اشاعتیں

مارچ, 2025 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

کیا لاہور کی شناخت صرف کھانوں سے ہے؟؟؟

یہ معروف ومشہور صحافی نیوزی لینڈ کا شہری ہے۔ آباؤ اجداد کا تعلق برصغیر سے تھا۔ اس نے پاکستان کے بہت سے دانشوروں‘ صحافیوں اور سکالروں کے انٹرویو کیے ہیں جو پاکستان اور بھارت‘ دونوں ملکوں میں بے شمار لوگوں نے دیکھے اور سنے۔ چند روز پہلے لاہور میں فیض میلہ منعقد ہوا‘ اس میں ایک سیشن لاہور کے بارے میں بھی تھا۔ یہ صحافی لاہور کی محبت میں نیوزی لینڈ سے‘ جو دنیا کا آخری کنارہ ہے‘ چلا اور لاہور آ پہنچا! سیشن اٹینڈ کیا۔ سٹیج پر بڑے بڑے لوگ براجمان تھے۔ وہ سفید مُو خاتون دانشور بھی جو ادبی میلوں (لٹریری فیسٹیولز) پر چھائے ہوئے مافیا کی مستقل ممبر ہیں! وہ حضرات بھی جو پرانے لاہور کو نیا کرنے پر مامور ہیں۔ یہ اور بات کہ معاملہ دہلی گیٹ سے آگے نہیں بڑھ رہا۔ افسوس کہ لاہور کے بارے میں جو بات چیت بھی ہوئی‘ لاہور کے کھانوں کے بارے میں ہی ہوئی۔ جب نظر آ گیا کہ کھانوں سے باہر نکلنے کے کوئی آثار نہیں‘ تو نیوزی لینڈ سے آیا ہوا لاہور کا شیدائی اٹھا اور سٹیج پر متمکن ماہرین سے کہنے لگا کہ کیا لاہور کھانوں کے علاوہ کوئی صفت‘ کوئی امتیاز‘ کوئی خوبی‘ کوئی تاریخ‘ کوئی روایت‘ کوئی داستان نہیں رکھتا؟ صرف ...

تین انقلابی اقدامات

پاکستان کے حالات اطمینان بخش نہیں! بلوچستان ایک خطرناک اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ بھارت ہماری غلط پالیسیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر اعلانیہ مداخلت کر رہا ہے۔ اربوں روپے جھونک رہا ہے۔ افغانستان سے مسلسل در اندازی ہو رہی ہے۔ ہمارے لوگ مارے جا رہے ہیں۔ دن رات لاشوں کا کاروبار ہو رہا ہے۔ عوام خوف زدہ ہیں۔ بیرونی دنیا نے ہم پر کیمرے لگا رکھے ہیں۔ غیر ملکی مبصر لمحہ لمحہ دیکھ رہے ہیں۔ جانچ رہے ہیں۔ اسلام آباد میں تعینات سفیر روزانہ کی بنیاد پر رپورٹیں اپنے اپنے ملک کو ارسال کر رہے ہیں۔ خدا نخواستہ آپ یہ تو نہیں سوچ رہے کہ ہماری حکومت‘ ہمارے ادارے اور ہمارے منتخب ایوان اس نازک صورتحال سے بے خبر ہیں! خدا نہ کرے ایسا ہو! یہ ناممکن ہے کہ حکومت‘ ادارے اور منتخب نمائندے اس صورتحال میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں۔ تین ایسے اقدام‘ چند روز پہلے اٹھائے گئے ہیں جو بگڑے ہوئے حالات کو یوں ٹھیک کریں گے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے‘ جیسے اجوائن پیٹ کے درد کو ختم کر دیتی ہے اور جیسے تلوار گلے کو کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔ پہلا قدم یہ اٹھایا گیا ہے کہ وفاقی وزیروں کی تنخواہیں ایک سو اٹھاسی فیصد بڑھا دی ...

