Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, July 29, 2015

سنگ اور سر

’’پاپا نے اجازت نہیں دی۔ کل تم ہسپتال نہیں جائو گی‘‘ یہ کہہ کر شوہر باہر نکل گیا۔ 
ڈاکٹر بننا اس کی زندگی کا سب سے بڑا خواب تھا۔ محلے کے غریب لوگوں کو عطائیوں‘ ٹھگوں‘ پیروں فقیروں کے پاس جاتا دیکھتی تو کُڑھتی۔ اس نے ان پڑھ عورتوں کو مزاروں کی مٹی پھانکتے دیکھا۔ میٹرک میں پہنچتے ہی فیصلہ کر لیا کہ ڈاکٹر بنے گی۔ ایف ایس سی میں سخت محنت کی۔ میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا۔ پانچ سال خونِ دل کو جیسے آنکھوں کی بینائی میں منتقل کرتی رہی۔ میڈیکل کی پڑھائی میں وقت کا تصور ختم ہو جاتا ہے۔ بقول عدمؔ ع 
جاگ اٹھے تو چل دیے‘ تھک گئے تو سو لیے 
کھانا پینا‘ اٹھنا بیٹھنا سب پڑھائی کے اردگرد گھومتا ہے۔ پھر وہ دن بھی آیا کہ وہ ڈاکٹر بن گئی۔ ہسپتال میں ملازمت بھی شروع کردی۔ غریب مریضوں کا خاص خیال رکھتی۔ اس کا کمرہ سب کے لیے کھلا تھا۔ بیماروں سے بھرا رہتا۔ ان پڑھ مریضوں کو ایک ایک بات آرام سے سمجھاتی۔ اسے یوں لگ رہا تھا۔ جیسے زندگی کسی کام آ رہی ہے۔ جیسے وہ کچھ حاصل کر رہی ہے۔ پھر رشتے آنے شروع ہو گئے۔ ماں باپ نے دیکھ بھال کر‘ سوچ سمجھ کر‘ ایک تعلیم یافتہ خاندان کے سمجھدار پڑھے لکھے اعلیٰ عہدے پر فائز لڑکے سے شادی کی۔ اس نے ایک ماہ کی ہسپتال سے چھٹی لی تھی۔ چھٹی ختم ہوئی‘ دوسرے دن اس نے ڈیوٹی پر حاضر ہونا تھا۔ شام کو اس کے شوہر نے اطلاع دی کہ اس کے والدین ملازمت کی اجازت نہیں دے رہے۔ اس نے بات چیت کرنے کی کوشش کی مگر سسر کی دلیل یہ تھی کہ ان کے خاندان میں عورتوں کے ملازمت کرنے کی روایت نہیں اور وہ یہ روایت برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ ساس کی ترجیح یہ تھی کہ وہ گھر کا کام کاج سنبھالے۔ شوہر ماں باپ کو ناراض نہیں کر سکتا تھا۔ آخری چارۂ کار کے طور پر اپنے باپ سے مدد مانگی لیکن باپ کا جواب فائنل اور ’’منطقی‘‘ تھا۔ ’’اب وہی تمہارا گھر ہے۔ شوہر جو چاہتا ہے وہی کرو‘‘۔ 
یہ حقیقی واقعہ صرف ایک گھر کی کہانی نہیں ہے۔ اس دوغلے اور منافقانہ معاشرے میں یہ بہت سے گھروں کا قصہ ہے۔ یقینا ایسی لڑکیاں بھی ہوں گی جو شادی کے بعد خود ہی ڈاکٹری کی ملازمت یا پریکٹس چھوڑ دیتی ہیں لیکن یہ تعداد اُن خواتین ڈاکٹروں کے مقابلے میں بہت کم ہے جنہیں اُن کے شوہر یا سسرال والے پریکٹس کی اجازت نہیں دیتے۔ معاشرہ دوغلا اس لیے ہے کہ لیڈی ڈاکٹر سے شادی کرنا بہت سے مردوں کا خواب ہے۔ اس خواب کو حقیقت بنانے کے لیے پورا گھرانہ رشتے کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔ جب لیڈی ڈاکٹر گھر میں آ جاتی ہے تو شوہر خواب کے اثر سے نکل آتا ہے۔ اگر وہ خود چاہتا بھی ہے تو خاندان کا سماجی دبائو برداشت نہیں کر پاتا۔ سسر کی ترجیح یہ ہے کہ اُسے صبح صبح گرم پراٹھا اور آملیٹ ملے۔ ساس تسبیح پکڑ کر تخت پوش پر بیٹھ جاتی ہے کہ کام کاج کرنے والی بے دام ملازمہ مل گئی ہے۔ یہ کالم نگار نصف درجن سے زیادہ ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ صاحبان کو جانتا ہے جو لیڈی ڈاکٹر سے شادی کرنے کے لیے مرے جاتے تھے اور جنہوں نے ان لیڈی ڈاکٹروں کو شادی کے بعد ساری زندگی سٹیتھوسکوپ‘ تھرما میٹر اور سفید کوٹ سے مکمل پرہیز کرایا۔ یہ نہ سوچا کہ اس ان پڑھ‘ بیمار‘ بھوکی‘ ننگی قوم کے لیے ایک ایک ڈاکٹر‘ ایک ایک لیڈی ڈاکٹر کتنی قیمتی ہے۔ ظلم یہ ہے کہ پنجاب اور سندھ میں ستر فیصد تعداد میڈیکل کالجوں میں طالبات کی ہے۔ ان میں سے ایک کثیر تعداد 
اُن خواتین کی ہے جنہیں شادی کے بعد بزور گھر بٹھا لیا جاتا ہے۔ 
اصل مسئلہ خواتین ڈاکٹروں کا نہیں‘ اس سلوک کا ہے جو معاشرے میں عورت سے شادی کے بعد روا رکھا جاتا ہے اٹھارہ جولائی کو جو ہماری تحریر والدین سے حسن سلوک کے بارے میں شائع ہوئی ہے اس کی تائید میں جہاں کئی قارئین نے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے وہاں ردعمل میں بھی ای میلز کی کثیر تعداد موصول ہوئی ہے۔ جن بدقسمت اصحاب نے ماں باپ کی زندگی میں ان کی قدر نہ کی اور ان کی خدمت اور فرماں برداری سے محروم رہے‘ ان کا کہنا ہے کہ وہ شدتِ ندامت سے کفِ افسوس مل رہے ہیں اور ایک سلگتی ہوئی زندگی گزار رہے ہیں۔ دوسری طرف بہت سی خواتین کا نکتۂ نظر یہ ہے کہ والدین کو یہ بھی تو معلوم ہونا چاہیے کہ جس آدم زادی کو وہ بہو بنا کر گھر میں لائے ہیں‘ کچھ حقوق اس کے بھی ہیں۔ میاں اس کا ہاتھ بٹائے تو بیوی کا غلام ہونے کے طعنے ملتے ہیں۔ ملازمت کرے تو ساس اور نندیں طنز سے میم صاحب کہتی ہیں۔ ساتھ ہی اس سے توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ گھر کا بھی سارا کام کرے خواہ ملازمت سے شام کے وقت واپس آئے اور تھکی ہاری ہی کیوں نہ ہو۔ اس عجیب و غریب معاشرے میں ایسی مثالوں کی بھی کمی نہیں کہ لڑکا سی ایس پی لڑکی سے شادی کرتا ہے اور پھر اسے ملازمت سے استعفیٰ دینے کا حکم دیتا ہے! 
اس امر کی وضاحت لازم ہے کہ ماں باپ کی فرماں برداری اور خدمت سے مراد اپنی رفیقۂ خیات کے حقوق کی پامالی نہیں۔ وہ انسان ہی کیا ہوا جو توازن نہ برقرار رکھ سکے اور عقل سے کام نہ لے۔ ماں باپ کی فرماں برداری کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کسی پر ظلم کیا جائے۔ ہاں یہ ہے کہ اُن سے اختلاف کرتے وقت ادب و ا حترام کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے‘ دلیل عجز سے پیش کی جائے اور نرم گفتاری کا دامن مضبوطی سے پکڑا جائے۔ 
تعلیم عام ہونے اور اسلام پسندی کے سارے دعووں کے باوجود عورت کے معاملے میں یہ معاشرہ افراط و تفریط کا شکار ہے۔ کوئی تو بیوی کو خوش کرنے کے لیے ماں باپ سے تعلق ختم کردیتا ہے اور کوئی ماں باپ کی تنگ نظری اور ’’روایت‘‘ پسندی کا پاس کرتے ہوئے بے قصور بیوی کی زندگی جہنم بنا دیتا ہے‘ بچے نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں‘ زدوکوب تک سے گریز نہیں کیا جاتا۔ معاشرے کا خوف رہتا ہے نہ خدا کا! 
منافقت کا یہ عالم ہے کہ اپنی بیٹی کے لیے الگ معیار ہے اور دوسروں کی بیٹی کے لیے الگ۔ ایک عورت سے اس لیے شادی رچائی جاتی ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے‘ ملازمت کرتی ہے‘ خوش لباس ہے‘ فیشن ایبل ہے‘ خود گاڑی چلاتی ہے‘ آزادانہ گھومتی پھرتی ہے اور فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ شادی کے بعد یہی خصوصیات‘ جو شادی کا محرکات بنیں‘ نقائص میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ اب اُس کی اعلیٰ تعلیم کھلنے لگتی ہے۔ دماغ پر احساسِ کمتری کا زہر چڑھنے لگتا ہے۔ اس کی خوش لباسی زہر لگنے لگتی ہے۔ گاڑی چلا کر کہیں جائے تو شک کا زہر پھیلنے لگتا ہے۔ فیصلے کرے تو خودسر قرار دیا جاتا ہے۔ یہ حالت تو تعلیم یافتہ طبقے میں ہے۔ رہا زیریں‘ ناخواندہ طبقہ تو وہاں عورت کو مارا پیٹا جاتا ہے۔ اس کے ماں باپ اور بھائیوں کو تھانوں کچہریوں میں گھسیٹا جاتا ہے۔ طلاقیں ہوتی ہیں۔ پھر کبھی عدالتوں کے اور کبھی مولوی صاحبان کے دروازے کھٹکھٹائے جاتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندانوں پر بھی گہری منافقت کی میلی مکروہ چادر تنی ہوئی ہے۔ حقوقِ نسواں پر لیکچر دینے والے روشن خیال حضرات بیٹیوں کی زبردستی شادی کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ دوسروں کو قال اللہ اور قال الرسول سمجھانے والے حضرات بیٹیوں کو جائداد سے محروم کرتے وقت شریعت کے سارے سبق بھول جاتے ہیں۔ بہنوں کو ان کے جائز حقوق دینے ہوں تو مرگی کے دورے پڑنے لگتے ہیں۔ بیٹیوں کے بارے میں جو کچھ اسلام نے بتایا ہے‘ اس پر عمل کرنے کا وقت آئے تو رہ رہ کر قولنج کا درد اُٹھنے لگتا ہے! امہات المومنین کی موجودگی میں آقائے دو جہاںؐ اپنے کپڑے خود دھو لیتے تھے‘ جوتے خود مرمت کر لیتے تھے۔ گھر کے دوسرے کام بھی اپنے دستِ مبارک سے کرتے تھے۔ اگر ایسا کرنے سے آپؐ کی شانِ اقدس میں کمی آتی تھی نہ رسالت کا مقامِ بلند متاثر ہوتا تھا تو اور ایسا کون سا منصب دار یا عالی مرتبت ہے جس کی عزت و شان‘ نعوذ باللہ‘ آپؐ کے مرتبے سے بلند ہو؟ 
بہو سے بدسلوکی کرتے وقت اپنی بیٹی کا سوچنا چاہیے اور بیوی سے بزدلوں کی طرح دھونس دھاندلی کرنے والے کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کی بہن نے بھی کسی کی بیوی بننا ہے   ؎ 
ہم نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسدؔ 
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا

Monday, July 27, 2015

اب ایسے چاک پر کوزہ گری ہوتی نہیں ہے


بیماری تھی اور ایسی کہ ناقابلِ بیان! شاہی ڈاکٹر عاجز آ گیا۔ بالآخر ڈاکٹروں کا بورڈ بٹھایا گیا، تشخیص پر بحث ہوئی اور پھر اس بات پر کہ دوا کون سی تجویز کی جائے! متفقہ فیصلہ اس پر ہوا کہ انسان کا پِتّہ ہی شفا دے سکے گا بشرطیکہ عام آدمی کا نہ ہو بلکہ صرف اُس شخص کا جس میں فلاں فلاں صفات ہوں۔ اب ڈھنڈیا پڑ گئی۔ سوال بادشاہ کا نہیں! سلطنت کی بقا کا تھا۔ بادشاہوں کے بغیر کیا سلطنت اور کون سے عوام، بادشاہ محفوظ ہے اور برسرِ اقتدار ہے تو سب کچھ ہے! ایک دہقان کا لڑکا ان مخصوص صفات کا حامل ملا۔ لڑکے کے ماں باپ کو سلطنت کی اہمیت سمجھائی گئی۔ وہ بادشاہ کی جان بچانے کے لئے بیٹے کی زندگی قربان کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ ہاں! کچھ قیمت اِس آمادگی کی انہوں نے ضرور وصول کی! لیکن اصل مسئلہ ماں باپ کی رضامندی کا نہ تھا، عدلیہ کا تھا! مسلمانوں کی تاریخ میں عدلیہ نے ہمیشہ حقیقت پسندی کا ثبوت دیا ہے۔ سعدی کی یہ حکایت جو ہم بیان کر رہے ہیں، ایک مثال ہے اُس تابناک کردار کی جو ہماری عدلیہ ہمیشہ سے ادا کرتی رہی ہے، ملک و قوم کے لئے، سلطنت کے لئے، بادشاہ کی سلامتی کے لئے، بادشاہ کے اقتدار کی بقا کی خاطر! اُس بادشاہ کی عدلیہ نے بھی فیصلہ دیا کہ بادشاہ اور اس کے اقتدار کی سلامتی کے لئے رعیت میں سے کسی کا خون بہا دینا جائز ہے! 
حکایت کا بقیہ حصہ عدلیہ کے تابناک کردار کے متعلق نہیں، مگر سنا دینے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں! جلاد لڑکے کا سر قلم کرنے لگا تو لڑکے نے منہ آسمان کی طرف کیا، جون ایلیا نے پوچھا تھا   ؎ 
یہ جو تکتا ہے آسمان کو تو 
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا؟ 
آسمان کی طرف منہ کر کے وہ ہنسا، بادشاہ نے حیرت سے پوچھا کہ ہنسی کا کون سا موقع ہے! لڑکے نے جواب دیا کہ جہاں پناہ! بچوں کے ناز ماں باپ اٹھاتے ہیں، یہاں تو انہوں نے بچے کی زندگی کا معاوضہ ہی وصول کر لیا۔ پھر عدلیہ پر تکیہ ہوتا ہے، اس نے بھی بادشاہ کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے، رعیت کا مائی باپ بادشاہ ہوتا ہے، وہ تو خود میرے پِتے کا طلب گار ہے! اب خدا ہی ہے جس کو مخاطف کر کے میں ہنس رہا تھا۔ بادشاہ کا دل پسیج گیا۔ اس نے کہا کہ ایک بے گناہ کا خون بہانے سے میرا ہلاک ہو جانا بہتر ہے! لڑکے کی جان بخشی ہوئی۔ کہتے ہیں اُسی ہفتے بادشاہ روبصحت ہو گیا۔ 
لیکن یہ اُس زمانے کی باتیں ہیں جو ہمارا نہیں! ہمارا زمانہ اور ہے! بادشاہ کا رعیت کو اپنے اوپر ترجیچ دینا؟ آج کے عہد میں تو ایسا سوچنا بھی حماقت ہے! 
بات عدلیہ کے قابلِ رشک کردار کی ہو رہی تھی۔ ہماری تاریخ سنہری مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ سلطنتِ عثمانیہ کی عدلیہ نے رُولنگ دی تھی کہ جو بھی تخت نشین ہو، اس کا اپنے بھائیوں کو قتل کرنا جائز ہے، تاکہ جمہوریت، نہیں! معاف کیجئے گا، سلطنت کو استحکام نصیب ہو! 
شہنشاہ اورنگ زیب عالم گیر بھی عدلیہ سے پوچھے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاتا تھا۔ باپ کو ’’عوام‘‘ کی بہتری کے لئے سالہاسال نظربند رکھا۔ معلوم نہیں عدلیہ سے پوچھا تھا یا نہیں، مگر اتنا سب جانتے ہیں کہ اس معاملے میں عدلیہ نے کوئی ازخود نوٹس نہ لیا۔ پھر جب دارا شکوہ قید ہوا اور اس نے بادشاہ کو رحم کی اپیل کی تو بادشاہ نے عدلیہ کی طرف دیکھا۔ عدلیہ نے سلطنت کے استحکام اور عوام کے بھلے کی خاطر قتل کا فیصلہ دیا۔ اورنگ زیب کا دوسرا بھائی مراد گوالیار کے قلعے میں قید تھا۔ تین سال ہو گئے تھے۔ بھائی صاحب داعیِٔ اجل کو لبیک ہی نہیں کہہ رہے تھے۔ سوچ بچار ہوئی۔ معلوم ہوا کہ مراد نے اپنے ایک قریبی امیر علی ناطق کو گجرات میں سزائے موت دی تھی۔ علی ناطق کے بیٹے کو کہا گیا کہ عدالت میں مقدمہ دائر کرو کہ ’’خون کے بدلے خون‘‘ کے اصول کی رو سے قاتل کو قتل کیا جائے۔ مورخ لکھتے ہیں کہ بادشاہ نے گوالیار میں متعین جج صاحب کو ہدایت کی کہ قانون کے مطابق فیصلہ کیا جائے اور شہزادے سے خون کا بدلہ لیا جائے! 
جون ایلیا پھر یاد آ گیا   ؎ 
نسبتِ علم ہے بہت حاکمِ وقت کو عزیز 
اُس نے تو کارِ جہل بھی بے علما نہیں کیا 
خیر… اس شعر کا ہمارے نفسِ مضمون سے کوئی تعلق نہیں! ہم تو عدلیہ کی روشن روایات کا ذکر کر رہے تھے! اسمبلی تحلیل کی گئی تو مولوی تمیزالدین خان نے عدلیہ کے چوبی منقش دروازے پر جا دستک دی! کھٹ کھٹ کھٹ… بقول منیر نیازی ع 
کھولو یہ بھاری دروازہ! 
مجھ کو اندر آنے دو 
اس کے بعد اک لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور! 
عدلیہ کا بھاری دروازہ مولوی تمیزالدین خان پر کُھلا اور عدلیہ نے سلطنت عثمانیہ اور مغل سلطنت کی عظیم روایات برقرار رکھتے ہوئے حکومت کے حق میں فیصلہ دیا۔ ہاں! سُنا ہے کہ ایک غیر مسلم جج کارنیلیئس نامی تھا جس نے اختلافی نوٹ لکھا تھا اور اسمبلی کو تحلیل کرنے کی مخالفت کی تھی! اب ایک غیر مسلم کو اسلامی ملک کی فلاح و بہبود سے کیا غرض! مولوی تمیزالدین خان نے مُنہ کی کھائی… اور بقول منیر نیازی ع 
اس کے بعد اک لمبی چُپ اور تیز ہوا کا شور! 
لمبی چُپ میں ارتعاش ایک بار پھر اُس وقت پیدا ہوا، جب مارشل لاء کے خلاف بیگم نصرت بھٹو نے عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ عدلیہ نے پھر انصاف کیا اور مارشل لاء کو عوامی بہبود کی خاطر ناگزیر قرار دیا! 
2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے عدلیہ نے جو حالیہ رولنگ دی ہے اُس پر کچھ کوتاہ نظر، کچھ عاقبت نااندیش، اعتراض کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔ کہیں ماڈل ٹاؤن کے چودہ افراد کے قتل کی بات کی جا رہی ہے تو کہیں کچھ اور کہا جا رہا ہے! اللہ کے بندو! سلطنت کے استحکام کی فکر کرو! جمہوریت کے تسلسل کو غنیمت جانو! اگر اڑھائی کروڑ بیلٹ پیپر گم ہو گئے تو کیا ہوا! اڑھائی کروڑ بیلٹ پیپر… کاغذ کے اڑھائی کروڑ بے جان ٹکڑے… کوڑے کرکٹ کے ڈھیر… زیادہ قیمتی ہیں یا بیس کروڑ عوام کی فلاح؟ ہم بھلا کاغذ کے بے جان ٹکڑوں کی خاطر اپنے بادشاہوں کو کیوں ناخوش کرتے رہیں! اس سے پہلے ہمارے ایک بادشاہ جنرل ضیاء الحق نے آئین کو کاغذ کا بے جان ٹکڑا کہا تھا جسے وہ آسانی سے پارہ پارہ کر سکتا تھا! 
یہ کیا ہوا؟ باہر ہوا کا شور ہے! تیز ہوا کا شور! میں کھڑکی کے شیشوں سے باہر دیکھتا ہوں، پتے اُڑ رہے ہیں۔ ہر طرف ویرانی ہے! اندھیرا بڑھ رہا ہے۔ ایک افق سے دوسرے افق تک تاریکی کا بدصورت ہاتھ بڑھے جا رہا ہے۔ دشت کی مرگ آسا وسعت ہر طرف چھا رہی ہے۔ خیمے اکھڑ رہے ہیں۔ طنابیں ٹوٹ رہی ہیں۔ ریت کے ٹیلاب ایسے چاک پر کوزہ گری ہوتی نہیں ہے
بیماری تھی اور ایسی کہ ناقابلِ بیان! شاہی ڈاکٹر عاجز آ گیا۔ بالآخر ڈاکٹروں کا بورڈ بٹھایا گیا، تشخیص پر بحث ہوئی اور پھر اس بات پر کہ دوا کون سی تجویز کی جائے! متفقہ فیصلہ اس پر ہوا کہ انسان کا پِتّہ ہی شفا دے سکے گا بشرطیکہ عام آدمی کا نہ ہو بلکہ صرف اُس شخص کا جس میں فلاں فلاں صفات ہوں۔ اب ڈھنڈیا پڑ گئی۔ سوال بادشاہ کا نہیں! سلطنت کی بقا کا تھا۔ بادشاہوں کے بغیر کیا سلطنت اور کون سے عوام، بادشاہ محفوظ ہے اور برسرِ اقتدار ہے تو سب کچھ ہے! ایک دہقان کا لڑکا ان مخصوص صفات کا حامل ملا۔ لڑکے کے ماں باپ کو سلطنت کی اہمیت سمجھائی گئی۔ وہ بادشاہ کی جان بچانے کے لئے بیٹے کی زندگی قربان کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ ہاں! کچھ قیمت اِس آمادگی کی انہوں نے ضرور وصول کی! لیکن اصل مسئلہ ماں باپ کی رضامندی کا نہ تھا، عدلیہ کا تھا! مسلمانوں کی تاریخ میں عدلیہ نے ہمیشہ حقیقت پسندی کا ثبوت دیا ہے۔ سعدی کی یہ حکایت جو ہم بیان کر رہے ہیں، ایک مثال ہے اُس تابناک کردار کی جو ہماری عدلیہ ہمیشہ سے ادا کرتی رہی ہے، ملک و قوم کے لئے، سلطنت کے لئے، بادشاہ کی سلامتی کے لئے، بادشاہ کے اقتدار کی بقا کی خاطر! اُس بادشاہ کی عدلیہ نے بھی فیصلہ دیا کہ بادشاہ اور اس کے اقتدار کی سلامتی کے لئے رعیت میں سے کسی کا خون بہا دینا جائز ہے! 
حکایت کا بقیہ حصہ عدلیہ کے تابناک کردار کے متعلق نہیں، مگر سنا دینے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں! جلاد لڑکے کا سر قلم کرنے لگا تو لڑکے نے منہ آسمان کی طرف کیا، جون ایلیا نے پوچھا تھا   ؎ 
یہ جو تکتا ہے آسمان کو تو 
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا؟ 
آسمان کی طرف منہ کر کے وہ ہنسا، بادشاہ نے حیرت سے پوچھا کہ ہنسی کا کون سا موقع ہے! لڑکے نے جواب دیا کہ جہاں پناہ! بچوں کے ناز ماں باپ اٹھاتے ہیں، یہاں تو انہوں نے بچے کی زندگی کا معاوضہ ہی وصول کر لیا۔ پھر عدلیہ پر تکیہ ہوتا ہے، اس نے بھی بادشاہ کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے، رعیت کا مائی باپ بادشاہ ہوتا ہے، وہ تو خود میرے پِتے کا طلب گار ہے! اب خدا ہی ہے جس کو مخاطف کر کے میں ہنس رہا تھا۔ بادشاہ کا دل پسیج گیا۔ اس نے کہا کہ ایک بے گناہ کا خون بہانے سے میرا ہلاک ہو جانا بہتر ہے! لڑکے کی جان بخشی ہوئی۔ کہتے ہیں اُسی ہفتے بادشاہ روبصحت ہو گیا۔ 
لیکن یہ اُس زمانے کی باتیں ہیں جو ہمارا نہیں! ہمارا زمانہ اور ہے! بادشاہ کا رعیت کو اپنے اوپر ترجیچ دینا؟ آج کے عہد میں تو ایسا سوچنا بھی حماقت ہے! 
بات عدلیہ کے قابلِ رشک کردار کی ہو رہی تھی۔ ہماری تاریخ سنہری مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ سلطنتِ عثمانیہ کی عدلیہ نے رُولنگ دی تھی کہ جو بھی تخت نشین ہو، اس کا اپنے بھائیوں کو قتل کرنا جائز ہے، تاکہ جمہوریت، نہیں! معاف کیجئے گا، سلطنت کو استحکام نصیب ہو! 
شہنشاہ اورنگ زیب عالم گیر بھی عدلیہ سے پوچھے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاتا تھا۔ باپ کو ’’عوام‘‘ کی بہتری کے لئے سالہاسال نظربند رکھا۔ معلوم نہیں عدلیہ سے پوچھا تھا یا نہیں، مگر اتنا سب جانتے ہیں کہ اس معاملے میں عدلیہ نے کوئی ازخود نوٹس نہ لیا۔ پھر جب دارا شکوہ قید ہوا اور اس نے بادشاہ کو رحم کی اپیل کی تو بادشاہ نے عدلیہ کی طرف دیکھا۔ عدلیہ نے سلطنت کے استحکام اور عوام کے بھلے کی خاطر قتل کا فیصلہ دیا۔ اورنگ زیب کا دوسرا بھائی مراد گوالیار کے قلعے میں قید تھا۔ تین سال ہو گئے تھے۔ بھائی صاحب داعیِٔ اجل کو لبیک ہی نہیں کہہ رہے تھے۔ سوچ بچار ہوئی۔ معلوم ہوا کہ مراد نے اپنے ایک قریبی امیر علی ناطق کو گجرات میں سزائے موت دی تھی۔ علی ناطق کے بیٹے کو کہا گیا کہ عدالت میں مقدمہ دائر کرو کہ ’’خون کے بدلے خون‘‘ کے اصول کی رو سے قاتل کو قتل کیا جائے۔ مورخ لکھتے ہیں کہ بادشاہ نے گوالیار میں متعین جج صاحب کو ہدایت کی کہ قانون کے مطابق فیصلہ کیا جائے اور شہزادے سے خون کا بدلہ لیا جائے! 
جون ایلیا پھر یاد آ گیا   ؎ 
نسبتِ علم ہے بہت حاکمِ وقت کو عزیز 
اُس نے تو کارِ جہل بھی بے علما نہیں کیا 
خیر… اس شعر کا ہمارے نفسِ مضمون سے کوئی تعلق نہیں! ہم تو عدلیہ کی روشن روایات کا ذکر کر رہے تھے! اسمبلی تحلیل کی گئی تو مولوی تمیزالدین خان نے عدلیہ کے چوبی منقش دروازے پر جا دستک دی! کھٹ کھٹ کھٹ… بقول منیر نیازی ع 
کھولو یہ بھاری دروازہ! 
مجھ کو اندر آنے دو 
اس کے بعد اک لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور! 
عدلیہ کا بھاری دروازہ مولوی تمیزالدین خان پر کُھلا اور عدلیہ نے سلطنت عثمانیہ اور مغل سلطنت کی عظیم روایات برقرار رکھتے ہوئے حکومت کے حق میں فیصلہ دیا۔ ہاں! سُنا ہے کہ ایک غیر مسلم جج کارنیلیئس نامی تھا جس نے اختلافی نوٹ لکھا تھا اور اسمبلی کو تحلیل کرنے کی مخالفت کی تھی! اب ایک غیر مسلم کو اسلامی ملک کی فلاح و بہبود سے کیا غرض! مولوی تمیزالدین خان نے مُنہ کی کھائی… اور بقول منیر نیازی ع 
اس کے بعد اک لمبی چُپ اور تیز ہوا کا شور! 
لمبی چُپ میں ارتعاش ایک بار پھر اُس وقت پیدا ہوا، جب مارشل لاء کے خلاف بیگم نصرت بھٹو نے عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ عدلیہ نے پھر انصاف کیا اور مارشل لاء کو عوامی بہبود کی خاطر ناگزیر قرار دیا! 
2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے عدلیہ نے جو حالیہ رولنگ دی ہے اُس پر کچھ کوتاہ نظر، کچھ عاقبت نااندیش، اعتراض کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔ کہیں ماڈل ٹاؤن کے چودہ افراد کے قتل کی بات کی جا رہی ہے تو کہیں کچھ اور کہا جا رہا ہے! اللہ کے بندو! سلطنت کے استحکام کی فکر کرو! جمہوریت کے تسلسل کو غنیمت جانو! اگر اڑھائی کروڑ بیلٹ پیپر گم ہو گئے تو کیا ہوا! اڑھائی کروڑ بیلٹ پیپر… کاغذ کے اڑھائی کروڑ بے جان ٹکڑے… کوڑے کرکٹ کے ڈھیر… زیادہ قیمتی ہیں یا بیس کروڑ عوام کی فلاح؟ ہم بھلا کاغذ کے بے جان ٹکڑوں کی خاطر اپنے بادشاہوں کو کیوں ناخوش کرتے رہیں! اس سے پہلے ہمارے ایک بادشاہ جنرل ضیاء الحق نے آئین کو کاغذ کا بے جان ٹکڑا کہا تھا جسے وہ آسانی سے پارہ پارہ کر سکتا تھا! 
یہ کیا ہوا؟ باہر ہوا کا شور ہے! تیز ہوا کا شور! میں کھڑکی کے شیشوں سے باہر دیکھتا ہوں، پتے اُڑ رہے ہیں۔ ہر طرف ویرانی ہے! اندھیرا بڑھ رہا ہے۔ ایک افق سے دوسرے افق تک تاریکی کا بدصورت ہاتھ بڑھے جا رہا ہے۔ دشت کی مرگ آسا وسعت ہر طرف چھا رہی ہے۔ خیمے اکھڑ رہے ہیں۔ طنابیں ٹوٹ رہی ہیں۔ ریت کے ٹیلوں میں کہیں کہیں ہڈیاں اور انسانی جسموں کے ٹکڑے نظر آتے ہیں! دُور… پانی کی لہریں چمکتی دکھائی دیتی ہیں مگر آہ! وہ پانی نہیں! سراب ہے! محض سراب! 
کس سے پوچھیں؟ تاریخ سے؟ یا اپنے بخت سے؟ لیکن کون سی تاریخ؟ کون سا بخت؟ ایک آواز آہستہ آہستہ کہیں دُور سے آ رہی ہے! میں کان لگاتا ہوں! یہ شاہین عباس کی غزل ہے۔ میرا بخت گا رہا ہے! سیاہ رنگ کا بخت! لیکن آواز کتنی دردناک ہے!!   ؎ 
اب ایسے چاک پر کوزہ گری ہوتی نہیں ہے 
کبھی ہوتی ہے مٹی اور کبھی ہوتی نہیں ہے 
ہمیں ان حالوں ہونا بھی کوئی آسان ہے کیا 
محبت ایک ہے اور ایک بھی ہوتی نہیں ہے 
دیا پہنچا نہیں ہے، آگ پہنچی ہے گھروں تک 
پھر ایسی آگ جس سے روشنی ہوتی نہیں ہے 
نکل جاتے ہیں سر پر بے سر و سامانی لادے 
بھری لگتی ہے گٹھڑی اور بھری ہوتی نہیں ہے
وں میں کہیں کہیں ہڈیاں اور انسانی جسموں کے ٹکڑے نظر آتے ہیں! دُور… پانی کی لہریں چمکتی دکھائی دیتی ہیں مگر آہ! وہ پانی نہیں! سراب ہے! محض سراب! 
کس سے پوچھیں؟ تاریخ سے؟ یا اپنے بخت سے؟ لیکن کون سی تاریخ؟ کون سا بخت؟ ایک آواز آہستہ آہستہ کہیں دُور سے آ رہی ہے! میں کان لگاتا ہوں! یہ شاہین عباس کی غزل ہے۔ میرا بخت گا رہا ہے! سیاہ رنگ کا بخت! لیکن آواز کتنی دردناک ہے!!   ؎ 
اب ایسے چاک پر کوزہ گری ہوتی نہیں ہے 
کبھی ہوتی ہے مٹی اور کبھی ہوتی نہیں ہے 
ہمیں ان حالوں ہونا بھی کوئی آسان ہے کیا 
محبت ایک ہے اور ایک بھی ہوتی نہیں ہے 
دیا پہنچا نہیں ہے، آگ پہنچی ہے گھروں تک 
پھر ایسی آگ جس سے روشنی ہوتی نہیں ہے 
نکل جاتے ہیں سر پر بے سر و سامانی لادے 
بھری لگتی ہے گٹھڑی اور بھری ہوتی نہیں ہے

