Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, April 29, 2025

بھارت کی پانی میں آگ لگانے کی کوشش


اللہ ہم اہلِ پاکستان پر رحم کرے! یورپ اور امریکہ کے ایک ایک شہر‘ ایک ایک قصبے کی معلومات ہیں مگر اپنے اڑوس پڑوس کا پتا نہیں! چند دہائیاں پہلے یہاں کوئی نہیں جانتا تھا کہ افغانستان میں تاجک‘ ازبک اور ہزارہ بھی ہیں۔ اکثریت پاکستانیوں کی یہی سمجھتی تھی کہ وہاں صرف پشتو بولنے والے ہیں۔ آج کتنے پاکستانیوں کو علم ہے کہ آر ایس ایس 

(Rashtriya Swayamsevak Sangh) 

کیا چیز ہے؟ کب بنی؟ اس کے اغراض و مقاصد کیا ہیں؟ اس نے کون کون سے ''کارنامے‘‘ سر انجام دیے ہیں اور اس کے حتمی عزائم کیا ہیں؟ آر ایس ایس کے دوسرے بڑے لیڈر گول والکر 

(Golwalkar) 

نے‘ جو درحقیقت تنظیم کا اصل معمار تھا‘ صاف الفاظ میں مقصد بیان کر دیا۔
''جو لوگ ہندوستان میں ہندو نہیں ہیں ان کے لیے دو ہی راستے ہیں۔ انہیں ہندو کلچر اور ہندو زبانیں اپنانا ہوں گی‘ ہندو مذہب کو اعلیٰ ترین عزت دینا ہو گی‘ ہندو نسل اور کلچر کی برتری تسلیم کرنا ہو گی۔ ایک لفظ میں بات کہنی ہو تو بات یہ ہے کہ وہ غیر ہندو نہیں رہیں گے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ اگر ہندوستان میں رہنا ہے تو ہندو قوم کا ماتحت بن کر رہنا ہو گا۔ کسی شے کا یا کسی حق کا دعویٰ نہیں کریں گے۔ ان کے کچھ بھی حقوق نہیں ہوں گے۔ یہاں تک کہ شہری حقوق بھی نہیں ملیں گے!‘‘
یہ منشور کوئی ڈھکا چھپا نہیں! آر ایس ایس کے کسی بھی تذکرے‘ کسی بھی تاریخ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ بی جے پی کی حکومت‘ آر ایس ایس کا سیاسی چہرہ ہے۔ جیسے ہی آر ایس ایس کو پہلے گجرات میں حکومت ملی‘ اس نے اپنے نظریات کو عملی شکل دینے کا کام شروع کر دیا۔ نریندر مودی اپنے سیاسی کیریئر کی ابتدا ہی سے آر ایس ایس کا رکن بن گیا تھا۔ آٹھ سال کی عمر ہی سے مودی آر ایس ایس کے تربیتی پروگراموں میں شریک ہونے لگا تھا۔ 1978ء میں اسے علاقائی منتظم بنا دیا گیا۔ 1985ء میں آر ایس ایس نے خود مودی کو بی جے پی کے حوالے کیا۔ ترقی کرتے کرتے اپنی کارکردگی کی وجہ سے وہ بی جے پی کا سیکرٹری جنرل بن گیا۔ گجرات میں اپنی چیف منسٹری کے دوران جو کچھ اس نے مسلمانوں کے ساتھ کیا‘ وہ آر ایس ایس کی سوچی سمجھی سکیم تھی۔ بی جے پی کو جب مرکز میں حکومت ملی تو اسے موقع مل گیا کہ وہ اپنے عزائم کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے۔ بی جے پی کے اور اس کی ماں 'آر ایس ایس‘ کے تین اہداف تھے۔ اول: بھارتی مسلمانوں کو اتنا زچ کرنا کہ وہ یا تو بھارت چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں یا ہسپانوی مُورسکو کی طرح ضم ہو جائیں۔ دوم: کشمیر کا قصہ ہمیشہ کے لیے تمام کرنا، اور سوم: پاکستان کو جتنا نقصان پہنچانا ممکن ہو‘ پہنچانا! پہلے ہدف کی بات کرتے ہیں۔ بھارت نے مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے ہمیشہ سپین اور اسرائیل کے ماڈل سامنے رکھے ہیں۔ (غالباً یہ ڈی پی دھر تھا جسے ہسپانیہ میں بھیجا گیا تھا کہ مسلمانوں کے خاتمے کے حوالے سے ریسرچ کرے) اسرائیل اور بھارت کا یک جان دو قالب ہونا کوئی راز نہیں۔ اسرائیل کی پیروی کا آغاز بھارت آسام میں کر چکا ہے۔ صدیوں سے وہاں رہنے والے مسلمانوں سے شہریت کے کاغذات مانگے جا رہے ہیں۔ کبھی انہیں بنگلہ دیشی کہہ کر ملک بدر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پلان بھارت کا یہ ہے کہ آسام میں مسلمانوں کو آخرکار 

Ghettos 

میں رہنے پر مجبور کر دیا جائے‘ بالکل اسی طرح جیسے مسلمانوں کے ساتھ اسرائیل میں ہو رہا ہے۔ اس کے بعد یہ ماڈل دوسری ریاستوں میں اپنایا جائے۔ بی جے پی کی حکومت کے پاس طویل المیعاد ایسے بہت سے منصوبے ہیں۔ ارادے اس کے یہ ہیں کہ مسلمانوں کے بعد دوسری اقلیتوں کو بھی ختم کیا جائے۔ بھارت کی مشرقی ریاست مَنی پور میں مسیحی آبادی کے خلاف اکثر و بیشتر فسادات بھڑکائے جاتے ہیں۔ مسیحی افراد کو کئی بار قتل کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کی زندگی جہنم بنانے کے لیے مودی نے دو عفریت چنے۔ ایک کا نام امیت شاہ ہے جو وزیر داخلہ ہے اور پولیس کا سپریم باس ہے۔کچھ برس پہلے دہلی میں جب مسلمانوں کے خلاف فسادات کرائے گئے تو اس میں پولیس فورس نے بنیادی کردار ادا کیا۔ دوسرا عفریت ادتیا ناتھ ہے جو یوپی کا وزیراعلیٰ ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے حوالے سے جو شہر اور قصبے اہم حیثیت رکھتے ہیں ان کی زیادہ تعداد یو پی میں ہے۔ لکھنؤ‘ علی گڑھ‘ غازی آباد‘ آگرہ‘ میرٹھ‘ الہ آباد‘ بریلی‘ مراد آباد‘ سہارنپور‘ دیوبند‘ مظفر نگر‘ بدایوں‘ رام پور‘ فرخ آباد‘ بلند شہر‘ فتح پور‘ اعظم گڑھ‘ بجنور‘ آگرہ‘ یہ تو چند نام ہیں۔ ادتیا ناتھ ان شہروں کے مسلمانوں پر ہلاکو خان کی طرح ٹوٹا ہے۔ مدرسوں میں مداخلت کی۔ جمعہ اور عیدین کی نمازیں کھلے میدانوں میں ادا کرنے پر پابندی لگائی۔ اس متعصب پنڈت نے آر ایس ایس کے ورکروں کو یہاں تک کہا کہ مسلمان خواتین کے ساتھ زیادتی کرو۔ مسلمانوں کی صدیوں پرانی ثقافت کے ساتھ جو کھلواڑ یہ کھیل رہا ہے وہ حد درجہ مکروہ ہے۔ جن شہروں کے نام مسلمانوں سے وابستہ ہیں‘ ان کے نام بدل رہا ہے۔ الہ آباد کا نام تبدیل کیا۔ پھر آگرہ کا۔ کئی اور شہروں اور قصبوں کے نام بھی اس کی فہرست میں ہیں۔ ادتیا ناتھ اگلا وزیراعظم بننے کے خواب بھی دیکھ رہا ہے۔ خدا نخواستہ ایسا ہوا تو یہ قیامت کی گھڑی ہو گی۔ 
دوسرا ہدف بی جے پی کا کشمیر تھا۔ کافی حد تک یہ ہدف حاصل کیا جا چکا۔ آئین میں کشمیر کو جو خصوصی حیثیت حاصل تھی‘ اسے ختم کر دیا گیا۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان کے علاوہ کسی مسلم ملک نے احتجاج نہیں کیا۔ ایک منظم طریقے سے مسلمانوں کی آبادی کم کی جا رہی ہے اور ہندوؤں کو بسایا جا رہا ہے۔ تیسرا اور بڑا ہدف پاکستان کو ہر ممکن نقصان پہنچانا ہے۔ بدقسمتی سے افغانستان نے اس سلسلے میں ہمیشہ کرائے کے ٹٹو کا کردار ادا کیا ہے۔ یہ جو پاکستانی حکومتوں اور پاکستانی عوام کو امید تھی کہ طالبان برسر اقتدار آئیں گے تو پاکستان سکھ کا سانس لے گا‘ یہ امید سراب ثابت ہوئی کہ طریقِ کوہ کن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی۔ بھارت پہلے بھی اور اب بھی افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ ٹی ٹی پی ہو یا بی ایل اے‘ پشت پر بھارت ہی کھڑا ہے اور طالبان کی حکومت آنکھیں موندے بیٹھی ہے۔
یہ جو بھارت نے پانی بند کر کے پانی میں آگ لگانے کی کوشش کی ہے یہ اسے اچانک جھرجھری نہیں آئی۔ یہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے پرانے منصوبوں کی کڑی ہے اور یہ آخری حملہ نہیں ہے۔ بھارت کی موجودہ حکومت اکھنڈ بھارت کی علمبردار ہے۔ آر ایس ایس کے بانی ڈاکٹر بلی رام ہیجے وار 

(Baliram Hedgewar)

 اور اس کے بعد گول والکر نے اکھنڈ بھارت کا جو بیج اپنے پیروکاروں کے اذہان میں بویا تھا‘ وہ اب بھی پھل دے رہا ہے۔ پانی بند کرنے کی شیطنت پہلا وار ہے نہ آخری! یہ حملے ہوتے رہیں گے اور پاکستان ان سے نمٹتا رہے گا۔ پاکستان کی مسلح افواج ہمہ وقت سر بکف کھڑی ہیں۔ یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ ہم نے افواج کی سول امور میں‘ سیاسی معاملات میں اور سول بیوروکریسی میں دخل اندازی کی کبھی حمایت کی نہ کریں گے مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ مسلح افواج کی اہمیت اور حیثیت سے انکار کیا جائے۔ مسلح افواج ملک کے لیے شہ رگ کا درجہ رکھتی ہیں۔ یہ جو بھارت کی خواہش ہے کہ پاکستان نیپال‘ بھوٹان اور سکم کی طرح ہو جائے‘ تو اس خواہش کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان کی مسلح افواج ہی ہیں۔ پاکستانی افواج نہ ہوتیں تو جو ممالک پاکستان کے مغرب میں ہیں‘ وہ بھی بھوٹان اور سکم بن چکے ہوتے!!