ارشاد بھٹی صاحب اور حضرت مولانا طارق جمیل

ہمارے محترم دوست جناب ارشاد بھٹی نے حضرت مولانا طارق جمیل کا تفصیلی انٹر ویو کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کام کر کے انہوں نے نیکی کی ہے۔ مولانا صاحب کی خدمات گراں قدر ہیں۔ لاکھوں‘ کروڑوں مسلمان ان کے بیانات سنتے ہیں۔ فرقہ واریت کے اس دور میں حضرت مولانا مسلسل اتحادِ امت کی تلقین کر رہے ہیں۔ ان کا ہر جگہ یہی پیغام ہوتا ہے کہ ایک دوسرے سے نفرت نہ کرو‘ آپس میں محبت سے پیش آؤ۔ کسی کو کافر یا جہنمی نہ کہو۔ ان کی یہ بات دلچسپ بھی ہے اور قیمتی بھی کہ جنت بہت بڑی ہے۔ دوسروں کو بھی جنت میں آنے دو۔ کسی کی جگہ کم نہ ہو گی۔ سچ یہ ہے کہ اس زمانے میں جب کچھ یوٹیوبر فخر سے کہہ رہے ہیں کہ وہ تو بات ہی اختلافی مسائل پر کرتے ہیں‘ مولانا طارق جمیل کا اختلافی مسائل سے گریز کرنا اور محبت پر زور دینا بہت بڑا کنٹری بیوشن ہے۔ ان کی ایک اور بڑی خدمت ان کی تالیف کردہ کتاب ''گلدستۂ اہلِ بیت‘‘ ہے۔ اس میں آقائے دو جہانﷺ کی ازواجِ مطہرات اور ان کی اولاد کے حالاتِ زندگی ہیں۔ اسے پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ بنو امیہ اور بنو عباس کے حکمرانوں نے اہلِ بیت کے ساتھ کیا کیا ظلم کیے۔ بدقسمتی سے ہم سُنیوں میں سے بہت سے لو...

بطور قوم ہم حریص کیوں ہیں؟

اگر آپ بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کو باڑے میں بند کر دیں اور کئی دن بھوکا رکھیں۔ پھر باڑے سے کچھ دور‘ ان کے لیے گھاس‘ چارہ وغیرہ رکھ دیں۔ پھر باڑے کا گیٹ کھول دیں تو مجھے یقین ہے کہ بھوکی بھیڑ بکریاں دوڑ کر کھانے پر حملہ نہیں کریں گی۔ وہ آرام سے چل کر جائیں گی۔ کیا عجب ان کے چل کر جانے میں متانت بھی ہو! کل پرسوں وفاقی دار الحکومت (غالباً فیصل مسجد) میں عوامی افطار کا بندوبست تھا۔ اس کی وڈیو دیکھ کر تعجب تو نہیں ہوا‘ دُکھ ضرور ہوا۔ ہجوم دوڑ رہا تھا۔ ہجوم بھاگ رہا تھا۔ ہجوم ایک دوسرے کو دھکے دے رہا تھا۔ ہجوم شور مچا رہا تھا۔ قیامت کا منظر تھا۔ یوں لگتا تھا ان لوگوں نے مہینوں کچھ نہیں کھایا۔ یہ بھکاری نہیں تھے۔ یہ مزدور نہیں تھے نہ مدرسوں کے طالب علم تھے نہ کسی یتیم خانے کے بچے تھے۔ یہ قلاش بھی نہیں تھے۔ ان میں سے اکثر نے شلوار قمیضوں پر کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ یہ معاشرے کے عام لوگ تھے۔ زیادہ سے زیادہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ زیریں کلاس سے تعلق رکھنے والے ہوں گے۔ تو کیا مڈل کلاس اور اَپر کلاس کے لوگ ایسا نہیں کرتے! کیا آپ نے مڈل کلاس اور اَپر کلاس کی پاکستانی شادیوں کے کھانے نہیں دیکھے؟ بہترین پو...

