بہت ہی محترم جناب سہیل وڑائچ کے اس مؤقف سے مجھے اختلاف ہے کہ نئے صوبے نہیں بننے چاہئیں۔ مگر یہ آج کا موضوع نہیں! آج تو اس اطمینان کا اظہار کرنا ہے کہ جس ایشو کو میں ایک مدت سے اُٹھا رہا تھا‘ سہیل وڑائچ صاحب کی توانا آواز نے اس کی حمایت کی ہے۔ وہ ایشو ہے ضلعی حکومتوں کا قیام! مجھ بے بضاعت نے اس پر بارہا لکھا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا‘ دونوں پر اس ایشو کو مکمل طور پر بلیک آؤٹ کیا جا رہا ہے۔ نہیں معلوم اس بلیک آؤٹ کی پشت پر منظم منصوبہ بندی ہے یا صرف تغافل اور سرد مہری ہے۔ جو بھی ہے‘ نقصان دہ ہے!
سب سے پہلے تو دارالحکومت اسلام آباد کی بات کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ کے لیے ایک میئر آیا تھا۔ اس کے بعد پھر وہی کلائیو اور وارن ہیسٹنگز کا نظام! اندازہ لگائیے! دارالحکومت کے باشندوں کو اپنے شہر کے انتظام وانصرام میں رمق بھر دخل دینے کی اجازت نہیں۔ کبھی ہم آہنی پردے کے پیچھے کی اصطلاح استعمال کرتے تھے جس سے مراد سوویت یونین کا جابرانہ نظام تھا۔ مگر پاکستانی بیورو کریسی کا آہنی پردہ کئی گنا زیادہ دبیز اور مضبوط ہے۔ سات پردوں میں چھپی بیورو کریسی صرف ان آقاؤں کو خوش کرتی ہے جن کے ہاتھ میں ان کی تعیناتیاں اور ترقیاں ہیں۔ اسلام آباد کی اس بے بسی پر اس کالم نگار نے کئی کالم تحریر کیے مگر سب صدا بصحرا ثابت ہوئے۔ ع کس نمی پرسد کہ بھیّا کیستی!!
جنرل پرویز مشرف کے ناقابلِ رشک عہد میں ضلعی حکومتوں کا قیام ایک معجزے سے کم نہ تھا۔ کچھ اچھے کام تو سامراجی دور میں بھی ہو گئے اور یہ آمر تو پھر بھی پاکستانی تھا۔ ہم جن رینگنے والے اور مکڑی نما حشرات سے ڈرتے ہیں اور ان سے نفرت کرتے ہیں‘ قدرت ان سے بھی کچھ مفید کام لیتی ہے۔ جنرل کا ضلعی حکومتوں کا نظام کئی سو برسوں کی نوکر شاہی کی گھٹن کے بعد تازہ ہوا کا ایک جھونکا تھا۔ ضلعی ناظم مقامی سیاستدان تھا۔ اس نے وہیں جینا اور وہیں مرنا تھا۔ اس نے ووٹ بھی لینے تھے اور مخالفین کی لعن طعن سے بچنے کے لیے سیدھے راستے پر بھی چلنا تھا۔ اگر میں اپنے ضلع اٹک کی بات کروں تو جو تھوڑا سا عرصہ میجر طاہر صادق ضلعی ناظم رہے‘ اُس تھوڑے سے عرصے کے دوران ضلع کے اطراف واکناف کے جتنے دورے انہوں نے کیے‘ ڈپٹی کمشنروں نے گزشتہ کئی دہائیوں میں اتنے نہیں کیے ہوں گے۔ ہاں‘ انگریز ڈپٹی کمشنروں کی بات اور تھی۔ وہ ملکہ کی سرفرازی کے لیے اور اپنے ملک کی خاطر جان مار کر کام کرتے تھے۔ ضلعی گزٹ جو وہ چھوڑ گئے ان کی محنت کا ثبوت ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آمریت کی وجہ سے ضلعی حکومتیں آئیڈیل حکومتیں نہیں تھیں۔ مگر کوئی بھی نیا سسٹم نقائص سے مبرّا نہیں ہوتا۔ پختگی کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ ارتقا ایک لمبا پروسیس ہے۔ اگر جنرل مشرف کے بعد برسر قتدار آنے والے سیاستدان ضلعی حکومتوں کے نظام پر شب خون نہ مارتے تو آج پاکستان کئی لحاظ سے ایک بہتر جمہوری ملک ہوتا۔ مگر افسوس! صد افسوس! اہلِ سیاست نے اپنی آمرانہ اور غیر جمہوری سرشت سے مجبور ہو کر ضلعی حکومتوں کو قتل کر دیا اور وہی فرسودہ نظام دوبارہ لے آئے جس کا عوام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہاں تختِ لاہور کا رونا رویا جاتا ہے مگر تختِ پشاور‘ تختِ کراچی اور تختِ کوئٹہ بھی مرکزیت کی بدترین مثالیں ہیں! ضلعی حکومتوں کا نظام ختم کرنے کی دو وجوہ تھیں۔ ایک تو مالیاتی کنٹرول کا ایشو تھا۔ بٹوہ چیف منسٹر اپنی جیب میں رکھنا چاہتے ہیں۔ ضلعی حکومتوں کو فنڈز ٹرانسفر کیے تو مالیاتی چودھراہٹ ختم ہو جائے گی۔ پورے صوبے کا بجٹ جب تک جیب میں نہ ہو چیف منسٹری میں مزہ ہے نہ شکوہ وجلال! بعض مردوں میں بیماری ہوتی ہے کہ خاتونِ خانہ کو کچن اور گھر کے انتظام کے لیے یکمشت پیسے نہیں دیتے۔ وہ بیچاری کبھی دہی کے لیے سو روپے مانگتی ہے کبھی ڈبل روٹی کے لیے۔ یہی بیماری سیاستدانوں میں ہے۔ دوسرے محتاج رہیں‘ ہر کام کے لیے آکر عرض گزاری کریں اور سیکرٹری فنانس حکم کا منتظر ہو تو تب ہی تو حکمرانی میں لذت ہے! کیسے کیسے کمپلیکس ہیں اور احساسِ کمتری کی بھی کیا کیا شکلیں ہیں! کیسے کیسے نفسیاتی عوارض ہیں! خدا کی پناہ!! اختیارات کی
decentralization
بادشاہت کے لیے موت سے کم نہیں۔ کہتے ہیں کہ جاگیرداری‘ سرداری یا فیوڈلزم ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے۔ اس کیفیت کو اپنے اوپر طاری کرنے کے لیے لازم نہیں کہ ملکیت میں زمین بھی ہو۔ ہمارے اکثر اہلِ سیاست ذہنی طور پر شہری ہونے کے باوجود‘ فیوڈل ذہنیت رکھتے ہیں۔ وہ ''نہ‘‘ تو سننا ہی نہیں چاہتے! دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ نوکر شاہی جس طرح حالتِ رکوع میں ہو کر احکام کی تعمیل کرتی ہے‘ ضلعی ناظم یا ضلعی حکومتوں کے سربراہ اس طرح کبھی نہیں کریں گے! ضلعی حکومت کا سربراہ سیاستدان ہو گا۔ وہ چیف منسٹر سے براہِ راست رابطہ رکھنے کی کوشش کرے گا۔ اس سے رعب کم ہونے کا خدشہ ہے۔ اس کے مقابلے میں ڈپٹی کمشنر چیف سیکرٹری یا پرنسپل سیکرٹری سے اوپر بات کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔وہ تو ''تھرو پراپر چینل‘‘ کی زنجیروں میں جکڑا ہوا روبوٹ ہے۔ اس کی زندگی کے دو مقاصد ہیں۔ اول اگلی تعیناتی کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا اور اس مقصدِ جلیلہ کے حصول کے لیے حکامِ بالا کو خوش رکھنا۔ دوم اگلے گریڈ میں ترقی۔ ضلع کی فلاح وبہبود اگر تیسرے نمبر پر بھی اس کی ترجیح ہو تو غنیمت ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ڈپٹی کمشنر نے دو یا تین سال ضلع میں گزارنے ہیں اس کے بعد‘ اکثر حالات میں‘ ساری زندگی اس نے ضلع کی زمین پر پاؤں نہیں دھرنے! اس کی جوتی کو بھی پروا نہیں کہ اس کے بعد کیا ہو گا؟ آپ خود سوچیے اس مائنڈ سیٹ کے ساتھ اس نے عوام کی کیا خدمت کرنی ہے؟ عوام کے ساتھ تو اس کا براہِ راست رابطہ ہی نہیں۔
جمہوریت کی روح عوام کو جوابدہی ہے۔ ضلع کا ڈپٹی کمشنر ہو یا وفاقی دارالحکومت کا چیف کمشنر یا ترقیاتی ادارے کا چیئرمین‘ عوام کو جوابدہ نہیں! یہ تو عوام کو ملتے ہی نہیں۔ ان سے تو فون پر بات کرنا ناممکن ہے۔ یہ ذہنی طور پر سو سال پہلے کی دنیا میں رہ رہے ہیں۔ رعونت مآب ہیں اور صاحب بہادر!
تم ہمیں کیا نئی منزل کی بشارت دو گے
تم تو رستہ نہیں دیتے ہمیں چلنے کے لیے
ڈپٹی کمشنری کا یہ فرسودہ‘ ازکار رفتہ اور مکروہ نظام دنیا کے کسی مہذب‘ جمہوری ملک میں رائج نہیں! یورپ اور امریکہ کو تو چھوڑیے‘ بھارت نے اپنے آئین کی 73ویں اور 74ویں ترامیم کے ذریعے مقامی حکومتوں کو انتظامی اختیارات بھی دیے اور فنڈز بھی! جب تک مقامی حکومتیں انتخابات کے ذریعے وجود میں نہیں آتیں اور جب تک انہیں مالیاتی خود مختاری نہیں حاصل ہوتی‘ جمہوریت ہمارے ہاں صرف نام کی ہے اور دنیا میں ہمارے لیے ہرگز قابلِ عزت نہیں۔ وہی کلائیو اور کرزن والا زمانہ بدستور چل رہا ہے۔ بس اتنا فرق پڑا ہے کہ پہلے وڈیرے اور گدی نشین‘ اچکنیں لشکاتے‘ طرے لہراتے‘ عید کے موقع پر انگریز ڈپٹی کمشنر کی کوٹھی کے لان میں کھڑے رہتے تھے۔ کافی دیر کے بعد ڈپٹی کمشنر کا نوکر اندر سے آکر بتاتا کہ صاحب نے عید مبارک قبول کر لی ہے۔ اس پر یہ ٹوڈی ایک دوسرے سے معانقے کرتے اور مبارکبادیں دیتے! اب ڈپٹی کمشنر کوٹھی کے اندر بلا لیتا ہے اور چائے کی پیالی بھی پلا دیتا ہے!! اور ہاں‘ یہ وڈیرے اے سی اور ڈی سی کے گھر بھینس بھی بھجوا دیتے ہیں! وہی اڑھائی سو سال پرانا سسٹم!
انجم غریبِ شہر تھے اب تک اسیر ہیں
سارے ضمانتوں پہ رہا کر دیے گئے