Thursday, April 24, 2025

روشنی کی ایک صدی


ارشد محمود پر ہمیشہ رشک آتا ہے۔ بصارت کے مسائل کے باو جود اس نے تن تنہا‘ اتنا تحقیقی کام کیا ہے جتنا بڑے بڑے ادارے بھی شاید نہ کر سکیں۔ وہ مٹی میں ہاتھ ڈالتا ہے تو لعل وجواہر نکال لاتا ہے۔ ریت کو چھوتا ہے تو سونا برآمد ہوتا ہے۔ وہ باکمال تخلیقات جن کے مصنفین تہہِ خاک جا چکے تھے اور تخلیقات پر زمانے کی گرد پڑی ہوئی تھی‘ ارشد محمود نے انہیں ڈھونڈا‘ گرد صاف کی‘ تفصیلات لکھیں اور منظرِ عام پر لے آیا۔ اب تک وہ ستر سے زیادہ تحقیقی جواہر پارے‘ ادب کے اساتذہ اور طالب علموں کے سامنے لا چکا ہے۔ ان دنوں وہ مسدس حالی کی تاریخ پر کام کر رہا ہے۔ مسدس کی ایک سو گیارہ اشاعتیں اور مختلف زبانوں میں اس کے تیس تراجم دریافت کر چکا ہے۔ وہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کا سربراہ ہے۔ کل وہ ڈین بھی ہو جائے گا۔ ہو سکتا ہے شیخ الجامعہ بھی بن جائے مگر شعبے کے سربراہ‘ ڈین اور جامعہ کے رئیس تو کئی آئے اور گئے‘ ارشد محمود ناشاد کے سر پر جو سرخاب کا پر ہے‘ وہ منصب کا نہیں‘ تحقیق اور تصنیف وتالیف کا ہے۔ مناصب اور مراتب عارضی ہیں۔ تخلیقی کام قیامت تک زندہ رہتے ہیں۔ عربی کے کسی شاعر نے کہا تھا:
یلوح الخط فی القرطاس دھراً
و کاتبہ رمیم فی التراب
لکھنے والا ہمیشہ نہیں رہتا مگر اس کی تحریر کو دوام حاصل ہوتا ہے۔ اسی مضمو ن کو فارسی شاعر نے یوں بیان کیا:
نوشتہ بماند سیہ بر سفید
نویسندہ را نیست فردا امید
پنجابی کے شاعر نے بھی کہہ دیا:
لکھے رہسن کاغذ اُتے حرف سیاہی والے 
لکھنے آلا عاجز بندہ ہوسی خاک حوالے
ارشد محمود ناشاد کے ساتھ ہی گورنمنٹ کالج اٹک پر بھی رشک آ رہا ہے۔ یہ کالج 1924ء میں وجود میں آیا۔ جلد ہی شمال مغربی ہند کا یہ مقبول ترین ادارہ بنوں سے لے کر جہلم تک اور سوات سے لے کر سرگودھا تک کے تشنگانِ علم کی پیاس بجھانے لگا۔ یہ وسطی پنجاب کے گورنمنٹ کالج لاہور کے مقابلے کا کالج تھا۔ کم از کم دس اساتذہ ایسے ہیں جو اِن دونوں عظیم درسگاہوں کے ساتھ وابستہ رہے۔ ان میں پروفیسر ایش کمار‘ پروفیسر صدیق کلیم‘ پروفیسر اشفاق علی خان اور پروفیسر محمد عثمان کے نام نمایاں ہیں۔ گزشتہ سال‘ 2024ء میں گورنمنٹ کالج اٹک کو قائم ہوئے ایک صدی ہوئی تو ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد نے اس کی سو سالہ تاریخ مرتب کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ اہلِ علم بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کام کتنا مشکل ہو گا۔ مشکل ترین کام یہ تھا کہ 1924ء سے لے کر قیامِ پاکستان تک‘ کالج کے سربراہوں کے حالات اور تصویریں کیسے دریافت کی جائیں؟ ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد نے نہ صرف پرنسپل حضرات کے حوالے سے مکمل معلومات حاصل کیں بلکہ اساتذہ اور نامور طلبہ کو بھی ڈھونڈ نکالا۔ گورنمنٹ کالج اٹک کی یہ سو سالہ روداد اصل میں ایک انسائیکلوپیڈیا ہے جو پورے خطے کی تعلیمی تاریخ ہے۔ اس میں ارشد نے پہلے سیاسی تاریخ لکھی ہے‘ پھر بتایا ہے کہ تقسیم سے پہلے مسلمان کس طرح دوسری قوموں سے پیچھے تھے۔ پھر عہد بہ عہد کالج کی داستان رقم کی۔ نامور اساتذہ کے ناموں کی فہرست ترتیب دی اور تعارفیے لکھے۔ دلچسپ ترین حصہ وہ ہے جس میں کالج سے وابستہ نامور شخصیات کی اپنی لکھی ہوئی یادداشتیں ہیں۔ یہ حصہ تقریباً سو صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں ضمیر جعفری‘ احمد ندیم قاسمی‘ دیویندر اسر‘ فتح محمد ملک‘ وقار بن الٰہی اور دیگر مشاہیر شامل ہیں۔ یہ یادداشتیں کیا ہیں‘ ادب پارے ہیں۔ ضمیر جعفری لکھتے ہیں ''ہمارے پرنسپل سردار پریم سنگھ بڑے نفیس طبع سکھ تھے۔ لمبی نورانی داڑھی کے نیچے کوٹ‘ واسکٹ اور پھر اس کے نیچے ٹائی لگاتے تھے۔ ہم لوگ بڑی مدت کے بعد دریافت کر سکے کہ وہ ٹائی بھی باندھتے ہیں۔ پروفیسر ایش کمار کالج کے سب سے بڑے انٹلیکچول تھے۔ وہ کالج کی علمی وذہنی زندگی پر چھائے ہوئے تھے‘‘۔ اردو کے نامور ادیب دیویندر اسر لکھتے ہیں ''میں کیمبل پور کو دل کی بستی کہتا ہوں۔ اس دل کی بستی میں ایک درسگاہ تھی جسے گورنمنٹ کالج کہتے ہیں۔ یہاں تعلیم تو ملتی ہی تھی لیکن اجزائے حیات بھی ملتے تھے۔ جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں‘ آسمان پر کوئی بادل نہیں۔ شاید وہ دور کسی ویرانے میں بھٹک رہا ہو گا۔ کاش اسے بھی اپنے وطن سے یادوں بھرا سندیسہ ملے جسے پڑھ کر وہ یکبارگی رو دے‘ اتنا روئے‘ اتنا برسے کہ اپنے وطن پہنچ جائے‘‘۔ پروفیسر فتح محمد ملک رقمطراز ہیں ''اس زمانے میں دور دور تک کوئی اور کالج نہیں تھا۔ نہ میانوالی میں کوئی کالج تھا نہ کوہاٹ میں‘ طالب علم دور دور سے کیمبل پور کالج میں پڑھنے آتے تھے؛ چنانچہ مختلف اور متنوع چال ڈھال اور طور اطوار کے طلبہ ہوسٹل میں جمع تھے۔ کیمبل پور کی خاک میں میرے آنسوئوں کی نمی دفن ہے۔ مجھے اس کی یاد عزیز ہے۔ یہی وہ دانش گاہ ہے جس نے مجھے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی خو اور زندگی کرنے کا حوصلہ بخشا ہے‘‘۔
ارشد نے کالج کے خدمت گزاروں کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ دفتریوں‘ مالیوں اور آفس رنرز کی بھی تصویریں دی ہیں۔ کالج کے محسنین کا ذکر ہے۔ لائبریری‘ ہوسٹل‘ کالج میگزین‘ سالانہ رپورٹیں‘ کانووکیشن خطبات‘ یہاں تک کہ اساتذہ اور طلبہ کی تصانیف کا بھی ذکر کیا ہے۔ خاصے کی چیز اس کتاب میں تصویریں ہیں۔ تصویروں کا یہ بڑا ذخیرہ ارشد نے کس طرح جمع کیا‘ کتنی محنت کی‘ کتنے در کھٹکھٹائے‘ کتنے گھاٹ اترا‘ وہی جانتا ہے۔ ان تصویروں میں میرے استاد پروفیسر مختار صدیقی کی تصویر بھی ہے۔ ان کا نام بھی اساتذہ کی فہرست میں شامل ہے۔ پروفیسر مختار صدیقی گورنمنٹ کالج سیٹلائٹ ٹائون راولپنڈی میں ہماری کلاس کو اکنامکس پڑھاتے تھے۔ وہ ایک بہترین استاد تھے۔ آج کے طلبہ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ اُس زمانے کے پروفیسر خوش لباس ہوتے تھے۔ صدیقی صاحب بھی بہترین کوٹ پتلون زیب تن فرماتے تھے۔ نکٹائی لگاتے تھے۔ بعد میں ان کا تبادلہ ان کے آبائی شہر اٹک ہو گیا۔ ملازمت کے دوران سرکاری کام سے جب بھی اٹک جانا ہوتا‘ ان کی خدمت میں ضرور حاضر ہوتا۔ ایک بار آرٹلری سنٹر اٹک میں ایک بڑی تقریب تھی۔ شہر کے معززین کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ میں مہمانِ خاص کی حیثیت سے سٹیج پر بیٹھا تھا۔ اچانک میری نظر پروفیسر مختار صدیقی صاحب پر پڑی جو حاضرین میں تشریف فرما تھے۔ ایک جنرل صاحب تھے یا بریگیڈیئر صاحب‘ جو میزبان یعنی منتظم تھے۔ میں نے انہیں کہا کہ میرے استاد نیچے بیٹھے ہیں‘ میں ان کے سامنے اونچی جگہ‘ یعنی سٹیج پر نہیں بیٹھ سکتا۔ چنانچہ پروفیسر صاحب کو سٹیج پر بیٹھنے کی زحمت دی گئی۔ تین چار دن کے بعد مجھے اسلام آباد ان کا فون آیا۔ فرمانے لگے ''اوئے یار! تم مجھے کس مصیبت میں ڈال گئے ہو۔ ہر روز تمہارے کئی ماتحت آ جاتے ہیں کہ میں تمہیں ان کی سفارش کروں‘‘۔ 1998ء میں میری والدہ محترمہ کا انتقال ہوا تو پروفیسر صاحب کمال شفقت سے گائوں تشریف لائے۔ ریٹائرمنٹ کے وقت وہ گورنمنٹ کالج فتح جنگ کے پرنسپل تھے۔ میں نے انتظامات کیے کہ انہیں واجبات کے لیے کسی دفتر نہ جانا پڑے اور چیک ان کے گھر پہنچے۔ بہت خوش ہوئے۔ دعائوں سے نوازا۔ ایک دن خبر ملی کہ وہ اسلام آباد کے ایک ہسپتال میں داخل ہیں۔ حاضر ہوا مگر وہ پہچان نہ سکے۔ع مرا ہر موئے تن استاد کے حق میں دعا گو ہے۔ میرے لیے میرے اساتذہ کی خاک پا بھی مقدس ہے!!
ارشد نے گورنمنٹ کالج اٹک کی اس تاریخ کا عنوان ''روشنی کی ایک صدی‘‘ رکھا ہے۔ اس سے بہتر عنوان ہو بھی نہیں سکتا تھا!