Saturday, July 25, 2015

دو تصویریں

یہ دو تصویریں کافی ہیں۔ 
قوموں کے حا ل کو سمجھنے اور مستقبل کو جاننے کے لیے ہزاروں صفحات کی کتابیں پڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے نہ سالہاسال مشاہدہ کرنے کی۔ گہری تحقیق کے بعد حُمَقَاء اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں جس پر مجذوب ایک نظر ڈال کر پہنچ جاتے ہیں۔ وہ لطیفہ نما واقعہ خاصا پامال ہو چکا ہے ۔ سمندر کے کنارے ساحل کی نرم آسودہ ریت پر ایک چینی آنکھیں بند کیے مزے سے لیٹا تھا اور جانفزا ہوا کے جھکوروں سے لطف اندوز ہو رہا تھا ۔ ایک امریکی یہودی وہاں سے گزرا ۔ اسے افسوس ہوا کہ افیون زدہ چینی سونا سی عمر اور موتی سا وقت ضائع کر رہا ہے۔ اس کی پسلی کو پائوں سے ٹھوکر ماری اور کہا اُٹھو‘ بے وقوف‘ کچھ کام کرو۔ وقت ضائع کیوں کر رہے ہو۔ چینی نے نیم واآنکھوں سے اسے دیکھا اور پوچھا‘ کیا کروں؟
’’یہ اتنی کشتیاں لانچیں اور سٹیمر کھڑے ہیں۔ ان میں کام تلاش کرو۔‘‘
’’پھر کیا ہو گا؟‘‘
’’تمہاری شہرت اچھے کارکن کی ہو جائے گی‘ تنخواہ بڑھے گی امیر ہو جائو گے۔
’’پھر؟‘‘
’’پھر تم اپنی ایک لانچ خرید لینا۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’پھر کئی لانچیں لے لینا‘‘
’’پھر؟‘‘
’’پھر تم بہت سے بحری جہازوں کے مالک ہو جائو گے۔ ارب پتی بن جائو گے۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’پھر ساحل کی ریت پر لیٹ کر مزے کرنا۔‘‘
چینی نے احمق امریکی یہودی پر نگاہ افسوس ڈالی اور آہستہ سے کہا ؛’’بے وقوف! وہی تو میں اب کر رہا ہوں!‘‘
یہ دو تصویریں وہی کچھ بتا رہی ہیں جو ورلڈ بینک کی ہزارہا صفحوں کی رپورٹیں ‘ آئی ایم ایف کے ضخیم جائزے اور پلاننگ کمیشن میں گھومتی ہوئی قیمتی کرسیوں پر بیٹھے فُٹ فُٹ لمبے سگار پیتے ‘ مراعات گزیدہ‘ منجمد دماغوں والے متکّبر ‘ برخو د غلط‘ ملک کی زمینی حقیقتوں سے یکسر ناواقف بیورو کریٹ درجنوں بیرون ملک دوروں کے بعد غلط انگریزی میں لکھے گئے ٹور نوٹس 
(Tour Notes)
 کی شکل میں پیش کرتے ہیں!
پہلی تصویر کراچی کی ہے۔ ایک معروف سیاسی پارٹی کے نوجوان سربراہ صوفے پر تشریف فرما ہیں۔ ساتھ میز پر ملک اور پارٹی کے جھنڈے لگے ہیں۔ نوجوان سربراہ کے ساتھ صوفے کے دوسرے کنارے پر پارٹی کی معروف رہنما‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون بیٹھی ہیں۔ سامنے والے صوفے پر ایک مذہبی روحانی شخصیت تشریف فرما ہیں۔ سر پر دستار ہے۔ ریش مبارک خضاب سے سیاہ ہیں۔ یوں لگتا ہے شلوار قمیض کے بجائے انہوں نے لمبی قبا زیب تن کر رکھی ہے۔ نمایاں ترین چیز تصویر میں یہ ہے کہ ان کے دونوں ہاتھ‘ ایک دوسرے میں پیوست‘ ان کی گود میں رکھے ہیں اور نظریں نوجوان رہنما پر ہیں نہ خاتون سیاست دان پر۔ ان کی نظریں جھکی ہوئی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے سامنے پڑی میز کو دیکھ رہے ہیں۔ خاتون سیاست دان‘ اِس شخصیت کو جس انداز سے دیکھ رہی ہیں‘ اُس سے تاثر ملتا ہے کہ وہ سب کچھ‘ اور بہت کچھ جانتی اور سمجھتی ہیں۔ نوجوان سربراہ کے چہرے پر معصومیت ہے‘ کچھ کچھ شائبہ حیرت کا ہے!نوجوان سربراہ کو‘ جو نووارد ہے اور معصوم بھی‘ ایک مختصر سی بریفنگ ملاقات سے پہلے ضرور دی گئی ہو گی مگر تفصیلات سے اور لہروں
(Currents)
سے اور سمندر کے اندر چھپی ہوئی لہروں
( Under Currents)
سے وہ یقینا آگاہ نہ ہو گا۔ اسے حج کے سکینڈل کی ساری تفصیلات کا شاید ہی علم ہو۔ غالباً اسے باریک تفصیلات میں دلچسپی بھی نہ ہو۔ اسے کیا علم کہ پارٹی سربراہی کے دوران عام سیاست دانوں سے نمٹنا مشکل ہوتا ہے تو سیاست میں آنے والے مذہبی روحانی حضرات سے نمٹنا از حد مشکل ہوتا ہے۔ ایسے ایسے پُر پیچ وخم طُرّے ہیں کہ بڑے بڑے پارٹی رہنما ان میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ایسی ایسی اجلی عبائیں ہیں کہ نظافت کی روشن آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے۔
یہ روحانی مذہبی شخصیت اپنی ہی پارٹی کے عہد حکومت میں داخلِ زنداں رہی ۔ ڈیڑھ سال بعد ضمانت ہوئی۔ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ جب تک ان کی پارٹی کے وزیر اعظم اقتدار میں ہیں‘ وہ جیل میں رہیں گے۔ بلٹ پروف کاروں کے مالک اور ’’ایم بی بی ایس‘‘ کرنے والے بچ گئے اور حضرت پھنس گئے۔ مولانا کوثر نیازی تو حیات نہیں‘ عقل مند ہوتے تو مذہب کے نام پر سیاست کرنے کا فن سیکھنے کے لیے ڈی آئی خان جا کر زانوئے تلمذ تہہ کرتے۔
مگر قومیں وہی فلاح پاتی ہیں جن کی مذہبی اور روحانی قیادتیں اقتدار کے در پر نہیں جھکتیں۔ بلکہ یہ ان کے حکمران ہوتے ہیں جو علماء ‘ صوفیا اور سکالرز کے آستانوں پر حاضری دیتے ہیں   ؎
قوموں کی تقدیر وہ مردِ درویش
جس نے نہ ڈھونڈی سلطاں کی درگاہ
جب عوام کی اخلاقی تربیت کرنے والے خود اقتدار کی غلام گردشوں میں گم ہو جائیں تو عوام اُنہی کو منتخب کرتے ہیں جن میں اخلاق ہوتا ہے نہ دیانت۔ پھر عوام کی اکثریت محلات پر اعتراض کرتی ہے نہ اُن اربوں کھربوں پر جو سوئٹزر لینڈ سے لے کر اوقیانوس پارتک اور لندن سے لے کر جدہ تک پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔
دوسری تصویر میں ہمارے ملک کے وزیر اعظم دارالحکومت میں ایک اجلاس کی صدارت کر رہے ہیں۔ یہ اجلاس خارجہ پالیسی کے بارے میں نہیں‘ نہ ملک کی صنعتی یا زرعی پالیسی کے متعلق ہے۔ اس کا موضوع ملک کا ناقص تعلیمی نظام ہے نہ ہر سال تباہی پھیلانے والے سیلابوں سے بچائو کا طریقہ! یہ اجلاس لاہور ایئر پورٹ کی توسیع کے بارے میں ہے!
روس کے شہر اوفا میں ’’شنگھائی تعاون کونسل‘‘ کے سربراہ اجلاس سے واپس آ کر وزیر اعظم نے فوراً لاہور ایئر پورٹ کی توسیع کے متعلق اس اجلاس کی صدارت کی۔ دوسری طرف بھارتی وزیر اعظم اوفا سے سیدھے ترکمانستان کے دارالحکومت اشک آباد پہنچے۔ ترکمانستان کی حکومت سے مذاکرات کے بعد مودی بشکیک گئے اور کرغزستان اور بھارت کے درمیان چار معاہدوں پر دستخط کئے۔ ان چار میں سے ایک معاہدہ دفاعی امور سے متعلق تھا ۔ اب بھارت اور کرغزستان مشترکہ جنگی مشقیں سرانجام دیں گے۔ بشکیک سے مودی‘ منزلوں پر منزلیں مارتے تاجکستان پہنچے۔ تاجکستان کے اندر‘ افغانستان کی سرحد پر‘ بھارت ایک عظیم الشان ہسپتال تعمیر کر رہا ہے جو عوامی مقبولیت حاصل کرنے کا راستہ ثابت ہو گا۔ اوفا جانے سے پہلے مودی قازقستان گئے جہاں بھارت اور قازقستان کے درمیان اس موقع پر پانچ معاہدوں پر دستخط کئے گئے۔ یہ معاہدے دفاع‘ ریلوے‘ یورینیم سپلائی اور کھیلوں کے شعبوں میں ہوئے ۔ بحیرہ کیسپین کے کنارے تیل کی کھدائی اب بھارتی کمپنیاں کریں گی۔2017ء میں ایک بہت بڑی عالمی نمائش قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں ہو رہی ہے ۔ بھارت اس میں اگلی صفوں میں ہو گا۔ آنے والے پانچ برسوں کے دوران بھارت‘ قازقستان کی چھ بڑی یونیورسٹیوں کے ساتھ طلبہ کے تبادلے کرے گا۔ یہ قازق طلبہ‘ جو بھارت میں تعلیم حاصل کریں گے‘ اپنے ملک میں واپس جا کر‘ بھارت کے بے دام سفیر ثابت ہوں گے!
یہ ایک ہلکی سی جھلک ہے اُن معاملات کی‘ جو مودی نے وسط ایشیائی ریاستوں میں طے کیے۔ کیا تاثرات ہیں اور کیا کمنٹس ہیں ہماری وزارت خارجہ کے ان معاملات پر اور ان معاہدوں پر؟
اس کے مقابلے میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہم کیا کر رہے ہیں؟ اوفا سے وزیر اعظم واپس آتے ہیں اور لاہور ایئر پورٹ کے توسیعی منصوبے کے اجلاس کی صدارت بنفس نفیس کرتے ہیں؟ کیا یہ اس بلند ترین سطح کا کام تھا؟ یا یہ کام شہری ہوا بازی کی وزارت کے وزیر کی لیول کا تھا؟ اگر ایک پہلے سے تعمیر شدہ اور کام کرتے ہوئے ہوائی اڈے کی محض توسیع کے لیے وزیر اعظم کا قیمتی وقت درکار ہے تو اہم ترین امور کا کیا ہو گا؟
آپ کا کیا خیال ہے اگر یہ توسیع پشاور‘ یا کراچی یا کوئٹہ کے ہوائی اڈے کی ہوتی تو تب بھی وزیر اعظم اس حد تک ذاتی دلچسپی لیتے؟ اسلام آباد کا نیا ایئر پورٹ‘ جو فتح جنگ روڈ پر بن رہا ہے‘2007ء میں شروع ہوا۔ آٹھ سال ہو گئے ہیں، ابھی تک مستقبل قریب میں اس کی تکمیل کے کوئی آثار کسی افق پر نظر نہیں آ رہے! ہمارے واجب الاحترام وزیر اعظم ذہنی طور پر اپنے شہر سے نکلنے کے لیے تیار ہی نہیں! کیا قوم یہ جاننے کا حق رکھتی ہے کہ برسر اقتدار آنے کے بعد حکومت کے سربراہ کا سب سے زیادہ وقت کہاں گزرا ہے؟ اور کیا سارے شہر ان کی نظرِ التفات سے برابر کا حصہ پا رہے ہیں؟
تصویریں تو اور بھی ہیں! سیلاب زدہ ڈوبتے عوام پر احسان جتانے والی تصویریں جن میں اعلان کیے جا رہے ہیں کہ ہم تو طبی معائنہ چھوڑ کر تمہاری خدمت کے لیے واپس آ گئے!  ع
ہم پہ احسان جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا
اس کے بجائے سیلاب روکنے کے لیے چند دیواریں ‘ چند ڈیم‘ چند جھیلیں ہی بن جاتیں تو عوام واقعتاً احسان مند ہوتے! رہا طبی معائنہ! تو کاش ہمارا غیر ترقی یافتہ‘ پس ماندہ ملک‘ کبھی اس قابل ہو جائے کہ حکمران طبی معائنہ یہیں کرائیں‘ تعطیلات یہیں گزاریں‘ اپارٹمنٹ اور محلات صرف یہیں بنوائیں اور اپنے بچوں کی شادیاں اسی دھرتی پر کریں۔

Wednesday, July 22, 2015

میڈیا کیا ثابت کرنا چاہتا ہے؟

یہ کڑوی سچائی تو ہم ذہنی طور پر قبول کر ہی چکے ہیں کہ بین الاقوامی میڈیا مسلمانوں کا‘ خاص طور پر ہم پاکستانیوں کا دشمن ہے! 
ایک طویل عرصہ سے پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ مسلمان قومیتوں‘ زبانوں‘ علاقوں اور مسلکوں کی بنیاد پر ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں‘ حالانکہ حقیقت کا اس سے دور دور کا تعلق نہیں۔ ایران‘ ترکی‘ سعودی عرب آپس میں شیرو شکر ہیں۔ شام اور مصر میں گاڑھی چھنتی ہے۔ بنگلہ دیش اور پاکستان مل کر ایک کنفیڈریشن بنانے کا سوچ رہے ہیں اور وسط ایشیائی ریاستوں کو بھی ساتھ ملانے کا پروگرام بنا رہے ہیں! 
بین الاقوامی میڈیا جو یہودیوں اور نصرانیوں کے آہنی پنجے میں جکڑا ہوا ہے‘ رات دن مذموم پروپیگنڈا کیے جا رہا ہے کہ مسلمان سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ دروغ گوئی کی حد یہ ہے کہ بجلی کا بلب شیخوپورہ کے چودھری نصیر احمد نے ایجاد کیا تھا مگر پاکستان دشمنی کا شاخسانہ ملاحظہ ہو کہ کتابوں میں تھامس ایڈیسن کا نام لکھا جا رہا ہے۔ ہوائی جہاز ہی کو دیکھ لیجیے۔ تحصیل تلہ گنگ کے دو بھائیوں ملک سمندر خان اور ملک جمعہ خان نے جدید دنیا کو یہ تحفہ دیا مگر سہرا آرول رائٹ اور ولبر رائٹ کے سر باندھا جا رہا ہے۔ دنیا کی پہلی ای میل کا تجربہ سوڈان کے ایک مسلمان شیخ عنابی ارضی سماواتی نے کیا تھا مگر یہودی میڈیا کہتا ہے کہ ایک امریکی رے ٹام لِن سن نے کیا تھا۔ یونیورسٹیوں کے شعبے میں اس قدر دھاندلی برتی گئی ہے کہ دنیا کی چوٹی کی پانچ سو یونیورسٹیاں ساری کی ساری جبوتی‘ صومالیہ‘ برونائی‘ پاکستان‘ مراکش اور سینی گال میں ہیں لیکن نام ہارورڈ‘ جان ہاپکن‘ کیمبرج وغیرہ کا لیا جاتا ہے۔ ٹائلٹ کا فلش سسٹم ایک برطانوی شخص سر جان ہیرنگٹن کے ذمے لگایا جاتا ہے کہ اس نے 1596ء میں ’’ڈبلیو سی‘‘ بنا ڈالا تھا حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ یہ ایجاد تو دو مسلمانوں نے بیک وقت کی تھی۔ ایک کا نام ابراہیم لودھی تھا دوسرے کا ظہیرالدین بابر تھا۔ دونوں لڑائی جھگڑے سے دور‘ سائنس کے تجربوں میں مگن رہتے تھے تاکہ خلق خدا کو آرام پہنچائیں۔ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ دونوں نے بیک وقت فلش سسٹم ایجاد کر ڈالا۔ ابراہیم لودھی نے آگرہ میں اور بابر نے کابل میں۔ اب یہ عام سی بات ہے کہ دو بھائیوں کے درمیان بھی جھگڑا ہو ہی جاتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان بھی تلخ کلامی ہوئی اور اس بات پر کہ فلش سسٹم پہلے کس نے بنایا‘ پانی پت میں معمولی سا جھگڑا ہو گیا جسے عالمی دشمن میڈیا نے پانی پت کی پہلی جنگ کا نام دے دیا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہزاروں افراد ہوسِ ملک گیری کی بھینٹ چڑھ گئے۔ 
بین الاقوامی میڈیا کی یہ اسلام دشمنی تو ہم ذہنی طور پر قبول کر ہی چکے تھے مگر تازہ افتاد یہ آن پڑی ہے کہ قومی میڈیا بھی غلط خبریں دینے لگ گیا ہے۔ اس عیدالفطر کے سعید موقع پر پاکستانی مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کے لیے اتنے بڑے بڑے جھوٹ… سفید جھوٹ بولے گئے کہ عقل دنگ رہ گئی۔ وزیراعظم پاکستان کے بارے میں خبر دی گئی کہ انہوں نے عید سعودی عرب میں منائی۔ وزیراعلیٰ پنجاب جناب شہبازشریف کے متعلق پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے لندن میں عید منائی۔ زرداری صاحب اور بلاول بھٹو کے بارے میں ڈس انفارمیشن پھیلائی جا رہی ہے کہ دونوں رہنمائوں نے عید دبئی میں کی۔ حالانکہ حقیقت کچھ اور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عید کے روز وزیراعظم پاکستان سحری کے وقت بیدار ہوئے۔ راولاکوٹ پونچھ سیکٹر میں بھارتی فوج کی بلااشتعال فائرنگ کی وجہ سے وزیراعظم سخت پریشان تھے۔ مسلمان جنگ سے پریشان نہیں ہوتا۔ آپ کو پریشانی اس بات کی تھی کہ فوجی جوان عید کے دن بھی دشمن کی بزدلانہ کارروائی کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ کس طرح ممکن تھا کہ فوجی جوان تو مورچے میں ہوں اور ہمارے مقبول و ہردلعزیز حکمران عید کے روز آرام کریں۔ چنانچہ وزیراعظم نے عید کی نماز اگلے مورچوں کے پاس جوانوں اور افسروں کے ہمراہ ادا کی۔ زمین پر دسترخوان بچھایا گیا۔ وزیراعظم مجاہدوں اور غازیوں کے ساتھ بیٹھے۔ وہی کچھ کھایا جو سب کھا رہے تھے۔ لشکریوں کے حوصلے بلند ہو کر آسمان کو جا لگے۔ ایک نیا ولولہ پیدا ہوا۔ 
جناب شہبازشریف عید کے روز پو پھٹے بیدار ہوئے۔ وہ کئی دن سے سوچ رہے تھے کہ دہشت گردی کے خلاف جو جنگ جاری ہے اس میں عساکر کے شانہ بشانہ ہماری پولیس بھی فرنٹ لائن پر ہے۔ پولیس کے بے شمار جوان اور افسر شہادت کے جام نوش کر چکے ہیں۔ یہی وہ جاں باز ہیں جو ان تمام محلات پر پہرہ دے رہے ہیں جنہیں ’’وزیراعلیٰ ہائوس‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ خادم اعلیٰ نے فیصلہ کیا کہ وہ عید کی نماز پولیس لائن میں ادا کریں گے اور نماز کے بعد جوانوں اور افسروں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ 
جناب آصف علی زرداری جب تک صدر رہے‘ کوئی عید ایسی نہ تھی جو انہوں نے صدارتی محل کے پرتعیش ماحول میں منائی ہو۔ کبھی وہ سیاچن ہوتے تھے تو کبھی کارگل۔ جہاں کہیں دھماکہ ہوتا‘ بے مثال جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہاں پہنچتے‘ زخمیوں سے ملتے‘ ہسپتالوں کے دورے کرتے اور شہدا کے لواحقین کے پاس جاتے۔ اس عید پر انہوں نے اپنی اس روایت کا پاس کیا۔ وہ عید کی نماز ادا کرنے لیاری کے تنگ گلی کوچوں میں پہنچ گئے۔ عوام انہیں اپنے درمیان دیکھ کر حیران رہ گئے۔ لیاری کے باشندے پیپلز پارٹی کے پشتینی وفادار ہیں 
اور اس عزوشرف کے مستحق ہیں۔ جناب زرداری نے عید کی نماز ان کے ساتھ ادا کی۔ اور پھر لوگوں سے عید ملے۔ 
جناب بلاول بھٹو زرداری نے عید کی صبح فیصلہ کیا کہ وہ رینجرز کے جوانوں کا حوصلہ بڑھائیں گے کیونکہ امن و امان قائم کرنے کا جو کام جناب قائم علی شاہ نے کرنا تھا‘ وہ رینجرز کو کرنا پڑا ہے۔ رینجرز کے افسروں اور جوانوں کی قربانیاں بھی بے مثال ہیں۔ جانیں انہوں نے ہتھیلیوں پر رکھی ہوئی ہیں؛ چنانچہ بلاول بھٹو زرداری رینجرز ہیڈ کوارٹر میں پہنچے اور عید جوانوں کے ساتھ منائی۔ 
رہی ہمارے میڈیا کی یہ خبر کہ عساکرِ پاکستان کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے عید کی نماز وانا میں پڑھی اور جوانوں سے عید ملے یا یہ خبر کہ جنرل نے بکاخیل کیمپ میں متاثرین کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا اور دور دراز کے علاقوں میں متعین فوجی جوانوں کو عید پر ان کے مورچوں میں جا کر ملے‘ تو بین الاقوامی میڈیا کی طرح ہمارے قومی میڈیا نے بھی یہ چالاکی اب سیکھ لی ہے کہ جہاں چار جھوٹی خبریں دو‘ وہاں ایک سچی بھی دو تاکہ اعتبار قائم رہے۔ 
ویسے سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر میڈیا قوم کو یہ بتا رہا ہے کہ ہمارے صفِ اول کے سیاستدان اپنے فوجیوں‘ پولیس کے جوانوں اور رینجرز کے جاں بازوں کو بھلاتے‘ عوام کو پسِ پشت ڈالتے عید کے موقع پر لندن‘ سعودی عرب اور دبئی کے عشرت کدوں کا رُخ کرتے ہیں اور آرمی کا سربراہ منزلوں پر منزلیں مارتا عید کی صبح وانا جوانوں کے ساتھ اور عید کی شام بکاخیل متاثرین کے ساتھ ہوتا ہے تو وہ ثابت کیا کرنا چاہتا ہے؟

