اللہ ہم اہلِ پاکستان پر رحم کرے! یورپ اور امریکہ کے ایک ایک شہر‘ ایک ایک قصبے کی معلومات ہیں مگر اپنے اڑوس پڑوس کا پتا نہیں! چند دہائیاں پہلے یہاں کوئی نہیں جانتا تھا کہ افغانستان میں تاجک‘ ازبک اور ہزارہ بھی ہیں۔ اکثریت پاکستانیوں کی یہی سمجھتی تھی کہ وہاں صرف پشتو بولنے والے ہیں۔ آج کتنے پاکستانیوں کو علم ہے کہ آر ایس ایس
(Rashtriya Swayamsevak Sangh)
کیا چیز ہے؟ کب بنی؟ اس کے اغراض و مقاصد کیا ہیں؟ اس نے کون کون سے ''کارنامے‘‘ سر انجام دیے ہیں اور اس کے حتمی عزائم کیا ہیں؟ آر ایس ایس کے دوسرے بڑے لیڈر گول والکر
(Golwalkar)
نے‘ جو درحقیقت تنظیم کا اصل معمار تھا‘ صاف الفاظ میں مقصد بیان کر دیا۔
''جو لوگ ہندوستان میں ہندو نہیں ہیں ان کے لیے دو ہی راستے ہیں۔ انہیں ہندو کلچر اور ہندو زبانیں اپنانا ہوں گی‘ ہندو مذہب کو اعلیٰ ترین عزت دینا ہو گی‘ ہندو نسل اور کلچر کی برتری تسلیم کرنا ہو گی۔ ایک لفظ میں بات کہنی ہو تو بات یہ ہے کہ وہ غیر ہندو نہیں رہیں گے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ اگر ہندوستان میں رہنا ہے تو ہندو قوم کا ماتحت بن کر رہنا ہو گا۔ کسی شے کا یا کسی حق کا دعویٰ نہیں کریں گے۔ ان کے کچھ بھی حقوق نہیں ہوں گے۔ یہاں تک کہ شہری حقوق بھی نہیں ملیں گے!‘‘
یہ منشور کوئی ڈھکا چھپا نہیں! آر ایس ایس کے کسی بھی تذکرے‘ کسی بھی تاریخ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ بی جے پی کی حکومت‘ آر ایس ایس کا سیاسی چہرہ ہے۔ جیسے ہی آر ایس ایس کو پہلے گجرات میں حکومت ملی‘ اس نے اپنے نظریات کو عملی شکل دینے کا کام شروع کر دیا۔ نریندر مودی اپنے سیاسی کیریئر کی ابتدا ہی سے آر ایس ایس کا رکن بن گیا تھا۔ آٹھ سال کی عمر ہی سے مودی آر ایس ایس کے تربیتی پروگراموں میں شریک ہونے لگا تھا۔ 1978ء میں اسے علاقائی منتظم بنا دیا گیا۔ 1985ء میں آر ایس ایس نے خود مودی کو بی جے پی کے حوالے کیا۔ ترقی کرتے کرتے اپنی کارکردگی کی وجہ سے وہ بی جے پی کا سیکرٹری جنرل بن گیا۔ گجرات میں اپنی چیف منسٹری کے دوران جو کچھ اس نے مسلمانوں کے ساتھ کیا‘ وہ آر ایس ایس کی سوچی سمجھی سکیم تھی۔ بی جے پی کو جب مرکز میں حکومت ملی تو اسے موقع مل گیا کہ وہ اپنے عزائم کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے۔ بی جے پی کے اور اس کی ماں 'آر ایس ایس‘ کے تین اہداف تھے۔ اول: بھارتی مسلمانوں کو اتنا زچ کرنا کہ وہ یا تو بھارت چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں یا ہسپانوی مُورسکو کی طرح ضم ہو جائیں۔ دوم: کشمیر کا قصہ ہمیشہ کے لیے تمام کرنا، اور سوم: پاکستان کو جتنا نقصان پہنچانا ممکن ہو‘ پہنچانا! پہلے ہدف کی بات کرتے ہیں۔ بھارت نے مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے ہمیشہ سپین اور اسرائیل کے ماڈل سامنے رکھے ہیں۔ (غالباً یہ ڈی پی دھر تھا جسے ہسپانیہ میں بھیجا گیا تھا کہ مسلمانوں کے خاتمے کے حوالے سے ریسرچ کرے) اسرائیل اور بھارت کا یک جان دو قالب ہونا کوئی راز نہیں۔ اسرائیل کی پیروی کا آغاز بھارت آسام میں کر چکا ہے۔ صدیوں سے وہاں رہنے والے مسلمانوں سے شہریت کے کاغذات مانگے جا رہے ہیں۔ کبھی انہیں بنگلہ دیشی کہہ کر ملک بدر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پلان بھارت کا یہ ہے کہ آسام میں مسلمانوں کو آخرکار
Ghettos
