Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, March 27, 2025

کیا لاہور کی شناخت صرف کھانوں سے ہے؟؟؟

یہ معروف ومشہور صحافی نیوزی لینڈ کا شہری ہے۔ آباؤ اجداد کا تعلق برصغیر سے تھا۔ اس نے پاکستان کے بہت سے دانشوروں‘ صحافیوں اور سکالروں کے انٹرویو کیے ہیں جو پاکستان اور بھارت‘ دونوں ملکوں میں بے شمار لوگوں نے دیکھے اور سنے۔ چند روز پہلے لاہور میں فیض میلہ منعقد ہوا‘ اس میں ایک سیشن لاہور کے بارے میں بھی تھا۔ یہ صحافی لاہور کی محبت میں نیوزی لینڈ سے‘ جو دنیا کا آخری کنارہ ہے‘ چلا اور لاہور آ پہنچا! سیشن اٹینڈ کیا۔ سٹیج پر بڑے بڑے لوگ براجمان تھے۔ وہ سفید مُو خاتون دانشور بھی جو ادبی میلوں (لٹریری فیسٹیولز) پر چھائے ہوئے مافیا کی مستقل ممبر ہیں! وہ حضرات بھی جو پرانے لاہور کو نیا کرنے پر مامور ہیں۔ یہ اور بات کہ معاملہ دہلی گیٹ سے آگے نہیں بڑھ رہا۔ افسوس کہ لاہور کے بارے میں جو بات چیت بھی ہوئی‘ لاہور کے کھانوں کے بارے میں ہی ہوئی۔ جب نظر آ گیا کہ کھانوں سے باہر نکلنے کے کوئی آثار نہیں‘ تو نیوزی لینڈ سے آیا ہوا لاہور کا شیدائی اٹھا اور سٹیج پر متمکن ماہرین سے کہنے لگا کہ کیا لاہور کھانوں کے علاوہ کوئی صفت‘ کوئی امتیاز‘ کوئی خوبی‘ کوئی تاریخ‘ کوئی روایت‘ کوئی داستان نہیں رکھتا؟ صرف کھانے ہی کھانے ہیں لاہور میں؟ اور کچھ نہیں؟ سنا ہے کہ سفید مُو لٹریری فیسٹیول فیم خاتون نے تو اپنی لاعلمی کی بہت بڑی دلیل یہ دی کہ ان کی تو پیدائش ہی تقسیم کے بعد کی ہے اس لیے انہیں تقسیم سے پہلے کے لاہور کا زیادہ پتا نہیں! ویسے یہ دلیل بہت کارآمد ہے۔ امتحان میں بابر یا سوری یا خلجی یا لارڈ کلائیو کے بارے میں سوال آجائے تو جواب میں لکھنا چاہیے کہ میں تو اُس وقت دنیا میں تھا ہی نہیں! ارے بھائی! آپ لاہور کی تاریخ پر بات کرتے! مختلف ادوار میں مختلف حکمرانوں کا لاہور کے حوالے سے کیا کردار رہا؟ پرانے لاہور کے کتنے دروازے تھے؟ کتنے اب موجود ہیں؟ عمارتیں کون کون سی مشہور ہیں؟ گلیاں‘ کوچے‘ چوک کون کون سے ہیں! گورنمنٹ کالج کی ابتدائی کلاسیں کس عمارت میں منعقد ہوتی رہیں؟ اس کالج کے قیام میں ولیم لائٹنر کا کیا کردار تھا۔ مولانا محمد حسین آزاد گھوڑے پر سوار کس طرح گورنمنٹ کالج آتے تھے جبکہ شاگرد دائیں بائیں ساتھ ساتھ پیدل چلتے ہوئے استفادہ کرتے آتے تھے۔ آزاد کس امام بارگاہ میں نماز کے لیے آتے تھے؟ پرانے لاہور کے ضمن میں علامہ اقبال‘ حکیم احمد شجاع‘ ایم اسلم اور دیگر مشاہیر کا ذکر تو مجھ جیسا عامی بھی کر سکتا ہے۔ جاوید منزل اب اقبال میوزیم ہے۔ اس کا تعارف کرایا جاتا۔ لاہور کا ریلوے سٹیشن کب بنا؟
سکھوں کی عملداری کے دوران شاہی مسجد پر کیا گزری! پرانی حویلیوں کا تفصیلی ذکر ہونا چاہیے تھا۔ سر گنگا رام کی لاہور کے لیے بے پناہ خدمات ہیں۔ ان کی بنائی ہوئی عمارتوں کا ذکر کیا جانا چاہیے تھا۔ عجائب گھر اور نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کی تاریخ کا اہم حصہ ہیں! پنجاب پبلک لائبریری بہت بڑا موضوع ہے۔ لاہور نے وہ دور بھی دیکھا جب کرشن چندر‘ منٹو‘ کنہیا لال کپور‘ پطرس‘ فیض‘ تاثیر‘ حفیظ جالندھری‘ احمد ندیم قاسمی‘ قیوم نظر اور دوسرے دانشور لاہور کے آسمان پر کہکشاں کی طرح جگمگاتے تھے۔ وائی ایم سی اے اور پاک ٹی ہاؤس کی اہمیت پر گفتگو ہونی چاہیے تھی! سید علی ہجویری کب تشریف لائے؟ یہ حضرات جو تقریب میں مسند نشیں تھے‘ کچھ پڑھ کر آتے۔ تیاری کر کے آتے۔
کھانے ہم پاکستانیوں کا اوڑھنا بچھونا ہیں۔ ہماری سوچ کھانوں سے شروع ہوتی ہے اور کھانوں پر ختم ہوتی ہے۔ کچھ عرصہ ہوا کراچی کی ایک فیملی کی پوسٹ دیکھی۔ ماشاء اللہ کراچی سے روانہ ہوتے وقت جو فہرست لاہور کے مشہور ''مقامات‘‘ کی انہوں نے تیار کی تھی اس میں صرف ریستوران اور ڈھابے تھے! لاہور سے کراچی جانے والوں کا بھی یہی حال ہوگا۔ چند دن ہوئے ریلوے کے ایک صاحب سے گرین لائن ٹرین کی بات ہو رہی تھی۔ میں نے پوچھا کیا: دراز ہونے کے لیے برتھ بھی موجود ہیں؟ ان کا جواب زبردست تھا۔ کہنے لگے: پاکستانیوں کی اوّلین ترجیح کھانا ہوتا ہے۔ ہم کھانا اچھا مہیا کر رہے ہیں۔ باقی سہولتوں کی کسی کو پروا ہے‘ نہ کوئی پوچھتا ہے! یہ ہم پاکستانیوں کے ذوق اور ترجیحات پر بہترین اور مختصر ترین تبصرہ ہے۔ اور کیا ہی سچا تبصرہ ہے۔ ہمارے گھروں میں سب سے زیادہ بحث اس بات پر ہوتی ہے کہ آج کیا پکے گا؟ مجھے نہیں معلوم اس واقعے میں کتنی صداقت ہے مگر سنا ہے کہ بھٹو صاحب نے ہنری کسنجر کے لیے ایک عظیم الشان ڈنر کا اہتمام کیا تھا جس کے لیے پاکستان سے خصوصی طور پر پرندے منگوائے گئے تھے۔ مگر ہنری کسنجر آیا تو اس نے جو میز پہلے پڑا تھا اسی سے کچھ لے لیا۔ دھیان اس کا گفتگو پر ہی رہا۔ بارِ دگر عرض ہے کہ یہ بات سنی سنائی ہے‘ تاہم سچائی سے اتنی بعید بھی نہیں۔ اس لکھنے والے نے امریکہ میں کئی سرکاری لنچ اور ڈنر اٹینڈ کیے ہیں۔ سادہ ترین ہوتے ہیں۔ پہلے سلاد۔ پھر 
Main 
ڈش۔ آخر میں چاکلیٹ یا پنیر کا کیک! سیلاب کے دنوں میں انجلینا جولی پاکستان آئی تھی۔ اس وقت کے وزیراعظم نے انہیں کھانے پر بلایا۔ غالباً وزیراعظم کی فیملی بھی تھی۔ انجلینا نے بعد میں افسوس کا اظہار کیا کہ ادھر سیلاب زدگان پر مصیبت آئی ہوئی ہے اور ادھر میز کھانوں سے اٹا پڑا تھا۔ ہم اس معاملے میں‘ معاف کیجیے گا‘ بہت شُہدے اور گھٹیا ہیں۔ ہم سب! من حیث القوم! کسی کے ہاں جائیں تو واپس آکر کھانے میں کیڑے نکالیں گے۔ کوئی نہ کوئی نقص ضرور تلاش کر لیں گے! ہمارے لیے اہم ترین پہلو کھانے کی مقدار ہے۔ جیسا بھی ہو‘ بس کثیر مقدار میں ہو۔ یہ کھانا ہی تو ہے جس کے لیے ہم شادیوں کی تقاریب میں گھنٹوں نہیں بلکہ پہروں انتظار کرتے ہیں۔ ہمارا کسی نے اصل روپ دیکھنا ہو تو اس وقت دیکھے جب کھانا کھلنے کا اعلان ہوتا ہے۔ اُس وقت ہم انسان نہیں‘ کوئی اور مخلوق بن جاتے ہیں۔ ایک حالتِ جنگ ہے جو ہم پر طاری ہو جاتی ہے۔ ہم جون بدل لیتے ہیں۔ شائستگی‘ تمیز‘ لحاظ‘ شرافت سب کچھ بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ ہمارا ہر کھانا ہماری زندگی کا آخری کھانا ہوتا ہے۔ ہمیں نارمل نہیں کہا جا سکتا۔
مغل جب تک جنگوں میں مصروف رہے‘ کھانوں میں سادگی تھی۔ جوں جوں زوال آتا گیا‘ اصل میدان جنگ کی جگہ دستر خوان میدانِ وغا بنتا گیا۔ اورنگزیب باجرے کی کھچڑی کھاتا تھا۔ پھر جب انتظام وانصرام انگریز بادشاہ نے سنبھال لیا تو بادشاہوں اور نوابوں کے پاس ایک ہی قلمدان رہ گیا اور وہ دستر خوان کا تھا۔ اس میں پھر طرح طرح کے مقابلے ہوئے۔ کبھی نظام کی کوشش ہوتی کہ اودھ کے نواب کے باورچی کو ''فتح‘‘ کر لے۔ کبھی اودھ کا نواب دہلی سے کسی باورچی کو توڑ کر لے آتا تھا۔ ماش کی دال کا باورچی الگ تھا۔ شامی کبابوں کا الگ‘ لکھنؤ کے کھانوں پر بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اردو میں بھی اور انگریزی میں بھی۔ بہت سے آئٹم ایجاد ہی وہیں ہوئے‘ جیسے شیرمال! اور شاید شامی کباب بھی!! اس میں نئے نئے تجربے ہوئے۔ فنکاریاں دکھائی گئیں۔ ایک دعوت میں مہمان جس ڈش سے بھی کھانا لیتے وہ مٹھائی ہوتی‘ کیا چاول‘ کیا روٹی اور کیا سالن! پھر اس کے جواب میں بھی اسی طرح کی کارروائیاں ہوئیں۔ ایک ہمارے سابق حکمران جب ''جلاوطن‘‘ ہوئے تو سنا ہے باقر خانیاں بنانے والا الگ باورچی ساتھ لے کر گئے۔ اور بھی بہت داستانیں ہیں ان کے بارے میں!! اپنا اپنا ذوق اور اپنی اپنی ترجیحات! اصل بات وہی ہے جو اقبال کہہ گئے:
تری خاک میں ہے اگر شرر تو خیالِ فقر و غنا نہ کر
کہ جہاں میں نانِ شعیر پر ہے مدارِ قوتِ حیدری
نانِ شعیر جَو کی روٹی کو کہتے ہیں!

