہ ساتھ کھڑے ہوئے صاحب بھی اسے پڑھنے کے لیے جد و جہد کر رہے تھے‘ میں نے رسید ان کے سامنے کر دی کہ جناب لیجیے آپ پہلے اس کا مطالعہ کر لیجیے۔ شرمندہ ہوئے مگر یہ شرمندگی بھی جیسے بادلِ نخواستہ ہی تھی!!
سوچنے کی بات ہے۔ غور کا مقام ہے! ہم میں بنیادی آداب کی کمی افسوسناک حد تک کیوں ہے؟ ہم پڑھ لکھ کر بھی جاہل کیوں ہیں! کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے‘ جاپان پر افتاد پڑی تو راشن اور دیگر اشیائے ضرورت میدانوں میں رکھ دی گئیں! جو بھی آتا‘ صرف اپنی ضرورت کی شے اٹھاتا۔ یہ جو آٹے کے حصول میں لوگ جان سے گئے‘ اس میں بے صبری اور قطار نہ بنانے کا بھی عمل دخل یقینا ہوگا۔ بانٹنے والے بھی تربیت دیتے ہیں نہ قطار بنواتے ہیں! تین چار کام اور ہیں جو ہم لوگوں کے سامنے کرتے ہیں اور دھڑلے سے کرتے ہیں۔ تھوکتے ہیں اور گلا صاف کر کے تھوکتے ہیں‘ یوں کہ گلا صاف کرنے کی آوازیں دور دور تک کانوں میں شہد گھولتی ہیں۔ ناک میں انگلی ڈالتے ہیں اور انگلی کو خوب حرکت دیتے ہیں۔ ماچس کی تیلی سے کان کھجاتے ہیں اور سرور کی شدت میں آکر آنکھیں بند کر لیتے ہیں جیسے کوئی افیونچی نشے میں ہو! کھانستے وقت منہ کے آگے رومال رکھتے ہیں نہ ہاتھ! کسی کی عیادت کرنے جائیں تو دل میں چائے یا شربت کی امید اٹھکھیلیاں کرتی ہے۔ بس یا ٹرین میں ٹیلی فون کریں تو اتنی بلند اور کھردری آواز میں بات کرتے ہیں کہ تمام مسافروں کے لیے عذاب کا کوڑا بن جاتے ہیں۔ ایک بار ریلوے کے ٹکٹ چیکر سے کہا کہ ان صاحب کو‘ جو ایک گھنٹے سے فون پر چیخ رہے تھے‘ سمجھائیں تو بیچارہ کہنے لگا کہ روکا تو ہم سے لڑائی کریں گے۔ وہ بھی زمانہ تھا جب ہم مہذب تھے۔ کسی بزرگ کو یا استاد کو یا ماں یا والد کو کھانے کے لیے یا نماز کے لیے نیند سے بیدار کرنا ہوتا تھا تو انتہائی نرمی سے پاؤں یا پنڈلی کو دبانے لگتے تھے۔ اب تو بزرگوں کو جگاتے ہیں تو انہیں لگ پتا جاتا ہے۔ وہ لطیفہ یاد آرہا ہے کہ پنجابی بیوی نے میاں کو صبح کس طرح جگایا تھا۔ اگر آپ نے وہ لطیفہ نہیں سنا ہوا تو آپ پر افسوس ہے!

Monday, April 17, 2023

حساب سب کا ہو گا مگر باری باری !


مفتی صاحب کچھ عرصہ خاموش رہے! مگر دیندار آدمی تھے۔ ضمیر کو زیادہ دیر نظر انداز نہ کر سکے! بالآخر عدالت میں آئے اور سب کچھ بتا دیا۔ ابھی تک متعلقہ صاحب نے تردید کی نہ ان کی طرف سے کسی اور نے !
تمام الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں اس عدالتی کارروائی کی تفصیلات ظاہر ہوئی ہیں۔مفتی صاحب نے اپنے بیان میں کہا کہ ''باسٹھ سال عمر ہے۔مدرسے میں پرنسپل ہوں۔عمران خان کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ان کی کور کمیٹی کا ممبر تھا۔یکم جنوری2018ء کو عمران خان نے مجھ سے کال پر رابطہ کر کے کہا میرا نکاح بشریٰ بی بی سے پڑھوا دو۔نکاح پڑھانے لاہور جانا ہے۔ وہ مجھے اپنے ساتھ لاہور کے علاقے ڈیفنس کی کوٹھی میں لے گئے۔ بشریٰ بی بی کے ساتھ ایک خاتون نے خود کو بشریٰ بی بی کی بہن ظاہر کیا۔ خاتون سے میں نے پوچھا کہ کیا بشریٰ بی بی کا نکاح شرعی طور پر ہو سکتا ہے؟ خاتون نے بتایا کہ بشریٰ بی بی کے نکاح کی تمام شرعی شرائط مکمل ہیں اور دونوں کا نکاح پڑھایا جا سکتا ہے۔یکم جنوری2018ء کو خاتون کی یقین دہانی پر عمران خان اور بشریٰ بی بی کا نکاح پڑھا دیا۔ نکاح کے بعد عمران خان اور بشریٰ بی بی اسلام آباد میں ساتھ رہنے لگے۔عمران خان نے مجھ سے فروری 2018ء میں دوبارہ رابطہ کر کے درخواست کی کہ بشریٰ بی بی سے دوبارہ نکاح پڑھانا ہے۔عمران خان نے دوبارہ نکاح کی وجہ بتائی کہ نکاح یکم جنوری کو اس لیے ضروری تھا کہ وزیر اعظم بننے کی پیشگوئی تھی کہ2018ء کے پہلے دن بشریٰ بی بی سے شادی کروں گا تو وزیر اعظم بن جاؤں گا۔ اسی وجہ سے بشریٰ بی بی سے اسی دن (یکم جنوری) نکاح کیا۔عمران خان کی اس بات پر حیرت زدہ ہوالیکن فروری2018ء میں بنی گالہ میں دوبارہ نکاح پڑھوایا۔شرعی اور قانونی لحاظ سے عمران خان نے غیر قانونی اور غیر شرعی نکاح کیا۔جب دوبارہ مجھ سے رابطہ کیا گیا تو مجھے یقین ہو گیا کہ دونوں نے جان بوجھ کر پیشگوئی کے زیر اثر غیر شرعی نکاح کیا۔‘‘
