Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, September 29, 2014

شہنشاہ معظم

Saturday, September 27, 2014

ٹیسٹ کیس

عین ان دنوں جب ہر شخص کی زبان پر یہ سوال ہے کہ کیا تبدیلی دھرنوں سے اور دھرنوں جیسے طریقوں سے آئے گی … یا… پارلیمنٹ کے ذریعے آئے گی، عین ان دنوں قدرت نے نشانی دکھلا دی۔ دودھ کا دودھ ، پانی کا پانی ہوگیا۔ دھرنوں سے تبدیلی آئے یا نہ آئے ، دوپہر کے دمکتے سورج کی طرح یہ بات واضح ہوگئی کہ رول آف لا موجودہ پارلیمنٹ کے بس کی بات نہیں۔
جنوبی پنجاب کے ایک شہر میں سلمیٰ نے ، جو بیوہ تھی خود کشی کرلی کیوں کہ بجلی کا بل اس کی استطاعت سے باہر ہوگیا تھا۔ اس ملک میں جہاں پارلیمنٹ آئین اور جمہوریت کی حفاظت کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی ہے‘ سلمیٰ کی خبر کچھ خاص اہمیت نہیں رکھتی۔ ہر مہینے ، ہر ہفتے ، ہر روز ، نہ جانے کتنی سلمائیں خودکشی کرلیتی ہیں۔ خودکشی نہ کریں تو انہیں مار دینے کے اور بہت طریقے ہیں ۔ پنچائتیں ہیں، جرگے ہیں، غیرت ہے، گلیوں میں برہنہ پھرائے جانے کا کلچر ہے۔ لیکن اس دفعہ جب سلمیٰ نے خودکشی کی ہے تو ساتھ کچھ اور بھی ہوا ہے۔
حکومت پاکستان کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے وزیراعظم سے سرکاری گاڑی فراہم کرنے کی استدعا کی۔ قانون کی رو سے اس عہدیدار کا استحقاق اٹھارہ سو سی سی گاڑی کا تھا۔ ایک عام کھاتا پیتا شہری جو گاڑی خریدتا ہے اور استعمال کرتا ہے ، وہ ایک ہزار سی سی کی ہوتی ہے یا تیرہ سو سی سی کی۔ کچھ لوگ اٹھارہ سو سی سی کی گاڑی بھی رکھتے ہیں لیکن ان کی تعداد کم ہے۔ اٹھارہ سو سی سی کی گاڑی سٹیٹس کا اور شان و شوکت کا مظہر بھی ہے۔ یہ کوئی معمولی یا عام سواری نہیں۔ اٹھائیس تیس لاکھ میں آتی ہے۔ اس کے تیل پانی کا خرچ بھی کم نہیں !
عہدیدار نے وزیراعظم کو براہ راست لکھا کہ اسے 2400سی سی کی گاڑی کی منظوری دی جائے ۔ یہ درخواست متعلقہ وزارت کی وساطت سے جانی چاہیے تھی۔ وزیراعظم کے دفتر کو چاہیے تھا کہ درخواست واپس کرتا اور متعلقہ وزارت کی رائے طلب کرتا۔ ایسا نہیں ہوا۔ مصروف وزیراعظم نے ایک دو دن کے اندر ہی منظوری دے دی۔ چوبیس سو سی سی کی مرسڈیز بینز گاڑی کی مبینہ قیمت ایک کروڑ تیس لاکھ روپے ہے۔
بظاہر یہ ایک عام سرکاری معاملہ ہے۔ ہمارا ذہنی رویہ وہی ہے جو رعایا کا ہوتا ہے۔ احمد رضا قصوری کے والد قتل ہوئے تھے تو بہت سے لوگ کہتے تھے … آخر بادشاہ لوگوں کو مرواتے ہی ہیں۔ ایسا کون سا انوکھا کام ہوا ہے۔ اس معاملے میں بھی بہت سے لوگ بالخصوص پارلیمنٹ کے ارکان‘ وزرائے کرام اور حکومتی پارٹی کے فیض یافتگان یہی کہیں گے کہ وزیراعظم کو اختیار ہے۔ جو چاہیں کریں۔ اربوں کھربوں کے بجٹ میں کروڑ ڈیڑھ کروڑ کی حیثیت ہی کیا ہے!
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک نے بادشاہی نظام اپنانا ہے یا قانون کی حکومت کا نظام ؟ آسٹریلیا میں وزیر استعفیٰ دے دیتا ہے کیونکہ سرکاری لیٹر پیڈ پر خط لکھ کر کسی کی سفارش کر بیٹھا تھا۔ کیا یہ معمولی بات نہیں ؟ ڈنمارک میں ایک خاتون وزیر استعفیٰ دے دیتی ہے کیونکہ اس نے رات کو سائیکل چلاتے وقت لال بتی کراس کرلی تھی۔ کیا یہ معمولی غلطی نہیں ؟ ایک ریاست کے وزیراعلیٰ کو ایک بزنس مین شراب کی بوتل تحفے میں دیتا ہے۔ اس سے جواب طلبی ہوتی ہے۔ وہ کہتا ہے مجھے یاد نہیں! اس کی ٹیلی فون کال کا ریکارڈ اسے دکھایا جاتا ہے اور وہ کاغذ بھی جس پر اس نے تحفہ دینے والے کو ’’تھینک یو‘‘ لکھ کر بھیجا تھا، وہ مستعفی ہوجاتا ہے۔ کیا یہ بہت بڑا جرم تھا ؟ جن معاشروں میں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے‘ وہاں غلطیاں گزوں اور میٹروں میں نہیں ماپی جاتیں۔ غلطی غلطی ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ اس غلطی کا محاسبہ کرتی ہے۔ وزیر گھر چلے جاتے ہیں، حکومتیں گر جاتی ہیں !
یہاں قانون کی حکمرانی کا تصور ہوتا تو وزیراعظم سب سے پہلے یہ معاملہ وزارت خزانہ کو بھیجتے ۔ وزارت خزانہ کابینہ ڈویژن کی رائے لیتی کہ عہدیدار کو کون سی گاڑی ملنی چاہیے ؟ اگر اٹھارہ سو سی سی کی گاڑی کا استحقاق ہے تو وزارت خزانہ اس کے حساب سے رقم واگزار کرے گی۔ پھر وزارت خزانہ یہ بھی بتاتی ہے کہ اس کے پاس رقم موجود بھی ہے یا نہیں ۔ اگر نئی گاڑیوں کی خرید پر پابندی عائد کی گئی ہے اور اسی حکومت نے عائد کی ہے تو پابندی کا احترام کیاجائے گا۔
مسلم لیگ نون کی حکومت کو کسی بھی زاویے سے جانچ لیں ، یہ ضیاء الحق کے عہد کی توسیع ہے۔ متعلقہ وزارتوں کو مکمل طور پر پس پشت ڈال کر آمرانہ فیصلے کرنا جنرل ضیاء الحق کا طرۂ امتیاز تھا۔ مرحوم ارشاد حقانی نے لکھا تھا کہ ترکی میں جنرل ضیاء الحق کا تعارف میزبان صدر نے کسی فنکار یا کھلاڑی سے کراتے وقت بتایا کہ علاج کے لیے وہ اس فنکار یا کھلاڑی کو امریکہ بھیجنا چاہتے ہیں لیکن ان کی (یعنی ترکی کی) وزارت خزانہ اجازت نہیں دے رہی۔ شہنشاہ معظم صدر پاکستان نے وہیں احکام صادر فرمائے کہ یہ اخراجات حکومت پاکستان برداشت کرے گی! موجودہ حکومت تین وجوہ کی بنا پر صدر ضیاء الحق کے دور آمریت کی توسیع ہے۔ اول : اس میں اداروں کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ چند افراد ہیں جو اداروں کے بجائے خود سارا کاروبار حکومت چلا رہے ہیں۔ وزیر خارجہ ہے ہی نہیں ۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا کردار محض ڈاکخانے کا ہے۔ کسی بیورو کریٹ کے سروس کیریئر کی پلاننگ نہیں ہوتی۔ چند ہفتے یا چند ماہ بعد افسر کو اکھاڑ پھینکا جاتا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب ایک درجن سے زیادہ وزارتیں خود سنبھالے بیٹھے ہیں۔ وزیراعظم سینیٹ جیسے بلند مرتبت ادارے کو جس قدر اہمیت دیتے ہیں وہ اس حقیقت سے واضح ہے کہ چودہ ماہ سینیٹ کا رخ ہی نہیں کیا۔ یہ سب کچھ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ہوتا تھا۔دوم : مذہب کے حوالے سے بھی وہی رویہ ہے۔ ظاہر پر زور ہے اور اعمال کچھ اور صورت حال دکھاتے ہیں۔ سوم : وہی طبقات ، وہی گروہ اور صحافیوں کی وہی جماعت اس حکومت کی پشت پناہی کررہی ہے جو جنرل ضیاء الحق کے دائیں طرف موجود رہی !
وزیراعظم کی یہ ’’ فیاضی‘‘ بظاہر ایک عام سرکاری معاملہ لگتا ہے لیکن عقل والوں کے لیے اس میں نشانیاں موجود ہیں۔ اگر اسے ٹیسٹ کیس کے طور پر لیاجائے تو دیکھنا چاہیے کہ کیا پارلیمنٹ اس غیر قانونی منظوری کا نوٹس لیتی ہے یا نہیں ؟ نہیں لیتی ، تو دیگ کا ایک دانہ کافی ہے۔ اس پارلیمنٹ سے تبدیلی کی امید نہ رکھی جائے اور دوسرے طریقے جو ممکن ہوں اور مناسب ہوں ،آزمائے جائیں۔

Friday, September 26, 2014

بوٹیاں اور کھمبے


نہیں! ہرگز نہیں ! حاجی خان میواتی کو جلال الدین اکبر سے کوئی محبت نہیں تھی۔ نہ ہی اسامہ حمزہ کو عمران خان یا تحریک انصاف سے محبت ہے۔ حب علی اور بغضِ معاویہ والا محاورہ جس نے بھی اردو زبان کو دیا ہے، ابلاغ کے علم پر احسان کیا ہے۔
غداری کی ہیموبقال نے عادل شاہ سوری سے‘ جس نے اسے کمانڈر ان چیف کے ساتھ ساتھ وزیراعظم بھی مقرر کیا تھا۔ ہمایوں کی موت کی خبر ہیمونہ ہضم کرسکا۔ ’’اب میں بادشاہ بنوں گا‘‘ اس نے اعلان کیا۔ اگر وہ کامیاب ہوجاتا تو برصغیر کی تاریخ مختلف ہوتی اس لیے کہ یہ ہندو احیاء ہوتا۔ جس برق رفتاری سے وہ بنگال سے چل کر بہار، مشرقی یوپی اور مدہیہ پردیش کو تاراج کرتا آگرہ پہنچا ہے تو بعد کے مورخوں نے اسے اس مہم سے تشبیہہ دی جو نپولین نے اٹلی میں سرانجام دی۔ کیا سکندر ازبک اور کیا تردی خان جیسے کمانڈر‘ سب بے بس ہوگئے۔ وہ تو بیرم خان ڈٹ گیا کہ نہیں ہم میدان ہیمو کے لیے چھوڑ کر کابل نہیں بھاگیں گے۔ پانی پت کے میدان میں دوسری بار رونق لگی۔ تیرہ سالہ اکبر کو بوڑھے بیرم خان نے میدان جنگ سے آٹھ میل دور رکھا اور ہدایت دی کہ افتاد پڑی تو جان بچانے کے لیے سیدھا کابل جانا ہے۔
کم ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ افغان اپنے آپ کو ہیموکی طرح ’’ مقامی ‘‘سمجھ رہے تھے اور مغلوں کو ’’غیر ملکی‘‘ (وہ جو افغان مہاجرین کی ’’ واپسی‘‘ کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ اس نکتے پرغور کرلیں) ہیمو کا پورا نام چندر وکرا ماتیہ تھا اور پانی پت کی دوسری جنگ میں جب وہ اکبر کی فوج سے لڑرہا تھا تو اس کے میمنہ کی قیادت شادی خان کاکڑ کررہا تھا! ایک تیر ہیمو کی آنکھ کے پار اترا اور مغل جیت گئے۔ لیکن بیرم خان کی قسمت کا فیصلہ ہوچکا تھا‘ اس لیے کہ اس جنگ میں حاجی خان میواتی کا باپ ہیمو کی طرف سے لڑتا ہوا مارا گیا۔
چھ سال گزر گئے۔ اکبر جوان ہوگیا۔ بوڑھے بیرم خان سے اسے جھلاہٹ ہونے لگی۔ ’’ بابا… اب تم محل میں رہو، امور سلطنت چھوڑ دو… یا حج پر چلے جائو …’’ بوڑھے جنگ جونے حج کو ترجیح دی۔ گجرات پہنچا تو حاجی خان میواتی کو معلوم ہوا۔ اس نے باپ کا بدلہ لینے کے لیے بیرم خان کو کعبہ کے بجائے اس دنیا میں پہنچا دیا جو نظر نہیں آتی !!
حاجی میواتی کو کیا دلچسپی تھی مغلوں میں یا ان کی سلطنت کے استحکام میں ! ہوسکتا ہے اکبر نے اس قتل کو غنیمت سمجھا ہو لیکن عمران خان کو ایک لمحہ کے لیے بھی اسامہ حمزہ کی بغاوت سے دلشاد نہیں ہونا چاہیے ! ہاں اگر کوئی سرخ بلب اس کے دماغ کی دیوار پر نصب ہے تو اسے ضرور روشن کرلے!
مسلم لیگ نون کے سینیٹر (سابق چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی) ایم حمزہ نے مسلم لیگ نون کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے تحریک انصاف میں شمولیت کا اصولی فیصلہ کیا ہے! پالیسیوں سے اختلاف… اور اصولی فیصلہ !! ہا ہا ہا ! وہ جو بابے ظفر اقبال نے ایک شعر میں کہا ہے کہ مجھے کبڑا نہ سمجھو… میں تو دنیا کو دیکھ کر اس قدر ہنس رہا ہوں کہ ہنستے ہنستے دہرا ہوگیا ہوں ! تو’’ اصولی فیصلہ ‘‘ اور پالیسیوں سے ’’ اختلاف ‘‘… دو ایسی اخباری اصطلاحات ہیں کہ جس نے بھی ایجاد کیں ریا کاری کے باغ میں گویا پھول کھلا دیے اور مخملیں سبزہ دور دور تک بچھا دیا ! کیا ایم حمزہ کو اور ان کے فرزند گرامی کو ان پالیسیوں کا علم دو دن پیشتر ہوا؟ معمر سیاستدان نے بیٹے کو نون لیگ کا ٹکٹ دلوانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن بات نہ بنی۔ چودھری سرور انگلستانی ثم لاہوری نے کہ گورنر ہائوس میں زینت تخت ہیں، گوجرہ کے خالد جاوید وڑائچ کو ٹکٹ دلوا دیا اور یوں نون لیگ کی پالیسیوں سے ’’ اختلاف‘‘ وجود میں آیا ! یہ اختلاف کی وہی قسم ہے جو حنیف عباسی کو ’’ اپنی ‘‘ جماعت ، جماعت اسلامی سے اس وقت پیدا ہوا جب جماعت نے الیکشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ بائی کاٹ حنیف عباسی کو راس نہیں آسکتا تھا اور یہ موقع محل یہ بتانے کا نہیں کہ مسلم لیگ نون بھی عباسی صاحب کے لیے ع
چراغ راہ ہے! منزل نہیں ہے
نہیں معلوم عمران خان اور اس کی جماعت مسلم لیگ نون کی پالیسیوں سے ’’ اختلاف‘‘ کرنے والے عناصر کے ’’اصولی‘‘ فیصلے کو کس نظر سے دیکھے گی لیکن مخالفین کے اس اعتراض میں خاصا وزن ہے کہ سٹیٹس کو کے علم بردار تو خود عمران خان کے دائیں بائیں بھی موجود ہیں۔ یہ حضرات … الاماشاء اللہ … اتنے ہی مخلص ہوتے ہیں جتنے جاوید ہاشمی تھے۔ اگرچہ ان میں سے کم ہی اتنے لا ابالی اور جذباتی ہوں گے جتنے جاوید ہاشمی ہیں۔ سرتاپا سٹوڈنٹ لیڈر… اشتعال کی جھیل میں ہر وقت کشتی چلانے والے نہیں بلکہ براہ راست تیرنے والے ۔ اب تو انہیں یہ بھی نظر آنے لگا ہے کہ تحریک انصاف کے لوگ عمران خان کی بوٹیاں نوچنے کے لیے تیار ہیں۔ اس نوع کے اسلوب بیان کا ایک ہی مطلب ہوتا ہے کہ صاحب بیان کو ماہر نفسیات کی فوری اور اشد ضرورت ہے! کوئی پوچھے کہ عمران خان کون سی توہین کا مرتکب ہوا ہے کہ اس کی بوٹیاں نوچ لی جائیں ! کبھی نہ پوری ہونے والی آرزوئیں بھی کیا کیا دن سپنے (Hallucination) دکھاتی ہیں ! فاعتبروا یا اولی الابصار!! لے دے کر زنبیل میں ایک ہی سرمایہ ہے کہ جیل میں رہے اور یہ کہ میں تو جیل میں رہا جب کہ میاں صاحب جدہ چلے گئے۔ جیل میں جانا کارنامہ ہوتا تو یہ ’’ کارنامہ ‘‘ قائداعظم نہ سرانجام دے سکے ! گاندھی جی سرانجام دیتے۔ یہ قومی فوج کے خلاف کنفیوژن بھرے بیانات دیں گے اور عجیب و غریب تقریریں کریں گے تو جیل ہی میں جائیں گے‘ ہار تو کوئی نہیں پہنائے گا۔ رہا میاں صاحب کا جدہ جانا تو حاضر دماغی اور Pragmatismکا یہی تقاضا تھا۔ جیل بھٹی ضرور ہے لیکن ہر کوئی یہاں سے کندن بن کر نہیں نکلتا۔ مثال خود ہاشمی صاحب ہیں !!
عمران خان جن نوجوانوں کو بیدار کررہا ہے انہی کو اپنے یمین ویسار پر کھڑا کرے۔ عادل شاہ سوری کی غلطی نہ دہرائے اور ہیموبقالوں سے کنارہ کشی اختیار کرے۔ آج ہی جناب نذیر ناجی نے بھٹو صاحب کے کھمبوں کا ذکر کیا ہے جنہیں عوام نے بھٹو صاحب کے نام پر ووٹ دیے تھے ! اگر روشنی نظر آرہی ہے تو عمران خان کے کھمبوں کو بھی ضرور ووٹ ملیں گے۔ لیکن جو اپنی اپنی جماعتوں سے بے وفائی کرکے آرہے ہیں، کہیں وہ سب جاوید ہاشمی نہ ثابت ہوں !!
بوٹیاں اور کھمبے
نہیں! ہرگز نہیں ! حاجی خان میواتی کو جلال الدین اکبر سے کوئی محبت نہیں تھی۔ نہ ہی اسامہ حمزہ کو عمران خان یا تحریک انصاف سے محبت ہے۔ حب علی اور بغضِ معاویہ والا محاورہ جس نے بھی اردو زبان کو دیا ہے، ابلاغ کے علم پر احسان کیا ہے۔
غداری کی ہیموبقال نے عادل شاہ سوری سے‘ جس نے اسے کمانڈر ان چیف کے ساتھ ساتھ وزیراعظم بھی مقرر کیا تھا۔ ہمایوں کی موت کی خبر ہیمونہ ہضم کرسکا۔ ’’اب میں بادشاہ بنوں گا‘‘ اس نے اعلان کیا۔ اگر وہ کامیاب ہوجاتا تو برصغیر کی تاریخ مختلف ہوتی اس لیے کہ یہ ہندو احیاء ہوتا۔ جس برق رفتاری سے وہ بنگال سے چل کر بہار، مشرقی یوپی اور مدہیہ پردیش کو تاراج کرتا آگرہ پہنچا ہے تو بعد کے مورخوں نے اسے اس مہم سے تشبیہہ دی جو نپولین نے اٹلی میں سرانجام دی۔ کیا سکندر ازبک اور کیا تردی خان جیسے کمانڈر‘ سب بے بس ہوگئے۔ وہ تو بیرم خان ڈٹ گیا کہ نہیں ہم میدان ہیمو کے لیے چھوڑ کر کابل نہیں بھاگیں گے۔ پانی پت کے میدان میں دوسری بار رونق لگی۔ تیرہ سالہ اکبر کو بوڑھے بیرم خان نے میدان جنگ سے آٹھ میل دور رکھا اور ہدایت دی کہ افتاد پڑی تو جان بچانے کے لیے سیدھا کابل جانا ہے۔
کم ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ افغان اپنے آپ کو ہیموکی طرح ’’ مقامی ‘‘سمجھ رہے تھے اور مغلوں کو ’’غیر ملکی‘‘ (وہ جو افغان مہاجرین کی ’’ واپسی‘‘ کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ اس نکتے پرغور کرلیں) ہیمو کا پورا نام چندر وکرا ماتیہ تھا اور پانی پت کی دوسری جنگ میں جب وہ اکبر کی فوج سے لڑرہا تھا تو اس کے میمنہ کی قیادت شادی خان کاکڑ کررہا تھا! ایک تیر ہیمو کی آنکھ کے پار اترا اور مغل جیت گئے۔ لیکن بیرم خان کی قسمت کا فیصلہ ہوچکا تھا‘ اس لیے کہ اس جنگ میں حاجی خان میواتی کا باپ ہیمو کی طرف سے لڑتا ہوا مارا گیا۔
چھ سال گزر گئے۔ اکبر جوان ہوگیا۔ بوڑھے بیرم خان سے اسے جھلاہٹ ہونے لگی۔ ’’ بابا… اب تم محل میں رہو، امور سلطنت چھوڑ دو… یا حج پر چلے جائو …’’ بوڑھے جنگ جونے حج کو ترجیح دی۔ گجرات پہنچا تو حاجی خان میواتی کو معلوم ہوا۔ اس نے باپ کا بدلہ لینے کے لیے بیرم خان کو کعبہ کے بجائے اس دنیا میں پہنچا دیا جو نظر نہیں آتی !!
حاجی میواتی کو کیا دلچسپی تھی مغلوں میں یا ان کی سلطنت کے استحکام میں ! ہوسکتا ہے اکبر نے اس قتل کو غنیمت سمجھا ہو لیکن عمران خان کو ایک لمحہ کے لیے بھی اسامہ حمزہ کی بغاوت سے دلشاد نہیں ہونا چاہیے ! ہاں اگر کوئی سرخ بلب اس کے دماغ کی دیوار پر نصب ہے تو اسے ضرور روشن کرلے!
مسلم لیگ نون کے سینیٹر (سابق چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی) ایم حمزہ نے مسلم لیگ نون کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے تحریک انصاف میں شمولیت کا اصولی فیصلہ کیا ہے! پالیسیوں سے اختلاف… اور اصولی فیصلہ !! ہا ہا ہا ! وہ جو بابے ظفر اقبال نے ایک شعر میں کہا ہے کہ مجھے کبڑا نہ سمجھو… میں تو دنیا کو دیکھ کر اس قدر ہنس رہا ہوں کہ ہنستے ہنستے دہرا ہوگیا ہوں ! تو’’ اصولی فیصلہ ‘‘ اور پالیسیوں سے ’’ اختلاف ‘‘… دو ایسی اخباری اصطلاحات ہیں کہ جس نے بھی ایجاد کیں ریا کاری کے باغ میں گویا پھول کھلا دیے اور مخملیں سبزہ دور دور تک بچھا دیا ! کیا ایم حمزہ کو اور ان کے فرزند گرامی کو ان پالیسیوں کا علم دو دن پیشتر ہوا؟ معمر سیاستدان نے بیٹے کو نون لیگ کا ٹکٹ دلوانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن بات نہ بنی۔ چودھری سرور انگلستانی ثم لاہوری نے کہ گورنر ہائوس میں زینت تخت ہیں، گوجرہ کے خالد جاوید وڑائچ کو ٹکٹ دلوا دیا اور یوں نون لیگ کی پالیسیوں سے ’’ اختلاف‘‘ وجود میں آیا ! یہ اختلاف کی وہی قسم ہے جو حنیف عباسی کو ’’ اپنی ‘‘ جماعت ، جماعت اسلامی سے اس وقت پیدا ہوا جب جماعت نے الیکشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ بائی کاٹ حنیف عباسی کو راس نہیں آسکتا تھا اور یہ موقع محل یہ بتانے کا نہیں کہ مسلم لیگ نون بھی عباسی صاحب کے لیے ع
چراغ راہ ہے! منزل نہیں ہے
نہیں معلوم عمران خان اور اس کی جماعت مسلم لیگ نون کی پالیسیوں سے ’’ اختلاف‘‘ کرنے والے عناصر کے ’’اصولی‘‘ فیصلے کو کس نظر سے دیکھے گی لیکن مخالفین کے اس اعتراض میں خاصا وزن ہے کہ سٹیٹس کو کے علم بردار تو خود عمران خان کے دائیں بائیں بھی موجود ہیں۔ یہ حضرات … الاماشاء اللہ … اتنے ہی مخلص ہوتے ہیں جتنے جاوید ہاشمی تھے۔ اگرچہ ان میں سے کم ہی اتنے لا ابالی اور جذباتی ہوں گے جتنے جاوید ہاشمی ہیں۔ سرتاپا سٹوڈنٹ لیڈر… اشتعال کی جھیل میں ہر وقت کشتی چلانے والے نہیں بلکہ براہ راست تیرنے والے ۔ اب تو انہیں یہ بھی نظر آنے لگا ہے کہ تحریک انصاف کے لوگ عمران خان کی بوٹیاں نوچنے کے لیے تیار ہیں۔ اس نوع کے اسلوب بیان کا ایک ہی مطلب ہوتا ہے کہ صاحب بیان کو ماہر نفسیات کی فوری اور اشد ضرورت ہے! کوئی پوچھے کہ عمران خان کون سی توہین کا مرتکب ہوا ہے کہ اس کی بوٹیاں نوچ لی جائیں ! کبھی نہ پوری ہونے والی آرزوئیں بھی کیا کیا دن سپنے (Hallucination) دکھاتی ہیں ! فاعتبروا یا اولی الابصار!! لے دے کر زنبیل میں ایک ہی سرمایہ ہے کہ جیل میں رہے اور یہ کہ میں تو جیل میں رہا جب کہ میاں صاحب جدہ چلے گئے۔ جیل میں جانا کارنامہ ہوتا تو یہ ’’ کارنامہ ‘‘ قائداعظم نہ سرانجام دے سکے ! گاندھی جی سرانجام دیتے۔ یہ قومی فوج کے خلاف کنفیوژن بھرے بیانات دیں گے اور عجیب و غریب تقریریں کریں گے تو جیل ہی میں جائیں گے‘ ہار تو کوئی نہیں پہنائے گا۔ رہا میاں صاحب کا جدہ جانا تو حاضر دماغی اور Pragmatismکا یہی تقاضا تھا۔ جیل بھٹی ضرور ہے لیکن ہر کوئی یہاں سے کندن بن کر نہیں نکلتا۔ مثال خود ہاشمی صاحب ہیں !!
عمران خان جن نوجوانوں کو بیدار کررہا ہے انہی کو اپنے یمین ویسار پر کھڑا کرے۔ عادل شاہ سوری کی غلطی نہ دہرائے اور ہیموبقالوں سے کنارہ کشی اختیار کرے۔ آج ہی جناب نذیر ناجی نے بھٹو صاحب کے کھمبوں کا ذکر کیا ہے جنہیں عوام نے بھٹو صاحب کے نام پر ووٹ دیے تھے ! اگر روشنی نظر آرہی ہے تو عمران خان کے کھمبوں کو بھی ضرور ووٹ ملیں گے۔ لیکن جو اپنی اپنی جماعتوں سے بے وفائی کرکے آرہے ہیں، کہیں وہ سب جاوید ہاشمی نہ ثابت ہوں !!