Tuesday, March 25, 2025

تین انقلابی اقدامات


پاکستان کے حالات اطمینان بخش نہیں! بلوچستان ایک خطرناک اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ بھارت ہماری غلط پالیسیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر اعلانیہ مداخلت کر رہا ہے۔ اربوں روپے جھونک رہا ہے۔ افغانستان سے مسلسل در اندازی ہو رہی ہے۔ ہمارے لوگ مارے جا رہے ہیں۔ دن رات لاشوں کا کاروبار ہو رہا ہے۔ عوام خوف زدہ ہیں۔ بیرونی دنیا نے ہم پر کیمرے لگا رکھے ہیں۔ غیر ملکی مبصر لمحہ لمحہ دیکھ رہے ہیں۔ جانچ رہے ہیں۔ اسلام آباد میں تعینات سفیر روزانہ کی بنیاد پر رپورٹیں اپنے اپنے ملک کو ارسال کر رہے ہیں۔
خدا نخواستہ آپ یہ تو نہیں سوچ رہے کہ ہماری حکومت‘ ہمارے ادارے اور ہمارے منتخب ایوان اس نازک صورتحال سے بے خبر ہیں! خدا نہ کرے ایسا ہو! یہ ناممکن ہے کہ حکومت‘ ادارے اور منتخب نمائندے اس صورتحال میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں۔ تین ایسے اقدام‘ چند روز پہلے اٹھائے گئے ہیں جو بگڑے ہوئے حالات کو یوں ٹھیک کریں گے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے‘ جیسے اجوائن پیٹ کے درد کو ختم کر دیتی ہے اور جیسے تلوار گلے کو کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔ پہلا قدم یہ اٹھایا گیا ہے کہ وفاقی وزیروں کی تنخواہیں ایک سو اٹھاسی فیصد بڑھا دی گئی ہیں۔ پہلے دو لاکھ کے لگ بھگ لے رہا تھا ایک وفاقی وزیر! اب سوا پانچ لاکھ لے گا۔ چونکہ یہ تنخواہیں عوام کا پیٹ کاٹ کر ادا کی جائیں گی اس لیے اسے عوام کی طرف سے صدقہ خیرات سمجھا جائے گا۔ اس وقت ہمارے وفاقی وزیروں جتنا مفلس اور قلاش کوئی نہیں۔ کچھ بداندیش کہہ رہے ہیں کہ یہ سب ارب پتی ہیں اور کروڑوں روپے الیکشن پر لگا کر ایوان میں پہنچے ہیں‘ یہ کہ ان میں وڈیرے ہیں‘ صنعتکار ہیں‘ اور یہ کہ یہ پہلے ہی مراعات سے لدے پھندے ہیں۔ ایسی باتیں صرف وہ لوگ کر رہے ہیں جنہیں ملکی سلامتی کی پروا نہیں! سچ یہ ہے کہ وفاقی وزیر بیچارے‘ تمام کے تمام‘ افلاس زدہ ہیں۔ بچے ان کے خیراتی سکولوں میں تعلیم پا رہے ہیں۔ روٹیاں ان کی لنگروں‘ مزاروں‘ درباروں سے آتی ہیں اور اُن دسترخوانوں سے جو فی سبیل اللہ قائم ہیں اور طعام المسکین کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ وزرا پہلے ہی قوم کے لیے بے انتہا قربانیاں دے رہے ہیں۔ سرکاری گاڑیاں بھی نہیں لی ہوئیں۔ پٹرول بھی جیب سے ڈلواتے ہیں۔ سب اپنے ذاتی گھروں میں رہتے ہیں۔ یہ تنخواہ ان کی مشقت بھری‘ افلاس زدہ زندگی کو تھوڑا سا سکون دے گی۔ بچے دو وقت کی روٹی پیٹ بھر کر کھا سکیں گے۔ یوں بھی انصاف کیجیے‘ سوا پانچ لاکھ روپے کی وقعت ہی کیا ہے؟ اس سے زیادہ تو ایک مزدور یا ریڑھی والا ایک دن میں کما لیتا ہے۔ قوم کو چاہیے کہ قومی اسمبلی کو اس زبردست اقدام پر سلام پیش کرے! یہ ملک پر ایک احسانِ عظیم ہے! ایک ایسا احسان جسے آئندہ نسلیں فخر سے یاد کریں گی۔ تاریخ میں اس اقدام کا ذکر سنہری الفاظ میں ہو گا۔
دوسرا انقلابی قدم جو اٹھایا گیا ہے‘ پہلے سے بھی زیادہ طلسمی ہے اور رہتی دنیا تک یاد رہ جانے والا۔ جنوبی پنجاب کے ایک تعلیمی ادارے میں ایک استاد (یا چند اساتذہ) اور طالبات نے قوالی پر دھمال ڈالا۔ قوالی اور دھمال؟ جی ہاں! متعلقہ حکام نے اس وطن دشمن سرگرمی کا فوری نوٹس لیا اور دھمالیوں کے خلاف سخت ایکشن لیا۔ اصل میں اس قوالی اور اس دھمال سے ملکی حالات خراب سے خراب تر ہونے کا احتمال تھا۔ اس سے ٹی ٹی پی اور بی ایل اے زیادہ طاقتور ہو سکتے تھے۔ اس سے بھارت کی دفاعی اور سفارتی قوت میں بھی اضافہ ہو سکتا تھا۔ اس قوالی اور اس تباہ کن دھمال سے امریکہ کے ساتھ بھی تعلقات میں رخنہ پڑ سکتا تھا۔ ترکیہ اور چین بھی‘ جو ہمارے قریبی دوست ہیں‘ ناراض ہو سکتے تھے۔ جاپان بھی بدظن ہو سکتا تھا۔ خدائے برتر کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس خانہ خرابی کے خلاف بروقت ایکشن لیا گیا اور دشمنوں کی امیدوں پر اوس پڑ گئی۔ حکومت سے ہماری مخلصانہ اور عاجزانہ التماس ہے کہ مزاروں اور عرسوں پر منعقد ہونے والی قوالیوں اور دھمال پر بھی پابندی لگائے کیونکہ جو سرگرمی ایک جگہ ناجائز ہو سکتی ہے‘ وہ دوسری جگہ جائز کیسے ہو سکتی ہے؟ سیہون شریف اور دوسری درگاہوں پر برپا ہونے والی قوالیوں اور دھمالوں کا بھی فی الفور نوٹس لیا جائے۔ ہماری تصوف کی کتابوں میں جا بجا لکھا ہے کہ صوفیائے کرام سماع پر رقص کرتے تھے۔ یہ رقص دھمال ہی تو ہوتا تھا۔ اور یہ دھمال رقص ہی تو ہے۔ ہم پُرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ ایسی تمام کتابوں کی اشاعت اور خرید وفروخت پر پابندی لگائی جائے۔ کیونکہ اگر سماع اور دھمال خلافِ قانون ہے تو ان کتابوں کی تشہیر کیسے جائز ہو سکتی ہے۔ اور یہ جو شادیوں اور مہندیوں کی خالص گھریلو تقریبات میں رقص کیا جاتا ہے یعنی دھمال ڈالا جاتا ہے اسے بھی حکماً اور قانوناً بند کرایا جائے۔ مہندی کی تقریبات میں ہونے والا رقص تو بدرجہ اتم خطرناک ہے کیونکہ اس میں گھر کی اور باہر کی خواتین بھی شامل ہوتی ہیں اور مرد بھی! یہ تو سوسائٹی کے لیے زہر قاتل ہے۔ اس کی سزا عبرتناک ہونی چاہیے اور سبق آموز! اب یہ بھی سنیے کہ اس ہولناک جرم کے مرتکب افراد کو بروقت سزا دینے کے نتائج کیا ہوئے؟ آپ کو یہ جان کر مسرت ہو گی کہ ملک دشمن سرگرمیوں میں معتد بہ کمی واقع ہوئی ہے۔ بی ایل اے اور ٹی ٹی پی کی بندوقوں کو فوراً زنگ لگ گیا۔ بھارت کی توپوں میں کیڑے پڑ گئے۔ مودی کو تو دل کا دورہ پڑنے لگا تھا۔ ٹرمپ نے ہمارے حکمرانوں کو تحسین سے بھرا خط لکھا۔ برازیل اور ارجنٹائن میں ان حکام کے مجسمے بنا کر چوکوں پر رکھے گئے ہیں جنہوں نے اس صوفیانہ سرگرمی کے خلاف ایکشن لیا۔
اب دل تھام کر بیٹھیے! ہم تیسرے انقلابی اقدام کا ذکر کرنے لگے ہیں۔ کمزور دل یہ نہ پڑھیں‘ کیونکہ اس اقدام سے پاکستان کے دشمنوں پر ہول طاری ہو گیا ہے۔ وزیراعظم سعودی عرب کے دورے پر گئے تو ایک صوبے کی وزیراعلیٰ کو ساتھ لے گئے اور باقی صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو ساتھ نہیں لے کر گئے۔ شہزادہ ایم بی ایس کے ساتھ جو خالص سرکاری میٹنگ ہوئی اس میں وزیر اعظم کے ساتھ نائب وزیراعظم کے علاوہ ایک صوبے کی وزیراعلیٰ بھی تھیں۔ یہ ایسا زبردست اقدام ہے جو قومی یکجہتی کو دوچند کرے گا اور صوبوں اور وفاق کے درمیان محبت میں اضافہ کرے گا۔ رموزِ مملکتِ خویش خسروان دانند! ہو سکتا ہے ولی عہد کے ساتھ ہونے والی گفتگو اتنی حساس ہو اور اتنی سیکرٹ ہو کہ صرف ایک صوبے کی حکمران ہی کو اس میں شامل کیا جا سکتا تھا۔
پاکستان اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ دہشت گردی کا ناسور رِس رہا ہے۔ بلوچستان ملک دشمن سرگرمیوں کا مرکز بن چکا ہے۔ ایسے میں اگر صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ یکساں سلوک رکھا جاتا تو دشمن اس سے فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ یہ ہماری حکومت کا کمال کا 

Vision 

ہے اور حد درجہ دور اندیشی! یہ تدبّر اور حکمت کی انتہا ہے! روشن ترین پہلو اس اقدام کا یہ ہے کہ وزیراعظم پر کوئی شخص اقربا پروری کا الزام نہیں لگا سکتا! جس صوبے کی حکمرانِ اعلیٰ کو وہ ساتھ لے گئے اس سے ان کا دور دور تک کوئی رشتہ نہ تھا۔ بلکہ دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ ان کے قریبی اعزہ تھے۔ اگر وہ انہیں بھی اس دورے پر ساتھ لے جاتے تو ان پر الزام لگتا کہ رشتہ داروں کو فائدہ پہنچا رہے ہیں! الحمدللہ ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ ہمارے حکمران حد درجہ محتاط ہیں۔ وہ کوئی ایسا کام کرتے ہی نہیں جس پر لوگ انگلیاں اٹھا سکیں!! بس قوم کی یہ خواہش ہے کہ ایسے مزید اقدام بھی اٹھائے جائیں!!

