Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, February 04, 2025

وہاں روسی رسم الخط! یہاں انگریزی زبان

!!

استعمار دور اندیش ہوتا ہے۔ وہ ایسے اقدامات اٹھاتا ہے کہ ظاہری غلامی ختم ہو بھی جائے تو تہذیبی غلامی ہمیشہ رہے! اپنے ملک کی مثال ہی لے لیجیے۔ پون صدی ہو چکی ابھی تک انگریزی مسلط ہے۔ بینک کے چیک سے لے کر بجلی کے بل تک‘ سب کچھ انگریزی میں ہے۔ سارا کاروبارِ مملکت فرنگی زبان میں چل رہا ہے۔ بظاہر تبدیلی کا امکان بھی نہیں! ترکی میں دیکھ لیجیے کیا ہوا۔ استعمار تو نہ تھا مگر لباس اور رسم الخط کی تبدیلی بہت بڑا تہذیبی دھچکا تھا۔ آپ کو یاد ہوگا چند برس پہلے صدر اردوان نے کوشش کی تھی کہ اصل رسم الخط کی طرف‘ جو اتا ترک سے پہلے تھا‘ مراجعت کی جائے۔ صدر اردوان کے الفاظ کچھ اس قسم کے تھے کہ اپنے باپ دادا کی قبروں کے کتبے تو پڑھ سکو! اس پر مغرب نے واویلا کیا اور آسمان سر پر اٹھا لیا کہ عثمانی (آٹومن) رسم الخط واپس لانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس قبیل کی باتیں بھی پھیلائی گئیں کہ سلطنت عثمانیہ کا احیا کیا جا رہا ہے۔ وسط ایشیائی ملکوں پر روسی رسم الخط مسلط کر کے روسی استعمار نے اپنی جڑیں زمین کے اندر دور تک پھیلا دیں۔ بظاہر استعمار کو گئے تین عشروں سے زائد کا عرصہ ہو چکا مگر روسی رسم الخط ایک پہاڑ کی مثل پہلے کی طرح ہی کھڑا ہے۔ اس رسم الخط نے ان ریاستوں کو باقی دنیا سے بدستور کاٹ کر رکھا ہوا ہے اور تعلیم‘ صنعت‘ زراعت‘ میڈیا سمیت ہر شعبے میں روس سے وابستہ کیا ہوا ہے۔ رسم الخط بدلنے کی ہر کوشش‘ جو ان ریاستوں نے کی‘ ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکی۔
سب سے پہلے ازبکستان نے فیصلہ کیا کہ روسی کی جگہ لاطینی رسم الخط رائج کیا جائے۔ 1993ء میں ازبک حکومت نے قانون بھی پاس کر دیا۔ رسم الخط بدلنے کیلئے فنڈز درکار ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی سیاسی اور معاشرتی الجھنیں بھی ابھر آتی ہیں۔ ازبک حکومت کو یہ مشکلات نظر آ رہی تھیں۔ قانون تو منظور ہو گیا تھا مگر اس کا عملی نفاذ آسان نہیں تھا؛ چنانچہ پارلیمنٹ نے عملیت پسندی اور حقیقت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے ایک اور قانون منظور کیا کہ نئے رسم الخط کا نفاذ مرحلہ وار ہو گا اور یہ تبدیلی مکمل طور پر 2010ء تک واقع ہو گی۔ مگر عملی طور پر ایسا نہ ہو سکا۔ آج بھی روسی رسم الخط رائج ہے۔ ہر جگہ پڑھا‘ لکھا‘ سمجھا اور قبول کیا جاتا ہے۔ لاطینی رسم الخط بھی چل رہا ہے مگر لُولے لنگڑے انداز میں۔ 2017ء میں قازقستان کے صدر نور سلطان نذر بے نے حکم جاری کیا کہ ملک میں روسی رسم الخط کی جگہ لاطینی رسم الخط لایا جائے گا۔ مگر آج بھی روسی رسم الخط وہاں غالب ہے۔ سب سے بڑی رکاوٹ روس کا منفی پروپیگنڈا ہے۔ فوراً شور برپا ہو جاتا ہے کہ یہ اُن روسیوں کے بنیادی حقوق کا مسئلہ ہے جو ان ریاستوں میں آباد ہیں۔ ساتھ ہی اس ایشو کو سیاسی رنگ دیا جاتا ہے کہ یہ روس کے دائرۂ اثر کو کم کرنے کی کوشش ہے۔ سوویت یونین تو اپنی موت مر چکا مگر روس کا سامراجی طرزِ فکر جوں کا توں موجود ہے۔ وہ اپنے زعم میں ان ریاستوں کا سرپرست ہے اور رہنما۔ رسم الخط بدلنے سے اس کے سیاسی اور عسکری غلبے کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے روسی میڈیا‘ روسی حکومت اور روس کی اَپر کلاس‘ سب وسط ایشیائی ریاستوں کی اُن تمام کوششوں کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں جو وہ رسم الخط بدلنے کے لیے کی جا رہی ہیں!ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ اس لٹریچر کا کیا بنے گا جو روسی رسم الخط میں شائع ہو چکا ہے اور لاکھوں کتابوں کی شکل میں موجود ہے۔ مگر جب رسم الخط عربی سے لاطینی اور پھر روسی کیا گیا تھا تو اس وقت یہ سوال کیوں نہ اٹھایا گیا؟