Wednesday, September 24, 2014

کموڈ

چلیے مان لیا کہ یہ منصوبہ تھا بلکہ ایک قدم آگے سہی، سازش تھی! لندن میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی ملاقات ہوئی۔ سرگوشیاں کی گئیں، ایک دوسرے کی ہتھیلی پر ہتھیلی زور سے ماری گئی۔ دونوں نے اپنی اپنی آنکھ کا ایک ایک کونہ بھی میچا۔
یہ بھی مان لیا کہ یہ فساد تھا۔ تخریب تھی، یہ کوئی طریقہ نہیں کہ چند ہزار … بلکہ چند سو سر پھرے افراد جمع ہوکر حاکم وقت کے استعفیٰ کا مطالبہ کریں اور آئین اور جمہوریت کی توہین کریں۔ یہ بھی مان لیتے ہیں کہ پاکستان عوامی تحریک کے دھرنے میں شامل سب لوگ ادارہ منہاج القرآن کے ملازم ہیں۔ انہیں دھرنے میں بیٹھنے کا معاوضہ ملتا ہے۔ بلکہ کچھ کو تو زرعی زمینیں یعنی مربعے بھی الاٹ کیے گئے ہیں۔ ڈالروں کی بھرمار ہے۔ ساری رات ڈاکٹر طاہرالقادری کنٹینر میں ڈالر گنتے ہیں اور صبح تقسیم کرتے ہیں۔
یہ بھی درست تسلیم کرلیتے ہیں کہ عمران خان کی زبان ناشائستہ ہے۔ وہ ہر پارٹی ہر سیاست دان پر حملہ آور ہورہا ہے۔ اس کے اردگرد جو سیاستدان جمع ہیں وہ خود سٹیٹس کو کی علامت ہیں۔
یہ بھی مان لیتے ہیں کہ مافوق الفطرت غیبی قوتیں دھرنے کی پشت پناہی کررہی ہیں۔ کچھ سبزپوشوں کو تو رات کے اندھیرے میں بادلوں سے اترتے خود ان صحافیوں نے دیکھا ہے جو اس معرکے میں جمہوریت اور آئین کی خاطر تن من دھن لٹانے کو تیار ہیں۔ نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے پڑھاکو قسم کے ارکان نے سکرپٹ بھی خود پڑھا ہے۔ بعض نے تو پڑھتے وقت کچھ خاص سطور ہائی لائٹ اور انڈر لائن بھی کی ہیں۔
یہ بھی درست تسلیم کرلیتے ہیں کہ عمران خان یہودی لابی کا ایجنٹ ہے۔ اس کے پاس ایسی واکی ٹاکی ہے جو براہ راست اسرائیل سے مربوط ہے۔ موشے دایان کو ڈیرہ اسماعیل خان کے مولانا صاحب نے زمان پارک میں چہل قدمی کرتے خود دیکھا ہے۔ شوکت خانم ہسپتال تعمیر ہی اسرائیل کے مستریوں نے کیا تھا جو دراصل موساد کے ایجنٹ تھے۔ جو نام نہاد یونیورسٹی عمران خان نے بنائی ہے اس میں ہر روز صبح کی اسمبلی میں زبور تلاوت ہوتی ہے۔ عمران خان کے بیٹے اسرائیل میں زیر تعلیم ہیں۔ دونوں ہر روز صبح لنچ بکس اٹھائے لندن سے تل ابیب آتے ہیں اور شام کو چھٹی کرکے واپس لندن پہنچ جاتے ہیں۔
یہ بھی مان لیتے ہیں کہ دھرنے میں فحاشی اور خلاف اخلاق مناظر عام ہیں۔ رقص و سرود سکھانے کی کلاسیں منعقد ہوتی ہیں، ریما اور نرگس پڑھانے آتی ہیں۔ خود عمران خان بھی لیکچر دیتے ہیں۔
یہ بھی درست ہے کہ خیبرپختونخوا میں حالات ابتر ہیں۔ پنجاب پولیس، وہاں کی پولیس کو دیانت داری سکھانے آئی تو عمران خان نے کوتاہ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے اسے لاہور واپس بھیج دیا۔ اقربا پروری زوروں پر ہے۔ صوبے کا نظم و نسق عملاً عمران خان کے بیٹوں کے ہاتھ میں ہے۔ بیورو کریسی کی تعیناتیاں ، ترقیاں تبادلے جمائما کررہی ہیں۔ میانوالی گروپ چھایا ہوا ہے۔ جو شخص میانوالی کے محلہ ’’ ماڈل ٹائون‘‘ سے تعلق رکھتا ہو، اسے بڑا منصب سونپ دیا جاتا ہے۔ نیازی برادری‘ جو اپنے ناموں کے ساتھ بٹ‘ ڈار یا خواجہ لکھتی ہے، ہر شعبے پر ٹڈی دل کی طرح چھا گئی ہے۔
اس میں کیا شک ہے کہ آئین خطرے میں ہے۔ آئین کے سارے مطبوعہ نسخے پی ٹی آئی کے کارکنوں نے بازار سے خرید کر چھپا دیے ہیں تاکہ عوام آئین سے محروم ہوجائیں۔
یہ سب کچھ مان لیتے ہیں۔ سارے الزامات درست ہیں۔ لیکن تعجب اس بات پر ہے کہ گھبرانے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا پارلیمنٹ کے معزز ارکان ان جمہوریت دشمن فسادیوں کا بندوبست دوامی کرنے کے لیے کافی نہیں ؟ آخر جناب اچکزئی کی موجودگی میں پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ حاسدوں کو ان کا گورنر بھائی اور ایم این اے ، ایم پی اے رشتہ دار  نظر آجاتے ہیں لیکن اندھوں کو یہ نظر نہیں آتا کہ ان کی چادر جسے وہ دیانت داری سے لپیٹتے ہیں، کتنی دبیز ہے۔ سب کچھ اس میں چھپ جاتا ہے۔ سید خورشید شاہ حلف اٹھانے کو تیار ہیں کہ بیٹے کی شادی پر انہوں نے کنڈا لگایا نہ آج تک انہوں نے کسی کی بھرتی‘ تقرری‘ تعیناتی‘ تبادلے اور بیرون ملک پوسٹنگ کے لیے سفارش کرکے دوسروں کا حق مارا۔ جناب امین فہیم لاکھوں کروڑوں روپے سالانہ ٹیکس دیتے ہیں اور ہر روز صبح سات بجے بیدار ہوکر وظائف و تسبیحات کرتے ہیں۔ پیپلزپارٹی پر خاندانی اجارہ داری کا الزام یوں بھی تہمت سے زیادہ نہیں اس لیے کہ بلاول تو بھٹو فیملی کا نہیں، زرداری خاندان کا وارث ہے۔ جمہوری کلچر کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ پارٹی ایک اور خاندان کو سونپ دی جائے۔
رہے شریف خاندان کے محلات تو اللہ کے بندو! وہ تو رائے ونڈ میں ہیں ہی نہیں۔ وہ تو جاتی امرا میں ہیں اور جاتی امرا بھارت میں ہے۔ شریف خاندان اپنی کاروباری سرگرمیوں کو نہ صرف حکومت سے بلکہ پاکستان اور پاکستانیوں سے بھی الگ رکھتے ہیں۔ سنا ہے شرق اوسط کے ایک ملک میں فیکٹری کے لیے غیر پاکستانیوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ انتہا کی یہ دیانتداری افسوس صد افسوس ! ایک دنیا کو معلوم ہے صرف عمران خان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے۔
یہ بات فہم سے ماورا ہے کہ جب عمران خان اور طاہرالقادری کے ساتھ عوام ہیں ہی نہیں اور یہ دونوں جعل سازی اور فریب کاری کے مرتکب ہورہے ہیں تو پھراسپغول کی بھوسی ٹنوں کے حساب سے کیوں استعمال کی جارہی ہے۔بقول ظفر اقبال   ؎
کوئی گڑ بڑ اگر نہیں ہے تو پھر
کیوں لیے پھر رہے ہو ساتھ کموڈ

Friday, September 19, 2014

الجھ گئے ہیں ہمارے نصیب!