تمام اخبارات میں کم و بیش یہی بیان چھپا ہے۔ اس لیے اس میں تو کوئی شک نہیں کہ یہ بیان مفتی صاحب ہی کا ہے ! آگے بڑھنے سے پہلے قارئین کی توجہ ایک دلچسپ نکتے کی طرف مبذول کرانی ہے۔ بقول عمران خان صاحب کے‘ پیشگوئی یہ تھی کہ یکم جنوری کو شادی کریں گے تو وزیر اعظم بن جائیں گے‘ مگر یکم جنوری کو تو شادی ہوئی ہی نہیں کیونکہ عدت کے دوران نکاح نہیں ہو سکتا۔ اور نکاح کے بغیر شادی نہیں ہو سکتی ! اس کا مطلب ہے کہ عمران خان پیشگوئی کی بنیاد پر وزیر اعظم نہیں بنے۔ پیشگوئی میں یکم جنوری کو نکاح کی شرط تھی ! اس پر ڈیوڈ بلو (David Blow) یاد آگیا جس نے شاہ عباس کی سوانح حیات لکھی ہے۔شاہ عباس (1571-1629) صفوی خاندان کا سب سے زیادہ طاقتور ایرانی بادشاہ تھا اور ہر اس شخص کی طرح جو اقتدار کا خواہشمند ہو نجومیوں کا سہارا لیتا تھا۔ اسے باغبانی کا بھی شوق تھا۔ ڈیوڈ بلو نے اس ضمن میں ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے۔ ایک بار شاہ عباس کو کہیں سے کچھ نادر پودے بھیجے گئے۔ اس نے شاہی باغبان کو طلب کیا مگر وہ کسی وجہ سے حاضر نہ ہو سکا۔ اب اس نے نجومی کو بلوایا اور حکم دیا کہ ستاروں کا حساب لگا کر شاہی باغ میں کسی ایسی جگہ کا تعین کرو جہاں یہ پودے ہمیشہ لگے رہیں اور کوئی انہیں اکھاڑ نہ سکے۔ اس نے حساب کیا اور اپنے حساب کے مطابق پودے لگا دیے۔ دوسرے دن صبح صبح شاہی باغبان ڈیوٹی پر آموجود ہوا۔ اس نے نوٹ کیا کہ کچھ پودے نئے لگائے گئے ہیں اور فنِ باغبانی کے لحاظ سے بالکل غلط جگہ لگائے گئے ہیں۔ وہاں ان کے بڑھنے اور پھلنے پھولنے کا کوئی امکان نہیں۔اس نے انہیں اکھیڑا اور دوسرے مقامات پر لگایا۔ شاہ عباس کو معلوم ہوا تو غضبناک ہوا۔باغبان سے کہا کہ بدبخت ! تو نے یہ کیا ظلم کیا! نجومی نے تو ان پودوں کو ایسے مقامات پر لگایا تھا جہاں انہوں نے سینکڑوں سال قائم و دائم رہنا تھا۔ باغبان ہنسا اور کہا: جہاں پناہ! وہاں سینکڑوں سال تو کیا‘ دو دن بھی نہ قائم رہ سکے! بادشاہ کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا ! اسی طرح ایک بادشاہ کو پیشگوئیاں کرنے والے ایک درباری نے بتایا کہ بادشاہ سلامت صرف ایک سال زندہ رہیں گے۔ وزیر اعظم وہاں موجود تھا۔ اس نے سوچا کہ بادشاہ تو اب افسردگی میں چلا جائے گا اور سلطنت کا نظم و نسق متاثر ہو گا! اس نے پیشگوئی کرنے والے کذّاب سے پوچھا کہ خود تم کتنے برس زندہ رہو گے! اس نے زائچہ کھینچا‘ ستاروں کا حساب کتاب کیا اور کمال خود اعتمادی سے جواب دیا کہ میں ابھی دس سال زندہ رہوں گا‘ وزیر اعظم نے شمشیر نیام سے نکالی اور اس کی گردن اڑا دی۔پھر بادشاہ سلامت کی خدمت میں عرض کیا کہ جسے اپنی زندگی کا کچھ علم نہ تھا‘ وہ آپ کی زندگی کے بارے میں کیسے درست دعویٰ کر سکتا ہے۔ یوں بادشاہ کے ذہن سے ایک سال کے بعد موت آنے کا ڈر نکل گیا!
یاد نہیں‘ شورش کاشمیری مرحوم نے کس کے بارے میں کہا تھا مگر کمال کا فقرہ تراشا تھا۔ کہا تھا کہ مادرِ فطرت نے فلاں سے بڑا کذّاب آج تک نہیں پیدا کیا! یہ جو اقتدار کے بھوکے سیاستدان ہوتے ہیں‘ انہیں یہ عامل‘ یہ پامسٹ‘ یہ نجومی‘ یہ شعبدہ باز‘ یہ کذاب‘خوب خوب بے وقوف بناتے ہیں ! جنرل ضیا الحق کا بھی ایک پسندیدہ پامسٹ تھا! جتوئی صاحب سے لے کر نواز شریف اور بے نظیر بھٹو تک کس نے بابے دھنکے کی چھڑیاں پیٹھ پر نہیں کھائیں! اسلام انسان کو انسان کی غلامی سے نکالنے آیا تھا مگر یہاں حال یہ کہ کوئی کسی کے پاؤں چاٹ رہا ہے‘ کوئی کسی کی طرف پشت کر کے چلتا نہیں! کوئی کسی کو ہاتھ دکھا رہا ہے کوئی زائچہ بنوا رہا ہے۔ کوئی کسی تھری پیس سوٹ میں ملبوس‘ گھومتی کرسی پر براجمان فرعون کے سامنے دست بستہ کھڑا ہے کہ یہ کہیں اے سی آر ( سالانہ رپورٹ) نہ خراب کر دے یا تبادلہ نہ کر دے ! اقبال کا یہ شعر تو ہم میں سے اکثر نے سنا ہوا ہو گا!
ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخیٔ افلاک میں ہے خوار و زبوں
سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ جو شخص پیشگوئیوں پر اتنا یقین و ایمان رکھتا ہے کہ جانتے بوجھتے ہوئے نکاح کی شرط اولین کو نظر انداز کرتا ہے۔ پھر ایک ماہ اسی فاسد نکاح کے ساتھ گزار دیتا ہے‘ کبھی کسی دہلیزپر ماتھا ٹیکتا ہے یا دہلیز کو بوسہ دیتا ہے کیا ملک کی باگ ڈور اس کے سپرد کرنی چاہیے؟ کریں گے تو پھر بزدار اور شہزاد اکبر جیسے ہی اس کے یمین و یسار پر جلوہ افروز ہوں گے! ایک ضعیف الاعتقاد اور توہّم زدہ شخص تو ایک خاندان کا سربراہ ہو تو اسے برباد کر کے رکھ دیتا ہے چہ جائیکہ اسے ایک مملکت کے سیاہ سفید کا مالک و مختار بنا دیا جائے!! رہی یہ بات کہ فلاں کے پیروکار بے شمار ہیں تو اس کی وجوہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے! ماضی کے کرپٹ حکمرانوں سے عوام اتنے متنفر ہو چکے ہیں کہ اب کوئی بھی ہو‘ بے شک ضعیف الاعتقاد اور توہم پرست ہی کیوں نہ ہو‘ ماضی کے کرپٹ حکمرانوں سے بہتر لگتا ہے! ابھی تو قدرت کرپشن کی سزا دے رہی ہے۔ ضعیف الاعتقادی کا حساب بھی بعد میں ہو جائے گا!!

