Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, March 06, 2025

یہاں اب مرے ہم نوا اور بھی ہیں


بہت ہی محترم جناب سہیل وڑائچ کے اس مؤقف سے مجھے اختلاف ہے کہ نئے صوبے نہیں بننے چاہئیں۔ مگر یہ آج کا موضوع نہیں! آج تو اس اطمینان کا اظہار کرنا ہے کہ جس ایشو کو میں ایک مدت سے اُٹھا رہا تھا‘ سہیل وڑائچ صاحب کی توانا آواز نے اس کی حمایت کی ہے۔ وہ ایشو ہے ضلعی حکومتوں کا قیام! مجھ بے بضاعت نے اس پر بارہا لکھا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا‘ دونوں پر اس ایشو کو مکمل طور پر بلیک آؤٹ کیا جا رہا ہے۔ نہیں معلوم اس بلیک آؤٹ کی پشت پر منظم منصوبہ بندی ہے یا صرف تغافل اور سرد مہری ہے۔ جو بھی ہے‘ نقصان دہ ہے!
سب سے پہلے تو دارالحکومت اسلام آباد کی بات کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ کے لیے ایک میئر آیا تھا۔ اس کے بعد پھر وہی کلائیو اور وارن ہیسٹنگز کا نظام! اندازہ لگائیے! دارالحکومت کے باشندوں کو اپنے شہر کے انتظام وانصرام میں رمق بھر دخل دینے کی اجازت نہیں۔ کبھی ہم آہنی پردے کے پیچھے کی اصطلاح استعمال کرتے تھے جس سے مراد سوویت یونین کا جابرانہ نظام تھا۔ مگر پاکستانی بیورو کریسی کا آہنی پردہ کئی گنا زیادہ دبیز اور مضبوط ہے۔ سات پردوں میں چھپی بیورو کریسی صرف ان آقاؤں کو خوش کرتی ہے جن کے ہاتھ میں ان کی تعیناتیاں اور ترقیاں ہیں۔ اسلام آباد کی اس بے بسی پر اس کالم نگار نے کئی کالم تحریر کیے مگر سب صدا بصحرا ثابت ہوئے۔ ع کس نمی پرسد کہ بھیّا کیستی!!
جنرل پرویز مشرف کے ناقابلِ رشک عہد میں ضلعی حکومتوں کا قیام ایک معجزے سے کم نہ تھا۔ کچھ اچھے کام تو سامراجی دور میں بھی ہو گئے اور یہ آمر تو پھر بھی پاکستانی تھا۔ ہم جن رینگنے والے اور مکڑی نما حشرات سے ڈرتے ہیں اور ان سے نفرت کرتے ہیں‘ قدرت ان سے بھی کچھ مفید کام لیتی ہے۔ جنرل کا ضلعی حکومتوں کا نظام کئی سو برسوں کی نوکر شاہی کی گھٹن کے بعد تازہ ہوا کا ایک جھونکا تھا۔ ضلعی ناظم مقامی سیاستدان تھا۔ اس نے وہیں جینا اور وہیں مرنا تھا۔ اس نے ووٹ بھی لینے تھے اور مخالفین کی لعن طعن سے بچنے کے لیے سیدھے راستے پر بھی چلنا تھا۔ اگر میں اپنے ضلع اٹک کی بات کروں تو جو تھوڑا سا عرصہ میجر طاہر صادق ضلعی ناظم رہے‘ اُس تھوڑے سے عرصے کے دوران ضلع کے اطراف واکناف کے جتنے دورے انہوں نے کیے‘ ڈپٹی کمشنروں نے گزشتہ کئی دہائیوں میں اتنے نہیں کیے ہوں گے۔ ہاں‘ انگریز ڈپٹی کمشنروں کی بات اور تھی۔ وہ ملکہ کی سرفرازی کے لیے اور اپنے ملک کی خاطر جان مار کر کام کرتے تھے۔ ضلعی گزٹ جو وہ چھوڑ گئے ان کی محنت کا ثبوت ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آمریت کی وجہ سے ضلعی حکومتیں آئیڈیل حکومتیں نہیں تھیں۔ مگر کوئی بھی نیا سسٹم نقائص سے مبرّا نہیں ہوتا۔ پختگی کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ ارتقا ایک لمبا پروسیس ہے۔ اگر جنرل مشرف کے بعد برسر قتدار آنے والے سیاستدان ضلعی حکومتوں کے نظام پر شب خون نہ مارتے تو آج پاکستان کئی لحاظ سے ایک بہتر جمہوری ملک ہوتا۔ مگر افسوس! صد افسوس! اہلِ سیاست نے اپنی آمرانہ اور غیر جمہوری سرشت سے مجبور ہو کر ضلعی حکومتوں کو قتل کر دیا اور وہی فرسودہ نظام دوبارہ لے آئے جس کا عوام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہاں تختِ لاہور کا رونا رویا جاتا ہے مگر تختِ پشاور‘ تختِ کراچی اور تختِ کوئٹہ بھی مرکزیت کی بدترین مثالیں ہیں! ضلعی حکومتوں کا نظام ختم کرنے کی دو وجوہ تھیں۔ ایک تو مالیاتی کنٹرول کا ایشو تھا۔ بٹوہ چیف منسٹر اپنی جیب میں رکھنا چاہتے ہیں۔ ضلعی حکومتوں کو فنڈز ٹرانسفر کیے تو مالیاتی چودھراہٹ ختم ہو جائے گی۔ پورے صوبے کا بجٹ جب تک جیب میں نہ ہو چیف منسٹری میں مزہ ہے نہ شکوہ وجلال! بعض مردوں میں بیماری ہوتی ہے کہ خاتونِ خانہ کو کچن اور گھر کے انتظام کے لیے یکمشت پیسے نہیں دیتے۔ وہ بیچاری کبھی دہی کے لیے سو روپے مانگتی ہے کبھی ڈبل روٹی کے لیے۔ یہی بیماری سیاستدانوں میں ہے۔ دوسرے محتاج رہیں‘ ہر کام کے لیے آکر عرض گزاری کریں اور سیکرٹری فنانس حکم کا منتظر ہو تو تب ہی تو حکمرانی میں لذت ہے! کیسے کیسے کمپلیکس ہیں اور احساسِ کمتری کی بھی کیا کیا شکلیں ہیں! کیسے کیسے نفسیاتی عوارض ہیں! خدا کی پناہ!! اختیارات کی 
decentralization
 بادشاہت کے لیے موت سے کم نہیں۔ کہتے ہیں کہ جاگیرداری‘ سرداری یا فیوڈلزم ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے۔ اس کیفیت کو اپنے اوپر طاری کرنے کے لیے لازم نہیں کہ ملکیت میں زمین بھی ہو۔ ہمارے اکثر اہلِ سیاست ذہنی طور پر شہری ہونے کے باوجود‘ فیوڈل ذہنیت رکھتے ہیں۔ وہ ''نہ‘‘ تو سننا ہی نہیں چاہتے! دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ نوکر شاہی جس طرح حالتِ رکوع میں ہو کر احکام کی تعمیل کرتی ہے‘ ضلعی ناظم یا ضلعی حکومتوں کے سربراہ اس طرح کبھی نہیں کریں گے! ضلعی حکومت کا سربراہ سیاستدان ہو گا۔ وہ چیف منسٹر سے براہِ راست رابطہ رکھنے کی کوشش کرے گا۔ اس سے رعب کم ہونے کا خدشہ ہے۔ اس کے مقابلے میں ڈپٹی کمشنر چیف سیکرٹری یا پرنسپل سیکرٹری سے اوپر بات کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔وہ تو ''تھرو پراپر چینل‘‘ کی زنجیروں میں جکڑا ہوا روبوٹ ہے۔ اس کی زندگی کے دو مقاصد ہیں۔ اول اگلی تعیناتی کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا اور اس مقصدِ جلیلہ کے حصول کے لیے حکامِ بالا کو خوش رکھنا۔ دوم اگلے گریڈ میں ترقی۔ ضلع کی فلاح وبہبود اگر تیسرے نمبر پر بھی اس کی ترجیح ہو تو غنیمت ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ڈپٹی کمشنر نے دو یا تین سال ضلع میں گزارنے ہیں اس کے بعد‘ اکثر حالات میں‘ ساری زندگی اس نے ضلع کی زمین پر پاؤں نہیں دھرنے! اس کی جوتی کو بھی پروا نہیں کہ اس کے بعد کیا ہو گا؟ آپ خود سوچیے اس مائنڈ سیٹ کے ساتھ اس نے عوام کی کیا خدمت کرنی ہے؟ عوام کے ساتھ تو اس کا براہِ راست رابطہ ہی نہیں۔
جمہوریت کی روح عوام کو جوابدہی ہے۔ ضلع کا ڈپٹی کمشنر ہو یا وفاقی دارالحکومت کا چیف کمشنر یا ترقیاتی ادارے کا چیئرمین‘ عوام کو جوابدہ نہیں! یہ تو عوام کو ملتے ہی نہیں۔ ان سے تو فون پر بات کرنا ناممکن ہے۔ یہ ذہنی طور پر سو سال پہلے کی دنیا میں رہ رہے ہیں۔ رعونت مآب ہیں اور صاحب بہادر!