Thursday, March 20, 2025

ارشاد بھٹی صاحب اور حضرت مولانا طارق جمیل



ہمارے محترم دوست جناب ارشاد بھٹی نے حضرت مولانا طارق جمیل کا تفصیلی انٹر ویو کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کام کر کے انہوں نے نیکی کی ہے۔ مولانا صاحب کی خدمات گراں قدر ہیں۔ لاکھوں‘ کروڑوں مسلمان ان کے بیانات سنتے ہیں۔ فرقہ واریت کے اس دور میں حضرت مولانا مسلسل اتحادِ امت کی تلقین کر رہے ہیں۔ ان کا ہر جگہ یہی پیغام ہوتا ہے کہ ایک دوسرے سے نفرت نہ کرو‘ آپس میں محبت سے پیش آؤ۔ کسی کو کافر یا جہنمی نہ کہو۔ ان کی یہ بات دلچسپ بھی ہے اور قیمتی بھی کہ جنت بہت بڑی ہے۔ دوسروں کو بھی جنت میں آنے دو۔ کسی کی جگہ کم نہ ہو گی۔ سچ یہ ہے کہ اس زمانے میں جب کچھ یوٹیوبر فخر سے کہہ رہے ہیں کہ وہ تو بات ہی اختلافی مسائل پر کرتے ہیں‘ مولانا طارق جمیل کا اختلافی مسائل سے گریز کرنا اور محبت پر زور دینا بہت بڑا کنٹری بیوشن ہے۔ ان کی ایک اور بڑی خدمت ان کی تالیف کردہ کتاب ''گلدستۂ اہلِ بیت‘‘ ہے۔ اس میں آقائے دو جہانﷺ کی ازواجِ مطہرات اور ان کی اولاد کے حالاتِ زندگی ہیں۔ اسے پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ بنو امیہ اور بنو عباس کے حکمرانوں نے اہلِ بیت کے ساتھ کیا کیا ظلم کیے۔ بدقسمتی سے ہم سُنیوں میں سے بہت سے لوگ ان تفصیلات سے ناواقف ہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ اہلِ بیت کی محبت ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے‘ خواہ وہ کسی بھی فرقے سے ہو!
مولانا پر ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ ان کا میعارِ زندگی امیرانہ ہے اور وہ بڑی بڑی گاڑیوں میں پھرتے ہیں۔ یہ بھی ہمارے ذہنوں میں ایک عجیب 
Paradox 
ہے! ہم یہ فرض کیے بیٹھے ہیں کہ جو بھی واعظ یا مولانا ہو گا اسے غریب ہی ہونا چاہیے۔ وہ ہمارا محتاج ہی ہو۔ ہم کسی مولانا کو بڑی گاڑی میں دیکھیں یا اس کی خوش لباسی دیکھیں تو فوراً اس کے لیے ''نیب‘‘ بن جاتے ہیں! علما میں سے ہمارے دو بزرگ شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان اور مولانا احتشام الحق تھانوی حد درجہ خوش لباس تھے۔ مولانا طارق جمیل نے ارشاد بھٹی صا حب کو اپنے خاندانی بیک گراؤ نڈ کی تفصیل بتائی کہ وہ کئی نسلوں سے آسودہ حال ہیں۔ جب وہ یہ تفصیل بتا رہے تھے تو کچھ کچھ احساسِ تفاخر بھی جھلک رہا تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ قدرتی ہے اور فطری!! جب ہم بتا رہے ہوں کہ ہمارے آبائو اجداد بڑے لوگ تھے تو احساسِ تفاخر کا آجانا بشری تقاضا ہے۔ اگر حضرت مولانا سخت 

class conscious 
ہیں تو اس میں اعتراض کی بات کوئی نہیں! اللہ ہم سب کو آسودہ حال کرے۔
بھٹی صاحب نے سوالات کھل کر کیے اور دلیری سے کیے۔ ایک اچھے صحافی کا یہی کام ہے۔ کچھ سوالات ہمارے ذہن میں بھی ہیں۔ اگرچہ ہم اُس دلیری سے پوچھنے کی ہمت نہیں رکھتے جو بھٹی صاحب میں ہے! بھٹی صاحب ایک طاقتور راجپوت ہیں اور ہم نحیف اور کمزور اعوان! اس لیے حضرت مولانا سے جو سوالات پوچھیں گے فروتنی سے پوچھنے کی جسارت کریں گے۔ سچ یہ ہے کہ بھٹی صاحب کا انٹرویو دیکھ کر ہی ہمیں بھی ہمت ہوئی ہے۔ حضرت مولانا نے فرمایا کہ پرتھوی راج کو سلطان محمد غوری نے 1442ء میں شکست دی اور وہ قتل ہوا۔ ایسا نہیں ہے۔ سلطان محمد غوری کی وفات 1206ء میں ہو چکی تھی جس کے بعد قطب الدین ایبک نے خود مختاری کا اعلان کر دیا تھا۔ اصل میں سلطان محمد غوری نے پرتھوی راج کو 1192ء میں شکست دی تھی اور وہ قتل ہوا تھا۔ 1442ء میں تو محمد غوری کی وفات کو دو سو چھتیس برس گزر چکے تھے۔ اس وقت دہلی کے تخت پر سید خاندان کی حکومت تھی اور سلطان محمد شاہ بادشاہ تھا۔ حضرت مولانا نے فرمایا کہ چوہان راجپوتوں کی حکومت ہندوستان میں چھ سو سال رہی۔ گزارش ہے کہ اس کی کوئی سند یا حوالہ؟ سند یا حوالے سے یاد آیا کہ جب بھٹی صاحب نے ''لاعبہ‘‘ والی حدیث کا راوی پوچھا تو حضرت مولانا نے جواب دیا: ''میں کوئی یاد کر کے تو نہیں بیٹھا‘‘۔ لاعبہ والا قصہ مولانا یوں بیان فرماتے ہیں کہ جنت کی لڑکی ہے جسے دیکھ کر کلیجے پھٹ جائیں گے۔ ایک مسکراہٹ سے سب مر جائیں گے۔ قد اتنے فٹ ہو گا۔ گزارش ہے کہ ہم جیسے عقیدت مند تو آپ پر اندھا یقین رکھتے ہیں۔ اگر آپ فرمائیں گے کہ حور کا قد ایک لاکھ فٹ ہو گا تو ہم آمنا وصدقنا کہیں گے لیکن حضرت! پرابلم یہ ہے کہ اب پانچویں جماعت کے بچے بھی ثبوت اور حوالہ طلب کرتے ہیں۔ ہارون الرشید ہر روز سو نفل پڑھتا تھا۔ اس کا بھی حوالہ مرحمت فرما دیجیے۔ حوروں کی جسمانی تفصیلات چونکہ آپ کے مواعظ کا مرکزی نکتہ ہوتا ہے‘ اس لیے لازم ہے کہ جناب کے پاس حوالہ اور سند ہونی چاہیے تا کہ کسی کو اعتراض کا موقع نہ ملے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ضعیف احادیث واقعات اور فضائل میں معتبر ہیں۔ یہ کس کا فیصلہ ہے؟ ظاہر ہے ضعیف حدیث صحیح حدیث جتنی معتبر نہیں ہے‘ سو فیصد یقین نہیں ہے کہ ضعیف حدیث والی بات آقاﷺ نے فرمائی ہو گی۔ مگر آپ بہت اعتماد کے ساتھ کہہ دیتے ہیں کہ لاعبہ اور حوروں کے بارے میں دیگر عجائبات رسول اکرمﷺ نے فرمائے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب صحیح احادیث سینکڑوں ہزاروں موجود ہیں تو ضعیف احادیث بیان کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ سنسنی پھیلانے کے کئی طریقے اور بھی ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ آپ کی باتیں من گھڑت ہوتیں تو کیا اللہ چھ بر اعظموں میں پھیلنے دیتا۔ درست فرمایا۔ ویسے امریکہ اور اسرائیل کے ذرائع ابلاغ بھی چھ بر اعظموں میں اپنے مطلب کی باتیں پھیلا رہے ہیں۔ مسیحی پادری تو دو سو سال پہلے ہی چھ براعظموں میں‘ پاناما سے لے کر نیوزی لینڈ تک تبلیغ کر رہے تھے۔ تو کیا ان کی باتیں بھی من گھڑت نہیں ہیں؟ ویسے حضرت مولانا کی جرأت کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی۔ آپ نے تبلیغی جماعت کی نصابی کتاب فضائل اعمال کے بارے میں صاف کہا کہ اس میں ''واقعات بے بنیاد ہیں۔ فضول باتیں ہیں اور میں انہیں رد کرتا ہوں‘‘۔ یہ حضرت کے صدقِ مقال کی مثال ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ایک اور معاملے میں بھی حضرت کی رہنمائی مطلوب ہے۔ حجامہ سے متعلق مولانا کے کلپ وائرل ہیں۔ پچیس لاکھ سے زیادہ لوگ اسے دیکھ چکے ہیں۔ اس میں آپ نے تلقین کی ہے کہ حجامہ کراؤ۔ یہ ''تمہیں ڈاکٹروں سے نجات دے گا‘‘۔ مگر حضرت مولانا خود تکلیف کے وقت ہسپتال جاتے رہے۔ دل میں سٹنٹ ڈلوائے۔ حجامہ اگر ستر بیماریوں کا علاج ہے تو دل کی بیماری بھی اس میں شامل ہو گی۔ آپ کا بیان ہے کہ معراج کی رات ہر آسمان پر فرشتوں نے آپ کو حجامہ کی تلقین کی۔ اس کا ریفرنس بھی عطا فرمائیے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ رسول اکرمﷺ نے حجامہ کروایا اور اپنا خون جو پیالے میں تھا‘ عبد اللہؓ بن زبیر کو دیا کہ دفن کر دیں مگر عبدللہؓ بن زبیر نے اسے پی لیا۔ یہ روایت کس کتاب میں ہے‘ رہنمائی فرمائیے! آقا صل اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت عبد اللہ بن زبیر کی عمر آٹھ سال تھی
اور ہاں حضرت! وہ شعر (غم عاشقی ترا شکریہ! میں کہاں کہاں سے گزر گیا) پروین شاکر کا ہر گز نہیں ہے۔ یہ عرش ملسیانی سے منسوب ہے!! آخر میں بصد احترام سعدی کا شعر نذرانے کے طور پر پیش خدمت ہے۔ ہر بیشہ گماں مبر کہ خالیست۔ شاید کہ پلنگ خفتہ باشد! چونکہ صرف جناب کے لیے ہے‘ اس لیے اس کا ترجمہ دینے کی ضرورت نہیں!!!

