بچے کو بخار ہے۔ ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہے۔ کیا کبھی کسی نے کہا کہ جب سارے ملک ہی میں صحت کا نظام درست نہیں تو ایک آدمی کی تندرستی سے کیا فرق پڑے گا؟ بچوں کو سکول داخل کیوں کراتے ہیں؟ کیوں تعلیم دلاتے ہیں؟ پورے ملک میں نا خواندگی کا دور دورہ ہے، جہالت عام ہے، صرف آپ کے بچے پڑھ لکھ گئے تو کتنی بہتری آ جائے گی؟ گھر کی صفائی مت کیجیے۔ شہر ہمارے گندگی سے اٹے پڑے ہیں۔ کراچی کا کچرا ملک کے گلے کا ہار بن کر رہ گیا ہے۔ کوڑے کے ڈھیر قصبوں اور قریوں کا محاصرہ کیے ہوئے ہیں۔ ایک آپ کے چھوٹے سے گھر کی صفائی سے کون سا انقلاب آ جائے گا؟ کیوں تھکتے ہیں؟ کیوں اپنے آپ کو ہلکان کرتے ہیں؟
مگر ایسا ہوتا نہیں۔ کوئی پاگل ہی اپنے بچے کو علاج سے اس لیے محروم رکھے گا کہ اس سے ملک کے نظامِ صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ملک کا تعلیمی نظام حد درجہ پستی میں ڈوبا ہوا ہے مگر ہر فرد اپنے بچوں کو، مقدور بھر، اعلیٰ تعلیم دلا رہا ہے۔ گلی کوچے کیچڑ اور کچرے سے بھرے پڑے ہیں مگر یہ کوئی وجہ نہیں کہ میں اپنے گھر کی صفائی نہ کروں!
تو پھر اُس وقت موت کیوں پڑ جاتی ہے جب کوئی ہمیں کاروباری معاملات میں، دفتری امور میں یا روزمرہ کی زندگی میں دیانت داری کی تلقین کرتا ہے؟ ہمارا رد عمل عجیب مجہول، منفی اور بہانہ ساز سا ہو جاتا ہے۔ بھئی‘ جب پورا معاشرہ خراب ہے تو ایک فرد کے سچ بولنے سے کیا ہو گا؟ صرف میری امانت داری کی کیا حیثیت ہے؟ میں ایک ٹھیک ہو بھی گیا تو حالات کون سے ٹھیک ہو جائیں گے؟ یار! سبھی ایسا ہی کرتے ہیں! ارے بھائی! رہنے دو کس کس کو ٹھیک کرو گے یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے! بالکل ایسا ہی جواب کچھ عرصہ پہلے ایک پاکستانی نے میرے منہ پر تھپڑ کی طرح جڑا۔ بیت اللہ کا طواف تھا۔ دوران طواف دائیں بائیں زائرین سیلفیاں لے رہے تھے سخت کوفت ہو رہی تھی۔ اتنے میں میرے دائیں طرف ایک پاکستانی نے کہ شلوار قمیص میں ملبوس تھا، موبائل فون تقریباً میرے ساتھ رکھ کر سیلفی بنائی۔ کیوں اپنا طواف خراب کر رہے ہو بھائی؟ میں نے غصے میں کہا۔ اس کا جواب وہی تھا جس کا ذکر اوپر کیا ہے کہ سب لوگ بنا رہے ہیں۔
اس نا مراد، مکروہ منطق نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ اس زنگ آلود دلیل کو ہم نے اس بری طرح استعمال کیا ہے کہ معاشرہ اسفل السافلین سے بھی نیچے چلا گیا ہے۔ یہ رویہ اپناتے وقت ہم تین حقائق بھول جاتے ہیں۔ اول‘ آخرت میں ہم سے معاشرے کی نہیں ہمارے اپنے اعمال کی باز پرس ہو گی۔ وہاں یہ دلیل کام نہیں آئے گی کہ میں نے اس لیے بد دیانتی کی، اس لیے جھوٹ پر جھوٹ بولے‘ اس لیے سرکاری مال کھایا یا اس لیے دوسروں کا حق ہڑپ کیا کہ وہاں سبھی ایسا ہی کر رہے تھے۔ وہاں تو ہر کسی نے اپنا بوجھ اٹھانا ہے۔ نیکیاں بھی اپنی اور برائیاں بھی اپنی۔ دوم‘ اگر معاشرہ سارے کا سارا غلط راستے پر گام زن ہے تو سوال یہ ہے کہ اسے راہ راست پر لانے کے لیے آپ کیا کر رہے ہیں؟ کم سے کم حصہ جو آپ ڈال سکتے ہیں یہ ہے کہ خود برائی سے بچیں۔ سوم‘ اگر آپ معاشرے کو درست کرنا چاہتے ہیں تب بھی آپ کو اپنی اصلاح سب سے پہلے کرنا ہو گی‘ ورنہ آپ کے پند و نصائح بے اثر رہیں گے۔ عین ممکن ہے کہ آپ کو سیدھے راستے پر چلتا دیکھ کر، دوسرے، آپ کے کہے بغیر ہی، آپ کی پیروی شروع کر دیں۔
ہم تقریروں میں، تحریروں میں، ہمیشہ اقبال کا یہ شعر پیش کرتے ہیں
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
