اشاعتیں

فروری, 2025 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

خواجہ آصف۔ بارش کا پہلا قطرہ

ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے تین باتیں کہی ہیں۔ اوّل یہ کہ افغان جہاد درست نہ تھا۔ دوم یہ کہ اسّی کی دہائی میں نصاب کو مسخ کیا گیا کیونکہ ہم نے افغان جہاد کی تیاری کرنا تھی۔ اقتدار کو طول دینے کے لیے نصاب میں وہ پڑھایا گیا جس کا حقیقت سے تعلق نہیں۔ ہمارا جغرافیہ 71ء میں بدلا گیا اور نصاب اسّی کی دہائی میں تبدیل کیا گیا۔ سوم یہ کہ جنگ ختم ہو گئی مگر افغان مہاجرین ابھی تک یہیں بیٹھے ہیں۔ خواجہ آصف مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما ہیں۔ ان کے والد مرحوم جنرل ضیا کے رفقا میں سے تھے اور جنرل صاحب کی اُس مجلسِ شوریٰ کے چیئرمین تھے جو مرغانِ دست آموز  (Hand picked persons)  پر مشتمل تھی۔ خواجہ آصف نے یہ اخلاقی جرأت دکھائی کہ ایک ڈکٹیٹر کا ساتھ دینے پر اپنے والد کی طرف سے قوم سے معافی مانگی۔ مسلم لیگ (ن)‘ خواجہ آصف جس کے دیرینہ رکن ہیں‘ آغاز میں جنرل ضیا الحق ہی کی پروڈکٹ تھی۔ جنرل صاحب نے یہاں تک کہا تھا کہ ان کی عمر میاں نواز شریف کو لگ جائے۔ جنرل ضیاالحق کی وفات کے بعد میاں صاحب ان کی برسی بھی اٹینڈ کرتے رہے۔ جب میاں صاحب وزیراعظم بنے تو جنرل ضیا الحق کی بیوہ...

ہمارے چوہدری صاحب

چوہدری صاحب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ منطق اور عقل ان کے رہنما ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کے سارے فیصلے سو فیصد عقل کی بنیاد پر کیے ہیں اور اللہ کے فضل وکرم سے سب ٹھیک ثابت ہوئے۔ سوچ سمجھ کر بچوں کے رشتے طے کیے۔ عقل کو بروئے کار لا کر بزنس کیا‘ مکان تعمیر کیا۔ انگریزی میں کوئی تبصرہ کرے تو چوہدری صاحب کو ضرور  Rational  کہے گا۔ ان کی زندگی میں توہم پرستی اور ضعیف الاعتقادی کی کوئی گنجائش نہیں۔ مذہب کے حوالے سے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ فرائض سرانجام دیں اور کبائر سے اجتناب کریں۔ مگر وہ ان بکھیڑوں میں نہیں پڑتے کہ کسی مزار کی طرف پیدل چل پڑیں۔ یہ اکبر بادشاہ کا طریقہ تو ہو سکتا ہے مگر اہلِ بیتؓ اور صحابہ کرامؓ کے ہاں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ کسی کے بارے میں رائے دینی ہو تو چوہدری صاحب اس کا پورا پروفائل دیکھ کر رائے دیتے ہیں۔ غلطی ان کا قریبی عزیز بھی کرے تو اسے غلطی ہی کہتے ہیں۔ یہ سب کچھ تو ہے‘ مگر ان کی شخصیت میں ایک عجیب وغریب تضاد ہے جو حیران کن ہے۔ جب ان کے پسندیدہ لیڈر کی بات ہو تو ان کی ساری عقلیت‘ منطق پرستی‘  rationalty  غائب ہو جاتی ہے۔ اس معاملے میں وہ شخصیت پرست...

