سکول کا دروازہ لوہے کا تھا۔ اس کے دو حصے تھے۔ درمیان سے ایک طرف دھکیلا جاتا تو گزرنے کا راستہ بن جاتا۔ جتنا زیادہ دونوں طرف دھکیلا جاتا اتنا ہی کھلتا جاتا۔ مگر نہ جانے چھٹی کے وقت پورا دروازہ کیوں نہیں کھولتے تھے۔ چنانچہ بچے ایک دوسرے کے پیچھے آہستہ آہستہ چلتے‘ ہجوم بناتے‘ دروازے سے نکل کر باہر سڑک پر آتے۔ اُس دن بھی یہی ہوا۔ چھٹی کی گھنٹی بجی اور ہم پہلی جماعت کے بچے باہر جانے کے لیے دروازے کے ہجوم کا حصہ بن گئے۔ ہم سب آہستہ آہستہ سرک رہے تھے۔ میرے بالکل آگے ایک سکھ بچہ تھا جو مجھ سے بڑا تھا۔ اس کے بالوں کی عجیب سی مینڈھیاں بنی ہوئی تھیں اور بالوں کا ایک حصہ اس کی گردن پر اس طرح پڑا تھا کہ چُٹیا دو حصوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔ ہجوم سرک رہا تھا۔ آہستہ آہستہ۔ چیونٹی کی رفتار سے۔ نہ جانے کیوں میں نے اس کے بال گردن سے پکڑے اور کھینچے۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ جیسے ہی ہم سڑک پر پہنچے اس نے مجھ پر حملہ کر دیا۔ مجھے سڑک پر لٹا کر مارا اور خوب مارا۔ مار کھا کر میں اٹھا‘ اپنا بستہ اور تختی لی اور روتا روتا گھر پہنچا۔ اس دن گاؤں سے نانا جان آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے مجھے ساتھ لیا اور سکول پہنچے مگر وہاں تو اب کوئی بھی نہیں تھا۔ وہ زمانہ تھا 1954ء یا 1955ء کا‘ جب سب بچے اکیلے سکول جاتے تھے۔ چھوڑنے جانا پڑتا تھا نہ کوئی لینے جاتا تھا۔ پنڈی گھیب میں یہ ایک ہی سکھ خاندان تھا۔ بٹوارا ہوا تو ہندو اور سکھ بھارت چلے گئے۔ یہ سکھ خاندان مسلمان ہو گیا۔ کچھ عرصہ بعد جب گرد بیٹھی تو یہ دوبارہ سکھ ہو گئے۔ بہر طور کسی نے تعرض نہ کیا۔ یہ سکھ بچہ دوسری یا تیسری کلاس میں تھا۔ یہ اکثر ہماری گلی سے گزرتا۔ میری اکلوتی بہن نے جو مجھ سے تین سال بڑی ہیں‘ جواب میں اسے‘ جب وہ ہماری گلی سے گزر رہا تھا‘ پیٹا۔ اس کے بعد وہ گلی کے بجائے ہمارے مکان کے پچھواڑے سے گزرتا۔ اس کا نام شاید بلبیر سنگھ تھا۔ حیرت ہے کہ اس کے بعد اس سے ملاقات نہ ہوئی۔ بعد میں سنتا رہا کہ راولپنڈی سٹی صدر روڈ پر اس کی دکان ہے۔ یہ دو تین بھائی تھے اور ایک جیسے تھے۔ 1957ء میں 1857ء کی ناکام جنگِ آزادی کی صد سالہ برسی ملک گیر پیمانے پر منائی گئی تھی۔ گورنمنٹ ہائی سکول پنڈی گھیب میں بھی ایک ثقافتی پروگرام ہوا۔ دھندلی دھندلی یاد اس کی اب بھی یاد داشت کے ایک صفحے پر مرقوم ہے۔ بلبیر سنگھ تھا یا اس کا بھائی‘ اس تقافتی شو میں لڑکی بنا اور رقص کیا۔ بال اس کے لمبے تھے اور رنگ سرخ سفید۔
