Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, February 27, 2023

ایک بدبختی جس کے خاتمے کا بظاہر کوئی امکان نہیں


قبیلے کا یہ لڑکا کسی طرح کراچی پہنچ گیا۔ جوں توں کر کے دس بارہ جماعتیں پاس کر لیں! واپس قبیلے میں پہنچا۔ قبائلی لڑکے کا اتنا پڑھ لکھ جانا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ باپ نے اظہارِ مسرت کیلئے بیٹے کو ساتھ لیا اور سردار سے ملاقات کرانے لے گیا۔ سردار نے نوٹ کیا کہ لڑکے نے اُجلا لباس پہنا ہوا ہے۔ پگڑی نہیں باندھی ہوئی۔ بالوں میں کنگھی کی ہو ئی ہے۔ خطرے کی گھنٹی سردار کے کانوں میں بجی۔لڑکے کو ایک دو دن بعد پکڑ لیا گیا۔ اس کے جسم پر گڑ کی مالش کی گئی۔ پھر اسے چیونٹیوں سے بھری غار میں پھینک دیا گیا۔
بلوچستان کا یہ سچا واقعہ‘عرصہ ہوا‘ ایک بلوچی ادیب نے سنایا تھا۔ سردار نے نئی بندوق کو ٹیسٹ کرنا ہو تو کسی پر بھی گولی چلا کر ٹیسٹ کر سکتا ہے۔سردار چور کو پکڑنے کیلئے مشکوک افراد کو جلتے انگاروں پر چلواتا ہے۔ سردار خود انگاروں پر کبھی نہیں چلتا۔ کچھ سال پہلے لاہور میں ایک بلوچی سردار سے‘ پریس کانفرنس کے دوران‘ جلتے کوئلوں پر چلانے کے بارے میں سوال کیا گیا تو اس کا جواب تھا کہ یہ ہماری روایت ہے۔ اس پس منظر میں حالیہ واقعے کو دیکھیے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے! نجی جیل میں بے گناہ‘ غریب افراد کو بند کر کے رکھا گیا۔ عورت نے قرآن پاک ہاتھ میں پکڑ کر دہائی دی۔ بچوں تک کو قتل کیا گیا۔ لاشیں کنویں سے نکالی گئیں۔ قتل کرنے سے پہلے مقتولہ لڑکی کی آبرو ریزی کی گئی تھی۔ جن سردار صاحب پر اس کا الزام لگا وہ خیر سے صوبائی کابینہ کے رکن ہیں ! اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ انہیں سزا ملے گی تو وہ احمقوں کی جنت میں رہ رہا ہے۔ ٹریفک پولیس کا جو اہلکار کوئٹہ کے ایک چوراہے پر‘ ایک سردار صاحب کی گاڑی کے نیچے آکر‘ دن دہاڑے کچلا گیا تھا‘ اس میں کون سا انصاف ہوا تھا؟ مقتول ریاست کا نمائندہ تھا اور سرکاری ڈیوٹی سرانجام دے رہا تھا۔ریاست نے اس کے قاتل کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کیلئے کیا کیا؟ اور ناظم جوکھیو قتل کیس تو حال ہی کی بات ہے۔ابھی تو بہایا گیا خون سوکھا بھی نہیں! کراچی سے لاہور تک لاتعداد ایسی مثالیں ہیں۔ لاہور میں دسویں جماعت کا طالب علم زین مارا گیا تھا۔ اس کا خون بھی رزقِ خاک ہوا!
یہ مسئلہ صرف ایک سردار کا نہیں‘ نہ صرف تین مقتولوں کا ہے ! مسئلہ یہ ہے کہ جو سرداری سسٹم بلوچستان میں رائج ہے اور جو جاگیردارانہ نظام جنوبی پنجاب میں اور اندرونِ سندھ قائم ہے‘ کیا اس کی مثال افریقہ کے تاریک براعظم کو چھوڑ کر کہیں ملتی ہے؟ ہو سکتا ہے۔ بھارت میں زرعی اصلاحات‘ تقسیم کے چار سال بعد ہی‘ ظہور پذیر ہو کر نافذ بھی ہو گئیں! پاکستان میں وہی نظام چل رہا ہے جو انگریز آقا چھوڑ کر گئے۔ قائد اعظم زندہ رہتے تو شاید اس ایشو سے نمٹتے مگر ان کی رحلت کے بعد حکمرانوں کی ترجیحات یکسر بدل گئیں۔ تفصیل میں جانے کا موقع نہیں‘ بس اتنا کافی ہے کہ ان ترجیحات کو دیکھ کر جوگندر ناتھ منڈل جیسا شخص پاکستان چھوڑ کر چلاگیا جسے قائد اعظم نے پاکستان کا پہلا وزیر قانون مقرر کیا تھا۔قائد اعظم کے بعد صرف دو حکمران ایسے گزرے ہیں جو بہادر تھے اور سرداری سسٹم اور جاگیردارانہ نظام ختم کر سکتے تھے۔ ایک ذوالفقار علی بھٹو تھے جو بہادر تھے اور نڈر! مگر المیہ یہ تھا کہ وہ خود جاگیردار تھے اور مزاج بھی وہی پایا تھا۔ ان کے ساتھ معراج محمد خان اور ڈاکٹر مبشر جیسے افراد تھے مگر کم تعداد میں ! اکثریت ان کے ساتھ جاگیرداروں کی تھی۔زرعی اصلاحات کا خاکہ بن سکا نہ اس میں رنگ بھرا گیا!دوسرا حکمران جو یہ بھاری پتھر اٹھا سکتا تھا‘ عمران خان تھا۔ وہ بھی بہادر اور بے خوف تھا مگر اس کے دور ِحکومت کو تین عوامل نے ناکام اور ناکارہ بنا کر رکھ دیا۔ایک تو اس کا وژن ہی نہ تھا کہ اتنے سنجیدہ مسائل کے حوالے سے کوئی رائے رکھتا نہ کبھی اس نے ان کے بارے میں اظہارِخیال کیا۔ دوسرے‘ سخت منتقم مزاج ہونے کی وجہ سے اس کے سامنے سب سے بڑا مقصد اپوزیشن کو ختم کرنا تھا۔ تیسرے‘ اس نے اپنی ٹیم میں انہیں آزمائے ہوئے سیاستدانوں کو شامل کر لیا جو جاگیردار تھے‘ زمیندار تھے‘ طالع آزما اور ابن الوقت تھے۔زرعی اصلاحات کا وہ سوچ بھی نہ سکتے تھے اور سرداری نظام ان کا محافظ تھا۔
اس وقت جو ملک کی صورتحال ہے‘ اس میں اس قبیل کی اصلاحات کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ بلوچستان میں سرداری نظام کس قدر مضبوط ہے‘ اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگائیے کہ پچھتر سالوں میں بلوچستان کو صرف ایک ایسا وزیر اعلیٰ نصیب ہوا جو سردار نہیں تھا۔ المیے کی انتہا یہ ہے کہ صوبے کے پڑھے لکھے لوگ بھی قبائلی نظام کے طرفدار ہیں۔ پیدائش کے دن ہی سے ان کے لاشعور میں یہ بات ڈال دی جاتی ہے کہ قبیلے کا سردار‘ صرف سردار ہی نہیں‘ قبیلے کے عام لوگوں کا مائی باپ بھی ہے۔ اس کا حکم ماننا لازم ہے اور یہ کہ اسے یہ حق حاصل ہے۔ اس حقیقت کا خود مجھے دوبار تجربہ ہو چکا ہے۔ وفاقی دارالحکومت کی ایک یونیورسٹی میں گفتگو کیلئے بلایا گیا۔ (اس گفتگو کو لیکچر بھی کہا جا سکتا ہے) کلاس روم میں بیٹھے ہوئے حاضرین‘ بلوچستان کی مختلف یونیورسٹیوں کے اساتذہ تھے! یعنی اعلیٰ تعلیم یافتہ ! مگر گفتگو کے درمیان جب جلتے انگاروں پر چلائے جانے کی رسم کا ذکر ہوا اور یہ بات کہی گئی کہ پریس کانفرنس میں ایک قبائلی سردار نے اس ظالمانہ اور غیر انسانی ظلم کا دفاع کیا ہے تو حاضرین میں سے کچھ بلند آوازوں نے احتجاج کیا۔ ان کا مؤقف واضح تھا کہ وہ قبائلی سردار کے خلاف کوئی بات نہیں سُن سکتے! دوسرا واقعہ بھی اتنا ہی افسوسناک اور اتنا ہی عبرتناک ہے! ٹیلی وژن کے ایک ٹاک شو میں میں نے قبائلی سرداری سسٹم کے خلاف بات کی تو ایک پروفیسر صاحب نے اس سسٹم کا پورا پورا دفاع کیا۔یہ بات حیران کن تھی اور پریشان کن بھی!
بلوچستان کا سرداری سسٹم‘ ایک متوازی حکومت کا نام ہے! وفاقی حکومت ہے یا صوبائی‘ سرداری نظام کے سامنے بے بس ہے اور اپاہج! وفاق میں بیٹھی ہوئی سیاسی جماعتیں (کیا حکومت اور کیا اپوزیشن) ان سرداروں کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتی ہیں! یہ مقاصد کیا ہیں ؟ صوبائی حکومت کو توڑنا یا بنانا!! سیاسی جوڑ توڑ میں ہر سیاسی جماعت ان سرداروں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے بے تاب ہوتی ہے۔ کبھی ان کی خوشامد کرتی ہے کبھی انہیں بلیک میل کرتی ہے۔ کبھی ان سرداروں کو آپس میں لڑاتی ہے! اس پس منظرمیں‘ سرداری سسٹم کے خاتمے کا سوچنا‘ ایک خواب دیکھنے سے زیادہ کچھ نہیں! ایک بلوچی سردار‘ بیک وقت‘ کئی حیثیتوں کا مالک ہوتا ہے!اول‘ وہ قبیلے کے ہر رکن کی زندگی اورموت کا مالک ہے۔ عام قبائلی کے نجی معاملات بھی وہی طے کرتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے بچوں کی شادیوں کے سلسلے میں بھی مداخلت کر سکتا ہے! دوم‘وہ ان تمام زمینوں کا مالک ہے جو اس قبیلے کی جغرافیائی حدود میں واقع ہیں۔ ان زمینوں سے نکلی ہوئی معدنیات کی رائلٹی بھی وہی لیتا ہے۔ وہ چاہے تو بجلی کے کھمبے لگنے دے‘ نہ چاہے تو نہ لگنے دے! سوم‘ وہ صوبائی یا وفاقی اسمبلی کا‘ یا سینیٹ کا رکن بھی ہوتا ہے۔چہارم‘اکثرو بیشتر حالات میں وہ وزارت سے بھی متمتع ہو رہا ہوتا ہے۔ مشکل ترین کام ایک عام قبائلی کو اس امر کا قائل کرنا ہے کہ سردار ناگزیر نہیں اور یہ کہ وہ ووٹ اپنی مرضی سے جسے چاہے دے سکتا ہے۔