Saturday, July 18, 2015

اس عید پر


تدفین ہو چکی تھی۔ دوسری بستیوں اور شہروں سے آئے ہوئے مہمانوں کو گاؤں کے لوگ راستوں میں کھڑے، درخواست کر رہے تھے کہ کھانا تیار ہے، تناول فرما کر رخصت ہوں۔ کچھ گاڑیاں موڑ رہے تھے،اژدحام تو نہ تھا لیکن لوگ اتنے زیادہ تھے اور موٹریں اس قدر تھیں کہ گرد بہت تھی۔ مٹی اڑتی تھی تو ارد گرد کے چہرے چھپ چھپ جاتے تھے۔ میں اپنے عزیزوں کی اُس حویلی میں کھڑا تھا جہاں مرد حضرات کے بیٹھنے کا انتظام تھا۔ آمد و رفت لگی ہوئی تھی۔ اچانک شدید تھکاوٹ کا احساس ہوا۔ چوبیس گھنٹوں میں شاید ہی آنکھ لگی ہو۔ آنسو خشک اور آنکھیں بنجر تو ہو ہی چکی تھیں، جسم کے دوسرے اعضا بھی ناتوانی کا شکار لگنے لگے تھے۔ نہ جانے کیا ہوا‘ دفعتاً میرے منہ سے الفاظ نکلے، جن کا مخاطب میں خود ہی تھا۔ اظہار الحق، آج تمہیں کسی نے نہیں کہنا کہ ’’میرے بچے تھک گئے ہو، ذرا لیٹ جاؤ‘‘، پھر کسی کو آواز دیتیں، ’’جاؤ، اظہار کے لئے اندر سے تکیہ لے آؤ‘‘، محرومی کا احساس ہوا اور اتنا شدید کہ بے کسی سے، بقول محبوب خزاں، دنیا رگوں میں چلتی ہوئی محسوس ہوئی۔ تھکے تھکے قدم آہستہ آہستہ اٹھائے، ایک خالی کمرے میں فرش پر بچھی ہوئی دری پر لیٹ گیا۔ تکیہ تھا نہ کوئی تکیہ منگوا کر دینے والی! برہنگی تھی، افق سے افق تک چھائی ہوئی‘ کڑکتی دھوپ، جھلسا دینے والی گرم ہوا، کوئی سایہ نہ تھا۔ وہ روایت یادآئی، موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کی رحلت ہوئی تو متنبہ کئے گئے کہ ہوش سے!! اب وہ پہلے والی بات نہیں، ماں کی دعا پشت سے اُٹھ چکی ہے۔ 
اُسی دن، شام ڈھلے، لاہور سے ایک دوست پہنچے۔ صحن میں چارپائیاں بچھی تھیں، ہوا چل رہی تھی۔ کہنے لگے کیا ہی اچھی ہوا ہے تمہارے گاؤں میں۔ جواب دیا، ہاں! لیکن وہ جو تہہ خاک چلے گئے، انہیں اِس ہوا سے کیا!   ؎
ہواؤں اور بادلوں سے اظہارؔ کوئی کہہ دے 
کہ اب ملاقات ان سے زیرِ زمین ہوگی! 
کہنے لگے یہ وہ زخم نہیں جو چند دنوں یا چند مہینوں یا چند برسوں میں بھر جائے، یہ کھرنڈ چھلتا رہے گا۔ خون رستا رہے گا۔ جہاں کوئی بوڑھی عورت دکھائی دے گی، ماں یاد آ جائے گی۔ یہی ہوا، سترہ سال گزر چکے، سر کے بچے کھچے اور ریش کے بال برف کی لاتعداد تہوں سے ڈھک گئے ہیں۔ اب بھی جھریوں بھرے چہرے والی کوئی بزرگ خاتون نظر آئے تو آنکھوں کے سامنے ایک اور چہرہ آ جاتا ہے! 
پتہ نہیں کس وقت اُٹھ جاتی تھیں، عید کے دن ہم بیدار ہوتے تھے تو مکھڈی حلوہ بھی پک چکا ہوتا تھا۔ سویاں بھی میز پر تیار پڑی ہوتی تھیں، شلواروں میںکمربند بھی ڈالے جا چکے ہوتے تھے۔ عید کی نماز پڑھ کر گھر میں داخل ہوتے تھے تو کھڑی ہوتی تھیں۔ بسم اللہ کہہ کر بازوؤں میں لپیٹ لیتی تھیں۔ اب تو کچھ بھی نہیں! زیرِ پا زمین ہے نہ سر پر سائبان! کوئی ابرپارہ ہے نہ آسمان!   ؎ 
یہ زندگی کے کڑے کوس! یاد آتا ہے 
تری نگاہِ کرم کا گھنا گھنا سایہ 
افسوس! جن کے ماں باپ زندہ ہیں، انہیں اکثر و بیشتر احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ کتنے خوش بخت ہیں! پیدائش سے ساتھ دیکھ کر، ہم انہیں اپنے وجود، اپنے ماحول کا حصہ سمجھ لیتے ہیں،
 Taken for granted
لیتے ہیں! وقت گزرتا جاتا ہے۔ وہ کمزور، پھر ضعیف ہونے لگتے ہیں، ان کے دل نرم ہو جاتے ہیں، بات بات پر رقت طاری ہونے لگتی ہے۔ بچوں کی ذرا سی تکلیف پر بے چین ہو جاتے ہیں، رات کو دیر سے آئیں تو جاگ کر انتظار کر رہے ہوتے ہیں، شام کو کام سے واپس آنے میں تاخیر ہو جائے تو دروازے پر کھڑے ہوتے ہیں، کھانے کا کہا جائے تو آہستگی سے کہہ دیتے ہیں کہ وہ آجائے تو کھا لیں گے! بیٹا بیٹی، پوتا، نیا لباس نیا جوتا یا کوئی اور تحفہ لائے تو یہ فکر کہ بچے کا اتنا خرچ ہو گیا! کیا کبھی کسی نے اس بات پر غور کیا ہے کہ بیٹے کے مکان، مال اور اشیا کی جتنی حفاظت بوڑھے والدین کرتے ہیں اور جتنی فکر انہیں ہوتی ہے، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اپنے رخصت ہونے کے بعد جو کچھ بچوں پر گزرے گی، اس کی فکر الگ۔ فلاں کام اس طرح کر لینا،، فلاں سے ہوشیار رہنا، فلاں پر اعتبار کرنا، فلاں پر نہ کرنا! کچھ خوش قسمت سنتے ہیں۔ کچھ سنی ان سنی کرتے ہیں۔ ہوتا اکثر و بیشتر وہی ہے جو وہ بتا چکے تھے۔ مگر اب کیا ہو سکتا ہے!   ؎ 
عصا در دست ہوں، اُس دن سے بینائی نہیں ہے 
ستارہ آنکھ میں آیا تھا، میں نے کھو دیا تھا 
افسوس! آدم کی اولاد کو جتنی محبت اپنی اولاد اور اولاد کی اولاد سے ہے، اتنی ماں باپ سے نہیں! شاید اس لئے کہ آدم کے ماں باپ نہیں تھے، محبت کا اور تعلق کا اور دلسوزی کا اور اضطراب کا بہاؤ آگے کی طرف ہے، پیچھے کی طرف نہیں۔ نشیب آگے ہے، پیچھے اونچائی ہے! اس صورتِ حال کا علم پیدا کرنے والے کو تھا‘ اسی لئے تو وارننگ دی کہ بوڑھے ہو جائیں تو اُف نہ کرو‘ درشتی سے نہ جواب دو۔ عجز سے بازو پھیلائے رکھو، یہ کہیں نہیں فرمایا کہ بچوں کا خیال رکھو کہ وہ ہاتھ سے مکھی بھی نہیں اڑا سکتے! بچے کے لئے ماں بھی جاگتی ہے، پیشاب پاخانہ سنبھالتی ہے، باپ بھی ہر وقت بچھنے کے لئے تیار ہے، پھر جب وہ ڈیڑھ فٹ کا بے بس بچہ کڑیل جواب بنتا ہے تو سمجھتا ہے ہمیشہ سے گبھرو تھا؟ پھر وہ بات بات پر بگڑتا ہے، اونچی آواز سے بولتا ہے، گستاخی کرتا ہے، اُن کی دل آزاری کرتا ہے، ان کے آرام کا، ضروریات کا خیال نہیں رکھتا۔ رابطہ نہیں کرتااور اگر بیوی اپنے زعم میں حورپری ملی جائے یا اپنی سطح سے اونچے گھر سے کوئی میم نما، غرور و استکبار سے بھری کم ظرف آ جائے تو اُن دو ہستیوں کو جنہوں نے راتوں کو بیٹھ بیٹھ کر اس کی تیمارداری کی تھی، اُسکی غلاظت صاف کی تھی، اس کے منہ میں دودھ کے قطرے ٹپکائے تھے، اس کے پیروں میں جورابیں اور جوتے ڈالتے تھے، اُسے نہلاتے تھے، اس کے منہ میں ایک ایک حرف ڈال کر بولنا سکھاتے تھے، پاؤں پاؤں چلنے کی مشق کراتے تھے‘ سکول لے جانے سے پہلے ننھے ننھے جوتے چمکاتے تھے، اپنی ضروریات پسِ پشت ڈال کر اُس کے لئے بازاروں سے خریداریاں کرتے پھرتے تھے، قرض لے کر اُسکی فیسیں ادا کرتے تھے‘ چھٹی ہوتی تھی تو دروازے پر بانہیں پھیلائے کھڑے ہوتے تھے، اُن دو ہستیوں کو بھول جاتا ہے، پھر وہ یہ بھی نہیں سوچتا کہ آج جو بو رہا ہے، کل وہی کچھ کاٹے گا۔ ہے نا انسان خسارے میں! اپنے ہاتھوں سے اپنے لئے کنواں کھودتا انسان!! 
اللہ کے بندو! تم میں سے جن کے ماں باپ سلامت ہیں، ان کی قدر کرو، خدا کے لئے جنت کا یہ ٹکٹ ہاتھ سے نہ گنواؤ، اگر وہ ناراض ہیں تو اس عید پر اُن کے قدم چوم لو، اپنی مکروہ انا کو جھٹک کر اُن کے مقدس پیروں پر اپنے سر رکھ دو۔ ان کے کانپتے ہاتھوں پر اپنا چہرے جھکاؤ، آنکھیں اُن کی ہتھیلیوں پر ملو، اُن کے رعشہ زدہ سروں کے لئے اپنے کندھوں کو ٹیک بنا دو۔ اُن کے پوپلے منہ میں اپنے ہاتھوں سے نوالے ڈالو۔ انہیں بٹھا کر، پسِ پشت خود تکیہ بنو۔ وقت اُڑ رہا ہے، کہیں زندگی بھر کا پچھتاوا تمہارے لئے جلتا تنور نہ بن جائے۔ اُن کے پاؤں تلے پلکیں نہیں بچھا سکتے تو اپنے ہاتھوں سے اُن کے پاؤں جوتوں میں ڈالو۔ تمہارے جوتے اگر تمہارے ملازم پالش کرتے ہیں تو ماں باپ کے جوتے اپنے ہاتھوں سے پالش کرو۔ اُن کے جھریوں بھرے رخساروں کے ساتھ اپنے رخسار لگاؤ، یہی بہشت کا مَس ہے۔ اگر وہ بستر سے لگ گئے ہیں، تو پاس بیٹھ کر آگے کو جھکو اور ان کے گلے لگ جاؤ، ان کے دُکھتے جسم کو نرم ہاتھوں کے ساتھ آرام پہنچاؤ۔ اُن کی اجاڑ بے خواب بے آب آنکھوں میں جھانکو، اُن میں بے کنار جہان آباد ہیں، وہ بستر سے نیچے اتریں تو ان کے جوتے سیدھے کرو، عصا پکڑاؤ، ان کے پاس بیٹھو، ان سے باتیں کرو، وہ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں سنو، انہیں احساس نہ ہو کہ ان کی بات سننے والا کوئی نہیں۔ ان کی یادداشت بوسیدہ ہو چکی ہے، اگر وہ ایک بات بار بار کر یں، کسی چیز کے بارے میں بار بار پوچھیں، لوگوں اور اشیا کے نام خلط ملط کر دیں تو تحمل سے کام لو۔ بیس بار بھی بات دہرانی پڑے تو دہراؤ‘ لہجے میں اکتاہٹ نہ آنے دو فَلا تَقُل لَھُما اُفٍ وَلا تَنھرھُمَا۔ کیا خبر، اگلی عید پر وہ ہوں نہ ہوں! کیا خبر اگلی عید پر تم خود رہو نہ رہو۔ کسی کو کیا معلوم ایک سال کی تقویم میں کسی تاریخ کے گرد دائرہ لگ جائے؟ کون جانے وقت کتنے الاؤ پھونک دے اور کتنے بگولے پھانک چکا ہو! اُٹھو! ابھی اُٹھو! دیر نہ کرو!