میں رہنے پر مجبور کر دیا جائے‘ بالکل اسی طرح جیسے مسلمانوں کے ساتھ اسرائیل میں ہو رہا ہے۔ اس کے بعد یہ ماڈل دوسری ریاستوں میں اپنایا جائے۔ بی جے پی کی حکومت کے پاس طویل المیعاد ایسے بہت سے منصوبے ہیں۔ ارادے اس کے یہ ہیں کہ مسلمانوں کے بعد دوسری اقلیتوں کو بھی ختم کیا جائے۔ بھارت کی مشرقی ریاست مَنی پور میں مسیحی آبادی کے خلاف اکثر و بیشتر فسادات بھڑکائے جاتے ہیں۔ مسیحی افراد کو کئی بار قتل کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کی زندگی جہنم بنانے کے لیے مودی نے دو عفریت چنے۔ ایک کا نام امیت شاہ ہے جو وزیر داخلہ ہے اور پولیس کا سپریم باس ہے۔کچھ برس پہلے دہلی میں جب مسلمانوں کے خلاف فسادات کرائے گئے تو اس میں پولیس فورس نے بنیادی کردار ادا کیا۔ دوسرا عفریت ادتیا ناتھ ہے جو یوپی کا وزیراعلیٰ ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے حوالے سے جو شہر اور قصبے اہم حیثیت رکھتے ہیں ان کی زیادہ تعداد یو پی میں ہے۔ لکھنؤ‘ علی گڑھ‘ غازی آباد‘ آگرہ‘ میرٹھ‘ الہ آباد‘ بریلی‘ مراد آباد‘ سہارنپور‘ دیوبند‘ مظفر نگر‘ بدایوں‘ رام پور‘ فرخ آباد‘ بلند شہر‘ فتح پور‘ اعظم گڑھ‘ بجنور‘ آگرہ‘ یہ تو چند نام ہیں۔ ادتیا ناتھ ان شہروں کے مسلمانوں پر ہلاکو خان کی طرح ٹوٹا ہے۔ مدرسوں میں مداخلت کی۔ جمعہ اور عیدین کی نمازیں کھلے میدانوں میں ادا کرنے پر پابندی لگائی۔ اس متعصب پنڈت نے آر ایس ایس کے ورکروں کو یہاں تک کہا کہ مسلمان خواتین کے ساتھ زیادتی کرو۔ مسلمانوں کی صدیوں پرانی ثقافت کے ساتھ جو کھلواڑ یہ کھیل رہا ہے وہ حد درجہ مکروہ ہے۔ جن شہروں کے نام مسلمانوں سے وابستہ ہیں‘ ان کے نام بدل رہا ہے۔ الہ آباد کا نام تبدیل کیا۔ پھر آگرہ کا۔ کئی اور شہروں اور قصبوں کے نام بھی اس کی فہرست میں ہیں۔ ادتیا ناتھ اگلا وزیراعظم بننے کے خواب بھی دیکھ رہا ہے۔ خدا نخواستہ ایسا ہوا تو یہ قیامت کی گھڑی ہو گی۔
دوسرا ہدف بی جے پی کا کشمیر تھا۔ کافی حد تک یہ ہدف حاصل کیا جا چکا۔ آئین میں کشمیر کو جو خصوصی حیثیت حاصل تھی‘ اسے ختم کر دیا گیا۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان کے علاوہ کسی مسلم ملک نے احتجاج نہیں کیا۔ ایک منظم طریقے سے مسلمانوں کی آبادی کم کی جا رہی ہے اور ہندوؤں کو بسایا جا رہا ہے۔ تیسرا اور بڑا ہدف پاکستان کو ہر ممکن نقصان پہنچانا ہے۔ بدقسمتی سے افغانستان نے اس سلسلے میں ہمیشہ کرائے کے ٹٹو کا کردار ادا کیا ہے۔ یہ جو پاکستانی حکومتوں اور پاکستانی عوام کو امید تھی کہ طالبان برسر اقتدار آئیں گے تو پاکستان سکھ کا سانس لے گا‘ یہ امید سراب ثابت ہوئی کہ طریقِ کوہ کن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی۔ بھارت پہلے بھی اور اب بھی افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ ٹی ٹی پی ہو یا بی ایل اے‘ پشت پر بھارت ہی کھڑا ہے اور طالبان کی حکومت آنکھیں موندے بیٹھی ہے۔
یہ جو بھارت نے پانی بند کر کے پانی میں آگ لگانے کی کوشش کی ہے یہ اسے اچانک جھرجھری نہیں آئی۔ یہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے پرانے منصوبوں کی کڑی ہے اور یہ آخری حملہ نہیں ہے۔ بھارت کی موجودہ حکومت اکھنڈ بھارت کی علمبردار ہے۔ آر ایس ایس کے بانی ڈاکٹر بلی رام ہیجے وار
(Baliram Hedgewar)
اور اس کے بعد گول والکر نے اکھنڈ بھارت کا جو بیج اپنے پیروکاروں کے اذہان میں بویا تھا‘ وہ اب بھی پھل دے رہا ہے۔ پانی بند کرنے کی شیطنت پہلا وار ہے نہ آخری! یہ حملے ہوتے رہیں گے اور پاکستان ان سے نمٹتا رہے گا۔ پاکستان کی مسلح افواج ہمہ وقت سر بکف کھڑی ہیں۔ یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ ہم نے افواج کی سول امور میں‘ سیاسی معاملات میں اور سول بیوروکریسی میں دخل اندازی کی کبھی حمایت کی نہ کریں گے مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ مسلح افواج کی اہمیت اور حیثیت سے انکار کیا جائے۔ مسلح افواج ملک کے لیے شہ رگ کا درجہ رکھتی ہیں۔ یہ جو بھارت کی خواہش ہے کہ پاکستان نیپال‘ بھوٹان اور سکم کی طرح ہو جائے‘ تو اس خواہش کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان کی مسلح افواج ہی ہیں۔ پاکستانی افواج نہ ہوتیں تو جو ممالک پاکستان کے مغرب میں ہیں‘ وہ بھی بھوٹان اور سکم بن چکے ہوتے!!