Thursday, February 23, 2023

سمندر‘ جزیرے اور جدائیاں


''آپ تایا کے گھر نہ جائیں۔ وہ سب بھی یہیں آجایا کریں‘‘۔تیمور نے میرے گلے میں بانہیں ڈال کر کہا۔ اس کا چھوٹا بھائی سالارمیری گود میں لیٹ گیا۔'' آپ نے مجھے کہانی بھی تو سنانا ہوتی ہے‘‘۔
بہت دن ان لوگوں کے گھر رہنے کے بعد اب ہمیں اتنے ہی دنوں کے لیے حمزہ اور زہرہ کے ہاں جانا تھا۔ وہاں پہنچے تو حمزہ کہنے لگا'' آپ چاچا جی کے گھر زیادہ دن رہتے ہیں اور ہمارے ہاں کم!‘‘ اسے یقین دلایا کہ ایسی بات نہیں۔اتنے ہی دن اُدھر رہتے ہیں جتنےدن اِدھرہفتہ اور اتوار کے دن‘ بہر حال‘ دونوں گھرانے اکٹھے ہی ہو جاتے ہیں۔ دادا دادی جس گھر میں بھی ہوں‘ چھٹی کے دن سبوہیں ہوتے ہیں۔ دونوں گھروں کے درمیان پینتالیس منٹ کا فاصلہ ہے۔ہفتہ اور اتوار خوب ہنگامہ رہتا ہے۔ کھانا سمندر کے کنارے کھایاجاتا ہے۔ چچا زاد اور تایازاد بچے اپنی دنیا بسا لیتے ہیں۔ اتوار کی شام ڈھلتی ہے تو دونوں میں سے ایک فیملی اپنے گھر روانہ ہوتیہے کہ پیر کی صبح کارو بارِ دنیا پھر سے آغاز ہونا ہوتا ہے۔ ایک شام‘ جب حمزہ اور اس کے ابا امی اور بہن بھائی چلے گئے تو سالارسسکیاں لیتا ہوا مجھ سے لپٹ گیا۔ پوچھا کہ کیا بات ہے تو کہنے لگا '' حمزہ بھائی یاد آرہے ہیں۔ آخر وہ سب ہمارے گھر کیوں نہیںرہتے؟‘‘


