کامونکے لاہور اور گوجرانوالہ کے درمیان واقع ایک قصبہ ہے۔ یہ چاول کی بڑی منڈی ہے۔ اسلام آباد‘ پنڈی کے لوگ یہاں سے گزریں تو چاول خرید لے جاتے ہیں۔ کچھ میری طرح صرف بھاؤ پوچھنے پر اکتفا کرتے ہیں اور خریداری اس کے پُر کشش تنگ بازاروں سے چاول کے مرنڈوں، مکھانوں، بھنے ہوئے چنوں، پتاشوں اور نُگدی کی کرتے ہیں۔ جو کچھ بچپن میں کھایا ہو زندگی بھر اس کی بھوک رہتی ہے۔
اس کامونکے میں ایک شخص رہتا تھا۔ الیاس اس کا نام تھا۔ انسان کے بھی کیا کیا شوق، خبط اور مشغلے ہوتے ہیں۔ ان بھائی صاحب کا شغل تھا سانپ پکڑنا اور انہیں دودھ نہیں! اپنا خون، جی ہاں! خون جسے لہو کہا جاتا ہے، پلانا! طریقۂ واردات اس کا یہ تھا کہ بلیڈ سے اپنی کلائی کاٹتا ، لہو نکال کر رکابی میں ڈالتا اور سانپ کو پیش کر دیتا۔ یہ سلسلہ ایک مدت سے چل رہا تھا۔ سانپ بھی خون پر پل رہے تھے اور سپیرا بھی آزار دوستی (Masochism) کے لطف سے بھرپور خوش خوش زندگی گزار رہا تھا۔
پھر ایک دن وہی ہوا جو ہونا تھا یا جس کا ڈر تھا۔ تین چار دن پہلے کی بات ہے الیاس ایک نیا سانپ لایا۔ بلیڈ سے اپنی کلائی کاٹی، رکابی میں اپنا خون اکٹھا کیا اور سانپ کی خدمت میں پیش کر دیا‘ مگر سانپ کو خون میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ خون کے ساتھ گوشت بھی چاہتا تھا۔ اس نے الیاس کو کاٹ لیا۔ اس کے کاٹے سے الیاس کی حالت غیر ہو گئی۔ الیاس کو طبی امداد کے لیے ہسپتال لے جایا جا رہا تھا کہ راستے میں اس کی موت واقع ہو گئی۔
یہ افسوس ناک خبر صرف الیاس کی نہیں لگ رہی۔ یہ محض کامونکے منڈی میں نہیں ہوا۔ یہ تو ایک علامتی کہانی ہے، ایک آئینہ، جس میں، ہمارے سمیت، کئی ملک، کئی صدیاں اور کئی قومیں اپنا چہرہ دیکھ سکتی ہیں۔ اِن دنوں ایسٹ انڈیا کمپنی کی تاریخ زیر مطالعہ ہے۔ ایک سانپ میر جعفر نے بھی پالا تھا۔ اسے خوب دودھ پلایا۔ خوب موٹا کیا۔ اس پر اتنی دولت لٹائی کہ کلائیو اس وقت کے یورپ کا امیر ترین شخص بن گیا‘ مگر پھر اسی سانپ نے میر جعفر کو کاٹ لیا۔ میر جعفر کی نوابی خواب و خیال ہو گئی‘ بلکہ سارے خواب بکھر گئے۔ جیتے جی ذلیل و خوار ہو گیا۔