تم ہمیں کیا نئی منزل کی بشارت دو گے
تم تو رستہ نہیں دیتے ہمیں چلنے کے لیے
ڈپٹی کمشنری کا یہ فرسودہ‘ ازکار رفتہ اور مکروہ نظام دنیا کے کسی مہذب‘ جمہوری ملک میں رائج نہیں! یورپ اور امریکہ کو تو چھوڑیے‘ بھارت نے اپنے آئین کی 73ویں اور 74ویں ترامیم کے ذریعے مقامی حکومتوں کو انتظامی اختیارات بھی دیے اور فنڈز بھی! جب تک مقامی حکومتیں انتخابات کے ذریعے وجود میں نہیں آتیں اور جب تک انہیں مالیاتی خود مختاری نہیں حاصل ہوتی‘ جمہوریت ہمارے ہاں صرف نام کی ہے اور دنیا میں ہمارے لیے ہرگز قابلِ عزت نہیں۔ وہی کلائیو اور کرزن والا زمانہ بدستور چل رہا ہے۔ بس اتنا فرق پڑا ہے کہ پہلے وڈیرے اور گدی نشین‘ اچکنیں لشکاتے‘ طرے لہراتے‘ عید کے موقع پر انگریز ڈپٹی کمشنر کی کوٹھی کے لان میں کھڑے رہتے تھے۔ کافی دیر کے بعد ڈپٹی کمشنر کا نوکر اندر سے آکر بتاتا کہ صاحب نے عید مبارک قبول کر لی ہے۔ اس پر یہ ٹوڈی ایک دوسرے سے معانقے کرتے اور مبارکبادیں دیتے! اب ڈپٹی کمشنر کوٹھی کے اندر بلا لیتا ہے اور چائے کی پیالی بھی پلا دیتا ہے!! اور ہاں‘ یہ وڈیرے اے سی اور ڈی سی کے گھر بھینس بھی بھجوا دیتے ہیں! وہی اڑھائی سو سال پرانا سسٹم!
انجم غریبِ شہر تھے اب تک اسیر ہیں
سارے ضمانتوں پہ رہا کر دیے گئے

Tuesday, March 04, 2025

رویتِ ہلال کمیٹی کی حمایت میں


اس لحاظ سے ہم خوش بخت ہیں کہ ملک میں ایک رویتِ ہلال کمیٹی قائم ہے۔ چاند کب نظر آتا ہے‘ کب نہیں‘ یہ محکمہ موسمیات کا کام نہیں‘ نہ سائنسدانوں ہی کے بس کی بات ہے۔ یہ صرف اور صرف رویتِ ہلال کمیٹی کا کام ہے اور اسی کے دائرۂ اختیار میں آتا ہے۔ حال ہی میں رویتِ ہلال کمیٹی کے معزز‘ قابلِ احترام سربراہ نے صوبوں کے گورنروں اور چند وفاقی وزرا سے ملاقاتیں کیں۔ کچھ نالائق لوگ اعتراض کریں گے کہ رویتِ ہلال کمیٹی کا گورنروں سے کیا تعلق؟ مگر انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اربابِ اقتدار سے میل ملاقاتوں کا اثر چاند دیکھنے پر بہت زیادہ پڑتا ہے۔ کچھ احمق سائنسدانوں نے اگلے ایک سو سال کا کیلنڈر بنا کر چاند نکلنے کے دن اور تاریخیں بتا دی ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم بحمدللہ مسلمان ہیں۔ ہم سائنس‘ ٹیکنالوجی اور موسمیات کے علوم پر یقین نہیں رکھتے۔ اگر سائنس پر یقین کریں گے تو رویتِ ہلال کمیٹی کا کیا ہو گا؟