بھارتی شدت پسندوں نے عسکری سرگرمیوں سے کنارہ کشی کا اعلان کر دیا۔ ان کے بقول اب وہ بھارت کے اندر عوامی بہبود کے منصوبوں پر توجہ دیں گے۔ ہاں!یہ اعلان انہوں نے اس کے ساتھ ہی کر دیا ہے کہ پاکستان میں ’’اپنا کردار‘‘ وہ جاری رکھیں گے۔
ایسا ہوا نہیں!لیکن اگر خدانخواستہ ہو‘ تو پاکستان کاردعمل کیا ہو گا؟پاکستان کے عساکر الرٹ ہوجائیں گے ۔پاکستانی عوام میں غم و غصہ کی لہر دوڑ جائے گی اور پاکستانی حکومت احتجاج کرے گی!
بفرض ِ محال اگر عصمت اللہ معاویہ نے افغانستان میں اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھنا بھی تھا تو اس کا اعلان ببانگ دہل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟پاکستانی ناظم الامور کو کابل نے وزارت خارجہ میں طلب کیا اور احتجاج کیا۔آخر بیچارے ناظم الامور نے اس کی کیا توجیہہ پیش کی ہو گی!غالباً یہی کہ یہ تو نان سٹیٹ ایکٹر ہیں‘ لیکن ردعمل میں اگلا منطقی سوال یہی ہو سکتا ہے کہ حضور!نان سٹیٹ ایکٹر ہیں تو ہیں تو پاکستان کے اندر ہی! آخر انہیں کون کنٹرول کرے گا؟
ان کی کرم نوازی ہے کہ ملک کے اندر عسکری سرگرمیوں کا سلسلہ بند کر رہے ہیں۔تاہم ایک گروہ جو اس قابل ہے کہ دوسرے ملک میں ’’کردار‘‘ ادا کر سکے‘وہ اپنے ملک میں‘ جب جی چاہے‘کیا نہیں کرے گا؟یہ حضرات سینکڑوں میں نہیں‘ہزاروں میں ہیں۔اگر یہ ملک کے اندر دعوت و تبلیغ کا کام کرنا چاہ رہے ہیں تو ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان کا ذریعہ معاش کیا ہو گا؟
افغانستان میں ’’کردار‘‘ ادا کرنے کی بات صرف پاکستانی گروہ نہیں کر رہے‘وہاں سے بھی بہت کچھ ہو رہا ہے گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران‘ایک خبر کے مطابق ‘پچیس ہزار افغانی پاکستان میں داخل ہوئے ہیں۔وہ جو مجید امجد نے کہا تھا ؎
جو تم ہو برقِ نشیمن تو میں نشیمنِ برق
الجھ گئے ہیں ہمارے نصیب کیا کہنا!
حکومت سنبھالنے کے بعد بابر نے آگرہ میں اپنے اور اپنے افسروں کے لیے جو پہلی ’’ہائوسنگ سوسائٹی‘‘ تعمیر کی تھی‘ اس کا نام ہی ’’کابل‘‘ تھا! کئی سال کے بعد کابل کے خربوزے ہاتھ آئے۔وہ زمانہ تو اس کے پڑپوتوں ہی کو نصیب ہوا جب وسط ایشیا سے سینکڑوں اونٹ تازہ اور خشک میوہ جات سے لدے ہوئے تحفے میں آتے تھے۔ اورنگزیب تک امیر تیمور کے مقبرے کی نگہداشت کے اخراجات دہلی کی حکومت پورے کرتی رہی۔ ’’آل تیمور‘‘ کا یہ جذباتی فریضہ تھا! شاہ جہان نے تو لشکر کشی بھی کی ۔مغل ایک عرصہ تک دہلی کو عارضی پڑائو اور وسط ایشیا کو ارض موعود (PROMISED LAND)سمجھتے رہے۔ مدت بعد کابل سے خربوزے آئے۔بابر کاٹتا جاتا‘ کھاتا جاتا اورروتا جاتا‘ یہ واقعہ جسے تاریخ نویسوں نے کم ہی اہمیت دی‘ ایک علامت تھا‘ آنے والے سینکڑوں برس کے رونے کی۔یہ خربوزہ نہیں تھا! یہ چاقو نہیں تھا! یہ افغانستان اور پاکستان کی وہ مشترکہ قسمت تھی جس کا آغاز تھا نہ انجام نظر آتا ہے!کابل کے خربوزے ‘ جنہیں اس زمانے میں گرما کہتے ہیں‘پشاور سے دارالحکومت تک آج بھی ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں‘ لیکن آنسو جو بابر جیسے سورما کی آنکھوں سے چھلک کر باہر آ گئے تھے‘ آج افغانوں کی آنکھوں سے بھی نکل رہے ہیں اور پاکستانیوں کی آنکھوں سے بھی! افغانستان اورپاکستان کے بخت کا ستارہ ایک ہی ہے‘بخت اتنا تابناک نہیں کہ یہ ستارہ ماتھے پر دمکتا! یہ ستارہ مدھم ہے‘ کبھی بادلوں میں چھپتا اور کبھی حماقت کا موتیا اتر آنے کے باعث دیکھنے والی آنکھ کے بس سے باہر!خوست کا وہ افغان نہیں بھولتا جو حرمِ کعبہ کے صحن میں ملا اور تادیر گفتگو کرتا رہا۔راولپنڈی میں اس کی جائیداد تھی۔راجہ بازار کے علاقے میں تین یا چار دکانیں!اس سے پوچھا‘ خدانخواستہ افغانستان اور پاکستان میں جنگ چھڑی تو کس کا ساتھ دوگے‘وہ جواب میں محض مسکرا دیا۔باذوق ہوتا تو کہتا ع 
الجھ گئے ہیں ہمارے نصیب کیا کہنا!
پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات دنیا کی مشکل ترین خارجہ پالیسی ہے!
انٹرنیشنل ریلیشنز کا پیچیدہ ترین مضمون! آج تک انٹرنیشنل ریلیشنز کے اساتذہ اور طلبہ اس خیال میں ہیں کہ دو عالمی جنگوں کے درمیانی عرصہ کی تاریخ یورپ‘ اس مضمون کا مشکل ترین باب ہے۔غلط سمجھتے ہیں!پاکستان اور افغانستان کسی شمارمیں نہیں!ہوتے تو ان سکالروں کو معلوم ہو جاتا کہ ان دو ملکوں کی باہم الجھتی ‘سلجھتی ادھڑتی ‘ ٹوٹتی جُڑتی تاریخ کس قدر صعب ہے! گڑھوں‘ خندقوں‘ دریائوں سے اٹا ہوا راستہ! ایران سے واپسی پر‘ ہمایوں نے کابل کا محاصرہ کیا تو اس کے بھائیوں نے ننھے اکبر کو فصیل پر بٹھا دیا۔کر لو تیر اندازی جتنی کرنی ہے!چلالو توپ کے گولے ! یہ بھی علامت تھی برصغیر کے مسلمانوں کے نازک ترین رشتے کی جو ان کا افغانستان کے ساتھ تھا‘ ہے اور رہے گا! ہمارا بچہ فصیل پربیٹھا ہے اور تیراندازی بھی ہم کر رہے ہیں!ہیں نا الجھے ہوئے نصیب!!
وزارت خارجہ کے سارے مضامین کے لیے ذہانت درکار ہے اور علم !لیکن افغانستان کے باب کے لیے تو خصوصی لیاقت اور ڈھیروں علم چاہیے۔ کیا ہمارے محترم وزیر اعظم نے ولیم ڈالر میل کی تازہ ترین تحقیقی تصنیف ’’ریٹرن آف دی کنگ‘‘ پڑھی ہو گی؟افغانوں کی نفسیات کو سمجھنے کے لیے اس سے بہتر کتاب ہمارے سیاق و سباق میں شاید ہی کوئی ہو!ٹیلی ویژن پر پروفیسر حسن عسکری نے کیا درست بات کہی کہ ہمارے اڑھائی یا ساڑھے تین وزرائے خارجہ ہیں۔سرتاج عزیز‘شہباز شریف اور فاطمی صاحب!شہباز شریف تو وزیر خارجہ ہوں گے‘ لاہور اور لاہور کے لیے ہونے والے معاہدوں کے حوالے سے‘ فاطمی صاحب بیورو کریٹ ہیں اس لیے کہ ایک دفعہ کا بیورو کریٹ ہمیشہ کا بیورو کریٹ۔ رہے سرتاج عزیز‘ تو نہ جانے اختیارات کا سیب کئی قاشوں سے بٹنے کے بعد ان کے حصے میں کتنا آتا ہو گا۔بہر طور‘ ایک بات کچھ عرصہ پہلے انہوں نے حقیقت پسندانہ کہی کہ کاش افغانستان اور پاکستان کے درمیان دیوار ہوتی۔ہم اُدھر جا سکتے نہ وہ اِدھر آ سکتے! اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!ہمارے گروہ اپنا ’’کردار‘‘ ادا کرنے کے اعلانات بآوازِ بلند کرتے رہیں گے‘ افغانستان سے ہزاروں افراد پاکستان میں داخل ہوتے رہیں گے اور ہم جیسے احمق وزیر اعظم کو کتاب پڑھنے کا مشورہ دیتے رہیں گے!

Thursday, September 18, 2014

سائیں! بڑا افسوس ہے!!


یہ کراچی ہے۔ صبح کا وقت ہے۔ پی آئی اے کی پرواز پی کے 370سات بجے روانہ ہونی ہے۔ مسافر جہاز میں بیٹھے ہیں۔ سات بج جاتے ہیں۔ روانگی کے آثار کہیں نہیں! 
اس پرواز کو مسافر اس لیے ترجیح دیتے ہیں کہ نو بجے اسلام آباد پہنچ جاتی ہے۔ لوگ دفتروں‘ سفارت خانوں‘ ملٹی نیشنل کمپنیوں‘ وزارتوں میں کام نمٹاتے ہیں اور شام کی پرواز سے واپس آ جاتے ہیں۔ 
سات سے آٹھ بج جاتے ہیں۔ پھر ساڑھے آٹھ پھر نو… عملہ ایک ہی بات بتاتا ہے۔ ’’ٹیکنیکل وجہ سے تاخیر ہو رہی ہے‘‘ عملہ کے ایک رکن کے منہ سے سچی بات نکل جاتی ہے… ’’ایک وی آئی پی کا انتظار ہو رہا ہے‘‘… 
دو اڑھائی گھنٹے بعد ایک سینیٹر صاحب اپنا ٹرالی بیگ لڑھکاتے نظر آتے ہیں۔ شان و شوکت سے تشریف لا رہے ہیں۔ یہ پہلے وزیر تھے۔ ولایت کے باسی ہیں۔ اب بھی پیش منظر پر ہیں؛ تاہم شور سن کر‘ صورتحال بھانپ کر ٹرالی بیگ لڑھکاتے واپس چلے جاتے ہیں۔ 
اس سے چند منٹ پہلے بھی ایک عوامی نمائندہ آیا تھا۔ نشست پر بیٹھ گیا تھا۔ پورے جہاز کے مسافروں نے شیم شیم کے نعرے لگائے۔ وہ بھی دو گھنٹے تاخیر سے آیا تھا۔ ’’میں تو یہیں باہر بیٹھا تھا‘‘۔ اس نے جان بچانے کے لیے کہا۔ مسافروں نے پوچھا… ’’وہاں باہر کیوں بیٹھے ہوئے تھے؟ باقی سارے مسافر تو جہاز کے اندر بیٹھے ہیں‘‘… اُسے بھی جہاز سے نکال دیا گیا۔ 
تبدیلی آ نہیں رہی۔ تبدیلی آ چکی ہے۔ عمران خان فرشتہ نہیں… انسان ہے۔ انسان مرکب ہی دو چیزوں سے ہے۔ خطا اور نسیان۔ عمران خان سے بھی غلطیاں ہوئیں۔ وہ بھول بھی سکتا ہے۔ طالبان اور قبائلی جرگہ سسٹم کے حوالے سے اُس کی رائے سے شدید اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن پچھلے ایک ماہ سے عوامی فکر میں جو تبدیلی وہ لایا ہے اس سے انکار صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کے بارے میں سعدی نے بہت عرصہ پہلے کہہ دیا تھا؎ 
گر نہ بیند، بروز، شپرہ چشم 
چشمۂ آفتاب را چہ گناہ 
چمگادڑ بیچاری دن کو دیکھنے سے معذور ہے۔ بھلا اس میں سورج کا‘ جو روشنی کا منبع ہے‘ کیا قصور!! 
تبدیلی! ایسی تبدیلی جس کا چند ماہ پہلے تصور تک نہیں کیا جا سکتا تھا! خاکروب بھی ٹیکس چور ٹیکس چور کے نعرے لگاتا پھرتا ہے۔ باورچیوں‘ مالیوں اور ریڑھے دھکیلنے والے مزدوروں کو بھی اعداد و شمار معلوم ہو چکے ہیں کہ لندن میں کس کی کتنی جائداد ہے؟ جدہ میں کس کے کتنے کارخانے ہیں؟ برطانیہ میں گزشتہ برس کس نے کتنے کروڑ روپے ٹیکس میں ادا کیے اور اپنے ملک میں کس نے کتنے سو روپے ٹیکس والوں کو دے کر قوم پر احسانِ عظیم کیا۔ کس نے کس کس موقع پر کون کون سے جھوٹ بولے؟ کس نے کس کو گریبان سے پکڑنے اور گھسیٹنے کی دھمکیاں دیں۔ پھر کوچوان بن کر خدمت پر مامور ہوا اور دسترخوان قابوں سے بھر گیا!!؎ 
حقیقتِ ابدی ہے مقامِ شبیری 
بدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی! 
مسلح افواج کے ایک بہت ہی سینئر افسر راوی ہیں۔ ملتان میں ایک صاحب کی گاڑی کا نمبر ایسا تھا جس سے ایک اعلیٰ شخصیت کے نام کے تین حصوں کے ابتدائی حروف بنتے تھے۔ اعلیٰ شخصیت اُس نمبر کی گرویدہ ہو گئی۔ گاڑی کا مالک بھی اکڑ گیا۔ منت سماجت کی نوبت آ گئی۔ آخر میں جانے کیا ہوا لیکن اس سے ایک خاص مائنڈ سیٹ کا۔ ایک خاص ذہنی سطح کا پتہ چلتا ہے۔ فلاں فون نمبر لینا ہے۔ زائد جتنے پیسے لگتے ہیں لگا دو۔ گاڑی کا فلاں نمبر لینا ہے۔ منہ مانگے دام حاضر ہیں۔ یہی وہ مائنڈ سیٹ ہے‘ یہی وہ ابکائی لانے والی ذہنی سطح ہے جو اس طبقے کو پروازیں موخر کرانے پر اُکساتی ہے۔ کیا جاہ و جلال ہے کیا طمطراق ہے۔ اڑھائی سو انسان مکھیوں‘ چیونٹیوں‘ بلیوں‘ مرغیوں کی طرح دو دو گھنٹے جہاز کی نشستوں پر بندھے‘ انتظار کرتے ہیں۔ پھر ایک وی آئی پی نمودار ہوتا ہے۔ اس وی آئی پی کو یہ تربیت ہی نہیں ملی کہ وہ تاخیر کا سبب بننے پر معذرت کرے۔ یہ تو اس کا حق ہے ع 
تفو بر تو اے چرخِ گرداں! تفو 
ایک سابق وزیراعظم کے‘ جو ایک زمانے میں سپیکر تھے‘ گھر کے کسی فرد کی خاطر دارالحکومت سے لاہور جانے والی پرواز تاخیر کا شکار ہوئی۔ کشور ناہید بھی مسافروں میں تھیں۔ انہوں نے جہاز کے اندر‘ نشستوں کے درمیان جو تنگ سی پگڈنڈی بنی تھی‘ اُسی پر احتجاجی جلوس نکال دیا۔ لیکن چند ہی مسافروں نے ساتھ دیا۔ وہ زمانے لد گئے۔ اب اس قوم کو احتجاج کرنا آ گیا ہے۔ یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں! یہ وہ قوم ہے جو تندرست گردہ نکالنے والے قصاب صفت ڈاکٹروں کو یہ کہہ کر معاف کر دیتی تھی کہ تقدیر میں یہی لکھا ہے۔ آج طاقتور‘ قانون سے بالا‘ ارکانِ پارلیمنٹ کو شیم شیم کے نعروں کے ساتھ جہازوں سے باہر نکالا جا رہا ہے‘ کل کو اور بھی بہت کچھ ہوگا!   ؎ 
بھرا نہ اطلس و مرمر سے پیٹ خلقت کا 
یہ بد نہاد اب آب و گیاہ مانگتی ہے 
تین سال پہلے کا واقعہ ہے۔ اسلام آباد سے پی آئی اے کی پرواز بنکاک کے لیے تیار تھی۔ ایک اعلیٰ شخصیت کے اعلیٰ لختِ جگر کی اُسی وقت تشریف آوری تھی یا رخصتی تھی۔ اس کی خاطر بنکاک والی پرواز تاخیر کا شکار ہوتی گئی یہاں تک کہ تاخیر حدو حساب سے باہر ہو گئی۔ جہاز بنکاک پہنچا تو مسافر بے یارومددگار تھے۔ جس نے ہانگ کانگ جانا تھا‘ اس کا جہاز بھی جا چکا تھا‘ جس نے سنگاپور جانا تھا‘ اس کا بھی اور جس نے سڈنی جانا تھا اس کا بھی۔ پریشان حال‘ دربدر مسافروں نے ایسی ایسی بددعائیں دیں کہ بنکاک کا نام ہی اس ایئرلائن کی فہرست سے چھن گیا۔ طاقتور باریاں لینے والی سیاسی جماعتوں نے اس کا بھرکس نکال کر رکھ دیا ہے! حالت یہ ہے کہ اس سے عبرت بھی کوئی نہیں پکڑتا۔ 
احتجاج! احتجاج! اپنا حق لینے کے لیے احتجاج! اور ہاں! قوم پارلیمنٹ سے اظہار افسوس ضرور کرے کہ یہ جو عوام کو جوتے کی نوک پر اور قانون کو جوتے کے نیچے رکھنے والے معزز ارکان کو جہاز سے نکالا گیا ہے تو یہ ’’آئین‘‘ اور ’’جمہوریت‘‘ کی عزت پر حملے کے مترادف ہے!! اے معزز ارکانِ پارلیمنٹ! اے محافظانِ جمہوریت و آئین! ہم افسوس کا اظہار کرتے ہیں!!

Tuesday, September 16, 2014

میں ہوں ناں


2002ء میں یورپ میں سیلاب آیا تو یورپی یونین کے ملکوں کے نمائندے کوپن ہیگن میں اکٹھے ہوئے۔ ناروے اور سوئٹزرلینڈ یورپی یونین کا حصہ نہیں لیکن انہیں بھی مدعو کیا گیا۔ وہ ممالک جو ابھی رکن نہیں بنے اور محض رکنیت کے امیدوار ہیں، انہیں بھی بلایا گیا۔ ان میں سے ہر ایک ملک نے اپنے ہاں ایک ڈائریکٹرمقرر کررکھا ہے جسے ’’ واٹر ڈائریکٹر‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ تمام ڈائریکٹر موجود تھے ۔اس بات پر اتفاق ہوا کہ سیلاب کی پیشین گوئی ، احتیاطی تدابیر اور سیلاب کے بعد کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ سطح پر منصوبہ بندی کی جائے۔ چنانچہ فرانس اور ہالینڈ کے نمائندوں پر مشتمل ایک گروپ تشکیل دیاگیا۔ اس گروپ نے ایک دستاویز تیار کی جس کا نام ’’ بیسٹ پریکٹس ڈاکومنٹ‘‘ (بہترین عملی دستاویز) رکھا گیا۔2003ء میں ان تمام نمائندوں کا اجلاس یونان میں منعقد ہوا ،جہاں یہ دستاویز پیش کی گئی۔
یہ دستاویز (بیسٹ پریکٹس ڈاکومنٹ) اس وقت دنیا میں سیلاب کے حوالے سے جامع ترین دستاویز ہے۔ اسے زندہ (Living)دستاویز بھی کہا جاتا ہے ،اس لیے کہ اس میں مسلسل ترامیم کی جارہی ہیں۔ یہ تین حصوں پرمشتمل ہے ۔ حصہ اول میں طریق کار اور بنیادی اصول طے کیے گئے ہیں۔حصہ دوم میں ان اصولوں اور طریق کار کو عملی جامہ پہنانے کی تدابیر بیان کی گئی ہیں۔ تیسرے حصے میں نتائج بیان کیے گئے ہیں۔
تیس صفحات پر مشتمل کرۂ ارض کی اس انتہائی اہم دستاویز میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے ،اس کی مدد سے یورپ میں سیلابوں پر بہت حد تک قابو پالیاگیا ہے۔ مندرجہ ذیل پہلوئوں پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔
1۔ دریائوں کے طاس کے متعلق ان تمام ملکوں اور صوبوں کی متحدہ منصوبہ بندی جہاں جہاں سے یہ دریا گزرتے ہیں۔
2۔ عوامی شعور کی بیداری، عوامی شمولیت اور سیلاب سے متعلقہ بیمہ پالیسیاں۔
3۔ پانی کو جمع کرنے کی تدابیر۔
4۔ غیر تعمیراتی اقدامات۔
5۔ سیلاب کے حوالے سے زمین کے مختلف زون مقرر کرنا اور نقصانات کا پیشگی تخمینہ لگانا۔
6۔ تعمیراتی اقدامات، ان میں بند باندھنا اور ڈیم بنانا سرفہرست ہے۔
7۔ ایمرجنسی میں کیے جانے والے اقدامات کی پیشگی تیاری۔
8۔ سیلاب کے بعد پھوٹنے والی بیماریوں اور آلودگی سے نمٹنے کے لیے ہر ممکن تیاری۔
یورپی یونین نے جو بنیادی اصول طے کیا وہ یہ تھا کہ سیلاب کے حوالے سے جو کوشش بھی کی جائے گی اس میں مقامی، علاقائی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر تمام متعلقہ حلقے ضرور شامل ہوں گے۔
 سیلاب کا مقابلہ کرنے کے لیے جاپان نے حیرت انگیز نظام بنایا۔ جاپانیوں نے کام کو تین حصوں میں تقسیم کردیا۔ حکومت نے بڑے بڑے کاموں کا ذمہ لے لیا۔ علاقائی بنیادوں پرطویل المدت منصوبہ بندی کی۔ دریائوں کے کناروں کو بلند کیا اور مضبوط تر بنایا۔ شہری علاقوں میں نکاس کے نظام کو ازسرنو درست کیا۔ جگہ جگہ پانی کے اخراج کے لیے پمپ سٹیشن قائم کیے۔ لوگوں کو تعلیم دی کہ سیلاب روکنے کے اقدامات کون کون سے ہیں اور کس طرح سرانجام دینے ہیں۔پھر جب سیلاب سر پر آجائے تو آبادی کا انخلا کیسے ہوگا۔ رضا کاروں کے گروہ کس طرح منظم ہوں گے۔ تربیت کیسے دی جائے گی۔ سیلاب اترنے کے بعد بحالی کا کام کس طرح ہوگا۔ مالی اور مادی مدد کیسے فراہم کی جائے گی۔  ’’سیلاب انشورنس‘‘ پر بھی کام کیاگیا۔ سماجی حوالے سے متاثرین میں خود اعتمادی پیدا کی گئی۔
مقامی تنظیموں کے ذمے یہ کام لگایا گیا کہ وہ بارش کے پانی کا زیادہ سے زیادہ ذخیرہ کریں۔ سیلاب کو جذب کرنے کے لیے جنگل اگائیں۔ تباہی کو کم کرنے کے لیے ریت کی بوریاں فراہم کریں۔ مقامی باشندوں کو اکٹھا کرکے انسدادی تدابیر کے متعلق بحث مباحثہ کریں۔ افواہوں کا مقابلہ کریں اور رضا کاروں کو منظم کریں۔
انفرادی سطح پر لوگوں کو تربیت دی گئی اور سمجھایا گیا کہ زمین کی نوعیت کو سمجھیں، مکانوں کے ارد گرد زیادہ سے زیادہ شجرکاری کریں۔ سیلاب آنے کی صورت میں ہرشخص کو بتایا گیا کہ اس نے کدھر کا رخ کرنا ہے اور کیا کرنا ہے۔ گھر کے سازو سامان کو کس طرح بچانا ہے اور قیمتی اشیا کی کیسے حفاظت کرنی ہے۔ سیلاب کے امور سے نمٹنے کے لیے الگ وزارت قائم کی گئی۔ یہ وزارت اپنے وزیر کی قیادت میں سال کے بارہ ماہ اور مہینے کے تیس دن سیلاب کا موسم آنے سے پہلے ہر ممکن تیاری کرتی ہے۔
ہالینڈ میں سیلاب تباہی مچاتا تھا۔ ہالینڈ کی حکومت نے دریائوں پر زیادہ اونچے بند باندھے۔ دریائوں کے پانی کو تقسیم کرنے اور اس کا زور گھٹانے کے لیے نئی نہریں کھودیں۔ سمندر کے آگے بند باندھے گئے ،یوں کہ صرف جہاز رانی کے لیے رستہ چھوڑا گیا۔ ڈیم اتنی کثیر تعداد میں تعمیر کیے گئے کہ سیلاب آنے بند ہوگئے۔
اب ہم پاکستان کی طرف آتے ہیں جہاں ہر سال سیلاب آتے ہیں۔ آج کل اخبارات میں حکومت پنجاب کی طرف سے اپیل نما اشتہارات شائع ہورہے ہیں ۔ان اشتہارات میں وزیراعلیٰ کہتے ہیں۔
’’ میں اس دوران سیلاب سے متاثر ہونے والے علاقوں کے کونے کونے میں جارہا ہوں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے سیلاب کی تباہ کاریوں کے جو درد ناک مناظر دیکھے ہیں ،میرے پاس وہ الفاظ نہیں کہ ان کی تفصیل بیان کرسکوں۔‘‘
نو سطروں کے اس اشتہار میں چار دفعہ ’’ میں ‘‘ کا لفظ آیا ہے ۔ یہ ہے اس ساری ’’ منصوبہ بندی‘‘، ’’ کوشش ‘‘ اور تعمیراتی اور غیر تعمیراتی اقدامات کالب لباب جو علاقائی اور قومی سطح پر یہ ملک کررہا ہے!! وزیراعلیٰ ہر جگہ جارہے ہیں۔ بالکل درست ! لیکن متعلقہ محکموں کے سربراہ کہیں بھی نہیں نظر آتے ! یوں لگتا ہے کہ سیلاب کے امور کے وزیر کا تو ذکر ہی کیا، کابینہ ہی کا شاید وجود نہیں ! سیلاب کی تباہ کاریوں سے بے حال ہونے والے متاثرین کس سے پوچھیں کہ صوبائی اور قومی سطح پر کون کون سی وزارتیں ،کون کون سے ادارے اور کون کون سے محکمے پورا سال سیلاب کے انسداد کے لیے کام کرتے ہیں ؟ دریائوں کے طاس گہرے اور چوڑے کرنے کے لیے اب تک کیا گیا ہے؟ یہ دریا بھارت ، پاکستان اور پھر پاکستان میں پنجاب اور سندھ سے گزرتے ہیں۔ اس ضمن میں بین الاقوامی اور صوبائی سطحوں پر کتنے اجلاس ہوئے ہیں اور کہاں کہاں ہوئے ہیں ؟ اب تک کتنے بند باندھے گئے ؟ دریائوں کے کون کون سے کنارے بلند کیے گئے ؟ کتنے ڈیم بنائے گئے ؟ عوامی شمولیت اور عوامی بیداری کے لیے کتنی تنظیمیں کام کررہی ہیں ؟ پیشگی وارننگ دینے کا کیا سسٹم ہے ؟ غیر تعمیراتی اقدامات کون کون سے کیے گئے ہیں ؟ اس ضمن میں تحقیقاتی (ریسرچ کا) کام کون کون سا ہوا ہے؟ یورپ جاپان اور دوسرے ملکوں سے ہماری کون کون سی ٹیمیں تربیت حاصل کرچکی ہیں اور ان کی کارکردگی کیا ہے؟ زمین کو سیلاب کے حوالے سے کتنے اور کون کون سے زون میں تقسیم کیاگیا ہے؟ بیماریوں اور آلودگی کے انسداد کے لیے کیا کیاگیا ہے ؟ جن جن بستیوں اور شہروں میں سالہا سال سے سیلاب آرہے ہیں،وہاں کے مردوں ، خواتین اور نوجوانوں کو ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے کتنی تربیت دی گئی ہے ؟ کتنے تربیتی مراکز کام کررہے ہیں؟ اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ہمارے ’’ واٹر ڈائریکٹر‘‘ کون صاحب ہیں اور صوبوں اور وفاق میں امور سیلاب کے وزرا کون کون ہیں اور کہاں پائے جاتے ہیں ؟
سوشل میڈیا پر بہت دنوں سے ایک تصویر گردش کررہی ہے۔ وزیراعلیٰ پانی میں کھڑے ہیں۔ اونچے کناروں والے لمبے بوٹ نمایاں ہیں۔ان کے پیچھے چھ سات فدوی نما افسر نصف دائرہ بنائے ، پائنچے چڑھائے پانی میں کھڑے ہیں۔ سب کے چہرے ملازمت کے خوف سے لرزاں نظر آرہے ہیں۔ وزیراعلیٰ کی مشہور و معروف انگلی اٹھی ہوئی ہے۔ اس تصویر پر جو جو کمنٹ ہیں وہ احاطۂ تحریر میں نہ ہی لائے جائیں تو بہتر ہے۔ 
ہم سمجھیں یا نہ سمجھیں، دنیا میں سیلابوں پر شخصیات اور کیمروں سے نہیں ، بلکہ اداروں نے قابو پایا ہے !