Thursday, April 13, 2023

آئین کی گولڈن جوبلی


مشکل سے بارہ تیرہ سال کا ہو گا یہ لڑکا! بوسیدہ سی شلوار قمیض پہنے‘ پیروں میں ہوائی چپل اڑسے‘ بائیسکل پکڑے میرے گھر کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ اتفاق تھا یاتقدیر کا اہتمام! عین اُس وقت میں اپنے دروازے کے پاس کھڑا تھا۔ وہ میری طرف آیا اور پوچھا سر ! ردّی ہے آپ کے ہاں بیچنے کے لیے ؟ یا لوہے یا ایلومینیم کے پرانے برتن ؟ میں نے کہا ‘تم انتظار کرو میں گھر والوں سے پوچھتا ہوں! کچھ ردی تھی جو اس نے ہمارے ہاں سے خریدی کچھ لوہے کی پرانی چیزیں! میں نے اسے کھانے کے لیے بٹھایا۔اس دن ماش کی دال پکی تھی۔اس نے رغبت سے کھانا کھایا۔ ٹھنڈا پانی پیا۔ اس دوران میں اس سے باتیں کرتا رہا۔باپ ڈرائیور تھا۔ پچیس ہزار ماہانہ اس کی تنخواہ تھی۔ لڑکے کے دو بھائی اور تھے جو اس سے چھوٹے تھے اور ایک بہن۔ گھر اپنا نہ تھا۔ بری امام کے علاقے میں ایک کمرہ تھا جس میں یہ پورا کنبہ رہائش پذیر تھا۔ ایک بلب اور ایک پنکھا تھا۔ گیس نہیں تھی۔ بچے کی ماں مختلف گھروں میں کام کرتی تھی۔ بچے کے عزم صمیم پر حیرت ہوئی۔ کہنے لگا :میں تو سکول نہیں گیا۔ اپنے چھوٹے بھائیوں کو پڑھاؤں گا۔
یہ وہی دن تھا جس دن آئین کی گولڈن جوبلی کا جشن منایا جا رہا تھا۔ریاست کو چاہیے تھا کہ یہ بچہ ‘ جو‘ گلی گلی پھر کر ‘ ردی خرید رہا تھا اس بچے کو اور اس جیسے ہزاروں لاکھوں بچوں کو بھی بلا کر جشن میں شریک کرتی۔ شاید ریاست کو اور حکومت کو کچھ شرم آتی۔ خود آئین کیا کہتا ہے ؟ پہلا باب بنیادی حقوق کا ہے۔ شق نمبر 25 اے میں لکھا ہے '' ریاست پانچ سال سے لے کر سولہ سال تک کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم مہیا کرے گی...‘‘۔
ریاست کے اربابِ بست و کشاد جشن مناتے ہوئے اتنا تو مانتے کہ وہ اس آئین کی شق پر عمل کر سکے نہ آئندہ عمل کرنے کی امید ہے! جشن کی تقریروں میں ان آسودہ حال عمائدین پر لازم تھا کہ قوم کو بتاتے کہ ملک میں پانچ سال سے لے کر سولہ سال تک کے کتنے بچے سکولوں سے باہر ہیں! کتنے برتن مانجھ رہے ہیں۔کتنے ورکشاپوں میں '' چھوٹے ‘‘ بن کر بڑوں کے ناقابلِ بیان ظلم برداشت کر رہے ہیں! کتنے لوگوں کے گھروں میں کام کر رہے ہیں اور سفاک بیگمات سے پِٹ رہے ہیں۔ کتنے خاک آلود گلیوں میں غبارے اور آئس کریم بیچ رہے ہیں ؟کتنوں کے بازو اور ٹانگیں توڑ کر ان سے بھیک منگوائی جا رہی ہے ؟ آئین کا جشن منانے والے پورے ملک کے بھکاریوں کی تعداد بھی تو بتائیں! اور کیا آئین میں اُن بچوں کا بھی ذکر ہے جو مویشیوں کو ہانکتے ہیں۔ اور ان بچوں کا بھی جو جاگیرداروں کی حویلیوں میں حقے سلگاتے ہیں‘ٹانگیں دباتے ہیں اور کتے نہلاتے ہیں۔
آئین کی شق اکتیس کا عنوان ہے '' اسلامی طریق زندگی‘‘۔ اس شق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایسے اقدامات کیے جائیں گے جو پاکستانی مسلمانوں کو‘ انفرادی اور اجتماعی طور پر‘ اس قابل بنائیں کہ وہ اپنی زندگیاں اسلام کے بنیادی اصولوں اور تصورات کے مطابق ڈھال سکیں‘‘۔آئین کی گولڈن جوبلی کے جشن میں اس شق کی کامیابی یا ناکامی کا تذکرہ ضرور کرنا چاہیے تھا۔ چند دن پیشتر ایک غیر مسلم سینیٹر‘ ڈینش کمار‘ نے ایوانِ بالا میں کہا ہے کہ رمضان کے مقدس مہینے میں کھانے پینے کی اشیا کی حد سے زیادہ گرانی باعثِ شرم ہے۔ ڈینش کمار نے للکار کر کہا کہ اسے تبلیغ کی جاتی ہے کہ وہ کلمہ پڑھے اور مسلمان ہو جائے لیکن پہلے ان شیطانوں کو تو کلمہ پڑھائیں جو ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں اور ناروا نفع خوری کا ارتکاب کرتے ہیں!کون سے اقدامات اور کون سا اسلامی طریقِ زندگی؟ ایک غیر مسلم کو ایک بڑے پاکستانی شہر میں مسلمان دکانداروں نے اس لیے موت کے گھاٹ اتار دیا کہ اس نے رمضان میں چیزیں سستی کر دی تھیں! آئین کی شق اکتیس نے یہ کیسا اسلام نافذ کیا ہے کہ ادھر رمضان اور عید کی آمد آمد ہوتی ہے ‘ اُدھر خوراک ‘ کپڑے اور جوتے فروخت کرنے والوں کے چہرے بگڑ کر مسخ ہو جاتے ہیں۔ وہ چیرنے پھاڑنے والے وحشی جانور بن جاتے ہیں۔ان کے ہاتھ پنجے بن جاتے ہیں۔ ناخن کئی کئی انچ بڑھ جاتے ہیں تا کہ شکار کو دبوچنے میں آسانی ہو۔
آئین کی شق 35کا تو آئین کی گولڈن جوبلی سے خاص تعلق ہے۔ اس شق کی رُو سے ریاست نے شادی‘ خاندان ‘ عورت اور بچے کی حفاظت کرنی تھی۔ لمبی چوڑی شق 37 کا عنوان ملاحظہ فرمائیے ''سماجی انصاف کی ترقی اور معاشرتی برائیوں کا استیصال !‘‘ ایسے لگتا ہے کہ کارو کاری‘ ونی‘ اسوارہ‘ زبردستی کی شادیاں اور عورتوں کی مار پیٹ کا شمار معاشرتی برائیوں میں ہوتا ہی نہیں! بیٹی پیدا کرنے پر عورت کو زدو کوب کیا جاتا ہے‘ گھر سے نکال دیا جاتا ہے‘ طلاق دے دی جاتی ہے۔لڑکیوں کو تعلیم کے حصول سے زبردستی روکا جاتا ہے۔ گولڈن جوبلی کے جشن میں بلوچستان کے اس حالیہ واقعے کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا جس میں ایک سردار صاحب کے نجی عقوبت خانے میں قید خاندان پر ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ایک بچی کی لاش کنوئیں سے نکلی۔ مگر یہی سردار تو منتخب ایوانوں میں بیٹھ کر آئین کی ''حفاظت‘‘ کرتے ہیں!!
آئین کی چھتیسویں شق '' اقلیتوں ‘‘ کا ذکر کرتی ہے۔ ان کے حقوق اور مفادات کی حفاظت کا ذکر ہے! سوال یہ ہے کہ اگر‘ شق 25 کی رُو سے ‘ مملکت کے سب شہری برابر ہیں تو کچھ شہریوں کے گلے میں اقلیت کا بورڈ کیوں لٹکا یا گیا ہے؟ اگر سب کی قومیت پاکستانی ہے تو اقلیت اور اکثریت کا جھگڑا کیوں ہے؟ کچھ عرصہ پہلے وفاقی دارالحکومت میں ایک عبادت گاہ کی تعمیر پر جو ہنگامہ ہوا اور جو کھیل کھیلا گیا ‘ اس کا ذکر آئین کے اس شان و شوکت والے جشن میں کیوں نہیں کیا گیا! اور یہ کیوں نہیں بتایا گیا کہ ہر بار ایک غیر مسلم لڑکی ہی کیوں اسلام '' قبول‘‘کرتی ہے؟ مرد کیوں نہیں کرتے؟
بڑے طمطراق سے میڈیا نے بتایا کہ جن زعما نے یہ آئین بنایا تھا آج ان کی دوسری اور تیسری نسل اس آئین کی گولڈن جوبلی منا رہی ہے۔ کسی کا پوتا‘ کسی کا نواسا‘ کسی کا داماد! گویا تیسری نسل اس وقت اقتدار میں ہے اور آئین جو کچھ ان بھوکے ننگے قلاش بد حال عوام کو مہیا کرنے کی بات کرتا ہے‘ وہ ابھی تک بات سے آگے نہیں بڑھ سکا! ایک طرف آٹا لینے کی جد و جہد کے دوران مرجانے والوں کی لاشیں پڑی ہیں دوسری طرف گولڈن جوبلی کے جشن منائے جا رہے ہیں! یہ آئین نافذ کب ہو گا! آئین کو کاغذ کا ایک ٹکڑا کہہ کر اس کی توہین کرنے والا اپنے انجام کو پہنچ چکا۔ یاد رکھیے کہ آئین کی تمام شقوں کو عملی جامہ نہ پہنانا بھی آئین کی توہین ہے! یہ توہین بھی اپنا انتقام لے سکتی ہے! دنیا کو تو چھوڑیے‘ جنوبی ایشیا میں بھی ہم کہاں کھڑے ہیں! میرؔ نے یہ نوحہ گری شاید ہمارے لیے ہی کی تھی: 
زار رونا چشم کا کب دیکھتے
دیکھیں ہیں لیکن خدا جو کچھ دکھائے
جو لکھی قسمت میں ذلت ہو سو ہو
خطِ پیشانی کوئی کیونکر مٹائے
وضاحت:گزشتہ کالم میں یہ شعر صائب تبریزی سے منسوب کیا گیا تھا 
سبحہ بر کف‘ توبہ بر لب‘ دل پُر از شوقِ گنہ
معصیت را خندہ می آید بر استغفارِ ما
کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فارسی کی پروفیسر ڈاکٹر فائزہ زہرا مرزا نے ہماری رہنمائی کرتے ہوئے بتایا کہ یہ شعر اصل میں قُدسی مشہدی کا ہے۔