 واپسی کے دن قریب آرہے ہیں۔؎


جدائیوں کے زمانے پھر آگئے شاید
کہ دل ابھی سے کسی کو صدائیں دیتا ہے


تیمور کی سوئی ایک ہی جگہ اٹکی ہوئی ہے کہ آپ ایک مہینہ اور رُک جائیں۔اپنی طرف سے اُس نے بہت بڑی پیشکش بھی کر دی کہبہت سے چپس لے کر دے گا۔ جب بھی واپسی کا ذکر ہو‘ رونا شروع کر دیتا ہے۔ یوں لگتا ہے‘ آنسو ہر وقت تیار رکھتا ہےکمال کیمصوری کرتا ہے اور اتنے ہی شاندار‘ اپنی بنائی ہوئی تصویروں کے نام رکھتا ہے۔ جیسےOld Guitarist ''بوڑھا موسیقار‘‘Lonely islander''جزیرے کا اکیلا باشندہ‘‘۔ کچھ تصویریں اس سے لے لی ہیں کہ جا کر فریم کرا لی جائیںپانچ سالہ سالارذرا جارحانہمزاج رکھتا ہے۔ کچھ کر رہا ہو اور بلایا جائے تو کہہ دیتا ہے '' بِزی ہوں‘ ابھی نہیں آ سکتا!‘‘ مگر رات کو میرے بغیر سوتا نہیں۔سونے سے پہلے کہانی اس کے لیے نشہ بن گئی ہے۔ پاس نہ ہو تو آن لائن کہانی سنتا ہے۔ پاکستان میں ہوتا ہوں تو ٹھیک دن کے تینبجے فون کی سکرین پر دونوں بھائی نمودار ہوتے ہیں۔اُس وقت اُن کے ہاں رات کے نو بج رہے ہوتے ہیں! ''ہم بستر پر ہیں۔ اب آپ سےکہانی سنیں گے۔ پھر سوئیں گے‘‘۔
جوں جوں وقت گزر رہا ہے‘ دنیا طلسم خانہ بنتی جا رہی ہے۔ ہماری دادی اور نانی گاؤں میں ہوتی تھیں۔ ہم پنڈی گھیب میںوڈیو کالکیا‘ فون بھی نہیں تھاانتظار کرتے تھے کہ کب سکول سے چھٹیاں ملیں گی اور کب گاؤں جائیں گےگاؤں میں میمنے ہوتے تھے اوربھیڑوں کے سفید بچےبیر تھے اور خربوزے‘ موٹھ کی پھلیاں تھیں اور باجرے کے سِٹےسیروں کے حساب سے دودھدہی اور مکھنتھا ! کھیت تھے اور گندم‘ جوار‘ مکئی اور سرسوں کی فصلیںشام کو واپس آتے ریوڑ تھے اور جانوروں کے گلوں میں بجتی گھنٹیاںہر ریوڑ کے پیچھے ایک کتا ہوتا تھاچرواہے کے ساتھ چلتا ! کیکر کے پیلے رنگ کے اور دھریک کے کاسنی رنگ کے پھول تھے۔صحنوں میں انجیر‘ لسوڑے اور انار کے درخت تھے اور ریحان ( نیاز بوکی خوشبواب دنیا ہی اور ہے۔ بچے ننھیال اور دھدیال جاتےہیں یا آتے ہیں‘ تو بس ایک شہر سے نکل کر دوسرے شہر میں آجاتے ہیںوہی فاسٹ فوڈوہی چپسوہی چاکلیٹیںوہی فن سٹیوہی گاڑیاں‘ وہی جہازوہی ٹی وی وہی کارٹوناب وہ دادا یا نانا کو ہٹی پر نہیں لے کر جاتے جہاں سے بٹنگیاں‘ سنگتریاں‘ مکھانے‘ نُگد ی‘ ریوڑیاں اور بتاشے لے کر دیے جاتے تھے۔اب گھر وں میں گٹھوں کے حساب سے گنّے بھی نہیں آتے ! ہاں یاد آیا ابگنڈیریاں بھی معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔ ہم نے تو آٹھ آنے سیر لے کر کھائیں اور خوب کھائیںاب بچے دادا اور نانا کو میکڈانلڈ‘ پِزا ہَٹاور کے ایف سی لے کر جاتے ہیںاب چھ چھ سال کے بچوں کو گاڑیوں کے نام اور برانڈ معلوم ہیںاور بڑوں کو کمپیوٹر اور موبائلفون کے استعمال سکھاتے ہیںاقبال نے کہا تھا جوانوں کو پیروں کا استاد کر۔ جوان نہیں‘ اب تو بچے بوڑھوں کے استاد ہیںوالدِگرامی حیات تھے تو ایران سے بہت سے رسالے اور جریدے گھر میں آتے تھے۔ انہی میں سے ایک رسالے میں کارٹون دیکھا جو بھولتانہیں۔ اس کارٹون کے تین حصے تھے۔ پہلے حصے میں ایک بوڑھا‘ ایک بچے کے ساتھ شطرنج کھیل رہا ہے۔ دوسرے حصے میں بچہجیت جاتا ہے اور بوڑھا ہار جاتا ہے۔ تیسرے حصے میں بوڑھا بچے کی پٹائی کر رہا ہوتا ہے ! مجھے فون پر آواز کا میسج ریکارڈ کرنےکی آسان ترکیب بارہ سالہ حمزہ نے سکھائی اور کمپیوٹر پر میرا بہت سا کام میری نواسی زینب کر کے دیتی ہے!
وصال اور فراق کے تلازمے بدل گئے ہیںجدید سہولتوں اور ایجادات نے جدائی کی شدت کم کرنے کی کوشش کی ہےبچے کراچی میںہیں یا لاہور میں‘ یا لندن میں یا نیویارک میں‘ ہر روز ان سے بات چیت ہو سکتی ہے‘ بلکہ دن رات میں کئی بارسامنے متحرک تصویربھی ہوتی ہےمیرے استاد‘ جناب ڈاکٹر ظہیر فتحپوری نے کہا تھا ؎


تنہا نہ کہو‘ ہیں ساتھ بچھڑنے والے
جیسے حائل دیوار نہ ہو‘ پردہ ہو!


پہلے جب فون تھا نہ انٹرنیٹ‘ درمیان میں پتھروں سے بنی دیوار حائل تھیتب جدا ہونے والا اپنی تصویر دے جاتا تھا۔ ؎

 
ہٹی توں لَے سردا
فوٹو تے میں دے جاساں
فوٹو گلّاں تے نہیں کردا


احمد فراز نے اسی مضمون کو اردو میں ادا کیا :؎


جس طرح بادل کا سایا پیاس بھڑکاتا رہے
میں نے یہ عالم بھی دیکھا ہے تری تصویر کا


اب دیوار کی جگہ پردہ حائل ہےدیکھ سکتے ہیں‘ بات کر سکتے ہیں‘ مگر چھو نہیں سکتےباپ بیٹے کو اور دادا پوتے کو سینے سےنہیں لگا سکتا ! ؎


دل تو بیٹے کی جدائی میں بھی صحرا ہے‘ مگر
ہجر پوتے کا نہ پوچھو‘ ہے بگولا کیسا


یہ بڑے بڑے ہوائی جہاز دراصل عظیم الجثہ وہیل مچھلیاں ہیں جو ہمارے پیاروں کو ہڑپ کر کے‘ فضاؤں میں تیرتی‘ دور چلی جاتی ہیںاور سمندر کے دوسرے کنارے جا کر انہیں باہر اگل دیتی ہیں۔ عمریں یوں بیتتی ہیں کہ درمیان میں سمندر ہوتے ہیں۔دور‘ بہت دور‘ خشکی کے کسی ٹکڑے میں ماں باپ انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ بخت یاوری کرے تو تدفین کے وقت پہنچ جاتے ہیں ورنہ مرنے والے بھیحسرت میں مرتے ہیں اور جینے والے بھی حسرت میں جیتے ہیں۔ زندگی جدائی اور ملاپ کا کھیل ہےپانیوں کے ساتھ جزیرے لگے ہیںاور جزیرے سمندروں سے گلے ملتے دکھائی دیتے ہیںوقت نے بڑے بڑے پلٹے کھائے۔پہلے سفر کاروانوں کی شکل میں ہوتے تھے۔صحرائے گوبی سے لے کر نیل کے کناروں تک قافلے چلتے تھےپھر بحری جہازوں کا دور آیا۔چین سے خلقِ خدا جاوا‘ ملایا اور سماٹراکے جزیروں میں جا پہنچی اور یورپ سے‘ بحر اوقیانوس عبور کرتی‘ شمالی اور جنوبی امریکہ میں جا اتری۔ اب ہوائی جہازوں کازمانہ ہے۔ مگر ایک سلسلہ‘ جو سب زمانوں میں زندہ رہا اور جس کا زور کبھی نہ ٹوٹا‘ فراق اور وصال کا سلسلہ ہےرخصتی کا درد‘ انتظار کی کسک اور ملاقات کی خوشی تب بھی رلاتی اور ہنساتی تھی ! آج بھی رلاتی اور ہنساتی ہے!