Sunday, September 14, 2014

لاٹری


یہ قلم کار اور اس کی عفیفہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ عمر کے اس مرحلے میں خوابیدہ قسمت جاگے گی اور وہ سب کچھ ممکن ہوجائے گا جو طلسماتی داستانوں میں پڑھتے آئے ہیں۔
سب سے پہلے تو بیرون ملک صاحبزادے کو لکھا کہ ہمارے لیے شہر کے بہترین حصے میں ایک عمدہ مکان تلاش کیا جائے۔ اب ہمارا اس کے گھر قیام مناسب نہ ہوگا ، بلکہ زیادہ بہتر یہ ہوگا کہ وہ اور اس کے بیوی بچے اس محل نما رہائش گاہ میں ہمارے ساتھ ہی رہیں‘ جسے تلاش کرنے کا اشارہ کیا ہے۔ ساتھ ہی نئی گاڑی کا آرڈر دے دے اور ڈرائیور کے لیے بھی متعلقہ کمپنی کو ای میل کردے ۔ ڈرائیور سفید فام ہونا چاہیے۔ بدلے ہوئے حالات میں یہ ہرگز مناسب نہ ہوگا کہ کہیں جانا ہو تو صاحبزادے یا بہو کو لانے لے جانے کی زحمت دیتے پھریں۔
اس کے بعد ایک دوست سے جو لندن کے طول و عرض سے یوں واقف ہے جیسے اپنی ہتھیلی سے‘ رابطہ کیا کہ پراپرٹی خریدنے میں مدد کرے اور اس غرض سے سروے شروع کردے۔ جب اس نے ترجیحی علاقوں کا پوچھا تو بتا دیا کہ جن جن علاقوں میں شریف خاندان کی جائیدادیں ہیں، وہاں بہتر ہوگا۔ چنانچہ پارک لین، مے فیئر، نائٹس برج، کین سنگٹن ، ڈیوک سٹریٹ اور دریائے ٹیمز کے کنارے سروے ہورہا ہے۔ جلد ہی ایک باعزت رہائش گاہ خرید لی جائے گی۔ عین ممکن ہے رحمن ملک صاحب کی جائیداد بھی وہاں سے قریب ہو۔ میں نے اور میری بیوی نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ سٹیٹس کے اعتبار سے ہم ان حضرات کے ہم پلّہ ہوجائیں گے۔
پھر ہم نے اپنے ایک اور پرانے خواب کو حسرتوں کی گرد آلود الماری سے نکالا اور اس پر مدتوں کی جمی ہوئی دھول جھاڑی۔ آرام دہ عالی شان بحری جہازوں کے لگژری کمروں میں بیٹھ کر ملک ملک کی سیر کرنے اور بندر گاہوں میں اتر کر گھومنے پھرنے کو کروز کہتے ہیں۔ جب بھی اشتہار پڑھتے تھے ، قیمتیں پوچھ کر خاموش ہوجاتے تھے اور گفتگو کا موضوع تبدیل کرلیتے تھے ۔ اب یہ خواب حقیقت کا روپ دھار سکتا تھا۔ یوں تو کروز کے بہت سے روٹ ہیں جیسے آسٹریلیا اور مشرق بعید ، جنوبی امریکہ اور بحرالکاہل ، الاسکا کے انتہائی شمالی علاقے لیکن ہم نے یورپ کا انتخاب کیا۔ سیروتفریح کے لیے بحر روم سے بہتر کوئی جگہ نہیں۔ ہم نے ایک ایسا پیکیج خریدا جو یورپ کے تمام خوبصورت شہروں میں لے جائے گا۔ اس تفریحی سفر کا آغاز ہسپانیہ کے خوبصورت ساحلی شہر بار سلونا سے ہوگا۔ جنوبی فرانس کے خوبصورت شہروں سے ہوتا ہوا تیرہ دنوں اور چودہ راتوں کا یہ کروز اٹلی جائے گا۔ روم، نیپلز اور سسلی کے دلکش شہر پالرمو سے ہوتا ہوا یونان اور کروشیا کے شہروں میں ٹھہرے گا۔ واپسی پر ہم استنبول اتر جائیں گے اور چند ہفتے وہاں قیام کریں گے۔ ’’ میرا سلطان ‘‘ ڈرامہ دیکھنے کے بعد بیگم کئی بار ترکی دیکھنے کی خواہش ظاہر کرچکی ہیں۔
کراچی ، کوئٹہ، پشاور اور لاہور جب بھی جانا ہو، کسی دوست یا عزیز کے ہاں قیام کرنا پڑتا ہے۔ میزبانوں کو زحمت ہوتی ہے۔ ان کے معمولات میں خلل پڑتا ہے۔ یوں بھی، اب جب حالات نے ناقابل یقین طلسماتی پلٹا کھایا ہے تو احباب و اقارب کے ہاں ٹھہرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ان میں سے کچھ تو، ا گرچہ پوش علاقوں میں بڑے بڑے گھروں میں متمکن ہیں، بہرطور اب ہمارے معیار زندگی کو نہیں پہنچ سکتے۔ خواہ مخواہ انہیں شرمندہ کرنے کی ضرورت بھی کیا ! چنانچہ ان شہروں میں اپنے گھر خریدنے کا ارادہ کرلیا ہے۔ کراچی میں بلاول ہائوس کے سامنے اسی سائز اور معیار کا محل بنوایا جائے گا اور اردگرد کی شاہراہیں بھی اسی طرح عام ٹریفک کے لیے بند کردی جائیں گی۔ وہ دن گزر گئے جب زرداری صاحب جیسے ثروت مندوں کے سامنے ہماری حیثیت صفر سے بھی کم تھی۔ اب تو ہم ان کی ٹکرکے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ زرداری صاحب کی جو جائیدادیں برطانیہ ، فرانس ، بلجیم اور امریکہ میں ہیں اور جن کی تفصیلات پریس میں آچکی ہیں ان کے مقابلے کی جاگیریں ہم بھی خرید سکتے ہیں لیکن انسان کو قناعت پسند ہونا چاہیے۔ بے نظیر بھٹو شہید ہی کو دیکھ لیجیے، نیو یارک میں ایک قیمتی اپارٹمنٹ (پینٹ ہائوس) خریدا۔ فروخت کرنے والی خاتون سیما بوئسکی کا خیال تھا کہ اپارٹمنٹ آسیب زدہ تھا۔ کئی خریدار، خریدنے سے پہلے یا بعد میں حادثات کا شکار ہوکر موت کے گھاٹ اتر چکے تھے۔ قدیم چینی تہذیب میں گھروں کو بدشگونی سے بچانے کے علم (یا توہم پرستی ؟) کو فینگ شوئی کہتے ہیں۔ اس سے مراد گھر کے حوالے سے منفی قوتوں کو زیر کرنا اور مثبت قوتوں کو بڑھانا ہے۔ سیما بوئسکی کہتی ہے کہ بے نظیر بھٹو نے اپارٹمنٹ خریدتے وقت کہا …’’ یہاں فینگ شوئی ٹھیک نہیں، یہ میرے لیے بہت اہم ہے۔ چنانچہ میں دروازوں کی جگہ بدل دوں گی‘‘۔ ایک سال بعد بی بی دہشت گردی کا نشانہ بن گئیں۔ دبئی میں بھی بی بی شہید کا محل اربوں روپے کا تھا۔ اس کی تصویریں ہی دیکھ کر آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ اصلی محل کو دیکھ کر تو فرط حیرت سے غش ہی آجاتا ہوگا۔ تاہم ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس اسراف بلکہ تبذیر سے اجتناب کیا جائے۔ لندن اور ایک دو اور مقامات پر بیرون ملک اور بڑے بڑے شہروں میں اندرون ملک معقول رہائش گاہوں کا انتظام کرلیاجائے تو کافی ہے۔ لاہور میں رائے ونڈ کا محل پچیس ہزار کنال پر محیط ہے۔ ہم اس حد تک نہیں جائیں گے۔ دس ہزار کنال کاگھر بھی انسان کے لیے کافی ہوتا ہے۔ زندگی کا اعتبار نہیں۔ موت آئے تو ہاتھ میں پکڑا ہوا نوالہ منہ میں ڈالنے کی مہلت نہیں ملتی۔ حضرت ہود ؑ نے اپنی قوم کو یہی تو وارننگ دی تھی ’’ بھلا تم ہر اونچی جگہ پر یادگار تعمیر کرلیتے ہو اور محلات بناتے ہو یوں جیسے ہمیشہ زندہ رہو گے!!‘‘
ایک عرصہ سے خواہش تھی کہ حالات اجازت دیں تو ذہین مگر نادار طلبہ کو بیرون ملک اعلیٰ تعلیم دلانے کے لیے ایک ٹرسٹ قائم کیاجائے۔ اب ستاروں کی چال موافق ہوئی ہے تو یہ کام بھی کرنے کا ارادہ ہے۔ ٹرسٹ کی بنیاد ایک کروڑ ڈالر سے رکھی جائے گی۔ یہ رقم ہم میاں بیوی عطیہ کریں گے۔ ہم نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ سرکاری تعاون لینے سے شکریہ کے ساتھ معذرت کرلیں گے تاکہ فیصلے میرٹ پر ہوسکیں اور کسی قسم کی مداخلت کا امکان ہی نہ رہے، آغاز میں صرف ہارورڈ، جان ہاپکن، ییل، آکسفورڈ، کیمبرج، لندن سکول آف اکنامکس اور ایڈنبرا کی یونیورسٹیوں میں طلبہ کو بھیجا جائے گا۔ بعد میں جاپان ، فرانس اور جرمنی کے تعلیمی اداروں سے بھی ٹرسٹ کو منسلک کردیاجائے گا۔
قارئین کے تجسس کا مزید امتحان نہ لیتے ہوئے آخر میں یہ بھی بتا ہی دیاجائے کہ اس بے کنار دولت کا منبع کیا ہے۔ ہمیں ایک ادبی یا صحافتی خدمت کے صلہ میں پی ٹی وی سے چیک نمبر682780موصول ہوا ہے۔ پچیس اگست 2014ء کو جاری ہونے والے اس چیک کی اصل مالیت ایک ہزار سات سو پچاس روپے تھی۔ ایک سو پچھتر روپے کا ٹیکس کاٹ کر حکومت کے خزانے میں جمع کرایا گیا۔ آخر وزرائے اعلیٰ نے سیلابی پانی میں کھڑے ہوکر تصویریں بنواتے وقت اونچے کناروں والے بوٹ بھی پہننے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی حکومتی اخراجات کی ادائیگی کے لیے ٹیکس کاٹنا ضروری ہے۔ ٹیکس کاٹنے کے بعد چیک کی مالیت ایک ہزار پانچ سو پچھتر روپے بچی ہے۔ جن پروگراموں کی تفصیل کالم میں بیان کی ہے، ان کے مکمل ہوجانے کے بعد ایم ڈی پی ٹی وی اور وزیر اطلاعات کو بھی کچھ رقم پیش کرنے کی نیت ہے۔ آخر ایسا بھی کیا کہ دن پھریں تو انسان اپنوں کو بھول جائے!

