Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, October 23, 2012

انتقام

آکسفورڈ یونیورسٹی کب شروع ہوئی؟ تاریخ کا تعین آج تک نہیں ہوا لیکن اتنا معلوم ہے کہ 1096ءمیں یہاں تدریس ہو رہی تھی۔ 2010ءمیں یونیورسٹیوں کی ریٹنگ میں آکسفورڈ یونیورسٹی یورپ میں دوسرے نمبر پر رہی۔ ایک سال بعد یعنی 2011ءمیں اس کا نمبر پوری دنیا میں چوتھا آیا۔ یونیورسٹی 38 کالجوں پر مشتمل ہے۔ ہر کالج بذات خود ایک مکمل ادارہ ہے جس کی روایات سینکڑوں سال سے چلی آ رہی ہیں۔ یونیورسٹی میں ایک سو دو لائبریریاں ہیں۔ مرکزی لائبریری میں ایک کروڑ دس لاکھ کتابیں ہیں اور اگر الماریوں کی تمام شلفیں جمع کی جائیں تو ایک سو بیس میل لمبائی بنتی ہے۔ یونیورسٹی کا عجائب گھر 1683ءمیں وجود میں آیا اور دنیا کا قدیم ترین یونیورسٹی عجائب گھر ہے۔

برطانیہ کے 26 وزرائے اعظم آکسفورڈ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے۔ تیس عالمی رہنما اس کے علاوہ ہیں۔ پاکستان کے پانچ وزیراعظم (لیاقت علی خان، حسین شہید سہروردی، فیروز خان نون، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو) یہیں کے پڑھے ہوئے تھے۔ صف اول کے کئی شاعر اور ادیب آکسفورڈ یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہے۔ آسکر وائلڈ، آلٹرس ہکسلے، وکرم سیٹھ، شیلے، ڈبلیو ایچ آڈن، ٹی ایس ایلیٹ، آدم سمتھ، آئن سٹائن اور کئی دوسرے عالمی شہرت یافتہ دانشور اس درس گاہ کی دہلیز پر گھٹنے ٹیکتے رہے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا سنجیدہ طالب علم ہو جس کے دل میں یہ شوق چٹکیاں نہ لے رہا ہو کہ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخل ہو۔

کیمبرج یونیورسٹی 1231ءسے یعنی 781 سال سے علم کی شمع جلائے ہوئے ہے۔ نیوٹن سترھویں صدی میں یہاں طالب علم رہا۔ شہرہ آفاق شعرا ملٹن، بائرن اور ٹینی سن کا تعلق اسی یونیورسٹی سے تھا۔ 23 بین الاقوامی رہنما یہاں سے پڑھ کے نکلے کئی
سائنسی ایجادات اور دریافتوں کا سہرا یہاں کے فارغ التحصیل سائنس دانوں کے سر ہے۔ قانون حرکت، الیکٹرون کی دریافت، ایٹم کو توڑنے کا کارنامہ، ہائیڈروجن کی دریافت اور ڈی این اے ان کارناموں میں سے محض چند ہیں جو اس یونیورسٹی کے فارغ التحصیل سائنس دانوں نے انجام دیئے۔ یونیورسٹی 31 کالجوں پر مشتمل ہے جن میں سے تین خواتین کے لیے مختص ہیں۔ ایک سو پچاس شعبے ان 31 کالجوں کے علاوہ ہیں۔ یونیورسٹی میں ایک سو چودہ لائبریریاں ہیں جو ہر وقت طلبا سے بھری رہتی ہیں۔ مرکزی لائبریری میں اسی لاکھ کتابیں ہیں۔ یونیورسٹی سے ملحقہ ٹرنٹی کالج کی لائبریری میں دو لاکھ کتابیں ایسی ہیں جو 1800ءسے پہلے شائع ہوئی تھیں۔ ایک اور لائبریری میں چھ سو مخطوطے عہد قدیم سے تعلق رکھتے ہیں۔ کرسٹی کالج کی لائبریری میں ایک کروڑ بیس لاکھ کتابیں ہیں۔ یونیورسٹی کی تحویل میں آرٹ، ثقافت اور سائنس کے موضوعات پر مشتمل آٹھ عجائب گھر ہیں اور ایک نباتیاتی گارڈن ہے۔ یونیورسٹی میں چھ ہزار اساتذہ رات دن کام کرتے ہیں۔ طلبا کی تعداد اٹھارہ ہزار سے زیادہ ہے۔