Tuesday, April 11, 2023

گناہوں کو ہنسی آرہی ہے !

تقریباً دو تہائی رمضان المبارک گزر چکا !

کیا مناسب نہ ہو گا کہ ہم میں سے ہر شخص‘ کچھ دیر کے لیے‘ عمران خان‘ شہبازشریف اور ججوں سے توجہ ہٹا کر اپنے اوپر مرکوز کرے۔ عمران خان‘ شہباز شریف اور ججوں نے اپنے کیے کا یقینا حساب دینا ہے مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ حساب ہم میں سے ہر ایک کو دینا ہے۔ یہ جو ریاضت ہم کر رہے ہیں‘ یہ جو پندرہ گھنٹوں کی بھوک پیاس برداشت کر رہے ہیں‘کیا اس کا کچھ حاصل حصول بھی ہے؟ یا یہ محض ہمارا زعم ہے کہ ہم روزہ دار ہیں! کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم سوت کات کر اسے خود ہی ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہیں! یہ جو افطار پر انواع و اقسام کے مشروبات اور ماکولات کے ڈھیر ہمارے سامنے لگ جاتے ہیں ‘ کیا روزے کا حاصل یہی کچھ ہے؟ یہ جو چار چار‘ پانچ پانچ ہزار فی کس کے افطار ڈنرکلبوں اور ہوٹلوں میں کھائے جا رہے ہیں‘ کیا دن بھر کی برداشت اسی کے لیے تھی؟ درست کہ یہ سب حلال طعام ہے مگر کیا یہ روا بھی ہے ؟ کیا یہ مبنی بر انصاف بھی ہے؟ کہیں یہ اسراف تو نہیں؟ اور ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیے کہ ایک بھرپور افطار کے بعد کیا ڈنر کی ضرورت ہے؟ کیا آپ نے اپنے گھر برتن مانجھنے والی کے بچوں کو عید کی تیاری کے لیے کچھ دیا ہے؟ کیا آپ جب اپنے بچوں‘ پوتوں اور نواسیوں کے لیے عید کے ملبوسات خرید رہے تھے تو کیا اپنے ملازم‘ اپنی گلی کے چوکیدار‘ اپنے مفلس پڑوسی‘ اپنے راستے میں چھلیاں بیچنے والے بوڑھے اور آپ جس بینک میں جاتے ہیں اس کے گارڈ کے بارے میں بھی سوچ رہے تھے؟آپ سے عمران اور شہباز کے اعمال کے بارے میں تو یقینا نہیں پوچھا جائے گا مگر ان سب مستحقین کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا۔ اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ایک مرغن اور بھرپور سحری کے بعد دن بھر کا روزہ رکھ کر‘ اور تین آدمیوں کی خوراک افطار میں کھا کر‘ اور تراویح کے دوران خلل ڈالنے والے ڈکاروں کے بعد آپ اپنے فرض سے سبکدوش ہو چکے ہیں تو آپ احمقوں کی جنت میں بس رہے ہیں! اگر اسلام صرف یہی کچھ ہوتا تو سیدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہ عید کے دن جَو کی روٹی نہ کھاتے! اور اقبال اس جَو کی روٹی کو نہ یاد کرتے:
کہ جہاں میں نان شعیر پر ہے مدارِ قوّتِ حیدری
بیس روزے گزر چکے! کیا اس دوران آپ نے صلہ رحمی کا حق ادا کیا؟ اپنے ناراض اقربا کو راضی کیا؟ یا آپ اس گھمنڈ میں ہیں کہ میں کیوں معافی مانگوں؟ میری تو غلطی ہی نہیں تھی! اگر آپ کی غلطی نہیں بھی تھی ‘ اگر زیادتی آپ کے رشتہ داروں کی بھی تھی تو آپ نے اپنا فرض کیوں نہ ادا کیا؟ آپ نے جا کر انہیں یہ کیوں نہ کہا کہ زندگی کا کچھ بھروسا نہیں! اس لیے آئیے ‘ قطع تعلقی اور قطع کلامی کو ‘ اللہ اور رسول کی رضا کی خاطر ختم کرتے ہیں! کیا آپ نے اپنے ماں باپ کی ضروریات کو پورا کیا ہے؟ ان کا میڈیکل چیک اَپ؟ ان کی ادویات ؟ ان کا لباس؟ ان کا بستر ؟ انہیں وقت کتنا دیتے ہیں ؟ اگر ان سے آپ غافل ہیں تو اس بھوک اور اس پیاس کا آپ کو رمق بھر بھی فائدہ نہیں! آپ سوت کات کر اسے ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہیں!
کیا آپ کا رزق ‘ رزقِ حلال ہے؟ آپ اپنے کام پر کس وقت جاتے ہیں؟ آپ کا اپنے آجر کے ساتھ‘ نجی شعبہ ہے یا حکومت ‘ ایک معاہدہ ہوا ہے جس کی رُو سے آپ کے اوقاتِ کار متعین ہیں! آپ اپنی طرف سے انہیں تبدیل نہیں کر سکتے! اگر آپ ایک گھنٹہ‘ یا دو گھنٹے‘ تاخیر سے پہنچتے ہیں اور وقت سے پہلے اُٹھ آتے ہیں تو آپ اپنے رزق کو مشکوک اور اپنے معاملات کو مخدوش کر رہے ہیں؟ اگر سائل منتظر ہیں اور آپ نماز کو طول دے رہے ہیں تو یہ رویّہ بہت خطرناک ہے! آپ کے لیے خطر ناک ہے ! سائلین کے لیے نہیں!! آپ روزے کی حالت میں دروغ گوئی سے اجتناب کر رہے ہیں؟ یا وہی ''دے مار ساڑھے چار ‘‘ والا جھوٹ کا طومار ہے؟ کہیں آپ کا پڑوسی آپ کی وجہ سے کرب میں تو نہیں؟ کہیں آپ نے کسی کی زمین ‘ کسی کی جائیداد‘ کسی کے کھیت‘ کسی کی دکان پر قبضہ تو نہیں کر رکھا؟ اگر ایسا ہے تو فوراً سے پیشتر اپنے آپ کو اس زیاں کار‘ پوزیشن سے ہٹا لیں! کہیں گاڑی یا مکان فروخت کرتے وقت آپ کوئی نقص چھپا تو نہیں رہے؟ اگر آپ کو کسی بد بخت نے یہ مشورہ دیا ہے کہ فلاں مستری سے گاڑی کا میٹر پیچھے کروا لو تو اس نے آپ کو آگ میں دھکیلنے کی منحوس کوشش کی ہے! اس کی باتوں میں نہ آئیے۔ خریدنے والے کو خوبیوں کے ساتھ خامیاں بھی بتائیے۔ مکان کی دیواروں میں جو کریک پڑے ہوئے ہیں‘ انہیں صرف فروخت کرنے کی خاطر عارضی طور پر چھپایا ہے یا بنیاد یا چھت میں جو نقائص ہیں وہ مشتری کے علم میں نہیں لا رہے اور آپ روزے سے بھی ہیں تو آپ احمق ہیں! اگر آپ تاجر ہیں تو بہت بڑے امتحان میں ہیں ! آپ کم تول رہے ہیں یا شے کا نقص چھپا رہے ہیں تو اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار رہے ہیں! اگر آپ نے دکان کے سامنے فٹ پاتھ پر یا سڑک کے ایک حصے پر قبضہ کیا ہوا ہے تو افطار سے پہلے ہی یہ قبضہ ختم کر دیجیے۔ کسی گاہک سے وعدہ کیا ہوا ہے مال پہنچانے کا یا کوئی ملبوس تیار کرنے کا تو اس وعدے کو ہلکا نہ لیجیے۔ یہ ایک خطرناک معاملہ ہے۔ وعدے کو پورا کیجیے!
افسوس! ہم دوسرے کے مکھن میں بال تلاش کرتے ہیں مگر اپنی آنکھ میں پڑے اُس بال کو نہیں دیکھتے جو کسی ایسے جانور کا ہے جس کا نام لینا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے! ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم دوسروں کی اصلاح کریں مگر اس زعم میں بھی ہیں کہ ہم خود دوسروں سے بہتر ہیں! ہمیں کسی اصلاح‘ کسی تبدیلی‘ کسی سرزنش‘ کسی جھٹکے‘ کسی تنبیہ ‘ کسی وارننگ کی ضرورت نہیں ! کچھ لوگ ''کلر بلائنڈ ‘‘ ( کور رنگ) ہوتے ہیں۔ انہیں رنگ نہیں نظر آتے! ہمیں اپنی غلطیاں اور اپنے گناہ نہیں نظر آتے! میں بھی اس مرض کا شکار ہوں اور آپ بھی! ہمیں علاج کی ضرورت ہے! اور علاج ایک ہی ہے! اپنی اَنا کو لگام دے کر‘ اپنی غلطیوں کا اعتراف !
روزہ صرف سحری‘ افطار اور تراویح کا نام نہیں ہے ! معاملہ اتنا ہی سادہ ہوتا تو یہ نہ فرمایا جاتا کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا! یہ پیٹ کا معاملہ نہیں‘ یہ دل اور دماغ کا مسئلہ ہے! اور وہ قصہ تو آپ نے سنا ہی ہو گا کہ کسی مغربی ملک کے غیر مسلم باشندے نے‘ کسی مسلمان سے پوچھا کہ روزہ کیا ہے ؟ مسلمان نے تفصیل سے بتایا کہ سحری کیا ہے اور افطار و تراویح کیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی وضاحت کی کہ روزے کی حالت میں مسلمان جھوٹ نہیں بولتا‘ عہد شکنی نہیں کرتا! دھوکا نہیں دیتا! ماپ تول میں کمی نہیں کرتا! اپنے فرائض نیک نیتی اور دیانت داری سے ادا کرتا ہے! وقت کی پابندی کرتا ہے۔ کسی کو تکلیف نہیں دیتا۔ وہ شخص ہنسا۔ کہنے لگا آپ مسلمان تو فائدے میں رہے! صرف ایک مہینہ !! ہم تو یہ سب کچھ سارا سال کرتے ہیں!! صائب سے منسوب شعر ایک بار پھر یاد آگیا؛
سبحہ بر کف‘ توبہ بر لب‘ دل پُر از شوقِ گناہ
معصیت را خندہ می آید ز استغفار ما
ہاتھ میں تسبیح ہے‘ زبان پر توبہ مگر دل میں گناہ کا شوق انگڑائیاں لے رہا ہے! ہمارے استغفار پر خود گناہوں کو ہنسی آرہی ہے!