Friday, September 12, 2014

نومی


اب اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ واسکٹ کے بٹن سونے کے ہیں یا چاندی کے ، گھڑی اڑھائی کروڑ ڈالر کی ہے یا اڑھائی کروڑ روپے کی ! مرغبانی کی صنعت پر قبضہ مکمل ہے یا ادھورا، محلات فرانس میں ہیں یا برطانیہ میں، فیکٹریاں جدہ میں ہیں یا ویت نام میں، بھائی بلوچستان میں گورنر ہے یا پنجاب میں وزیراعلیٰ، رشتہ دار اسمبلی میں سات ہیں یا کم، عزیزو اقارب کلیدی مناصب پر چوراسی ہیں یا زیادہ! قومی ٹیکس کارڈ بنا ہے یا نہیں ! بینکوں کو قرضے واپس ہوئے ہیں یا نہیں ! بجلی کے واجبات ادا کیے گئے یا واپڈا اہلکاروں کو قتل کی دھمکی ملی، پارٹی کے اجلاس دبئی میں ہورہے ہیں یا کہیں اور، محلات کا کل رقبہ اڑھائی ہزار کنال ہے یا ایکڑ، سارے حکمران وسطی پنجاب سے ہیں یا ایک آدھ باہر سے بھی، سارے متحد ہوگئے ہیں یا پھوٹ پڑنے والی ہے، اب اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا، اس لیے کہ نومی خبردار ہوگیا ہے۔
نومی کا باپ ڈاکٹر ہے۔ باہرسے ڈاکٹری کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے آیا اور لاہور کی فیشن ایبل پوش آبادی میں کامیاب کلینک چلانے لگا۔ نومی کے باپ نے سیاست میں کبھی دلچسپی نہیں لی۔ اسے معلوم تھا کہ یہ برادریوں کا ، جتھوں کا ، لاٹھیوں کا ، کرائے کے جلسوں جلوسوں کا ، ہلڑ بازی کا ، پولنگ سٹیشنوں پر بندوقیں لہرانے کا اور کامیاب ہوجانے کے بعد حساب کتاب ’’ پورا‘‘ کرنے کا کھیل ہے اور یہ کھیل ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹر کے بس کی بات نہیں ! اسے معلوم تھا انتخابات میں کھڑے ہونے والے مخلص نہیں۔ الاماشاء اللہ۔ اسے یہ بھی پتہ تھا کہ یہ خاندانوں کے سلسلے ہیں جو یونینسٹ پارٹی کے زمانے سے چلے آرہے ہیں۔ منتخب ایوانوں میں نشستیں موروثی ہیں۔سیاست میں محافظوں کے جتھے نہیں، لشکر رکھنے پڑتے ہیں۔ چنانچہ نومی کا باپ انتخابات کے دن گھر سے نکلتا ہی نہیں تھا۔ سردیاں ہوتیں تو دھوپ میں آرام سے کرسی بچھا کر فریڈرک فور سائیتھ یا جیکی کولنز کا تازہ ترین ناول پڑھتا۔ گرمیاں ہوتیں تو ایئرکنڈیشنر لگاکر کمرے میں سویا رہتا۔ اسے اس سے بھی کچھ غرض نہ تھی کہ کون جیتا اور الیکشن میں کون ہارا۔ اسے نام جانے بغیر معلوم تھا کہ جو جیتا ہے، حساب ’’ پورا‘‘ کرے گا اور جو ہارا ہے، وہ بھی اسی تھیلی کا چٹا بٹا ہے۔
نومی پڑھائی میں اچھا نکلا۔ جاگیرداروں ، صنعت کاروں ، سرداروں ، لینڈ مافیا کے خفیہ سربراہوں کے پیٹ میں ایک مروڑ اس بات سے بھی اٹھتا ہے کہ مڈل کلاس کے بچے تعلیم میں ہمیشہ ان کے بچوں سے آگے ہوتے ہیں! نومی امریکہ سے ایم بی اے کرکے آیا اور ایک معروف ، اونچی ساکھ والی ملٹی نیشنل میں اعلیٰ درجہ کی ملازمت کرنے لگا۔ سیاست سے بے نیازی اسے ورثے میں ملی تھی۔ اسے یہی بتایا اور سمجھایاگیا تھا کہ سیاست مڈل کلاس کے بس کی بات نہیں۔ نومی نے حالات سے سمجھوتہ کرلیا ۔ کولمبیا یونیورسٹی میں پڑھائی کے دوران وہ امریکی سیاست میں خوب دلچسپی لیتا تھا لیکن پاکستان واپس آکر اس نے مڈل کلاس کی قسمت قبول کرلی۔ کوئی اس کلاس کو برگر فیملی کہتا اور کوئی ممی ڈیڈی کلاس۔ نومی نے کبھی پروا نہیں کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک خاص کلاس کے سیاست دانوں نے بٹن سونے کے لگوا لیے۔ گھڑیاں اڑھائی اڑھائی کروڑ کی باندھ لیں۔ اسمبلیوں میں سات سات رشتہ دار لے آئے ۔ کلیدی مناصب پر چوراسی چوراسی عزیز و اقارب بٹھا دیے۔ دولت باہر بھیجنے لگے۔ اسمبلیوں میں ان کے خلاف پتا بھی ہلتا تو قانون کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے، لیکن پھر المیہ یہ ہوا کہ نومی جاگ گیا۔
نومی کو معلوم ہوگیا کہ اس کے گرد گھیرا تنگ ہورہا ہے۔ محنت وہ کرتا ہے، عیش کوئی اور کرتا ہے۔ ٹیکس وہ دیتا ہے، حکمرانی کوئی اور فرماتا ہے۔ وہ سرخ بتی پر رک جاتا ہے لیکن کالے شیشوں والی قوی ہیکل ٹرک نما گاڑیاں نہیں رکتیں۔ نہ صرف یہ کہ نہیں رکتیں، پولیس والے ان کی خاطر باقی ٹریفک کو بلاک کرکے انہیں سلیوٹ بھی کرتے ہیں۔ نومی کو معلوم ہوگیا کہ قانون صرف مڈل کلاس کے لیے ہے۔ اپر کلاس کے لیے نہیں کہ حکومت اس کی اپنی ہے اور لوئر کلاس کے لیے نہیں کہ وہ اپر کلاس کی نوکر ہے۔ ابھی تو نومی نے کل کے اخبار میں پڑھا ہے کہ لاہور میں ایک ایم این اے کے محافظوں نے رستہ نہ دینے پر ایک بس کے ڈرائیور کے کپڑے پھاڑ دیے۔ اسے اور بس کے ایک اور ملازم کو بندوق کے بٹ مار مار کر زخمی کیا۔ پھر بندوق مار مار کر بس کے فرنٹ اور سائیڈ کے شیشے توڑ ڈالے۔(روزنامہ دنیا ، لاہور، گیارہ ستمبر2014ء)
نومی جان گیا ہے کہ یہ منتخب نمائندے تھانوں پر حملے کرتے ہیں۔ ملزم چھڑالے جاتے ہیں۔ حکومت ان کے ہاتھوں میں یرغمال ہے۔ ان پر، ان کے خاندان پر ان کے ملازموں پر قانون کا اطلاق ناممکن ہے۔
وہ نومی جو کل تک ایئرکنڈیشنڈ کمرے کے بغیر چند گھنٹے نہیں گزارتا تھا، اب دو دو ہفتے ٹھنڈی سڑک کے ناہموار فرش پر دھرنا دے سکتا ہے۔ اب وہ اپنے باپ کی طرح الیکشن کے دن تازہ ترین انگریزی ناول نہیں پڑھتا، آکر ووٹ دینے کے لیے قطار میں کھڑا ہوجاتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ مڈل کلاس سوئی رہی تو اس ملک کی قسمت نہیں جاگے گی۔ نومی نے عزم کرلیا ہے کہ وہ ٹیکس چوری کرنے والوں اور قانون کو جوتے کی نوک پر لکھنے والوں کے گلے میں رسی اور ناک میں نکیل ڈال کر رہے گا۔ وہ اچھی طرح جان چکا ہے کہ پچھلے چالیس سال کے دوران دس قانون ساز اسمبلیوں نے عوام کے لیے ایک بار بھی قانون سازی نہیں کی! اکثر ان اسمبلیوں میں نیم خواندہ ہیں۔ سینیٹ کی نشستوں کے لیے پندرہ پندرہ کروڑ روپے چلتے ہیں اور کھلم کھلا کسی خوف ملامت کے بغیر یہ نرخ اخباروں میں شائع کرائے جاتے ہیں۔ نومی کو یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں، اسی لیے مشترکہ پارلیمنٹ (جسے یہ ’’ تعلیم یافتہ ‘‘ نمائندے پارلیامنٹ کہتے ہیں) میں لمبی لمبی تقریریں کرنے والوں نے دھاندلی ، ٹیکس چوری، قانون شکنی اور باہر بھیجی ہوئی دولت کے بارے میں ایک لفظ تک نہیں کہا۔ یہ لوگ اڑھائی اڑھائی کروڑ ڈالرکی گھڑی باندھنے کی نہ صرف تردید نہیں کرتے ، ایسی باتوں کو درخور اعتنا تک نہیں گردانتے۔
ڈھلتی ہوئی دھوپ دوپہر میں تبدیل نہیں ہوسکتی۔ صبح کی کرنوں کو رات کے مکروہ تھیلے میں دوبارہ بند نہیں کیا جاسکتا۔ زمین سے سرنکال لینے والے پودے کو دوبارہ بیج نہیں بنایا جاسکتا۔
نومی جاگ اٹھا ہے!

Thursday, September 11, 2014

جناب وزیر اعظم!!

گلو سسٹر ایک چھوٹا سا قصبہ ہے ۔لندن سے چلیں تو دو اڑھائی گھنٹوں میں پہنچ جاتے ہیں کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے اس قلم کار نے وہاں کے ایک سٹور سے کوٹ خریدا ۔قیمت ادا کی۔کائونٹر پر بیٹھے شخص نے ایک رسید نما کاغذ دیا۔پوچھا یہ کس لیے ہے؟ کہنے لگا تم یہاں نہیں رہتے۔برطانیہ سے رخصت ہوتے وقت ہوائی اڈے پر ٹیکس والوں کا کائونٹر ہے ۔ا س کوٹ کی قیمت میں جتنا ٹیکس شامل ہے‘ وہ جاتے ہوئے تم ان سے واپس لے لینا۔پوچھا ‘ کیوں؟ٹیکس دے دیا تو دے دیا۔کہنے لگا۔’’اس لیے کہ اس ٹیکس سے حکومت شہریوں کو سہولیات فراہم کرتی ہے۔تم یہاں کے رہنے والے نہیں۔ تم ان سہولیات سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔اس لیے تم سے ٹیکس لینا ازروئے انصاف درست  نہیں!ایسے خریداروں کو ان کی روانگی کے وقت ٹیکس واپس کر دیا جاتا ہے۔‘‘ہیتھرو کے ہوائی اڈے پر ٹیکس کے محکمے کا کائونٹر موجود تھا۔رسید دکھائی انہوں نے دو منٹ کے حساب کتاب کے بعد ٹیکس کی رقم واپس کر دی۔
میں مملکت پاکستان کا شہری ہوں اورباقاعدگی سے ٹیکس ادا کرتا ہوں۔جب تک ملازمت رہی‘ سال کے بارہ مہینوں میں سے دس ماہ کی تنخواہ ملتی تھی ۔تقریباً دو ماہ کی تنخواہ ہر سال حکومت ٹیکس کی مد میں واپس لے لیتی تھی۔اب میں اخبار‘ریڈیو اور ٹی وی میں مزدوری کرتا ہوں۔ جب بھی معاوضہ ملتا ہے‘ دس فیصد حکومت کے ٹیکس میں کٹ جاتا ہے‘ میں صبح سے شام تک ٹیکس ادا کرتا ہوں۔موبائل فون کا کارڈ خریدتا ہوں تو تقریباً ایک چوتھائی ٹیکس کٹ جاتا ہے۔اس کے بعد جب بھی کال کرتا ہوں‘ ہر کال پر بھی ٹیکس ادا کرتا ہوں۔ادویات خریدتا ہوں تو اس پر ٹیکس لیا جاتا ہے۔مرچ مصالحے سے لے کر صابن اور شیمپو تک ۔گھی کے ڈبے سے لے کر ٹماٹر کی چٹنی تک۔ دالوں سے لے کر چینی اور چائے کی پتی تک کوکا کولا کی بوتل سے لے کر شربت کے گلاس تک بجلی کے بل سے لے کر گیس اور پانی کے بل تک‘سٹیشنری سے لے کر کتابوں تک۔پوتوں اور نواسیوں کے لیے کھلونوں سے لے کر ان کے ملبوسات تک۔جوتوں سے لے کر جوتوں کی پالش تک‘ ریل اور جہاز کے ٹکٹ سے لے کر پٹرول اور سی این جی تک۔ہر شے پر ‘ ہر خریداری پر ٹیکس ادا کرتا ہوں۔لاہور سے اسلام آباد جانا ہو تو راستے میں ہر چند میل کے بعد ایک بیریئر آتا ہے جہاں ٹیکس دیے بغیر گزرنا ناممکن ہے۔کلب میں بھنڈی اور مسور کی دال کھائو تو اس پر بھی سولہ فیصد ٹیکس ادا کرتا ہوں۔بیٹے یا بیٹی کی شادی پر چند قریبی اعزہ واحباب کو بھی دعوت پربلائوں تو حکومت اس خوشی کے موقع پر کوئی تحفہ دینے کے بجائے میرے معزز مہمانوں کے منہ سے ٹیکس کے نام پر نوالے چھین لیتی ہے ۔ اور میں دل خون کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر سکتا۔حکومت نے مجھے پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم نہیں دیا لیکن جب آمدو رفت کے لیے ، موٹر سائیکل یا گاڑی خریدتا ہوں تو اس پر ٹیکس اتنا لیتی ہے کہ سواری کی قیمت خرید‘ اصل قیمت سے دوگنا ہو جاتی ہے۔
کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ مجھ سے اس آکسیجن پر بھی ٹیکس لیا جائے گا جو میں سانس کے ذریعے پھیپھڑوں میں انڈیلتا ہوں۔عینک خریدتے وقت تو ٹیکس دیتا ہی ہوں‘ آنکھوں کی بینائی پر بھی حکومت ٹیکس لگا دے گی۔ جب تک چارپائی پر نہیں پڑ جاتا‘ چلنے پر‘ جب تک معدہ کام کر رہا ہے‘چبانے پر‘ جب تک زبان تندرست ہے بات کرنے پر اور جب تک سماعت ختم نہیں ہو جاتی‘سننے پر ٹیکس لگ سکتا ہے ۔سوچنے پر بھی محصول کا مطالبہ ہو سکتا ہے ۔ ہو سکتا ہے حکومت میرے جسم پر کوئی ایسی چپ لگا دے کہ جب بھی تازہ وضو کرنے کی ضرورت ہو‘ٹیکس ادا کرنا پڑے۔اب وہ وقت قریب ہے کہ میرے تن پر ایک انڈرویئر نما چڈی کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔
صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک ہر سانس کے ساتھ جو ٹیکس ادا کر رہا ہوں‘اس کے بدلے میں حکومت مجھے کیا دے رہی ہے؟
حکومت کا سب سے بڑا فرض مجھے تحفظ فراہم کرنا ہے‘ اس سے حکومت نے ہاتھ اٹھا لیا ہے ۔ چنانچہ ہم محلے والوں نے چوکیدارکھا ہوا ہے جسے ہم ہر ماہ بھاری رقم معاوضے میں دیتے ہیں۔گاڑی کی حفاظت کے لیے انشورنس کمپنی کو رقم دینا پڑتی ہے۔حکومت مجھے پانی بھی فراہم نہیں کر رہی۔ایک دفعہ پانی کے لیے بور کرایا تو ڈیڑھ لاکھ روپے خرچ ہوئے۔کچھ عرصہ بعددوبارہ کرانا پڑا اس پر دو لاکھ روپے لگے۔حکومت مجھے بجلی بھی مسلسل نہیں دے سکتی۔تیس تیس ہزارروپے کے بل ادا کرنے کے ساتھ ساتھ مجھے یو پی ایس اور اس کی بیٹریاں خریدنا پڑتی ہیں۔ان پر ٹیکس الگ ہے ۔حکومت کے فرائض میں میرا اور میرے اہل خانہ کا مفت علاج معالجہ بھی شامل ہے۔اس کے لیے میں سرکاری ہسپتال میں جائوں اور کوئی ڈاکٹر ذاتی طور پر واقف نہ ہو تو جو سلوک ہسپتال میں میرے ساتھ ہوتا ہے اس سے بہتر ہے کہ میں اپنے گردے اور انتڑیاں نکال کر خود ہی تار پرلٹکا دوں۔ چنانچہ مجھے پرائیویٹ ڈاکٹروں کے پاس جانا پڑتا ہے جن کی فیسیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
حکومت کا کام میری گلی پکا کرنا ہے جہاں میں رہتا ہوں‘ اس آبادی میں سڑکیں ٹوٹی ہوئی اور پل بیٹھے ہوئے ہیں۔فٹ پاتھ غائب ہیں‘گلی کی حالت یہ ہے کہ گاڑی نہیں گزار ی جا سکتی ۔محلے کے لوگ مجھے میڈیا پرسن سمجھتے ہوئے میرے پاس آئے۔ یہ علاقہ اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کی تحویل میں ہے۔ضلعی انتظامیہ وزارت داخلہ کے چارج میں ہے۔میں نے سیکرٹری داخلہ شاہد خان صاحب کو خط لکھا۔سیکرٹری صاحب نے خط کا جواب تک نہیں دیا۔مجھے یقین ہے کہ میں تقسیم سے پہلے پیدا ہوتا اور سیکرٹری جو رچرڈ یا رابرٹ ہوتا‘ تو مجھے ضرور جواب دیتا۔بہر طور‘ اس کے بعد میں نے دارالحکومت کے چیف کمشنر جناب جواد پال کو خط لکھا۔ انہوں نے ازراہ لطف و کرم جواب دیا اور وعدہ کیا کہ نئے مالی سال یعنی جولائی سے کام شروع ہو جائے گا۔جولائی اب ستمبر میں تبدیل ہو رہی ہے۔آثار تو دور کی بات ہے‘ضلعی انتظامیہ کا کوئی ادنیٰ سا اہلکار بھی اس علاقے میں کبھی نظر نہیں آیا۔ مجھے یقین ہے کہ میں تقسیم سے پہلے پیدا ہوتا تو چیف کمشنر جو کوئی جانسن یا فرانسس ہوتا‘ ایک شہری کا خط ملنے پر پہلی فرصت میں خود موقع پر آتا اوروہیں احکام جاری کر کے چند ماہ میں کام مکمل کرا دیتا۔ اب ہم محلے والے اپنے خرچ پر گلیاں پکی کرانے کی سوچ رہے ہیں جو لاکھوں میں ہے اور ایک ڈرائونے خواب سے کم نہیں ۔ کچھ نقل مکانی کا سوچ رہے ہیں۔
میں ملک کے وزیر اعظم سے دست بستہ گزارش کرتا ہوں کہ عالی جاہ!اگر آپ کو پارلیمنٹ میں (جہاں اب جہاں پناہ باقاعدگی سے جانے لگے ہیں) آئین اور جمہوریت کے تحفظ پر تقریریں سننے سے فرصت ملے تو خدا کے لیے اور اس کے رسول ؐ کے واسطے لاکھوں کروڑوں کی وہ رقم تو مجھے واپس فرما دیجیے جو ٹیکس کی مد میں حکومت مجھ بے کس غریب سے لے چکی ہے!