مہمان کرکٹ ٹیموں کا حق ہم ادا ہی نہیں کر رہے

! نوجوان غصے میں تھا۔ نوجوان مشتعل تھا۔ نوجوان بر افروختہ تھا۔ نوجوان دُکھی تھا۔ میں وفاقی دارالحکومت کے قدیم ترین اور سب سے بڑے بازار آب پارہ‘ میں پھر رہا تھا۔ جیسا کہ میں نے اپنے پڑھنے والوں کو بتایا تھا‘ میں کبھی کبھی اس بازار کا چکر لگاتا ہوں۔ یہاں اصل پاکستان دیکھنے کو ملتا ہے۔ واکنگ سٹک پکڑے‘ سر پر ٹوپی اوڑھے‘ کئی موسموں اور کئی برسوں سے گزری ہوئی جیکٹ پہنے‘ جب اس گنجان بازار کا چکر لگاتا ہوں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میں اپنے ملک سے اور اپنے لوگوں سے بغل گیر ہو رہا ہوں۔ ادھیڑ عمر شخص‘ جو مشین سامنے رکھے چھریاں اور قینچیاں تیز کر رہا ہے۔ پھلوں کا رس بیچنے والا‘ جو گاہکوں کی بھیڑ سے نمٹ رہا ہے۔ ٹوکرے میں کچھ پھل رکھے بوڑھا‘ جو گزرتے گاہکوں کو دیکھے جا رہا ہے۔ قصاب جو بکرے لٹکائے‘ خریداروں سے بحث کر رہے ہیں۔ ریستوران سے باہر بیٹھا لڑکا جو آلو چھیلے جا رہا ہے۔ کباڑیا جو دکان میں پرانے لوہے کے مال واسباب میں گھرا‘ ردی تول رہا ہے۔ تنگ سی گلی کی چھوٹی چھوٹی ڈربہ نما دکانوں میں‘ قطار اندر قطار بیٹھے درزی جو سر جھکائے سلائی مشینیں چلائے جا رہے ہیں۔ فریموں کی دکان کے اندر‘ تصویروں ...

پنجاب کے سرکاری کالج اور دیگر مسئلے

ایک معاصر نے گورنمنٹ کالج اصغر مال راولپنڈی کے بارے میں ایک نوٹ شائع کیا ہے۔ یہ کالج پوٹھوہار میں سرکاری سیکٹر کا قدیم ترین تعلیمی ادارہ ہے۔ پروفیسر اشفاق علی خان اور ڈاکٹر سید صفدر حسین جیسے مشاہیر یہاں پرنسپل رہے ہیں۔ ہم جیسے طالب علموں نے بھی یہیں سے گریجوایشن کی۔ امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ کالج میگزین کی ایڈیٹری کی۔ کتابیں بھی لکھیں۔ ماڑے موٹے انعامات اور اعزازات بھی حاصل کیے‘ مگر کالج کے سابق طلبہ کا ذکر ہو تو نام کھلاڑیوں اور اداکاروں کے لیے جاتے ہیں! بقول مجید امجد: دنیا تیرا حُسن یہی بد صورتی ہے! چند ماہ پہلے کالج کے پرنسپل‘ معروف عربی دان‘ پروفیسر ڈاکٹر محسن کبیر نے کالج میں مدعو کیا اور طلبہ اور طالبات سے گفتگو کرنے کا موقع دیا۔ کالج کی مجموعی حالت دیکھ کر شدید رنج پہنچا۔ اس کالج کی اصل شناخت اُس قدیم عمارت سے ہے جو 1903ء میں تعمیر ہوئی تھی۔ تب یہ سناتن دھرم ہائی سکول تھا۔ پاکستان بنا تو اسے کالج کا درجہ دیا گیا۔ المیہ یہ ہے کہ یہ اصل عمارت کھنڈر بن چکی ہے۔ پُرشکوہ مینار زبانِ حال سے اپنی ویرانی کا ماتم کر رہے ہیں! برآمدے گریہ کر رہے ہیں۔ فرش اُکھڑے ہوئے ہیں۔ عمارت کا بی...