آج ادب، سائنس اور فلسفہ و تاریخ میں برطانیہ کا جو مقام ہے اس میں ان دونوں یونیورسٹیوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ جس ٹیکنالوجی کی وجہ سے برطانیہ کے چھوٹے چھوٹے جزیروں نے اپنی بحری طاقت کو اس وقت عروج پر پہنچایا جب ہمارے مغل بادشاہوں نے سمندر کی شکل ہی نہیں دیکھی تھی۔ وہ ٹیکنالوجی برطانیہ کی یونیورسٹیوں کی عنایت تھی اور ان یونیورسٹیوں میں آکسفورڈ اور کیمبرج کا مقام اسی طرح ممتاز ہے جیسے ستاروں میں سورج اور چاند کا ہے۔

اب ہم امریکہ میں واقع ہارورڈ یونیورسٹی کی طرف آتے ہیں۔ یہ ریاست ہائے متحدہ کا قدیم ترین، علمی، تحقیقی اور تدریسی ادارہ ہے۔ یونیورسٹی کے تین کیمپس ہیں۔ پرانا کیمپس 210 ایکڑ پر مشتمل ہے۔ میڈیکل کے طلبا کے لئے الگ کیمپس ہے جو 22 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔ تیسرے کیمپس کا رقبہ 360 ایکڑ ہے۔ 1636ءمیں معرض وجود میں آنے والی یہ یونیورسٹی اس وقت دنیا میں بزنس ایڈمنسٹریشن کی قیادت کر رہی ہے۔ یہاں سے ایم بی اے کرکے نکلنے والے طالب علم کو امریکہ، یورپ اور جاپان کی کوئی بھی ملٹی نیشنل کارپوریشن ہاتھوں ہاتھ لینے کو تیار ہوتی ہے۔ تحقیق کے میدان میں اس وقت اس یونیورسٹی کا کوئی ثانی نہیں۔ کمپیوٹر، میڈیکل، اقتصادیات، عمرانیات، افریقن سٹڈیز، نفسیات، مکانوں کی تعمیر اور قانون پر تحقیق کرنے والے تقریباً دو درجن عظیم الشان ریسرچ سنٹر یونیورسٹی کے ساتھ ملحق ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ امریکہ کی سائنسی، اقتصادی، کاروباری، علمی اور سیاسی قوت کا یہ یونیورسٹی سرچشمہ ہے تو اس میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔

امریکہ اور برطانیہ ہمارے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ امریکہ افغانستان پر قبضہ کرکے پاکستان کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ آج عالم اسلام کا سب سے بڑا دشمن امریکہ ہی ہے۔ برطانیہ سے بھی ہماری دشمنی میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ تین سو سال اس نے ہمیں غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رکھا اور عالم اسلام کے دیگر حصوں پر بھی قبضہ کئے رکھا۔

ہم اگر امریکہ اور برطانیہ سے انتقام لینا چاہتے ہیں تو ہمیں ان کی یونیورسٹیوں کو تباہ کر دینا چاہئے۔ یہ ان کی شہ رگ پر حملہ ہوگا۔ ہم نے دھماکے کرکے دیکھ لیا۔ جہادی گروہ ترتیب دے کر بھی ہم کوئی خاص کامیابی نہ حاصل کر سکے۔ برطانیہ اور امریکہ کی قوت کا راز سائنس اور ٹیکنالوجی ہے اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے مراکز اور عقل گاہیں ان یونیورسٹیوں میں ہیں۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ ان یونیورسٹیوں کو نشانہ بنائیں۔ اس کے لیے ہمیں اسلحہ اور جنگی تربیت کی ضرورت نہیں۔ کرنا ہمیں صرف یہ ہے کہ جو کچھ ہماری اپنی یونیورسٹیوں میں ہو رہا ہے، وہ کسی نہ کسی طرح آکسفورڈ، کیمبرج اور ہارورڈ یونیورسٹی میں کروانا شروع کر دیں۔ اس ضمن میں پنجاب یونیورسٹی ہمارے لیے ماڈل کا رول ادا کر سکتی ہے۔ آپ چار پانچ دن پہلے کی خبر جو روزنامہ ”دنیا“ میں چھپی ہے، ملاحظہ کیجئے:

”ایک طلبا تنظیم کے کارکنوں نے پنجاب یونیورسٹی کے اسٹیٹ افسر پر حملہ کرکے شدید زخمی کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق ہوسٹل نمبر چار میں پشتون طلبا نے نئے آنے والے بلوچی طلبا کے لیے چائے کا اہتمام کیا تھا۔ اس پر طلبا تنظیم کے ارکان نے کینٹین والے کو چائے دینے سے منع کر دیا اور سامان بھی اٹھا کر پھینک دیا جس پر طلبا کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی۔ رات گئے تنظیم کے کارکنوں نے ایک بار پھر ہوسٹل نمبر 1 پر حملہ کرکے طالب علم زکریا پر تشدد کیا۔ معاملہ رفع دفع کروانے والے اسٹیٹ افسر پر بھی حملہ کر دیا گیا اور اس کی گاڑی تباہ کر دی گئی۔ اے ایس اے کے قائم مقام صدر نے کہا ہے کہ ایک تنظیم نے پنجاب یونیورسٹی کو ذاتی جاگیر سمجھ رکھا ہے۔ دوسری طرف تنظیم کے ناظم نے کہا ہے کہ ان کی تنظیم پنجاب یونیورسٹی کے امن کو تباہ کرنے کی انتظامیہ کی ہر سازش کو ناکام بنا دے گی۔“

ہم اگر ان برطانوی اور امریکی یونیورسٹیوں میں لسانی اور علاقائی بنیادوں پر طلبا کی تنظیمیں بنوا دیں اور طلبا کو افریقی، چینی، ہسپانوی اور دیگر گروہوں میں تقسیم کر دیں اور اگر ہر گروہ دوسرے گروہ کی چائے کی تقریب پر حملہ آور ہو جائے تو ان یونیورسٹیوں کی ممتاز علمی حیثیت تھوڑے ہی عرصہ میں نفاق اور جنگ و جدل کی نذر ہو جائے گی۔ ہمارے پاس اگر ایسی تنظیمیں موجود ہیں جو یونیورسٹی کے امن کو تباہ کرنے کی انتظامیہ کی کسی بھی سازش کو ناکام بنا سکتی ہیں تو ہمیں ان تنظیموں کی شاخیں آکسفورڈ، کیمبرج اور ہارورڈ کی یونیورسٹیوں میں بھی قائم کرنی چاہئیں۔ یہ تنظیمیں ان یونیورسٹیوں میں بھی کتاب میلے منعقد کریں۔ یہ اپنے ماہر طلبا کو وہاں کے پروفیسروں کے دماغ ”درست“ کرنے اور وہاں کی انتظامیہ کے افسروں کی ”مرمت“ کرنے پر بھی مامور کریں تو یہ یونیورسٹیاں کچھ ہی عرصہ میں پنجاب یونیورسٹی کی سطح پر اتر آئیں گی اور انتقام کا اس سے بہتر طریقہ کوئی نہیں!

Facebook.com/izharulhaq.net

3 comments:

ڈاکٹر جواد احمد خان said...

بہت خوب۔۔۔۔۔
یک طرفہ نقطہ نظر ہمیشہ سے دلچسپی کا باعث رہا ہے۔
کیا آپ نے دوسری طرف کا نقطہ نظر جاننے کی کوشش کی ہے؟
اس سے پہلے بھی ایک استار پر جمعیت کے حملے کو لے کر بڑا طوفان اٹھانے کی کوشش کی گئی۔ چینلز نے اسے اس طرح پیش کیا جیسے پاکستان میں تعلیم کا با ضابطہ اختتام ہوگیا ہے۔ عمران خان نے تو جاکر اس استاد کی عیادت بھی کی اور اسی طالبعلم سے گلدستہ لیتے پائے گئے جس کے ہاتھوں مشرف دور میں ان پر تشدد ہوا اور وہ پولیس کے حوالے کردیے گئے لیکن بعد میں پتا چلا کہ موصوف استاد خوتین اساتذہ اور طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنے میں ملوث رہے ہیں جس پر انکی نوکری گئی اور موصوف اریسٹ کرلیے گئے۔
جناب آپکا نقطہ نظر یک طرفہ ہے اسی لیے خام ہے۔

Ahmad Naseem said...

ڈاکٹر جواد احمد خان شاید یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر کوئی استاد یونی ورسٹی میں جرم کرے تو جمعیت کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اسے سزا دے۔ یہ فاشزم ہے اور جماعت اسلامی کا خاص سٹائل ہے۔
کسی سیاسی جماعت کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ تعلیمی اداروں میں اپنی شاخیں قائم کرے۔

Anonymous said...

Dr. Jawad has every right to think like that because there are thousands of people who think themselves above any law and regulations. God bless education in Pakistan. Wahid Siraj

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com