Wednesday, July 15, 2015

بہ احترام فراواں

مولانا طارق جمیل کو احسن الخالقین نے حسن بیان کی قابل رشک نعمت سے نوازا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ اس وقت مقبول ترین واعظ ہیں تو مبالغہ نہ ہو گا۔ ان کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی جماعت کے دیگر اکابر کی طرح آہنی پردے کے پیچھے نہیں رہے بلکہ مخصوص دائرے سے باہر نکلے ہیں۔ ان کے ارشادات پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کے لاتعداد مداح ان کی تقاریر التزام اور اہتمام سے لاکھوں لوگوں کو سنوا رہے ہیں۔ تبلیغی جماعت کی قابل تحسین پالیسی پر عمل پیرا، مولانا طارق جمیل فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے بھی کوشاں رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں مختلف مسالک اور مذاہب کے درمیان مناظرانہ، مجادلانہ اور معاندانہ ماحول جس طرح ہر وقت گرم رہتاہے اور آتشیں حدوں تک جا پہنچتا ہے، اس کے پیش نظر مثبت لہجے میں کام کرنے والی جماعتیں اور علما قابل قدر ہیں۔
مولانا نے حال ہی میں ایک ٹیلی ویژن چینل پر تفصیلی انٹرویو دیا ہے جس کی خبر نما تلخیص پرنٹ میڈیا پر بھی عوام تک پہنچی ہے۔ حضرت مولانا کی عوام تک رسائی کی خوشگوار پالیسی سے حوصلہ پا کر ہم بھی کچھ طالب علمانہ اشکال پیش کرنا چاہتے ہیں۔ یہ وہ اشکال ہیں جو بے شمار ذہنوں میں موجود ہیں اور رہنمائی کے طلب گار ہیں۔ ہمارا مقصد، حاشا وکلّا، اعتراض برائے اعتراض نہیں، ایسے رویے سے ہم خدا کی پناہ مانگتے ہیں! ہمارا مقصد پوری دلسوزی اور عجز کے ساتھ محض رہنمائی کی طلب ہے اور عاجزانہ طلب ہے!
مولانا نے بجا ارشاد فرمایا کہ عبادات اور معاملات کو الگ کرنے سے معاشرے میں شر پھیل رہا ہے۔ دین کو مسجد اور عبادات تک محدود کر دیا گیا ہے… حج، نماز، عمرہ اور زکوٰۃ کو دین سمجھ لیا گیا ہے اور دنیاوی معاملات… اخلاق اور معاشرت کو دین سے خارج کر دیا گیا ہے۔ یہ تشخیص سو فیصد درست ہے۔ نبض دیکھتے ہوئے مولانا نے اپنا دست ِسلیم بالکل صحیح رگ پر رکھا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ نقصان دہ تفریق کس کے رویے کا نتیجہ ہے اور صورتحال کی اصلاح کی ذمہ داری 
کس پر عائد ہوتی ہے۔ دین کا طالب علم جب دیکھتا ہے کہ تعداد اور تنظیم کے اعتبار سے عالم اسلام کی سب سے بڑی اور موثر ترین حزب، تبلیغی جماعت، اپنے لاکھوں نہیں کروڑوں وابستگان کو رات دن، فضائل نماز، فضائل حج، فضائل قرآن، فضائل رمضان اور فضائل ذکر کا درس دیتی ہے اور اس ’’تعلیم‘‘ میں معاملات، حقوق العباد بشمول حقوق والدین اور حقوق اقربا، معاشرتی فرائض اور سماج کے دیگر پہلو جو دینی حوالے سے حد درجہ اہم ہیں، شامل نہیں‘ تو حیران ہوتا ہے اور پریشان بھی! یہ کہنا کہ جب فضائل قرآن پڑھا دیے تو اس میں سب کچھ شامل ہو گیا، اس لیے اپیل نہیں کرتا کہ قرآن پاک میں تو رمضان، نماز، ذکر، تبلیغ، تمام امور کے فضائل شامل ہیں، پھر ان کے لیے الگ الگ نصاب کیوں؟ مولانا نے جو فرمایا ہے کہ دین کو عبادات تک محدود کر دیا گیا ہے، ہمارے مسائل کی جڑ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے علماء، صلحا، واعظین اور مبلغین کی روش بدستور وہی ہے جو تھی۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال دیکھیے کہ ایک ہفتہ پہلے ٹیلی ویژن کے ایک مشہور مذہبی پروگرام میں کسی نے دعائوں کی قبولیت کے ضمن میں رہنمائی چاہی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ عدم احتیاط کے اس پرآشوب عہد میں ہماری دعائوں کے قبول نہ ہونے کی بڑی وجہ اکل حلال سے محرومی ہے۔ اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے جواب دینے والے صاحب کو، جو مولانا طارق جمیل کے شاگرد اور معروف شخصیت ہیں، اکل حلال کی اہمیت واضح کرنی چاہیے تھی مگر انہوں نے محض اتنا بتایا کہ فلاں وظیفہ اتنی بار پڑھ لیا کریں۔ مقصود اس مثال سے یہ ہے کہ امر بالمعروف پر زور ہے اور نہی عن المنکر سے اجتناب۔ پھر ’’معروف‘‘ میں بھی وہ پہلو شامل کیے جاتے ہیں جو صرف حقوق اللہ سے متعلق ہیں۔
ایک اشکال یہ بھی ہے کہ ہمارے کاروباری حضرات کی کثیر تعداد مذہبی تنظیموں میں بالعموم اور تبلیغی جماعت میں بالخصوص شامل ہے۔ مولانا فرماتے ہیں ’’مدارس اور تبلیغ دین کا جو نظام پاکستان میں ہے پوری دنیا میں کہیں اس کی مثال نہیں ملتی‘‘۔ بجا ارشاد فرمایا۔ افسوسناک
 PARADOX
 یہ ہے کہ دینی مزاج رکھنے والے لاکھوں متشرع تاجروں اور دکانداروں کی موجودگی کے باوجود ملاوٹ، ناجائز منافع خوری، ذخیرہ اندوزی، وعدہ خلافی اور ٹیکس چوری اس طبقے میں ازحد نمایاں ہے۔ خوراک تو خوراک ہے، ادویات اور معصوم بچوں کا دودھ بھی ملاوٹ سے پاک نہیں۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ ملک کا جو حصہ اغوا برائے تاوان اور کار چوری کا مرکز سمجھا جاتا ہے، تبلیغی جماعت کے وابستگان کی تعداد بھی وہیں زیادہ ہے اور سالانہ اجتماع میں آنے والی بسوں کے زیادہ قافلے ادھر ہی سے آتے ہیں۔ اگر ایک خصوصی کتابچہ ان سماجی برائیوں بالخصوص ناجائز تجاوزات کے بارے میں نصاب میں رکھا جاتا تو معاشرے میں خاموش انقلاب آ سکتا تھا۔ ناجائز تجاوزات نے پورے ملک کو بدصورت اور تکلیف دہ بنا رکھا ہے۔ عبادات کے پابند تاجر اور دکاندار اس حقیقت سے یکسر غافل ہیں کہ اس فٹ پاتھ یا اس جگہ کو استعمال کر کے، جو ان کی ملکیت نہیں وہ اپنی آمدنی کو مشکوک بنا رہے ہیں! مگر اکثریت، الا ماشاء اللہ اس زعم میں ہے کہ وہ عبادات جو حقوق اللہ سے متعلق ہیں، کافی ہیں!
ایک سوال طالب علموں کے ذہن میں یہ بھی اٹھتا ہے کہ دین کا اصل امتحان دفتر، بازار، کارخانے، کھیت اور اہل و عیال کے درمیان ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ اسلام میں رہبانیت کی کوئی گنجائش نہیں۔ روایت ہے کہ ایک صحابی کو ماں کی خدمت کرنے کے لیے جہاد میں نہیں لے جایا گیا تھا۔ مگر زندگی کے اصل کارزار سے کاٹ کر چالیس دن یا چار ماہ کے لیے جو دینی ماحول میسر کیا جاتا ہے اس میں عملی زندگی کا کوئی پہلو نہیں ہوتا اور پھر شعوری یا غیر شعوری طور پر عملی زندگی یا تو دفتر، بازار، کارخانے، کھیت اور اہل و عیال سے کٹ کر رہ جاتی ہے یا اس ضمن میں دینی تقاضے پورے نہیں کیے جاتے یا نہیں کیے جا سکتے۔
مولانا کا یہ فرمان قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ والدین کے پاس بچوں کے لیے وقت نہیں جس کی وجہ سے ان کی تربیت نہیں ہو پاتی؛ تاہم دینی تربیت کے لیے جو بھرپور نظام الاوقات ہمیں دیا جاتا ہے اس میں بھی بچوں کے لیے اور گھر بار کے لیے وقت نکالنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اگر ہفتے میں ایک بار شب جمعہ کے لیے، مہینے میں تین دن سہ روزے کے لیے، سال میں چالیس دن تربیت کے لیے اور جب بھی کچھ تعطیلات ہوں ان میں دس دن کے لیے تشکیل پر جانا ہو تو بچوں پر توجہ دینا ناممکن نہیں تو ازحد مشکل ضرور ہے۔ عملی نتیجہ یہ ہے کہ اس کارخیر میں جو لوگ رات دن مصروف ہیں اور ’’جوڑ‘‘ کے لیے الگ جاتے ہیں ان کے اہل و عیال ان کی توجہ سے بالعموم محروم ہی رہتے ہیں۔
آخری گزارش، بہ احترام فراواں یہ ہے کہ قوم کا سنجیدہ طبقہ، اس سلوک سے، جو الیکٹرانک میڈیا رمضان المبارک کے ساتھ کچھ عرصہ سے روا رکھے ہوئے ہے، ازحد پراگندہ خاطر ہے۔ اشتہارات، نیلامی، انعامات اور اس قبیل کی دیگر سرگرمیوں کو رمضان کی مقدس شاموں اور راتوں کے ساتھ خلط ملط کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ’’اسلامی شوبزنس‘‘ باقاعدہ ایک الگ اکائی بنا دی گئی ہے۔ جو کچھ پردہ سیمیں پر اس سلسلے میں دکھایا اور کہا جاتا ہے، ناظرین کی اکثریت دیکھ تو لیتی ہے مگر دل کے نہاں خانے میں اسے ناپسند کرتی ہے۔ بہت سے لوگ سوشل میڈیا پر، کہ وہی ان کی رسائی میں ہے، اس سے کھلی بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں مولانا نے انتہائی منطقی اور خوبصورت بات کی ہے کہ ان پروگراموں کا تعلق کمائی سے ہے‘ نہ کہ خدمت دین سے! ہم دست بستہ گزارش کرتے ہیں کہ کم از کم جنید جمشید صاحب کو اس ’’گرم بازاری‘‘ کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ یہ درست ہے کہ ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے مگر عوام کو معلوم ہے کہ جنید جمشید صاحب حضرت مولانا کے فیض رسیدگان میں سرفہرست ہیں۔ ایک اوسط ناظر اس سے یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ ایسی سرگرمی، جو کمائی کے لیے ہے، دین کے لیے نہیں، تبلیغی جماعت اور حضرت مولانا کی نظر میں قابل قبول ہے اور یوں جائز ہے! یوں اس کا رخ فرد سے جماعت کی طرف مڑ جاتا ہے!
ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک ہے نہ خوف لومۃ لائم کہ مولانا کی اوپن ڈور پالیسی دین کی بہت بڑی خدمت ہے۔ اپنے خوبصورت بیان کے بعد اگر وہ سوالات کی اجازت مرحمت فرمایا کریں تو ایسے بے شمار اشکال دور ہو سکتے ہیں۔ دین کی تفہیم کے لیے وعظ ضروری ہے مگر مکالمہ اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ زبورِ عجم سے اقبال کے دو اشعار ان کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کرنے کی جسارت کرتے ہیں   ؎
ہمہ افکارِ من از تُست چہ در دل چہ بلب
گہرازبحر برآری نہ برآری از تُست
من ہمان مُشت ِغبارم کہ بجائی نہ رسد
لالہ ازتُست و نمِ ابرِ بہاری ازتُست
مولانا کا پنجابی کا ذوق بہت عمدہ ہے۔ انہوں نے یہ ماہیا سن رکھا ہو گا   ؎
مینہ وَس گیا ٹیناں تے
اللہ تینوں حُسن دتا
ورتا مسکیناں تے
ظاہر ہے یہاں حُسن سے مراد حُسن ِبیان ہے کہ بقول احمد ندیم قاسمی   ؎
فقط اس شوق میں پوچھی ہیں ہزاروں باتیں
کہ ترا حُسن، ترے حُسن ِبیاں تک دیکھوں

Monday, July 13, 2015

صبح جب دھوپ کے چشمے سے نہا کر نکلی

ان دنوں پورے گائوں میں ایک آدھ ہی ریڈیو ہوتا تھا۔ گرمیوں میں ایسا ٹرانزسٹر نما ریڈیو شام ڈھلے چھت پر ہوتا تو تقریباً پورا گائوں ہی مستفید ہوتا۔ ایسی ہی ایک ڈھلتی شام تھی۔ ہمارا پڑوسی نواب کشمیری دکان بند کر کے چھت پر ریڈیو سے دل بہلا رہا تھا میں کھیل کود کے بعد ہم جولیوں سے رخصت ہو کر ڈھور ڈنگروں والی حویلی سے ہوتا رہائشی مکان کی طرف آ رہا تھا۔ دروازے سے داخل ہوا تو ارد گرد کی خاموشی میں ریڈیو کی آواز گونج رہی تھی۔ اس وقت تو نہیں معلوم تھا لیکن اب معلوم ہے کہ مشاعرہ ہو گا۔ کوئی عجیب سی آواز کے ساتھ جیسے اسے کھانسنے کی ضرورت ہو، پڑھ رہا تھا   ؎
اور تو کوئی چمکتی ہوئی شے پاس نہ تھی
تیرے وعدے کا دیا راہ میں لا رکھا ہے
خاندان میں تعلیم کا آغاز فارسی شاعری سے ہوتا تھا، اس لیے سن کچا ہونے کے باوجود شعری ذوق کچا نہیں تھا۔ شعر فوراً حافظے پر نقش ہو گیا۔ یہ احمد ندیم قاسمی سے پہلا تعارف تھا۔ یوں کہ شاعر کا نام معلوم ہی نہ تھا!
کالج پہنچنے تک احمد ندیم قاسمی پسندیدہ شعراء میں شامل ہو چکے تھے۔ ’’فنون‘‘ حرز جاں بن چکا تھا۔ انہی دنوں کسی ادبی مقابلے میں ان کا شعری مجموعہ ’’دشتِ وفا‘‘ انعام میں ملا چند ہفتوں میں حفظ ہو گیا۔ پھر وہ دن بھی آیا کہ فنون میں غزل شائع ہوئی! ستر کی دہائی شروع ہوئے دو برس ہو چکے تھے۔ قاسمی صاحب نے اپنے ہفتہ وار کالم میں، جو ایک معروف روزنامے میں چھپتا تھا، اردو کے بیس جدید اور نمائندہ اشعار درج کیے۔ دیکھ کر یقین نہ آیا کہ ان میں ایک شعر میرا بھی تھا۔ غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر۔ محل پہ ٹوٹنے والا ہو آسماں جیسے! اس وقت تک بالمشافہ ملاقات تک نہ ہوئی تھی۔
احمد ندیم قاسمی ادیب، شاعر اور مدیر تو بڑے تھے ہی، بطور انسان بہت ہی بڑے تھے۔ وہ ہر شخص کو، ہر کہ ومہ کو، اس کے رتبے یا شہرت سے قطع نظر، خط کا جواب دیتے تھے، کبھی ایسا نہ ہوا کہ انہیں غزل، نظم یا مضمون بھیجا اور انہوں نے بقلم خود رسید نہ دی۔ لاہور جب بھی جانا ہوتا، قدم بے اختیار مجلسِ ترقی ٔ ادب یا فنون کے دفتر کی طرف اٹھتے۔ ہمیشہ یوں محسوس ہوتا جیسے اپنے خاندان کا کوئی بزرگ مل رہا ہے۔ بے انتہا شفقت، ڈھیروں پیار! نرم گفتاری! کمال کی شائستگی! اور یہ تجربہ ہر اس شخص کو ہوتا جو ان سے ملاقات کرتا۔ ایک چھتنار درخت تھا جس کا ٹھنڈا سایہ دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔ وفات سے کچھ عرصہ پہلے اسلام آباد کی ایک تقریب میں ملاقات ہوئی۔ گفتگو کے دوران یوں ہی کہہ دیا کہ ’’دشتِ وفا‘‘ اپنی بیٹی مہوش کو تحفے میں دینا چاہتا ہوں۔ بازار سے مل نہیں رہی۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ ایک ہفتے بعد ڈاک میں ان کی طرف سے کتاب موصول ہوئی۔ حیرت زدہ رہ گیا۔ اتنا بڑا شخص! اتنی مصروفیات، پھر مجھ جیسابے بضاعت اور انتہائی جونیئر لکھاری۔ مگر شفقت کرتے وقت ان کا معیار وہ نہیں ہوتا تھا جو دنیا میں رائج الوقت تھا۔ اس لحاظ سے ان کا رویہ صوفیا کا رویہ تھا!
فنون محض ایک ادبی جریدہ نہیں تھا۔ ایک بہت بڑا دبستان تھا۔ ایک تربیتی مرکز تھا۔ ایک ادارہ تھا۔ کتنوں ہی کو فنون سے گھڑا، تراشا، بنایا اور ادبی دنیا میں پیش کیا۔ بہت سوں نے شہرت حاصل کر کے ان سے منہ موڑ لیا۔ بہت سوں نے اعتراف کرتے ہوئے بخل سے کام لیا۔ مگر قاسمی صاحب ایک دریا تھے۔ کناروں سے پَرے، وسیع زمینوں کو سیراب کرتا دریا۔ فیاضی سے بہتا، لوگوں کی پیاس بجھاتا دریا! کتنے ہی ندی نالے اس سے نکلے، مگر دریا کی روانی میں کمی نہ آئی۔
تین دن پہلے ان کی نویں برسی تھی۔ خاموشی سے گزرتی برسی میں بھی وہی بے نیازی، وہی نرم روی اور وہی شائستگی تھی جو قاسمی صاحب کی شخصیت میں تھی۔ میرے ناقص علم کے مطابق کسی شہر میں ان کے نام سے کوئی سڑک کوئی گلی کوچہ نہیں!
احمد ندیم قاسمی کی ادبی قدوقامت اور عالم گیر شہرت صرف اور صرف ادبی تخلیقات کی بنا پر تھی۔ انہوں نے شاعری کو چمکانے کے لیے کوئی سیاسی لبادہ نہ پہنا۔ کسی عالمی بلاک سے وفاداری کا طوق گلے میں نہ ڈالا۔ ان کے پسماندگان نے ان کے نام پر الیکٹرانک میڈیا کا استحصال کیا، نہ ذرائع ابلاغ کو نچوڑا۔ انہوں نے تو ساری زندگی رہائش بھی کسی پوش علاقے میں نہ رکھی۔ جس انسانیت کا وہ پرچار کرتے رہے جس عام آدمی کا دفاع کرتے رہے، اپنی زندگی میں اس کا چلن برت کر دکھایا۔ شرق اوسط کے پرتعیش شہروں میں بورژوا زندگی نہیں بسر کی۔ زنداں میں کالی راتیں انہوں نے بھی کاٹیں مگر دوسروں کی طرح اپنی قید کو سرخ قمیض بنا کر، ڈنڈے پر چڑھا کر تشہیر نہیں کی! یہ نہیں کہا کہ شاعری تو پسے ہوئے طبقات کی ہمدردی میں ہو اور انداز زیست، اکل و شرب اور سفر و قیام کا معیار امرا جیسا ہو! نہ ہی زمینداری کی بنیاد پر اپنے اور اپنے جریدے سے وابستہ ادیبوں شاعروں کو مزارع سمجھا۔ ایسا کرنے والوں کی شہرت پانی کے بلبلے کی طرح تھی۔ عارضی اور محض ہوا سے بھری ہوئی! نام بھی ختم ہو گیا۔ کام بھی۔ احمد ندیم قاسمی کا نام آج بھی زندہ ہے ان کی شاعری ان کے افسانے آج بھی مقبول ہیں۔ ادب اور ادیب سازی کی تاریخ میں ان کا مقام بلاشک و شبہ بلند ہے وہ ایک سچے اور کھرے پاکستانی تھے۔ ان کی وفاداریوں کا مرکز پاکستان سے باہر نہیں تھا۔ نعتیں انہوں نے محبت رسولؐ میں ڈوبی ہوئی کہیں۔ دلچسپ پہلو دیکھیے کہ رسالت مآبؐ کے سائے کے بارے میں گروہی اختلافات ہیں مگر قاسمی صاحب نے عجیب نکتہ نکالا   ؎
لوگ کہتے ہیں کہ سایہ ترے پیکر کا نہ تھا
میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایا تیرا
قاسمی صاحب کے چند اشعار   ؎
جب حریتِ فکر کا دستور ہوا طے
خود جبر مشیت نے قسم کھائی ہماری
اگر گھنا ہو اندھیرا، اگر ہو دور سویرا
تو یہ اصول ہے میرا کہ دل کے دیپ جلائو
ادھر شراب کا رس ہے، اُدھر شباب کا مس ہے
قدم قدم پہ قفس ہے ندیم دیکھتے جائو
مدتوں تک بروبحر کے حکمراں ایشیا ہی کے ٹکڑوں پہ پلتے رہے
یوں تو مغرب کی نظروں میں ہے آج بھی صرف اک خیمۂ بے طناب ایشیا
صبح جب دھوپ کے چشمے سے نہا کر نکلی
ہم نے آئینہ بدل تیرا سراپا دیکھا
ہم جو بھٹکے بھی تو کس شانِ وفا سے بھٹکے
ہم نے ہر لغزش پا میں ترا ایما دیکھا
ہم بایں تیرہ نصیبی نہ بنے تیرہ نظر
ہم نے ہر رات کی چتون میں ستارا دیکھا
تو نیند میں بھی میری طرف دیکھ رہا تھا
سونے نہ دیا مجھ کو سیہ چشمی شب نے
جب تک ارزاں ہے زمانے میں کبوتر کا لہو
ظلم ہے ربط رکھوں گر کسی شہباز کے ساتھ
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
تو وہاں زیرِافق چند گھڑی سستا لے
میں ذرا دن سے نمٹ کر شب تار آتا ہوں
کٹی پتنگ ہے ساری دنیا کی نظروں میں سمائی ہوئی
جتنے ہم تجھ سے کترائے اتنی تری رسوائی ہوئی
غم ادھورا تھا کہ پیغام اجل آیا ندیم
بوند ابھی بھڑکی نہ تھی، پتھر ابھی بولا نہ تھا
ہنسی آتی ہے مجھ کو امتیاز دشت و گلشن پر
گھٹا کعبے سے اٹھتی ہے، برستی ہے برہمن پر
مجھ کو نفرت سے نہیں پیار سے مصلوب کرو
میں تو شامل ہوں محبت کے گناہگاروں میں 
قاسمی صاحب نے نظمیں بھی کمال کی کہیں۔ اردو شاعری میں یہ نظمیں عالی مرتبت ہیں۔ بہت سی شہرۂ آفاق ہو چکی ہیں۔ ریت سے بت نہ بنا اے مرے اچھے فنکار، ریستورانوں میں سجے ہوئے ہیں کیسے کیسے چہرے۔ خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے۔ اے مشیت تری قوت کو سلام۔ مراجعت، جدید انسان، ان نظموں میں سے محض چند ہیں جو اردو شاعری کے ہر سنجیدہ طالب کو ازبر ہیں۔ ان کی مشہور نظم ’’درانتی‘‘ سے چند سطریں دیکھے۔
چمک رہے ہیں درانتی کے تیز دندانے
خمیدہ ہل کی یہ الہڑ جوان نور نظر
سنہری فصل میں جس وقت غوطہ زن ہو گی
تو ایک گیت چھڑے گا مسلسل اور دراز
ندیم ازل سے ہے تخلیق کا یہی انداز
ستارے بوئے گئے، آفتاب کاٹے گئے
ہم آفتاب ضمیرِ جہاں میں بوئیں گے
تو ایک روز عظیم انقلاب کاٹیں گے
ہم انقلاب ضمیرِ جہاں میں بوئیں گے
زمیں پہ خلدِ بریں کا جواب کاٹیں گے
ہمیں فخر ہے کہ ہم نے احمد ندیم قاسمی کو دیکھا، انہیں ملے اور ان کے عہد میں جیے۔