روزنامہ دنیا

Friday, March 14, 2025

بطور قوم ہم حریص کیوں ہیں؟

اگر آپ بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کو باڑے میں بند کر دیں اور کئی دن بھوکا رکھیں۔ پھر باڑے سے کچھ دور‘ ان کے لیے گھاس‘ چارہ وغیرہ رکھ دیں۔ پھر باڑے کا گیٹ کھول دیں تو مجھے یقین ہے کہ بھوکی بھیڑ بکریاں دوڑ کر کھانے پر حملہ نہیں کریں گی۔ وہ آرام سے چل کر جائیں گی۔ کیا عجب ان کے چل کر جانے میں متانت بھی ہو!
کل پرسوں وفاقی دار الحکومت (غالباً فیصل مسجد) میں عوامی افطار کا بندوبست تھا۔ اس کی وڈیو دیکھ کر تعجب تو نہیں ہوا‘ دُکھ ضرور ہوا۔ ہجوم دوڑ رہا تھا۔ ہجوم بھاگ رہا تھا۔ ہجوم ایک دوسرے کو دھکے دے رہا تھا۔ ہجوم شور مچا رہا تھا۔ قیامت کا منظر تھا۔ یوں لگتا تھا ان لوگوں نے مہینوں کچھ نہیں کھایا۔ یہ بھکاری نہیں تھے۔ یہ مزدور نہیں تھے نہ مدرسوں کے طالب علم تھے نہ کسی یتیم خانے کے بچے تھے۔ یہ قلاش بھی نہیں تھے۔ ان میں سے اکثر نے شلوار قمیضوں پر کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ یہ معاشرے کے عام لوگ تھے۔ زیادہ سے زیادہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ زیریں کلاس سے تعلق رکھنے والے ہوں گے۔ تو کیا مڈل کلاس اور اَپر کلاس کے لوگ ایسا نہیں کرتے! کیا آپ نے مڈل کلاس اور اَپر کلاس کی پاکستانی شادیوں کے کھانے نہیں دیکھے؟ بہترین پوشاکیں پہنے یہ کھاتے پیتے لوگ کھانے پر کس طرح ٹوٹتے ہیں! انتہا یہ ہے کہ یہ نام نہاد شرفا شادی ہال میں بیٹھتے وقت جنگی حکمت عملی اپناتے ہیں۔ ایک صاحب کو کہتے سنا کہ ''یہاں بیٹھتے ہیں۔ کھانا یہاں سے نزدیک پڑے گا‘‘۔ اعلان تو یہ ہوتا ہے کہ کھانا کُھل گیا مگر اصل میں کھانا نہیں‘ بندے کھول دیے جاتے ہیں! پھر جس طرح یہ ازلی بھوکے پلیٹیں بھرتے ہیں‘ خدا کی پناہ! شرم آتی ہے لالچ کے اس مظاہرے پر! اور یہ جو شادیوں پر اور دیگر تقریبات پر پکوانوں کی بھرمار ہوتی ہے اور کئی کئی طرح کے کھانوں کے بے ہنگم ڈھیر پکوائے جاتے ہیں‘ یہ بھی احساسِ کمتری کا اظہار ہے! تہذیب کا تقاضا تو یہ ہے کہ اعتدال سے کام لیا جائے۔ پکواتے وقت بھی اور کھاتے وقت بھی! مگر وہ جو کسی نے کہا ہے کہ صدیوں کی بھوک ہے! جاتے جاتے جائے گی! تو درست ہی کہا ہے!
2021ء کی بات ہے۔ فیصل آباد میں پاکستان انجینئرز کونسل کا الیکشن تھا۔ اس موقع پر عشائیے کا بندوبست بھی تھا۔ کھانا کھلنے سے پہلے یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ مہندسینِ کرام پلیٹیں لے کر ڈشوں کے سر پر کھڑے تھے۔ جیسے ہی کھانا کھلا‘ تاتاریوں کی طرح ٹوٹ پڑے۔ چمچوں کو کسی نے پوچھا ہی نہیں۔ ڈشوں سے ڈائریکٹ پلیٹیں بھری گئیں! یہ قتل عام کا منظر تھا۔ بس اتنا سا فرق تھا کہ کھوپڑیوں کے مینار نہیں تھے! جس کسی نے اس منظر سے عبرت پکڑنی ہو‘ انٹرنیٹ پر جائے اور یہ لکھ کر دیکھ لے 

engineers attack on dinner at Faisalabad۔


خدا کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے مرحوم حکیم سعید صاحب کو‘ انہوں نے بڑے شہروں میں شامِ ہمدرد کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ یہ ہماری طالب علمی کا زمانہ تھا۔شامِ ہمدرد میں اُس عہد کے بڑے بڑے سکالرز‘ دانشور‘ معیشت دان‘ مورخ‘ صحافی اور قانون دان آکر لیکچر دیتے تھے۔ لیکچر کے بعد چائے ہوتی تھی۔ ساتھ کچھ کھانے کو بھی ہوتا تھا۔ اچکنوں‘ پتلونوں اور سوٹوں کا رواج تھا۔ یہ تو بہت بعد کی بات ہے جب جنرل ضیا الحق نے قوم کی ناؤ کو بھنور میں دھکیل کر قومی لباس رائج کیا۔ ان کے زمانے میں نوکر شاہی صبح دفتر آکر واسکٹ کو ایک کونے میں لٹکا دیتی تھی اور کہتی تھی ''وہ لٹکی ہے نوکری‘‘۔ تب واسکٹ کی طرح نماز بھی دفتروں میں لازم قرار دی گئی تھی۔ خدا ہی کو معلوم ہے کتنے حکومتی عہدیدار وضو کر کے پڑھتے تھے۔ ہمارے ایک سینئر افسر تھے‘ بہت فربہ! ہم نے ان سے پوچھا: سر! آپ نماز نہیں پڑھتے! کہنے لگے: یار اس تن وتوش کے ساتھ کیسے پڑھوں۔ ہِل تو سکتا نہیں! بس جسمانی معذوری سمجھو! شامِ ہمدرد کی بات ہو رہی تھی۔ چائے پر اچکنیں‘ سوٹ اور نکٹائیاں جس طرح ٹوٹ پڑتی تھیں‘ لگتا تھا ان کی زندگی کی یہ آخری چائے اور آخری بسکٹ ہے! شیخ سعدی نے کہا تھا:
خوردن برایِ زیستن و ذکر کردن است
تو معتقد کہ زیستن از بہرِ خوردن است
کھانا اس لیے کھاتے ہیں کہ زندہ رہیں اور خدا کو یاد کریں! مگر تمہارا اعتقاد یہ ہے کہ زندگی کا مقصد صرف کھانا ہے! پھر فرماتے ہیں:
چو کم خوردن طبیعت شد کسی را؍ چو سختی پیشش آید‘ سھل گیرد
وگر تن پرور است اندر فراخی؍ چو تنگی بیند‘ از سختی بمیرد
اگر کسی کو کم کھانے کی عادت پڑ گئی ہے تو اس کا فائدہ یہ ہے کہ مصیبت کے وقت اسے مشکل نہیں پیش آئے گی۔ اور اگر خوشحالی میں کوئی زیادہ کھاتا ہے تو حالات خراب ہونے پر مر جائے گا۔
اکثر وبیشتر اخبارات میں خبر چھپتی ہے کہ فلاں سیاسی جماعت کے کارکن‘ جلسے کے بعد‘ کھانے پر ٹوٹ پڑے اور تقریب بدنظمی کا شکار ہو گئی۔ ایسا مظاہرہ کم وبیش تمام سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے کیا ہے۔ آخر ہمارے ساتھ بحیثیتِ قوم مسئلہ کیا ہے؟ اس پر کوئی ریسرچ‘ کوئی تحقیق نہیں ہوئی۔ سوشیالوجسٹ حضرات اور ماہرین نفسیات کو اس پر کام کرنا چاہیے۔ یہ بھوک ہماری پسلیوں سے کیوں نہیں نکلتی؟ ہمیں سیر چشمی کی نعمت کب نصیب ہو گی؟ ہم ہڑپ کرنے کے بجائے آرام سے کیوں نہیں کھاتے؟ کہیں بھی کھانے کی مقدار کم نہیں ہوتی! ہر شخص کے لیے کھانا میسر ہوتا ہے۔ پھر بھی ہم چھینا جھپٹی کرتے ہیں جیسے حملہ نہ کیا تو محروم رہ جائیں گے۔ اس نفسیاتی خوف اور عدم اطمینان کا مظاہرہ ہمارے حکمران بھی کرتے آئے ہیں! بالخصوص آزادی کے پہلے تیس پینتیس برس کے بعد والے زمانوں میں!!! سرکاری خزانے پر بالکل اسی طرح ہاتھ صاف کیے گئے جیسے ہم عوام کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں! کسی نے سیلاب زدگان کے لیے ہار دیا تو وہ دبا لیا۔ کسی نے گاڑی دی تو توشہ خانے میں رکھنے کے بجائے یا سرکاری ملکیت میں دینے کے بجائے گھر لے گئے جیسے زندگی میں پہلے گاڑی دیکھی ہی نہ تھی۔ جنرل مشرف مرحوم کے پاس کس چیز کی کمی تھی کہ ایک بادشاہ کے سامنے جھولی پھیلا دی! اتنے بڑے بڑے چمکدار اور زبردست عہدوں پر فائز رہنے کے بعد کوئی کسی ٹائیکون کی ملازمت کر رہا ہے اور کوئی کسی بادشاہ کی نوکری کر لیتا ہے! کوئی نہیں کہنے والا کہ بس کرو یار! اپنی عزت کا خیال نہیں تو ملک کے وقار ہی کا سوچ لو! اور یہ صاحب جو پلاسٹک کے بنے ہوئے وزیراعظم تھے‘ ساری زندگی بین الاقوامی سطح کے ٹاپ کلاس بینکوں میں اعلیٰ درجے کی نوکری کی‘ جہاں تنخواہیں آسمان کو چھوتی ہیں‘ مگر اتنے ندیدے‘ حریص اور فاقہ زدہ ثابت ہوئے کہ توشہ خانے سے تحائف کی گٹھریاں باندھ کر ساتھ لے گئے اور چھوٹی سے چھوٹی شے بھی نہ چھوڑی۔ پھر جن کے بارے میں سنتے آئے تھے کہ پیسے سے بے نیاز ہیں‘ ان کی باری بھی دیکھ لی۔ اپنے پیشروئوں سے مختلف نہ نکلے اور جس ٹائیکون کے خلاف تقریریں کرتے تھے‘ اسی سے گٹھ جوڑ کر لیا۔
اقبال نے کہا تھا:
یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لیے 
کہ یک زباں ہیں فقیہانِ شہر میرے خلاف
ہمیں بھی مبارک ہو کہ بطور قوم‘ ہم سب‘ کیا غریب‘ کیا امیر‘ کیا نچلا طبقہ‘ کیا اَپر کلاس‘ کیا عوام‘ کیا حکمران‘ حرص اور لالچ میں یکتا اور بے مثال ہیں! کوئی کھانے پر ٹوٹ پڑتا ہے تو کوئی خزانے پر!! جہاں تک بھی کسی کا ہاتھ پہنچ سکتا ہے‘ جو کچھ لے سکتا ہے‘ لے اُڑتا ہے!!