Wednesday, September 10, 2014

مٹی‘ لوہا اور آگ۔

مورچے میں کیا ہے؟ مٹی‘ لوہا اور آگ۔ اسی میں ہمارا سپاہی رہتا ہے۔ کڑکتے دھماکے ہیں اور کالی دھول۔ جب بھی یہ کالی دھول پاک سرحد کی طرف بڑھتی ہے‘ ہمارا سپاہی اس کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ کالی دھول سے لوہا نکلے یا آگ‘ سینہ ہے کہ تنا رہتا ہے۔ کون سا دشمن ہے جو سرحدوں کی طرف نہیں بڑھا‘ یا اندر سے نہیں اٹھا۔ وزیرستان کے بے برگ و گیاہ بنجر پہاڑ ہیں یا کارگل کی برف پوش آسماں بوس چوٹیاں‘ سب نے ہمارے سپاہی کو للکارا اور منہ کی کھائی۔ 
کارگل سے یا وزیرستان سے جب کوئی تابوت آتا ہے تو شہادت کا یہ تحفہ صرف شہید کے ماں باپ یا بیوی بچوں کے لیے نہیں ہوتا‘ پوری قوم کے لیے ہوتا ہے۔ ہاں! اگر قوم اس تحفے کی عظمت کو سمجھ سکے! وہ جو کارخانوں پر کارخانے‘ فیکٹریوں پر فیکٹریاں لگا رہے ہیں‘ کرپشن کر رہے ہیں‘ لوٹ مار کر رہے ہیں‘ سفارش‘ رشوت‘ اقربا پروری اور دوست نوازی کا زہر بکھیر رہے ہیں‘ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ سپاہی اپنی جان کا نذرانہ اس لیے نہیں دیتا کہ چند ناعاقبت اندیش اپنے بینک اکائونٹ فربہ کرتے رہیں اور اپنی توندیں واسکٹوں کے گھیر سے باہر لاتے رہیں۔ مجید امجد نے قلم توڑ کر رکھ دیا: 
اگر دشمنوں کے گرانڈیل ٹینکوں کے نیچے 
مری کڑکڑاتی ہوئی ہڈیاں خندقوں میں نہ ہوتیں 
تو دوزخ کے شعلے تمہارے معطر گھروندوں کی دہلیز پر تھے 
تمہارے ہر اک بیش قیمت اثاثے کی قیمت 
اسی سرخ مٹی سے ہے جس میں میرا لہو رچ گیا ہے 
سارے اختلافات‘ سارے تنازعات ایک طرف… جس طرح سورج کی روشنی میں کوئی اشتباہ نہیں‘ بالکل اسی طرح اس صداقت میں کوئی شک نہیں کہ مسلح افواج مقدس ہیں اور پاک ہیں۔ کوئی قدم ایسا نہیں اٹھانا چاہیے کہ کسی کو مسلح افواج کی طرف انگلی اٹھانے کا موقع ملے۔ چھوٹے سے چھوٹا کنکر بھی اس صاف شفاف پانی میں کیوں پھینکا جائے؟ ارتعاش کیوں پیدا ہو اور دائرہ کیوں بنے؟ 
یادش بخیر! جنرل پرویز مشرف نے پے در پے ایسے قدم اٹھائے کہ لوگوں کو اعتراض کے مواقع ملے۔ عوام کو سب سے زیادہ ذہنی اضطراب اس وقت ہوتا ہے جب مسلح افواج کو ان کے اپنے مخصوص مقررہ دائرۂ کار سے باہر لا کر ایسے فرائض تفویض کر دیے جائیں جو کسی اور نے ادا کرنے ہیں! جنرل پرویز مشرف نے بہت سے سول محکموں میں حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی لا بٹھائے اور یہ نہ سوچا کہ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے اور ایک فرد کی غلطی بسا اوقات پورے ادارے کو لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اس نکتے کو واضح کرنے کے لیے صرف دو مثالیں کافی ہیں۔ وفاقی حکومت کا شعبۂ تعلیم ایک بڑا شعبہ ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے ایک بریگیڈیئر صاحب کو اس کا سربراہ (ڈائریکٹر جنرل) مقرر کردیا اور وہ بھی یوں کہ ایک بار نہیں‘ دو بار نہیں‘ چار یا پانچ بار توسیع دیتے رہے۔ جن اساتذہ نے پوری پوری زندگیاں اس شعبے میں تج دی تھیں‘ سربراہی کا حق ان کا تھا! ان میں سے کچھ عدالتوں میں بھی گئے‘ لیکن کہیں شنوائی نہ ہوئی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جن کی حق تلفی ہوئی‘ ان کے بیٹے بیٹیاں‘ پوتے پوتیاں اور عزیز و اقارب اس ناانصافی کو کیسے بھول سکتے ہیں؟ مقدس ادارے کے حوالے سے ان کے دلوں میں خراشیں آگئیں! صرف ایک فرد کی غلطی کی وجہ سے!! کیا اس فقرے کو کوئی روک سکتا ہے کہ… ’’میرے دادا (یا میرے ماموں یا میرے چچا یا میرے عزیز یا میرے دوست) نے ڈائریکٹر جنرل بننا تھا‘ ان کا حق تھا۔ ان کی اہلیت تھی لیکن ان کا حق مارا گیا۔ زبردستی کی گئی اور فلاں ادارے سے ایک صاحب کو لا بٹھایا گیا‘‘! 
یہی سلوک جنرل پرویز مشرف صاحب نے پوسٹل کے شعبے سے روا رکھا۔ پاکستان پوسٹل سروس کے افسر مقابلے کے امتحان سے گزر کر آتے ہیں۔ امتحان کیا ہے۔ بھٹی ہے۔ وہ تو بھلا ہو انگریز حکومت کا کہ ایک سسٹم بنا کر دے گئے۔ یہاں تو بننا کیا تھا! جو بنا ہوا ہے سنبھالا تک نہیں جا رہا! یہ افسر تیس پینتیس سال کی محنت کے بعد اس قابل ہوتے ہیں کہ محکمے کے سربراہ بنیں۔ لیکن جنرل صاحب نے ایک ریٹائرڈ جرنیل کو محکمے کا سربراہ بنا دیا۔ جن کا حق تھا‘ وہ تلملاتے رہے‘ پیچ و تاب کھاتے رہے۔ حالانکہ یہ ایک فرد کی غلطی تھی! اس میں مسلح افواج کے ادارے کا قصور تھا‘ نہ عمل دخل!! 
جنرل کیانی آئے تو انہوں نے تلافی کی اور بہت حد تک سول اداروں سے عسکری افسروں کو واپس بلا لیا۔ 
لیکن ایک اہم ادارے میں یہ پالیسی اب تک جاری ہے۔ کسی کو اچھا لگے یا برا لگے‘ سچائی یہ ہے کہ یہ پالیسی دوراندیشی پر مبنی نہیں ہے۔ ہرگز نہیں ہے! فوجی چھائونیوں اور زمینوں کے محکمے کو ملٹری لینڈ اینڈ کنٹونمنٹ کہا جاتا ہے۔ اس نازک اور حساس محکمے کا انتظام سول سروس کے پاس ہے۔ یہ افسر مقابلے کا امتحان پاس کر کے‘ بھٹی سے گزر کر‘ آتے ہیں۔ پینتیس چھتیس سال کام کر کے‘ جو افسر سب سے زیادہ سینئر اور اہل ہوتا ہے‘ وہ محکمے کا سربراہ بنتا ہے لیکن اس محکمے کی سربراہی پر ایک عرصہ سے فوج کا افسر مقرر کیا جاتا ہے جو قواعد کے مطابق نہیں۔ جن کی حق تلفی ہو رہی تھی وہ عدالت میں چلے گئے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دے دیا کہ مقدمے کا فیصلہ ہونے تک کسی عسکری افسر کو نہ لگایا جائے۔ موجودہ وزیراعظم نے عسکری افسر کے تقرر کی منظوری دیتے وقت صراحت سے لکھا کہ آئندہ اس منصب پر محکمے کے افسران کو لگایا جائے لیکن چند روز پہلے موجودہ سربراہ کو توسیع دے دی گئی۔ 
سوال کسی شعبے یا محکمے کا نہیں! مسلح افواج کے تقدس پر بہت کچھ قربان کیا جا سکتا ہے۔ سوال اس خلش کا ہے جو ایسے اقدامات سے مسلح افواج کے حوالے سے دلوں میں پیدا کردی جاتی ہے۔ پچاس کے لگ بھگ افسر جو عدالت میں گئے‘ ان کے پچاس خاندان ہیں‘ پھر ہر خاندان کسی دوسرے خاندان سے مربوط ہے۔ آخر اتنے دلوں میں اضطراب کیوں پیدا کیا جائے؟ پھر ایسا بھی نہیں کہ یہ افسر نااہل ہوں۔ 
مسلح افواج سوچ بھی نہیں سکتیں کہ کسی کی حق تلفی کی جائے۔ ہر پاکستانی کے دل میں اپنی افواج کے لیے محبت ہے۔ بے پناہ عقیدت ہے اور جذبۂ تشکر ہے! کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے کہ اس محبت پر‘ اس جذبۂ تشکر پر ہلکا سا بھی سایہ پڑے۔ باہمی محبت اور باہمی احترام کا تقاضا یہ ہے کہ سب اپنے اپنے دائرے میں رہیں۔


Monday, September 08, 2014

مشورہ

میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم برطانیہ سے حاصل کرنے کے بعد میں ستمبر 1989ء میںپاکستان واپس آ گیا۔ میرے والد کی خواہش تھی کہ میں اپنے ملک میںکام کروں۔
جن ڈاکٹروں کے ساتھ میرا مقابلہ تھا، انہیں ایک سیاسی جماعت کی تائید حاصل تھی۔ ایک کا پبلک سروس کمیشن سے بھی رابطہ تھا۔ 1989ء سے لے کر 1994ء تک کوشش کرتا رہا۔ کرتا رہا۔ کرتا رہا۔ لیکن ملازمت نہ ملی۔
نیفرآلوجی میں، اس صوبے میں میں پہلا ڈاکٹر تھا جو اس وقت ٹرانسپلانٹ یعنی پیوند کاری کی تربیت رکھتا تھا۔ تھک ہار کر برطانیہ واپس آ گیا۔ ان کافروں نے مجھے فوراً ملازمت دے دی۔ اب میں اس ’’دارالکفر‘‘ ہی میں ریٹائرمنٹ کے قریب ہوں۔ کیا پارلیمنٹ میں تقریریں کرنے والے بڑے لوگ بتائیں گے کہ میرٹ کو کیوں قتل کیا جا رہا ہے؟ اگر ہم نے پارلیمنٹ کے ساتھ وہ سلوک نہ کیا جو ایرانیوں نے کیا تھا تو یہ لوگ بار بار ایوان میں واپس آتے رہیں گے۔ اور میری طرح کے غریبوں کو مسافر بنا کر بیرون ملک دھکیلتے رہیں گے۔ آج میرے پاس ہر وہ چیز ہے جس کی ایک کامیاب انسان خواہش کرسکتا ہے۔ ایک ایک پائونڈ حلال کا ہے۔ ڈر خوف کوئی نہیں۔ پانچ منٹ کی ڈرائیوپر مسجد ہے۔ سکول کالج بہترین ہیں۔ لیکن میں ہر ویک اینڈ پر اپنے ملک‘ اپنی مٹی ‘اپنے لوگوں کی یاد میں بلک بلک کر روتا ہوں۔ میری طرح اس ہسپتال میں کچھ اور پاکستانی بھی ہیں۔ ہم کہاں جائیں؟ کس سے شکایت کریں؟
یہ خط اس کالم (اٹھو۔ خدا کیلئے اٹھو) کے ردعمل میں موصول ہوا جس میں ذکر کیا گیا تھا کہ بھارت میں لاکھوں تارکین وطن واپس آ رہے ہیں اور ملازمتیں حاصل کر رہے ہیں۔ ان ڈاکٹر صاحب نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ان کا اصل نام نہ لکھا جائے۔ ان کے شہر کا نام بھی نہیں لکھا جا رہا۔ لیکن بہت سی ای میل ایسی موصول ہوئیں جنہوں نے اپنے نام اور مکمل ایڈریس ارسال کیے۔ اکثر نے کہا کہ ان کا احوال اہل وطن کو بتایا جائے۔
فرینکفرٹ (برلن سٹراس) سے عدنان اصغر بتاتے ہیں کہ وہ یورپین سنٹرل بینک میں برطانیہ کی نمائندگی کر رہے ہیں اور چار ہزار افراد میں واحد پاکستانی ہیں۔ پاکستانیوں نے برطانیہ میں ترقی کی ہے لیکن یہاں یورپ (مین لینڈ) میں ہر ادارے میں بھارتی تارکین وطن چھائے ہوئے ہیں۔ یہ بھارتی آہستہ آہستہ واپس بھارت جا رہے ہیں، لیکن کیا پاکستانی پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے بڑے لوگوں کو معلوم ہے کہ پاکستانی وطن واپس جانے سے کترا رہے ہیں؟ بچوں کو کچھ دنوں کیلئے بھی بھیجنے میں تامل کرنے لگے ہیں۔ وطن میں اپنی زمینیں اور مکان فروخت کر رہے ہیں۔ قربانی اور زکوٰۃ کی رقم بھی نہیں بھیج رہے!
رانا نعیم اختر نے بہائوالدین زکریا یونیورسٹی سے ایم کام کیا۔ ملازمت نہ ملی۔ اب ریاض میں ہیں۔ ’’سپلائی چین مینجمنٹ‘‘ کے شعبے میں امریکہ سے تربیت حاصل کی۔ ارادہ تھا کہ وطن واپس جائیں گے لیکن پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے اصحاب کی تقریروں میں مسائل کا ذکر ڈھونڈتے رہے۔ کسی نے کرپشن کا ذکر کیا نہ عام آدمی کی حالت زار کا۔ پوچھتے ہیں کس برتے پر واپس آئیں؟ ’’ ہمارے ماں باپ بہن بھائی احباب ہمیں وطن میں یاد کرتے رہیں گے۔ ہم یہاں پردیس میں تڑپتے رہیں گے اور آخر میں وہی کریں گے جس کا ذکر آپ نے کالم میں کیا۔ جا کر قبروں سے لپٹ کر روئیں گے اور پھر واپس ایئرپورٹ کی طرف چل پڑیں گے‘‘۔ 
77 سالہ راشد حسین ٹیکساس سے لکھتے ہیں کہ خون چوسنے والی جونکوں اور اپنے رشتہ داروں کو وسائل کے اوپر مارِسرِگنج بنا کر بٹھانے والوں کا کوئی علاج نہیں سوائے اس کے کہ کرپشن کے مجرموں کو سمری عدالتوں کے ذریعے سخت ترین سزائیں دی جائیں۔ میرٹ قتل کرکے نااہلوں کو ملازمت دینے والے شخص کو تیس سالہ قید کی سزا دی جائے۔ ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ کرنے والوں کو پھانسی پر لٹکایا جائے۔ ٹیکس چوروں، زمین ہڑپ کرنے والوں اور مافیا بنانے والوں کو بیس بیس سال کیلئے جیل میں پھینکا جائے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو نہ صرف یہ کہ بیرون ملک سے کوئی نہیں واپس آئے گا‘ ملک کے اندرکا ٹیلنٹ بھی باہر چلا جائے گا اور ملک میں صرف وہ کچرا رہ جائے گا جو یا تو مجرموں پر مشتمل ہوگا یا مجرموں کی پشت پناہی کرنے والے بڑے مجرموں پر!
سعودی عرب کے شہر حائل کے جنرل ہسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹر احسان کہتے ہیں کہ وہ اور ان کے کئی پروفیشنل ساتھی واپس آنا چاہتے ہیں اور ایک منظم طریق پر ملک کو ترقی کی شاہراہ پر ڈالنا چاہتے ہیں۔ لیکن میرٹ کشی، اقرباء پروری اور سفارش کے کلچر کی وجہ سے خوفزدہ ہیں اور واپسی کی ہمت دم توڑ جاتی ہے۔
سال کا اکثر حصہ برف تلے دبے رہنے والی امریکی ریاست وسکانسن سے حسان خان رونا روتے ہیں کہ اس دورافتادہ ویران دیار میں ہم وطن کو یاد کرکے آہیں بھرتے رہتے ہیں اور واپسی کے منصوبے باندھتے رہتے ہیںلیکن وہ ڈاکٹر اور انجینئر جو ملک کے اندر عجیب و غریب صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں ہمیں خبردار کرتے ہیں اور خود ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔
وقاص حسین نے 1998ء میں ’’ٹریول اینڈ ٹور آپریٹر‘‘ کا کاروبار شروع کیا۔ لیکن یہ ناکامی کا آغاز تھا۔ لائسنس لینے کیلئے ٹورازم ڈیپارٹمنٹ (محکمہ سیاحت) کو رشوت دینا پڑی۔ اپنے کلائنٹس کو جہاز میںعمرے کی نشستیں دلوانے کیلئے پی آئی اے کو رشوت دینا پڑتی تھی۔ پھر بزنس ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو ختم کرنے کیلئے بھی پاپڑ بیلنے پڑے۔ ان کا خیال ہے کہ پاکستانی معاشرے میں وہی کامیاب ہوسکتا ہے جو کرپشن کا ایجنٹ بن جائے۔ میرٹ کے قتل کو قبول کرلے اور بدعنوانی کے ساتھ سمجھوتہ کرلے۔ محمد علی بخاری کا موقف ہے کہ جس ملک میں منتخب نمائندے پولٹری، چینی اور گندم کے نرخ طے کریں، وہاں کس طرح رہا جا سکتا ہے؟ بیگم منعم بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر اور ان کے دوستوں نے جو سب بیرون ملک انجینئر ہیں اور تیس سال ایئرپورٹوں اور پانی، بجلی اور ٹیلی کمیونی کیشنز کے شعبوں میں کام کر رہے ہیں، کوشش کی کہ اپنے ملک میں رضاکارانہ بنیادوں پر ترقیاتی منصوبے چلائیں۔ صرف ویسٹ مینجمنٹ کے میدان میں ملک کروڑوںکما سکتا ہے لیکن ان لوگوں کی تجاویز رد کردی گئیں۔ دیانت کسی کو مطلوب ہی نہیں۔
یہ ہیں ردعمل کے چند نمونے۔ کیا ہمارے ارکان پارلیمنٹ ان لوگوں کا سامنا کرسکتے ہیں؟ یہ سیاستدان جب بیرون ملک جاتے ہیں تو صرف ان گنے چنے تارکین وطن سے ملتے ہیں جو نام نہاد سیاسی پارٹیوں کے عہدیدار بنے پھرتے ہیں اور ملک میں بیٹھے ہوئے رشتہ داروں کی سفارشیں کرتے ہیں۔ ان سیاستدانوں کی فکر میں اتنی گہرائی ہی نہیں کہ پروفیشنل پاکستانیوں سے ان کے درددل کی داستانیں سن سکیں۔ ان کے وژن کی انتہا یہ ہے کہ خورشید شاہ صاحب کو میاں نواز شریف کا پی اے کیوں کہا گیا؟ ان کے عزائم میں ملک کی ترقی کا واحد منصوبہ یہ ہے کہ یہ اتنے لاکھ آدمی دھرنے والوں کو شکست دینے کیلئے جمع کر سکتے ہیں۔ ٹیلی ویژن پر دیکھ کر ہنسی آتی ہے کہ عوامی نمائندوںکی اکثریت وزیراعظم سے ہاتھ ملاتے وقت کس طرح مجسم فدوی بن جاتی ہے۔ ان میں ایک بھی ایسا بہادر نہیں جو اٹھ کر کہہ سکے کہ چوراسی رشتہ داروں کو کلیدی مناصب سے ہٹائیے ورنہ جس نے یہ الزام لگایا ہے اس کے خلاف عدالت میں جائیے۔
رہا مسئلہ زرعی اصلاحات کا ، نظام تعلیم میں تبدیلی کا، ٹیکس پورا دینے کا اور کرپشن‘ اقرباء پروری اور سفارش کے خاتمے کا، تو معزز ارکان پارلیمنٹ اتنے سادہ لوح بھی نہیں کہ اپنے پیروں پرخود کلہاڑی ماریں۔ چنانچہ وطن کی یاد میں سلگتے تڑپتے تارکین وطن کو مشورہ ہے کہ فی الحال اپنے باقی اعزہ و اقارب کو بھی باہر بلالیں!