بشکریہ روزنامہ دنیا




Tuesday, February 21, 2023

جتنا جلد سمجھ لیں‘ بہتر ہے

!

مراعات یافتہ طبقے اور عوام کے درمیان ہمیشہ فاصلے رہے ہیں!�یہ فاصلے کئی حوالوں سے قائم و دائم ہیں! آپ کسی جگہ چائے پینا چاہتے ہیں۔مگر معلوم ہوتا ہے کہ نہیں پی سکتے! آپ بچے کو کسی تعلیمی ادارے میں داخل کرانا چاہتے ہیں مگر نہیں کرا سکتے۔ اور اگر کرانے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو آپ کو فیس‘ مراعات یافتہ طبقے کی نسبت‘ زیادہ ادا کرنا پڑے گی! آپ ہوائی جہاز میں سفر کرنا چاہتے ہیں تو آپ کا ٹکٹ پورا ہو گا جبکہ مراعات یافتہ طبقے کے لیے اس پر ڈسکاؤنٹ ہو گا! آپ کی گاڑی پر عام نمبر پلیٹ ہو گی مگر آگے جانے والی گاڑی کی نمبر پلیٹ پر ''ایم این اے‘‘ لکھا ہو گا یا کوئی اور مخصوص نشان بنا ہو گا۔ وہ گاڑی ٹول پلازا سے زُوں کر کے گزر جائے گی۔ آپ کو رُک کر ٹول ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔آپ جہاز سے اُتر کر‘ پاسپورٹ ہاتھ میں لیے قطار میں کھڑے ہوں گے مگر ایک صاحب آئیں گے‘ ان کے ساتھ ایک چست سمارٹ جوان ہو گا۔ ان کے پاسپورٹ پر فوراًٹھپہ لگ جائے گا۔ جتنی دیر میں آپ قطار سے فارغ ہوں گے وہ صاحب گھر پہنچ چکے ہوں گے۔آپ کچن کی عام چھری لے کر گھر سے باہر نکلیں گے تو پچاس بار پوچھ گچھ ہو گی مگر کچھ لوگوں کی گاڑیوں کے آگے پیچھے بڑے بڑے ڈالوں پر بندوق بردار کھڑے ہوں گے۔ کسی کے باپ میں بھی جرأت نہیں کہ انہیں روکے یا ٹوکے! ایک بڑے شہر میں ماضی قریب میں ایک ایسا ہی منظر دیکھا گیا۔ ملک کے ایک معروف‘ سنجیدہ‘ صحافی نے اس پر وی لاگ بھی کیا۔ مراعات یافتہ طبقے کے ایک رکن نے‘ جو کابینہ کے ممبر بھی تھے‘ اپنے خدام اور مسلح محافظوں کو ایک ریستوران سے کھانا لانے کا حکم دیا۔ ان محافظوں اور خدام نے گاڑیاں اس طرح کھڑی کیں کہ ریستوران کے راستے بند ہو گئے اور کافی دیر تک بند رہے۔ عوام کو چکر کاٹ کر‘ دور سے آنا پڑا۔ وی لاگ والی وڈیو وائرل بھی ہوئی مگر‘ ایکشن تو دور کی بات ہے‘ کسی نے چُوں بھی نہیں کی۔ اس سے زیادہ و اضح اور ناقابلِ تردید مثال اس فرق کی اور کیا ہو سکتی ہے جو اونچے طبقے اور عوام کے درمیان روا رکھا جا رہا ہے۔�ایک واقعہ جو میرے ساتھ پیش آیا‘ ناقابلِ فراموش ہے۔ ملازمت کے ابتدائی سال تھے۔ کراچی سے پنڈی آرہا تھا۔ جہاز میں داخل ہو کر مقررہ سیٹ پر پہنچا تو اس پر سردار شوکت حیات خان بیٹھے ہوئے تھے اور ساتھ والے مسافر سے باتیں کر رہے تھے۔جہاز کے عملے کو بتایا کہ یہ میری سیٹ ہے۔ اسے خالی کرا دیجیے۔ عملے کے رکن نے منمناتے ہوئے‘ نحیف سی آواز میں کہا کہ وہاں سردار صاحب تشریف فرما ہیں‘ آپ کو ہم اور سیٹ دے دیتے ہیں۔ عین شباب تھا مگر پھر بھی اتنی سمجھ ضرور تھی کہ اصرار کیا تو سردار صاحب تو اٹھیں گے نہیں‘ ہاں میں نکّو ضرور بن جاؤں گا۔ شاید وہ جہاز چھوٹا تھا یا فرسٹ کلاس اس میں تھی نہیں‘ ورنہ سردار صاحب اکانومی کلاس میں نہ بیٹھے ہوتے۔آپ کا کیا خیال ہے‘ اگر کوئی عام مسافر کسی اور کی سیٹ پر بیٹھا ہوتا تو کیا اس کے ساتھ بھی جہاز کا عملہ اسی طرح پیش آتا؟ پولیس سروس سے تعلق رکھنے والے ایک دوست نے ایک عجیب و غریب واقعہ سنایا۔ کسی اعلیٰ شخصیت نے کسی دوسرے شہر کو جانا تھا۔ جہاز تیار کھڑا تھا۔ ٹکٹ لینے کا وقت نہیں تھا۔ پولیس کو حکم ہوا کہ بورڈنگ کارڈ حاضر کیا جائے۔ یہ نائن الیون سے بہت پہلے کا زمانہ تھا۔اتنی چھان پھٹک نہیں ہوتی تھی۔ اس سے قطع نظر کہ ٹکٹ کس کے نام پر ہے اور بورڈنگ کارڈ پر کس کا نام درج ہے‘ جس کے ہاتھ میں بھی ٹکٹ یا بورڈنگ کارڈ ہوتا‘ سفر کر لیتا۔ مسافر‘ ہاتھوں میں بورڈنگ کارڈ اٹھائے‘ ڈیپارچر لاؤنج میں تھے۔ کچھ بیٹھے ہوئے‘کچھ کھڑے۔ اچانک ایک آدمی‘ سفید کپڑوں میں ملبوس۔ نمودار ہوا۔ اس نے بجلی کی تیزی سے‘ ایک مسافر کے ہاتھ سے بورڈنگ کارڈ اُچکا‘ اور اتنی ہی برق رفتاری سے یہ جا وہ جا۔ جب مظلوم مسافر اپنے ''ڈاکو‘‘ کی تلاش میں ادھر اُدھر مارا مارا پھر رہا تھا‘ ایک بڑے صاحب‘ اس کا بورڈنگ کارڈ ہاتھ میں لیے‘ جہاز کے اندر داخل ہو چکے تھے۔ اور یہ تو آپ کے ساتھ بھی کئی بار ہوا ہو گا کہ جہاز میں بیٹھے ہیں۔ پیٹی کَس لی ہے۔ جہاز کو اُڑنا چاہیے مگر نہیں اُڑ رہا۔ آدھا گھنٹہ گزر گیا یا اس سے بھی زیادہ۔ تاخیر کی وجہ '' ٹیکنیکل نقص‘‘ بتایا جاتا ہے۔ آپ کو بعد میں ثقہ ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل میں فلاں حاکم‘ یا فلاں وزیر یا سپیکر‘ یااس کی بیگم کا انتظار ہو رہا تھا۔�مراعات یافتہ طبقے کے اس بڑے طائفہ میں کوئی ایک گروہ نہیں‘ بہت سے گروہ شامل ہیں۔ یوں سمجھیے‘ یہ طائفہ ایک سمندر ہے جس میں کئی دریا ملتے ہیں۔سیاست دان‘ ( حکمران اور اپوزیشن دونوں ) اعلیٰ بیورو کریسی( سول اور خاکی دونوں) منتخب اداروں کے ارکان‘ وزیر‘ سفیر‘ امیر‘ بڑے بڑے فیوڈل اور صنعت کار‘ سب مراعات یافتہ طبقے میں شامل ہیں۔ قانون سے ماورا ہیں۔ کوئی ضابطہ‘ کوئی اصول‘ کوئی رُول ان سے نظر نہیں ملا سکتا!�اس طاقتور طبقے اور عوام کے درمیان جو جو فرق ہیں‘ ان میں سے بہت سے ہم بتا چکے ہیں۔ اب ایک اور فرق بھی آن پڑا ہے۔اس طبقے نے گھروں میں شیر ہاتھی‘ چیتے‘ تیندوے اور سانپ پالنے شروع کر دیے ہیں۔ شاید اس لیے کہ عوام کے مقابلے میں مزید ممتاز نظر آئیں! عام آدمی مرغی بھی رکھ لے یا بلی بھی‘ تو بڑی بات ہے۔ آپ اندازہ لگائیے شیر یا ہاتھی کا یا تیندوے کا یا چیتے کا خوراک کا خرچ اور اس کی دیکھ بھال!! عام آدمی اس کا تصور تک نہیں کر سکتا! مگر مراعات یافتہ طبقے کے ارکان اپنی تفریح کے لیے‘ اور اس سے بھی زیادہ‘ اپنی طاقت دکھانے کے لیے ان خونخوار‘ وحشی اور خطرناک جانوروں کو اپنے گھروں میں رکھتے ہیں۔یہ جانور اس طبقے کے لیے طاقت کی علامت ہیں۔ علامت ایک بہت بڑا عامل ہے۔ بادشاہ کے سر پر تاج‘ یا اونچا تخت‘ یا پیچھے کھڑے‘ ننگی تلواریں لیے پہریدار‘ یہ سب ہیبت اور قوت کی علامتیں ہیں۔ ایک صدر یا وزیر اعظم کے پیچھے بیٹھے ہوئے‘ آرمی یا نیوی یا فضائیہ کی وردی پہنے‘ اے ڈی سی‘ اس امر کی علامت ہیں کہ صدر یا وزیر اعظم مسلح افواج کا باس ہے۔ پالتو شیر یا چیتا اس بات کی علامت ہے کہ اس کا مالک ایک طاقتور اور زورمند ہستی ہے۔ یہ ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کا بھی پتا دیتا ہے۔�قانون اس باب میں کیا کہتا ہے؟ کیا خطرناک اور خونخوار جانور آبادی کے درمیان رکھا جا سکتا ہے؟ اگر یہ جانور کسی کو ہلاک یا زخمی کر دے تو کیا مالک ذمہ دار ہو گا؟ یہ سوال اہم نہیں! اس لیے کہ قانون عام آدمی کے لیے ہے۔ خواص کے سامنے قانون کی حیثیت وہی ہے جو شیر کے سامنے ہرن یا بکری کی ہے! قانون ایک قالین ہے! خوبصورت قالین! جس کے اوپر مراعات یافتہ طبقے کے ارکان جوتے پہن کر چلتے ہیں!پالتو چیتا یا شیر یا ہاتھی کسی ذی نفس کو زخمی کر دے یا ہلاک! تو یہ تو تقدیر میں لکھا تھا! پالنے والے کا کیا قصور!! یوں بھی ہمارا قومی رویّہ ''مٹی پاؤ‘‘ والا ہے۔�اس ملک میں مراعات یافتہ طبقے اور عوام میں بہت بڑی خلیج حائل ہے۔ اس خلیج کے ختم یا کم ہونے کا مستقبل قریب میں کیا‘ مستقبل بعید میں بھی کوئی امکان نہیں! اس حقیقت کو میں اور آپ جتنا جلدی سمجھ لیں اور سمجھ کر جتنا جلدی ہضم کر لیں‘ ہمارے لیے بہتر ہے!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, February 20, 2023