Tuesday, April 22, 2025

مسلم پاکستانی اور غیر مسلم پاکستانی


ایک بہت ہی محترم عالمِ دین نے‘ جو طویل عرصہ تک رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ بھی رہے‘ بین المذاہب ہم آہنگی کانفرنس سے خطاب کیا ہے اور ایک ایسی تجویز پیش کی ہے جوبلامبالغہ بہت قیمتی تجویز ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اقلیت کا لفظ دستور سے حذف کر دیا جائے!
ہم خود ایک عرصہ سے یہی رونا رو رہے ہیں کہ جب سب پاکستانی ہیں‘ سب کے پاس ایک جیسا پاسپورٹ ہے‘ سب ایک جیسے ٹیکس اور محصولات ادا کرتے ہیں تو پھر کچھ پاکستانیوں کے گلے میں اقلیت کا بورڈ کیوں لٹکا دیا گیا ہے؟ حضرتِ مکرّم کی یہ تجویز ہمیں ترقی یافتہ جمہوری ملکوں کے برابر لا کھڑا کرے گی۔ غور کیجیے کہ اس وقت کروڑوں مسلمان‘ ہندو‘ سکھ ان ملکوں میں آباد ہیں جو بنیادی طور پر مسیحی ممالک ہیں۔ اکثریت ان ملکوں میں مسیحیوں کی ہے مگر کسی غیر مسیحی کے لیے اقلیت کا لفظ استعمال نہیں کیا جاتا۔ امریکہ ہو یا یورپ‘ آسٹریلیا ہو یا نیوزی لینڈ یا جاپان‘ مذہب کی بنیاد پر کسی کو اقلیت نہیں قرار دیا جاتا۔ ہاں! بھارت میں اقلیت کا لفظ ضرور استعمال ہوتا ہے۔ صدیوں سے بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو بھارت میں اقلیت قرار دے کر ان سے برابری کا حق چھین لیا جاتا ہے۔ ایک مسلمان‘ ہندو کے برابر کس طرح ہو سکتا ہے جب اس کے نام کے ساتھ اقلیت کی دُم لگی ہوئی ہو۔ محترم عالم دین کی یہ تجویز کہ اقلیت کے لفظ کو آئین سے ہٹا دیا جائے‘ آنِ واحد میں ہمیں تہذیبی‘ جمہوری‘ ثقافتی اور انسانی لحاظ سے بھارت پر برتری بخشے گی! اور جمہوری ملکوں کے ساتھ کھڑا کر دے گی۔
محترم عالم دین نے یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ دستور میں مسلم پاکستانی اور غیر مسلم پاکستانی کی اصطلاحات ڈالی جائیں! ہم اس تجویز کو بھی سراہتے ہیں اور اس کا استقبال مسرت سے کرتے ہیں! امید ہے کہ ایک بار ہم نے اپنے دستور میں یہ عظیم الشان تبدیلی کر دی تو بھارت بھی اس کی تقلید کرے گا۔ ہم جس طرح مسیحی‘ ہندو اور سکھ پاکستانیوں کو غیر مسلم پاکستانی قرار دیں گے بھارت بھی مسلمانوں کو ''غیر ہندو‘‘ یا ''نان ہندو‘‘ انڈین کا خطاب دے گا۔ وہ مسلمان کے نام سے کم اور نان ہندو کے نام سے زیادہ پہچانے جائیں گے۔ امید ہے اس امتیازی نشان سے بھارتی مسلمانوں کی تکالیف اور آزمائشیں بہت حد تک کم ہو جائیں گی! اندازہ لگائیے‘ مسلمان کے بجائے جب کسی بھارتی مسلمان کو کہا جائے گا ''اوئے نان ہندو! تو ہندوئوں کے ساتھ کیوں کھڑا یا بیٹھا ہے؟‘‘ تو وہ کتنا خوش ہو گا اور پاکستان کو کتنی دعائیں دے گا!!
ہمیں یقین ہے کہ اس انقلابی اصطلاح کو امریکہ بھی اپنائے گا‘ کیونکہ امریکہ ہر اچھی شے پر اپنی ملکیت جتاتا ہے۔ اس زبردست آئیڈیا سے وہ کیسے ناواقف یا بے نیاز رہے گا؟ امریکہ میں جتنے مسلمان ہوں گے انہیں ''نان کرسچین‘‘ (غیر مسیحی) کہا جانے لگے گا! اب تک تو وہ صرف امریکی تھے۔ کسی موقع پر بھی ان سے مذہب کا نام نہیں پوچھا جاتا تھا۔ مگر اب پاکستان کی تقلید میں جب وہ نان کرسچین کہلائیں گے تو ان کا غیر مسیحی ہونا ہر جگہ نمایاں ہوگا۔ وہ دوسروں سے مختلف سمجھے جائیں گے۔ اکثریت میں شمار نہیں ہوں گے۔ اس سے بہت سی سماجی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ مثال کے طور امریکہ میں پاکستانی ڈاکٹروں کا بڑا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں شفا دی ہے۔ انہیں دوسرے امریکیوں کی طرح ہی امریکی سمجھا جاتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ کوئی تفصیل پوچھے تو بتایا جاتا ہے کہ یہ پاکستانی نژاد ڈاکٹر ہے۔ مگر جب پاکستان کی تقلید میں نان کرسچین کی ا صطلاح استعمال ہو گی تو مریض کو اور اس کے لواحقین کو بتایا جائے گا کہ یہ ''نان کرسچین‘‘ ڈاکٹر ہے۔ اس سے مریض لامحالہ یہ سوچے گا کہ وہ یعنی مریض تو کرسچین ہے جبکہ ڈاکٹر نان کرسچین! اس سے یہ سوچ بھی پیدا ہو سکتی ہے اور یقینا پیدا ہو گی کہ کیوں نہ کرسچین ڈاکٹر سے علاج کرایا جائے۔ کروڑوں مسلمان یورپ میں بھی بس رہے ہیں۔ یورپ کے تمام ملکوں میں (بوسنیا اور البانیہ وغیرہ کو چھوڑ کر) اکثریت مسیحیوں کی ہے۔ چنانچہ پورے یورپ میں مسلمانوں کو نان کرسچین کہا جائے گا۔ یہی حال آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ہو گا۔ ہاں ایک بات کا امکان ضرور ہے۔ جو مسلمان پاکستانی نہیں‘ وہ امریکی اور دوسری حکومتوں سے کہہ سکتے ہیں کہ صرف پاکستانی مسلمانوں کو نان کرسچین کہہ کر پکارا جائے کیونکہ اس اصطلاح کا سہرا پاکستان کے سر ہے۔ یہ تفریق ترکوں‘ ایرانیوں عربوں اور دوسرے مسلمانوں کے ساتھ نہ برتی جائے۔
آئین میں جب مسلم پاکستانی اور غیر مسلم پاکستانی کی اصطلاح داخل ہو گی تو مذہبی ہم آہنگی میں یقینا اضافہ ہوگا‘ اسی لیے محترم مولانا صاحب نے یہ بے مثال تجویز اُس کانفرنس میں پیش کی جو مذہبی ہم آہنگی ہی کے لیے منعقد کی گئی تھی۔ بہرطور مقطع میں ایک چھوٹی سی سخن گسترانہ بات پڑ سکتی ہے۔ غیر مسلموں کو غیر مسلم پاکستانی قرار دینے میں تو کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ ہندو واضح طور پر ہندو ہو گا‘ سکھ اور مسیحی بھی کسی شک کے بغیر سکھ اور مسیحی ہوں گے! دوسرے غیر مسلم گروہوں کو بھی غیر مسلم کہنے یا قرار دینے میں کوئی مسئلہ آڑے نہ آئے گا۔ مشکل اس وقت پیش آئے گی جب کسی مسلمان کو مسلم پاکستانی کہنے کا فیصلہ کرنا ہو گا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت میں مسلمانوں کے ہر فرقے نے کسی نہ کسی وقت‘ کسی نہ کسی موقع پر‘ دوسرے فرقے کو کافر کہا ہے۔ اس میں کوئی شک ہے نہ مبالغہ۔ ہر فرقے کے معتبر علما کی کتابیں موجود ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ فلاں فرقہ کافر ہے۔ پکے پکے حوالے موجود ہیں۔ تفصیلات میں جانے کا موقع ہے نہ ایسا کرنا مناسب ہے۔ نہ ہی فرقوں کا نام لینا کوئی خوش آئند بات ہو گی۔ تکفیر ہمارے مذہبی حلقوں کے حوالے سے ایک ناقابل تردید حقیقت رہی ہے اور بدستور ہے! مختلف شخصیات کو بھی معتبر علما کافر قرار دیتے رہے ہیں۔ سر سید احمد خان سے لے کر مولانا مودودی اور غلام احمد پرویز تک‘ بہت سی مشہور شخصیات پر کفر کے فتوے لگے ہیں! قائد اعظم اور علامہ اقبال پر بھی کفر کے فتوے لگے ہیں۔ اگر دونوں ہستیاں آج حیات ہوتیں تو دستور میں مجوزہ اصطلاح ڈالنے کے بعد ان کے ساتھ کیا سلوک ہوتا؟ ہم میں سے کچھ حرمین شریفین میں جا کر بھی نماز باجماعت نہیں پڑھتے۔ وجہ ظاہر ہے کہ جماعت کرانے والوں کو مسلمان نہیں سمجھا جاتا۔ ورنہ مسلمان کی نماز تو مسلمان کے پیچھے ہو جاتی ہے۔ تو ایسے میں اگر کوئی عدالت میں چلا گیا کہ فلاں شخص یا فلاں فرقہ کافر ہے اس لیے اسے مسلم پاکستانی کے بجائے غیر مسلم پاکستانی کہا جائے تو مسئلہ کس طرح حل ہو گا؟ اور عدالت کس فریق کے علما کی بات مانے گی؟
محترم عالم دین نے یہ بھی فرمایا ہے کہ پاکستان میں غیر مسلموں کو جتنے حقوق حاصل ہیں دنیا میں کہیں نہیں ہیں۔ ہم اس دعوے کی پُرزور تائید کرتے ہیں اور تصدیق کرتے ہیں کہ یہ ایک ایسی سچائی ہے جس کی تردید نہیں کی جا سکتی! سیالکوٹ میں جس طرح سری لنکن کو مارا اور جلایا گیا وہ اس کا حق ہی تو تھا! اگست 2023ء میں جڑانوالہ میں غیر مسلموں کے خلاف ہنگامہ ہوا جس میں بیس چرچ اور اسّی سے زیادہ مکان تباہ کر دیے گئے۔ جون 2024ء میں سرگودھا میں ایک ستر سالہ پاکستانی کی جوتے بنانے والی فیکٹری اور اس کا گھر جلا دیے گئے۔ 2009ء میں گوجرہ میں چھ غیر مسلم قتل اور درجنوں گھر نذرِ آتش کر دیے گئے۔ یہ سب وہ حقوق ہیں جو غیر مسلموں کو پاکستان میں حاصل ہیں اور ''جو دنیا میں کہیں نہیں‘‘۔