Sunday, September 07, 2014

6x3

بھوک مٹانے کے لیے کیا ضروری ہے؟ سادہ خوراک جو آدمی اور اس کے اہل و عیال کو زندہ رکھ سکے‘ توانائی دے اور معدے پر بوجھ نہ بنے۔ بس یہ ہے جو ضروری ہے۔ لیکن افسوس ! بات اس سے بہت آگے بڑھ گئی۔
پہلے تو انسان نے وہ سب کچھ اکٹھا کرکے اپنے دستر خوان پر ڈھیر کرلیا جو زندہ رہنے کے لیے ضروری تھا نہ توانائی دینے کے لیے۔ سالنوں، پلائو، بریانیوں اور کبابوں کی لاتعداد اقسام۔ نہاری، پراٹھا، باقر خوانی، قتلمہ، حلیم ، کوفتہ ۔ گوشت کے لیے کبوتر، تیتر ، مرغابی ، ٹرکی، ہرن، خرگوش۔ مشروبات کے انتظام کے لیے آبدار رکھے گئے۔ میوہ جات دنیا بھر سے منگوائے جانے لگے۔ بیڈ ٹی کے لیے الگ ملازم رکھے گئے۔ باورچی خانے کا خرچ سماجی مرتبے کو متعین کرنے لگا۔ یہ کہا جانے لگا کہ فلاں کے کچن کا خرچ اتنے لاکھ روزانہ ہے۔ پھر دستر خوان پر رکھی جانے والی خوراک کی مقدار اتنی بڑھا لی گئی جو کئی انسانوں اور کئی خاندانوں کو زندہ رکھ سکتی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سے لوگ بھوکے رہنے لگے۔ پھر ذخیرہ کرنا شروع کردیاگیا۔ کل کے لیے ، اگلے ہفتے کے لیے ، اگلے سال کے لیے ، پھر پوری زندگی کے لیے اور پھر آنے والی کئی نسلوں کے لیے۔
پھر بات اور آگے بڑھ گئی۔ قیمتی برتن جمع ہونے لگے۔ چاندی کے برتن، سونے کے برتن، درآمد شدہ گراں بہا ڈنر سیٹ، پھر خوراک کئی کورسوں میں تقسیم ہونے لگی جب کہ ہر کورس ایک مکمل کھانا تھا۔ پھر فائیو سٹار ہوٹلوں میں فوڈ فیسٹیول ہونے لگے۔ یہاں تک کہ جب کریڈٹ کارڈ فروخت کرنے والوں سے پوچھا جاتا کہ آخر اس کا کیا فائدہ تو وہ بتاتے کہ جیب میں رقم نہ ہو تب بھی فائیو سٹار ہوٹل میں لنچ یا ڈنر کرسکتے ہیں۔ چنانچہ قرض کا کھانا کھایا جانے لگا۔
تن ڈھانپنے کے لیے کیا ضروری ہے؟
کپڑوں کے دو یا تین جوڑے جو گرمی اور سردی سے بچا سکیں اور بدن کو برہنہ نہ ہونے دیں۔ بس یہ ہے جو ضروری ہے لیکن افسوس ! بات اس سے بہت آگے بڑھ گئی۔
پہلے تو آدمی نے لباس کو ایک اور ہی مقصد کے لیے پہننا شروع کیا یعنی تکبر، نخوت، امارت، طمطراق اور تزک و احتشام کے اظہار کے لیے۔ چنانچہ لباس کو لباسِ فاخرہ بنا دیا گیا۔ ریشم، زربفت، کمخواب، حریر، پرنیان، مخمل، اطلس، قاقم، سنجاب اور سمور منگوایا گیا۔ تراش خراش میں ایسے ایسے اسلوب اور ایسے ایسے ڈیزائن وضع کیے جانے لگے جن کا مقصد دیکھنے والوں کو مرعوب کرنا تھا۔ پھر وہ کشیدہ کاری، زر دوزی، گلکاری ، رنگ ریزی اور سوزن کاری کو بروئے کار لایا۔ گوٹا کناری، جھالر، کرن پھول وجود میں آئے۔ پھر وہ زیورات کی طرف آیا اور آخری حدوں سے بھی آگے نکل گیا۔ سونا، چاندی، زمرد، فیروزہ ، عقیق، مروارید، مرجان، یاقوت، نیلم ، الماس، لاجورد اور مقیش جسم پر چڑھالیے۔ یہاں تک کہ غلامی کی نشانیوں کو زیب و زینت کے لیے بقا بخش دی گئی۔ چنانچہ کانوں میں پڑے ہوئے حلقے (حلقہ بگوش) کو بالی، نکیل کو نتھ ، گردن میں پڑے ہوئے پٹے کو گلو بند، ہتھکڑی کو کنگن اور پائوں کی بیڑی کو پازیب بنالیا۔
پھر وہ تعداد اور کثرت کی طرف آیا۔ ملبوسات، زیورات اور جوتوں کے انبار لگ گئے۔ کمروں کے کمرے وارڈ روبوں سے اور وارڈ روب ساڑھیوں، دوپٹوں ، سکرٹوں ، نکٹائیوں، قمیضوں، سوٹوں ، ٹوپیوں اور جرابوں سے اٹ گئے۔ سینکڑوں قسم کے پاپوش جمع ہوگئے ۔ پھر ایک ایک چیز خاص خاص علاقے سے منگوائی جانے لگی اور جہاز، بندر گاہیں، ایئرپورٹ ، گاڑیوں اور کنٹینر سامان سے چھلکنے لگے۔
رہائش کے لیے کیا چاہیے ؟ ایک یا دو کمرے جن میں آدمی اور اس کے اہل و عیال رہ سکیں اور اپنا اسباب رکھیں۔ بان کی چارپائی اور اس پر سایہ کرنے کے لیے ایک درخت ! بس یہ ہے جو ضروری ہے۔ لیکن افسوس ! بات اس سے بہت آگے بڑھ گئی۔
پہلے تو اس نے بان کی چارپائی کو کرسیوں سے بدلا۔ پھر سایہ دار درخت برا لگنے لگا۔ اس میں نقص یہ تھا کہ اس کا سایہ چلتا تھا اور چارپائی ساتھ ساتھ گھسیٹنا پڑتی تھی۔ اس نے درخت کو چھت سے بدل دیا۔ چار دیواری کھڑی کرلی۔ دروازہ لگالیا اور اس کا نام بیٹھک رکھا۔
یہاں تک بھی ٹھیک تھا۔ لیکن پھر کرسیوں کی جگہ صوفے اور دیوان آگئے۔ فرش پر قالین ڈال دیا۔ چھت سے فانوس لٹکایا اور ڈرائنگ روم کا نام دے دیا۔ پھر معاملہ اور آگے بڑھا۔ صوفہ ایک سے ایک بڑھیا آیا ، قالین ہاتھ سے بنے ہوئے وسط ایشیا سے منگوائے گئے۔ کرسٹل دنیا کے کونے کونے سے اکٹھا ہوا۔ کمرہ امارت اور ہیبت سے بھر گیا۔ خدام جوتے اتار کر اندر آنے لگے۔ مالک تکبر کا نشان بن گیا۔ رہائشی کمروں میں چپس اور قیمتی پتھر ڈالے گئے۔ وہ دیواریں جو آنے والوں کو پہلے نظر آئیں ماربل سے ڈھانپ دی گئیں۔ ستون ایسے لگائے گئے جو انسان کا قد چھوٹا کریں۔ چوبارے اتنے اونچے بنے کہ دیکھنے والے کی دستار پیچھے گر گئی۔ فوارے لگائے گئے۔ حوض بنوائے گئے۔ سبزہ باہر سے منگوایا گیا۔ پودے کترنے اور کیاریاں سنوارنے کے لیے اجرت پر ان لوگوں کو رکھا گیا جو ابھی تک بان کی چارپائیوں پر بیٹھتے تھے اور چارپائیوں کو سائے کے ساتھ ساتھ گھسیٹتے تھے۔
یہ محل بھی ضرورت سے زیادہ تھا لیکن پھر ایک اور محل بنوایا گیا۔ پھر ایک اور۔ پھر جن شہروں میں کبھی کبھار جانا ہوتا تھا وہاں بھی قصر بنوائے گئے۔ ان میں خدام اورسواریاں ہمہ وقت تیار رکھی گئیں۔ پھر سمندر پار سرزمینوں کی باری آئی۔ بیش بہا اپارٹمنٹ لیے گئے۔ بحر روم کے کنارے مارسیلز، نپس اور ناپولی جیسے بہشت نما قصبوں میں ،جزائر غرب الہند کے سحر آگیں ساحلوں پر اور ہسپانیہ اور یونان کے دم بخود کردینے والے جزیروں میں تفریح گاہیں خریدی گئیں۔ محل نما بجروں کے سودے ہوئے۔ آف شور کمپنیاں فلوٹ کی گئیں اور وہ سب کچھ ہوا جس کا اندازہ تھا، نہ حساب!
جسم سے جان نکل جائے تو کیا درکار ہے ؟ تین فٹ چوڑا اور چھ فٹ لمبا قطعۂ زمین ! بس یہ ہے جو ضروری ہے! لیکن افسوس ! بات اس سے بہت آگے بڑھ گئی۔
پہلے تو تین فٹ چوڑی اور چھ فٹ لمبی قبر کو پکا کیاگیا۔ پھر اس پر پھول اور چادریں چڑھائی گئیں ۔ پھر اردگرد کی زمین کو ساتھ ملاکر چھت ڈال دی گئی۔ ایک مستقل آدمی جھاڑ پونچھ اور چھڑکائو کرنے کے لیے رکھا گیا۔ پھر دور دراز سے سنگ مرمر اور سنگ سرخ منگوایاگیا۔ سنگ تراش، کندہ کار، مینا کار، نقاش اور معمار اکٹھے کیے گئے۔ عظیم الشان عمارت تعمیر کی گئی۔ پھر سال بہ سال تقریب کا اہتمام ہونے لگا ۔ گردو پیش سے خلق خدا امڈ امڈ کر آنے لگی۔ رقص و سرود کی محفلیں برپا ہوئیں۔ گانجا ، حشیش اور پوست پی جانے لگی۔ ننگ دھڑنگ ملنگ دھمال ڈالنے لگے، بے خود عورتیں لمبے بالوں کو جھٹکے دے دے کر ناچنے لگیں۔ اندھے ، کوڑھی اور جنات کے ستائے ہوئے مریض شفایاب ہونے کے لیے آنے لگے۔
کسی کو فکر رہی نہ علم ہوا کہ جسے تین فٹ چوڑی اور چھ فٹ لمبی لحد میں سلایا تھا کس حال میں ہے؟

Saturday, September 06, 2014

غلام اور مشعلیں

روم کی سیر ڈاکٹر رحیم رضا کرارہے تھے۔ رحیم رضا‘ مشرقی زبانوں کی یونیورسٹی میں‘ جو نیپلز میں ہے‘ فارسی کے شعبے کے سربراہ تھے۔کلکتہ سے تعلق رکھنے والے رحیم رضا نے تہران سے فارسی میں ڈاکٹریٹ کیا۔ روانی سے فارسی بولنے والی اطالوی خاتون سے شادی کی اورروم میں آباد ہوگئے۔ویٹیکن سے لے کر ہسپانوی سیڑھیوں تک۔ بہت سے مقامات دکھانے کے بعد ڈاکٹر رحیم رضا ایک ریستوران میں لے گئے ’’ یہاں ہم کافی پیئں گے لیکن یہ کوئی عام ریستوران نہیں ہے۔ یہ ریستوران سیاسی گپ شپ اور بحث کے لیے مشہور ہے۔ خاص کر انتخابات کے ایام میں یہاں بیٹھنے کو جگہ نہیں ملتی۔ خاص بتانے کی بات یہ ہے کہ لوگوں سے بھرے اس ریستوران میں جب سیاست پر گفتگوعروج پر ہوتی ہے۔ مکھیوں کی بھنبھناہٹ سے زیادہ آواز نہیں سنائی دیتی۔ اونچی آواز سے کوئی نہیںبولتا۔ چیخنے ، گلے کی رگیں سرخ کرنے‘ آستینیں چڑھانے اور ناراض ہونے کا تصور ہی کوئی نہیں۔ مخالف سیاسی جماعتوں کے حلیف کئی کئی گھنٹے بحث کرنے کے بعد بھی ایک دوسرے سے مسکرا کر بات کرتے ہوئے باہر نکلتے ہیں۔‘‘
جس قوت برداشت کی تفصیل ڈاکٹررحیم رضا نے روم کے ریستوران میں کھڑے ہوکر بتائی، وہ قوت برداشت تمام مہذب جمہوری ملکوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔نیوزی لینڈ اور سنگا پور سے لے کر کینیڈا اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ تک یہ قوت برداشت ، یہ رواداری، یہ نرم گفتاری عام ہے۔ پاکستان کو بدبختی کے جن اندھیروں نے اپنی سیاہ آغوش میں لے رکھا ہے ان میں عدم برداشت سرفہرست ہے۔ یہ عدم برداشت دو حوالوں سے نمایاں ہے۔ ایک مذہبی اور دوسرے سیاسی حوالے سے۔مذہبی عدم برداشت پر اکثر و بیشتر اظہار خیال کیا جاتا رہا ہے۔ یہ عدم برداشت گلے کی رگیں سرخ کرنے اور آستینیں چڑھانے سے آگے بڑھ کر قتل و غارت تک پہنچ چکی ہے۔ اس قوم کی بدبختی کی انتہا یہ ہے کہ اب سیاسی حوالے سے بھی عدم برداشت روز بروز خطرناک تر ہوتی جارہی ہے۔ گزشتہ تین ہفتوں میں عدم برداشت کا گراف مسلسل اوپر جارہا ہے۔ تحریک انصاف اور نون لیگ کے حمایتی گھروں ، دفتروں، بازاروں اور شاہراہوں پر ایک دوسرے سے الجھ رہے ہیں۔ آپس میں گفتگو کے سلسلے منقطع ہورہے ہیں۔ بلڈ پریشر ماپنے کی سوئیاں اوپر کا ر خ کررہی ہیں۔ چند دن پہلے ایک تعلیم یافتہ خاتون سے گفتگو ہوئی تو فرمانے لگیں‘ فلاں فلاں واجب القتل ہے۔ سیاسی گفتگو سے بات آگے بڑھ کر ذاتی طعنوں تک جا پہنچتی ہے۔ ایک دوسرے کے ماضی کریدے اور کھودے جاتے ہیں۔ اس کے بعد تعلقات ختم ہوجاتے ہیں۔
عدم برداشت کے ساتھ دوسری بدقسمتی انفرادی اور قومی سطح پر انصاف سے روگرانی ہے۔ حالیہ دنوں میں انصاف سے روگردانی کی بے شمار مثالیں سامنے آئی ہیں۔ ایک شخص کی وہ باتیں پسند کی جاتی ہیں جو ہمارے خیالات سے مناسبت رکھتی ہیں اور جو باتیں ہمیں راس نہیں آتیں وہ رد کردی جاتی ہیں۔ جاوید ہاشمی کی پارلیمنٹ میں تقریر اس بے انصافی کی ادنیٰ مثال ہے۔جاوید ہاشمی کی وہ باتیں خوب خوب ہائی لائٹ کی جارہی ہیں جو عمران خان اور تحریک انصاف کے خلاف ہیں لیکن ان باتوں پر توجہ نہیں دی جارہی جو اسی جاوید ہاشمی نے اسی تقریر میں حکومت وقت کی پالیسیوں کے خلاف کی ہیں۔ جہاں جاوید ہاشمی نے یہ کہا کہ تحریک انصاف میں جمہوری نظام نہیں پنپ سکا اور عمران خان کو ’’ ادھر ادھر ‘‘ سے اشارے مل رہے ہیں وہاں اس نے پارلیمنٹ کے فلور پر کھڑے ہوکر یہ بھی پوچھا کہ وزیراعظم چودہ ماہ سینٹ میں کیوں نہیں آئے؟ قومی اسمبلی کو کیوں نظر انداز کیاگیا؟ جاوید ہاشمی نے یہ بھی کہا کہ عوام کی مشکلات کا ازالہ نہیں کیاگیا۔ ماڈل ٹائون کا واقعہ چھوٹا واقعہ نہیں‘ چودہ افراد کی لاشیں گریں اور اسّی کو گولیاں لگیں۔ وزیراعظم سوچیں عمران نے انہیں اپنے گھر بلایا پھر کیا ہوا کہ وہ ناراض ہوگئے ۔ یہ عمران خان کی نہیں وزیراعظم کی ناکامی ہے۔ جاوید ہاشمی نے یہ بھی کہا کہ وزیراعظم کی ٹیم تھرڈ کلاس ہے اور حکومت کی کارکردگی صفر ہے۔ نون لیگ میں ایک وزیر دوسرے وزیر سے ہاتھ نہیں ملاتا۔ نظام کس طرح چلے گا؟
اعتزاز احسن کی تقریر بھی حکومت وقت کے خلاف چارج شیٹ کے مترادف تھی۔ انہوں نے جہاں یہ کہا کہ پستول دکھا کر استعفیٰ نہیں لیا جاسکتا اور یہ دھرنے جز وقتی دھرنے ہیں۔ وہاں یہ بھی برملا کہا کہ لیگی حکومت نے ماڈل ٹائون میں گولیاں برسا کر مظالم ڈھائے ۔ انتخابات میں بدترین دھاندلی کی گئی۔ حکومتی وزرا کے تکبر اوررعونت کے باعث آج نون لیگ کو یہ دن دیکھنے پڑرہے ہیں۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ ان پر پیپلزپارٹی کے کارکنوں کا شدید دبائو ہے کہ آپ شریف برادران کی حکومت کیوں بچارہے ہیں؟ حالانکہ نون لیگ نے پنجاب میں پیپلزپارٹی پر ظلم کیے ۔ جو لشکری باہر آئے ہیں‘ ان کے الزامات میں بڑی صداقت ہے۔ عمران خان کے کرپشن کے الزامات میں بھی بڑی صداقت ہے۔ کل پانچ ستمبر کو وزیر داخلہ کے الزامات کے جواب میںاعتزاز احسن نے جو تقریر پارلیمنٹ میں کی اس میں تو انہوں نے عمران خان کو وہ خراج تحسین پیش کیا جو تحریک انصاف کے جوشیلے کارکن بھی شاید نہ کرسکیں۔ اعتزاز احسن کے الفاظ کچھ یوں تھے: ’’اگر عمران خان واپس بھی چلا گیا تو یہ اس کی پسپائی نہیں ہوگی۔ لوگ کہیں گے عمران خان بہادر تھا مگر ہارے ہوئے لشکر میں تھا۔‘‘
عمران خان اور طاہرالقادری کے مارچ سے جو حالت حکومت کے وزراء کی تھی‘ اس پر اعتزاز احسن نے اپنی تقریر میں اس کالم نگار کا یہ شعر پڑھا   ؎
غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر
محل پہ ٹوٹنے والا ہو آسماں جیسے
کاش ! اعتزاز احسن عمران خان کے بارے میں بھی کوئی شعر پڑھتے ۔ مثلاً     ؎
میرا دکھ یہ ہے میں اپنے ساتھیوں جیسا نہیں
میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں
یا سلیم احمد کا یہ شعر پڑھتے   ؎ 
پرانی کشتیاں ہیں میرے ملاحوں کے حصے میں
میں ان کے بادباں سیتا ہوں اور لنگر بناتا ہوں
یہ جو اعتزاز احسن نے ، جو ایک نامی گرامی دانش ور بھی ہیں، کہا ہے کہ عمران خان واپس چلے گئے تو یہ ان کی پسپائی نہیں ہوگی، تو یہ آدھا سچ ہے۔ پورا سچ یہ ہے کہ عوام و اپس چلے گئے تو یہ عوام کی پسپائی نہیں ہوگی !
اس ہنگامے میں ایک بات یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ پارلیمنٹ میں مدلل تقریریں دو ہی تھیں۔ ایک شاہ محمود قریشی کی‘ جنہوں نے ان حالات کا تفصیل سے ذکر کیا جو دھرنے پر منتج ہوئے اور دوسری اعتزاز احسن کی جنہوں نے اپنی شخصی اور خاندانی تاریخ سیاسی حوالے سے بیان کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی نے چودہ ماہ کی جو داستان مرحلہ وار بیان کی، اس کا ’’متحدہ ‘‘ پارلیمنٹ کے کسی رکن نے کوئی جواب نہیں دیا۔ کسی نے طعنہ دیا کہ فلاں کو فلاں کا پی اے کیوں کہا گیا، کسی نے دھمکی دی کہ میں اتنے لاکھ کا ہجوم لاسکتا ہوں لیکن ماڈل ٹائون کا ذکرہوا‘ نہ دھاندلی کا۔ ایف آئی آر کا‘ نہ کرپشن کا۔ ’’استقامت‘‘ کا یہ عالم ہے کہ ارکان پارلیمنٹ پر جو سب سے بڑا الزام ہے کہ ان کی اکثریت ٹیکس نہیں دیتی، اس کا ذکر بھی کوئی نہیں کرتا۔ گویا کرپشن ، ٹیکس چوری ایسے معمولی مسئلے ہیں کہ عظیم المرتبت ارکان ان کا ذکر کرنا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں۔
پارلیمنٹ کی دیوار پر یقینا گھڑی آویزاں ہوگی۔ اگر معزز ارکان اسے ایک ثانیے کے لیے غور سے دیکھیں تو یہ ضرور نوٹ فرمائیں کہ سوئیاں آگے کی طرف جارہی ہیں! پیچھے نہیں پلٹتیں!