گلے میں آویزاں بورڈ


وہ یہیں پیدا ہوا۔ اس کا باپ بھی اسی دھرتی کا بیٹا تھا۔ ماں بھی اسی مٹی سے اٹھی تھی! سینکڑوں ہزاروں برس سے یہ لوگ اسی زمین کی اولاد تھے۔ ایسا بھی نہیں کہ وہ فاتر العقل تھے یا ان کے خاندان میں کوئی ذہنی یا جسمانی نقص نسل در نسل چلا آرہا تھا۔ یہ ذہنی اور جسمانی طور پر صحت مند‘ چست‘ فِٹ اور ذہین لوگ تھے۔ یہ اَن پڑھ بھی نہیں تھے۔ پشت در پشت پڑھے لکھے چلے آرہے تھے۔ خوش لباس تھے۔ خوش وضع تھے۔ سوشل تھے۔ ملنسار تھے۔ علاقے 
۰میں ان کی عزت ان کے باپ دادا کے زمانے سے چلی آرہی تھی۔ دیانت دار تھے۔ لین دین میں ‘ داد و ستد میں‘ کھرے اور قابل ِاعتبار تھے۔ اچھی شہرت کے مالک تھے۔ ملک کے بھی وفادار تھے۔ان کی جبیں پر بے وفائی کا کوئی داغ نہیں تھا!
سب کچھ ٹھیک تھا! مگر ایک مسئلہ تھا۔وہ یہ کہ ان میں سے ہر ایک کے گلے میں ایک بورڈ آویزاں تھا۔ وہ جہاں جاتے یہ بورڈ ساتھ ہوتا۔ گھر میں‘ بستر پر ‘ باتھ روم میں ‘ کلاس روم میں ‘ بازار میں‘ دفتر میں ‘ گلی محلے میں‘ سفر میں‘ قیام میں ‘ عدالت میں‘ کابینہ میں ‘ عساکر میں‘ سول سروسز میں‘ یہاں تک کہ اسمبلی میں بھی یہ بورڈ ان کے سینے پر لہرا رہا ہوتا۔ یہ اسے اتار نہیں سکتے تھے۔اس بورڈ پر ایک لفظ لکھا تھا۔ جلی حروف میں ! وہ لفظ تھا ''اقلیت‘‘۔ یا فرنگی زبان میں '
Minority‘
۔آپ اس ملک کا انصاف دیکھیے ! جو لوگ گولیوں سے پولیس کو‘ فوجی جوانوں اور افسروں کو‘ نہتے عوام کو ‘ بچوں عورتوں اور بوڑھوں کو دن رات بھون رہے ہیں اور کئی دہائیوں سے بھون رہے ہیں ‘ ان کے گلے میں کوئی بورڈ نہیں لٹکایا جاتا۔ جو سمگلر ہیں‘ ٹیکس چور ہیں‘ ذخیرہ اندوز ہیں ‘ ان کے گلے میں بھی کوئی بورڈ نہیں! جو کروڑوں اربوں اس ملک کے کھا گئے‘ ڈکار تک نہیں مارا‘ لندن میں اور دبئی میں اور نیویارک میں جائدادیں بنا لیں‘ ان کے گلے میں کوئی بورڈ نہیں ! ڈاکوؤں‘ قاتلوں‘ چوروں‘ فریب کاروں اور غنڈوں کے گلے میں کوئی بورڈ نہیں ‘ مگر ایک شریف عورت یا مرد‘ جس نے کوئی جرم نہیں کیا‘ اس کے ماتھے پر ‘ اور اس کے سینے پر اور اس کی پیٹھ پر یہاں جلی حروف میں '' اقلیت ‘‘ لکھا ہوا ہوتا ہے! میں نے یہ خبر ملک کے مؤقر ترین اور سب سے پرانے انگریزی روزنامے میں پڑھی اور دم بخود رہ گیا! لکھا تھا کہ ڈاکٹر ثنا رام چند گلوانی‘ اسسٹنٹ کمشنر تعینات ہو ئی ہیں۔وہ ہندو برادری سے پہلی خاتون ہیں جو پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس میں مقابلے کا امتحان پاس کر کے آئی ہیں! گویا اتنا بتانا کافی نہیں تھا کہ ساتھ ہی دودھ میں مینگنیاں ڈال دیں کہ ان کا تعلق اقلیت سے ہے!
آج مذہب کی بنیاد پر اقلیت کہا جا رہا ہے! یہی رنگ ڈھنگ رہے تو کل مسلک کی بنیاد پر اقلیتیں تخلیق کی جائیں گی! پرسوں زبان کی بنیاد پر! پھر رنگ کی بنیاد پر! اور پھر شاید قد و قامت اور وزن کی بنیاد پر! انور مسعود کے بقول ؛
یہی اندازِ تجارت ہے تو کل کا تاجر
برف کے باٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہو گا
غور کیجیے کہ ایک طرف امریکی ہیں‘ برطانوی ہیں ‘ یورپ‘ جاپان اور آسٹریلیا کے باشندے اور حکومتیں ہیں کہ دوسرے ملکوں سے آنے والوں کو بھی ‘ پناہ لینے والوں کو بھی‘ اقلیت نہیں کہتے حالانکہ اُن کا مذہب‘ رنگ‘ خوراک سب کچھ الگ ہے ‘ ان کی زبان اجنبی ہے! اس کے باوجود وہ اب صرف امریکی کہلاتے ہیں ‘ صرف برطانوی کہلاتے ہیں اور صرف آسٹریلوی کہلاتے ہیں! دوسری طرف ہم ہیں کہ اپنے اُن ہم وطنوں کو اقلیت کہتے اور سمجھتے ہیں جو صدیوں سے یہاں رہ رہے ہیں‘ جن کی زبان وہی ہے جو ہماری زبان ہے‘ جن کا رنگ وہی ہے جو ہمارا رنگ ہے‘ جن کی خوراک وہی ہے جو ہم سب کھاتے ہیں! انہیں فوج میں افسر بناتے ہیں تو احسان چڑھاتے ہیں کہ بھئی! افسر تو ہو گئے ہو مگر ہو اقلیت سے ! اسسٹنٹ کمشنر کے منصب پر فائز کرتے ہیں تو ساتھ دنیا میں ڈھنڈورا پیٹتے ہیں کہ ہم نے اقلیت سے تعلق رکھنے والے کو فلاں پوسٹ پر بٹھایا ہے! سوال یہ ہے کہ کیا انکے پاس پاکستان کا پ
اسپورٹ نہیں؟ کیا ان کے پاسپورٹ پر
Nationality
کے سامنے پاکستان نہیں لکھا ہوا؟ ہمارا طرزِ عمل تو ایسا ہونا چاہیے تھا کہ اسے دیکھ کر دنیا بھارت کو طعنہ دیتی کہ ایک پاکستان ہے جو مذہب کی بنیاد پر اپنے باشندوں کے درمیان تفریق نہیں کرتا ‘ اور ایک تم ہو جو مذہب کی بنیاد پر اپنے لوگوں کو اقلیت کہتے ہو اور اقلیت سمجھتے ہو! تو پھر کیا فرق رہ گیا ہم میں اور بھارت میں؟ ہاں! ایک فرق ضرور ہے کہ وہاں ڈاکٹر ذاکر حسین یا عبد الکلام مسندِ صدارت پر فائز ہو سکتے ہیں ‘ ہمارے ہاں کوئی بھگوان داس‘ کوئی کارنیلیس‘ کوئی جمشید مارکر‘ اس کا سوچ بھی نہیں سکتا! جواب اس کا ہم یہ دیتے ہیں کہ بھارتی تو صرف نمائش کے لیے ایسا کرتے ہیں! المیہ یہ ہے کہ ہم تو نمائش کے لیے بھی ایسا نہیں کر تے!
اس لکھنے والے نے ملازمت کا آغاز کراچی سے کیا۔یہ سی ایس ایس کا آخری بَیچ تھا جس میں مشرقی پاکستان کے حضرات شامل تھے۔ کیا شہر تھا اُس وقت کا کراچی! صحیح معنی میں ایک عظیم الشان کاسمو پولیٹن شہر! ایمپریس مارکیٹ کے سامنے والا سارا علاقہ‘ بوہری بازار سے لے کر مسجد خضرا تک کے اپارٹمنٹ‘ ریگل سے آگے برنس روڈ سے پہلے دائیں بائیں کے فلیٹ‘ یہ سارے علاقے مسیحی اور پارسی برادریوں کے پاس تھے۔ یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مہذب لوگ تھے۔ پھر راولپنڈی تعیناتی ہوئی تو مختلف محکموں میں مسیحی برادری کافی تعداد میں ہمارے شانہ بشانہ کام کر رہی تھی۔ اینگلو انڈین برادری بھی تھی۔ ہم ان کے گھروں میں جاتے۔ ان کے ساتھ کھاتے پیتے۔ یہ سب بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ تھے۔ ان کی ذہنی سطح قابلِ رشک تھی۔ ان کے گھروں میں لائبریریاں تھیں! پھر وہ ہو گیا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ بھٹو صاحب نے میرٹ کا قتل کیا۔ یہ قتل صرف انہیں نہیں‘ پورے ملک کو مہنگا پڑا۔ وہ تاریک دور آگیا جس کے بارے میں حبیب جالب نے بے خوف ہو کر کہا ؛
ظلمت کو ضیا‘ صَر صَر کو صبا ‘ بندے کو خدا کیا لکھنا
اس عہدِ تاریک میں غیر مسلموں کی کثیر تعداد ملک چھوڑ کر چلی گئی۔ ایمپریس مارکیٹ کے سامنے والی گلیاں ویران ہو گئیں۔ جیسا کہ بابا بلھے شاہ نے پیشگوئی کی تھی‘ کراڑ کی ہٹی سڑ گئی‘ فقیر کی کتیا مر گئی! پنج ست نہیں ہزاروں لاکھوں پڑوسنیں ہلاک ہو گئیں! کوچے سنسان ہو گئے جن میں میرزا یار دندنانے لگا اور آج تک دندناتا پھر رہا ہے! جو کچھ سیالکوٹ میں ہوا‘ وہ گزشتہ ہفتے وار برٹن میں دہرایا گیا۔ ہو سکتا ہے میں غلط ہوں ‘ مگر یہ ساری سفاکیاں اور مذہب کے نام پر قتل و غارت اسی زمانے میں شروع ہوئی جب ظلمت کو ضیا کہا جاتا تھا۔ اگر اس سے پہلے ایسے واقعات ہوئے بھی تو بہت کم بلکہ برائے نام پیش آ ئے!
یہ ملک سب کا ہے! اور کسی تفریق کے بغیر سب کا ہے۔ اگر ہم نے مہذب دنیا کا حصہ بن کر رہنا ہے تو اس اکثریت اور اقلیت والے مائنڈ سیٹ کو چھوڑنا ہو گا۔ ورنہ امریکہ‘ کینیڈا اور یورپ حق بجانب ہوں گے کہ باہر سے آکر آباد ہونے والوں کو وہ بھی مذہب کی بنیاد پر اقلیت قرار دیں! اورنگ زیب کا دور گزرے زمانے ہو گئے۔ جس نئے اورنگ زیب نے دس سال حکومت کر کے ہمیں زمانی لحاظ سے پیچھے دھکیل دیا‘ اسے گزرے بھی ساڑھے تین دہائیاں گزر چکیں! اب تو ہم اندھیرے سے نکل کر روشنی میں آجائیں!