مگر کیا ہر فرد کو جو کچھ کرنا چاہیے، وہ کر رہا ہے؟ ہمارا المیہ یہ ہے کہ میرے سمیت ہر شخص اصلاح کا آغاز دوسروں سے کرنا یا کرانا چاہتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی بزرگ بس میں کھڑا ہو تو میں خود اٹھ کر اسے اپنی نشست پیش نہ کروں بلکہ کسی دوسرے مسافر کو اس کار خیر کے لیے کہوں۔
کُڑھنے، وعظ کرنے، دوسروں پر تنقید کرنے اور معاشرے کے انحطاط پر گریہ و زاری کرنے کے بجائے ہم میں سے ہر شخص یہ کیوں نہیں سوچتا کہ وہ آغاز اپنی ذات سے کرے؟ اگر ٹریفک کا نظام لا قانونیت کا شکار ہے تو آج سے عہد کریں کہ ہم ہر حال میں ٹریفک کے ضوابط کی پابندی کریں گے۔ اس کے بعد ہم اپنے اہل و عیال سے اس کی پابندی کرائیں گے۔ ہم اپنے کاروبار میں اصول پسندی اور قانون پسندی پر سختی سے عمل پیرا ہوں گے۔ ہم دفتر وقت پر پہنچیں گے۔ کسی سائل کو پریشان نہیں کریں گے۔ کوئی غلط حکم نہیں مانیں گے۔ اپنی روزمرہ زندگی میں دروغ گوئی اور عہد شکنی سے کام نہیں لیں گے۔
ہم عجیب لوگ ہیں۔ قوم کے زوال پر نوحہ خوانی کر رہے ہوتے ہیں۔ اتنے میں ٹیلی فون آتا ہے یا دروازے کی گھنٹی بجتی ہے تو بیٹے کو کہتے ہیں کہ میرا کوئی پوچھے تو کہنا گھر پر نہیں ہوں۔ دکان پر ملازم دیر سے پہنچے تو اسے طعنہ دیتے ہیں کہ تنخواہ حرام کر رہے ہو اور اپنی آمدنی کے حلال یا حرام ہونے کا نہیں سوچتے۔ رفقائے کار اور ماتحتوں کو دیانت داری کا درس دیں گے مگر خود دفتر کا کارِ منصبی تاخیر سے انجام دیں گے یا اسے سفارش، اقربا پروری اور دوست نوازی کی نذر کر دیں گے۔ زرداری سے لے کر نواز شریف تک، بلاول سے لے کر مریم نواز تک شہباز شریف سے لے کر عمران خان تک ہر ایک کا محاسبہ کرتے ہیں یہاں تک کہ ان کی ذاتی زندگیوں پر تبصرے کرتے ہیں۔ بیوروکریسی کو مطعون کرتے ہیں۔ سیاست دانوں پر ہر اُس برائی کا الزام لگاتے ہیں جو روئے زمین پر ممکن ہے۔ نہیں جھانکتے تو اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے۔
قوم ایک عمارت ہے۔ فرد اینٹ ہے۔ عمارت مضبوط ہونے کے لیے لازم ہے کہ ایک ایک اینٹ پختہ ہو، سالم ہو اور درست زاویے سے لگائی گئی ہو۔ بطور فرد ہم مکمل طور پر غیر ذمہ دار ثابت ہوئے ہیں۔ ہم تو کچی، ٹیڑھی اینٹیں ہیں جو عمارت کو بد نما اور نا قابل اعتبار کر رہی ہیں۔ ہمارے اعمال اور رویے دونوں ہولناک نتائج پیدا کر رہے ہیں۔ ان افراد کے مجموعے سے اُسی قسم کی قوم بنے گی جو ہم ہیں۔ چھوٹی سے چھوٹی حیثیت والے پاکستانی کا کردار، قوم کے مجموعی کردار پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ریڑھی والا ہے یا معمولی دکان دار یا سرکاری کارندہ، ملک کے لیے اس کا انداز فکر اور طرز عمل بھی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ صرف حکمران نہیں جو ملک کو سمت مہیا کرتے ہیں۔ ایک ترقی یافتہ ملک اور ایک پسماندہ ملک کے عام باشندے کی سوچ اور عمل کا موازنہ کر کے دیکھ لیجیے۔ زمین و آسمان کا فرق نظر آئے گا۔ صرف قطار بندی دیکھ لیجیے یا صرف اس بات پر غور کیجیے کہ بچے کو جھوٹ سکھانے کا وہاں کوئی تصور نہیں۔ جو تارکین وطن مغربی ملکوں سے واپس آ کر دوبارہ وطن میں رہنے لگتے ہیں انہیں پیش آنے والے مسائل میں ایک بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے بچے جھوٹ سے نا واقف ہوتے ہیں اور یہاں قدم قدم پر جھوٹ سے واسطہ پڑتا ہے۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ان کے بچے کسی صورت جھوٹ نہیں بولتے اور ہم میں سے کتنے ہیں جن کے بچے یہ دعویٰ کریں گے کہ ان کے ماں باپ ہمیشہ سچ بولتے ہیں اور کسی کے ساتھ وعدہ کریں تو پورا کرتے ہیں؟؟؟
بشکریہ روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment