Saturday, November 30, 2019
صرف زمین نہیں، ملکیت بھی گردش میں ہے
Thursday, November 28, 2019
اور اب ریلوے
Tuesday, November 26, 2019
سانحہء ناروے —-ایک پہلو یہ بھی ہے
ناروے میں قرآن پاک کے مقدس نسخے کو جلانے کی جو کوشش کی گئی، اس پر، اُسی شہر میں رہنے والے ایک صاحب محمد الیاس نے صورتِ حال پر روشنی ڈالی ہے۔ ہم اس سے اتفاق کریں یا نہ کریں، مگر بات سُن لینی چاہیے۔ الیاس صاحب رقم طراز ہیں:
’’ناروے کے شہر کرسٹین سینڈ کی آبادی اسّی ہزار ہے جس میں دو ہزار تعداد مسلمانوں کی ہے ایک جامع مسجد ہے اور کچھ مصلے بھی۔ مسلمانوں میں تیس سے زیادہ قومیتوں کے لوگ آباد ہیں۔ قانون کے مطابق مذہبی آزادی حاصل ہے، یورپ کے گنے چنے ملکوں میں ناروے ایسا ملک ہےi جو تبلیغی جماعتوں کو بلا حجت ویزے جاری کرتا ہے۔ ہمارے شہر کی انتظامیہ، سیاست دانوں کی بڑی تعداد میئر، پولیس اور دیگر ادارے مسلمانوں کے ساتھ بہت تعاون کرتے ہیں۔ ہمیں کبھی کسی معاملے میں شکایت نہیں ہوئی بلکہ جب مسلمانوں کو بڑی جگہ پر مسجد کی ضرورت پڑی تو سٹی کونسل میں دائیں بازو کی مخالفت کے باوجود ووٹنگ کروا کر نئی مسجد کی منظوری دلوائی گئی۔
ایک ستاسی سالہ ملحد آر نے تومیر نے کچھ سال پہلے مسلمانوں کے خلاف ایک تنظیم بنائی جس کا نام سیان
Sian
(یعنی سٹاپ اسلام اِن ناروے) رکھا۔ اسے کوئی خاص پذیرائی نہیں ملی نہ ہی اس کے مظاہروں میں قابلِ ذکر لوگ شامل ہوتے ہیں۔ پچھلے ہفتے آر نے تومیر نے مظاہرے کا اعلان کیا کہ قرآن پاک کو نعوذ باللہ جلایا جائے گا۔ مسلم لیڈرز اور مسجد کمیٹی کے لوگ فوراً سرگرم ہو گئے کہ اسے روکا جائے۔ انہوں نے میئر، پولیس اور لوکل گورنمنٹ کے ساتھ میٹنگ کی۔ پوری سٹی کونسل نے بیک زبان کہا کہ ایسی کسی حرکت کی اجازت قطعاً نہیں دی جائے گی۔ یہاں تک کہ مسلمان مخالف جماعت ڈیموکریٹ پارٹی نے بھی اعلان کیا کہ وہ جلانے والے عمل کو سپورٹ نہیں کرے گی۔ پولیس کمشنر نے سیان تنظیم کو بتایا کہ مظاہرہ آپ کا حق ہے لیکن قرآن پاک کو نہیں جلا سکتے۔ ایسا کرنے میں قانون کی گرفت میں آئیں گے۔
سیان تنظیم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو دہشت گرد کے طور پر پیش کرے۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے یہ مسلمانوں کو مشتعل کرتے رہتے ہیں مگر مسلمانوں نے ہمیشہ حکمت اور بصیرت سے اس کا جواب دیا۔ آر نے تومیر نے پہلے کوشش کی کہ نفرت کی باتوں کو ڈائیلاگ کی صورت میں پھیلائے۔ ان مجلسوں میں وہ ذاتِ اقدسؐ پر رکیک حملے کرتا تھا۔ اس کی باتوں کو مدلل انداز میں رد کیا گیا۔ اس کا پبلک پر مثبت اثر پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری مسجد میں ہر ہفتے یا دو ہفتے بعد ایک نارویجن اسلام قبول کرتا ہے۔ آرنے تومیر کی نفرت انگیز باتوں کی وجہ سے لوکل ادبی کونسل اور چرچ نے پابندی لگا دی کہ اسے کسی تقریب میں نہیں بلانا تا کہ نفرت پھیلانے کے لیے یہ اِن فورمز کو استعمال نہ کر سکے۔ اس کے بعد اس تنظیم کے پاس ایک ہی راستہ رہ گیا کہ وہ پبلک مقامات پر مظاہرہ کرے جس میں اسلام اور ذاتِ اقدسؐ کو ٹارگٹ کر سکے۔ اس تنظیم والے اپنے مظاہرے میں میڈیا کو بطور خاص بلاتے ہیں تا کہ کوئی مسلمان مشتعل ہو کر ان پر حملہ کرے تو وہ اس کی تصاویر اور ویڈیو وائرل کر کے معاشرے کو بتائیں کہ یہ لوگ ہماری روایات سے مطابقت نہیں رکھتے؛چنانچہ ہمارے اکابر نے، جن میں جامع مسجد کمیٹی کے صدر جناب اکمل علی سرِ فہرست ہیں، پہلے دن ہی سے یہ مؤقف اپنایا کہ اس کی کسی بھی غیر قانونی حرکت پر قانون خود اسے پکڑے گا لہٰذا مسلمان اس کی کسی اشتعال انگیزی پر برانگیختہ ہو کر اس کے پلان کو کامیاب نہ ہونے دیں۔
مظاہرے سے پہلے مسجد کی طرف سے اعلانات ہوئے کہ اگر آر نے تومیر نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی تو اسے روکنے کے لیے پولیس موجود ہو گی؛چنانچہ انتظامیہ کو اپنا کام کرنے دیا جائے اور مشتعل نہ ہوا جائے۔ ہفتے کے دن سیان کے مظاہرے میں صرف آٹھ افراد تھے جب کہ چار سو سے زیادہ لوگ مظاہرے کے خلاف موجود تھے جن میں نارویجنز کی قابلِ ذکر تعداد بھی تھی۔ پولیس نے رکاوٹیں لگا کر راستہ بند کیا ہوا تھا تا کہ لڑائی نہ ہو سکے۔ آرنے تومیر نے تقریر کے دوران کلام پاک کی ایک کاپی گرل
(grill)
پر رکھی جسے پولیس نے فوراً اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس دوران سیان کے دوسرے سرکردہ رکن لارس تھورسن نے جیب سے دوسرے نسخے کو نکال کر آگ لگانے کی کوشش کی۔ آگ بجھانے کے لیے پولیس فوراً دوڑی۔ انہی لمحوں میں عمردھابہ نے جسے سوشل میڈیا میں عمر الیاس لکھا جا رہا ہے رکاوٹوں کو عبور کیا اور لارس تھورسن کو مارنے دوڑا۔ لارس کو پولیس والوں نے گرفتار کر لیا۔
اس دھکم پیل میں مسلمان نوجوانوں نے پولیس کو بھی دھکے دیئے اور ٹھڈے مارے کہ وہ لارس تک پہنچ سکیں۔ بالآخر آرنے تومیر کو وہ موقع مل گیاجو اسے چاہیے تھا یعنی مسلمانوں کو اشتعال دلانا اور یہ ثابت کرنا کہ یہ مسلمان قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں۔ آج ان نوجوانوں کی تصاویر اور ویڈیو پورے ناروے میں وائرل ہو رہی ہیں جن پر لکھا ہے… ’’مسلمان رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے پولیس سے گتھم گتھا ہیں‘‘ اگر ہمارے جذباتی نوجوان تھوڑا سا صبر اور حوصلے سے کام لیتے تو اس واقعہ پر قانونی گرفت کی جا سکتی تھی۔ اگرچہ اس کی کوشش اب بھی جاری ہے اور مسجد کمیٹی نے بہترین وکیل کا بندوبست کیا ہے جو لارس تھورسن کو قرار واقعی سزا دلوانے کی کوشش کرے گا تا ہم ہمارا کیس کمزور بھی ہو گیا ہے کیونکہ حملہ آور نوجوان پولیس کی حراست میں ہیں۔ انہوں نے پولیس کو بھی زدوکوب کیا تھا جو قابل گرفت ہے۔
ہمیں اس سارے سانحہ کو ایک بڑے پرسپیکٹو میں دیکھنا ہو گا۔ یہاں کی مسجد انتظامیہ نے انتھک محنت اور کوشش کر کے سٹی لوکل کونسل اور انتظامی اداروں میں مسلمانوں کی ایک اچھی ساکھ بنائی ہے اور مجموعی طور پر مثبت تاثر حاصل کیا ہے۔ ناروے کے لوگ بھی آرنے تومیر کو قبول نہیں کرتے۔ اس کی یہاں کوئی پذیرائی نہیں۔ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ ننانوے فیصد آبادی اس مسئلے پر مسلمانوں کی حامی ہے لیکن اگر ہم یہاں کے قانون پر عمل نہ کریں تو یہ سب ملیامیٹ ہو سکتا ہے۔ یہ یہاں کا قانون ہی تو ہے جس نے ہمیں بھرپور مذہبی آزادی دی ہوئی ہے اور ہم بلا خوف اپنی مذہبی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پولیس، چرچ، انتظامیہ اور سیاست دان مسلمانوں کے ساتھ ہیں۔ مگر اس حمایت کو جاری رکھنے کے لیے قانون کے دائرے میں رہنا لازم ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اس واقعہ کے بعد مقامی چرچ کے پادری، دیگر مذاہب کے لوگوں اور سول سوسائٹی کے اراکین نے مسلمانوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے جمعہ کی نماز کے دوران برستی بارش میں مسجد کے باہر حلقہ بنایا اور مسلمانوں کو اپنی حمایت کا یقین دلایا۔‘‘
ناروے میں قرآن پاک کے مقدس نسخے کو جلانے کی جو کوشش کی گئی، اس پر، اُسی شہر میں رہنے والے ایک صاحب محمد الیاس نے صورتِ حال پر روشنی ڈالی ہے۔ ہم اس سے اتفاق کریں یا نہ کریں، مگر بات سُن لینی چاہیے۔ الیاس صاحب رقم طراز ہیں:
’’ناروے کے شہر کرسٹین سینڈ کی آبادی اسّی ہزار ہے جس میں دو ہزار تعداد مسلمانوں کی ہے ایک جامع مسجد ہے اور کچھ مصلے بھی۔ مسلمانوں میں تیس سے زیادہ قومیتوں کے لوگ آباد ہیں۔ قانون کے مطابق مذہبی آزادی حاصل ہے، یورپ کے گنے چنے ملکوں میں ناروے ایسا ملک ہےi جو تبلیغی جماعتوں کو بلا حجت ویزے جاری کرتا ہے۔ ہمارے شہر کی انتظامیہ، سیاست دانوں کی بڑی تعداد میئر، پولیس اور دیگر ادارے مسلمانوں کے ساتھ بہت تعاون کرتے ہیں۔ ہمیں کبھی کسی معاملے میں شکایت نہیں ہوئی بلکہ جب مسلمانوں کو بڑی جگہ پر مسجد کی ضرورت پڑی تو سٹی کونسل میں دائیں بازو کی مخالفت کے باوجود ووٹنگ کروا کر نئی مسجد کی منظوری دلوائی گئی۔
ایک ستاسی سالہ ملحد آر نے تومیر نے کچھ سال پہلے مسلمانوں کے خلاف ایک تنظیم بنائی جس کا نام سیان
Sian