پہنچے ہوؤں تک پہنچنا

جو ظاہر ہے وہ دھوکا ہے۔ جو چھپا ہوا ہے وہ اصل ہے۔ اسی لیے اس مضمون کی دعا منقول ہے کہ اے خدا ہمیں چیزیں اس طرح دکھا جیسی ان کی حقیقت ہے‘ اس طرح نہیں جیسے دکھائی دیتی ہیں! جو نیک دکھائی دیتے ہیں‘ ضروری نہیں وہ نیک ہوں! اکثر حالات میں وہ نیکی سے بہت دور ہوتے ہیں۔ جو برے دکھائی دیتے ہیں‘ لازم نہیں کہ برے ہوں۔ جو پہنچے ہوئے ہوتے ہیں وہ اشتہار دیتے ہیں نہ اپنی تشہیر دیتے ہیں۔ انہیں ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ وہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کا ظاہر ایسا نہ ہو جیسے دعویٰ کرنے والوں کا ہوتا ہے۔ وہ ہاتھ میں تسبیح نہیں رکھتے۔ وہ لباس ایسا نہیں پہنتے جو سکہ رائج الوقت کے لحاظ سے خلقِ خدا کو اپنی طرف کھینچے‘ وہ ''ہجوم بازی‘‘ نہیں کرتے۔ وہ نہیں چاہتے کہ میڈیا میں ان کا ذکر کیا جائے‘ وہ پسند نہیں کرتے کہ ان کے کشف و کرامات کا پرچار ہو اور لوگوں کا رُخ ان کی طرف ہو جائے۔ وہ خلق سے کنارہ کرتے ہیں اس لیے کہ انہیں چہروں کے نیچے اصل چہرے نظر آ جاتے ہیں۔ وہ دیکھ لیتے ہیں کہ اس بظاہر معزز انسان کا چہرا اصل میں فلاں جانور کا چہرا ہے۔ اور یہ جو عقیدت مندوں کا بازار لگاتا ہے‘ کس جانور کے مشابہ ہے۔ نیک انسان کو‘ پہنچے ہ...

یہاں اب مرے ہم نوا اور بھی ہیں

بہت ہی محترم جناب سہیل وڑائچ کے اس مؤقف سے مجھے اختلاف ہے کہ نئے صوبے نہیں بننے چاہئیں۔ مگر یہ آج کا موضوع نہیں! آج تو اس اطمینان کا اظہار کرنا ہے کہ جس ایشو کو میں ایک مدت سے اُٹھا رہا تھا‘ سہیل وڑائچ صاحب کی توانا آواز نے اس کی حمایت کی ہے۔ وہ ایشو ہے ضلعی حکومتوں کا قیام! مجھ بے بضاعت نے اس پر بارہا لکھا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا‘ دونوں پر اس ایشو کو مکمل طور پر بلیک آؤٹ کیا جا رہا ہے۔ نہیں معلوم اس بلیک آؤٹ کی پشت پر منظم منصوبہ بندی ہے یا صرف تغافل اور سرد مہری ہے۔ جو بھی ہے‘ نقصان دہ ہے! سب سے پہلے تو دارالحکومت اسلام آباد کی بات کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ کے لیے ایک میئر آیا تھا۔ اس کے بعد پھر وہی کلائیو اور وارن ہیسٹنگز کا نظام! اندازہ لگائیے! دارالحکومت کے باشندوں کو اپنے شہر کے انتظام وانصرام میں رمق بھر دخل دینے کی اجازت نہیں۔ کبھی ہم آہنی پردے کے پیچھے کی اصطلاح استعمال کرتے تھے جس سے مراد سوویت یونین کا جابرانہ نظام تھا۔ مگر پاکستانی بیورو کریسی کا آہنی پردہ کئی گنا زیادہ دبیز اور مضبوط ہے۔ سات پردوں میں چھپی بیورو کریسی صرف ان آقاؤں کو خو...