Saturday, July 11, 2015

عرضداشت

نیب نے کرپشن کے ایک سو پچاس مقدموں کی فہرست سپریم کور ٹ کو پیش کی ہے۔ اس میں مندرجہ ذیل مشاہیر کے اسمائے گرامی آتے ہیں: میاں نوازشریف، شہباز شریف، اسحاق ڈار، آصف علی زرداری، چودھری شجاعت حسین، پرویز الٰہی، راجہ پرویز اشرف، یوسف رضا گیلانی، ہارون اختر خان، آفتاب شیرپاؤ، جہانگیر صدیقی، نواب اسلم رئیسانی، میاں محمد منشا، ایاز خان نیازی، فردوس عاشق اعوان، عبداللہ یوسف، سلمان صدیق، علی ارشد حکیم، آصف ہاشمی، سحر کامران، حسین حقانی، شوکت ترین، ملک نوید، توقیر صادق، محمد صدیق میمن، یونس حبیب، علی احمد لونڈ، ذکی اللہ، نصیر حیات، عبدالغفور لہڑی، صدیق میمن، انجم عقیل خان، جنرل سعید الظفر‘ شاہد رفیع، اسماعیل قریشی، شاہنواز مری، میر شاہ جہان کھیتران۔ ہو سکتا ہے کچھ نام یہاں نقل کرنے میں رہ گئے ہوں۔ عوام کی طرف سے درج ذیل عرضداشت انہی مشاہیر کے نام ہے۔ 
معزز حضرات! آپ سب کا مؤقف… کیا مشترکہ اور کیا فرداً فرداً‘ایک ہی ہے کہ آپ بے قصور ہیں اور یہ الزامات‘ جرائم کی یہ فہرست، سازش کے علاوہ کچھ نہیں! 
آپ درست فرما رہے ہیں۔ ہم عوام نہتے ہیں، اس ضمن میں ہمارے ہاتھ میں کوئی ثبوت نہیں؛ تاہم ہمیں تعجب اس بات پر ہے کہ سالہاسال گزر گئے، عشروں پر عشرے بیتے جا رہے ہیں مگر یہ مقدمات آر ہوتے ہیں نہ پار۔ کبھی نیب سے عدالتوں میں جاتے ہیں اور سو جاتے ہیں، کبھی عدالتوں سے واپس نیب میں آتے ہیں اور مدتوں دکھائی نہیں دیتے۔ اتفاق فاؤنڈری ہو، سرے محل، رائے ونڈ کی سڑک ہو یا اصغر خان کیس، مدتیں بیت جاتی ہیں، کچھ بھی پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچتا۔ آپ حضرات کی معصومیت اور بے گناہی کی اس سے بڑی دلیل کیا ہو گی کہ ظاہری سیاسی مخالفتوں کے باوجود، آپ حق کے راستے پر بانہوں میں بانہیں اور ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلتے ہیں۔ ایک دوسرے کو نیب، عدالتوں اور ایف آئی اے سے بچاتے ہیں۔ سعدی نے یہ شعر آپ حضرات کی باہمی دوستی دیکھ کر ہی تو کہا تھا   ؎ 
دوست آں باشد کہ گیرد دستِ دوست 
در پریشاں حالی و درماندگی! 
دوست ہوتا ہی وہ ہے جو مشکل وقت میں دوست کی دستگیری کرے۔ ایک برس پہلے جولائی 2014ء ہی کی تو بات ہے‘ جناب یوسف رضا گیلانی اور سندھ کی روحانی شخصیت جناب مخدوم امین فہیم کے خلاف ایک درجن انکوائریاں چل رہی تھیں۔ ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے معاملات تھے، غیر متعلقہ کمپنیوں کو اربوں روپوں کی سبسڈی دے دی گئی تھی۔ خردبرد شدہ رقم کی بیرون ملک ناجائز منتقلی کا مقدمہ الگ تھا۔ جناب یوسف رضا گیلانی نے ضمانت کرا لی۔ اس پر ایف آئی اے کے تفتیشی افسر نے عدالت میں درخواست دائر کر دی کہ اس ضمانت کا کوئی جواز نہیں! اس نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے کے پاس اس امر کا بیّن ثبوت ہے کہ جناب گیلانی نے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ جناب نوازشریف کی حکومت کس طرح برداشت کر سکتی تھی کہ اُن کے یعنی بالائی طبقے کا ایک رکنِ رکین ابتلا میں ہو اور وہ اس کی مدد کو نہ پہنچیں۔ مرکزی حکومت کے ڈپٹی اٹارنی جنرل عدالت بروقت پہنچتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ایف آئی اے یہ مقدمہ واپس لینا 
چاہتی ہے۔ مقدمہ عدالت نے خارج کر دیا۔ جناب گیلانی یوں محفوظ رہے جیسے بتیس دانتوں میں زبان! چار کروڑ روپے جناب امین فہیم کے بینک اکاؤنٹ میں گئے، پھر واپس ہوئے۔ قانون کو اس میں کوئی مضائقہ نظر آیا نہ حکومت کو! 
ایک معروف سیاسی شخصیت کے جنوبی پنجاب میں واقع کارخانے میں کروڑوں روپے کے بجلی کے واجبات تھے‘ مگر انہیں ایسا کوئی خوفناک اشتہار نما نوٹس نہ دیا گیا جو اب عام پاکستانیوں کو دہشت زدہ کرنے کے لئے دیے جا رہے ہیں‘ غریب آدمی کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دکھایا جا رہا ہے۔ یکم اکتوبر کو ڈیفالٹرز کی فہرست نیب کے حوالے کر دی جائے گی۔ اس فہرست میں آپ مشاہیر حضرات میں سے کوئی نہیں ہو گا۔ آپ حضرات کے خلاف اگر کوئی رقم واجب الادا ہو تو وہ جمہوریت کے خلاف سازش ہوتی ہے۔ 
ہم عوام کالانعام، آپ کی بے گناہی کو چیلنج نہیں کرتے، ہم ہیں بھی کون جو چیلنج کر سکیں! ہم غریب ٹیکس دہندگان ‘ہم گیس بجلی پانی اور ٹیلی فون کے بل وقت پر ادا کرنے والے ڈرپوک عوام! ہم ایمان لاتے ہیں آپ کی معصومیت پر! مگر ہم ایک گزارش کرتے ہیں! 
اے مشاہیر کے گروہِ بلند مقام! اے عالی مرتبت شخصیات! اے ہماری جمہوریت اور بیوروکریٹک نظام کے ستونو! ہم ہاتھ باندھ کر، خدا کا اور رسولؐ کا اور خلفائے راشدین کا اور بارہ معصوم اماموں کا واسطہ دے کر منت اور زاری کرتے ہیں کہ آپ سب حضرات اِس ملک کو چھوڑ کر کہیں باہر تشریف لے جائیے! آپ ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیجئے۔ ہم جمہوریت میں مریں یا آمریت میں ایڑیاں رگڑیں، آپ فکرمند نہ ہوں۔ آپ اپنی جمع شدہ پونجی! اپنے خزانے، اپنے سونے چاندی کے انبار، کارخانے، فیکٹریاں، جاگیریں، جائیدادیں… سب اٹھائیں اور لِلّہ! یہاں سے تشریف لے جائیں! آپ کا وطن تو پوری دنیا میں کہیں بھی ہو سکتا ہے۔ جدہ ہو یا نیویارک، لندن ہو یا پیرس، آپ کے لیے کون سی جگہ نئی ہے۔ آخر آپ کے گروہ کے معزز رکن، آپ میں سے اکثر کے یارِ خوش زبان جناب شوکت عزیز بھی تو بیرون ملک ہی ہیں۔ آپ جیسے ایک اور سیاسی سردار، اپنے قبیلے کے سرخیل، جناب الطاف حسین بھی تو آخر ملک چھوڑ گئے ہیں۔ ان کے معیار زندگی میں، لائف سٹائل میں، سیاسی، خاندانی اور شخصی معمولات میں کیا فرق پڑا؟ 
ہم اس ملک کے عوام آپ کویقین دلاتے ہیں کہ آپ کو یاد کرتے رہیں گے، ہم سارے ویرانوں، قبرستانوں، خرابوں، کھنڈروں، دھول اڑاتے کچے راستوں اور اندھیرے میں ڈوبے محلوں‘ بستیوں پر آپ کے مقدس ناموں کے بورڈ آویزاں کر دیں گے۔ ہم اپنے بچوں کو پڑھائی جانے والی تاریخ کی کتابوں میں آپ کے روشن کارناموں پر پورے پورے باب شامل کریں گے۔ خدا کے لئے اس ملک کو چھوڑ کر چلے جائیے تاکہ یہ کبھی نہ ختم ہونے والے بکھیڑے ہی ختم ہو جائیں! کیونکہ جب تک آپ سلامت ہیں (خدائے بزرگ و برتر آپ سب حضرات کو ہم عوام کی عمریں بھی عطا کر دے) کسی مقدمے میں کچھ بھی ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ بس اتنی گزارش اور ہے کہ جاتے ہوئے جناب جنرل پرویز مشرف اور حضرت مولانا کو بھی ساتھ لے جائیے۔ 
اور اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر ہم پر اتنا رحم کیجئے کہ ہم بیس کروڑ عوام کو اس ملک سے چلتا کر دیجئے۔ آپ کے اس گروہ باصفا کے معزز رکن جناب یوسف رضا گیلانی نے اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران فرمایا بھی تھا کہ جو ملک چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں انہیں کس نے روکا ہے، تو ہمیں کوئی ٹھکانا بتائیے، ہم یہاں سے چلے جاتے ہیں، اس ملک کے وسائل تو پہلے ہی آپ حضرات کی مٹھیوں میں ہیں، ہمارے پاس تو گرتی اینٹوں اور کچی مٹی کے گھروندے ہی ہیں، ہم وہ بھی آپ کو نذر کرنے کے لئے تیار ہیں، ہمیں افریقہ کے کسی جنگل میں، صحرائے گوبی کے کسی کونے میں، ہمالیہ کی کسی چوٹی پر، کہیں بھی بھجوا دیجئے۔ ہو سکتا ہے ہماری نسلوں میں سے کوئی یہاں اپنی جڑوں کا معائنہ کرنے آ نکلے تو اس وقت تک نیب اور عدالتوں کے درمیان لڑھکتے ہوئے ان مقدمات کا فیصلہ ہو چکا ہو! 
اور اگر یہ بھی ممکن نہیں تو ہمیں، ہم بیس کروڑ عوام کو جنوب کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں پھینک دیجئے، ہمیں یقین ہے کہ شارک مچھلیوں کے جبڑے، آپ حضرات کے دانتوں اور پنجوں سے کہیں زیادہ نرم ہوں گے۔

Friday, July 10, 2015

سانپ ! سانپ ہی سانپ!!