Thursday, February 16, 2023

میں اور میرے حاسد


میں تو مجید امجد سے بھی زیادہ قسمت کا دھنی نکلا۔ مجید امجد کی '' شبِ رفتہ‘‘ میں ایک نظم ہے ''آٹو گراف‘‘! بہت بڑی نظم ہے! ان کی اکثر و بیشتر نظمیں اردو ادب کے حوالے سے تاریخ ساز نظمیں ہیں! یہ اور بات کہ سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں کی نصابی کتابوں میں انہیں نظر انداز کیا گیا! بلکہ بلیک آؤٹ کیا گیا!اور کیا جا رہا ہے! اس لیے کہ کورس کی کتابیں ترتیب دینے والے بالشتیے ہیں! بونوں سے بھی قامت میں چھوٹے!! آنکھوں پر چربی کی موٹی تہیں ہیں! یہ چربی‘ تعصب کی چربی ہے! دماغ منجمد ہیں! علم سے ان مرتّبین کا اتنا ہی تعلق ہے جتنا قطبین میں جمی برف کا گرمی سے!
نظم کی طرف واپس آتے ہیں۔ نظم میں مجید امجد اپنا موازنہ اُن کھلاڑیوں سے کرتے ہیں جن کی ایک نگاہ کے لیے حسیناؤں کے جھرمٹ منتظر ہیں! منظر یہ ہے کہ خوبصورت لڑکیاں‘ ہاتھوں میں‘ آٹو گراف کاپیاں لیے‘ انتظار کر رہی ہیں! کوئی کھلاڑی جب آٹو گراف دیتے وقت کسی لڑکی کی کاپی پر لکھتا ہے تو ہونٹوں پر کھیلتی ہوئی شریر مسکراہٹیں جیسے رُک جاتی ہیں۔ مہندی لگے ہاتھوں کی نازک انگلیاں لرزنے لگتی ہیں! زر نگار دوپٹوں میں چھپی کلائیوں کی نبضیں جیسے تھم جاتی ہیں! نظم کی آخری سطور‘ نظم پڑھنے والے کو ہلا کر‘ رکھ دیتی ہیں! 
وہ باؤلر ایک مہ وشوں کے جمگھٹے میں گھر گیا
وہ صفحہ ٔبیاض پر‘ بصد غرور‘ کلکِ گوہریں پھری
حسین کھلکھلاہٹوں کے درمیاں وکٹ گری
میں اجنبی میں بے نشاں
میں پا بہ گل!
نہ رفعتِ مقام ہے نہ شہرتِ دوام ہے
یہ لوحِ دل... یہ لوحِ دل!
نہ اس پہ کوئی نقش ہے نہ اس پہ کوئی نام ہے
مگر میرے ساتھ معاملہ الٹ ہے! حالانکہ کہاں میں اور کہاں مجید امجد! وہ تو بہت بڑے شاعر اور بہت بڑے انسان تھے!
معلوم نہیں‘ کیکر کی چھاؤں میں رکھی‘ بان سے بُنی ہوئی کھردری چارپائی تھی یا درسگاہ کی چٹائی‘ جس پر بیٹھ کر دادا جان نے اپنی ڈائری میں‘ جو فارسی زبان میں لکھی جاتی تھی‘ ایک واقعے کا اندراج کیا تھا۔ بان سے بُنی چارپائی یا درسگاہ کی چٹائی اس لیے کہ نرم گرم بستر کو تو وہ صبحِ کاذب کے وقت ہی خدا حافظ کہہ دیتے تھے۔یہ نرم بستر واقعی نرم ہوتا تھا۔ اس لیے کہ یہ فوم کا میٹریس ہوتا تھا نہ سپرنگ میٹریس! یہ تو وہ گدّا ہوتا تھا جس میں سیروں کے حساب سے روئی بھری جاتی تھی۔ تب روئی دھننے والے‘ اپنا مخصوص آلہ کندھے پر اٹھائے‘ گلی گلی‘ شہر شہر‘ گاؤں گاؤں پھرا کرتے تھے۔ پنجابی میں اسے پینجا کہتے تھے۔ جب وہ روئی دھنتا تھا تو نہ صرف پرانی‘جُڑی ہوئی روئی کے ٹکڑے صاف ہو کر‘ برف کے گالوں کی طرح ہوا میں رقص کرتے تھے بلکہ اس کے آلے سے موسیقی کی دھنیں بھی نکلتی تھیں۔ ان دھنوں پر صوفیا کو حال بھی آتا تھا۔ روایت ہے کہ امیر خسرو اپنے شاگردوں اور عقیدتمندوں کے ساتھ کہیں جا رہے تھے۔ راستے میں دیکھا کہ روئی دھننے والا روئی دھن رہا ہے۔ایک شاگرد نے فرمائش کی کہ یہ تال یا سُر جو روئی دھننے والے کے آلے سے نکل رہی ہے‘ اسے آپ لفظوں میں کیسے ڈھالیں گے؟امیر خسرو نے فوراً اسے لفظوں کا جامہ پہنا دیا۔ انہوں نے کہا :
درپئے جاناں جاں ہم رفت‘ جاں ہم رفت‘ جاں ہم رفت
رفت رفت جاں ہم رفت‘ ایں ہم رفت و آں ہم رفت
آنہم رفت آنہم رفت‘ اینہم آنہم اینہم آنہم رفت
رفتن رفتن رفتن رفتن‘ دہ دہ رفتن دہ‘ رفتن دہ