Monday, April 10, 2023

اصل طاقت تک رسائی


یہ اُن دنوں کی بات ہے جب مزدوری کے سلسلے میں اسلام آباد سے لاہور آنا جانا لگا رہتا تھا۔ ایک بار لاہور گیا تو یارِ دیرینہ ملک فرخ یار سے بھی‘ جو وہیں تعینات تھے‘ ملاقات طے ہوئی۔ ملک فرخ یار بلند منصب بینکار ہیں۔ جدید نظم میں منفرد مقام رکھتے ہیں اور پنجاب کی ثقافتی تاریخ‘ خاص طور پر‘ ذاتوں اور برادریوں پر اتھارٹی ہیں۔ طے یہ ہوا کہ میں ایک دوست کے دفتر میں‘ جو بڑے افسر تھے‘ ملک صاحب کا انتظار کروں گا۔ملک صاحب آئے تو میرے دوست نے‘ آؤ دیکھا نہ تاؤ‘ ان کے سامنے ہاتھ رکھ دیا۔ معلوم نہیں اسے یہ تاثر کیسے ملا کہ ملک صاحب پامسٹ ہیں۔ملک صاحب بھی فوراً پامسٹ بن گئے اور ایسی ایسی باتیں نکالیں اور پیشگوئیاں کیں کہ بڑے صاحب مرعوب بھی ہوئے اور خوش بھی!
جس طرح میرے دوست کو غلط فہمی ہوئی کہ ملک فرخ یار پامسٹ ہیں‘ ٹھیک اسی طرح بزدار صاحب کو بھی میرے بارے میں غلط فہمی ہوئی کہ میں عقل مند آدمی ہوں اور لوگوں کو ان کے کیریئر اور مستقبل کے بارے میں مشورے دیتا ہوں؛چنانچہ جب ایک مشرکہ دوست کی وساطت سے نعمان بزدار صاحب نے رابطہ کیا تو ملک فرخ یار صاحب ہی کی طرح میں بھی فوراً عقلمند آدمی بن گیا۔میں نے اپنے بارے میں کوئی وضاحت کی نہ یہ بتایا کہ وہ غلط جگہ تشریف لائے ہیں۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنے مسائل بیان کرتے‘ میں نے ان سے اجازت چاہی کہ کچھ سوالات‘ اپنی ایجوکیشن اور جنرل نالج کے لیے‘ پو چھ لوں! ماشا اللہ بہت ہنس مکھ طبیعت کے مالک ہیں۔ مزاج میں سادگی اور درویشی ہے۔ فرمایا: ضرور پوچھیں! میں نے استفسار کیا کہ آپ خان کے کرکٹ کے ساتھی تھے نہ پی ٹی آئی کی تاریخ میں آپ کا نام آتا ہے۔ پھر یہ اتنا لمبا ہاتھ کیسے مارا؟ آدھے سے زیادہ ملک آپ کی جھولی میں ڈال دیا گیا۔ بزدار صاحب مسکرائے۔ کہنے لگے: یہ تو سچ ہے کہ جھولی میں ڈال دیا گیا مگر یہ بھی سچ ہے کہ جھولی کسی اور کی تھی! میری تو خان سے ملاقات تک نہ تھی۔ یہ سارا کمال تو جمال گجر صاحب کا تھا۔ وہی مجھے اس طلسمی حویلی میں لے کر گئے جہاں مناصب بانٹے جا رہے تھے۔ میری کیا اہمیت تھی! میں تو کسی اور کو اصل بادشاہ بنانے کے لیے جعلی بادشاہ بنایا گیا تھا۔ بقول غالب:
ہم کہاں کے دانا تھے‘ کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالبؔ دشمن آسماں اپنا
بزدار صاحب رُکے‘ مسکرائے‘پھر کہا کہ پیٹ میں درد انہی کو ہوتا ہے جو گاجریں کھاتے ہیں۔ جنہوں نے گاجریں کھائیں وہ پیٹ کے درد سے بچنے کے لیے سپیشل جہاز میں سوار ہو کر بیرونِ ملک سدھار گئے۔میں تو صرف گاجریں دھو نے کے بعد پلیٹ میں رکھتا تھا۔
پھر کہنے لگے کہ خان کی حکومت آیا چاہتی ہے۔ الیکشن ہونے ہی ہونے ہیں۔ اور الیکشن میں دو تہائی اکثریت خان ہی کو ملے گی۔ پنجاب میں اب میری سربراہی کا کوئی امکان نہیں۔ میں نے پوچھا یہ آپ اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہیں ؟ بزدار صاحب نے جواب دیا کہ یہ تو ظاہر ہے! جن صاحب کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کا خطاب دیا گیا تھا‘ وہ اب پارٹی کے بھی انچارج ہیں۔میں تو ان کے مقابلے میں چھوٹا ڈاکو بھی نہیں! ویسے منطقی طور پر بھی حق انہی کا ہے۔ وہ شریفوں کا مقابلہ کرنے کی زبردست صلاحیت رکھتے ہیں! میں نے پوچھا تو پھر آپ اپنے آپ کو مستقبل میں کہاں دیکھتے ہیں؟ انہوں نے بر جستہ جواب دیا کہ مرکز میں۔اور یہی مشورہ کرنے آپ کے پاس آیا ہوں کہ وفاق میں کون سی وزارت لوں؟ میں نے پوچھا آپ کا اپنا رجحان کس طرف ہے! اب بزدار صاحب شرمائے اور کہا :میری دلچسپی تو وزارتِ خزانہ میں ہے۔ میں سمجھ گیا کہ بزدار صاحب کو وزارتِ خزانہ میں نہیں‘ خزانے میں دلچسپی ہے۔ وزارتِ خزانہ کے بارے میں ان کا تصور شاید یہ ہے کہ وہاں ڈالروں روپوں اور سونے چاندی کی شکل میں خزانہ مقفل پڑا ہے اور چابی اس کی وزیر خزانہ کی جیب میں ہوتی ہے۔میں نے اصل حقیقت تو نہ بتائی کہ ان کا یہ تصور مجروح نہ ہو۔ہاں یہ کہا کہ یہ گھاٹے کی وزارت ہو گی۔ مہنگائی کا گراف ہمیشہ اوپر جاتا ہے۔ عوام وزیر خزانہ کو مطعون کرتے ہیں۔ڈالر مہنگا ہو تو وزیر خزانہ کی طرف انگلیاں اٹھتی ہیں۔آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات بھی کرنے ہوتے ہیں! بزدار صاحب قائل ہو گئے۔ دوسرا چوئس ان کا وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی تھی۔ میں نے سبب پوچھا تو کہا کہ پورے جنوبی پنجاب میں سائنس اور ٹیکناجی کو پھیلا دوں گا۔ بڑی مشکل سے انہیں قائل کیا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے بیج نہیں ہوتے جو آپ پھیلا دیں۔ اس میں بہت تکنیکی مسائل ہوتے ہیں۔ اچانک مجھے یاد آیا کہ2018ء میں حکومت سنبھالنے سے پہلے خان صاحب نے جنوبی پنجاب کو الگ صوبے کا درجہ دینے کا پکا وعدہ کیا تھا۔ یہ وعدہ ہوا میں تحلیل ہو گیا۔ بزدار صاحب سے اس کا سبب پوچھا تو ہنس کر کہنے لگے کہ الگ صوبہ بنتا تو میری چیف منسٹری کی حدود سکڑ جاتیں۔یعنی جنوبی پنجاب کا صوبہ بننے میں رکاوٹ بزدار صاحب تھے۔ مجھے یقین نہ آیا۔میں نے کہا کہ آپ تو برائے نام چیف منسٹر تھے۔ اصل طاقت تو کہیں اور تھی۔ پھر آپ اتنے طاقتور کیسے ہو گئے کہ صوبہ نہ بننے دیا؟ کہنے لگے: انہی اصل طاقتوں کے ذریعے نہ بننے دیا!‘ اصل طاقت جو خفیہ‘ نہفتہ‘ ہے۔ اس کے اشارۂ ابرو کے بغیر صوبہ تو کیا بنتا‘ پتّا بھی نہیں ہل سکتا تھا۔ بس اس تک میری رسائی تھی۔
بہت سوچ بچار کے بعد میں نے بزدار صاحب کو مشورہ دیا کہ ان کے لیے وزاتِ خارجہ سب سے زیادہ مناسب وزارت ہو گی۔ یہی ان کا اصل میدان ہے۔ یہیں ان کی تقریر و تحریر کی صلاحیتیں بدرجہ اتم بروئے کار آئیں گی۔ بلاول‘ حنا ربانی کھر‘ شاہ محمود قریشی اور دیگر سابق وزرائے خارجہ کو لوگ بھول جائیں گے۔یہ درست ہے کہ انہوں نے‘ ایک روایت کے مطابق‘ ایک بار پوچھا تھا کہ یورپی یونین کون سا ملک ہے مگر وزیر خارجہ کے لیے ایسی چیزوں کا جاننا اتنا ضروری بھی نہیں! بزدار صاحب کے چہرے پر اطمینان کی لہر دوڑتی ہوئی صاف نظر آرہی تھی۔ صاف ظاہر تھا کہ انہیں میرا مشورہ صائب لگا تھا۔ کہنے لگے‘ سائیں! میں اسی کے لیے کوشش کروں گا۔ کوشش کیا‘ اصل طاقت جس تک پہنچنے کے لیے میرے پاس طلسمی زینہ موجود ہے‘ ان شاء اللہ میرے بارے میں ہی فیصلہ کر ے گی۔ بس ایک دو مسائل ہیں‘ وزارت خارجہ سے متعلق‘ وہ مجھے سمجھا دیجیے! میں نے کہا کہ بصد شوق پوچھئے۔ پوچھا کہ ایک لفظ میں اکثر سنتا ہوں Continent یہ کون سا ملک ہے؟ میں نے بتایا کہ ایک کنٹی نینٹ میں بہت سے ملک ہوتے ہیں! پھر بزدار صاحب نے پوچھا تو پھر یہ ''تمام کانٹی نینٹ‘‘ کیا ہوتے ہیں؟ میں سوچ میں پڑ گیا۔ اچانک روشنی میرے دماغ پر اتری۔ میں سمجھ گیا وہ subcontinent کی بات کر رہے ہیں! چنانچہ میں نے انہیں برصغیر کے بارے میں سمجھایا! ان کا آخری استفسار سن کر میں بے اختیار ہنس پڑا مگر فوراً سنبھل گیا۔ انہوں نے پوچھا سائیں! یہ سارک کون سا ملک ہے۔ میں نے نقشے پر بہت ڈھونڈا مگر نظر نہیں آیا!
اگر خان کو حکومت ملی تو بزدار صاحب ہی ہمارے وزیر خارجہ ہوں گے! اگر وہ آدھے سے زیادہ پاکستان چلا سکتے ہیں تو گجر صاحب انہیں وزیر خارجہ بھی بنوا سکتے ہیں! گجر صاحب اصل طاقت تک رسائی رکھتے ہیں!

Thursday, April 06, 2023

—مجذوب کی بڑ

 —

کل کی بات ہے۔ میں سبزی والے کی دکان سے باہر نکلا تو ایک بزرگ سامنے کھڑی ایک گاڑی میں بیٹھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ چھوٹا موٹا بزرگ اب میں بھی ہوں لیکن جن صاحب کی بات ہو رہی ہے وہ زیادہ بزرگ تھے اور ضُعف بھی ان پر غالب آرہا تھا۔ یہ جو کہا ہے کہ گاڑی میں بیٹھنے کی کوشش کر رہے تھے تو اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے مشکل سے گاڑی کا دروازہ کھولا۔ پھر وہ کافی جدوجہد سے‘ بہت تکلیف سے‘ بہت دیر لگا کر‘ سیٹ پر بیٹھنے میں کامیاب ہوئے! میں یہ منظر دیکھتا آرہا تھا۔ جب وہ بزرگ بیٹھ چکے تو میں گاڑی کے پاس آچکا تھا۔ مجھے اُسی سمت جانا تھا۔ میں گاڑی کے پاس کھڑا ہو گیا۔ جو نوجوان ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا‘ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا آپ ان بزرگ کے صاحبزادے ہیں؟ مجھے کسی سے بات کرنے یا کچھ پوچھنے میں کبھی کوئی جھجھک محسوس نہیں ہوئی۔ گھر والے شاکی ہیں کہ میں جاتے جاتے پنگا لے لیتا ہوں۔ حالانکہ میں بات ہی تو کرتا ہوں اور اعوان ہونے کے باوجود کوشش کرتا ہوں کہ از حد نرمی سے بات کروں۔ یوں بھی حکم ہے کہ برائی کو ہاتھ سے نہیں تو زبان ہی سے روکنے کی کوشش کرو۔ جب آنکھوں کے سامنے ایک ناروا عمل صادر ہو رہا ہو تو کم از کم میں چپ نہیں رہ سکتا۔ بابے نے بھی یہی نصیحت کی تھی۔ بابے سے میری مراد شیخ سعدی ہیں۔�

گر بینم کہ نابینا و چاہ است

اگر خاموش بنشینم‘ گناہ است

�دیکھ رہے ہیں کہ اندھا چلا جا رہا ہے اور آگے کنواں ہے تو ایسے میں چپ رہنا گناہ ہے! ضروری نہیں کہ کنواں نظر آرہا ہو! ہمارے اردگرد بیشمار ایسے گڑھے‘ کھائیاں اور کنویں ہیں جو کچھ لوگوں کو نظر آتے ہیں مگر بہت سے لوگ انہیں دیکھنے سے قاصر ہیں! نہ دیکھ سکنے والوں کی مدد کرنا ان لوگوں پر فرض ہے جو دیکھنے کی اہلیت رکھتے ہیں!�نوجوان نے میرے سوال کا جواب اثبات میں دیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ جب آپ کے والد بہت مشکل سے دروازہ کھول رہے ہیں اور ان کے لیے نشست پر بیٹھنا بھی سہل نہیں تو آپ اتنے آرام سے اپنی جگہ کیوں بیٹھے ہیں؟ آپ کو چاہیے کہ باہر نکل کر ان کے لیے گاڑی کا دروازہ کھولیں اور بیٹھنے میں ان کی مدد کریں۔ فوری ردِعمل جو نوجوان پر میری بات کا ہوا‘ کچھ کچھ مضحکہ خیز تھا۔ اس نے ہونقوں کی طرح منہ کھول لیا اور حیرت سے مجھے یوں دیکھنے لگا جیسے میں کوئی عجیب الخلقت انسان ہوں۔ ہاں! وہ بزرگ مجھے تحسین آمیز نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ میرا فرض ادا ہو گیا تھا۔ میں آگے بڑھ گیا!�ہماری جو اقدار ماضی میں تھیں‘ ان میں سے کچھ تو بہت انتہا پسندانہ تھیں مثلاً ماں باپ کی موجودگی میں بیوی سے بات کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا مگر کچھ اقدار ایسی بھی تھیں جو قیمتی تھیں اور ضروری بھی! انہی میں سے ایک والدین اور اساتذہ کا احترام بھی تھا۔ والد گھر میں داخل ہوتا تھا تو بچے اٹھ کر کھڑے ہو جاتے تھے۔ وہ چارپائی پر بیٹھتا تو فوراً تکیہ پیش کیا جاتا۔ اس کے ساتھ چارپائی پر بیٹھنا ہوتا تو ادوائن والی سائیڈ پر بیٹھتے۔ دسترخوان پر کھانا وہ شروع کرتا‘ باقی اس کی پیروی کرتے۔ وہ کھڑا ہوا ہوتا تو ممکن ہی نہ تھا کہ کوئی بیٹھ جائے! بڑھاپے میں اسے اٹھانا‘ بٹھانا‘ اس کے پیروں میں جوتے پہنانا‘ اسے وضو کرانا‘ اس کے سر پر تیل کی مالش کرنا‘ ہماری ثقافت کا وہ حصہ تھا جو قابلِ فخر تھا۔ باپ یا ماں کو قے آتی یا کوئی اور مسئلہ ہوتا تو اپنے ہاتھوں سے صفائی کرتے۔ بازار ایک بار نہیں‘ کئی بار بھیجا جاتا تو بیٹا اُف تک نہ کرتا۔ باپ تو باپ ہے‘ چچا‘ ماموں اور بڑے بھائی کے ساتھ بھی اسی طرح پیش آیا جاتا۔ آج معاملات اپنی صورت بدل چکے ہیں! میں نے اپنے پندرہ سالہ نواسے سے کہا کہ آپ کے بابا جب بھی گھر میں یا کمرے میں داخل ہوں‘ آپ کھڑے ہو جایا کیجیے۔ اُس نے حیرت سے پوچھا کہ نانا ابو‘ کیا ہر بار ایسا کرنا ہوگا؟ میں نے کہا کہ ہاں! ہر بار! اب معاشرے کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ باپ گھر میں داخل ہوتا ہے تو صوفے پر نیم دراز بیٹا اُٹھنا تو دور کی بات ہے‘ اُس کی آمد کا نوٹس تک نہیں لیتا۔ باپ سامان اٹھاتا ہے‘ کپڑے استری کرتا ہے‘ جوتے پالش کرتا ہے‘ سودا سلف لینے بازار کا رخ کرتا ہے‘ گاڑی صاف کرتا ہے تو بہت کم گھروں میں بیٹا‘ یا بیٹے‘ فوراً اُٹھ کر اس کے ہاتھ سے وہ کام لے لیتے ہیں! زیادہ تر نوجوان اولاد اسے کام کرتے دیکھتی ہے مگر بے نیاز رہتی ہے!�تارکینِ وطن اس حوالے سے زیادہ نقصان میں ہیں! ایک پاکستانی بچے کو‘ جو دس برس کا ہے‘ اس کی ماں نے موبائل پر ایک خاص ایپ استعمال کرنے سے منع کیا تو اس کے انگریز ہم جماعت نے اسے کہا کہ موبائل فون تمہارا ہے۔ تمہاری ماں کس طرح منع کر سکتی ہے۔ باپ کو ''اولڈ مین‘‘ کہنا وہاں عام رواج ہے۔ ماں باپ اور اولاد کا باہمی رشتہ ان ملکوں میں ہمارے ہاں سے مکمل طور پر مختلف ہے۔ سرد مہری کی ابتدا وہاں ماں باپ کرتے ہیں۔ بچوں کی اعلیٰ تعلیم میں ماں باپ کا مالی حصہ اکثر و بیشتر صفر ہوتا ہے۔ بچے حکومت سے قرض لیتے ہیں یا خود بندوبست کرتے ہیں۔ لڑکی یا لڑکا سولہ سال کا ہو جائے تو ماں باپ کو گھر میں کھَلنے لگتا ہے۔ وہ اپنے دوستوں اور رفقائے کار کے سامنے اپنے بچوں کی غیبتیں کرتے ہیں کہ جان نہیں چھوڑ رہے۔ ماں باپ کی بچوں کے ساتھ جذباتی وابستگی ہوتی ہے نہ بچوں کی ماں باپ کے ساتھ۔ یہ درست ہے کہ ایسا سو فیصد خاندانوں میں نہیں ہوتا مگر اکثر خانوادوں میں یہی صورتِ حال ہے۔ مقامی اولاد جو رویہ اپنے ماں باپ کے ساتھ روا رکھتی ہے‘ تارکینِ وطن کے بچے اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ جن دوستوں کے ساتھ وہ کلاس روم میں بیٹھتے ہیں یا کھیل کے میدان میں ہوتے ہیں‘ ان سے متاثر ہونا فطری امر ہے۔ ماں باپ گھر میں جو کچھ سکھاتے ہیں‘ اس کا اثر اکثر و بیشتر بیرونی عوامل کے سبب زائل ہو جاتا ہے۔�انٹرنیٹ اور اس کے بعد بے مہار سوشل میڈیا نے معاشرتی پیش منظر کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا ایک سمندر ہے! بحر الکاہل اور بحر اوقیانوس سے بڑا سمندر! بچے اس کھلے سمندر میں ایک تختے پر بیٹھے ہیں۔ تختہ لہروں کے رحم و کرم پر ہے۔ بچے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ زندگی زبردست ہے۔ اس میں آزادی ہے اور ایڈونچر! ماں باپ انہیں تختے سے ہٹا کر محفوظ کشتی میں بٹھانا چاہتے ہیں مگر وہ ماں باپ کی مداخلت کو ناپسند کرتے ہیں۔ اس کے باوجود ماں باپ کا فرض ہے‘ پاکستان میں بھی اور پاکستان سے باہر بھی کہ اپنی اقدار‘ اپنے کلچر اور اپنی صحت مند روایات سے بچوں کو آشنا کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں! اور بچوں کو اُس راستے پر چلنے سے نرم گفتاری اور پیار کے ساتھ روکیں جس کے آخر میں باغ نہیں‘ بے آب و گیاہ دشت ہے!�اور آخری بات۔ صدیوں کا تجربہ اور مشاہدہ بتاتا ہے کہ ماں باپ کے ساتھ جو رویہ رکھا جائے‘ وہ پلٹ کر واپس آتا ہے! بابا پھر یاد آرہا ہے:

ہر آنکہ تخمِ بدی کشت و چشمِ نیکی داشت
دماغِ بیہدہ پْخت و خیالِ باطل بست

�بیج برائی کا بونا اور امید اچھائی کی رکھنا! مجذوب کی بڑ کے سوا کچھ نہیں!!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, April 04, 2023

دل کے پھپھولے اور سینے کے داغ



ہائی کورٹ کے جج صاحب نے حکام بالا کو درخواست دی کہ ان کا تبادلہ کہیں اور کر دیا جائے۔ وجہ انہوں نے یہ پیش کی کہ ان کی بیٹی وکالت شروع کر رہی ہے اور بطور وکیل اسی عدالت میں پیش ہوا کرے گی۔ یہ مناسب نہیں کہ باپ جہاں جج ہو بیٹی وہیں وکیل ہو۔ یہ مفادات کا ٹکراؤ ہوگا! 

آپ کا کیا خیال ہے یہ واقعہ کہاں کا ہے؟ ہمارے کسی صوبے کی ہائی کورٹ کا؟ نہیں! یہ واقعہ آپ کے شریکوں کا ہے۔ 

مدھیہ پردیش وسطی بھارت کی ریاست ہے۔ بھوپال اس کا دارالحکومت ہے اور اِندور اس ریاست کا سب سے بڑا شہر! مشہور شاعر‘ راحت اندوری مرحوم‘ جو مشاعرے لُوٹ لیتے تھے‘ اسی اِندور کے تھے۔ یہ شعر انہی کا ہے ؛
جو آج صاحبِ مسند ہیں‘ کل نہیں ہوں گے 
کرایہ دار ہیں‘ اپنا مکان تھوڑی ہے