Thursday, April 17, 2025

یونیورسٹیوں کے اندر …اور باہر


یہ میرے لڑکپن کی بات ہے اور اُس قصبے کی جس میں مَیں بڑا ہوا۔ جب بھی اقبال ڈے آتا تو تقریب میں اہم ترین مقرر اسسٹنٹ کمشنر ہوتا (شاید تب اسے ایس ڈی ایم کہتے تھے)۔ اسے اقبال کا بہترین شارح اور بہترین اتھارٹی سمجھا جاتا! اس لیے نہیں کہ وہ اقبال شناس تھا بلکہ اس لیے کہ وہ علاقے کا حاکمِ اعلیٰ تھا۔ جس کا جہاں اختیار ہوتا ہے وہ اسے اختیارِ کُلی سمجھتا ہے اور ہر شے پر اتھارٹی بن جاتا ہے۔
یہ ''اقبال شناسی‘‘ یوں یاد آئی کہ ایک یونیورسٹی میں ناصر کاظمی پر سیمینار منعقد کیا گیا۔ پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی کے سوا اردو ادب کے حوالے سے کوئی نامور نقاد یا سکالر اس میں نہیں بلایا گیا۔ ہاں‘ ہمارے دوست ڈاکٹر ساجد علی موجود تھے۔ ان کی جولان گاہ فلسفہ ہے۔ انہیں شاید اس لیے زحمت دی گئی کہ وہ ناصر کاظمی کے فرزند باصر سلطان کاظمی صاحب کے دیرینہ دوست ہیں۔ لگتا ہے کہ ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب کو بھی غلطی سے بلا لیا گیا کیونکہ مقررین کی فہرست سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ سیمینار نہیں‘ یونیورسٹی کا کلاس روم ہے۔ چونکہ اسسٹنٹ کمشنر یا ڈپٹی کمشنر اقبال اور قائداعظم پر اتھارٹی ہوتے ہیں اس لیے یونیورسٹی میں بھی جو ڈین ہو گا یا شعبے کا ڈائریکٹر ہو گا وہ ناصر کاظمی پر بھی اتھارٹی ہو گا‘ بلکہ جس شاعر یا ادیب کے حوالے سے بھی تقریب ہو گی وہ اسی پر اتھارٹی ہو گا!! اختصاص‘ فرض کیجیے اقبال پر ہے تو ناصر کاظمی اور مجید امجد کا ماہر ہونے سے کون روک سکتا ہے۔ کس نمی پرسد کہ بھیا کیستی! بھلا یہ کس نے پوچھنا ہے کہ نقد و نظر میں آپ کا کیا مقام اور نام ہے! یونیورسٹی میں آپ تعینات ہیں‘ ویڑھا آپ کا اپنا ہے۔ بقول ظفر اقبال: خاک اُڑا اور بہت!
یونیورسٹیوں کا یہ شرمیلا اور تنہائی پسند 
(Introvert)
 رویہ کافی عرصے سے چلا آرہا ہے۔ بہت عرصہ پہلے ایک یونیورسٹی میں حالی پر سیمینار ہوا تو یہی انداز اپنایا گیا۔ شعبۂ تعلیم سے وابستگی ہو اور آپ پی ایچ ڈی ہوں تو بس آپ امرت دھارا ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ معین نظامی‘ انوار احمد‘ مرزا حامد بیگ‘ ارشد ناشاد اور کئی دوسرے نامور سکالر یونیورسٹیوں سے وابستہ رہے ہیں مگر مجموعی طور پر شعبۂ تعلیم میں ایسے افراد کم آئے جن کا اولین انتخاب معلمی تھا! اپنے شوق اور 
Passion 
سے آنے والے آٹے میں نمک کے برابر ہوتے ہیں۔ اکثریت ان ''اساتذہ‘‘ کی ہے جو کہیں اور نہ کھپ سکے۔ ظفر علی خان نے کہا تھا:
جسے آتا نہیں روٹی کمانا
وہ کر لیتا ہے مسجد کی امامت
عساکر‘ سول سروس‘ صحافت‘ بنکاری میں جگہ نہ ملے تو سکول‘ کالج اور یونیورسٹیاں تو ہیں! یونیورسٹیوں میں جو پارٹی بازیاں‘ دھڑے بندیاں‘ چھوٹے درجے کی سیاست اور سازشی ماحول ہے اس کی کہانیاں بھی زبان زدِ خاص و عام ہیں۔ منکر نکیر جسے چاہیں اس کا مقالہ منظور کر لیں اور جسے نہ چاہیں وہ جوتیاں چٹخاتا پھرے! اس ضمن میں بہت سے ناگفتہ بہ اور عبرتناک حقائق ہیں جن کا یہاں بیان کرنا مناسب نہیں! کوئی طالبہ منکر نکیر کی منظورِ نظر ہو جائے تو اس طالبہ کے دوست کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا جاتا ہے۔ شاگرد خواتین کے ساتھ معاملات شادیوں پر بھی منتج ہوتے ہیں اور ہوتے رہتے ہیں! اس حوالے سے کچھ معروف نام بھی ذہن میں آتے ہیں۔ پنجاب کی سب سے بڑی یونیورسٹی پر جس طرح طلبہ تنظیموں کا کنٹرول رہا ہے‘ اور ہے‘ اور جو کچھ ہوتا رہا ہے اس کا صرف ایک ہی مطلب ہے کہ یونیورسٹی کا ماحول سنجیدہ علمی کام کے لیے ہر گز مناسب نہیں ہے۔ وائس چانسلروں کے گھروں پر حملے ہوتے رہے ہیں۔ اساتذہ تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ طلبہ تنظیمیں خالص انتظامی اور تدریسی معاملات میں دخیل ہوتی ہیں! پھر جب سے پی ایچ ڈی کا معاملہ الاؤنس کے ساتھ جڑا ہے‘ پی ایچ ڈیز کے ڈھیر لگ گئے ہیں۔ ''شخصیت اور فن‘‘ کامیاب ترین نسخہ ہے۔ خال خال ہی ایسے مقالات ملیں گے جو واقعی تحقیق کا نتیجہ ہیں اور علم میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ ایک تحقیقی مقالہ اس موضوع پر بھی لکھے جانے کی ضرورت ہے کہ پی ایچ ڈی کے جینوئن طلبہ و طالبات کے ساتھ کیا گزرتی ہے اور نگران اُن کے ساتھ کیسی کیسی مہربانیاں کرتے ہیں۔ جس نے خود اپنا مقالہ ٹھیکے پر لکھوایا ہو گا یا ''کمپنی‘‘ نے جسے مدد کر کے پار اتارا ہو گا وہ کسی دوسرے کی رہنمائی کیا کرے گا!
چلئے مان لیا‘ جو حضرات پی ایچ ڈی ہیں اور پروفیسری کرتے ہیں وہی تحقیق اور تنقید کرنے والوں میں سر فہرست ہیں! وہی کریم ہیں! اصل سوال یہ ہے کہ جو لوگ پروفیسر نہیں اور خاص طور پر پی ایچ ڈی نہیں‘ کیا وہ تنقیدی‘ تحقیقی اور ادبی موضوعات پر کنٹری بیوٹ نہیں کر سکتے؟ شمس الرحمان فاروقی یہاں ہوتے تو یہ کہہ کر انہیں نظر انداز کر دیا جاتا کہ وہ یونیورسٹی میں نہیں پڑھاتے! مظفر علی سید‘ مشفق خواجہ‘ رفیق خاور اور شیخ اکرام میں سے کوئی بھی پیشے کے حوالے سے استاد نہ تھا! شان الحق حقی جیسے مایہ ناز ماہر لسانیات کہاں کے پروفیسر تھے؟ ڈاکٹر آفتاب احمد سول سروس سے تھے۔ کلاسک مثال اس سلسلے میں اکرام چغتائی صاحب کی ہے۔صرف ایک یا ڈیڑھ سال کا عرصہ یونیورسٹی میں رہے‘ ( وہ بھی ریسرچ کے کام میں ڈاکٹر محمد صادق کے ساتھ !) مگر تحقیق کے حوالے سے درجۂ کمال تک پہنچے!! محمد اسد اور محمد حسین آزاد پر وہ اتھارٹی تھے۔ شاہانِ اودھ کے کتب خانوں پر کام کیا۔ واجد علی شاہ کے خطوط ترتیب دیے اور حواشی لکھے۔ افغانستان‘ جرمنی اور گوئٹے کے حوالے سے اقبال پر کام کیا۔ البیرونی‘ حلاج‘ سرسید احمد خاں‘ شاہ ولی اللہ‘ حسن نظامی اور سید علی ہجویری پر وقیع کام کیا۔ پروفیسر این میری شمل کی تصانیف کی ببلیوگرافی مرتب کی۔ جمال الدین افغانی پر انگریزی میں کام کیا۔ محمد اسد پر انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں کام کیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی کے محسن 
Dr. Leitner
 کی حیات و خدمات پر کام کیا۔ یہ تو ہم صرف تحقیق اور تنقید کے حوالے سے بات کر رہے ہیں۔ شاعری اور فکشن کے ضمن میں بھی موازنہ کر کے دیکھ لیجیے۔ پروفیسروں میں سے کتنے ظفر اقبال‘ جوش ملیح آبادی‘ جون ایلیا‘ منیر نیازی‘ مجید امجد‘ ناصر کاظمی‘ احمد ندیم قاسمی‘ محبوب خزاں‘ ن م راشد‘ میرا جی‘ عبداللہ حسین‘ مستنصر حسین تارڑ‘ قرۃ العین حیدر‘ منٹو‘ کرشن چندر‘ راجندر سنگھ بیدی نکلے؟
یونیورسٹیاں کسی بھی قوم کا دل ہوتی ہیں۔ ایک یونیورسٹی صرف کلاس رومز اور ٹیکسٹ بُک اپروچ کا نام نہیں! یونیورسٹیوں پر لازم ہے کہ تحقیق‘ تنقید اور تخلیق جہاں جہاں بھی نظر آئے اسے یونیورسٹی سے جوڑنے کی کوشش کریں۔ نہیں معلوم ہماری یونیورسٹیاں ایسے کتنے ماہرینِ علوم و فنون کو طلبہ و طالبات سے ملوانے کے لیے بلاتی ہیں جو دوسرے پیشوں سے وابستہ ہیں۔ علم کسی ایک یا کسی خاص پیشے کی جاگیر نہیں۔ علم صرف کالجوں یونیورسٹیوں میں پڑھانے والوں کی زنبیلوں میں نہیں ہوتا‘ اس کے اور بھی ٹھکانے ہیں! ہر گوشہ گمان مبر کہ خالیست!! جب معروف ادبی اور علمی شخصیات کے حوالوں سے سیمینار منعقد کیے جائیں تو صرف اپنے ہی اساتذہ پر انحصار کا مطلب یہ ہو گا کہ طلبہ و طالبات کلاس روم سے باہر ہی نہ نکلیں! ایسے مواقع تو صلائے عام ہونے چاہئیں! جن افراد کی پوری پوری زندگیاں ادب پر کام کرتے گزری ہوں مگر وہ برائے روزگار یونیورسٹیوں سے وابستہ نہ رہے ہوں‘ ان سے بھی طلبہ وطالبات کو استفادہ کرنے کا موقع دینا چاہیے! اس سے یونیورسٹیوں والوں کی سلطنت میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی!ان کی ایمپائر پر کس نے ہاتھ ڈالنا ہے۔ اس لیے ازراہِ کرم اس خول سے باہر نکلئے۔ کھول آنکھ‘ زمیں دیکھ‘ فلک دیکھ‘ فضا دیکھ!!

Tuesday, April 15, 2025

دوست‘ مکھی‘ رخسار اور پتھر


پروفیسر صاحبہ ایک بڑی اور شاندار یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں۔ ایک علمی خاندان کی چشم و چراغ ہیں۔ کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں۔ منطق اور دانش سے تعلق ہے۔ چند دن پہلے ان کی ایک پوسٹ دیکھی۔ پوسٹ کا مضمون یہ تھا کہ غزہ کے نام پر احتجاج ہو رہا ہے۔ ٹریفک بلاک ہے اور زندگی منجمد! اس میں جھوٹ تھا نہ مبالغہ! اس کالم نگار نے اس پوسٹ کو شیئر کیا۔ اس پر کچھ احباب نے باقاعدہ عزا داری کی۔ دکھ کا اظہار کیا۔ ایک پوائنٹ یہ بھی نکالا گیا کہ ''آپ حضرات کو تکلیف ہو رہی ہے؟ یہی مقصد ہے کہ آپ کو اہلِ غزہ کی تکلیف کا احساس دلایا جائے‘‘۔
اصل سوال اور ہے۔ وہ یہ کہ کیا کسی بھی صورتحال میں راستے بند کیے جا سکتے ہیں؟ یہ کامن سینس کا بھی مسئلہ ہے۔ اور اگر مذہب کا حوالہ درکار ہو تو احادیث میں راستہ بند کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ راستے بند کرنے سے اور ٹریفک کو معطل کرنے سے اہلِ غزہ کو کیا فائدہ ہے؟ اگر میرا راستہ بند ہونے سے اسرائیل کو شکست ہوتی ہے اور غزہ کے بچوں کو آزادی مل سکتی ہے اور خوراک بھی تو بے شک میرا راستہ مہینوں نہیں‘ برسوں بند رکھیے۔ میرے لیے اس سے بڑی سعادت کیا ہو گی! لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ اہلِ غزہ کو اس سے رتی بھر فائدہ نہیں ہو گا۔ ہو سکتا بھی نہیں! آپ پاکستان کی تمام شاہراہیں بند کر دیجئے۔ پانچ کروڑ افراد گھروں سے باہر نکال لائیے۔ اسرائیل کو رتی بھر نقصان نہیں پہنچے گا اور اہلِ غزہ کو رمق بھر فائدہ نہیں ہو گا۔ ہاں آپ کی تصویریں میڈیا پر ضرور ظاہر ہوں گی۔ آپ کی جوشیلی تقریروں کے وڈیو کلپ بھی بنیں گے! آپ کو شہرت ملے گی اور اگر پہلے سے مشہور ہیں تو مزید مشہور ہو جائیں گے۔ ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ مذہبی تنظیمیں بھی تو راستے بلاک کرتی ہیں۔ اور حکمرانوں کے لیے روٹ بھی تو لگتے ہیں۔ تو بھائی!! کون ذی عقل ان کی تائید کر سکتا ہے؟ مذہبی تنظیموں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ راستے بلاک کریں۔ مکہ مکرمہ میں جب کفار مسلمان مردوں اور خواتین پر ظلم کے پہاڑ توڑتے تھے تو کیا مدینہ منورہ کے مسلمان مدینہ کی گلیوں میں جلوس نکالتے تھے؟ اور راستے بند کرتے تھے؟ رہا حکمرانوں کے لیے روٹ لگانا تو یہ ایک ظالمانہ فعل ہے۔ یہ دھاندلی ہے اور طاقت کا ناجائز استعمال! جبھی تو شاعر نے کہا ہے کہ
حاکم یہاں سے گزرے گا اظہارؔ کس گھڑی
بد بخت کے لیے ہے جنازہ رُکا ہوا
جب بھی راستہ روکا جاتا ہے‘ خواہ کسی مذہبی تنظیم کی طرف سے‘ خواہ کسی سیاسی پارٹی کی طرف سے‘ خواہ حکمران کی سواری گزارنے کے لیے یا کسی بھی اور مقصد کے لیے‘ یہ ایک انتہائی
Counter productive
عمل ہوتا ہے۔ اس سے اصل مقصد کو فائدہ تو کیا الٹا نقصان پہنچتا ہے۔ جو لوگ اذیت سے گزرتے ہیں وہ مخالف ہو جاتے ہیں۔ کسی نے ہوائی اڈے پہنچنا ہے‘ کسی نے ٹرین پکڑنی ہے‘ کسی نے سر جری کے لیے ہسپتال پہنچنا ہے‘ کوئی مریض موت و حیات کی کشمکش میں ہو سکتا ہے۔ سوچئے! ان پر کیا گزرتی ہو گی! مجھے یاد ہے جب یاسر عرفات لاہور آیا تھا تو راستے بند کر دیے گئے تھے۔ فورٹرس سٹیڈیم کے قریب ایک حاملہ عورت نے بچے کو گاڑی ہی میں جنم دے دیا تھا۔ جنرل مشرف کا جب بھی کراچی کا دورہ ہوتا تھا تو پورا کراچی بند ہو جاتا تھا۔ اس احمقانہ اقدام کی وجہ سے کئی اموات ہوئیں۔ والدین بچوں کے لیے پریشان رہتے تھے کہ کب گھر پہنچیں گے۔ دو تین سال پہلے کی بات ہے۔ ہم سیالکوٹ سے اسلام آباد آرہے تھے۔ سرائے عالمگیر پہنچے تو ایک مذہبی تنظیم کے جوشیلے کارکنوں نے دریا ئے جہلم کی کراسنگ بند کی ہوئی تھی۔ وہ کوئی بات سننے کے لیے تیار ہی نہ تھے۔ وہ اس قدر غیر سنجیدہ تھے جیسے پکنک منا رہے ہوں۔ سینکڑوں بسیں‘ ویگنیں‘ کاریں اور ٹرک رکے پڑے تھے۔ ہمارے ساتھ خواتین بھی تھیں۔ چارو ناچار ہمیں کھاریاں واپس آنا پڑا۔ وہاں سے ہم بھمبر گئے۔ بھمبر سے میرپور ہوتے ہوئے منگلا اور پھر دینہ پہنچے۔ جو مسافت آدھ گھنٹے میں کٹنی تھی‘ اس پر کئی پہر لگ گئے! افسوس! اپنے ہی ملک میں‘ اپنے ہی ہم وطن ظلم ڈھاتے ہیں۔ بچوں پر رحم کرتے ہیں نہ بوڑھوں پر! خواتین پر نہ مریضوں پر! ظالمانہ روش کی وجہ سے ایسی تنظیمیں قدرت کی مدد سے محروم تو ہوتی ہی ہیں‘ گناہِ کبیرہ کی مرتکب بھی ہوتی ہیں۔ ہزاروں لوگوں کو عملاً یر غمال بنا لینا‘ حاملہ خواتین اور جاں بلب مریضوں کا راستہ روکنا‘ بچوں کو بھوک اور پیاس کے کرب میں ڈالنا گناہ کبیرہ نہیں تو اور کیا ہے؟ غزہ کے بچوں کو پرکاہ بھی فائدہ نہیں‘ الٹا پاکستانی بچوں کو تکلیف دی جا رہی ہے!
اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ احتجاج کا یقینا مؤثر طریقہ ہے۔ بائیکاٹ ہم سب کو کرنا چاہیے اور ضرور کرنا چاہیے۔ تاہم جب کسی فاسٹ فوڈ کی برانچ آپ بند کرتے ہیں تو یہ بھی سوچئے کہ اس برانچ میں پندرہ بیس پاکستانی ملازمت کر رہے ہیں۔ یہ تعداد پندرہ بیس سے زیادہ ہی ہو گی۔ بیس ملازمین کا مطلب یہ ہے کہ بیس خاندان پَل رہے ہیں۔ جب برانچ بند ہو گی تو یہ بیس ملازم بے روزگار ہو جائیں گے یعنی بیس خاندان فاقہ کشی پر مجبور ہو جائیں گے۔ اس لیے کسی فاسٹ فوڈ کی برانچ بند کرنے سے پہلے اس کے ملازمین کے لیے متبادل روزگار کا بند و بست کیجئے۔ ورنہ آپ اس خاندان کی فاقہ کشی کے ذمہ دار ہوں گے۔
خبروں کے مطابق ملک کے کچھ حصوں میں فاسٹ فوڈ کی برانچیں نذرِ آتش بھی کی گئی ہیں اور کچھ میں توڑ پھوڑ کی گئی ہے۔ یہ ہمدردی اسی طرح کی ہے جیسے ایک آدمی سو رہا تھا تو اس کے دوست نے دیکھا کہ اس کے رخسار پر مکھی بیٹھی ہے۔ دوست کی محبت میں اس نے مکھی پر پتھر کھینچ مارا۔ مکھی اُڑ گئی اور رخسار زخمی ہو گیا۔ فاسٹ فوڈ کی کسی برانچ کو جلانے سے نقصان تو پاکستانی املاک کو پہنچا! آپ نے اپنے ملک ہی کو زک پہنچا دی۔ جذبات کے شعلوں میں عام آدمی کو بھسم کر دینا بہت آسان ہے۔ ایک 
Demagogue

 (رہبرِ غوغائی)
 کے لیے بہت آسان ہے کہ لوگوں کو بھڑکائے‘ جوش دلائے اور ایسے دعوے کرے جن کا پورا کرنا ممکن ہی نہ ہو۔ نعروں کے درمیان یہ کہنا آسان ہے کہ نیتن یاہو سُن لو! ایک ایک بچے کے خون کا حساب لیں گے! ضرور لیجئے حضور! یہ تو زبردست کارنامہ ہو گا! مگر یہ تو بتا دیجئے کہ ایک ایک بچے کے خون کا حساب کب لیں گے اور کیسے لیں گے! ابھی تو آپ نے ان مسلمانوں کا حساب بھی نہیں لیا جنہیں بوسنیا میں بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیا گیا۔ اور گجرات اور کشمیر تو بالکل ساتھ ہیں۔ پہلے مودی سے تو حساب لیجئے۔ ہم آپ کے جوش اور جذبے کی قدر کرتے ہیں لیکن دعویٰ وہ کیجئے جسے آپ پورا کر سکیں! شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کر کے نیتن یاہو سے حساب لے لیں گے یا اپنے ہی ملک کی معیشت کو کروڑوں اربوں کھربوں کا نقصان پہنچائیں گے؟ ملک اقتصادی طور پر مضبوط ہو گا تو بین الاقوامی سطح پر آپ کی آواز مؤثر ثابت ہو گی۔ پہیہ جام ہڑتال اور شٹر ڈاؤن سے آپ اپنے ملک کی سسکتی‘ نیم جاں معیشت کو اور بھی کمزور کریں گے۔ خدا را کچھ سوچئے اور تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونے کے بجائے وہ کام کیجئے جس سے اہلِ غزہ کو فائدہ ہو۔ اول تو آپ خود جہاد کے لیے غزہ جائیے اور ایک مثال قائم کیجئے کہ آپ صرف گفتار کے غازی نہیں! یہ نہیں کر سکتے تو اہلِ غزہ کے لیے ادویات اور روپے اکٹھے کیجئے اور خود تشریف لے جا کر ان کے حوالے کیجئے!

Tuesday, April 08, 2025

……ہے کوئی بھارتی مسلمانوں کا والی وارث؟؟


بادشاہ بیمار پڑا! بہت سخت بیمار! کوئی دوا کام نہیں آ رہی تھی۔ کوئی علاج کارگر نہیں ہو رہا تھا۔ پھر اطبّا نے ایک عجیب وغریب نسخہ تجویز کیا۔ ایک نوجوان کا پِتّہ درکار ہو گا مگر صرف اس نوجوان کا جس میں فلاں فلاں خصوصیات ہوں! بادشاہ نے اشارہ کیا اور مملکت میں ڈھنڈیا پڑ گئی۔ بالآخر تلاشِ بسیار کے بعد ایک نوجوان مل گیا۔ اس میں وہ تمام خصوصیات تھیں جن کا طبیبوں نے کہا تھا۔ بادشاہ کی زندگی بچانے کے لیے نوجوان کو موت کے گھاٹ اتار کر اس کا پِتّہ نکالنا تھا۔ اس کام میں دو رکاوٹیں تھی۔ ماں باپ اور عدالت! ماں باپ کے لیے شاہی خزانے کے منہ کھل گئے۔ انہوں نے اجازت دے دی۔ عدالت نے فیصلہ دے دیا کہ ملک کی سلامتی اور عوام کے وسیع تر مفاد کا سوال ہے۔ اس لیے بادشاہ کی زندگی پر رعایا میں سے ایک فرد قربان کیا جا سکتا ہے۔ جلاد جب سر قلم کرنے لگا تو نوجوان آسمان کی طرف دیکھ کر ہنسا۔ اتفاق ایسا تھا کہ بادشاہ نے یہ منظر دیکھ لیا۔ اس نے نوجوان سے پوچھا کہ یہ ہنسنے کا کون سا موقع ہے؟ نوجوان نے جواب دیا کہ اولاد کی حفاظت ماں باپ کرتے ہیں‘ میرے ماں باپ نے دولت لے کر مجھے فروخت کر دیا۔ انصاف عدالت نے دینا تھا۔ عدالت نے میرا قتل جائز قرار دیا ہے۔ آخری اپیل بادشاہ کو کرنی تھی۔ بادشاہ تو خود میری موت چاہتا ہے۔ اب اوپر اس لیے دیکھا ہے کہ خدا ہی آخری پناہ گاہ ہے۔
بھارتی مسلمانوں کا بھی یہی حال ہے۔ ان کے مفادات کی حفاظت ان کے ملک کی حکومت نے کرنی تھی۔ حکومت ہی تو ان کی دشمن بنی ہوئی ہے۔ انصاف کی توقع انہیں عدالت سے تھی۔ بھارتی عدالتیں مسلمانوں کی کون سی دوست ہیں! حفاظت کے لیے انہوں نے پولیس کے پاس جانا تھا۔ پولیس کا سربراہ امیت شاہ جیسا وزیر ہے‘ آر ایس ایس کا پکا پختہ پیروکار! آخری امید ایک کمیونٹی کی‘ ملک کا حکمرانِ اعلیٰ ہوتا ہے۔ حکمرانِ اعلیٰ مودی ہیں جن کے دامن پر گجرات کے مسلمانوں کا خونِ ناحق لگا ہے! ان کے اقتدار کا مقصد مسلمانوں پر زندگی تنگ کرنا ہے۔ اس کے بعد بھارتی مسلمانوں کا سب سے بڑا سہارا پاکستان تھا۔ لیکن ہائے قسمت!! پاکستان کی اپنی حالت قابلِ رحم ہے۔ جب مودی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا گلا گھونٹا تو پاکستان سوائے اس کے کہ کشمیر ہائی وے کا نام بدل کر سری نگر ہائی وے رکھ دے‘ کچھ نہ کر سکا۔ اس سانپ نے‘ جس کا نام ادتیا ناتھ ہے‘ اور یو پی کا وزیر اعلیٰ ہے‘ مسلمانوں کی زندگی جہنم بنا دی ہے۔ شہروں کے سینکڑوں سال پرانے نام بدل رہا ہے۔ یہ صرف بھارت کا نہیں‘ برصغیر کے تمام مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ یہ نام ہماری میراث کا بھی حصہ ہیں۔ حکومت پاکستان نے تو خیر کیا احتجاج کرنا تھا‘ ہمارا میڈیا بھی اس ظلم کو پی گیا۔ اور وہ جماعتیں جنہیں پوری دنیا کے مسلمانوں کا غم‘ اکثر وبیشتر‘ بے چین رکھتا ہے اور خبروں میں اِن رہنے کے لیے احتجاجی جلوس نکالتی رہتی ہیں‘ بھارتی مسلمانوں کے بارے میں خاموش ہیں۔ بھارتی مسلما نوں کی آخری امید‘ دنیا میں وہ ممالک ہیں جہاں ہمارے مقدس ترین مقامات ہیں‘ عربی جن کی زبان ہے اور اللہ کے آخری رسولﷺ جہاں پیدا ہوئے اور جہاں ان کا وصال ہوا۔ مگر افسوس! صد افسوس! ان ملکوں نے بھارتی مسلمانوں کے سر پر ہاتھ تو کیا رکھنا تھا‘ مودی اور مودی حکومت کی وہ خدمتیں کیں اور کیے جا رہے ہیں کہ انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ کہیں اسے سب سے بڑا اعزاز دیا گیا تو کہیں مندر بنا کر اسے خوش کیا گیا۔ کروڑوں اربوں کی سرمایہ کاری بھارت میں کی جا رہی ہے۔ آج شاہ فیصل زندہ ہوتے تو ان کا ایک جملہ ہی بھارتی حکومت کا دماغ ٹھیک کر دیتا! سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ امت مسلمہ کا تصور آخر ہے کیا؟ بھارت میں جو ناقابلِ بیان سلوک مسلمانوں کے ساتھ کیا جا رہا ہے‘ اس پر امتِ مسلمہ کیوں خاموش ہے؟ پچاس سے زیادہ مسلمان ملکوں میں سے کسی میں اتنا دم خم نہیں کہ بھارتی سفیر کو بلا کر احتجاجی مراسلہ ہی پکڑا دیں! اس دفعہ ہولی کا تہوار آیا تو مسجدیں ترپالوں سے ڈھانک دی گئیں! کیوں؟ سینکڑوں سال سے ہولی منائی جا رہی ہے! کبھی کسی مسلمان نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ مسجدیں صرف اس لیے ڈھانکی گئیں کہ مسلمان احساسِ کمتری میں مبتلا ہوں۔ انہیں معلوم ہو جائے کہ وہ اب دوسرے درجے کے شہری ہیں۔ مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ جمعہ کی نماز اور عیدین کی نمازیں‘ کسی سڑک پر یا کھلی جگہ پر نہ ادا کی جائیں۔ یہ پابندی ہندوؤں کے مذہبی جلوسوں پر کیوں نہیں لگائی جاتی؟ کیا سڑک پر نماز ادا کرنے سے کمبھ میلے سے بھی زیادہ شور اور بد امنی ہوتی ہے؟ آسام میں صدیوں سے رہنے والے مسلمانوں سے شہریت کے کاغذات مانگے جا رہے ہیں! سول سروس میں‘ مودی دور میں‘ شاید ہی کوئی مسلمان آ رہا ہو! گائے کے نام پر اب تک سینکڑوں مسلمان قتل کیے جا چکے ہیں۔ ہزاروں گھر اُجاڑے جا چکے ہیں۔ بی جے پی کی حکومت نے ہندوؤں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرتیں بھر دی ہیں۔ نہرو کا سیکولر بھارت عدم برداشت کی انتہاؤں کو چھُو رہا ہے۔ گاندھی جی کے قاتل کو ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
تازہ ترین زخم جو مسلمانوں کو پہنچایا گیا ہے‘ پوری امت مسلمہ کے لیے باعثِ شرم ہے۔ مسلمانوں کی مذہبی املاک کو ہڑپ کرنے کی ابتدا کر دی گئی ہے۔ ماضی میں نہ صرف حکمران بلکہ صاحبِ حیثیت اور آسودہ حال لوگ مسجدوں‘ امام بارگاہوں‘ خانقاہوں اور دیگر امور کے مصارف اور دیکھ بھال کے لیے اپنی جائیدادوں کا کچھ حصہ وقف کیا کرتے تھے۔ نوابوں کے عہد میں یہ سلسلہ اور بھی بڑھ گیا تھا۔ یہ مذہبی املاک بی جے پی کی حکومت کی آنکھوں میں کانٹا بن رہی ہیں۔ اس مقصد کے لیے قانون سازی کر دی گئی ہے۔ بی بی سی کے مطابق ایک نیا بل 1995ء کے وقف ایکٹ میں ترمیم کے لیے لایا گیا ہے۔ نئے بل کی شق کے مطابق صرف وہی شخص زمین عطیہ کر سکتا ہے جو مسلسل پانچ سال تک مسلمان رہا ہو اور عطیہ کی جانے والی جائیداد اس کی اپنی ملکیت ہو۔ نئے بل میں سروے کرانے کا حق وقف کمشنر کے بجائے کلیکٹر کو دیا گیا ہے۔ وقف املاک سے متعلق تنازع میں کلیکٹر کا فیصلہ مؤثر مانا جائے گا۔ اس بل کے مطابق وقف ٹریبونل کے فیصلے کو حتمی نہیں سمجھا جائے گا۔ ''وقف املاک‘‘ کی انتظامیہ میں ہندوؤں کو شامل کیا جائے گا حالانکہ ہندوؤں کے مذہبی معاملات میں کسی غیر ہندو کا کوئی کردار نہیں! یہ ظالمانہ بل ایک ہولناک سکیم کی ابتدا ہے۔ سکیم یہ ہے کہ مسلمانوں کو نیست ونابود کر دیا جائے۔ ملازمتوں کے دروازے ان پر پہلے ہی بند ہیں۔ معاشرتی طور پر انہیں پہلے ہی تنہا کیا جا رہا ہے۔ وقف کے اس ترمیمی بل سے ان کے مذہب اور کلچر پر ایک اور مہلک وار کیا گیا ہے!
کیا پاکستانی سفارت خانے اس ضمن میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں؟ نہیں! تمام ملکوں میں متعین پاکستانی سفیروں‘ خاص طور پر مسلمان ملکوں میں تعینات شدہ پاکستانی سفیروں پر لازم ہے کہ وہاں کی حکومتوں کو‘ میڈیا کو اور سول سوسائٹی کو بھارت کے ان مسلمان دشمن اقدامات سے آگاہ کریں۔ رائے عامہ کو بیدار کریں اور مسلمانوں کو اصل حقائق سے روشناس کریں! عرب ممالک کی حکومتیں بھارت کو آسانی سے احساس دلا سکتی ہیں کہ بھارتی مسلمان اتنے بھی لاوارث نہیں کہ ظلم وستم کا ایک لامتناہی سلسلہ ان پر روا رکھا جائے اور مسلمان ممالک خاموش رہیں! ان ملکوں کی حکومتیں اگر مصلحت پسندی کا شکار ہیں تو کم از کم وہاں کے عوام کو تو صورتحال سے آگاہ کیا جائے!!

Thursday, April 03, 2025

اے برطانیہ کے بادشاہ! اے امریکہ کے صدر

!

اگر کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور بلوچستان لبریشن آرمی کا مقصد پاکستانیوں کو قتل کرنا ہے تو یہ کام تو ان کے بغیر بھی ہو رہا ہے اور بہت اچھی طرح سے ہو رہا ہے۔ ان تنظیموں سے کوئی پوچھے کہ تم یہ کام کر کے کیوں بدنامی مول لے رہی ہو؟
گزشتہ ہفتے راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر ایک ڈمپر نے پانچ پاکستانیوں کو ہلاک کر ڈالا۔ ان میں ایک 40سالہ خاتون اور ایک 15سالہ لڑکی بھی شامل تھی۔ کئی لوگ زخمی ہوئے۔ ڈمپر کا ڈرائیور بھاگ گیا۔ امید واثق ہے کہ پکڑا نہیں جائے گا! کچھ عرصہ پہلے ملیر ہالٹ کراچی میں میاں بیوی کو ایک ٹینکر نے کچل ڈالا۔ خاتون حاملہ تھی۔ ڈمپر‘ ٹینکر اور ٹریکٹر ٹرالیاں ہر سال سینکڑوں لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد وہ ہے جو رپورٹ ہو جاتی ہے‘ وگرنہ یہ تعداد ہزاروں میں ہو گی۔ حافظ نعیم الرحمن پہلے سیاستدان ہیں جنہوں نے گزشتہ ہفتے ڈمپروں اور ٹینکروں کے ہاتھوں روزانہ کی بنیاد پر ہلاک ہونے والوں کی بات کی ہے۔ اگرچہ یہ بات انہوں نے صرف کراچی کے حوالے سے کی ہے۔ انہوں نے مسئلے کا حل بھی نہیں بتایا۔ صرف یہ مطالبہ کیا ہے کہ جاں بحق ہونے والوں کے پسماندگان کو معاوضہ دیا جائے۔ بہر طور حافظ صاحب کے علاوہ کسی نمایاں عوامی شخصیت نے اس موضوع پر‘ ہمارے علم کی رو سے‘ آج تک احتجاج نہیں کیا۔
کسی بھی حکومت کا‘ وفاقی ہو یا صوبائی‘ اولین فریضہ عوام کی جان کی حفاظت ہے! اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک طویل عرصے سے یہ خوفناک قاتل گاڑیاں شاہراہوں پر خون کے دریا بہا رہی ہیں تو حکومتوں نے اس قتلِ عام کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟ لیکن ٹھہریے! یہ سوال ہی غلط ہے۔ یہ سوال تب درست اور منطقی ہوتا جب ہماری حکومتوں کا اولین فریضہ واقعی عوام کی جانوں کی حفاظت ہوتا! ہماری حکومتوں کا اس فریضے سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں! ان کی ترجیحات میں عوام کی زندگیاں آتی ہی نہیں! ٹریفک کا قتلِ عام ہو یا ڈمپروں کی خونریزی‘ حکومتیں مکمل لا تعلق ہیں۔ صرف حکومتوں کی بے اعتنائی کی بات نہیں‘ منتخب عوامی نمائندوں کو بھی ان مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں! حکومتیں اپنے اقتدار کی حفاظت میں مصروف رہتی ہیں یا اقتدار کو مزید طول دینے میں! رہے عوامی نمائندے تو ان کی ترجیحات میں ترقیاتی فنڈز کا حصول ہوتا ہے یا کابینہ میں شمولیت اور اپنے قریبی اعزہ کے لیے ملازمتیں‘ ترقیاں‘ تعیناتیاں اور دیگر فوائد اور مراعات کا حصول!!
اگر کوئی حکومت دلچسپی لیتی تو اس مسئلے سے نمٹنا مشکل نہ تھا! دنیا بھر میں ایسے جرائم سخت سزاؤں سے روکے جاتے ہیں۔ حکومت کو عوام کی فلاح میں دلچسپی ہوتی تو اس ضمن میں قانون سازی کرتی۔ پہلی یہ کہ قاتل ڈرائیور کو سخت ترین سزا دی جائے گی۔ کم از کم چودہ پندرہ سال قید با مشقت کی سزا! دوسری یہ کہ ڈمپر یا ٹینکر یا ٹرالی بحقِ سرکار ضبط کر لی جائے گی۔ تیسری اور اہم ترین یہ کہ مقتول یا مقتولین کے خاندانوں کو گاڑی کا مالک معاوضہ ادا کرے گا جو معمولی یا برائے نام نہیں ہو گا بلکہ کروڑوں میں ہو گا۔ اس کے علاوہ زخمیوں کے علاج کے اخراجات بھی گاڑی کا مالک ہی ادا کرے گا۔ چوتھی یہ کہ اس قبیل کی گاڑیاں دن کی روشنی میں سڑک پر نہیں دکھائی دیں گی۔ یہ اپنا کام راتوں کو کریں گی جب ٹریفک بہت کم ہوتی ہے۔ اگر قانون سازی ان خطوط پر کر دی جائے تو آپ دیکھئے گا کہ ٹینکروں‘ ٹرالیوں اور ڈمپروں کے مالک راتوں رات بے حس حیوانوں کی جگہ انسان بن جائیں گے۔ گاڑیوں کی بتیاں ٹھیک کرائیں گے۔ اَن پڑھ اور اجڈ ڈرائیوروں کی جگہ ایسے ڈرائیور رکھنا شروع کر دیں گے جو اکھڑ ہوں نہ وحشی! جو انسانوں کو انسان سمجھیں اور ٹریفک قوانین کی پابندی کریں!
لیکن یہ محض خیالی پلاؤ ہے۔ کس کے پاس اتنا وقت ہے اور کس کو اتنی فکر ہے کہ لوگوں کی جان بچانے کے لیے قانون سازی کرتا پھرے! بظاہر یہی لگتا ہے کہ قتل و غارت کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ان وحشت ناک گاڑیوں کے مالکان کا بال بیکا نہیں ہو گا۔ یہ پیسے کماتے رہیں گے۔ ان کے رکھے ہوئے ڈرائیور‘ انسان نما جانور ڈرائیور‘ بچوں‘ خواتین اور مردوں کو ہلاک کرتے رہیں گے! تو پھر ہم کیا کریں؟ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ہم اپنے مائی باپ‘ اپنے سابق آقاؤں‘ انگریز سرکار کو مدد کے لیے پکاریں! ان سامراجیوں میں کم از کم یہ خصوصیت موجود تھی کہ جب عوام کو کوئی مصیبت پیش آتی تو یہ اس کا استیصال کرتے۔ ہم نے پولیس والوں کی خود نوشتوں میں پڑھا ہے کہ کسی گاؤں میں قتل ہوتا تو انگریز پولیس افسر گاؤں کے باہر تنبو لگا کر بیٹھ جاتا اور اس وقت تک وہاں سے نہ جاتا جب تک قاتل پکڑا نہ جاتا۔ ستی کی ظالمانہ رسم کے خلاف بھی انگریز سرکار ہی نے کارروائی کی۔ یہ عجیب بات ہے کہ انگریز سامراج کا بنیادی مقصد ملکہ کی حکومت کی بقا اور استحکام تھا۔اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے ظلم بھی بہت کیے۔ اس کے باوجود امن و امان کا قیام اور عوام کی حفاظت بھی ان کے زمانے میں پوری پوری ہوئی۔ اس کی ایک مثال ٹھگوں کا خاتمہ تھا۔ ٹھگ وسطی ہند میں عام پائے جاتے تھے۔ انگریزوں سے پہلے بھی مختلف بادشاہوں نے ان کے خاتمے کی کوششیں کیں لیکن مکمل استیصال ان کا ولیم بینٹک کے دور میں ولیم ہنری سلیمن نے کیا۔ ٹھگ دو دو‘ چار چار کی تعداد میں مسافروں کے قافلوں میں شامل ہو جاتے تھے۔ مسافروں کی خدمت کر کے ان کا اعتماد حاصل کر لیتے۔ ساتھ ساتھ یہ معلومات بھی حاصل کرتے رہتے کہ کس مسافر کا سامان قیمتی ہے یا کس کے پاس سونا یا روپے ہیں۔ پھر موقع پا کر اپنے شکار کو مار ڈالتے اور اس کا مال لے کر غائب ہو جاتے۔ ان کے مارنے کا طریقہ بھی خاص تھا۔ یہ ریشمی رومال کے ساتھ گلے میں پھندا ڈالتے اور بندے کو مار دیتے۔ ولیم ہنری سلیمن نے خفیہ اطلاعات (انٹیلی جنس) کی بنیاد پر کام کیا۔ ٹھگوں کے جتھوں کو جاسوسوں کے ذریعے پکڑا۔ 1830ء کے لگ بھگ یہ مہم شروع ہوئی اور 1870ء تک ٹھگی کا خاتمہ ہو گیا۔ ہم پاکستانیوں کو چاہیے کہ بر طانیہ کے بادشاہ کے پاس ایک وفد بھیجیں۔ وفد بادشاہ کو باور کرائے کہ جو پاکستان وہ ہندوستان سے نکال کر ہمیں دے گئے تھے اس کے حالات ابتر ہیں۔ بادشاہ کو بتایا جائے کہ اس کی سابق رعایا کے لیے ٹھگی کی جدید شکل ایک عذاب بنی ہوئی ہے۔ یہ جدید شکل ڈمپروں‘ ٹینکروں اور ٹریکٹر ٹرالیوں کی صورت میں نازل ہوئی ہے۔ بادشاہ سلامت کی سابق رعایا کو مسلسل قتل کیا جا رہا ہے۔ حکومتوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی! بادشاہ سلامت رحم کریں اور ولیم ہنری سلیمن کے پڑپوتے یا پڑپوتے کی اولاد کو حکم دیں کہ آکر مہم چلائے اور آپ کی سابق رعایا کو ان ظالموں کے خونیں پنجے سے نجات دے۔ ٹینکروں‘ ڈمپروں اور ٹرالیوں کے جو ڈرائیور قتل کے مرتکب ہوں انہیں سر عام پھانسی دے اور گاڑیوں کے مالکوں پر اتنے بھاری جرمانے لگائے کہ ان کی کمر ٹوٹ جائے۔
دوسرا آپشن یہ ہے کہ ایک وفد صدر ٹرمپ کی خدمت میں حاضر ہو کر دہائی دے۔ اور کہے کہ اے امریکہ کے صدر! آپ حقیقت میں کرہ ٔارض کے بلا شرکت غیرے شہنشاہ ہیں۔ دنیا پر آپ ہی کا سکہ چلتا ہے۔ ہماری حکومت کو تو پروا نہیں۔ آپ کا اشارۂ ابرو ہی کافی ہو گا۔ آپ کے حکم پر ہماری حکومت ان قاتلوں کا خاتمہ کرے گی۔ ازراہِ کرم! ہمیں اپنی رعایا ہی سمجھئے اور ہماری مدد کو پہنچئے۔ بلکہ بہتر ہو گا کہ کینیڈا اور گرین لینڈ کے ساتھ ہی ہم پر بھی نظر کرم کریں!!

 

powered by worldwanders.com