Wednesday, September 03, 2014

اُٹھو‘ خدا کے لیے اُٹھو


یہ لندن کا ایک ہسپتال تھا جس کے لیے ڈاکٹروں کے انٹرویو لیے جا رہے تھے۔ پاکستانی امیدوار نے پاکستان میں اپنے باپ کو ٹیلی فون کیا۔ ’’تیس اسامیاں ہیں اور سات سو امیدوار۔ کوئی امکان ہی نہیں کہ میں کامیاب ہو جائوں۔ یہ سات سو امیدوار دنیا بھر سے آئے ہوئے ہیں‘ انہوں نے شہرۂ آفاق اداروں سے تعلیم حاصل کی ہے۔ سینکڑوں سفید فام ہیں۔ انٹرویو دینا ایک لاحاصل عمل لگ رہا ہے‘‘۔ 
ادھیڑ عمر باپ‘ جسے برطانیہ کے نظامِ صحت‘ ہسپتالوں کے معاملات‘ ڈاکٹروں کی باہمی مسابقت‘ کسی شے کے بارے میں درست اندازہ تو نہ تھا‘ پھر بھی مسکرایا اور دلجمعی سے اس نے بیٹے کو فون پر جواب دیا… ’’گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ ایک امر بہرطور یقینی ہے۔ انٹرویو لینے والوں اور فیصلہ کرنے والوں کی میزوں کی درازوں میں ایسی فہرستیں ہرگز نہیں پڑی ہوئیں جو وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری‘ وزیروں‘ گورنروں‘ وزرائے اعلیٰ‘ سپیکر اور قائد حزب اختلاف نے بھیجی ہوں۔ وزیراعظم کیا‘ ملکہ میں بھی اتنی جرأت نہیں کہ فیصلہ کرنے والے ڈاکٹروں کو کسی امیدوار کے لیے سفارش کر سکے۔ آرام اور سکون سے انٹرویو دو‘‘… 
ایک دن اور ایک رات اس ٹیلی فونک گفتگو کو گزر گیا۔ پھر بیٹے کا باپ کو ایک اور فون آیا… ’’مجھے منتخب کر لیا گیا ہے۔ حیرت ہے میں گورا نہیں اور ڈ اکٹری کی بنیادی تعلیم پاکستان سے حاصل کی ہے۔ انٹرویو لینے والے اور فیصلہ کرنے والے سارے سفید فام تھے۔ چھ سو سے زیادہ امیدواروں میں‘ جو ناکام ہوئے‘ تقریباً نصف سے زیادہ سفید فام ہیں‘‘۔ 
یہ صرف ایک سچا واقعہ ہے۔ ان فہرستوں کی وجہ سے جو ہر ادارے میں انٹرویو لینے والوں اور فیصلہ کرنے والوں کو ’’اوپر‘‘ سے آتی ہیں‘ پاکستانی ڈاکٹر‘ انجینئر‘ آئی ٹی ماہرین‘ پروفیسر‘ سائنس دان‘ ٹیکنوکریٹ یہاں تک کہ ٹیکنیشن بھی بیرون ملک بھاگ رہے ہیں۔ واپس کوئی نہیں آتا۔ کوئی آ جائے تو منہ کی کھاتا ہے اور دوبارہ بھاگ جاتا ہے۔ نجی شعبہ روز بروز سکڑ رہا ہے۔ سرمایہ کار بھی بھاگ رہے ہیں۔ ملائیشیا‘ بنگلہ دیش‘ ویت نام‘ سری لنکا‘ کوریا… جہاں بھی سینگ سما جائیں… کارخانہ کون بدبخت لگائے گا۔ بجلی گیس ہر چیز کے لیے رشوت… اور رشوت کا عالم یہ ہے کہ ایک سابق وفاقی سیکرٹری نے جو تقریباً ہر وقت باوضو رہتے ہیں‘ اپنی آنکھوں سے ایک رپورٹ پڑھی کہ پھانسی پانے والے مجرم کے لواحقین سے اس بات کی رشوت لی جاتی ہے کہ اسے تختے سے کتنی اونچائی پر لٹکایا جائے‘ اس میں کچھ ایسی ٹیکنیک ہوتی ہے کہ جان‘ جسم سے جلد بھی نکل سکتی ہے اور دیر سے بھی… دیر سے نکلے تو مجرم زیادہ دیر تڑپتا ہے اور زیادہ دیر نزع کے عذاب سے گزرتا ہے۔ 
’’خونی انقلاب‘‘ لانے والے حاکم کبھی بھیس بدل کر پانچ کنال زرعی زمین یا دس مرلے کے مکان کا اپنے نام انتقال کرانے کچہری جائیں۔ پٹواری سے فرد لینے کے لیے رشوت‘ انتقال کرانے والوں سے وقت لینے کے لیے رشوت‘ رجسٹر پر اندراج کرنے کے لیے رشوت‘ بیان لیتے وقت رشوت‘ پھر ’’صاحب‘‘ سے رجسٹر پر دستخط کرانے کے لیے رشوت! ملک کی ساری کچہریوں‘ سارے پٹواریوں‘ سارے تحصیل داروں‘ نائب تحصیل داروں کو جمع کریں اور حساب لگائیں‘ کتنے کروڑ روزانہ اور کتنے ارب ہفتہ وار رشوت کی مد میں آ جا رہے ہیں۔ یہ صرف ایک شعبے کی حالت ہے۔ 
آپ کے جاننے والے ڈاکٹروں‘ انجینئروں‘ سائنس دانوں میں سے کتنے لوگ بیرونِ ملک سے واپس آئے ہیں؟ غالباً ایک آدھا یا ایک بھی نہیں! دوسرے ملکوں میں کیا صورتِ حال ہے؟ سنگاپور یا ملائیشیا کو چھوڑیے‘ قارئین اعتراض کرتے ہیں کہ اُن ملکوں کا موازنہ جو آسمان پر پہنچے ہوئے ہیں‘ پاکستان سے کیوں کر رہے ہیں؟ بھارت تو ہمارے جیسا ہے۔ وہی رنگ‘ وہی کرپشن کا کلچر… وہی عادتیں‘ وہی لڑائی جھگڑے‘ وہی غیبت‘ وہی ٹانگیں کھینچنے‘ قینچی مارنے‘ پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی لت… ’’کیلی سروسز‘‘ بھارت کی ایک نجی کمپنی ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ افرادی قوت اور اس کی کھپت پر تحقیق کر رہی ہے۔ اس نے 2011ء میں رپورٹ پیش کی کہ 2015ء تک تین لاکھ سے زیادہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھارت میں واپس آ رہے ہیں۔ ایک اور ادارہ ’’کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹری‘‘ کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ لاکھ حالیہ عرصے میں واپس آ چکے ہیں اور تمام کے تمام کو تسلی بخش ملازمتیں اہلیت کے مطابق مل جاتی ہیں۔ ’’زمانہ بدل گیا ہے۔ اب یہ کہتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں کرتا کہ میں امریکہ سے یا یورپ سے واپس آ کر بھارتی فرم میں ملازمت کر رہا ہوں‘‘۔ تنخواہیں اتنی ہیں اور سرکار کی نجی شعبے میں عدم مداخلت اتنی مکمل ہے کہ جس طرح بیرونِ ملک کام کرنے کی اور فیصلے کرنے کی آزادی تھی‘ یہاں بھی اسی طرح ہے! 
نجی شعبے میں اتنی آزادی‘ اتنی ترقی کیوں ہوتی ہے؟ اس لیے کہ سرکار میں بیٹھے ہوئے اہم افراد بزنس نہیں کر سکتے۔ واجپائی سے لے کر من موہن سنگھ تک‘ مرارجی ڈیسائی سے لے کر سونیا گاندھی تک…آئی کے گجرال سے لے کر مودی تک… کسی کا ملک سے باہر کوئی کارخانہ ہے‘ نہ جائداد‘ نہ بینک اکائونٹ۔ کسی کا بیٹا بزنس میں ہے‘ نہ کسی کا داماد بادشاہی کرتا ہے۔ چین کی ساری ترقی اُن چینیوں کی مرہونِ منت ہے جو ساری دنیا سے واپس چین میں آئے۔ انہوں نے چین کو زمین کے نیچے کی پستی سے اٹھایا اور ساتویں آسمان پر لے گئے۔ اس لیے کہ ان کے مقابلے میں وزیروں‘ وزراء اعظم‘ صدور اور کابینہ کے ارکان کے مفادات نہیں تھے۔ رشوت کی سزا وہاں موت ہے۔ 
اللہ کے بندو! کچھ سوچو‘ تمہارے جگر کے ٹکڑے‘ تمہاری آنکھوں کے ستارے چودہ چودہ‘ سولہ سولہ جماعتیں پڑھ کر ڈگریاں ہاتھوں میں پکڑے وزیروں‘ عوامی نمائندوں کے دروازوں پر کھڑے ہیں۔ ذہنی صلاحیت انہیں پروردگار نے دی ہے۔ تعلیم کا خرچ ان کے حلال خور ماں باپ نے اٹھایا ہے۔ ملک ان کا ہے۔ اس پاک سرزمین کی ہوا‘ چاندنی‘ دھوپ‘ کھیتیاں‘ پھول‘ درخت ان کے ہیں تو ملازمتیں ایک مخصوص طبقے کی جیب میں کیوں ہیں؟ پیپلز پارٹی‘ نون لیگ‘ اے این پی‘ قاف لیگ‘ جے یو آئی کے سیاست دانوں کا بھرتیوں‘ ملازمتوں‘ تعیناتیوں‘ تبادلوں اور ترقیوں پر قبضہ کیوں ہے؟ یہ نجی شعبے میں بھی مداخلت کرتے ہیں۔ کیوں؟ تمہارے جگر کے ٹکڑوں کا حق کب تک اسّی اسّی سال کے ریٹائرڈ خاندانی وفاداروں کے تنور ہائے شکم میں جاتا رہے گا؟ تمہارے موتی‘ تمہارے لعل کب تک سفارت خانوں کے سامنے دھوپ اور بارش میں قطاروں میں کھڑے رُلتے رہیں گے۔ کب تک ایوانوں میں بیٹھے ہوئوں کے بیٹوں‘ بھتیجوں‘ بھانجوں‘ دامادوں کو ایک ایک ٹیلی فون کال پر قیمتی ملازمتیں ملتی رہیں گی۔ پورا ٹیکس دے کر کب تک اُن کی حکمرانی کے سائے میں سسکتے رہو گے جو چند ہزار روپوں کا ٹیکس بھی نہیں دیتے اور تمہارے اعلیٰ تعلیم یافتہ بچوں کو مزارع سمجھتے ہیں؟ کب تک تمہارے بیٹے تمہاری تدفین کے بعد پہنچ کر تمہاری قبروں سے لپٹ لپٹ کر روتے رہیں گے اور چند دن بعد آہیں بھرتے‘ دل میں کسک‘ آنکھوں میں آنسو لیے واپس ایئرپورٹوں کی طرف روانہ ہوتے رہیں گے؟ یہ ملک تمہارا نہیں ہو سکا… خدا کے لیے‘ اُس کے رسولؐ کے لیے یہ ملک اپنے بچوں کو تو لوٹائو۔ تمہارا ملک ان کی کالونی بن چکا ہے جن کے بچے لندن اور دبئی میں رہتے ہیں اور تم پر حکمرانی کے لیے کئی نسلوں کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں۔ اسے کالونی نہ بننے دو۔ سنو! یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے ع 
اُٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی

Monday, September 01, 2014

عجائب گھر


یہ واشنگٹن کا ایک سکول ہے۔ اس میں سفید فام بچے بھی پڑھتے ہیں۔ افریقی نسل کے بھی‘ زرد جاپانی اور چینی نژاد بھی۔ انہیں یورپ کی تاریخ پڑھائی جا رہی ہے۔ بارہویں تیرہویں صدی کے یورپ کی تاریخ۔ یہ بڑی بڑی زمینداریوں کا زمانہ تھا۔ ہر زمیندار کی اپنی فوج تھی۔ اپنی پولیس‘ اپنی رعایا۔ بادشاہ کو ضرورت پڑتی تھی تو سارے زمینداروں کی فوج اکٹھی کر لی جاتی تھی۔ 
زمینداروں کی رعایا عجیب و غریب حالت میں رہتی تھی۔ چھوٹے چھوٹے کچے گھر‘ شدید سردی اور برفباری میں کوئلوں کی انگیٹھی بھی میسر نہیں آتی تھی۔ چند ابلے ہوئے آلو اور بدترین کوالٹی کی روٹی۔ گھروں میں چراغ اتنی ہی دیر جلتے تھے کہ ضروری کام کر لیے جائیں۔ صبح سے شام تک کھیتوں میں کام یا کھڈیوں پر کپڑا بننے اور چاک پر برتن بنانے کا کام۔ آمدنی کا زیادہ حصہ زمینداروں کے منشی لے جاتے تھے۔ 
زمینداروں کی دنیا اپنی تھی۔ محلات تھے‘ آٹھ آٹھ گھوڑوں کی بگھیاں تھیں‘ بیسیوں ملازم ایک ایک فرد کے لیے تھے‘ پہاڑوں سے گرتے صاف شفاف چشموں کا پانی اس طبقے کے لیے مخصوص تھا جب کہ عام لوگ جوہڑوں‘ تالابوں اور نالوں سے پانی پیتے تھے۔ طبیب اتنے مہنگے تھے کہ عوام کو ان کے نسخوں کی استطاعت ہی نہیں تھی۔ 
استاد پڑھاتا رہا اور گورے کالے اور زرد بچے دم بخود ہو کر سنتے رہے۔ کیا ایسا زمانہ بھی تھا‘ جب برفباری کے دوران گھروں میں انگیٹھیاں تک نہیں تھیں؟ پانی جوہڑوں سے پیا جاتا تھا؟ کچھ کو یہ داستان غیر حقیقی لگ رہی تھی۔ پیریڈ ختم ہونے کو تھا جب استاد نے اعلان کیا کہ اتوار کے روز طلبہ واشنگٹن کے سب سے بڑے عجائب گھر میں جائیں گے جہاں بارہویں تیرہویں صدی کا یورپ دکھایا جائے گا۔ 
عجائب گھر کیا تھا‘ گائوں کے گائوں بنے ہوئے تھے۔ یوں جیسے زندہ اور حقیقی ہوں۔ جوہڑوں سے پانی پیتے بچے‘ گھروں سے غلہ اکٹھا کرتے منشی، انہیں روکنے والے روتے بلکتے کسان اور ان کی بیویاں‘ گھوڑوں پر سوار لارڈ اور ان کی فوجیں۔ شفاف چشموں پر قبضہ کرنے والے لارڈز کے سپاہی! 
پیر کے دن کلاس میں بحث ہوئی۔ مغرب پر جتنی بھی تنقید کی جائے‘ یہ ماننا پڑتا ہے کہ طلبہ میں خوداعتمادی بلا کی پیدا کی جاتی ہے۔ وہ ہر وہ سوال اٹھا سکتے ہیں جو ان کے ذہن میں بلبلہ بن کر اٹھے۔ خوف ہوتا ہے نہ جھجک۔ کلاس کے آدھے طلبہ نے عجائب گھر میں دکھائی گئی زندگی پر شک کا اظہار کیا۔ ’’یہ کس طرح ممکن ہے کہ انسان جانوروں کی زندگی گزاریں۔ انسان اور جانور کے طرزِ زندگی میں بنیادی فرق کو کس طرح ختم کیا جا سکتا ہے!‘‘ 
استاد سنتا رہا۔ مسکراتا رہا۔ اس نے ایک ایک طالب علم کو بولنے کا موقع دیا۔ پیریڈ ختم ہو گیا۔ چھٹی ہو گئی۔ استاد نے سب کو جانے کی اجازت دے دی۔ طلبہ ایک دوسرے سے ذکر کر رہے تھے کہ استاد نے طلبہ کے موقف کا کوئی جواب نہ دیا اور شکوک و شبہات پر کسی ردعمل کا اظہار نہ کیا۔ 
استاد کا ردعمل دوسرے دن سامنے آیا۔ اس نے کلاس کے تمام طلبہ کو حکم دیا کہ رواں ہفتے کے اختتام تک سب طالب علم اپنے اپنے پاسپورٹ لائیں۔ ایک سفر درپیش ہے۔ استاد ہمراہ جائے گا۔ 
یہ واشنگٹن کے ہوائی اڈے کا ایک گوشہ ہے۔ بیس طالب علم‘ لڑکے لڑکیاں‘ سفید فام‘ سیاہ فام اور زرد فام۔ جمع ہیں‘ ان کے درمیان ان کا استاد کھڑا ہے اور گفتگو کر رہا ہے۔ 
’’تمہیں عجائب گھر میں بنے ہوئے ماڈل مشکوک لگے۔ تمہارے شکوک و شبہات کی میں قدر کرتا ہوں۔ اس لیے میں تمہیں ایک ایسے ملک میں لے کر جا رہا ہوں جو پورے کا پورا چلتا پھرتا جیتا جاگتا زندہ عجائب گھر ہے۔ تم دیکھو گے کہ وہاں چھوٹے چھوٹے گھر ہیں‘ ایک ایک دو دو کمروں میں دس دس بارہ بارہ افراد رہ رہے ہیں۔ صحن کے ایک کونے میں چولہا ہے۔ لکڑیاں یا اُپلوں پر کھانا پکتا ہے۔ پنکھے لگے ہیں لیکن دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں کم ہی چلتے ہیں۔ برقی بلب کبھی جلتے ہیں کبھی تین تین گھنٹوں کے لیے گل ہو جاتے ہیں۔ لالٹینیں ہیں اور موم بتیاں۔ تنگ گلیاں ہیں۔ تنگ سے چوک پر پانی کا نلکا ہے۔ اس کے ساتھ بالٹیوں‘ دیگچوں‘ گھڑوں‘ پتیلوں کی قطار ہے۔ پانی آئے تو قطار ٹوٹ جاتی ہے۔ کمزور بچے اور بوڑھی عورتیں پیچھے کھڑی رہتی ہیں۔ لاکھوں بچے سکولوں میں نہیں جاتے۔ سارا سارا دن گلیوں میں آوارہ پھرتے ہیں۔ کوڑے کے ڈھیروں سے کاغذ چتنے ہیں۔ ردی خرید کر فروخت کرتے ہیں۔ ورکشاپوں میں گاڑیوں کے نیچے لیٹ کر پورا پورا دن گزارتے ہیں۔ ریستورانوں میں برتن مانجھتے ہیں۔ چراگاہوں میں بکریاں چراتے ہیں۔ کچھ صوفے مرمت کرنا سیکھتے ہیں۔ بہت سے نلکے بور کرنے والے افغان مہاجروں کے ساتھ مزدوری کرتے ہیں۔ ان لاکھوں بچوں کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے‘ اسے احاطۂ تحریر میں لایا جا سکتا ہے نہ تصور کے دائرے میں! بوڑھی عورتیں بڑے گھروں میں جھاڑو دیتی ہیں اور بچیوں کے جہیز کے لیے ایک ایک روپیہ اکٹھا کرتی ہیں‘ ملک کی اکثریت جو کھانا کھاتی ہے‘ وہ دال اور سبزی پر مشتمل ہے۔ بے شمار گھر دس یا پندرہ ہزار ماہانہ آمدنی پر گزارا کر رہے ہیں۔ پندرہ دن میں ایک بار بڑے گوشت کے چند چھوٹے ٹکڑے پکتے ہیں جن پر پورا گھرانا منہ کا ذائقہ تبدیل کرتا ہے۔ آبادی کا غالب حصہ جوہڑوں‘ تالابوں اور نالوں سے پانی حاصل کرتا ہے۔ حیران کن یہ ہے کہ آبادی کا بہت بڑا حصہ رفعِ حاجت کے لیے گھروں سے باہر کھیتوں میں یا ٹیلوں کے پیچھے بیٹھتا ہے۔ بہت سے لوگ گلیوں کی نالیوں پر بیٹھتے ہیں۔ 
’’اسی ملک میں ایک اور طبقہ ہے جو چند لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔ ان کی زندگی کا انداز وہی ہے جو بارہویں تیرہویں صدی میں یورپ کے زمینداروں کا تھا۔ اس طبقے کے لوگ نسل در نسل اس ملک کی منتخب اسمبلی کے لیے چنے جاتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کے پاس درجنوں گاڑیاں ہیں۔ ان کے گھروں میں بیسیوں ملازم ہیں جو عملی طور پر غلاموں کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ اس طبقے کے لیے پروازیں موخر کردی جاتی ہیں۔ انہیں گزرنا ہو تو شاہراہیں بند کردی جاتی ہیں اور راہ گیروں کو بھیڑ بکریوں کی طرح روک دیا جاتا ہے۔ اس طبقے پر کسی ملکی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ٹریفک کا قانون‘ اسلحہ نہ رکھنے کا قانون‘ ٹیکس دینے کا قانون ایئرپورٹوں اور بندرگاہوں پر کسٹم کا قانون، قتل ڈاکے اور چوری کا قانون‘ دوسرے کی زمینوں اور جائیدادوں پر قبضہ نہ کرنے کا قانون… کوئی بھی قانون ہو‘ اُن لوگوں پر نہیں نافذ ہو سکتا جو ایوانوں میں بیٹھے ہیں۔ پولیس اور نوکر شاہی اس طبقے کی غلام ہے۔ یہاں تک کہ یہ تھانوں میں جا کر اپنے لوگ چھڑا کر گھر لے آتے ہیں اور کیا قانون‘ کیا قانون نافذ کرنے والے‘ سب خاموش رہتے ہیں‘ برقی توانائی کا تین چوتھائی حصہ ان لوگوں کے لیے مخصوص ہے اور ایک چوتھائی پورے ملک کی آبادی کے لیے۔ اور ایک کام جو بارہویں صدی کے یورپ میں بھی نہیں ہوتا تھا‘ ان لوگوں کے لیے خود حکومت کرتی ہے۔ وہ یہ کہ کروڑوں اربوں روپے یہ لوگ بینکوں سے قرض لیتے ہیں اور حکومت اس قرض کو معاف کر دیتی ہے! کوئی طاقت کوئی قانون کوئی ادارہ اس ظلم کو روک نہیں سکتا‘‘۔ 
طالب علم جب جہاز پر سوار ہو رہے تھے تو ان کی زبانیں گنگ تھیں۔ چہروں کے رنگ متغیر ہو چکے تھے۔

 

powered by worldwanders.com