تاہم رمضان میں یہ جو افطار اور سحری کے اوقات گھڑی دیکھ کر طے کیے جاتے ہیں‘ یہ ہرگز مناسب نہیں! قرنِ اول میں گھڑیاں کہاں تھیں؟ ان گھڑیوں کی حیثیت بالکل اُس کیلنڈر جیسی ہے جو کچھ برخود غلط سائنسدانوں نے تیار کیا ہے اور جو اگلے سو سال کے لیے رمضان کے آغاز اور اختتام کا تعین کرتا ہے۔ کہاں لکھا ہے کہ گھڑی دیکھ کر روزہ کھولو اور گھڑی دیکھ کر سحری کے وقت کھانا پینا بند کرو! حکم تو یہ ہے کہ اس وقت تک کھاؤ پیو جب تک کہ سیاہی ٔشب کی دھاری سے سپیدۂ صبح کی دھاری نمایاں نظر آ جائے۔ اس صاف اور واضح حکم کی تعمیل کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ رویتِ ہلال کمیٹی کے معزز سربراہ‘ بنفس نفیس یا ان کا کوئی قابلِ اعتماد نمائندہ سحری کے وقت چھت پر چڑھ کر دیکھے اور جیسے ہی سیاہی ٔشب کی دھاری سے سپیدۂ صبح کی دھاری نمایاں نظر آ ئے‘ سحری بند ہونے کا اعلان کر ے۔
اور خدا کا خوف کیجیے۔ یہ جو ہر مسجد میں اوقاتِ نماز کے لمبے چوڑے چارٹ لگے ہیں‘ ان کا کیا جواز ہے ؟ اور یہ جو الیکٹرک (برقی) بورڈ ہر مسجد میں محراب کے ساتھ والی دیوار پر ٹنگے ہیں‘ جن پر آنے والی نماز کا وقت روشن ہوتا ہے‘ ان برقی بورڈوں کی حیثیت اسی کیلنڈر کے برابر ہے جو رمضان اور عید کی تاریخوں کا تعین کرتا ہے۔ اگر کیلنڈر کی بنیاد پر روزہ نہیں رکھا جا سکتا اور اگر کیلنڈر کی بنیاد پر عید نہیں منائی جا سکتی تو گھڑیوں اور برقی بورڈوں کی بنیاد پر نمازیں کیسے پڑھی جا سکتی ہیں؟ ایک معروف مذہبی ویب سائٹ پر نماز کے اوقات معلوم کرنے کا جو اصل طریقہ درج ہے‘ اسے ہم یہاں نقل کر رہے ہیں۔
''رات کے آخری پہر میں صبح ہوتے وقت مشرق کی طرف سے آسمان کی لمبائی میں کچھ سفیدی دکھائی دیتی ہے‘ جو تھوڑی دیر میں ختم ہو جاتی ہے‘ اور اندھیرا ہو جاتا ہے‘ اسے ''صبح کاذب‘‘ کہا جاتا ہے‘ اس کے تھوڑی دیر بعد آسمان کے کنارے پر کچھ سفیدی چوڑائی میں دکھائی دیتی ہے جو بڑھتی رہتی ہے‘ اور تھوڑی دیر میں بالکل روشنی ہو جاتی ہے‘ اسے ''صبح صادق‘‘ کہا جاتا ہے‘ جس سے فجر کا وقت شروع ہو جاتا ہے‘ اور سورج نکلنے تک باقی رہتا ہے‘ اور جب سورج تھوڑا سا بھی طلوع ہو جائے تب فجر کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔
سورج طلوع ہوکر جتنا اونچا ہو جاتا ہے‘ ہر چیز کا سایہ گھٹنا شروع ہو جاتا ہے‘ سو جب سورج سر پر آ جائے اور سایہ گھٹنا موقوف ہو جائے‘ یہ دوپہر کا وقت ہے‘ اس وقت ہر چیز کا جو سایہ ہوتا ہے وہ ''اصلی سایہ‘‘ کہلاتا ہے‘ پھر جب سورج ڈھل جائے اور سایہ بڑھنا شروع ہو جائے تو اس کو ''زوال‘‘ کہتے ہیں‘ جس سے ظہر کا وقت شروع ہو جاتا ہے‘ اور جب ہر چیز کا سایہ (اس کے اصلی سایہ کے علاوہ) دو گنا ہو جائے تب ظہر کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ بات ملحوظِ خاطر رہے کہ بہتر یہ ہے کہ ظہر کو ہر چیز کا سایہ ایک گنا ہونے تک پڑھ لیا جائے۔اور جب ہر چیز کا سایہ اصلی سایہ کے علاوہ اس کے دو مثل (دو گنا) ہو جائے تو عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے‘ اور سورج ڈوبنے تک باقی رہتا ہے۔