گوالیار کا مشہورِ عالم شہر بھی مدھیہ پردیش ہی میں ہے۔ یہ وہی شہر ہے جس کے بدنام زمانہ قلعہ میں ہمارے مغل بادشاہ اپنے بھائیوں‘ بیٹوں‘ بھتیجوں اور دیگر مخالفین کو قید کرتے تھے۔ اٹل سری دھرن‘ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے جج تھے۔ حال ہی میں وہ مجاز حکام کی خدمت میں درخواست گزار ہوئے کہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ سے ان کا تبادلہ کر دیا جائے۔ ان کی بڑی بیٹی بطور وکیل ان کے سامنے پیش ہو تو یہ بات انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہو گی؛ چنانچہ انہیں مدھیہ پردیش سے جموں کشمیر ہائیکورٹ میں بھیج دیا گیا ہے! 
کیا ہمارے ہاں ایسی کوئی مثال موجود ہے؟ مفادات کا ٹکراؤ (conflict of interest) یہ کس چڑیا کا نام ہے؟ یہ چڑیا ہمارے ملک میں پائی ہی نہیں جاتی! بڑے میاں صاحب وزیراعظم تھے تو ان کا بھائی صوبے کا حکمران تھا۔ ماشاء اللہ سرکاری دوروں پر بھائی صاحب ساتھ ہوتے تھے۔ باقی صوبوں کے چیف منسٹر وں کو گھاس نہیں ڈالی جاتی تھی۔ اب چھوٹے میاں صاحب کے وزیراعظم ہوتے ہوئے ان کے صاحبزادے صوبے کے وزیراعلیٰ بن گئے۔ کون سے مفادات اور کون ساٹکراؤ!!! عمران خان صاحب حکمران بنے تو اس روش سے ایک انچ ادھر اُدھر نہیں ہٹے! دوست نوازی کی! خوب کی اور ڈنکے کی چوٹ پر کی۔ یوٹیلٹی سٹور کارپوریشن تھی یا سیاحت کا محکمہ‘ سب دوستوں کی جھولی میں ڈال دیے۔ گجر صاحب وزیراعلیٰ کے دفتر میں بیٹھ کر پولیس کے اعلیٰ افسروں سے جواب طلبی کرتے تھے۔ تفصیلات اور بھی ہیں مگر رونے پیٹنے سے کیا حاصل! صرف میاں صاحبان یا عمران خان کی حکومت میں ایسا نہیں ہوا‘ ہر حکومت میں ایسا ہوا۔ ہر ادارے میں ایسا ہوا اور ہر محکمے میں ایسا ہوا! سعدی نے کہا تھا کہ بادشاہ کسی کے باغ سے ایک سیب ناجائز توڑے تو اس کے ماتحت پورا باغ لوٹ لیتے ہیں! جب وزرا اعظم بھائی کو اور بیٹے کو اور بیٹی کو اور دوستوں کو مناصب سے نوازیں گے تو نیچے سب افسر اور اہلکار اور منصب دار اور عمائدین بھی تو یہی کچھ کریں گے! کسی سے سنا ہے‘ نجانے یہ روایت صحیح ہے یا نہیں‘ کہ جب ایئر مارشل اصغر خان پی آئی اے کے سربراہ بنے تو ان کے بھائی پی آئی اے ہی میں کسی اہم عہدے پر تعینات تھے‘ ایئر مارشل نے انہیں وہاں سے ہٹا دیا۔ یہ روایت درست ہے یا نہیں‘ بہر طور یہ حقیقت ہے کہ پاکستان بننے کے بعد ہمارے حکمران اور منصب دار اصول پسند تھے اور دیانت کا دور دورہ تھا۔ قائداعظم آخری ایام میں زیارت میں تھے۔ جو نرس ان کی دیکھ بھال کر رہی تھی اس نے عرض کیا کہ اس کی ٹرانسفر فلاں شہرمیں کرا دیں۔ قائد کا جواب تھا کہ یہ متعلقہ محکمے کا کام ہے جس میں وہ مداخلت نہیں کریں گے! اگر حکمران اس اصول پرکاربند رہتے تو آج ہمارے حالات مختلف ہوتے! 
بیٹی وکیل بنی تو مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے جج نے اپنا تبادلہ کرا لیا۔ ہم جنہیں حقارت سے '' لالے‘‘ کہتے تھے‘ وہ لالے ہم سے ہر میدان میں بازی لے گئے۔ ہمارے ریلوے کے وزیر نے حادثے کے بعد کہا تھا کہ میں کیوں استعفیٰ دوں؟ میں کوئی ڈرائیور تھا؟ لال بہادر شاستری 1951ء سے لے کر 1956ء تک بھارت کا ریلوے منسٹر تھا۔ بارشیں اس قدر زیادہ ہوئیں کہ پانی ریلوے لائنوں تک پہنچ گیا۔ ٹرین کو حادثہ پیش آیا۔ کچھ مسافر ہلاک ہو گئے۔ سارے بھارت کو معلوم تھا کہ حادثہ آسمانی آفت کے سبب پیش آیا ہے مگر شاستری نے استعفیٰ دے دیا! 
1999ء میں ریل کا حادثہ ہوا تو اُس وقت کے ریلوے وزیر نتیش کمار نے استعفیٰ دے دیا۔ 2017ء میں سریش پرابھو نے ریلوے وزیر کی حیثیت سے استعفیٰ دے دیا۔ اس نے حادثے کی اخلاقی ذمہ داری اپنے سر لی۔ کیا ہمارے ہاں ایسی ایک نظیر بھی پائی جاتی ہے؟
گنجان شہروں میں زیرِ زمین ریلوے کے حوالے سے بھارت ہم سے کہیں آگے ہے۔ اس کے پندرہ شہروں میں میٹرو ریل سسٹم کار فرماہے۔ کولکتہ‘ دہلی‘ چنائی‘ حیدرآباد‘ جے پور‘ احمد آباد‘ ممبئی‘ لکھنؤ‘ ناگپور‘ کانپور‘ پونے ان میں سے چند ہیں! بنگلہ دیش کی بھی سن لیجیے۔ چٹاگانگ اور ڈھاکہ کے درمیان بلٹ ٹرین چلانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ 2027ء تک دیناج پور کو بلٹ ٹرین کے ذریعے ڈھاکہ سے ملانے کا منصوبہ ہے۔ دیناج پور‘ بنگلہ دیش کا شمال مغربی شہر ہے جو بھارتی سرحد کے قریب ہے۔ ہمارا حال تو انجمؔ رومانی کے بقول یہ ہو گیا ہے کہ:
انجمؔ غریبِ شہر تھے‘ اب تک اسیر ہیں 
سارے ضمانتوں پہ رہا کر دیے گئے
یہ یورپ یا امریکہ یا جاپان کی مثالیں نہیں۔ یہ ہمارے ہی ساتھ کے لوگ ہیں۔ بھارتی بھی! بنگلہ دیشی بھی! وہی رنگ‘ وہی خوراک‘ وہی پس منظر‘ وہی سماج! مگر ایک سسٹم انہوں نے بنا لیا۔ حسینہ واجد معیشت سے متعلق اجلاس ہو تو سات سات آٹھ آٹھ گھنٹے اجلاس میں بیٹھتی ہیں! مودی پاکستان کے لیے اور بھارتی مسلمانوں کے لیے ایذا رساں ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ شدید محنتی ہے۔ دنیا بھر کی کمپنیوں کو بھارت میں لا رہا ہے۔ مڈل کلاس کا سائز وہاں تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ آئی ٹی سیکٹر‘ پوری دنیا کا‘ ان کی مٹھی میں ہے۔ بنگلور‘ چنائی اور حیدر آباد اربوں نہیں‘ کھربوں کما رہے ہیں! 
ایک شے ہے پالیسیوں کا تسلسل جو ترقی کی بنیادی ضرورت ہے! ہمارے ہاں جو حکومت آتی ہے‘ از سرِ نو‘ الف سے شروع کرتی ہے۔ شہباز شریف آئے تو پرویز الٰہی کے منصوبے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیے۔ عمران خان آئے تو شریفوں کے چلتے ہوئے منصوبے روک دیے۔ اب شہباز شریف تشریف لائے ہیں تو عمران خان کے دور کے پروگرام سرد مہری کی نذر ہو گئے! اتنی منتقم مزاجی‘ اتنا Vendettaتو سسلی والوں کے مافیا میں بھی نہ تھا! ہر ایک کی اَنا گنے کا رس پی کر‘ سانپ کی طرح‘ پھن لہرائے کھڑی ہے! بھٹو صاحب 1973ء کی نام نہاد سروس اصلاحات میں بیورو کریسی کو آئینی حفاظت سے محروم کر گئے۔ بیورو کریسی کو آئینی حفاظت میسر ہوتی تو وہ اہلِ سیاست کی چیرہ دستیوں کے سامنے کسی حد تک بند باندھ سکتی تھی۔ اب اس کی حیثیت کنیز سے زیادہ نہیں! اب وہ یس سر سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتی! گزشتہ حکومت میں وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری صاحب جو کچھ کرتے رہے‘ اسے دیکھ کر یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ افسر شاہی کا تعمیری اور مثبت کردار مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ صوبوں کے درمیان ہم آہنگی مفقودہے۔ وفاق اپنی کھال بچانے میں لگا ہے! کوئی طوائف الملوکی سی طوائف الملوکی ہے! دل کے پھپھولے ہیں اور سینے کے داغ! وہی پرانا شعر ماتم بن کر پھر سینہ زن ہے:

وہ شاخِ گُل پہ زمزموں کی دُھن  تراشتے  رہے

نشیمنوں   سے بجلیوں  کا کارواں  گذر گیا 

بشکریہ  روزنامہ  دنیا

Monday, April 03, 2023

میں جن کے کام آ نہ سکا ان سے معذرت



شکل سے شریف لگ رہا تھاہاتھ میں مہنگے برانڈ کا بریف کیس تھا۔ سوٹ کے فیبرک کی بُنت بتا رہی تھی کہ ٹاپ کلاس ہے۔ قمیضکا کالر ماڈرن تھا۔ ٹائی سلکی تھی۔ جوتے چمکدارمجھے روکا تو میں ٹھٹھک گیایا اللہاب اتنے خوش لباس افراد بھی گدا گری پراتر آئے ہیںیا گداگروں نے نیا بھیس بدلا ہے۔ مگر جب اس نے وہ بات کی جس کے لیے مجھے روکا تھا تو اپنی بدگمانی پر رنج ہوا۔ یہتو قصہ ہی اور نکلا!
یہ شریف‘ کھاتا پیتا‘ ادھیڑ عمر شخص گدا گر تھا نہ نوسربازیہ ایک تعلیم یافتہ بزنس مین تھا۔ اس کا اچھا خاصا کاروبار تھا۔کراچی کی مڈل کلاس میں جانا پہچانا نام تھا۔ دو دن کے لیے وفاقی دارالحکومت میں اپنے کسی کام کے لیے آیا تھا۔سفر کی وجہ سےاسے پروردگار نے اجازت دی تھی کہ روزہ نہ رکھے اور بعد میں اپنے گھر جا کر اس کی تلافی کرے۔ ('' پھر جو کوئی تم میں سےبیمار یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کر لے‘‘)۔ وزارتِ تجارت میں اجلاس اٹینڈ کر کے یہ باہر نکلا تو اس کی طبیعتخراب ہو رہی تھی۔ سر درد سے پھٹا جا رہا تھا۔ اسے اس درد کا مداوا معلوم تھا۔ ایک پیالی‘ صرف ایک پیالی چائے کیاور یہ ایکپیالی چائے کی پورے شہر میں عنقا تھیکوئی ریستوران کھلا تھا نہ ڈھاباایک بیکری کھلی تھی۔ وہاں سے اس نے ڈبل روٹیخریدی اور چائے کا پوچھا تو جواب ملا کہ چائے کہیں بھی نہیں ملے گیمیں ایک فارمیسی سے باہر نکل رہا تھا۔ اس نے مجھےدیکھا تو ایک شریف آدمی سمجھا۔ یہ بھی المیہ ہے کہ میں شکل سے اور لباس سے اور چال ڈھال سے معقول اور معتبر لگتا ہوںکہنے لگا کہ اسے چائے کا ایک کپ چاہیے۔ میں نے اسے بتایا کہ چائے اس وقت صرف میرے گھر ہی میں مل سکتی ہے۔ اسے گاڑیمیں بٹھایا‘ گھر لایا اور بیٹھک میں بٹھایا۔ دو پیالیاں تیز چائے کی اس نے پیں۔ میں نے اسے کہا کہ صوفے پر لیٹ جائے۔میں باہر نکلگیا۔ ایک گھنٹے بعد وہ تازہ دم اور ہشاش بشاش تھاکراچی کی مرطوب آب و ہوا میں رہنے والوں کے لیے چائے آبِ حیات سے کمنہیںیوں بھی ہم میں سے ہر شخص کو تھکاوٹ میں چائے کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں نے اسے کھانے کی پیشکش کی تو کہنے لگا کہوہ گھر سے سینڈوچ بنوا کر لایا ہے۔ مسئلہ صرف چائے کا تھا!
کیا اس ملک میں ہمیشہ سے یہی صورتحال تھی؟ کیا رمضان میں مریض‘ مسافر اور بوڑھے ہمیشہ اسی طرح ذلیل و خوار ہوتے تھے؟نہیںہمیشہ ایسا نہیں تھاوہ زمانہ بھی تھا جب ریستورانوں کے دروازوں پر پردے لگے ہوتے تھے۔ مسافر‘ مریض‘ بوڑھے اور غیرمسلم ریستورانوں میں کھانا کھاتے تھے۔ چائے پیتے تھےپھر ایک مردِ مومن آیا جس نے پاکستان کو ایک وسیع قید خانے میں بدل دیا۔اب یہ پاکستان‘ پاکستان نہیں تھا‘ اذیت اور عقوبت کا گھر تھااسلام کے نام پر ایسے ایسے قوانین نافذ کیے جن کا وجود باقی پچپنمسلمان ملکوں میں سے کسی ایک ملک میں بھی نہ تھایہ تبدیلی اس کے بعد رونما ہوئی کہ رمضان میں‘ دن کے وقت‘ کوئیریستوران‘ کوئی ڈھابا‘ کوئی چائے خانہ کھلا نہیں ملتا۔
سوال یہ ہے کہ جب شریعت نے مریض کو اور مسافر کو اور بوڑھے کو روزہ چھوڑنے کی اجازت دی ہے تو کو ئی حکمران‘ کوئیکوتوال‘ کوئی تھانیدار‘ کوئی ڈپٹی کمشنر‘ کوئی عالمِ دین اسے روزہ رکھنے پر کیسے مجبور کر سکتا ہے؟ کیا ایک مسلمان حکومت کافرض نہیں کہ مریضوں‘ بوڑھوں اور مسافروں کے کھانے پینے کا انتظام کرے؟ ایک مریض‘ ایک بوڑھا جو گھر میں اکیلا رہتا ہے‘ اورتین وقت کا کھانا محلے کے ریستوران سے یا ڈھابے سے کھاتا ہے‘ رمضان کے دوران کیا کرے ؟ کوئٹے سے یا کراچی سے یا دبئی سےآیا ہوا مسافر کھانا کہاں سے کھائے؟ شوگر کا مریض کیا کرے؟ مر جائے؟ خود کُشی کر لے؟ کتنے ہی لوگ معذور ہیں جنہیں دیندارڈاکٹروں نے روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی ہوئی ہے۔ گردے کے مریض کے لیے پانی پینا اشد ضروری ہے۔ جس مرد یا عورت کے گردےصرف چالیس یا پچاس فیصد کام کر رہے ہیں‘ وہ کیسے روزہ رکھے ؟ یہ کون سی شریعت ہے جس میں لوگوں کو مرنے کے لیے چھوڑدیا گیا ہے؟ کتنے ہی بوڑھے ہیں جنہیں ان کے نافرمان بیٹوں اور بد بخت بہوؤں نے گھر سے نکالا ہوا ہے۔ کچھ کے پاس تو کچن تکنہیں۔ بس ایک کمرے میں گزارہ کر رہے ہیں۔ محلے کے ڈھابے سے کھانا کھا کر زندگی کا قرض چُکا رہے ہیں۔ ان کی حالت ایسی ہےکہ روزہ رکھنے کا سوچ بھی نہیں سکتےان کا کیا بنے گا؟ اس ملک میں مسیحی بھی بستے ہیں‘ ہندو بھی اور سکھ بھییہ درستہے کہ انہیں سب کے سامنے‘ سرِ بازار‘ کچھ نہیں کھانا پینا چاہیے اور رمضان کا احترام کرنا چاہیے مگر ریستوران کے اندر‘ پردے کےپیچھے‘ انہیں خورو نوش سے روکنے کا حق ریاست کو کس قانون نے دیا ہے ؟ دبئی‘ مصر اور ترکی بھی مسلمان ممالک ہیںیہ سطورلکھتے وقت ان ممالک میں رہنے والے دوستوں سے رابطہ کر کے پوچھا گیا ہے۔ریاست کی طرف سے ریستوران کھولنے پر کوئی پابندینہیں۔ علاقے پر منحصر ہے۔ گاہک کم ہیں یا نہیں ہیں تو مالک بند رکھے گا وگرنہ نہیں!اکثر ریستوران کھلے ملتے ہیں۔ کسی مریض‘ بوڑھے‘ مسافر یا غیر مسلم کو دقت پیش نہیں آتی!
گھروں کے اندر بھی بیمار قسم کی نفسیات در آگئی ہے۔ جائز وجوہ کی بنا پر روزہ نہ رکھنے والا بھی اپنے آپ کو مجرم سمجھتا ہے۔بہت سے بیمار اور بوڑھے قران پاک کی عطا کردہ اس اجازت کو‘ جو خدا کی نعمت ہے‘ قبول کرنے میں متامّل ہیں۔ ڈاکٹروں اور بچوںکے منع کرنے کے باوجود روزہ رکھتے ہیں اور اس طرح خود ہی اپنی بیماری اور ضعف میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ ایّام کے دورانخواتین گھر کے کونوں کھدروں میں چھپ کرکھانا کھاتی ہیں جیسے چور ہیں یا مجرم!! کیا سفر کے دوران قصر نماز پڑھنے سے بھیایسا ہی احساسِ جرم لاحق ہوتا ہے ؟ کیا ہم سفر کے دوران قصر کی نماز دوسروں سے چھپا کر پڑھتے ہیں؟ آخر دونوں رعایتیں ایکہی کتابِ ہدایت میں دی گئی ہیں!!
ویسے منافقت کی انتہا ہے۔ رمضان آتے ہی ناجائز منافع خوری آخری حدوں کو چھونے لگتی ہے۔ بازار میں ہر شے کو آگ لگ جاتیہے۔ جھوٹ‘ عہد شکنی‘ غیبت‘ قطع رحمی‘ تکبّر‘ حسد‘ بُخل‘ سازش‘ حُبِّ جاہ‘ حُبِّ مال روزہ رکھ کر بھی نہیں چھوٹتے۔ مگر اس باتکا اہتمام شد ومد سے کیا جاتا ہے کہ مسافر‘ بیمار‘ بوڑھے اور غیر مسلم کا پانی بھی بند کر دیا جائے اور روٹی بھیستم یہ ہے کہاس دوغلے پن کا احساس تک نہیں۔ہم کب اپنے رویوں پر نادم ہوں گے؟ کب معافی مانگیں گے؟ کچھ دن ہوئے اعتبار ساجد کی غزلپڑھی اور دل دُکھ سے بھر گیا۔ چار اشعار آپ بھی سنیے :


میں جن کے دُکھ بٹا نہ سکا‘ اُن سے معذرت
میں جن کے کام آ نہ سکا‘ اُن سے معذرت
بیمار جن کو تھی مری آمد کی آرزو
میں اُن کے پاس جا نہ سکا‘ اُن سے معذرت
نادم ہوں جن کے کام‘ یہ کاندھے نہ آ سکے
جو میّتیں اُٹھا نہ سکا‘ اُن سے معذرت
مجھ سے ملے بغیر‘ جہاں سے چلے گئے
جن کو گلے لگا نہ سکا‘ اُن سے معذرت 







 

powered by worldwanders.com