اس مسئلے میں ایک پیچیدگی بھی نظر آتی ہے۔ کیا ان ریاستوں کی حکومتیں‘ یعنی برسر اقتدار طبقہ‘ صدقِ دل سے رسم الخط کی تبدیلی چاہتا ہے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈتے اور دیتے ہوئے یہ حقیقت سامنے رکھنی چاہیے کہ ان ریاستوں میں بدترین قسم کی آمریت رائج ہے۔ حکمران وہی چلے آ رہے ہیں جو سوویت یونین کے انہدام سے پہلے بھی کسی نہ کسی صورت اقتدار میں تھے۔ روسی رسم الخط کا سب سے زیادہ فائدہ اسی کلاس کو ہے۔ اس رسم الخط کی وجہ سے عوام جمہوری دنیا سے کٹے ہوئے ہیں۔ انہیں معلوم ہی نہیں باقی دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ انٹرنیٹ بھی ان کے لیے بیکار ہے۔ انٹرنیٹ پر بھی وہ وہی کچھ پڑھیں اور جانیں گے جو روسی زبان میں موجود ہوگا۔ یوں روسی رسم الخط‘ آمریت کے لیے ایک سہارے سے کم نہیں۔ لاطینی رسم الخط آمریت کے لیے خطرے کی گھنٹی ثابت ہو سکتا ہے۔ عوام ذہنی طور پر بیدار ہو گئے اور ہم عصر دنیا کے حقائق سے آشنا‘ تو آزاد اور صاف ستھرے انتخابات کا مطالبہ کریں گے!! پاکستان میں بھی کم وبیش یہی صورت حال ہے۔ بیورو کریسی اردو کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس وقت بیورو کریسی ایک ایسی کلاس ہے جو انگریزی کی وجہ سے عوام سے دور ہے۔ کل سرکاری احکام کی زبان اردو ہو گئی تو بیورو کریسی کا سامراجی رنگ پھیکا پڑ جائے گا۔ کابینہ ڈویژن‘ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں جو بیورو کریٹ براجمان ہیں وہ فائلوں پر جو کچھ لکھتے ہیں‘ انگریزی میں لکھتے ہیں۔ سرکاری احکام انگریزی میں جاری کرتے ہیں۔ اس سے انہیں عوام سے الگ ایک خاص مقام حاصل ہے۔ یہ مقام مکروہ سہی‘ ہے تو اعلیٰ! چنانچہ وہ اردو کو نافذ کر کے عوام کے ساتھ شراکتِ اقتدار کبھی نہیں کریں گے!! تقریریں اردو کے حق میں ہوتی رہیں گی! نعرے لگائے جاتے رہیں گے۔ کانفرنسیں ہوتی رہیں گی! پانی کے ڈول نکالے جاتے رہیں گے مگر کتے کی لاش کنویں کے اندر ہی رہے گی! چھتیس برس اعلیٰ بیورو کریسی کا حصہ ہونے کی وجہ سے مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ بیورو کریسی کے جسم میں پیپ کہاں پڑی ہوئی ہے‘ اور اس پیپ کا علاج کس نشتر میں ہے۔ یہ موضوع تفصیل کا متقاضی ہے!
تاجکستان کی طرف واپس آتے ہیں۔ تاجکستان وسط ایشیا کی واحد ریاست ہے جو ترکی الاصل (Turkic) نہیں ہے بلکہ فارسی الاصل ہے۔ اس کے لیے فارسی رسم الخط کی طرف واپس آنا‘ دوسری ریاستوں کی نسبت آسان ہے۔ دوسری ریاستوں کے سامنے کوئی ماڈل موجود نہیں مگر تاجکستان‘ ایران اور افغانستان سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ یہ دونوں ممالک کاروبارِ حکومت فارسی زبان کے ذریعے چلا رہے ہیں اور دونوں میں رسم الخط فارسی ہی ہے۔ کی بورڈ سے لے کر ویب سائٹس تک ہر شے تیار ہے۔ صرف ''گنجور‘‘ ویب سائٹ ہی کا اندازہ لگائیے۔ فارسی ادب کے تمام ذخائر‘ کیا نثر اور کیا شاعری ''گنجور‘‘ میں دستیاب ہیں۔ مگر اس کے باوجود معاملہ اس قدر سادہ نہیں۔ فرض کیجیے تاجکستان فارسی عربی رسم الخط کی طرف پلٹنے کا اعلان کرتا ہے۔ فوراً پہلا اعتراض یہ کیا جائے گا کہ اس سے وسط ایشیا میں انتہا پسندی پھیلے گی۔ بدقسمتی سے اس وقت افغانستان اور ایران کی حکومتوں کو انتہا پسندی کے ساتھ بریکٹ کیا جاتا ہے! تاجکستان کی حکومت رسم الخط تبدیل کر کے ان ملکوں کے دروازے اپنے ملک میں کیوں کھولے گی؟؟ رسم الخط کی تبدیلی روس کو تو خیر کیا راس آئے گی‘ خود ان ریاستوں کی حکومتوں کو راس نہیں آ سکتی! چنانچہ یہ طے ہے کہ ان ملکوں میں‘ بشمول تاجکستان‘ غالب رسم الخط روسی ہی رہے گا۔ بالکل اسی طرح جیسے پاکستان میں اردو کے نفاذ کا خواب ایک سراب سے زیادہ نہیں!! بقول محب عارفی
شریعت خس و خار ہی کی چلے گی
علم رنگ و بو کے نکلتے رہیں گے
مچلتے رہیں روشنی کے پتنگے
دیے میرے کاجل اگلتے رہیں گے
رواں ہر طرف ذوقِ پستی رہے گا
بلندی کے چشمے ابلتے رہیں گے