تیسرا عشرہ شروع ہو گیا ہے۔ آگ سے رہائی کا پروانہ! رحمت، مغفرت، برکت، سعادت کا مہینہ آہستہ آہستہ اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے!
کیا اطمینان ہے چہروں پر! عصر کے بعد جوق در جوق اہل ایمان خریداری کو نکلتے ہیں۔ پیشانیوں پر نور اور رخساروں پر عبادت کی تمازت صاف نظر آ رہی ہوتی ہے۔ تھیلے بھرے جاتے ہیں۔ موٹر سائیکلوں پر نصف درجن شاپنگ بیگ ایک طرف اور نصف درجن دوسری طرف لٹکے ہوتے ہیں۔ گاڑیوں کی ڈگیاں اوپر تک بھر جاتی ہیں! وہ افطار جو ایک کھجور سے شروع ہوئی تھی، پورے ڈنر میں تبدیل ہو چکی ہے۔ پکوڑے، سموسے، فروٹ چاٹ، چنوں والی چاٹ، سرخ لوبیے کی چاٹ، کباب، دہی بڑے، دہی پھلکیاں، تین قسم کے مشروبات! یہ وہ آئٹم ہیں جو کم از کم ہیں! مغرب ڈھلنے والی ہوتی ہے تو نماز ادا کر کے چائے پی جاتی ہے۔ تھوڑی دیر بعد اکل و شرب کا دور ثانی چلتا ہے۔ یہ کھانا، کچھ اسے ڈنر کہتے ہیں! کھانے کا دور اول ہو یا دور ثانی، ٹیلی ویژن سکرین ساتھ ساتھ رہتی ہے۔ کیا آسان دین ہے! سارے تقاضے، سارے وعظ، ساری رقت آمیز دعائیں، خوف خدا سے نکلتے ہوئے سارے آنسو، ٹیلی ویژن پر ہی نمٹا دیے جاتے ہیں۔ تین تین نسلوں سے جوہر دکھانے والے خاندانی مسخرے اب عاقبت کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ سنا یہ تھا کہ فرشتے سب کچھ نوٹ کرتے ہیں۔ اب ساری عبادتیں کیمرے کی آنکھ کے سامنے کی جاتی ہیں۔ کیمرہ نہ ہو تو آنسو نکلتے ہیں نہ رقت طاری ہوتی ہے۔ گھروں میں بیٹھ کر دیکھنے والے سر دھن رہے ہوتے ہیں۔ بعض تو ساتھ ساتھ رو بھی رہے ہوتے ہیں کتنے سادہ ہیں اہلِ ایمان! جنہیں روتا دیکھ کر رو رہے ہوتے ہیں وہ تو کیمرے کے سامنے آنسو بہاتے ہیں اور گلے سے بھرائی ہوئی آواز نکالتے ہیں! یہ سادہ دل کیمرے کے بغیر ہی سنجیدگی سے سسکنا شروع کر دیتے ہیں!
کیا آسان دین ہے! کاروں، موٹر سائیکلوں، ٹیلی ویژن سیٹوں اور سینڈوچ میکروں کے انعامات‘ نیلامیاں اور اشتہارات۔ سب کچھ سحر و افطار کے ساتھ یک جان ہو گیا ہے! من تو شدم، تو من شدی! کیا اجتہاد ہے! تجارت کی اجازت حج کے دوران ملی تھی! اب یہ سحر و افطار تک آ پہنچی ہے! اچھوتے ملبوسات پہنے، کیا ڈاکٹر کیا ڈسپنسر، ایک طرف سے دوڑتے دوسری طرف جاتے ہیں، پھر پلٹتے ہیں اور زنخوں کی طرح مسکرا مسکرا کر قمار بازی کے انعامات کا اعلان کرتے ہیں تو رمضان کی نہ صرف رونقیں دوبالا ہو جاتی ہیں‘ رقت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے!
کیا اطمینان ہے چہروں پر! سحری کے بعد تلاوت بھی کی! ساری نمازیں باجماعت ہوئیں، تراویح میں قیام اللیل ہوا۔ افطار کی دعوتیں ہوئیں‘ کیا ہوا اگر ساتھ کچھ پی آر بھی ہو گئی جن سے سالانہ کارکردگی کی رپورٹ لکھوانی ہے، یا جن سے سپلائی آرڈر لینا ہے یا جو بزنس میں کردار ادا کرتے ہیں‘ اگر افطاری پر مدعو ہو گئے تو ثواب میں تو کمی نہ ہو گی!
دل میں جنگل اگا ہے۔ اتنا گھنا کہ سورج کی کرن زمین پر نہیں پڑ سکتی! اس گھنیرے جنگل میں ہر طرف سانپ رینگ رہے ہیں۔ چھوٹے سانپ، بڑے سانپ، کالے سانپ، بھورے سانپ‘ ایسے ایسے سانپ جن کے زہر کا ایک قطرہ سال ہا سال کے ثواب کو ڈس جائے تو سب کچھ ختم! سانپ ہی سانپ! ہر طرف سانپ ہی سانپ!
پہلا سانپ ریا کاری کا ہے۔ بس دوستوں عزیزوں کو کسی طرح معلوم ہوجائے کہ تہجد کے لیے اٹھتے ہیں۔ محلے کی مسجد کے لیے ہزاروں روپے دیے ہیں! ختم قرآن پر مٹھائی کا بندوبست کیا ہے۔ عید پر کپڑوں کے تھان تقسیم کیے ہیں۔ ٹیلی فون پر کوئی پوچھتا ہے اور ملازم یا پی اے بتاتا ہے کہ نماز پڑھ رہے ہیں تو یہ آواز کان میں جیسے شہد گھول دیتی ہے! اطمینان کی ایک لہر دل کے نہاں خانے سے اٹھتی ہے اور روح کی گہرائیوں تک ٹھنڈک ہی ٹھنڈک کر دیتی ہے۔ ماتھے پر نشان ہے! محلے کی بیبیاں دیکھتی ہیں تو دوپٹوں سے سروں کو ڈھانک لیتی ہیں۔ نوجوان دیکھتے ہیں تو سلگتے سگرٹ پیٹھ پیچھے کر لیتے ہیں! الحمدللہ! سب کو معلوم ہے کہ نیکوکار ہیں! دوسرا سانپ حسد کا ہے۔ کسی کی ترقی کا سنتے ہیں تو پیٹ میں جیسے قولنج کا درد اٹھنے لگتا ہے! مبارک باد دیتے وقت اندر کی کالک روح تک پھیل جاتی ہے‘ اس امید پر کہ فلاں شخص کسی مقدمے میں پھنس جائے، عمر ہی بیت جاتی ہے! کوئی تعریف کر رہا ہو تو انتہائی چالاکی سے، ڈپلومیسی سے، منفی پہلو اجاگر کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ کوئی خوشحال ہو جائے تو اس کے آبائو اجداد کی غربت کا تذکرہ ضرور کیا جاتا ہے! یہ سانپ آہستگی سے تھوڑا تھوڑا زہر پھیلاتا ہے، قطرہ قطرہ! مگر یوں جیسے امریکیوں نے عراق پر کارپٹ بمباری کی تھی! ایک ایک انچ پر! دل کو پوری طرح لپیٹ میں لے لیتا ہے۔
تیسرا سانپ تکبر کا ہے۔ فقیر کے کشکول میں کچھ ڈالتے وقت ایک دبدبہ ہے ایک شکوہ ہے‘ جو اندر سے اٹھتا ہے اور شخصیت کے ظاہر پر طاری ہو جاتا ہے! ملازم، نائب قاصد، خاکروب، مزدور سلام 
کرے تو گردن تن جاتی ہے۔ بسا اوقات زبان سے نہیں، محض سر کی خفیف سی حرکت سے سلام کا جواب دیا جاتا ہے! کوئی نہ کوئی موقع خاندانی برتری جتانے کا ڈھونڈھ ہی لیا جاتا ہے! ’’ہم خاندانی لوگ ہیں‘‘ وہ فقرہ ہے جو رمضان کی مشقت کو ایک ہی جست میں زمین پر پٹخ دے! ہم خان ہیں! ہم اعوان ہیں! ہم مغل ہیں! ہمارے اجداد مغلوں کے زمانے میں یہ تھے! ایک سابق حکمران غلط انگریزی میں چہک رہے تھے کہ میرا باپ یہ تھا اور اس کا باپ یہ تھا اور اس کا باپ یہ تھا اور میرا جدامجد مغلوں کے زمانے میں یہ تھا! سفر کرتے وقت دس پندرہ گاڑیاں آگے ہوں دس پندرہ پیچھے ہوں، خلق خدا شاہراہوں پر ٹریفک رکنے سے مجبوراً کھڑی ہو تو تکبر عروج پر ہوتا ہے۔ ہے کوئی میرے جیسا؟ صاحبزادے، بھتیجے سب پروٹوکول کے حصار میں ہوتے ہیں! عوام زمین پر رینگتے کیڑوں سے بھی چھوٹے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کیفیت میں روزے کا اپنا ہی مزہ ہے! چوتھا سانپ غیبت ہے! اس سانپ کے زہر میں خاص وصف یہ ہے کہ میٹھا ہے۔ ایک بار شروع کر دیں تو چھوٹتا نہیں۔ انگلیاں چاٹ کر بھی مزہ آتا ہے۔ اب غیبت کرنے کا ایک اچھوتا انداز نکلا ہے۔ غیبت کرنے سے پہلے اعلان کرتے ہیں کہ ’’یہ ہے تو غیبت! لیکن آپ کو متنبہ کرنا ضروری ہے‘‘۔ اس کے بعد اس شخص کے بارے میں جو وہاں موجود نہیں ہر وہ بات کہی جاتی ہے جو اس کی موجودگی میں کہنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا! اس میں وہ سب کچھ شامل ہوتا ہے جس کا کہنے والے سے دور کا تعلق بھی نہیں! کسی نے اگر غلط طریقے سے کوئی کام کیا ہے یا سفارش کراکر اپنے بچے کو لگوایا ہے، یا ٹیکس چوری کیا ہے، یا اپنی 
بیوی کو گھر سے نکالا ہے یا اپنے ماں باپ کے حق میں اچھا نہیں نکلا تو اس کے سامنے بات کیجیے تاکہ اسے ہوش آئے یا اخبارات میں لکھ کر حب الوطنی کا حق ادا فرمایئے، اس کی عدم موجودگی میں اس کا گوشت کھانا کیا ضروری ہے! یہ واحد ڈش ہے جو نواقض صوم میں شامل نہیں یعنی یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا، مسواک اور ٹوتھ پیسٹ سے روزہ ٹوٹنے یا نہ ٹوٹنے پر گھنٹوں بحث کرنے والے غیبت کے بارے میں قطعاً متفکر نہیں۔ ماشاء اللہ نماز پڑھتے ہوئے اور تلاوت کرتے وقت سر کا ایک بال بھی ظاہر نہیں ہونے دیتیں۔ اس کے بعد حالت وضو ہی میں دور اور نزدیک کی رشتہ دار خواتین کی غیبت شروع ہوتی ہے تو اس وقت تھمتی ہے جب شام کو کچن میں سرگرمی تیز ہونے کو ہوتی ہے۔
سانپ ہی سانپ ہیں۔ پانچواں سانپ چغل خوری کا ہے، چھٹا سانپ خوشامد اور مدح سرائی کا ہے، ساتواں سانپ دشنام طرازی اور بات بات پر لعنت بھیجنے کا ہے، آٹھواں سانپ دروغ گوئی کا ہے، نواں سانپ وعدہ خلافی کا ہے، دسواں سانپ حرص کا ہے، گیارہواں سانپ اسراف اور تبذیر کا ہے، بارہواں سانپ حب جاہ کا ہے، تیرہواں سانپ غیظ و غضب کا ہے۔
الحمد للہ ! یہ سب سانپ، یہ سارے اژدہا، یہ افعی، یہ کوبرے، دل کے جنگل میں چھپے ہوئے ہیں، جنگل اتنا گھنا ہے کہ کسی اور کو تو کیا جس کا دل ہے، اسے بھی نہیں نظر آ رہے! بس رینگ رہے ہیں۔ دودھ پی پی کر موٹے ہو رہے ہیں۔ نماز ہے یا روزہ، پہلا عشرہ ہے یا آخری، افطار ہے یا سحری، تراویح ہے یا نماز باجماعت! صدقات و خیرات ہیں یا تسبیح خوانی! ان سانپوں کو کسی شے سے فرق نہیں پڑتا! ذوق یاد آ گئے   ؎
نہنگ و اژدہا و شیرنر مارا تو کیا مارا
بڑے موذی کو مارا نفس امارہ کو گر مارا

Saturday, July 04, 2015

اصل مدعی


چھوڑ کر جانے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ دل پاکستان کے لیے دھڑکتے تھے۔ کام مسلم لیگ کے لیے دن رات کیا تھا مگر بٹوارہ ہوا تو یہی فیصلہ کیا گیا کہ یہیں رہیں گے۔ تعلقات مثالی تھے۔ کامنی بڑے ابا کی یعنی دادا کی بہن بنی ہوئی تھی۔ راکھی باندھی تھی۔ زمین تھی‘ مکان تھے‘ دکانیں تھیں‘ ایک پورا سلسلہ چل رہا تھا۔ بہت سے خاندان ان کے سامنے گھروں کو مقفل کر کے جا رہے تھے کہ حالات معمول پر آئے تو واپس آ جائیں گے۔ بڑے ابا کی ایک دلیل یہ بھی تھی کہ واپس ہی آنا ہے تو بھاگنے کی کیا منطق ہے؟ 
پھر یوں ہوا کہ جو آگ دور تھی‘ پاس آتی گئی۔ ساتھ والا محلہ بلوے کی نذر ہوا تو یہاں بھی کھلبلی مچ گئی۔ اطلاعات یہ تھیں کہ چار عورتوں کو اٹھا کر لے گئے۔ تین مرد مارے گئے۔ باقی کسی نہ کسی طرح جان بچا کر ریلوے سٹیشن کو نکل گئے۔ کسی کو نہ معلوم ہوا کہ ان پر کیا گزری۔ 
بالآخر حملہ ہو گیا۔ کامنی تڑپ کر اٹھی اور منہ بولے بھائی کے گھر کی طرف بھاگنے لگی تو اس کے میاں اور بیٹوں نے روک لیا۔ انہی بیٹوں نے بڑے ابا کے سینے میں کرپان اتاری‘ زیور لوٹے۔ پھر ٹھاکر صاحب پہنچ گئے۔ سب کو لعن طعن کی۔ گھر تو جل کر خاکستر ہو چکا تھا۔ صرف بڑے ابا کی نوجوان پوتی اور اس کی پھپھو بچی تھیں۔ ٹھاکر صاحب نے دونوں کے سروں پر چادریں ڈالیں اور اپنے محافظوں کے ساتھ‘ انہیں اس کیمپ میں چھوڑ آئے جہاں مسلمانوں کو رکھا جا رہا تھا۔ اردگرد سے بچے کھچے لُٹے ہوئے مسلمان‘ کچھ گروہوں کی شکل میں اور کچھ اِکا دُکا یہیں جمع ہو رہے تھے۔ یہ گائوں فیروزپور کے مضافات میں واقع تھا۔ 
پھر ایک دن اعلان ہوا کہ قافلہ دو دن بعد پاکستان کے لیے روانہ ہوگا۔ ہر طرف چھائی ہوئی موت کی زردی میں بھی 
پاکستان کا سبز رنگ آنکھوں سے جھلکنے لگا۔ شہیدوں کی مائوں اور بہنوں نے اور بچے ہوئے بوڑھوں نے گٹھڑیاں تیار کیں۔ مگر افسوس! آدھا راستہ طے ہوا تھا اور آدھا راستہ سرحد تک باقی تھا کہ حملہ ہو گیا۔ پولیس جو ’’حفاظت‘‘ کے لیے ساتھ تھی‘ تماشائی بنی رہی۔ دارو پئے ہوئے سکھ جنگلی درندوں کی طرح تھے۔ مطلع صاف ہوا تو بوڑھی عورتیں ٹکڑے ٹکڑے ہو چکی تھیں۔ نوجوان‘ خواتین کو بچانے کی ناکام کوشش میں شہید ہو گئے تھے۔ چار مسلمان دوشیزائیں بچ گئی تھیں۔ پھر سکھوں کے ایک نیم مدہوش گروہ میں توتکار ہوئی کہ کون کس کو لے جائے گا۔ 
یہ صرف چار مسلمان لڑکیوں کا المیہ نہیں‘ ہزاروں مسلمان عورتیں پاکستان نہ پہنچ پائیں۔ گورداسپور سے بٹھنڈہ تک اور کپورتھلہ سے فیروزپور تک‘ بھارتی پنجاب کے اضلاع پر قیامت نہیں‘ قیامتیں گزر گئیں۔ کچھ ان اغوا شدہ مسلمان عورتوں کی تعداد ستر ہزار بتاتے ہیں‘ کچھ اس سے بھی زیادہ! ان کے ساتھ زبردستی شادیاں کی گئیں۔ انہوں نے ابتدا میں چھپ چھپ کر نمازیں پڑھیں۔ پھر گوردواروں اور مندروں میں لے جائی گئیں۔ سکھ بچوں کو جنم دیا۔ کچھ مر گئیں‘ کچھ زندگی کے دن کاٹ رہی ہیں۔ زندگی کا آخری سانس ان کے لیے رہائی کی خوشخبری لائے گا۔ مدت ہوئی ایک دلدوز واقعہ سنا تھا۔ کینیڈا میں ایک مسلمان خاندان‘ گھر کے صحن میں کبھی کبھی باربی کیو پارٹی کرتا تھا۔ ایک دن انہیں خیال آیا کہ پڑوس میں سکھ فیملی رہتی ہے‘ گوشت کی خوشبو انہیں ناگوار گزرتی ہوگی‘ معذرت کرنے گئے۔ گھر میں 
خاتون خانہ تھی۔ پڑوسیوں نے معذرت کی تو ایک عجیب‘ ناقابل بیان‘ تاثر اس کے چہرے پر پایا جس کی توجیہ کرنے سے قاصر تھے۔ اپنے آپ پر قابو پا کر خاتون نے بتایا کہ وہ خوشبو سے لطف اندوز ہوتی ہے‘ اس لیے کہ یہ بچپن یاد دلاتی ہے جب اس کے گھر میں گوشت پکتا تھا۔ راوی یہ نہیں بتاتا کہ یہ بتاتے وقت وہ روئی یا نہیں۔ اگر اس کی آنکھوں سے کوئی اشک نہ بہہ سکا تو اس میں تعجب ہی کیا ہے؟ آنسوئوں کی مقدار محدود ہوتی ہے اور زندگی کا کرب لامحدود! یہ اُن ہزاروں عورتوں میں سے تھی جو زبردستی رکھ لی گئیں اور جن سے سکھ اولاد پیدا ہوئی۔ 
یہ مسلمان عورتیں… زندہ ہیں یا مردہ‘ جو پاکستان کی نذر ہوئیں‘ جن کے ماں باپ اور بھائیوں نے پاکستان کو اپنا خون دیا اور جنہوں نے وہ عزت پاکستان پر نچھاور کردی جو خون سے زیادہ قیمتی تھی۔ یہ عورتیں اُن مقدموں کی اصل مدعی ہیں جو پاکستان میں لوٹی ہوئی دولت کے سلسلے میں چل رہے ہیں اور ابھی چلنے ہیں۔ 
کل ہی نیب نے بتایا ہے کہ بلوچستان کے ایک سابق وزیر نے آٹھ ارب روپے کے اثاثے ’’بنائے‘‘ ہیں۔ اللہ کے بندو! چشمِ تصور سے دیکھنے کی کوشش کرو! اس ملک کی بنیادوں میں صرف شہیدوں کا خون نہیں‘ بہنوں‘ مائوں اور بیٹیوں کی عصمتیں بھی رچی ہوئی ہیں۔ اور حالت یہ ہے کہ آرمرڈ گاڑیوں کی خریداری میں غبن‘ سی سی ٹی وی کیمروں کی خریداری میں غبن‘ کراچی کی صرف ایک آبادی کے ورکرز ویلفیئر فنڈ اور ریونیو محکمے میں پچیس کروڑ کا غبن‘ صرف ایک سال (2012-13ء) کے دوران سندھ کے لائیو سٹاک اور ماہی گیری کے محکموں میں پونے تین ارب روپوں کی کرپشن… اور یہ سب تو دیگ کے چند چاول ہیں۔ صوبائی سیکرٹری صاحب باقاعدہ پانچ سال کی چھٹی منظور کراتے ہیں اور کینیڈا جا کر اربوں روپوں کی سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کہتا ہے کہ صرف ایک مالی سال کے دوران 34 محکموں میں ایک کھرب انتیس ارب سات کروڑ روپے کی خردبرد ہوئی اور یہ ایک صوبے کا حال ہے۔ میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے افسر ملک سے باہر بھاگ گئے۔ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے کرتا دھرتا فرار ہو گئے۔ واٹر اور سیوریج بورڈ کے مدارالمہام سرحد پار کر گئے۔ کیا بے بسی ہے ریاست کی! اور کیا کسمپرسی ہے حکومت کے اُن اداروں کی جن کا فرض تھا کہ چوروں کو بھاگنے نہ دیں۔ وزیراعلیٰ کی‘ یعنی صوبائی حکومت کے سربراہ کی سمری میں جعل سازی کر کے بائیس کروڑ روپے کی کرپشن کی گئی۔ تھانوں کی مرمت کے لیے جعلی ٹینڈر جاری ہوئے۔ ایک ایک رات میں سولہ سولہ سو افراد کو بھرتی کیا گیا۔ کوئی برملا اعتراف کرتا ہے کہ ستر فیصد کس بڑے گھر کو جاتا تھا۔ کوئی اطلاع دیتا ہے کہ گھوسٹ ملازمین کے کھاتے میں اتنے کروڑ بنائے۔ پوری دنیا میں جائدادیں‘ محلات‘ اپارٹمنٹ‘ کارخانے‘ بینک بیلنس بکھرے پڑے ہیں۔ ایک ایک کروڑ بار استغفار کی تسبیح کرنے والے روزِ روشن جیسی ناقابل تردید کرپشن کی مدافعت کرتے ہیں تو آسمانوں پر فرشتے سراپا حیرت ہو جاتے ہیں۔ 
سنو! غور سے سنو‘ چیخ بلند ہوئی ہے۔ وہ دیکھو! کرپان سینے میں دھنس گئی ہے۔ ’’بچائو‘ مجھے بچائو‘‘، پاکستان آنے والی ٹرین سے مسلمان لڑکی کو کھینچ کر لے جایا جا رہا ہے۔ ’’ابو‘ امی! مجھے بچا لو…‘‘ بال کھینچ کر‘ نشے میں ڈوبا سکھ اُسے زمین پر پٹختا ہے۔ اللہ کے بندو! اوپر دیکھو‘ تارتار عصمتیں بادلوں سے اوپر اڑتی جا رہی ہیں۔ کیا یہ قربانیاں‘ یہ کرپان سے ٹکڑے ہوتے سینے‘ یہ لہو کے دریا‘ یہ عزتوں کے جنازے سب اس لیے تھے کہ اس ملک کو ڈاکو لوٹ لیں؟ بھیڑیے بھنبھوڑ ڈالیں؟ چور گٹھڑیاں باندھ کر سرحدیں پار کر جائیں اور چہروں سے شرم و حیا کی آخری جھلی اتار پھینکنے والے رہنمائی کے دعوے کریں؟ 
فوج مدعی ہے نہ نیب! حکومت مدعی ہے نہ ریاست! پولیس مدعی ہے نہ انٹیلی جنس ایجنسیاں۔ نہ آج کے عوام آدھے جن میں سے بے حس ہیں اور باقی آدھے بے بس۔ 
مدعی وہ چیختی دوشیزائیں ہیں جو پاکستان آنے کی تڑپ میں وہیں رہ گئیں اور زندگیاں‘ موت تک قبروں میں گزاردیں۔ اے اُس پیغمبر کو بھیجنے والے! جس کے مبارک جسم پر کھردری چٹائی کے نشان پڑ جاتے تھے‘ کیا قزاقوں سے ہماری جان کبھی نہیں چھوٹے گی؟   ؎ 
بجلیاں اب تو ترے ابرِ کرم کی برسیں 
عمر بھر اپنے سلگنے کا تماشا دیکھا