کیا ادیب‘ شاعر ہونے کیلئے بیروزگاری ضروری ہے؟

میرا دوست لاہور‘ پنجاب سیکرٹریٹ میں تعینات تھا۔ میں اسے ملنے کے لیے پہنچا تو وہ اپنے دفتر کے باہر کھڑا گاڑی کا انتظار کر رہا تھا۔ گاڑی آئی تو اس نے اپنے ساتھ مجھے بھی بٹھا لیا۔ پوچھا: کہاں جا رہے ہو؟ کہنے لگا: یار اقبال ساجد آ رہا ہے‘ اس لیے فی الحال بھاگنے ہی میں عافیت ہے‘ اس نے آکر پیسے ہی مانگنے ہیں۔ اب بندہ کب تک دیتا رہے۔ اقبال ساجد باکمال شاعر تھا مگر مستقل ذریعۂ آمدنی کوئی نہیں تھا۔ مانگ تانگ کر گزر اوقات ہوتی تھی۔ یہ مصرع اُسی کی ایک غزل کا ہے۔ میں بھوک پہنوں‘ میں بھوک اوڑھوں‘ میں بھوک دیکھوں‘ میں پیاس لکھوں اقبال ساجد کے علاوہ بھی کچھ ادیب اور شاعر ایسے گزرے ہیں جن کا مستقل ذریعۂ آمدنی نہیں تھا‘ ان سب کی کہانیاں مشہور ہیں۔ یہ قصہ اس لیے یاد آیا کہ چند دن پہلے پاکستان اکادمی ادبیات نے ملک کے اطراف واکناف سے 20 نوجوان ادیبوں اور شاعروں کو اسلام آباد مدعو کیا تھا۔ اکادمی نے ان کے قیام وطعام کا بندو بست کیا تھا۔ انہوں نے اسلام آباد کے شاعروں اور ادیبوں سے ملاقاتیں کیں۔ ایک شام انہوں نے میرے ساتھ بھی بسر کی۔ جہاں اور بہت سی باتیں ہوئیں وہاں میں نے انہیں اس بات کی بھی تلقی...

ایک کالم پنجاب پولیس کی تعریف میں

پنجاب پولیس سے میری محبت بے وجہ نہیں! یہ جو میں پنجاب پولیس پر صدقے قربان ہوتا ہوں تو اس کے پیچھے اس کی بے مثال فرض شناسی ہے۔ پنجاب پولیس کا بنیادی فرض کیا ہے؟ جرائم کی روک تھام! اس وقت جب یہ کالم لکھا جا رہا ہے‘ سامنے لاہور کی خبروں والا صفحہ کھلا ہے۔ لکھا ہے‘ کاہنہ سے ایک لاکھ 35 ہزار نقد اور زیورات‘ گرین ٹاؤن سے ایک لاکھ تیس ہزار روپے اور موبائل فون‘ غازی آباد سے ایک لاکھ بیس ہزار روپے اور موبائل فون‘ مغل پورہ سے ایک لاکھ دس ہزار روپے اور موبائل فون‘ لاری اڈا سے ایک لاکھ پانچ ہزار روپے اور موبائل فون اور دیگر سامان لوٹ لیا گیا۔ ڈیفنس اور گارڈن ٹاؤن سے گاڑیاں جبکہ مزنگ‘ مانگا منڈی اور یکی گیٹ سے موٹر سائیکلیں چوری ہو گئیں۔ ایک دن پہلے کا اخبار دیکھتا ہوں۔ شمالی چھاؤنی سے ایک لاکھ بیس ہزار روپے اور زیورات‘ نشتر کالونی سے ایک لاکھ دس ہزار روپے اور موبائل فون‘ لیاقت آباد سے ایک لاکھ روپے اور موبائل فون‘ راوی روڈ سے ایک لاکھ روپے اور موبائل فون‘ گلشن راوی‘ انار کلی‘ ساندہ اور بادامی باغ سے گاڑیاں‘ فیصل ٹاؤن‘ شاہدرہ اور سول لائنز سے موٹر سائیکل چوری ہو گئے۔ تھانہ فیکٹری ایریا شیخوپو...