Monday, February 03, 2025

تاجکستان کا رسم الخط …غلطیاں اور غلط فہمیاں

Tajiki or persian Tajik is a dialect of Persian written in Cyrillic. Anyone passionate about the Persian language can learn Tajik Script.
''تاجکی یا تاجک فارسی‘ فارسی کا ایک لہجہ ہے جو روسی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ فارسی زبان کا کوئی بھی شائق تاجکی رسم الخط سیکھ سکتا ہے‘‘۔
''تناقض فی الاصطلاح‘‘ 

(Contradiction in terms) 

کا یہ مایوس کُن مظاہرہ میڈیا کرتا یا کوئی اور‘ تو قابلِ توجہ نہ ہوتا مگر یہ اعلان ایک یونیورسٹی کی طرف سے ہے۔ ایک ایسی یونیورسٹی جو زبانوں کی تعلیم کے لیے معروف ہے اور دارالحکومت کی بااعتبار یونیورسٹیوں میں سرفہرست ہے۔ یہ اعلان تاجکی پڑھانے کے کسی پروگرام کے حوالے سے ہے۔ جس طرح تاریخ پڑھانے کے لیے فلسفۂ تاریخ کا علم لازم ہے اور جس طرح اقتصادیات کے استاد کے لیے ترقی یافتہ ملکوں کی معاشی تاریخ کا علم ضروری ہے‘ بالکل اسی طرح زبان پڑھانے کے لیے اس زبان کی تاریخ اور تاریخی ادوار سے آشنائی ازحد ضروری ہے۔ اب اگر پڑھانے والا روسی اور تاجکی رسم الخط کو متبادل لفظ کے طور پر استعمال کر رہا ہے‘ اور وہ بھی ایک یونیورسٹی میں‘ تو یہ علم کے ساتھ زیادتی ہے۔
تاجکی زبان روسی رسم الخط 

(Cyrillic) 