Tuesday, March 11, 2025

پہنچے ہوؤں تک پہنچنا

جو ظاہر ہے وہ دھوکا ہے۔ جو چھپا ہوا ہے وہ اصل ہے۔ اسی لیے اس مضمون کی دعا منقول ہے کہ اے خدا ہمیں چیزیں اس طرح دکھا جیسی ان کی حقیقت ہے‘ اس طرح نہیں جیسے دکھائی دیتی ہیں!
جو نیک دکھائی دیتے ہیں‘ ضروری نہیں وہ نیک ہوں! اکثر حالات میں وہ نیکی سے بہت دور ہوتے ہیں۔ جو برے دکھائی دیتے ہیں‘ لازم نہیں کہ برے ہوں۔ جو پہنچے ہوئے ہوتے ہیں وہ اشتہار دیتے ہیں نہ اپنی تشہیر دیتے ہیں۔ انہیں ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ وہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کا ظاہر ایسا نہ ہو جیسے دعویٰ کرنے والوں کا ہوتا ہے۔ وہ ہاتھ میں تسبیح نہیں رکھتے۔ وہ لباس ایسا نہیں پہنتے جو سکہ رائج الوقت کے لحاظ سے خلقِ خدا کو اپنی طرف کھینچے‘ وہ ''ہجوم بازی‘‘ نہیں کرتے۔ وہ نہیں چاہتے کہ میڈیا میں ان کا ذکر کیا جائے‘ وہ پسند نہیں کرتے کہ ان کے کشف و کرامات کا پرچار ہو اور لوگوں کا رُخ ان کی طرف ہو جائے۔ وہ خلق سے کنارہ کرتے ہیں اس لیے کہ انہیں چہروں کے نیچے اصل چہرے نظر آ جاتے ہیں۔ وہ دیکھ لیتے ہیں کہ اس بظاہر معزز انسان کا چہرا اصل میں فلاں جانور کا چہرا ہے۔ اور یہ جو عقیدت مندوں کا بازار لگاتا ہے‘ کس جانور کے مشابہ ہے۔ نیک انسان کو‘ پہنچے ہوئے انسان کو ڈھونڈنا نقلی اور کھرے سونے میں امتیاز کرنے سے زیادہ مشکل ہے۔ ہر شے دو صورتوں میں میسر ہوتی ہے۔ ایک صورت اصل ہے۔ دوسری صورت نقل ہے۔ نقل عام ہے۔ اصل خاص ہے۔ جو عام ہے اسے ڈھونڈنا آسان ہے۔ جو خاص ہے اسی کو تلاش کرنا مشکل ہے۔
کیا عجب وہ اَن پڑھ عورت جو گائوں میں بوسیدہ لباس پہنے اپنے گھر کے جانوروں کا گوبر سنبھال رہی ہے‘ جو دودھ بلو رہی ہے‘ جو گھاس کاٹ رہی ہے‘ وہ خدا کے نزدیک معتبر اور پسندیدہ ہو۔ خداوندِ قدوس ڈگریاں نہیں دیکھتا۔ لباس بھی اس کے لیے کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔ اس کا معیار اور ہے جو صرف اسی کو معلوم ہے۔ یہ وہ نصاب ہے جو بتایا نہیں جاتا۔ کیا عجب جس انسان کو ہم کوٹ پتلون میں دیکھتے ہیں‘ جو سوٹڈ بوٹڈ رہتا ہے‘ جو امیر بھی ہے جودنیا کے نقطۂ نظر سے کامیاب ہے‘ وہ پہنچا ہوا بھی ہو! ہمیں اس کے تمام اعمال کا علم نہیں۔ ہو سکتا ہے وہ کوئی ایسی نیکی کرتا ہو‘ یا اس نے ایسی نیکی کی ہو جس نے اسے مقبولِ الٰہی بنا دیا ہے۔ ہو سکتا ہے جو خاتون فیشن ایبل نظر آتی ہے‘ جسے اہلِ مذہب گنہگار سمجھتے ہیں‘ پہنچی ہوئی ہو۔ وہ ایک ہائوس وائف بھی ہو سکتی ہے‘ ایک افسر بھی ہو سکتی ہے‘ کسی کالج کی پرنسپل بھی ہو سکتی ہے‘ ایک خادمہ یا آیا بھی ہو سکتی ہے۔ ہمیں کیا علم اس کے اعمال کیا ہیں؟ یہ جو موچی ہے‘ بازار کے نکڑ پر بیٹھا ہوا‘ زمین پر اپنا سامان رکھے‘ یہی مستجاب الدعوات ہو! یہ جو قلی ہے‘ سر پر بھاری صندوق رکھے‘ لال قمیض پہنے‘ کیا عجب یہی وہ مردِ کامل ہو جس کی ہمیں تلاش ہے۔ مدت ہوئی ایک واقعہ پڑھا تھا‘ شاید احسان دانش صاحب کے حوالے سے کہ کسی نے ان سے پوچھا کہ کسی مستجاب الدعوات بندے کا پتا ہے؟ وہ پوچھنے والے کو لے کر شہر کی پُرپیچ گلیوں میں چلتے رہے۔ بالآخر ایک تھڑے پر پہنچے جس پر بیٹھا ایک موچی پرانے جوتوں کی مرمت کر رہا تھا۔ بتایا کہ یہ مستجاب الدعوات ہے۔ ایک صاحب ہیں‘ ایک ادارے میں عام قسم کی ملازمت کرتے ہیں۔ دیکھنے میں مذہبی نہیں لگتے۔ ( دیکھنے میں مذہبی لگنا بہت آسان ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس کے لیے کیا کرنا پڑتا ہے) مگر وہ دعا کریں تو کام بن جاتا ہے۔ کوئی ورد‘ وظیفہ‘ تجویز کریں تو قدرت کرم کرتی ہے۔ ایک صاحب نے ان سے پوچھا کہ اسے بھی کچھ تعلیم دیں تاکہ وہ بھی ان جیسا ہو جائے۔ انہوں نے بتایا کہ سب سے پہلے غیبت مکمل طور پر‘ سو فیصد‘ چھوڑنا ہو گی! پوچھنے والے صاحب ہنسے! کہا: حضرت! غیبت چھوڑیں گے تو دن کیسے گزرے گا اور شام کیسے کٹے گی؟ غور فرمائیے! غیبت سے اجتناب کتنا مشکل کام ہے۔ یہ تو کوہِ ہمالیہ پر چڑھنے والی بات ہے‘ مگر کچھ لوگ اسی دنیا میں موجود ہیں جو کسی اپنے پرائے کی غیبت نہیں کرتے! جو جھوٹ نہیں بولتے۔ واقعی جھوٹ نہیں بولتے! جو کم تولنے کو موت گردانتے ہیں۔ جو گالی نہیں دیتے! جو اپنے کام پر وقت پر پہنچتے ہیں تاکہ ان کی آمدنی میں ناجائز نہ مکس ہو جائے۔ جو ہر حال میں وعدہ پورا کرتے ہیں۔ جو قطع رحمی سے بچتے ہیں‘ جنہیں غلطی یا کوتاہی پر معافی مانگنے سے شرم نہیں آتی۔ جو پوشیدہ رہ کر مستحقین کی خدمت کرتے ہیں‘ یوں کہ خود مستحقین کو معلوم نہیں ہو پاتا کہ کس نے مدد کی ہے۔ جو اتنے محتاط ہیں کہ اپنی آمدنی میں رمق بھر آلودگی کی آمیزش نہیں ہونے دیتے! جو بیوی بچوں کے تمام حقوق پورے کرتے ہیں۔ وہ شخص پہنچا ہوا ہو ہی نہیں سکتا جو تارک الدنیا ہو جائے یا اپنے فرائض سے کنارہ کش ہو کر مہینوں مسجد میں بیٹھا رہے۔ کوئی پیغمبر دنیا کو عاق کر کے کسی کونے میں نہیں بیٹھا۔ پہنچا ہوا وہ ہو گا جو دنیا کے جبڑوں میں رہ کر دنیا کے دندانِ آز سے بچنے میں کامیاب ہو جائے۔ جو بازار‘ کارخانے ‘کھیت‘ دفتر بھی جائے‘ اپنی فیملی میں بھی رہے‘ اعزّہ واقارب سے بھی ملے‘ قوم اور ملک کے لیے بھی کام کرے اور یوں دنیا کے درمیان رہ کر لباسِ زندگی پر دنیا کی آلائشوں کا چھینٹا تک نہ پڑنے دے۔ جسے معلوم ہو کہ قلم کی روشنائی کا‘ سٹیپلر کی سوئی کا‘ گاڑی کے پٹرول کا‘ کارخانے کے تیل کا اور کھیت کے دانے کا بھی حساب ہو گا۔
پہلے بھی عرض کیا اور اس امر کی مسلسل یاددہانی لازم ہے کہ ہر مرد اور عورت کے دو پہنچے ہوئے بزرگ اور پیر اس کے گھر میں موجود ہیں اور وہ اس کے ماں باپ ہیں۔ ماں باپ کی فرمانبرداری کا حکم دیتے وقت یہ نہیں کہا گیا کہ وہ نیک ہوں۔ وہ جیسے بھی ہیں‘ وہی اولاد کے پیر ہیں اور بزرگ ہیں۔ پِیروں کے پائوں میں جرابیں پہناتے ہو‘ ان کے جوتے سیدھے کرتے ہو‘ انہیں جھک کر ملتے ہو‘ انہیں نذرانے دیتے ہو‘ وہ کھڑے ہوں تو تم بیٹھتے نہیں‘ ان کے کسی حکم سے سرتابی نہیں کرتے‘ اپنے بچوں کو ان کی زیارت‘ خدمت اور اطاعت کے لیے آمادہ کرتے ہو‘ خدا کے بندو! یہ سب کچھ اپنے ماں باپ کے لیے کیوں نہیں کرتے؟ پیر صاحب کو نذرانہ دیتے ہو تو وہ مزید کی توقع رکھتے ہیں۔ ماں باپ پر خرچ کرتے ہو تو وہ کہتے ہیں کہ خرچہ کیوں کیا؟ انہیں تمہارے خون پسینے کی کمائی کا درد ہے۔ باپ اس زمین کے سینے پر اور اس آسمان کے نیچے وہ واحد مرد ہے جو تمہاری ترقی پر جلتا نہیں اور تمہاری کامیابی سے حسد نہیں کرتا۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ تم اس سے پیچھے رہو۔ صرف باپ چاہتا ہے کہ تم اس سے بھی آگے بڑھو! صرف ماں ہے جو اپنی جان تم پر نچھاور کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہے۔ تم کسی کے گھر میں ایک ماہ رہو تو ساری زندگی اس کا احسان یاد رکھتے ہو۔ ماں تمہیں اپنے گھر میں نہیں‘ اپنے کمرے میں نہیں‘ اپنے بستر پر نہیں‘ اپنے وجود کے اندر نو ماہ رکھتی ہے اور اپنی خوراک‘ اپنا خون سب کچھ تمہیں عطا کرتی ہے۔ کیا کسی پیر نے‘ کسی اور بزرگ نے‘ کسی سوامی‘ کسی مہاتما‘ کسی سادھو نے تم پر اتنا بڑا احسان کیا ہے ؟ 
پہنچے ہوئے کو پانا اتنا آسان نہیں! پاس ہو تو ہمیں نظر نہیں آتا۔ دور ہو تو ہم پہنچ نہیں پاتے!!