اور جب سورج غروب ہو جائے تو مغرب کا وقت شروع ہو جاتا ہے‘ اور جب تک مغرب کی طرف آسمان کے کنارے پر سرخی کے بعد سفیدی باقی رہے‘ اس وقت تک مغرب کا وقت باقی رہتا ہے‘ اور شفقِ ابیض (سرخی کے بعد والی سفیدی) کے بعد مغرب کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔اور جب آسمان کے کنارے مغرب کی طرف کی سرخی کے بعد آنے والی سفیدی جاتی رہے تو عشاء کا وقت شروع ہو جاتا ہے‘ اور صبح صادق ہونے تک باقی رہتا ہے‘‘۔
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ نماز کے اوقات میں گھڑی کا کوئی عمل دخل نہیں! اب یا تو نمازوں کے اوقات کا اعلان رویتِ ہلال کمیٹی کے سپرد کیا جائے یا ایک اور سرکاری ادارہ بنایا جائے جس کا نام ''اعلانِ نماز کمیٹی‘‘ ہو! یہ کمیٹی رات کے آخری پہر چھت پر جائے اور دیکھے کہ آسمان کی لمبائی میں سفیدی کب دکھائی دیتی ہے اور کب ختم ہوتی ہے۔ اس وقت یہ کمیٹی صبح کاذب ہوجانے کا اعلان کرے۔ کچھ دیر کے بعد کمیٹی دوبارہ چھت پر چڑھے اور نوٹ کرے کہ آسمان کے کنارے پر سفیدی چوڑائی میں کس وقت دکھائی دیتی ہے۔ اُس وقت کمیٹی اعلان کرے کہ صبح صادق ہو گئی ہے۔ ظہر کی نماز کا وقت طے کرنے کے لیے کمیٹی ایک چھڑی یا ڈنڈا زمین میں گاڑے۔ جب اس چھڑی یا ڈنڈے کا سایہ بڑھنا شروع ہو جائے تو کمیٹی اعلان کرے کہ ظہر کے وقت کا آغاز ہو چکا ہے۔ پھر جب چھڑی کا سایہ اس کے اصلی سائے کے علاوہ‘ دو گنا ہو جائے تو کمیٹی اعلان کرے کہ ظہر کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ پھر جب چھڑی کا سایہ‘ اصل سائے کے علاوہ‘ دو گنا ہو جائے تو کمیٹی اعلان کرے کہ عصر کا وقت شروع ہو گیا ہے۔ مغرب کے لیے کمیٹی کو ایک بار پھر چھت پر جانا ہو گا۔ جب سرخی کے بعد والی سفیدی ختم ہو جائے تو کمیٹی اعلان کرے کہ مغرب کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ تب عشاکا وقت شروع ہو جائے گا۔
ہماری تجویز یہ بھی ہے کہ سحری کے وقت کا اختتام دیکھنے کے لیے جو لوگ وفاق میں اور صوبوں میں چھتوں پر چڑھ کر دیکھیں گے کہ سیاہی ٔشب کی دھاری سے سپیدۂ صبح کی دھاری کس وقت نمایاں نظر آ تی ہے‘ ان کے لیے وزارتِ خزانہ ''سحری الاؤنس‘‘ منظور کرے۔ اسی طرح ''اعلانِ نماز کمیٹی‘‘ کے لیے بجٹ میں ''چھت الاؤنس‘‘ رکھا جائے۔ رہنما کمیٹی وفاق میں ہو گی‘ صوبوں کی ''اعلانِ نماز کمیٹیاں‘‘ وفاقی کمیٹی کے ماتحت کام کریں گی۔ ہر ضلعی ہیڈ کوارٹر‘ ہر تحصیل ہیڈ کوارٹر اور ہر گاؤں میں ایسی کمیٹیاں قائم کی جائیں گی۔ اس مقصد کے لیے وفاق اور صوبوں میں نئی وزارتیں تشکیل دی جائیں گی۔ ان وزارتوں کا نام ہو گا ''وزارت برائے اختتام سحری و اوقاتِ نماز‘‘۔