میں لکھی جا رہی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ازبک‘ قازق اور کرغستانی زبانیں روسی رسم الخط میں لکھی جا رہی ہیں۔ اگر اسے تاجکی رسم الخط کہیں گے تو پھر کیا یہ بھی کہیں گے کہ قازق اور ازبک بھی تاجکی رسم الخط میں لکھی جا رہی ہیں؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں کہہ سکتے! اگر برطانوی استعمار‘ برصغیر کی زبانوں پر خدا نخواستہ‘ انگریزی رسم الخط مسلط کرتا اور ہم اردو انگریزی رسم الخط میں لکھ رہے ہوتے تو کیا ہم اسے اردو رسم الخط کہتے؟ نہیں بلکہ اسے انگریزی رسم الخط کہتے۔ ترکی لاطینی رسم الخط میں لکھی جا رہی ہے۔ اسے ترکی رسم الخط نہیں کہا جاتا۔ لاطینی ہی کہا جاتا ہے۔
مظالم تو انگریزوں نے برصغیر پر بھی بہت کیے مگر جو سلوک روسیوں نے ترکستان کے ساتھ کیا‘ اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ انیسویں صدی کے وسط میں ٹوٹل بائیس سال کے عرصہ میں زار کی فوجوں نے وہ سارا ترکستان‘ جو سیر دریا کے جنوب میں تھا‘ فتح کر لیا۔ فاتح ترکستان جنرل کوف فرغانہ کی ایک مسجد میں سجدے میں گئے ہوئے نمازیوں کی گردنوں پر پاؤں رکھ کر گزرا۔ پہلی عالمی جنگ کے خاتمے پر بالشویک انقلاب آ گیا۔ سرخ انقلابیوں نے سادہ دل ترکستانیوں کو آزادی کا لالچ دے کر ساتھ ملا لیا اور جب زار سے فارغ ہوئے تو وعدے سے پھر گئے۔ جسے تفصیل میں دلچسپی ہو‘ اسے بسماچی تحریک کی تاریخ پڑھنی چاہیے جو ترکستان کی آزادی کے لیے چلی تھی۔ قصہ مختصر‘ غلام ترکستان زارِ روس سے بالشویک اشتراکیت کو منتقل ہوا۔ اشتراکیوں نے غلامی کو پختہ تر کرنے کے لیے دو زبردست کام کیے۔ ایک یہ کہ ترکستان کو پانچ ریاستوں میں تقسیم کر دیا جو آج قومی ریاستوں (نیشن سٹیٹس) کے طور پر قازقستان‘ ازبکستان‘ کرغزستان‘ تاجکستان اور ترکمانستان کے ناموں سے جانی جاتی ہیں۔ یہ تقسیم اس طرح کی گئی کہ لسانی ہم آہنگی نہ پیدا ہو۔ مثال کے طور پر فارسی بولنے والے دو بڑے شہر‘ سمرقند اور بخارا‘ تاجکستان کے بجائے ازبکستان میں ڈال دیے گئے۔ یہ تقسیم مکمل طور پر بندر بانٹ تھی۔ دوسرا بہت بڑا قدم روسی استعمار نے جو اٹھایا وہ رسم الخط کی جبری تبدیلی تھی۔ عربی رسم الخط کے بجائے لاطینی رسم الخط بزور نافذ کیا گیا۔ اس کے دو مقاصد تھے۔ اول ان ملکوں کو باقی مسلم دنیا سے تہذیبی طور پر کاٹ دینا۔ دوم‘ انہیں اپنے ماضی کے ادبی اور علمی ورثے سے بھی الگ کر دینا اور تہذیبی طور پر مغرب کا دست نگر کر دینا۔ بدقسمتی سے اتا ترک نے ترکی میں لاطینی رسم الخط نافذ کیا تو سوویت استعمار کے دل میں ڈر پیدا ہوا کہ اس طرح یہ ریاستیں ترکی کے قریب ہو جائیں گی۔ چنانچہ رسم الخط دوسری بار تبدیل کر دیا گیا۔ اس بار سیدھا سیدھا روسی رسم الخط مسلط کیا گیا۔ اس سے تاجکستان سمیت ساری ریاستیں ایک بار پھر ایک درد ناک مرحلے سے گزریں۔ سب سے زیادہ قابلِ رحم حالت ترکی کی ہے جو دنیا کی واحد زبان ہے جو آج بیک وقت چار رسم الخط بھگت رہی ہے۔ اول لاطینی رسم الخط جو ترکیہ میں رائج ہے۔ دوم روسی الخط جو وسط ایشیا میں رائج ہے۔ سوم عربی فارسی رسم الخط جو افغانستان کے ازبک استعمال کر رہے ہیں۔ (کیا آپ کو معلوم ہے کہ شمالی افغانستان کو ترکستان صغیر کہا جاتا ہے) اور چوتھا رسم الخط جو سنکیانگ کے ایغور ترک استعمال کر رہے ہیں! یہ ترک ایک دوسرے سے بات چیت کر سکتے ہیں مگر ایک دوسرے کی تحریر نہیں پڑھ سکتے۔ نوے کے عشرے میں جب وسط ایشیائی ریاستوں سے تاجروں کے وفود آنے لگے تو میرے استاد جناب اسد اللہ محقق‘ جو افغان ازبک تھے‘ ان وفود کی ترجمانی کے فرائض سر انجام دیا کرتے تھے۔ وہ اُس زمانے میں نمل میں تاجکی کے استاد کے طور پر بھی کام کرتے تھے۔ جناب اسد اللہ محقق صحیح معنوں میں ہفت زبان تھے اور اردو‘ فارسی‘ ازبک‘ پشتو‘ روسی‘ عربی اور انگریزی پر عبور رکھتے تھے۔ میں ازبک پڑھنے کے لیے دو سال ان کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا!
رسم الخط کی تبدیلی سے سوویت استعمار اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب ہوا۔ کروڑوں کتابیں راتوں رات بے معنی ہو گئیں۔ لائبریریاں علم کی لاشوں میں بدل گئیں۔ تمام علمی‘ ادبی‘ دینی اور سماجی کتب کے ذخیرے کو نئے رسم الخط میں بدلنا ممکن ہی نہ تھا۔ رسم الخط ایک قوم کی شناخت ہوتا ہے۔ یہ تہذیبی لباس کا درجہ رکھتا ہے‘ روسیوں نے ظاہری لباس کو بھی تبدیل کر دیا اور تہذیبی لباس کو بھی! نہلے پر دہلا یہ ہوا کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد جو لوگ ان ریاستوں پر آمرانہ اقتدار قائم رکھے ہوئے ہیں وہ اندر سے روسی ہی ہیں۔ کچھ کی بیگمات روسی ہیں۔ یوں روس کے غیر مرئی اثر ونفوذ میں کوئی قابل ذکر کمی نہیں آئی۔ میں وسط ایشیا کے کئی بڑے بڑے شہروں میں کئی بار گیا ہوں خاص طور پر بخارا اور سمرقند کی گلی گلی‘ کوچہ کوچہ ماپا ہے۔ ہفتوں خاک چھانی ہے۔ یوں لگتا ہے سب کچھ وہی ہے مگر زبان (جِیب) کاٹ دی گئی ہے۔ جیسے درمیان میں دیوار نہیں‘ پردہ ضرور لٹکا ہوا ہے۔ فارسی وہی ہے جسے ہم دری کہتے ہیں۔ (غنیمت ہے کہ نام نہاد تہرانی لہجہ جس نے برصغیر کی فارسی کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے‘ سمرقند اور بخارا میں نہیں پہنچ سکا۔ وہاں فارسی اسی طرح شفاف اور خالص ہے جیسی صدیوں یہاں پڑھی جاتی رہی اور پڑھائی جاتی رہی) مگر جیسے ہی آپ کسی کو فارسی میں کچھ لکھ کر دیتے ہیں یا کوئی آپ کو کچھ لکھ کر دیتا ہے تو تاریکی کا ایک پردہ درمیان میں تن جاتا ہے۔ اگر آپ روسی حروفِ تہجی سے نابلد ہیں تو فارسی اور ترکی جانتے ہوئے بھی اَن پڑھ ہیں۔ بدقسمتی کا اندازہ لگائیے کہ آپ درجنوں بار بھی جائیں تو کوئی کتاب نہیں خرید سکتے۔ کتاب فروشوں کے پاس جو کچھ ہے‘ سب روسی رسم الخط میں ہے۔ آپ کسی لائبریری سے متمتع نہیں ہو سکتے۔ جامی اور علی شیرنوائی کے مجسمے تو دیکھ سکتے ہیں مگر ان کی سوانح‘ ان کا کلام نہیں پڑھ سکتے!
کیا کوئی امکان ہے کہ مستقبل میں‘ تاجکستان سمیت ان وسط ایشیائی ریاستوں میں اصل رسم الخط‘ روسی رسم الخط کی جگہ لے سکے؟ اس پر گفتگو ہم کل کی نشست میں کریں گے۔

 

powered by worldwanders.com