Thursday, March 06, 2025

یہاں اب مرے ہم نوا اور بھی ہیں


بہت ہی محترم جناب سہیل وڑائچ کے اس مؤقف سے مجھے اختلاف ہے کہ نئے صوبے نہیں بننے چاہئیں۔ مگر یہ آج کا موضوع نہیں! آج تو اس اطمینان کا اظہار کرنا ہے کہ جس ایشو کو میں ایک مدت سے اُٹھا رہا تھا‘ سہیل وڑائچ صاحب کی توانا آواز نے اس کی حمایت کی ہے۔ وہ ایشو ہے ضلعی حکومتوں کا قیام! مجھ بے بضاعت نے اس پر بارہا لکھا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا‘ دونوں پر اس ایشو کو مکمل طور پر بلیک آؤٹ کیا جا رہا ہے۔ نہیں معلوم اس بلیک آؤٹ کی پشت پر منظم منصوبہ بندی ہے یا صرف تغافل اور سرد مہری ہے۔ جو بھی ہے‘ نقصان دہ ہے!
سب سے پہلے تو دارالحکومت اسلام آباد کی بات کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ کے لیے ایک میئر آیا تھا۔ اس کے بعد پھر وہی کلائیو اور وارن ہیسٹنگز کا نظام! اندازہ لگائیے! دارالحکومت کے باشندوں کو اپنے شہر کے انتظام وانصرام میں رمق بھر دخل دینے کی اجازت نہیں۔ کبھی ہم آہنی پردے کے پیچھے کی اصطلاح استعمال کرتے تھے جس سے مراد سوویت یونین کا جابرانہ نظام تھا۔ مگر پاکستانی بیورو کریسی کا آہنی پردہ کئی گنا زیادہ دبیز اور مضبوط ہے۔ سات پردوں میں چھپی بیورو کریسی صرف ان آقاؤں کو خوش کرتی ہے جن کے ہاتھ میں ان کی تعیناتیاں اور ترقیاں ہیں۔ اسلام آباد کی اس بے بسی پر اس کالم نگار نے کئی کالم تحریر کیے مگر سب صدا بصحرا ثابت ہوئے۔ ع کس نمی پرسد کہ بھیّا کیستی!!
جنرل پرویز مشرف کے ناقابلِ رشک عہد میں ضلعی حکومتوں کا قیام ایک معجزے سے کم نہ تھا۔ کچھ اچھے کام تو سامراجی دور میں بھی ہو گئے اور یہ آمر تو پھر بھی پاکستانی تھا۔ ہم جن رینگنے والے اور مکڑی نما حشرات سے ڈرتے ہیں اور ان سے نفرت کرتے ہیں‘ قدرت ان سے بھی کچھ مفید کام لیتی ہے۔ جنرل کا ضلعی حکومتوں کا نظام کئی سو برسوں کی نوکر شاہی کی گھٹن کے بعد تازہ ہوا کا ایک جھونکا تھا۔ ضلعی ناظم مقامی سیاستدان تھا۔ اس نے وہیں جینا اور وہیں مرنا تھا۔ اس نے ووٹ بھی لینے تھے اور مخالفین کی لعن طعن سے بچنے کے لیے سیدھے راستے پر بھی چلنا تھا۔ اگر میں اپنے ضلع اٹک کی بات کروں تو جو تھوڑا سا عرصہ میجر طاہر صادق ضلعی ناظم رہے‘ اُس تھوڑے سے عرصے کے دوران ضلع کے اطراف واکناف کے جتنے دورے انہوں نے کیے‘ ڈپٹی کمشنروں نے گزشتہ کئی دہائیوں میں اتنے نہیں کیے ہوں گے۔ ہاں‘ انگریز ڈپٹی کمشنروں کی بات اور تھی۔ وہ ملکہ کی سرفرازی کے لیے اور اپنے ملک کی خاطر جان مار کر کام کرتے تھے۔ ضلعی گزٹ جو وہ چھوڑ گئے ان کی محنت کا ثبوت ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آمریت کی وجہ سے ضلعی حکومتیں آئیڈیل حکومتیں نہیں تھیں۔ مگر کوئی بھی نیا سسٹم نقائص سے مبرّا نہیں ہوتا۔ پختگی کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ ارتقا ایک لمبا پروسیس ہے۔ اگر جنرل مشرف کے بعد برسر قتدار آنے والے سیاستدان ضلعی حکومتوں کے نظام پر شب خون نہ مارتے تو آج پاکستان کئی لحاظ سے ایک بہتر جمہوری ملک ہوتا۔ مگر افسوس! صد افسوس! اہلِ سیاست نے اپنی آمرانہ اور غیر جمہوری سرشت سے مجبور ہو کر ضلعی حکومتوں کو قتل کر دیا اور وہی فرسودہ نظام دوبارہ لے آئے جس کا عوام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہاں تختِ لاہور کا رونا رویا جاتا ہے مگر تختِ پشاور‘ تختِ کراچی اور تختِ کوئٹہ بھی مرکزیت کی بدترین مثالیں ہیں! ضلعی حکومتوں کا نظام ختم کرنے کی دو وجوہ تھیں۔ ایک تو مالیاتی کنٹرول کا ایشو تھا۔ بٹوہ چیف منسٹر اپنی جیب میں رکھنا چاہتے ہیں۔ ضلعی حکومتوں کو فنڈز ٹرانسفر کیے تو مالیاتی چودھراہٹ ختم ہو جائے گی۔ پورے صوبے کا بجٹ جب تک جیب میں نہ ہو چیف منسٹری میں مزہ ہے نہ شکوہ وجلال! بعض مردوں میں بیماری ہوتی ہے کہ خاتونِ خانہ کو کچن اور گھر کے انتظام کے لیے یکمشت پیسے نہیں دیتے۔ وہ بیچاری کبھی دہی کے لیے سو روپے مانگتی ہے کبھی ڈبل روٹی کے لیے۔ یہی بیماری سیاستدانوں میں ہے۔ دوسرے محتاج رہیں‘ ہر کام کے لیے آکر عرض گزاری کریں اور سیکرٹری فنانس حکم کا منتظر ہو تو تب ہی تو حکمرانی میں لذت ہے! کیسے کیسے کمپلیکس ہیں اور احساسِ کمتری کی بھی کیا کیا شکلیں ہیں! کیسے کیسے نفسیاتی عوارض ہیں! خدا کی پناہ!! اختیارات کی 
decentralization
 بادشاہت کے لیے موت سے کم نہیں۔ کہتے ہیں کہ جاگیرداری‘ سرداری یا فیوڈلزم ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے۔ اس کیفیت کو اپنے اوپر طاری کرنے کے لیے لازم نہیں کہ ملکیت میں زمین بھی ہو۔ ہمارے اکثر اہلِ سیاست ذہنی طور پر شہری ہونے کے باوجود‘ فیوڈل ذہنیت رکھتے ہیں۔ وہ ''نہ‘‘ تو سننا ہی نہیں چاہتے! دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ نوکر شاہی جس طرح حالتِ رکوع میں ہو کر احکام کی تعمیل کرتی ہے‘ ضلعی ناظم یا ضلعی حکومتوں کے سربراہ اس طرح کبھی نہیں کریں گے! ضلعی حکومت کا سربراہ سیاستدان ہو گا۔ وہ چیف منسٹر سے براہِ راست رابطہ رکھنے کی کوشش کرے گا۔ اس سے رعب کم ہونے کا خدشہ ہے۔ اس کے مقابلے میں ڈپٹی کمشنر چیف سیکرٹری یا پرنسپل سیکرٹری سے اوپر بات کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔وہ تو ''تھرو پراپر چینل‘‘ کی زنجیروں میں جکڑا ہوا روبوٹ ہے۔ اس کی زندگی کے دو مقاصد ہیں۔ اول اگلی تعیناتی کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا اور اس مقصدِ جلیلہ کے حصول کے لیے حکامِ بالا کو خوش رکھنا۔ دوم اگلے گریڈ میں ترقی۔ ضلع کی فلاح وبہبود اگر تیسرے نمبر پر بھی اس کی ترجیح ہو تو غنیمت ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ڈپٹی کمشنر نے دو یا تین سال ضلع میں گزارنے ہیں اس کے بعد‘ اکثر حالات میں‘ ساری زندگی اس نے ضلع کی زمین پر پاؤں نہیں دھرنے! اس کی جوتی کو بھی پروا نہیں کہ اس کے بعد کیا ہو گا؟ آپ خود سوچیے اس مائنڈ سیٹ کے ساتھ اس نے عوام کی کیا خدمت کرنی ہے؟ عوام کے ساتھ تو اس کا براہِ راست رابطہ ہی نہیں۔
جمہوریت کی روح عوام کو جوابدہی ہے۔ ضلع کا ڈپٹی کمشنر ہو یا وفاقی دارالحکومت کا چیف کمشنر یا ترقیاتی ادارے کا چیئرمین‘ عوام کو جوابدہ نہیں! یہ تو عوام کو ملتے ہی نہیں۔ ان سے تو فون پر بات کرنا ناممکن ہے۔ یہ ذہنی طور پر سو سال پہلے کی دنیا میں رہ رہے ہیں۔ رعونت مآب ہیں اور صاحب بہادر!
تم ہمیں کیا نئی منزل کی بشارت دو گے
تم تو رستہ نہیں دیتے ہمیں چلنے کے لیے
ڈپٹی کمشنری کا یہ فرسودہ‘ ازکار رفتہ اور مکروہ نظام دنیا کے کسی مہذب‘ جمہوری ملک میں رائج نہیں! یورپ اور امریکہ کو تو چھوڑیے‘ بھارت نے اپنے آئین کی 73ویں اور 74ویں ترامیم کے ذریعے مقامی حکومتوں کو انتظامی اختیارات بھی دیے اور فنڈز بھی! جب تک مقامی حکومتیں انتخابات کے ذریعے وجود میں نہیں آتیں اور جب تک انہیں مالیاتی خود مختاری نہیں حاصل ہوتی‘ جمہوریت ہمارے ہاں صرف نام کی ہے اور دنیا میں ہمارے لیے ہرگز قابلِ عزت نہیں۔ وہی کلائیو اور کرزن والا زمانہ بدستور چل رہا ہے۔ بس اتنا فرق پڑا ہے کہ پہلے وڈیرے اور گدی نشین‘ اچکنیں لشکاتے‘ طرے لہراتے‘ عید کے موقع پر انگریز ڈپٹی کمشنر کی کوٹھی کے لان میں کھڑے رہتے تھے۔ کافی دیر کے بعد ڈپٹی کمشنر کا نوکر اندر سے آکر بتاتا کہ صاحب نے عید مبارک قبول کر لی ہے۔ اس پر یہ ٹوڈی ایک دوسرے سے معانقے کرتے اور مبارکبادیں دیتے! اب ڈپٹی کمشنر کوٹھی کے اندر بلا لیتا ہے اور چائے کی پیالی بھی پلا دیتا ہے!! اور ہاں‘ یہ وڈیرے اے سی اور ڈی سی کے گھر بھینس بھی بھجوا دیتے ہیں! وہی اڑھائی سو سال پرانا سسٹم!
انجم غریبِ شہر تھے اب تک اسیر ہیں
سارے ضمانتوں پہ رہا کر دیے گئے