میڈم چیف منسٹر

مکان باپ کے نام تھا۔ وہ بیٹے کے نام کرانا چاہتا تھا۔ باپ بیٹا کچہری گئے۔ متعلقہ اہلکار نے 25 ہزار روپے مانگے۔ پوچھا کہ کیا اس کی رسید ملے گی۔ جواب ملا کہ رسید ملے گی نہ اب کام ہو گا۔ باپ بیٹے نے کسی نہ کسی طرح ایڈیشنل کمشنر ریونیو کو پکڑا۔ سفارش تگڑی تھی۔ چائے بھی پلائی گئی اور مکان کا انتقال بھی ہو گیا۔ سرکاری فیس ڈیڑھ ہزار روپے کے لگ بھگ تھی۔ گاؤں سے ایک عزیز کا فون آیا کہ زرعی رقبے کی نشان دہی کرانی ہے۔ بہت کوششیں کیں اور منت سماجت مگر متعلقہ سٹاف گھاس نہیں ڈال رہا۔ جو لوگ دیہی پس منظر رکھتے ہیں جانتے ہیں کہ ''نشان دہی‘‘ کیا چیز ہے اور کتنی ضروری ہے۔ تحصیلدار صاحب تک رسائی ہوئی۔ تب جا کر یہ کام ہوا۔ پنجاب ہی کی بات ہے۔ ہمارے ایک دوست نے زرعی فارم بنایا۔ شوق تھا۔ زندگی بھر کی پونجی لگا دی۔ اب پھر دیہی پس منظر کی بات آگئی۔ ایک شے ہوتی ہے ''گرداوری‘‘۔ یہ محکمہ مال یعنی کچہری والے کرتے ہیں۔ متعلقہ محکمے نے اس کے لیے چار لاکھ روپے کا مطالبہ کیا۔ یہ فقط تین مثالیں پیش کی ہیں۔ کورٹ کچہری کی دنیا ہی الگ ہے۔ گاؤں ہو یا شہر‘ کورٹ کچہری سے چھٹکارا نہیں۔ زرعی زمین کے تو خیر ...

میں کا علاج ( ۲)

بات ہو رہی تھی کہ بادشاہ بھیس بدل کر راتوں کو شہروں میں گھومتے تھے۔ بہت سے دن کو بھی ایسا کرتے تھے۔ زبانی روایت ہے کہ سعودی بادشاہ عبد العزیز بھیس بدل کر تنور پر روٹی خریدنے گیا۔ روٹی کو تولا تو وزن کم تھا۔ اس نے تنورچی کو تنور میں ڈال دیا۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد آج تک روٹی کا وزن کم نہیں ہوا۔ ایک اور بادشاہ کی کہانی ہے کہ بھیس بدل کر دن کو بازار میں پھر رہا تھا۔ گھوڑا گاڑی والے سے کہا کہ فلاں جگہ جانا ہے۔ کیا اتنے روپے کافی ہوں گے۔ اس نے کہا اور اوپر جاؤ‘ بادشاہ نے کرائے کی رقم بڑھا دی۔ کوچوان نے کہا اور اوپر جاؤ‘ بادشاہ نے رقم اور بڑھا دی۔ کوچوان کہنے لگا‘ بجاؤ تالی۔ مطلب یہ تھا کہ ٹھیک ہے۔ سودا ہو گیا۔ بادشاہ گھوڑا گاڑی پر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد کوچوان کی چھٹی حِس نے اسے بتایا کہ یہ گاہک کوئی عام آدمی نہیں لگتا۔ پوچھا آپ کوئی عہدیدار ہیں؟ بادشاہ نے کہا: اوپر جاؤ۔ پوچھا: درباری ہیں؟ کہا: اور اوپر جاؤ۔ پوچھا بہت بڑے افسر ہیں؟ کہا: اور اوپر جاؤ۔ پوچھا: وزیر ہیں؟ کہا: اور اوپر جاؤ۔ پوچھا: وزیراعظم ہیں؟ کہا: اور اوپر جاؤ۔ اب کوچوان نے کہا کہ پھر آپ بادشاہ ہیں؟ بادشاہ نے کہ...

ایک اور کشمیر کانفرنس

ماشاء اللہ! ایک اور ''قومی کشمیر کانفرنس‘‘ منعقد ہو چکی! ذرا عزائم اور اعلانات دیکھیے: حکومت کشمیر پر اے پی سی بلائے۔ جنرل باجوہ کی کشمیر پر سودے بازی کی باتوں پر وضاحت دی جائے۔ عالمی برادری کشمیریوں کا حق خودارادیت تسلیم کرے۔ جموں وکشمیر کا تنازع کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ کشمیری متاثرین کو نیورمبرگ ٹرائلز  (Nuremberg Trials)  کی طرح بین الاقوامی فوجداری عدالت اور عالمی عدالت انصاف کے ذریعے انصاف دلایا جائے۔ یہ تو صرف فرشتوں ہی کو معلوم ہوگا کہ یہ کِتویں کشمیر کانفرنس تھی؟ ویسے پوچھا جا سکتا ہے کہ اب تک کی منعقد کردہ کشمیر کانفرنسوں پر آج تک قومی خزانے سے کتنا خرچ ہو چکا ہے اور ان کانفرنسوں سے آزادیٔ کشمیر کی منزل کس قدر نزدیک تر ہوئی؟ کچھ اور سوال بھی پوچھے جانے چاہئیں۔ حکومت اے پی سی بلائے گی تو پھر کیا ہوگا؟ کیا اس سے کشمیر آزاد ہو جائے گا؟ یہ کسے کہا جا رہا ہے کہ جنرل باجوہ کی کشمیر پر سودے بازی کی باتوں پر وضاحت دی جائے؟ جنرل باجوہ پاکستان میں موجود ہیں! آپ خود ان سے کیوں نہیں پوچھتے؟ اتنا آسان کام بھی دوسروں سے کرانا چاہتے ہیں! اور یہ مطالبہ کس سے ک...