(یعنی سٹاپ اسلام اِن ناروے) رکھا۔ اسے کوئی خاص پذیرائی نہیں ملی نہ ہی اس کے مظاہروں میں قابلِ ذکر لوگ شامل ہوتے ہیں۔ پچھلے ہفتے آر نے تومیر نے مظاہرے کا اعلان کیا کہ قرآن پاک کو نعوذ باللہ جلایا جائے گا۔ مسلم لیڈرز اور مسجد کمیٹی کے لوگ فوراً سرگرم ہو گئے کہ اسے روکا جائے۔ انہوں نے میئر، پولیس اور لوکل گورنمنٹ کے ساتھ میٹنگ کی۔ پوری سٹی کونسل نے بیک زبان کہا کہ ایسی کسی حرکت کی اجازت قطعاً نہیں دی جائے گی۔ یہاں تک کہ مسلمان مخالف جماعت ڈیموکریٹ پارٹی نے بھی اعلان کیا کہ وہ جلانے والے عمل کو سپورٹ نہیں کرے گی۔ پولیس کمشنر نے سیان تنظیم کو بتایا کہ مظاہرہ آپ کا حق ہے لیکن قرآن پاک کو نہیں جلا سکتے۔ ایسا کرنے میں قانون کی گرفت میں آئیں گے۔
سیان تنظیم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو دہشت گرد کے طور پر پیش کرے۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے یہ مسلمانوں کو مشتعل کرتے رہتے ہیں مگر مسلمانوں نے ہمیشہ حکمت اور بصیرت سے اس کا جواب دیا۔ آر نے تومیر نے پہلے کوشش کی کہ نفرت کی باتوں کو ڈائیلاگ کی صورت میں پھیلائے۔ ان مجلسوں میں وہ ذاتِ اقدسؐ پر رکیک حملے کرتا تھا۔ اس کی باتوں کو مدلل انداز میں رد کیا گیا۔ اس کا پبلک پر مثبت اثر پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری مسجد میں ہر ہفتے یا دو ہفتے بعد ایک نارویجن اسلام قبول کرتا ہے۔ آرنے تومیر کی نفرت انگیز باتوں کی وجہ سے لوکل ادبی کونسل اور چرچ نے پابندی لگا دی کہ اسے کسی تقریب میں نہیں بلانا تا کہ نفرت پھیلانے کے لیے یہ اِن فورمز کو استعمال نہ کر سکے۔ اس کے بعد اس تنظیم کے پاس ایک ہی راستہ رہ گیا کہ وہ پبلک مقامات پر مظاہرہ کرے جس میں اسلام اور ذاتِ اقدسؐ کو ٹارگٹ کر سکے۔ اس تنظیم والے اپنے مظاہرے میں میڈیا کو بطور خاص بلاتے ہیں تا کہ کوئی مسلمان مشتعل ہو کر ان پر حملہ کرے تو وہ اس کی تصاویر اور ویڈیو وائرل کر کے معاشرے کو بتائیں کہ یہ لوگ ہماری روایات سے مطابقت نہیں رکھتے؛چنانچہ ہمارے اکابر نے، جن میں جامع مسجد کمیٹی کے صدر جناب اکمل علی سرِ فہرست ہیں، پہلے دن ہی سے یہ مؤقف اپنایا کہ اس کی کسی بھی غیر قانونی حرکت پر قانون خود اسے پکڑے گا لہٰذا مسلمان اس کی کسی اشتعال انگیزی پر برانگیختہ ہو کر اس کے پلان کو کامیاب نہ ہونے دیں۔
مظاہرے سے پہلے مسجد کی طرف سے اعلانات ہوئے کہ اگر آر نے تومیر نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی تو اسے روکنے کے لیے پولیس موجود ہو گی؛چنانچہ انتظامیہ کو اپنا کام کرنے دیا جائے اور مشتعل نہ ہوا جائے۔ ہفتے کے دن سیان کے مظاہرے میں صرف آٹھ افراد تھے جب کہ چار سو سے زیادہ لوگ مظاہرے کے خلاف موجود تھے جن میں نارویجنز کی قابلِ ذکر تعداد بھی تھی۔ پولیس نے رکاوٹیں لگا کر راستہ بند کیا ہوا تھا تا کہ لڑائی نہ ہو سکے۔ آرنے تومیر نے تقریر کے دوران کلام پاک کی ایک کاپی گرل