Tuesday, March 04, 2025

رویتِ ہلال کمیٹی کی حمایت میں


اس لحاظ سے ہم خوش بخت ہیں کہ ملک میں ایک رویتِ ہلال کمیٹی قائم ہے۔ چاند کب نظر آتا ہے‘ کب نہیں‘ یہ محکمہ موسمیات کا کام نہیں‘ نہ سائنسدانوں ہی کے بس کی بات ہے۔ یہ صرف اور صرف رویتِ ہلال کمیٹی کا کام ہے اور اسی کے دائرۂ اختیار میں آتا ہے۔ حال ہی میں رویتِ ہلال کمیٹی کے معزز‘ قابلِ احترام سربراہ نے صوبوں کے گورنروں اور چند وفاقی وزرا سے ملاقاتیں کیں۔ کچھ نالائق لوگ اعتراض کریں گے کہ رویتِ ہلال کمیٹی کا گورنروں سے کیا تعلق؟ مگر انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اربابِ اقتدار سے میل ملاقاتوں کا اثر چاند دیکھنے پر بہت زیادہ پڑتا ہے۔ کچھ احمق سائنسدانوں نے اگلے ایک سو سال کا کیلنڈر بنا کر چاند نکلنے کے دن اور تاریخیں بتا دی ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم بحمدللہ مسلمان ہیں۔ ہم سائنس‘ ٹیکنالوجی اور موسمیات کے علوم پر یقین نہیں رکھتے۔ اگر سائنس پر یقین کریں گے تو رویتِ ہلال کمیٹی کا کیا ہو گا؟
تاہم رمضان میں یہ جو افطار اور سحری کے اوقات گھڑی دیکھ کر طے کیے جاتے ہیں‘ یہ ہرگز مناسب نہیں! قرنِ اول میں گھڑیاں کہاں تھیں؟ ان گھڑیوں کی حیثیت بالکل اُس کیلنڈر جیسی ہے جو کچھ برخود غلط سائنسدانوں نے تیار کیا ہے اور جو اگلے سو سال کے لیے رمضان کے آغاز اور اختتام کا تعین کرتا ہے۔ کہاں لکھا ہے کہ گھڑی دیکھ کر روزہ کھولو اور گھڑی دیکھ کر سحری کے وقت کھانا پینا بند کرو! حکم تو یہ ہے کہ اس وقت تک کھاؤ پیو جب تک کہ سیاہی ٔشب کی دھاری سے سپیدۂ صبح کی دھاری نمایاں نظر آ جائے۔ اس صاف اور واضح حکم کی تعمیل کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ رویتِ ہلال کمیٹی کے معزز سربراہ‘ بنفس نفیس یا ان کا کوئی قابلِ اعتماد نمائندہ سحری کے وقت چھت پر چڑھ کر دیکھے اور جیسے ہی سیاہی ٔشب کی دھاری سے سپیدۂ صبح کی دھاری نمایاں نظر آ ئے‘ سحری بند ہونے کا اعلان کر ے۔
اور خدا کا خوف کیجیے۔ یہ جو ہر مسجد میں اوقاتِ نماز کے لمبے چوڑے چارٹ لگے ہیں‘ ان کا کیا جواز ہے ؟ اور یہ جو الیکٹرک (برقی) بورڈ ہر مسجد میں محراب کے ساتھ والی دیوار پر ٹنگے ہیں‘ جن پر آنے والی نماز کا وقت روشن ہوتا ہے‘ ان برقی بورڈوں کی حیثیت اسی کیلنڈر کے برابر ہے جو رمضان اور عید کی تاریخوں کا تعین کرتا ہے۔ اگر کیلنڈر کی بنیاد پر روزہ نہیں رکھا جا سکتا اور اگر کیلنڈر کی بنیاد پر عید نہیں منائی جا سکتی تو گھڑیوں اور برقی بورڈوں کی بنیاد پر نمازیں کیسے پڑھی جا سکتی ہیں؟ ایک معروف مذہبی ویب سائٹ پر نماز کے اوقات معلوم کرنے کا جو اصل طریقہ درج ہے‘ اسے ہم یہاں نقل کر رہے ہیں۔
''رات کے آخری پہر میں صبح ہوتے وقت مشرق کی طرف سے آسمان کی لمبائی میں کچھ سفیدی دکھائی دیتی ہے‘ جو تھوڑی دیر میں ختم ہو جاتی ہے‘ اور اندھیرا ہو جاتا ہے‘ اسے ''صبح کاذب‘‘ کہا جاتا ہے‘ اس کے تھوڑی دیر بعد آسمان کے کنارے پر کچھ سفیدی چوڑائی میں دکھائی دیتی ہے جو بڑھتی رہتی ہے‘ اور تھوڑی دیر میں بالکل روشنی ہو جاتی ہے‘ اسے ''صبح صادق‘‘ کہا جاتا ہے‘ جس سے فجر کا وقت شروع ہو جاتا ہے‘ اور سورج نکلنے تک باقی رہتا ہے‘ اور جب سورج تھوڑا سا بھی طلوع ہو جائے تب فجر کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔
سورج طلوع ہوکر جتنا اونچا ہو جاتا ہے‘ ہر چیز کا سایہ گھٹنا شروع ہو جاتا ہے‘ سو جب سورج سر پر آ جائے اور سایہ گھٹنا موقوف ہو جائے‘ یہ دوپہر کا وقت ہے‘ اس وقت ہر چیز کا جو سایہ ہوتا ہے وہ ''اصلی سایہ‘‘ کہلاتا ہے‘ پھر جب سورج ڈھل جائے اور سایہ بڑھنا شروع ہو جائے تو اس کو ''زوال‘‘ کہتے ہیں‘ جس سے ظہر کا وقت شروع ہو جاتا ہے‘ اور جب ہر چیز کا سایہ (اس کے اصلی سایہ کے علاوہ) دو گنا ہو جائے تب ظہر کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ بات ملحوظِ خاطر رہے کہ بہتر یہ ہے کہ ظہر کو ہر چیز کا سایہ ایک گنا ہونے تک پڑھ لیا جائے۔اور جب ہر چیز کا سایہ اصلی سایہ کے علاوہ اس کے دو مثل (دو گنا) ہو جائے تو عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے‘ اور سورج ڈوبنے تک باقی رہتا ہے۔اور جب سورج غروب ہو جائے تو مغرب کا وقت شروع ہو جاتا ہے‘ اور جب تک مغرب کی طرف آسمان کے کنارے پر سرخی کے بعد سفیدی باقی رہے‘ اس وقت تک مغرب کا وقت باقی رہتا ہے‘ اور شفقِ ابیض (سرخی کے بعد والی سفیدی) کے بعد مغرب کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔اور جب آسمان کے کنارے مغرب کی طرف کی سرخی کے بعد آنے والی سفیدی جاتی رہے تو عشاء کا وقت شروع ہو جاتا ہے‘ اور صبح صادق ہونے تک باقی رہتا ہے‘‘۔
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ نماز کے اوقات میں گھڑی کا کوئی عمل دخل نہیں! اب یا تو نمازوں کے اوقات کا اعلان رویتِ ہلال کمیٹی کے سپرد کیا جائے یا ایک اور سرکاری ادارہ بنایا جائے جس کا نام ''اعلانِ نماز کمیٹی‘‘ ہو! یہ کمیٹی رات کے آخری پہر چھت پر جائے اور دیکھے کہ آسمان کی لمبائی میں سفیدی کب دکھائی دیتی ہے اور کب ختم ہوتی ہے۔ اس وقت یہ کمیٹی صبح کاذب ہوجانے کا اعلان کرے۔ کچھ دیر کے بعد کمیٹی دوبارہ چھت پر چڑھے اور نوٹ کرے کہ آسمان کے کنارے پر سفیدی چوڑائی میں کس وقت دکھائی دیتی ہے۔ اُس وقت کمیٹی اعلان کرے کہ صبح صادق ہو گئی ہے۔ ظہر کی نماز کا وقت طے کرنے کے لیے کمیٹی ایک چھڑی یا ڈنڈا زمین میں گاڑے۔ جب اس چھڑی یا ڈنڈے کا سایہ بڑھنا شروع ہو جائے تو کمیٹی اعلان کرے کہ ظہر کے وقت کا آغاز ہو چکا ہے۔ پھر جب چھڑی کا سایہ اس کے اصلی سائے کے علاوہ‘ دو گنا ہو جائے تو کمیٹی اعلان کرے کہ ظہر کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ پھر جب چھڑی کا سایہ‘ اصل سائے کے علاوہ‘ دو گنا ہو جائے تو کمیٹی اعلان کرے کہ عصر کا وقت شروع ہو گیا ہے۔ مغرب کے لیے کمیٹی کو ایک بار پھر چھت پر جانا ہو گا۔ جب سرخی کے بعد والی سفیدی ختم ہو جائے تو کمیٹی اعلان کرے کہ مغرب کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ تب عشاکا وقت شروع ہو جائے گا۔
ہماری تجویز یہ بھی ہے کہ سحری کے وقت کا اختتام دیکھنے کے لیے جو لوگ وفاق میں اور صوبوں میں چھتوں پر چڑھ کر دیکھیں گے کہ سیاہی ٔشب کی دھاری سے سپیدۂ صبح کی دھاری کس وقت نمایاں نظر آ تی ہے‘ ان کے لیے وزارتِ خزانہ ''سحری الاؤنس‘‘ منظور کرے۔ اسی طرح ''اعلانِ نماز کمیٹی‘‘ کے لیے بجٹ میں ''چھت الاؤنس‘‘ رکھا جائے۔ رہنما کمیٹی وفاق میں ہو گی‘ صوبوں کی ''اعلانِ نماز کمیٹیاں‘‘ وفاقی کمیٹی کے ماتحت کام کریں گی۔ ہر ضلعی ہیڈ کوارٹر‘ ہر تحصیل ہیڈ کوارٹر اور ہر گاؤں میں ایسی کمیٹیاں قائم کی جائیں گی۔ اس مقصد کے لیے وفاق اور صوبوں میں نئی وزارتیں تشکیل دی جائیں گی۔ ان وزارتوں کا نام ہو گا ''وزارت برائے اختتام سحری و اوقاتِ نماز‘‘۔
یہ بھی لازم ہے کہ کوئی شخص اگر گھڑی کی مدد سے سحری ختم کرے یا گھڑی دیکھ کر نماز کے وقت کا تعین کرے تو اسے سخت سے سخت سزا دی جائے جو چودہ سال سے لے کر عمر قید تک ہو سکتی ہے۔ اور ہاں‘ اگر کوئی شہری رمضان اور عید کا چاند دیکھنے کے لیے سائنس‘ ٹیکنالوجی یا علومِ موسمیات سے مدد لینے کی بات کرے تو اسے پھانسی کی سزا دی جائے۔ مزید یہ کہ رویتِ ہلال کمیٹی کو تین یا چار چارٹرڈ جہاز اور ایک درجن ہیلی کاپٹر دیے جائیں تا کہ وہ بادلوں سے اوپر جا کر چاند کو نزدیک سے دیکھ سکیں!!