پنڈی گھیب میں پرائمری سکول دو حصوں میں منقسم تھا۔ ایک شہر کے اندر تھا دوسرا باہر۔ جو اندر تھا وہ ''بمبے سٹور‘‘ کی بغل میں واقع تھا۔ بمبے سٹور مشہور دکان تھی۔ یہیں سے ہم ''ہاتھی مارکہ‘‘ روشنائی خریدتے تھے اور سلیٹیاں اور پنسلیں بھی۔ عرفِ عام میں بمبے سٹور کو بابا سٹور کہتے تھے۔ اس کے مالک کے بارے میں سب جانتے تھے کہ اولاد نہیں تھی۔ ایک بچہ اس نے پالا تھا جو اس وقت جوان تھا۔ رات کو دودھ دہی کی دکانیں دیر تک کھلی رہتی تھیں۔ بڑے بڑے کڑاہوں میں دودھ گرم کیا جاتا تھا۔ اوپر خالص بالائی کی دبیز تہہ ہوتی تھی۔ لوگ آکر دودھ پیتے تھے۔ سبز رنگ کے پیالوں میں! جو مٹی کے یا شاید
Porcelain
کے ہوتے تھے۔ بمبے سٹور والے بابا کے بیٹے کو بھی کئی بار دکان پر رات کو دودھ پیتے دیکھا اس لیے اس بات کی جو خلقِ خدا کی زبان پر تھی‘ تصدیق ہوتی تھی کہ بابے نے اسے پیار سے پالا تھا۔ بعد میں ویسی ہی داستانیں اس کے بارے میں بھی سنیں جو لے پالک بچوں کی سنتے آئے ہیں۔ جھگڑے۔ ناشکر گزاری۔ پچھتاوے!
پہلی جماعت میں میاں محمد صاحب ہمارے استاد تھے۔ نحیف تھے اور بیمار رہتے تھے۔ الائچیاں اور اس قسم کی ادویات بچوں کو بھیج کر اپنے گھر سے منگواتے رہتے۔ ان کے صاحبزادے الطاف حسین میرے کلاس فیلو تھے۔ الطاف سے پہلی جماعت ہی میں کُٹی ہو گئی۔ کُٹی کو پنڈی گھیب کی مقامی زبان میں گِٹی کہتے تھے۔ اب یاد نہیں کہ اس بچگانہ قطع کلامی کی کیا وجہ تھی۔ بہر حال یہ قطع کلامی جیسا کہ اس علاقے میں عام ہے‘ دس سال جاری رہی۔ دسویں جماعت میں ہم نے دوبارہ ایک دوسرے کے ساتھ بولنا شروع کیا۔ کلاس میں ہمارا مقابلہ رہتا۔ کبھی میں اوّل آتا تو کبھی الطاف! دسویں کا فائنل امتحان تھا تو ابا جی کے رفیق کار اور دوست ملک فتح خان کمرۂ امتحان میں سرکاری طور پر سپرنٹنڈنٹ تھے۔ مجھے انہوں نے سمجھایا کہ سب لڑکے کتابیں ساتھ رکھ کر پرچے حل کر رہے ہیں۔ وہ بھی جن سے تمہارا مقابلہ ہے۔ تم بھی فزکس اور کیمسٹری کی کتابیں یا نوٹس ساتھ رکھ لو۔ میں نہ مانا۔ نتیجہ آیا تو الطاف اوّل آیا اور میں تیسرے نمبر پر۔ میٹرک پنڈی گھیب سے پاس کرکے میں والدین کے ساتھ راولپنڈی اسلام آباد آ گیا۔ الطاف کا سفر زیادہ طویل تھا۔ اسے وہ سہولتیں میسر نہ تھیں جو قدرت نے مجھے مہیا کی تھیں۔ اس کے والد صاحب پہلے ہی انتقال کر چکے تھے۔ پہلے مرحلے میں وہ سکول میں پڑھاتا رہا۔ بعد میں لیکچرر ہو گیا۔ پھر پرنسپل ہو کر ریٹائر ہوا۔ اس کی صحت مستحکم نہیں تھی۔ اسلام آباد ہسپتال میں داخل رہا جہاں میں اس کی عیادت کے لیے بھی گیا۔ اس کے انتقال کی خبر ملی تو میں آسٹریلیا میں تھا۔