Friday, July 03, 2015

ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا


پاکستان میں عظیم ثقافتی انقلاب کا آغاز ہو چکا ہے۔ اگر ابھی تک آپ اس سے لاعلم ہیں تو افسوس ہی کیا جا سکتا ہے!
تاریخ میں اب تک جس عظیم ثقافتی انقلاب کا ذکر کیا جاتا ہے وہ چین میں مائوزے تنگ کی قیادت میں 1966ء میں برپا ہوا تھا۔ پارٹی کے کروڑوں کارکن ’’ریڈ گارڈز‘‘ کے نام سے جتھوں کی شکل میں پورے ملک میں پھیل گئے تھے۔ ملک میں ریلوے ا ور ٹرکوں بسوں کا پورا نظام تہس نہس ہو کر رہ گیا تھا کیونکہ ذرائع آمدورفت سب ریڈ گارڈز کو اطراف و اکناف میں پہنچانے کے لیے وقف کر دیے گئے تھے۔ فیکٹریوں کی پیداوار کم ہو گئی کیونکہ جن انقلابی کمیٹیوں کے سربراہوں اور سیاسی ورکروں نے صنعت کا انتظام سنبھال لیا تھا‘ انہیں صنعت کاری کی الف بے سے بھی واقفیت نہیں تھی۔ دو سال بعد جب ثقافتی انقلاب کا نشہ اترا تو معلوم ہوا کہ صنعتی پیداوار چودہ سے بیس فی صد تک کم ہو چکی ہے۔
چین کے ثقافتی انقلاب کی تفصیل آج کا موضوع نہیں۔ اس کے صرف ایک خاص پہلو کا تذکرہ مقصود ہے۔ ثقافتی انقلاب کے دوران بڑے بڑے سائنس دانوں‘ انجینئروں اور ٹیکنالوجی کے پروفیسروں کو جبراً دورافتادہ دیہاتی علاقوں میں بھیج دیا گیا تاکہ وہ کھیتوں‘ جنگلوں‘ صحرائوں اور کوہستانوں میں کسانوں اور محنت کشوں کے ساتھ مل کر کام کریں۔ لیبارٹریاں بند ہو گئیں۔ تحقیقاتی ادارے مقفل کر دیے گئے۔ بہت سے علمی اور سائنسی مراکز پر ’’انقلابیوں‘‘ نے قبضہ کر لیا۔
وطن عزیز میں بھی عظیم ثقافتی انقلاب کی ابتدا ہو چکی ہے۔ اس کی بسم اللہ ملک میں زرعی تحقیق کے سب سے بڑے اور مؤقر ادارے ’’پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل‘‘ سے کی جا رہی ہے۔ زرعی تحقیق کے اس ادارے نے‘ شہرت اور تشہیر سے بے نیاز ہو کر قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔ اس نے نہری علاقوں کے لیے الگ اور بارانی علاقوں کے لیے الگ‘ گندم کے بہترین بیج دریافت کیے۔ سورج مکھی‘ کنولا‘ مکی‘ باجرہ اور مختلف دالوں کی پیداوار بڑھانے کے کامیاب تجربے کیے۔ حیاتیاتی انجینئرنگ میں
اور پودوں کی حفاظت کے شعبے میں بہت کام ہوا۔ مویشیوں کی افزائش اور علاج کے شعبے میں اس ادارے نے خدمات سرانجام دیں۔ جو منصوبے اس وقت زیر تکمیل اور زیر غور ہیں‘ ان کا سرسری ذکر بھی پسماندگی کے چاروں طرف چھائے گہرے اندھیرے میں امید کی کرنیں دکھائی دیتا ہے۔ زیتون کی کاشت کاری اور زیتون کا تیل نکالنے والی مشینوں پر کام ہو رہا ہے۔ شمسی توانائی کے ذریعے کھارے پانی کو نوشیدنی پانی میں تبدیل کیے جانے پر تحقیق جاری ہے۔ مویشیوں کے لیے زیادہ چارہ کس طرح اگایا جائے‘ ٹِشو کلچر کے ذریعے کیلے کو زیادہ بہتر کیسے کیا جائے‘ فاٹا کے علاقوں میں انڈوں اور مرغیوں کی پیداوار میں اضافہ کیسے کیا جائے‘ مچھلیوں‘ مویشیوں‘ بالخصوص بھینسوں کی کوالٹی بہتر سے بہترین کیسے ہوگی‘ کھاد کے میدان میں ملکی زراعت کی زیادہ سے زیادہ خدمت کن صورتوں میں ہو سکتی ہے۔ یہ ان بہت سے منصوبوں میں سے صرف چند ہیں جن پر کام ہو رہا ہے!
لیکن نئے اور عظیم ثقافتی انقلاب میں ان سارے کاموں کی قطعاً ضرورت نہیں۔ اس لیے فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس عظیم قومی تحقیقی ادارے سے اس کا کل اثاثہ‘ یعنی ساڑھے بارہ سو ایکڑ زمین لے لی جائے اور دارالحکومت کا ایک مجاز ادارہ یہاں ایک رہائشی سوسائٹی تعمیر کرے!
دارالحکومت کے اس مجاز ادارے کا ذکر آئے تو بدن میں جھرجھری سی اٹھتی ہیع
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا!
پرسوں ہی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے روبرو‘ اس ادارے نے خود بتایا ہے کہ نیلام شدہ پلاٹوں پر مالکان بدستور قابض ہیں۔ چیئرمین کمیٹی نے رونا رویا کہ ادارے میں کرپشن عام ہے۔ اس کا اپنا عملہ لکڑی چوری اور پٹرول کی غیر قانونی فروخت میں ملوث ہے۔ ادارے کے افسر خود ہی زمینوں کی ’’تجارت‘‘ کر رہے ہیں! ٹینکر مافیا راج کر رہا ہے۔ جس ادارے میں ہزاروں گھوسٹ ملازمین گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کر رہے ہیں‘ جس کے زیر انتظام کسی نئے سیکٹر کی آبادکاری میں پندرہ بیس سال اور بعض اوقات اس سے بھی زیادہ عرصہ لگتا ہے‘ جس کی ناک کے نیچے دارالحکومت تعفن اور گندگی کا گڑھ بن چکا ہے‘ وہ ادارہ ایگریکلچرل ریسرچ کونسل سے ساڑھے بارہ سو ایکڑ لے کر اس پر ہائوسنگ سکیم بنائے گا! یہ ’’منصوبہ‘‘ کافی حد تک آگے بڑھ چکا ہے۔ ثبوت یہ ہے کہ قومی اسمبلی کی متعلقہ قائمہ کمیٹی نے دو دن پہلے جس اجلاس میں اس بکھیڑے کو نمٹانا تھا‘ وہ اجلاس ’’نامعلوم‘‘ وجوہ کی بنا پر ’’ملتوی‘‘ کر دیا گیا۔ کائنات کی ساخت پر تدبر کرنے والے مبصرین کا اندازہ یہ ہے کہ لینڈ مافیا نے اپنے لمبے ہاتھ استعمال کر کے یہ اجلاس ملتوی کرایا ہوگا۔
ثقافتی انقلاب کے اس زبردست آغاز کے بعد‘ آنے والے مراحل میں کیا کچھ ہوگا؟ اس کا تصور کرنا مشکل نہیں! چونکہ تحقیق کی نسبت ’’تعمیر‘‘ کی اہمیت کہیں زیادہ ہے اس لیے گمان غالب یہ ہے کہ زرعی تحقیقاتی ادارے کے نامور سائنس دان میٹرو بسوں‘ شاہراہوں‘ انڈر پاسوں اور اوور ہیڈ پلوں کی تعمیر میں مزدوروں کا ہاتھ بٹائیں گے۔
اگلا قرعۂ فال قائداعظم یونیورسٹی اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے نام نکلے گا۔ ان یونیورسٹیوں کے ’’قبضے‘‘ سے سینکڑوں ایکڑ اراضی ’’واگزار‘‘ کرا کر رہائشی سوسائٹیوں کے لیے وقف کردی جائے گی۔ پی ایچ ڈی کرنے والے پروفیسر اور سائنس دان اور پی ایچ ڈی کرنے والے سکالر ان تعمیراتی منصوبوں میں کھپا دیے جائیں گے۔ چونکہ وہ راج اور مستری کا ٹیکنیکل کام نہیں کر سکتے اس لیے مستریوں کے ماتحت عام لیبر کے فرائض سرانجام دیں گے۔
ہائوسنگ سوسائٹیاں بنانے کے لیے کئی اور مناسب گوشے دارالحکومت میں خفیہ پڑے ہیں۔ انہیں بے نقاب کر کے ترقیاتی ادارے کا رُخ ان کی طرف کرنا ہوگا۔ آب پارہ کے سامنے کھیلوں کے سٹیڈیم نے بہت سی جگہ گھیر رکھی ہے۔ کھیل کود اور سیر کرنے میں وقت ضائع کیا جا رہا ہے۔ بغل میں یاسمین گارڈن کی سیرگاہ ہے۔ ساتھ گَن کلب ہے۔ اس کے پاس بھی اچھا خاصا رقبہ ہے۔ ذرا آگے چلیے‘ اسلام آباد کلب نے گالف کے نام پر لمبی چوڑی ’’جائداد‘‘ ہتھیا رکھی ہے۔ سرپھرے قسم کے لوگ صبح چھ بجے ہی گالف کھیلنے پہنچ جاتے ہیں۔ چشمِ تصور سے دیکھیے‘ یہاں اگر محلات تعمیر ہو جائیں‘ ہر طرف قیمتی گیٹ ہوں‘ پورچوں میں گراں بہا گاڑیاں کھڑی ہوں‘ بیگمات شاپنگ کر کے گھروں کو لوٹ رہی ہوں‘ باورچی خانوں سے پکوانوں کی مہک آ رہی ہو تو سب کچھ کتنا نظرنواز اور دلکش لگے گا! یہ بات کسی کو بُری لگے تو لگتی رہے‘ قوم کی فلاح ریسرچ کے اداروں‘ کالجوں‘ یونیورسٹیوں میں نہیں ہے بلکہ ہائوسنگ سوسائٹیوں‘ پُلوں اور سڑکوں میں ہے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر تمام تعلیمی اور تحقیقی اداروں سے زمینیں ’’آزاد‘‘ کرا لی جائیں۔ سینکڑوں ہزاروں مکان بننے سے عوام کو روزگار ملے گا۔ پروفیسر اور سائنس دان حضرات کو بھی لگ پتہ جائے گا کہ سر پر گارے‘ بجری اور سیمنٹ کی ٹوکری اٹھا کر دیواریں اٹھانا اور چھتیں ڈالنا کتنا مشکل کام ہے!
سال یہی ہے جو رواں ہے یعنی 2015ء۔ فروری کا ایک ٹھٹھرتا‘ اداس دن تھا۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کا اجلاس ہو رہا تھا! مسلم لیگ ن کے ایم این اے صدارت کر رہے تھے۔ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے سب سے بڑے بیوروکریٹ یعنی وزارت کے وفاقی سیکرٹری نے عوامی نمائندوں کو کیا بتایا؟ سُنیے:
’’مجھے یہ اعتراف کر کے دُکھ ہو رہا ہے کہ مختص کی گئی اور پھر دی گئی رقوم‘ گزشتہ سال کی نسبت‘ بہت کم ہو گئی ہیں؛ چنانچہ تحقیقی اور ترقیاتی کام بھی اسی مناسبت سے پیچھے رہ گئے ہیں‘‘۔ پھر سیکرٹری نے طاقتور نمائندوں کو جو کچھ بتایا‘ کسی اور ملک میں بتایا جاتا تو حشر برپا ہو جاتا۔ ’’تحقیق اور ترقی 
(R&D)
 موجودہ حکومت کی ترجیح ہی نہیں ہے۔ تبھی تو قومی آمدنی کا ایک فیصد سے بھی کم‘ ان کاموں کے لیے مختص کیا جاتا ہے‘‘۔
سیکرٹری نے آگے چل کر کہا: 
’’صرف اعشاریہ پانچ فیصد۔ یعنی سو روپوں میں سے آٹھ آنے یا پچاس پیسے… ریسرچ کے لیے ملتے ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل‘ کوریا اور جاپان جیسے ممالک سب سے زیادہ سرمایہ کاری ہی اس میدان میں کر رہے ہیں‘‘۔
وزارت کے سیکرٹری نے جو اعدادو شمار دیے‘ وہ عبرتناک تھے۔ رواں مالی سال میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت نے ایک ارب سے زیادہ رقم مانگی جب کہ صرف پانچ سو ملین کے لگ بھگ دی گئی۔
اسی اجلاس میں سائنسدانوں نے کمیٹی کو بتایا کہ اگر انہیں کام کرنے دیا جائے تو وہ شمسی توانائی سے ایک سو پچاس گنا زیادہ اور آبی وسائل سے پانچ گنا زیادہ بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔ بجٹ کم ہونے سے جن تحقیقی اور ترقیاتی منصوبوں کو نقصان پہنچ رہا ہے ان میں سے چند یہ تھے۔ دوسرے ملکوں کے تعاون سے ذیابیطس کا کنٹرول‘ ٹیکنالوجی پارک کا قیام‘ پینے کے صاف پانی کی مقدار میں اضافہ‘ ویکسی نیشن کے شعبے میں نئی دریافتوں کے لیے نئی تجربہ گاہوں کا قیام۔
وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی کے ان انکشافات کو سنہری حروف میں لکھوا کر‘ فریم کروا کر‘ شمال میں مینارِ پاکستان پر اور جنوب میں مزار قائداعظم پر آویزاں ہونا چاہیے اور ثقافتی انقلاب کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے تحقیقی اور تعلیمی اداروں سے مزید اراضی حاصل کرنی چاہیے کہ ع

ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا
 

powered by worldwanders.com