Monday, March 03, 2025

زینب …( 2)

تلخ نوائی …………

روزنامہ دنیا کا اجرا تین ستمبر 2012ء کو ہوا تھا۔ پہلے روز ہی میرا کالم ''بسم اللہ‘‘ کے عنوان سے چھپا۔ اس کے ٹھیک دس دن بعد یعنی تیرہ ستمبر 2012ء کو اس مضمون (زینب) کی پہلی قسط شائع ہوئی تھی۔ کل کی طرح یاد ہے وہ تحریر میں نے سکردو میں سیبوں کے ایک باغ میں بیٹھ کر لکھی تھی۔ اسی باغ میں لاہور سے فون آیا تھا۔ اس کی اماں نے بتایا کہ رو رہی ہے کہ نانا ابو سے بات کرنی ہے۔ بات کی تو کہنے لگی: ابھی لاہور آ جائیے میرے پاس بس ابھی! تب زینب سات برس کی تھی۔ آج تیرہ برس بعد اس تحریر کی دوسری قسط لکھنے بیٹھا ہوں۔ پیدائش اس کی بحر اوقیانوس کے اُس طرف امریکہ میں ہوئی تھی۔ چند ماہ کی تھی کہ پاکستان آ گئی۔ ہر شخص کا مزاج قسّامِ ازل نے الگ تخلیق کیا ہے۔ ایسے نانے دادے بھی دیکھے ہیں جو نواسوں پوتیوں کا شور نہیں پسند کرتے! اللہ کا شکر ہے کہ ایسے سڑیل اور گلے سڑے بابے زیادہ تعداد میں نہیں پائے جاتے۔ بہرطور میرے لیے زینب ایک عجیب چیز تھی۔ پہلی نواسی یا پوتی یا پوتا یا نواسہ (انگریزی میں سب کے لیے گرینڈ کِڈ کا لفظ استعمال ہوتا ہے) ایک ایسا کھلونا ہوتا ہے جس کا کوئی مثیل ہے نہ اسے لفظوں میں بیان 
(describe)
 ہی کیا جا سکتا ہے۔ میں اسے ہر وقت ساتھ رکھتا۔ واک کے لیے جاتا تو اس کی پریم ساتھ ہوتی۔ دفتر سے سیدھا گھر آتا اور اسے اٹھا کر باہر نکل جاتا۔ ایک دن غباروں والا گھر کے سامنے سے گزرا تو اس سے پوچھا: کتنے غبارے ہیں؟ کہنے لگا: چالیس۔ میں نے کہا: سارے دے دو۔ لا کر زینب کے سامنے ڈال دیے۔ جتنی دیر ان سے کھیلتی رہی‘ میری نظریں ہٹیں نہیں! لاہور سے آتی تو ٹول پلازا پہنچ کر انتظار کرتا۔ اسے اس کی اماں ابا کی گاڑی سے نکال کر اپنی گاڑی میں ڈال لیتا۔ جاتے وقت کئی بار چکری تک اس کے ساتھ گیا۔
وہ بڑی ہوتی گئی اور میرے لیے اس کھلونے کی کشش میں اضافہ ہوتا گیا۔ زندگی بھر کی مطالعہ کی عادت چھوٹ گئی کہ رات کو وہ دیر تک کہانیاں سنتی۔ کبھی کسی پلے لینڈ میں لے جاتا کبھی کسی پارک میں! ماں باپ اس کے لاہور میں تھے اور وہ زیادہ نانا نانی کے پاس اسلام آباد میں رہتی۔ ایک بار لاہور گئی تو ملازمہ سے یہ کہتی پائی گئی کہ ''میں اچھی بھلی اپنی زندگی جی رہی تھی اسلام آباد میں‘ اور یہ لوگ مجھے یہاں لاہور میں لے آئے ہیں‘‘۔ ہم جب بھی لاہور جا کر چند دن رہتے تو ہمارے واپس آنے پر ضرور روتی۔ راستے میں اس کی اماں کا پیغام ملتا کہ کہہ رہی ہے واپس آ جائیے۔ اسلام آباد سے جاتے وقت بھی اس کی ہچکی بندھ جاتی! جوں جوں بڑی ہوتی گئی‘ اس کی محبت اور ہمارے ساتھ اس کی وابستگی وہی رہی مگر انداز‘ اسلوب اور سٹائل بدلتا گیا۔ اب وہ مجھے بتاتی کہ کون سا کوٹ پہننا ہے اور کون سی ٹائی کس قمیض کے ساتھ لگانی ہے۔ لاہور جاتا تو وارننگ دیتی کہ آپ نے دوستوں کے پاس نہیں جانا آپ ہمارے لیے آئے ہیں۔ دوستوں کی کسی محفل میں جانا ہوتا تو ساتھ جاتی۔ ورنہ فون کرتی کہ بہت دیر ہو گئی ہے‘ اب آپ واپس آئیے‘ میں انتظار کر رہی ہوں! اس کا چھوٹا بھائی ہاشم خان بھی بڑا ہو رہا تھا۔ یوسف زئی قبیلے کی روایت کے عین مطابق ہاشم خان پندرہ برس کا ہوا تو قد ماشاء اللہ چھ فٹ دو انچ ہو چکا تھا۔ جس دن ہم نے لاہور سے واپس آنا ہوتا تو اس سے پہلی رات‘ دونوں بہن بھائی آکر ہمارے پاس بیٹھ جاتے اور بحث کرتے کہ کل کیوں جا رہے ہیں؟ وہاں کون سا کام ہے جو آپ کے بغیر رکا ہوا ہے؟ ہمیں چھوڑ کر کیسے جا سکتے ہیں؟ دوسرے دن اتنا شور مچاتے اور احتجاج کرتے کہ ہمیں ایک دو دن مزید رکنا پڑتا۔
وقت ایک زقند کے بعد دوسری زقند بھرتا گیا۔ اب زینب نے اے لیول پاس کر لیا تھا۔ گاڑی بھی چلانے لگی تھی۔ سہیلیوں کے ساتھ مل کر ضرورت مندوں کے لیے فلاحی کام بھی کر رہی تھی۔ وطن کی زمین پروفیشنل افراد پر تنگ ہو رہی تھی۔ اور تنگ ہو رہی ہے۔ اس کا والد‘ جو دل کا ایک نامور جرّاح ہے‘ واپس امریکہ چلا گیا ہے۔ اور ظاہر ہے بیوی بچوں کو بھی ساتھ لے گیا ہے۔ زینب کی اماں میری بیٹی ہے۔ لخت جگر ہے۔ یاد آتی ہے تو دل میں درد یوں لہراتا ہے جیسے بِین کی آواز پر سانپ لہراتا ہے۔ پھر بیٹی کے ساتھ ہی اس کی بیٹی بھی یاد آتی ہے۔ دونوں کے چہرے ایک دوسرے میں مدغم ہو جاتے ہیں۔ ماہ وَش زینب بن جاتی ہے اور زینب ماہ وَش بن جاتی ہے۔ وہ اپنی اماں کے دل کا ٹکڑا ہے۔ اس کی اماں میرے دل کا ٹکڑا۔ گویا میرے دل کے ٹکڑے میں ایک اور دل ہے اور اس دل میں ایک اور ٹکڑا۔ لخت در لخت! پارہ در پارہ! زخم میں مرہم ہے اور مرہم میں زخم!! درد میں دوا ہے اور دوا میں پھر درد ا! آنکھیں بند کر کے سوچتا ہوں کہ ہمارے درمیان کتنے ٹائم زون‘ کتنے سمندر‘ کتنے براعظم‘ کتنے ممالک پڑتے ہیں۔کروڑوں تو بادل ہی ہوں گے! اربوں تو پرندے ہی ہوں گے!
ایک چراغ یہاں میرا ہے ایک دیا وہاں تیرا
بیچ میں اقلیمیں پڑتی ہیں‘ پانی اور اندھیرا
کوئی دوری سی دوری ہے! کوئی فراق سا فراق ہے! کوئی ہجر سا ہجر ہے! کوئی جدائی سی جدائی ہے۔ جسم کے اندر وریدوں میں اور وریدوں کے اندر بہتے لہو میں اور ہڈیوں میں اور ہڈیوں کے اوپر چڑھے ماس میں اور ہڈیوں کے اندر گودے میں لاکھوں چراغ جیسے بجھ گئے ہیں اور ان کا دھواں بھر گیا ہے! یہ کیسا دھواں ہے کہ اندر سے باہر آتا ہے اور آنکھوں سے پانی بہاتا ہے‘ یوں کہ راستہ سجھائی نہیں دیتا! بیٹیاں مصلے پر بیٹھ کر دعائیں کر کر کے مانگی تھیں۔ سخاوت کرنے والے نے بے نوا دریوزہ گر کو دو بیٹیاں عطا کیں۔ صورت میں سیرت سے بڑھ کر اور سیرت میں صورت سے بڑھ کر۔ ایک سمندر پار چلی گئی ہے۔ خود تو گئی ہی تھی‘ ساتھ زینب کو بھی لے گئی۔ گویا بینائی تو گئی ہی تھی ساتھ عصا بھی چلا گیا! میں تو مجید امجد کی طرح یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ:
پلٹ پڑا ہوں شعائوں کے چیتھڑے اوڑھے
نشیبِ زینۂ ایّام پر عصا رکھتا
دوست تسلی دیتے ہیں کہ اب تو وڈیو پر بات ہو جاتی ہے اور مجھے فراز کا شعر یاد آ جاتا ہے:
جس طرح بادل کا سایہ پیاس بھڑکاتا رہے
میں نے یہ عالم بھی دیکھا ہے تری تصویر کا
پھر سوچتا ہوں کرب کے اس ریگستان میں میں اکیلا تو نہیں! ہوا میں اُڑنے والے فولادی پرندوں نے گھر گھر سے ماہ وَش اور زینب اور ہاشم اور قاسم کو نگلا اور دور کے ساحلوں پر جا کر اگل دیا۔ کتنے ہی نانے دادے اور نانیاں دادیاں اپنی اپنی ماہ وَش اور اپنی اپنی زینب کے ہجر میں اداس بیٹھی ہیں۔ سانسوں کی آمد ورفت کا کاروبار ختم ہوا تو کون جانے زمین کے مختلف ٹکڑوں میں پھیلے ہوئے یہ لخت ہائے جگر‘ یہ بیٹے بیٹیاں‘ یہ پوتے پوتیاں‘ یہ نواسے نواسیاں پہنچ پائیں گی یا نہیں! یا بعد میں آکر کچی قبروں پر سبز پودے لگائیں گی! دعا کریں گی۔ آنسو بہائیں گی اور پھر اپنے اپنے اڑن کھٹولے پر بیٹھ کر دور کے دیاروں میں گم ہو جائیں گی! ہجرتوں کا دور ہے! لگتا ہے اس ملک سے سارے ڈاکٹر‘ سارے سائنسدان‘ سارے اہلِ علم‘ سارے صنعتکار ہجرت کر جائیں گے۔ صرف ڈیرے دار وڈیرے‘ حکومتوں کے موروثی دعویدار اور نسل در نسل حکمرانی کرنے والے نیم خواندہ خاندان ہی پیچھے رہ جائیں گے!!
 

powered by worldwanders.com