میاں محمد صاحب کے بعد ماسٹر صادق صاحب ہماری پہلی کلاس کے استاد رہے۔ ان کا تبادلہ ہوا تو کلاس کے باقی بچوں کی طرح میں بھی رویا۔ چوتھی جماعت میں ہمیں پرائمری سکول کے دوسرے حصے میں بھیج دیا گیا جسے تھانے والا سکول کہتے تھے کیونکہ وہ تھانے کی عمارت سے ملحق تھا۔ یہاں ماسٹر سلطان صاحب میرے استاد رہے۔ وہ خوش نویس بھی تھے۔ سکول کی دیواروں پر اور دیواروں پر لٹکائے جانے والے چارٹ‘ وہی لکھا کرتے۔ وہ لوگ کس قدر سادہ تھے‘ اس کا اندازہ ایک واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے۔ ماسٹر سلطان صاحب پہلی بار راولپنڈی آئے‘ شاید کسی مذہبی اجتماع میں شرکت کی خاطر! سڑکوں پر ٹریفک کی صورتحال دیکھ کر ان کی طبیعت خراب ہو گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ پنڈی گھیب کے گوشۂ عافیت میں واپس چلے گئے۔
افغانستان سے پاوندوں کی آمد پنڈی گھیب کا سالانہ فیچر تھا۔ یہ سردیوں میں آتے اور شہر کے درمیان سے گزرتے۔ نہ جانے ان کی منزل کہاں ہوتی۔ سینکڑوں اونٹ‘ گھوڑے‘ خچر اور گدھے قافلوں کا حصہ ہوتے۔ جس گلی میں ہم رہ رہے تھے‘ اسی سے ان کا گزر ہوتا۔ سب لوگ گھنٹوں دروازوں پر کھڑے ہو کر ان قافلوں کو گزرتے دیکھتے۔ سرخ‘ سفید بچے اونٹوں پر رسیوں سے بندھے ہوتے۔ خواتین نے بڑے گھیر والے سرخ گھگھرے پہنے ہوتے۔ مرد ہاتھوں میں لاٹھیاں لیے اونٹوں‘ گھوڑوں‘ خچروں‘ گدھوں اور بھیڑ بکریوں کو ہانکتے جاتے۔ ان قافلوں کو دیکھنا ہمارے لیے بہت بڑا تماشا اور تفریح تھی‘ وہ بھی اپنے گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر! ہم بچے یہ گیت عام گاتے۔ ''پٹھانیے! پٹھان کتھے گیا؟ اَدھی روٹی کھا کے پواندی سُتّا پیا!‘‘ یعنی اے پٹھان خاتون! پٹھان کہاں ہے؟ وہ جواب دیتی کہ آدھی روٹی کھا کر پائنتی کی طرف لیٹ گیا ہے۔ اس گیت کی تہہ میں شاید وہ مشقت بھری زندگی تھی جو افغانوں کا ہمیشہ خاصہ رہی۔ پنڈی گھیب میں خواتین نے بچوں کو سلانا ہوتا تو کہتیں سو جاؤ ورنہ پٹھان آجائے گا! آج پاوندوں کے ان قافلوں کے بارے میں سوچتا ہوں اور تاریخ کے صفحات پر چھایا ہوا پاکستان اور افغانستان کا باہمی محبت اور نفرت کا رشتہ
(Love-hate relationship)
دیکھتا ہوں تو مجید امجد کا یہ شعر یاد آجاتا ہے :
جو تم ہو برق نشیمن تو میں نشیمنِ برق
اُلجھ پڑے ہیں ہمارے نصیب کیا کہنا(جاری)