رویتِ ہلال کمیٹی کی حمایت میں

اس لحاظ سے ہم خوش بخت ہیں کہ ملک میں ایک رویتِ ہلال کمیٹی قائم ہے۔ چاند کب نظر آتا ہے‘ کب نہیں‘ یہ محکمہ موسمیات کا کام نہیں‘ نہ سائنسدانوں ہی کے بس کی بات ہے۔ یہ صرف اور صرف رویتِ ہلال کمیٹی کا کام ہے اور اسی کے دائرۂ اختیار میں آتا ہے۔ حال ہی میں رویتِ ہلال کمیٹی کے معزز‘ قابلِ احترام سربراہ نے صوبوں کے گورنروں اور چند وفاقی وزرا سے ملاقاتیں کیں۔ کچھ نالائق لوگ اعتراض کریں گے کہ رویتِ ہلال کمیٹی کا گورنروں سے کیا تعلق؟ مگر انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اربابِ اقتدار سے میل ملاقاتوں کا اثر چاند دیکھنے پر بہت زیادہ پڑتا ہے۔ کچھ احمق سائنسدانوں نے اگلے ایک سو سال کا کیلنڈر بنا کر چاند نکلنے کے دن اور تاریخیں بتا دی ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم بحمدللہ مسلمان ہیں۔ ہم سائنس‘ ٹیکنالوجی اور موسمیات کے علوم پر یقین نہیں رکھتے۔ اگر سائنس پر یقین کریں گے تو رویتِ ہلال کمیٹی کا کیا ہو گا؟ تاہم رمضان میں یہ جو افطار اور سحری کے اوقات گھڑی دیکھ کر طے کیے جاتے ہیں‘ یہ ہرگز مناسب نہیں! قرنِ اول میں گھڑیاں کہاں تھیں؟ ان گھڑیوں کی حیثیت بالکل اُس کیلنڈر جیسی ہے جو کچھ برخود غلط سائنسدانوں نے تیار...

زینب …( 2)

تلخ نوائی ………… روزنامہ دنیا کا اجرا تین ستمبر 2012ء کو ہوا تھا۔ پہلے روز ہی میرا کالم ''بسم اللہ‘‘ کے عنوان سے چھپا۔ اس کے ٹھیک دس دن بعد یعنی تیرہ ستمبر 2012ء کو اس مضمون (زینب) کی پہلی قسط شائع ہوئی تھی۔ کل کی طرح یاد ہے وہ تحریر میں نے سکردو میں سیبوں کے ایک باغ میں بیٹھ کر لکھی تھی۔ اسی باغ میں لاہور سے فون آیا تھا۔ اس کی اماں نے بتایا کہ رو رہی ہے کہ نانا ابو سے بات کرنی ہے۔ بات کی تو کہنے لگی: ابھی لاہور آ جائیے میرے پاس بس ابھی! تب زینب سات برس کی تھی۔ آج تیرہ برس بعد اس تحریر کی دوسری قسط لکھنے بیٹھا ہوں۔ پیدائش اس کی بحر اوقیانوس کے اُس طرف امریکہ میں ہوئی تھی۔ چند ماہ کی تھی کہ پاکستان آ گئی۔ ہر شخص کا مزاج قسّامِ ازل نے الگ تخلیق کیا ہے۔ ایسے نانے دادے بھی دیکھے ہیں جو نواسوں پوتیوں کا شور نہیں پسند کرتے! اللہ کا شکر ہے کہ ایسے سڑیل اور گلے سڑے بابے زیادہ تعداد میں نہیں پائے جاتے۔ بہرطور میرے لیے زینب ایک عجیب چیز تھی۔ پہلی نواسی یا پوتی یا پوتا یا نواسہ (انگریزی میں سب کے لیے گرینڈ کِڈ کا لفظ استعمال ہوتا ہے) ایک ایسا کھلونا ہوتا ہے جس کا کوئی مثیل ہے نہ اسے لفظوں م...