پاکستان بننے کے کچھ عرصہ بعد ہم نے بھی ایک سانپ پال لیا۔ یہ بحرِ اوقیانوس کے اُس پار کا تھا۔ ہم نے ہمیشہ اسے دودھ پلایا۔ ہمیشہ کلائیاں کاٹ کر خون سے اس کے لیے رکابیاں بھریں مگر ہماری قسمت کہ اس نے ہمیشہ ہمیں کاٹا۔ ہم ہر بار ڈسے گئے مگر آفرین ہے ہماری مستقل مزاجی پر کہ ڈسے جانے کے بعد بھی ہم نے ہمیشہ سانپ کی بلائیں لیں، کلائی کاٹی اور مزید خون پیش کر دیا۔ اس سانپ کے ساتھ ہمارا Love- hate relationship ایسا بے مثال ہے کہ تاریخ میں کم ہی ایسی مثالیں ہوں گی۔ دشمن بھی وہی ہے۔ دوست بھی وہی ہے۔ ہم اس موج کی طرح ہیں جو ساحل کو چوم کر دور بھاگتی ہے اور تھوڑی دیر میں پھر آ موجود ہوتی ہے۔ ہم میں سے ہر محبِ وطن اس سانپ کا سر کچلنا چاہتا ہے اور ہم میں سے ہر محبِ وطن اس سانپ کے دیس میں جانے کے لیے، اس کا ویزہ حاصل کرنے کے لیے اور وہاں آباد ہونے کے لیے شدید خواہش رکھتا ہے اور ہر وقت اس حوالے سے کوشش بھی کر رہا ہوتا ہے۔ زندگی بھر اس امیگریشن کا انتظار رہتا ہے پھر پھیروں پر پھیرے لگتے ہیں۔ پہلا مرحلہ سبز کارڈ کا ہوتا ہے۔ گویا جنت ارضی کا پہلا دروازہ کھل گیا۔ پھر جب سالہا سال کے انتظار کے بعد پاسپورٹ ملتا ہے تو ٹنوں کے حساب سے مبارک بادیں وصول ہوتی ہیں۔ کسی کو اگر دنیا میں معلوم ہو جائے کہ عاقبت سنور گئی ہے تو شاید اتنی خوشی نہ ہو؛ چنانچہ ہمارے سیاست دانوں، افسروں، کیا سول کیا خاکی، صحافیوں اور جاگیرداروں میں سے بہت سوں کے پاس یہ شہریت موجود ہے۔ خود یہاں بھی ہوں تو خاندان وہیں رہ رہے ہوں گے۔ ارض موعود وہی ہے۔ وطن اصلی وہی ہے۔ وہاں تو ان کی نمازیں تک قصر نہیں ہوتیں۔ اپنا وطن جو ہے۔ مگر ہے یہ سانپ ہمارا دشمن۔ پکا دشمن! ہمارے خلاف سازشیں کرتا ہے، بھارت کا ساتھ دیتا ہے۔ اسرائیل کا مربّی ہے۔
1970ء کی دہائی ختم ہوئی، اسّی کا عشرہ آغاز ہوا تو پڑوس سے سانپوں نے بارڈر کراس کیا اور لاکھوں کی تعداد میں اندر گھس آئے۔ مجبوری کے تحت۔ یہی مجبوری انہیں پڑوس کے ایک اور ملک میں بھی لے گئی مگر وہ ملک سیانا تھا۔ اُس نے ان سانپوں کو پورے ملک میں آزادانہ چلنے پھرنے کی اجازت نہ دی‘ تاروں اور دیواروں میں محصور کر کے رکھا مگر ہماری تو سرشت اور ہے۔ ہم نے ان کیلئے بھی کلائیاں کاٹیں اور رکابیاں خون سے بھر گئیں۔ پورا ملک ان کیلئے کھول دیا۔ یہ گلگت کے برف زاروں سے لے کر کراچی کے ساحلوں تک پھیل گئے۔ اونٹ خیمے کے اندر آ گیا اور پھر آتا ہی گیا۔ اب ان کی تیسری نسل دودھ پی رہی ہے مگر اس ملک کے ساتھ وفاداری ان کی طینت میں نہیں۔ کلائیاں ہماری کٹ گئیں مگر رہے ہم برے کے برے۔ جتنا غیر محفوظ ہمارا سفارتخانہ مشرقی پڑوسی کے ہاں ہے‘ اتنا ہی بلکہ اس سے بھی زیادہ مغربی ہمسائے میں ہے۔