وہاں روسی رسم الخط! یہاں انگریزی زبان

!! استعمار دور اندیش ہوتا ہے۔ وہ ایسے اقدامات اٹھاتا ہے کہ ظاہری غلامی ختم ہو بھی جائے تو تہذیبی غلامی ہمیشہ رہے! اپنے ملک کی مثال ہی لے لیجیے۔ پون صدی ہو چکی ابھی تک انگریزی مسلط ہے۔ بینک کے چیک سے لے کر بجلی کے بل تک‘ سب کچھ انگریزی میں ہے۔ سارا کاروبارِ مملکت فرنگی زبان میں چل رہا ہے۔ بظاہر تبدیلی کا امکان بھی نہیں! ترکی میں دیکھ لیجیے کیا ہوا۔ استعمار تو نہ تھا مگر لباس اور رسم الخط کی تبدیلی بہت بڑا تہذیبی دھچکا تھا۔ آپ کو یاد ہوگا چند برس پہلے صدر اردوان نے کوشش کی تھی کہ اصل رسم الخط کی طرف‘ جو اتا ترک سے پہلے تھا‘ مراجعت کی جائے۔ صدر اردوان کے الفاظ کچھ اس قسم کے تھے کہ اپنے باپ دادا کی قبروں کے کتبے تو پڑھ سکو! اس پر مغرب نے واویلا کیا اور آسمان سر پر اٹھا لیا کہ عثمانی (آٹومن) رسم الخط واپس لانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس قبیل کی باتیں بھی پھیلائی گئیں کہ سلطنت عثمانیہ کا احیا کیا جا رہا ہے۔ وسط ایشیائی ملکوں پر روسی رسم الخط مسلط کر کے روسی استعمار نے اپنی جڑیں زمین کے اندر دور تک پھیلا دیں۔ بظاہر استعمار کو گئے تین عشروں سے زائد کا عرصہ ہو چکا مگر روسی رسم الخط ایک پہاڑ کی مث...
تاجکستان کا رسم الخط …غلطیاں اور غلط فہمیاں Tajiki or persian Tajik is a dialect of Persian written in Cyrillic. Anyone passionate about the Persian language can learn Tajik Script. ''تاجکی یا تاجک فارسی‘ فارسی کا ایک لہجہ ہے جو روسی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ فارسی زبان کا کوئی بھی شائق تاجکی رسم الخط سیکھ سکتا ہے‘‘۔ ''تناقض فی الاصطلاح‘‘  (Contradiction in terms)  کا یہ مایوس کُن مظاہرہ میڈیا کرتا یا کوئی اور‘ تو قابلِ توجہ نہ ہوتا مگر یہ اعلان ایک یونیورسٹی کی طرف سے ہے۔ ایک ایسی یونیورسٹی جو زبانوں کی تعلیم کے لیے معروف ہے اور دارالحکومت کی بااعتبار یونیورسٹیوں میں سرفہرست ہے۔ یہ اعلان تاجکی پڑھانے کے کسی پروگرام کے حوالے سے ہے۔ جس طرح تاریخ پڑھانے کے لیے فلسفۂ تاریخ کا علم لازم ہے اور جس طرح اقتصادیات کے استاد کے لیے ترقی یافتہ ملکوں کی معاشی تاریخ کا علم ضروری ہے‘ بالکل اسی طرح زبان پڑھانے کے لیے اس زبان کی تاریخ اور تاریخی ادوار سے آشنائی ازحد ضروری ہے۔ اب اگر پڑھانے والا روسی اور تاجکی رسم الخط کو متبادل لفظ کے طور پر استعمال کر رہا ہے‘ اور وہ بھی ایک یونیورسٹ...