(grill)
پر رکھی جسے پولیس نے فوراً اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس دوران سیان کے دوسرے سرکردہ رکن لارس تھورسن نے جیب سے دوسرے نسخے کو نکال کر آگ لگانے کی کوشش کی۔ آگ بجھانے کے لیے پولیس فوراً دوڑی۔ انہی لمحوں میں عمردھابہ نے جسے سوشل میڈیا میں عمر الیاس لکھا جا رہا ہے رکاوٹوں کو عبور کیا اور لارس تھورسن کو مارنے دوڑا۔ لارس کو پولیس والوں نے گرفتار کر لیا۔
اس دھکم پیل میں مسلمان نوجوانوں نے پولیس کو بھی دھکے دیئے اور ٹھڈے مارے کہ وہ لارس تک پہنچ سکیں۔ بالآخر آرنے تومیر کو وہ موقع مل گیاجو اسے چاہیے تھا یعنی مسلمانوں کو اشتعال دلانا اور یہ ثابت کرنا کہ یہ مسلمان قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں۔ آج ان نوجوانوں کی تصاویر اور ویڈیو پورے ناروے میں وائرل ہو رہی ہیں جن پر لکھا ہے… ’’مسلمان رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے پولیس سے گتھم گتھا ہیں‘‘ اگر ہمارے جذباتی نوجوان تھوڑا سا صبر اور حوصلے سے کام لیتے تو اس واقعہ پر قانونی گرفت کی جا سکتی تھی۔ اگرچہ اس کی کوشش اب بھی جاری ہے اور مسجد کمیٹی نے بہترین وکیل کا بندوبست کیا ہے جو لارس تھورسن کو قرار واقعی سزا دلوانے کی کوشش کرے گا تا ہم ہمارا کیس کمزور بھی ہو گیا ہے کیونکہ حملہ آور نوجوان پولیس کی حراست میں ہیں۔ انہوں نے پولیس کو بھی زدوکوب کیا تھا جو قابل گرفت ہے۔
ہمیں اس سارے سانحہ کو ایک بڑے پرسپیکٹو میں دیکھنا ہو گا۔ یہاں کی مسجد انتظامیہ نے انتھک محنت اور کوشش کر کے سٹی لوکل کونسل اور انتظامی اداروں میں مسلمانوں کی ایک اچھی ساکھ بنائی ہے اور مجموعی طور پر مثبت تاثر حاصل کیا ہے۔ ناروے کے لوگ بھی آرنے تومیر کو قبول نہیں کرتے۔ اس کی یہاں کوئی پذیرائی نہیں۔ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ ننانوے فیصد آبادی اس مسئلے پر مسلمانوں کی حامی ہے لیکن اگر ہم یہاں کے قانون پر عمل نہ کریں تو یہ سب ملیامیٹ ہو سکتا ہے۔ یہ یہاں کا قانون ہی تو ہے جس نے ہمیں بھرپور مذہبی آزادی دی ہوئی ہے اور ہم بلا خوف اپنی مذہبی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پولیس، چرچ، انتظامیہ اور سیاست دان مسلمانوں کے ساتھ ہیں۔ مگر اس حمایت کو جاری رکھنے کے لیے قانون کے دائرے میں رہنا لازم ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اس واقعہ کے بعد مقامی چرچ کے پادری، دیگر مذاہب کے لوگوں اور سول سوسائٹی کے اراکین نے مسلمانوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے جمعہ کی نماز کے دوران برستی بارش میں مسجد کے باہر حلقہ بنایا اور مسلمانوں کو اپنی حمایت کا یقین دلایا۔‘‘