دادا جان اور اُن کی قبیل کے لوگ عجیب تھے۔ یہ رات کے آخری پہر‘ روئی سے بھرے گدّے اور رضائیاں چھوڑ دیتے تھے۔اندھیری راتوں کو‘ پتھروں اور کیچڑ سے بھری گلیوں میں چل کر‘ مسجدوں کو جاتے تھے۔ پانی کبھی گرم ہوتا تھا کبھی نہیں!وضو کرتے تھے اور سر بسجود ہو جاتے تھے۔ ان کی اپنے پروردگار کے ساتھ ہاٹ لائن بچھی ہوتی تھی۔ درمیان میں کوئی نہیں ہوتا تھا۔ان کھدر پوشوں کے مشکل سے مشکل کام ہو جاتے تھے۔ درمیان میں رخنہ پڑتا تو یہ ہاٹ لائن پر رابطہ کرتے اور رخنہ ہوا میں تحلیل ہو جاتا! یہ لوگ نہتے ہوتے مگر کوئی ایسی غیر مرئی زرہ بکتر ان کے بدن پر تھی کہ حملوں میں اور بلاؤں میں اور آفتوں میں اور شرانگیزیوں میں محفوظ رہتے جیسے بتیس دانتوں میں زبان!
کھردرے بان سے بُنی ہوئی چارپائی تھی یا درسگاہ کی چٹائی جس پر بیٹھ کر انہوں نے روزنامچے میں اندراج کیا '' تاریخ پیدائش عزیزم محمد اظہارالحق خلف الرشید قاضی محمدظہورالحق‘ کہ نامِ تاریخء او غلام رسول است‘ مورخہ 3 ماہ ربیع الآخر 1367 ھ‘ مطابق 3 ماہ پھگن 2004 ب‘موافق 14 ماہ فروری 1948ء در شبِ شنبہ‘ اللہم زِد حیاتہ۔‘‘یعنی ربیع الثانی کی تیسری تاریخ تھی اور پھگن کی بھی تیسری تاریخ تھی اور فروری کی چودہ تاریخ تھی جب یہ معصیت کار عالمِ لاہوت سے عالم ِناسوت میں وارد ہوا۔ اُس گاؤں میں‘ جو پکی سڑک سے اُس زمانے میں دُور تھا‘ جہاں مردوں کی بھاری اکثریت تہمد پوش تھی‘ جہاں اکثر مکان کچے تھے‘ جہاں زیادہ گھر وہ تھے جن کے دروازے نہیں تھے‘جہاں ایک گھر میں چولہا جلتا تھا تو دوسرے گھروں میں اُسی گھر کے جلتے انگاروں سے چولہے جلتے تھے‘ جہاں دکانوں میں خرید و فروخت نقدی سے کم اور گندم سے زیادہ ہوتی تھی‘ جہاں حجام‘ درزی‘ کمہار‘ لوہار‘ بڑھئی‘ موچی اور جولاہے کو اس کی خدمات کی ادائیگی ربیع اور خریف کی فصلیں اترنے کے وقت‘ اناج کی صورت میں کی جاتی تھی‘ جہاں سفر گھوڑوں اور اونٹوں پر‘ یا پیدل‘ ہوتا تھا‘ جہاں سائیکل مرسڈیز کے برابر تھی‘ جہاں موٹر سائیکل کو ٹھَک ٹھَکّا کہا جاتا تھا اور کبھی ہفتوں بعد کوئی ٹھَک ٹھَکّا گاؤں سے گزرتا تھا تو لڑکے بالے دور تک اس کے پیچھے بھاگتے تھے‘ ہاں اُسی گاؤں میں بیٹھے ہوئے دادا کو‘ جو روزنامچہ فارسی میں لکھتے تھے‘ کیا معلوم تھا کہ چودہ فروری کے دن پیدا ہونے والے اُن کے پوتے کا جنم دن پوری دنیا میں منایا جائے گا! اُس دن پھول ہی پھول ہوں گے‘ رنگ ہی رنگ ہوں گے‘اُس کی سالگرہ منانے میں‘ امریکہ اور انگلستان اور جرمنی اور ڈنمارک اور دوسرے کئی ملکوں کی‘ سنہری زلفوں والی‘ زہرہ وشیں آگے بڑھ بڑھ کر حصہ لیں گی! بے خود ہو کر رقص کریں گی! جن کی مجھ تک رسائی نہ ہو گی‘ وہ مبارک کے کارڈ ایک دوسرے کو دیں گے! جاپان سے لے کر لاس اینجلس تک ایک غلغلہ برپا ہو گا! مجید امجد یہ حسرت لے کر دنیا سے رخصت ہو گئے کہ ان کی لوحِ دل پہ کوئی نقش ہے نہ نام! مگر میں‘ جو ان کے سامنے ایسا ہی ہوں جیسے آفتاب کے سامنے ذرّہ‘ میری تو ہر چودہ فروری کو خوب خوب پذیرائی ہوتی ہے!
حسد کرنے والوں کا کوئی علاج نہیں! میری سالگرہ پر یہ جو پوری دنیا میں مبارک سلامت کا شور برپا ہوتا ہے اور پھولوں اور رنگوں اور خوشبوؤں کی‘ افق تا افق‘ بہار آجاتی ہے اور ہر اقلیم اور ہر ولایت میں خوشی منائی جاتی ہے‘ تو کچھ حاسد اور بداندیش اور بدخواہ میری اس عالمگیر پذیرائی کی قدرو قیمت کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں! وہ اس جشن کو ایک نصرانی راہب‘ ویلنٹائن‘ سے منسوب کرتے ہیں۔ یہ پادری'' روم کا ویلنٹائن‘‘ کہلاتا تھا۔ تیسری صدی عیسوی میں اسے قتل کر دیا گیا اور پانچویں صدی عیسوی کے اواخر میں اُس وقت کے پوپ نے اس کا نام اولیایعنی

Saintsج

کی فہرست میں شامل کر دیا! متعدد عیسائی فرقے چودہ فروری کا دن '' سینٹ ویلنٹائن ڈے‘‘ کے طور پر مناتے ہیں لیکن اصل حقیقت یہی ہے کہ اس دن‘ پوری دنیا میں میری ہی سالگرہ منائی جاتی ہے

 

powered by worldwanders.com