یہ بھی لازم ہے کہ کوئی شخص اگر گھڑی کی مدد سے سحری ختم کرے یا گھڑی دیکھ کر نماز کے وقت کا تعین کرے تو اسے سخت سے سخت سزا دی جائے جو چودہ سال سے لے کر عمر قید تک ہو سکتی ہے۔ اور ہاں‘ اگر کوئی شہری رمضان اور عید کا چاند دیکھنے کے لیے سائنس‘ ٹیکنالوجی یا علومِ موسمیات سے مدد لینے کی بات کرے تو اسے پھانسی کی سزا دی جائے۔ مزید یہ کہ رویتِ ہلال کمیٹی کو تین یا چار چارٹرڈ جہاز اور ایک درجن ہیلی کاپٹر دیے جائیں تا کہ وہ بادلوں سے اوپر جا کر چاند کو نزدیک سے دیکھ سکیں!!

Monday, March 03, 2025

زینب …( 2)

تلخ نوائی …………

روزنامہ دنیا کا اجرا تین ستمبر 2012ء کو ہوا تھا۔ پہلے روز ہی میرا کالم ''بسم اللہ‘‘ کے عنوان سے چھپا۔ اس کے ٹھیک دس دن بعد یعنی تیرہ ستمبر 2012ء کو اس مضمون (زینب) کی پہلی قسط شائع ہوئی تھی۔ کل کی طرح یاد ہے وہ تحریر میں نے سکردو میں سیبوں کے ایک باغ میں بیٹھ کر لکھی تھی۔ اسی باغ میں لاہور سے فون آیا تھا۔ اس کی اماں نے بتایا کہ رو رہی ہے کہ نانا ابو سے بات کرنی ہے۔ بات کی تو کہنے لگی: ابھی لاہور آ جائیے میرے پاس بس ابھی! تب زینب سات برس کی تھی۔ آج تیرہ برس بعد اس تحریر کی دوسری قسط لکھنے بیٹھا ہوں۔ پیدائش اس کی بحر اوقیانوس کے اُس طرف امریکہ میں ہوئی تھی۔ چند ماہ کی تھی کہ پاکستان آ گئی۔ ہر شخص کا مزاج قسّامِ ازل نے الگ تخلیق کیا ہے۔ ایسے نانے دادے بھی دیکھے ہیں جو نواسوں پوتیوں کا شور نہیں پسند کرتے! اللہ کا شکر ہے کہ ایسے سڑیل اور گلے سڑے بابے زیادہ تعداد میں نہیں پائے جاتے۔ بہرطور میرے لیے زینب ایک عجیب چیز تھی۔ پہلی نواسی یا پوتی یا پوتا یا نواسہ (انگریزی میں سب کے لیے گرینڈ کِڈ کا لفظ استعمال ہوتا ہے) ایک ایسا کھلونا ہوتا ہے جس کا کوئی مثیل ہے نہ اسے لفظوں میں بیان 
(describe)
 ہی کیا جا سکتا ہے۔ میں اسے ہر وقت ساتھ رکھتا۔ واک کے لیے جاتا تو اس کی پریم ساتھ ہوتی۔ دفتر سے سیدھا گھر آتا اور اسے اٹھا کر باہر نکل جاتا۔ ایک دن غباروں والا گھر کے سامنے سے گزرا تو اس سے پوچھا: کتنے غبارے ہیں؟ کہنے لگا: چالیس۔ میں نے کہا: سارے دے دو۔ لا کر زینب کے سامنے ڈال دیے۔ جتنی دیر ان سے کھیلتی رہی‘ میری نظریں ہٹیں نہیں! لاہور سے آتی تو ٹول پلازا پہنچ کر انتظار کرتا۔ اسے اس کی اماں ابا کی گاڑی سے نکال کر اپنی گاڑی میں ڈال لیتا۔ جاتے وقت کئی بار چکری تک اس کے ساتھ گیا۔
وہ بڑی ہوتی گئی اور میرے لیے اس کھلونے کی کشش میں اضافہ ہوتا گیا۔ زندگی بھر کی مطالعہ کی عادت چھوٹ گئی کہ رات کو وہ دیر تک کہانیاں سنتی۔ کبھی کسی پلے لینڈ میں لے جاتا کبھی کسی پارک میں! ماں باپ اس کے لاہور میں تھے اور وہ زیادہ نانا نانی کے پاس اسلام آباد میں رہتی۔ ایک بار لاہور گئی تو ملازمہ سے یہ کہتی پائی گئی کہ ''میں اچھی بھلی اپنی زندگی جی رہی تھی اسلام آباد میں‘ اور یہ لوگ مجھے یہاں لاہور میں لے آئے ہیں‘‘۔ ہم جب بھی لاہور جا کر چند دن رہتے تو ہمارے واپس آنے پر ضرور روتی۔ راستے میں اس کی اماں کا پیغام ملتا کہ کہہ رہی ہے واپس آ جائیے۔ اسلام آباد سے جاتے وقت بھی اس کی ہچکی بندھ جاتی! جوں جوں بڑی ہوتی گئی‘ اس کی محبت اور ہمارے ساتھ اس کی وابستگی وہی رہی مگر انداز‘ اسلوب اور سٹائل بدلتا گیا۔ اب وہ مجھے بتاتی کہ کون سا کوٹ پہننا ہے اور کون سی ٹائی کس قمیض کے ساتھ لگانی ہے۔ لاہور جاتا تو وارننگ دیتی کہ آپ نے دوستوں کے پاس نہیں جانا آپ ہمارے لیے آئے ہیں۔ دوستوں کی کسی محفل میں جانا ہوتا تو ساتھ جاتی۔ ورنہ فون کرتی کہ بہت دیر ہو گئی ہے‘ اب آپ واپس آئیے‘ میں انتظار کر رہی ہوں! اس کا چھوٹا بھائی ہاشم خان بھی بڑا ہو رہا تھا۔ یوسف زئی قبیلے کی روایت کے عین مطابق ہاشم خان پندرہ برس کا ہوا تو قد ماشاء اللہ چھ فٹ دو انچ ہو چکا تھا۔ جس دن ہم نے لاہور سے واپس آنا ہوتا تو اس سے پہلی رات‘ دونوں بہن بھائی آکر ہمارے پاس بیٹھ جاتے اور بحث کرتے کہ کل کیوں جا رہے ہیں؟ وہاں کون سا کام ہے جو آپ کے بغیر رکا ہوا ہے؟ ہمیں چھوڑ کر کیسے جا سکتے ہیں؟ دوسرے دن اتنا شور مچاتے اور احتجاج کرتے کہ ہمیں ایک دو دن مزید رکنا پڑتا۔
وقت ایک زقند کے بعد دوسری زقند بھرتا گیا۔ اب زینب نے اے لیول پاس کر لیا تھا۔ گاڑی بھی چلانے لگی تھی۔ سہیلیوں کے ساتھ مل کر ضرورت مندوں کے لیے فلاحی کام بھی کر رہی تھی۔ وطن کی زمین پروفیشنل افراد پر تنگ ہو رہی تھی۔ اور تنگ ہو رہی ہے۔ اس کا والد‘ جو دل کا ایک نامور جرّاح ہے‘ واپس امریکہ چلا گیا ہے۔ اور ظاہر ہے بیوی بچوں کو بھی ساتھ لے گیا ہے۔ زینب کی اماں میری بیٹی ہے۔ لخت جگر ہے۔ یاد آتی ہے تو دل میں درد یوں لہراتا ہے جیسے بِین کی آواز پر سانپ لہراتا ہے۔ پھر بیٹی کے ساتھ ہی اس کی بیٹی بھی یاد آتی ہے۔ دونوں کے چہرے ایک دوسرے میں مدغم ہو جاتے ہیں۔ ماہ وَش زینب بن جاتی ہے اور زینب ماہ وَش بن جاتی ہے۔ وہ اپنی اماں کے دل کا ٹکڑا ہے۔ اس کی اماں میرے دل کا ٹکڑا۔ گویا میرے دل کے ٹکڑے میں ایک اور دل ہے اور اس دل میں ایک اور ٹکڑا۔ لخت در لخت! پارہ در پارہ! زخم میں مرہم ہے اور مرہم میں زخم!! درد میں دوا ہے اور دوا میں پھر درد ا! آنکھیں بند کر کے سوچتا ہوں کہ ہمارے درمیان کتنے ٹائم زون‘ کتنے سمندر‘ کتنے براعظم‘ کتنے ممالک پڑتے ہیں۔کروڑوں تو بادل ہی ہوں گے! اربوں تو پرندے ہی ہوں گے!
ایک چراغ یہاں میرا ہے ایک دیا وہاں تیرا
بیچ میں اقلیمیں پڑتی ہیں‘ پانی اور اندھیرا
کوئی دوری سی دوری ہے! کوئی فراق سا فراق ہے! کوئی ہجر سا ہجر ہے! کوئی جدائی سی جدائی ہے۔ جسم کے اندر وریدوں میں اور وریدوں کے اندر بہتے لہو میں اور ہڈیوں میں اور ہڈیوں کے اوپر چڑھے ماس میں اور ہڈیوں کے اندر گودے میں لاکھوں چراغ جیسے بجھ گئے ہیں اور ان کا دھواں بھر گیا ہے! یہ کیسا دھواں ہے کہ اندر سے باہر آتا ہے اور آنکھوں سے پانی بہاتا ہے‘ یوں کہ راستہ سجھائی نہیں دیتا! بیٹیاں مصلے پر بیٹھ کر دعائیں کر کر کے مانگی تھیں۔ سخاوت کرنے والے نے بے نوا دریوزہ گر کو دو بیٹیاں عطا کیں۔ صورت میں سیرت سے بڑھ کر اور سیرت میں صورت سے بڑھ کر۔ ایک سمندر پار چلی گئی ہے۔ خود تو گئی ہی تھی‘ ساتھ زینب کو بھی لے گئی۔ گویا بینائی تو گئی ہی تھی ساتھ عصا بھی چلا گیا! میں تو مجید امجد کی طرح یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ:
پلٹ پڑا ہوں شعائوں کے چیتھڑے اوڑھے
نشیبِ زینۂ ایّام پر عصا رکھتا
دوست تسلی دیتے ہیں کہ اب تو وڈیو پر بات ہو جاتی ہے اور مجھے فراز کا شعر یاد آ جاتا ہے:
جس طرح بادل کا سایہ پیاس بھڑکاتا رہے
میں نے یہ عالم بھی دیکھا ہے تری تصویر کا
پھر سوچتا ہوں کرب کے اس ریگستان میں میں اکیلا تو نہیں! ہوا میں اُڑنے والے فولادی پرندوں نے گھر گھر سے ماہ وَش اور زینب اور ہاشم اور قاسم کو نگلا اور دور کے ساحلوں پر جا کر اگل دیا۔ کتنے ہی نانے دادے اور نانیاں دادیاں اپنی اپنی ماہ وَش اور اپنی اپنی زینب کے ہجر میں اداس بیٹھی ہیں۔ سانسوں کی آمد ورفت کا کاروبار ختم ہوا تو کون جانے زمین کے مختلف ٹکڑوں میں پھیلے ہوئے یہ لخت ہائے جگر‘ یہ بیٹے بیٹیاں‘ یہ پوتے پوتیاں‘ یہ نواسے نواسیاں پہنچ پائیں گی یا نہیں! یا بعد میں آکر کچی قبروں پر سبز پودے لگائیں گی! دعا کریں گی۔ آنسو بہائیں گی اور پھر اپنے اپنے اڑن کھٹولے پر بیٹھ کر دور کے دیاروں میں گم ہو جائیں گی! ہجرتوں کا دور ہے! لگتا ہے اس ملک سے سارے ڈاکٹر‘ سارے سائنسدان‘ سارے اہلِ علم‘ سارے صنعتکار ہجرت کر جائیں گے۔ صرف ڈیرے دار وڈیرے‘ حکومتوں کے موروثی دعویدار اور نسل در نسل حکمرانی کرنے والے نیم خواندہ خاندان ہی پیچھے رہ جائیں گے!!
 

powered by worldwanders.com