لگ بھگ انہی وقتوں میں ہم نے ملک کے اندر بھی سانپوں کی پرورش وسیع پیمانے پر شروع کر دی۔ کبھی اِس نام پر تو کبھی اُس نام پر۔ خوب دودھ پلایا۔ خوب اپنی کلائیاں کاٹیں۔ مگر جب ان سانپوں نے ڈسنا شروع کیا تو ملک میں خون کی ندیاں بہہ نکلیں۔ مزار تھے یا بازار، مسجدیں تھیں یا سکول، چوراہے تھے یا گلیاں، ہر جگہ دھماکے اور خود کُش حملے اور غارت گری۔ گھر کے ان سانپوں نے ہمارے بچوں تک کو نہ چھوڑا۔ بچیوں کے سکول جلا کر خاکستر کر دیئے مگر کسی سے کیا گلہ کرتے۔ سب ہمارا اپنا ہی تو کیا دھرا تھا‘ خود پالے تھے۔ خود دودھ پلایا تھا۔ اپنا لہو پلا پلا کر موٹے کیے تھے۔
علمائے نفسیات کا کہنا ہے کہ ہم سانپوں سے محبت نہیں کرتے۔ دراصل اس معاملے میں ہم احساس کمتری کا شکار ہیں۔ سانپ، خاص طور پر غیر ملکی سانپ دیکھ کر ہم مرعوب ہو جاتے ہیں۔ ان سے دبتے ہیں، انہیں اپنے سے بہتر مخلوق گردانتے ہیں۔ انہیں اپنے ملک کے قواعد و قوانین سے فوراً مستثنا قرار دے دیتے ہیں۔ ان کی خدمت میں مستعد ہو جاتے ہیں۔ لاہور میں ایک غیر ملکی سانپ نے ہمارے شہریوں کو ڈس کر ہلاک کیا۔ اسے بچانے اور اسے سلامتی کے ساتھ گھر واپس بھجوانے میں ہمارے اپنوں نے جو کردار ادا کیا اور جو شرمناک رویہ اختیار کیا اس کی مثال تاریخ میں شاید ہی ملے۔
کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں جنہیں ایک خاص موسم میں سانپ آ کر ڈستا ہے۔ جہاں بھی ہو اس موسم میں سانپ ضرور ان کے پاس آتا ہے۔ سنا ہے، جب سانپ کے آنے اور ڈسنے کے دن قریب آتے ہیں تو اس انسان کی بے تابی بڑھ جاتی ہے۔ بدن ٹوٹنے لگتا ہے۔ انگڑائیاں آتی ہیں۔ وہ اُس لذت کے لیے تڑپ رہا ہوتا ہے جو سانپ کے ڈسنے سے اسے حاصل ہوتی ہے۔ ہمارا بھی وہی حال ہے۔ ہم کسی نہ کسی سانپ کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ کوئی نہ نظر آئے تو طبیعت نا آسودہ ہونے لگتی ہے۔ ہمیں ہر حال میں ایک نہ ایک سانپ ضرور چاہیے ہوتا ہے۔ ہمارا خون رگوں کے اندر تلملانے، جلنے اور سلگنے لگتا ہے۔ سانپ دیکھتے ہی ہمیں سکون مل جاتا ہے۔ ہم بلیڈ پکڑتے ہیں، کلائی کاٹتے ہیں، خون نکلتا ہے۔ یہ جانا پہچانا منظر دیکھ کر سرور سے ہماری آنکھیں بند ہونے لگتی ہیں۔ پھر جب سانپ یہ خون پیتا ہے تو ہم خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں۔ تہتر برسوں سے ہم کامونکے کا الیاس بنے ہوئے ہیں
بشکریہ روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment