Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, October 28, 2024

نور مقدم


فروری 2022ء میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے نور مقدم کے قاتل کو سزائے موت سنائی اور ساتھ ہی پچیس سال کی قید بامشقت کی سزا بھی!
ایک سال ایک ماہ بعد‘ یعنی مارچ 2023ء میں‘ اسلام آباد ہائیکورٹ نے سزائے موت کی توثیق کر دی اور پچیس سال کی قید بامشقت کو بھی سزائے موت میں بدل دیا‘ یعنی سزائے موت دو بار دی جائے گی۔
ایک ماہ بعد یعنی اپریل 2023ء میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلے کے خلاف ملک کی سب سے بڑی عدالت میں اپیل دائر کر دی گئی۔ اپیل دائر کیے ہوئے صرف ڈیڑھ سال ہوا ہے۔
حیران کن امر یہ ہوا کہ مقتولہ کے والد نے چار دن پہلے نیشنل پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کر ڈالی۔ یہ اس کی مقتولہ بیٹی کی سالگرہ کا دن بھی تھا۔ والد نے دہائی دی کہ اپیل دائر کیے ڈیڑھ سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔ اور کوئی کارروائی نہیں ہو رہی۔ سول سوسائٹی کی نمائندہ خواتین نے اس موقع پر کہا کہ ''یہ ایک اوپن اینڈ شَٹ کیس ہے (یعنی ایسا کیس جس میں کوئی ابہام نہیں)۔ ملزم کے خلاف مکمل ثبوت موجود ہے مگر نامعلوم وجوہ کی بنا پر مقدمہ التوا میں چلا آ رہا ہے‘‘۔
سارا معاملہ افسوسناک ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ حیرت انگیز بھی! مقتولہ کے والد گرامی اسی ملک میں پیدا ہوئے۔ یہیں پلے بڑھے۔ سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی محترم خواتین بھی یہیں پیدا ہوئیں۔ یہیں پلی بڑھیں۔ پھر بھی فیصلے میں غیر معمولی تاخیر پر سب حیرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ کیا کوئی حیرت کا اظہار کرتا ہے کہ رات کو ستارے کیوں نکلتے ہیں؟ دن کو سورج کیوں چمکتا ہے؟ ہوا چلتی ہے تو درخت کیوں جھومتے ہیں؟ ارے بھائی! آپ کا غم بجا! آپ کی لخت جگر کے ساتھ ظلم ہوا۔ ظلم تو بہت چھوٹا لفظ ہے۔ یہ بربریت اور وحشت کی انتہا تھی۔ مگر! یہاں پگڑی اچھلتی ہے‘ اسے میخانہ کہتے ہیں!یہاں طاقت کی مساوات دیکھی جاتی ہے۔ یہاں یہ دیکھا جاتا ہے کہ کون زیادہ طاقتور ہے‘ کس کے پاس روکڑا زیادہ ہے۔ کس کے ہاتھ میں کس کی ڈور ہے۔ کون زیادہ بااثر ہے۔ یہاں ریاست کا ملازم ڈیوٹی پر کھڑا‘ کچل دیا جاتا ہے اور قاتل انگلیوں سے فتح کا نشان بناتا دندناتا پھرتا ہے۔ یہاں قاتل لڑکا فیوڈل خاندان سے ہو تو اس کا بال بھی بیکا نہیں کیا جا سکتا۔
لگا ہے دربار‘ شمع بردار سنگ کے ہیں
ہوا کے حاکم ہیں‘ موم کے ہیں گواہ سارے
یہ تو شکر کیجیے کہ آپ (نور مقدم کے محترم والد) بھی کوئی عام آدمی نہیں! سابق سفیر ہیں اور سماجی لحاظ سے باعزت طبقے میں شمار ہوتے ہیں۔ ورنہ تو یہاں مقتول یا مقتولہ کے خاندان پر زمین تنگ کر دی جاتی ہے۔ بھینس چوری کا مقدمہ قائم کر دیا جاتا ہے۔ قتل کی دھمکی دی جاتی ہے۔ گلے پر پاؤں رکھ کر صلح کے لیے آمادہ کیا جاتا ہے۔ ملک چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر شاذیہ خالد کا کیس یاد کیجیے۔ کیا گزری میاں بیوی پر۔ اور تو اور خود بادشاہِ وقت نے نیشنل ٹیلی ویژن پر ملزم کی معصومیت پر گواہی دی۔ ڈاکٹر شاذیہ کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرنے والے دو اشخاص آج بھی مشہور ہیں اور پیش منظر پر چھائے ہوئے ہیں! یہی بادشاہ ِوقت تھا جس نے امریکی سرزمین پر کھڑے ہو کر کہا تھا کہ آبروریزی کا تماشا پیسے بٹورنے اور ملک سے باہر جانے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ جہاں باڑ کھیت کو کھا رہی ہو‘ وہاں کس سے گلہ کیا جائے گا؟ جہاں چرواہا اور اس کا کتا بھیڑوں کو خود ہی بھیڑیوں کے حوالے کر رہے ہوں وہاں کس سے شکایت کریں گے۔ کلاسک کیس تو ریمنڈ ڈیوس کا ہے۔ اس کی کتاب پاکستانیوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ یہ جو دو کیس ہیں ڈاکٹر شاذیہ خالد کا اور ریمنڈ ڈیوس والا‘ یہ تو دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں پڑھانے چاہئیں۔ ان پر تحقیق ہونی چاہیے۔ محققین کو ان پر پی ایچ ڈی کرنی چاہیے۔ ہمارے قومی پرچم پر ان کی علامات ہونی چاہئیں۔ ریاست عدالت میں بیٹھ کر امریکی سفیر کو لمحہ لمحہ کی رپورٹ دے رہی تھی۔ کیا کوئی ملک انسانی تاریخ میں اتنا بھی گرا ہو گا! دو سو سالہ غلامی میں بر صغیر میں انگریز کے سامنے اس انداز میں کوئی رکوع میں نہ گیا ہو گا جس طرح ریمنڈ ڈیوس کیس میں ہم امریکہ کے سامنے سجدہ ریز ہوئے۔ اس پس منظر میں‘ اور اس شرمناک ریکارڈ کے ساتھ‘ یہ ایک معجزہ ہے کہ ابھی تک نور مقدم کا قاتل جیل میں ہے۔ ورنہ باہر آ چکا ہوتا تو اس میں تعجب ہی کیا ہوتا۔
اور پھر جس معاشرے میں مردوں کے قاتل کھلے پھر رہے ہوں وہاں ایک لڑکی کے قتل کو کون اہمیت دے گا! یہاں لڑکی کی اہمیت ہی کیا ہے؟ واحد ایٹمی مسلم ملک میں عورت کے ساتھ آج بھی وہی سلوک ہو رہا ہے جو جاہلیت میں ہوتا تھا۔ نرس پوتی کی پیدائش کی خوشخبری دے تو دادی اسے تھپڑ مارتی ہے۔ زچہ بیٹی جنے تو ہسپتال ہی میں اسے طلاق دے دی جاتی ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ اب ایسا نہیں ہوتا تو یا تو وہ گاؤدی اور بودے ہیں یا منافق۔ اسلام آباد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو ان کانوں نے خود لڑکی کی پیدائش پر دوستوں کے ساتھ اظہارِ افسوس کرتے سنا ہے۔ بیٹی کا باپ خوش ہے اور مٹھائی پیش کر رہا ہے اور یہ حیا سے عاری اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان نما جانور کہہ رہے ہیں کہ کوئی بات نہیں‘ اگلی بار بیٹا ہو گا! بیٹا بدقماش ہو‘ آوارہ ہو‘ بدکار ہو‘ پھر بھی پوتّر ہے۔ بیٹی سے ذرا سی غلطی ہو جائے یا وہ اُس حق پر اصرار کرے جو اسے خدا اور رسول نے دیا ہو‘ تو قتل کی مستحق ہے۔ اور یہ تو ماضی قریب کی بات ہے جب غیرت کے نام پر قتل کے خلاف بِل پیش ہوا تھا تو عوامی نمائندوں نے کس طرح متحد ہو کر اُس بل کا راستہ روکا تھا!
ڈیڑھ سال سے مقدمے پر کوئی کارروائی نہیں ہو رہی تو کیا بڑی بات ہے۔ آخر قتل ہونے والی لڑکی ہی تو تھی۔ اور پھر اس غیر معمولی تاخیر کی کئی اہم وجوہات ہو سکتی ہیں۔ یوکرین اور روس میں جنگ ہو رہی ہے۔ غزہ میں ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ دنیا میں موسمی تبدیلیاں پیش آ رہی ہیں۔ امریکہ میں انتخابات ہونے ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرض لینا ہے۔ پاکستان کو ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا کرنا ہے۔ سی پیک کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا ہے۔ کشمیر کو پاکستان میں شامل کرانا ہے۔ جہاں اتنے بہت سے کام کرنے ہوں اور مصروفیات بے پناہ ہوں وہاں نور مقدم کے مقدمے پر کیسے توجہ دی جا سکتی ہے۔ اور اتنی جلدی بھی کیا ہے! ڈیڑھ سال ہی تو ہوا ہے۔ اگر سزائے موت کسی عام پاکستانی کو سنائی گئی ہوتی تو اس پر عمل ہو بھی چکا ہوتا مگر یہ بھی تو دیکھیے کہ قاتل کوئی معمولی آدمی تو نہیں ہے نا! دولت مند خانوادے کا چشم وچراغ ہے۔ اور پھر اگر موت کی سزا پر عمل ہو گیا تو آئندہ ایسے بھیانک جرائم کا ارتکاب کون کرے گا؟ جرائم کی تاریخ میں انوکھے ابواب کا اضافہ کون کرے گا؟ ایسے سپوت زندہ رہنے چاہئیں تا کہ لڑکیوں کے سر کٹ کٹ کر دھڑ سے الگ ہوتے رہیں! یوں بھی ہمارے ہاں ناکردہ گناہوں پر سزا دینے کا رواج ہے۔ جو گناہ ثابت ہو جائیں‘ ان کا کیا ہے! سزا نہ بھی ملے تو کوئی بڑی بات نہیں!

Thursday, October 24, 2024

یہ نشہ بھی آزما کر دیکھیے


پنڈی سے لاہور جانا تھا۔ رانا صاحب کہنے لگے: میرے ساتھ چلو‘ راستے میں گپ شپ ہو گی۔ رانا صاحب اس نفسیاتی خوف میں مبتلا ہیں کہ ڈرائیو کرتے ہوئے انہیں نیند نہ آلے۔ اس لیے ہمیشہ کسی دوست کو ساتھ بٹھا لیتے ہیں کہ وہ راستے میں ان کا سر کھاتا رہے یا وہ اس کا سر کھاتے رہیں۔ اس دفعہ یہ اعزاز میرے حصے میں آیا۔ حالانکہ پنڈی اور لاہور کے درمیان ریل کار پارلر کا سفر مجھے اتنا محبوب ہے کہ میں اسے پکنک کے برابر سمجھتا ہوں۔ ریل کے سفر میں وہ سارا ادب یاد آ جاتا ہے جو انگریزی اور اردو میں ریل پر لکھا گیا ہے۔ تاہم ریل کے سفر کی رانا صاحب نے کچھ تلافی یوں کر دی کہ گاڑی موٹر وے کے بجائے جی ٹی روڈ پر ڈال دی۔ جی ٹی روڈ کا سفر غور کیجیے تو تاریخ کا سفر ہے۔ زندگی راستے میں جگہ جگہ گنگناتی‘ مہکتی اور اپنے رنگ دکھاتی نظر آتی ہے۔ راستے میں بازار ہیں‘ شہر‘ قصبے اور قریے ہیں۔ راستے میں کلچر‘ تہذیب اور ثقافت ہے۔ ایک اپنائیت ہے‘ بلکہ یوں کہیے کہ پاکستانیت ہے۔ وزیر آباد کی مچھلی ہے۔ راہوالی کی قلفی ہے۔ جگہ جگہ چائے خانے ہیں۔ ٹرک ہوٹل ہیں۔ ڈھابے ہیں۔ بیکریاں ہیں۔ کسی بھی قصبے کے بازار میں داخل ہو جائیں تو دکانوں میں چاول کے مرنڈے‘ مکھانے‘ بتاشے‘ نُگدی اور پھُلیاں نظر آئیں گی۔ گُڑ اور شکر آسانی سے مل جائیں گے۔ اس کے برعکس موٹر وے کا سفر ایک صحرا کا سفر ہے۔ یکسانیت بیزار کرتی ہے۔ تنوع میں دلربائی ہے۔
پنڈی سے روانہ ہوتے وقت رانا صاحب نے گاڑی میں پٹرول ڈلوایا۔ پٹرول کی ادائیگی کے بعد انہوں نے پٹرول پمپ کے کیشئر کو پانچ پانچ ہزار کے دو نوٹ دیے اور کہا کہ ان کے بدلے میں سو سو روپے کے نوٹ دے دے۔ پوچھا ان کا کیا کریں گے: کہنے لگے دیکھ لینا۔ پنڈی سے لاہور تک رانا صاحب کو جو بھی ریڑھی والا بوڑھا‘ پھٹے پرانے کپڑوں والا راہ گیر‘ جوتے گانٹھتا موچی‘ زمین پر کپڑا بچھا کر تھوڑے سے پھل بیچنے والا‘ کوئی بھی ضرورت مند نظر آتا شخص دکھائی دیا تو اسے پیسے دیتے گئے۔ کسی کو سو روپے‘ کسی کو دو سو اور کسی کو اس سے بھی زیادہ! مگر میں نوٹ کرتا رہا کہ کسی بھکاری کو انہوں نے کچھ نہیں دیا۔ ڈھابے پر چائے کے لیے رُکے تو ویٹر کو چائے کی قیمت کے علاوہ پانچ سو دیے۔ ایک پٹھان بابے سے چھلیاں لیں تو اسے چھلیوں کی قیمت کے علاوہ دو سو روپے دیے۔ لاہور پہنچنے تک دس ہزار روپے تقسیم کر چکے تھے۔ میں دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ یہ آئیڈیا مجھے کبھی کیوں نہ آیا۔ ایک اطمینان اور مسرت ان کے چہرے پر ایسی تھی جو مجھے پُر اسرار لگی۔ خدا کے بھید خدا ہی جانے۔ کہنے لگے ''یہ میں نہیں فیصلہ کرتا کہ کس کو کتنے دینے ہیں‘ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ سب کیسے ہوتا ہے۔ اب چائے پلانے والے ویٹر کو سو روپے دینا چاہتا تھا مگر جیب میں ہاتھ ڈالا تو پانچ سو آگئے‘‘۔
لاہور میں مَیں نے اپنے قیام کا بند و بست کیا ہوا تھا‘ مگر رانا صاحب مُصر تھے کہ ان کے ہاں ٹھہروں۔ پرانے دوستوں کو یہ استحقاق ہوتا ہے کہ بات منوا سکتے ہیں۔ برا بھلا کہہ سکتے ہیں بلکہ مار کُٹ بھی سکتے ہیں۔ چنانچہ انہی کے ہاں ٹھہرنا پڑا۔ دوسرے دن کہنے لگے: چلو منڈی سے پھل لانے ہیں۔ میرا لاہورکے جغرافیے کا علم محدود ہے۔ نہ جانے کہاں تھی اور کیا نام تھا منڈی کا۔ ڈرائیور کو انہوں نے ساتھ لیا کہ وہاں پارکنگ کا مسئلہ ہو گا۔ خدا نے رانا صاحب کو آسودگی عطا کی ہے۔ سیب‘ انار‘ مالٹے اور انگور پیٹیوں کے حساب سے خریدے۔ گھر پہنچے‘ ڈرائیور پیٹیاں اندر رکھ رہا تھا تو اسے بتایا کہ سیبوں کی ایک پیٹی اس کے لیے ہے‘ چھٹی کرتے وقت گھر لے جائے۔ رات کو کھانے کے بعد ہم دونوں چہل قدمی کر رہے تھے۔ میں نے کہا: یار رانا! میں نے ان دو دنوں میں تم سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اللہ نے تمہیں فیاض دل عطا کیا ہے۔ رانا صاحب نے جواب دیا کہ ''ایسی کوئی بات نہیں۔ جس حساب سے اللہ تعالی مجھے دے رہا ہے‘ اس کا تو کوئی کنارہ ہی نہیں۔ جو کچھ میں کر رہا ہوں‘ وہ ریت کے دانے سے بھی کم ہے۔ صرف یہ سوچتا ہوں کہ پھلوں کی پیٹیاں میرے گھر میں رکھنے والا ڈرائیور گھر جا کر اپنے بچوں کو ملے گا تو کیا سوچے گا کہ وہ تو دو کلو سیب بھی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا اور دوسری طرف پیٹیوں پر پیٹیاں خریدی جا رہی ہیں۔ اس کے بچے جب سیب دیکھیں گے اور کھائیں گے تو ڈرائیور اور اس کی بیوی خوش ہوں گے۔ بس ان کی یہ خوشی میرے لیے اللہ کی نعمت ہے‘‘۔
رانا صاحب کے ہاں میرا قیام پانچ دن رہا۔ مجھے یوں لگا جیسے میں اب تک ناخواندہ تھا۔ اَن پڑھ تھا۔ جاہل تھا۔ جو کچھ ان پانچ دنوں میں دیکھا‘ سنا اور سیکھا‘ ایک نیا ہی علم تھا۔ اور اس علم کا پڑھنے سے اور کتابوں سے کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ علم کسی خاص جگہ سے‘ کسی خاص منبع سے اُتر رہا تھا۔ یہ قطرہ قطرہ‘ ذرہ ذرہ‘ قطمیر قطمیر‘ میرے اندر‘ میرے دل میں جا رہا تھا۔ رانا صاحب کی بیگم کیش اینڈ کیری سے سودا سلف (گراسری) لے کر آئیں تو ڈرائیور‘ مالی اور برتن دھونے والی خاتون کے لیے بھی ایک ایک تھیلا لائیں۔ ان تھیلوں میں چائے کی پتی‘ چاول‘ چینی اور گھی کے ڈبے تھے۔ دوسرے دن دعوت تھی۔ مہمانوں کیلئے کولڈ ڈرنک کی بوتلیں آئیں۔ ایک ایک بوتل انہوں نے تینوں ملازموں کو دی کہ گھر لے جائیں۔ ٹیکسی پر آئے تو ٹیکسی کے ڈرائیور کو کھانا کھلا کر بھیجا۔
کیا فیاضی کے لیے اتنی آسودگی لازم ہے جتنی رانا صاحب کو حاصل ہے؟ نہیں! ہر گز نہیں! آسودگی ایک ایسی اصطلاح ہے جس کی کوئی معینہ تعریف ہے نہ حد! رانا صاحب میرے مقابلے میں ثروت مند ہیں مگر جس کے پاس ذاتی جہاز ہے اور درجنوں کارخانے‘ اس کے مقابلے میں کم حیثیت ہیں۔ ضروری نہیں کہ آپ کسی کو پھلوں کی ایک پیٹی ہی دیں۔ آپ ایک کلو بھی دے سکتے ہیں‘ ایک پاؤ بھی اور صرف ایک سیب بھی! سردیوں میں ضروری نہیں کہ کسی کو رضائی خرید کر دیں‘ ایک گرم چادر بھی دے سکتے ہیں۔ جرابوں کا ایک جوڑا بھی دے سکتے ہیں۔ گھر میں کام کرنے والے الیکٹریشن کو ضروری نہیں کہ آپ بریانی ہی کھلائیں‘ دال اور چپاتی بھی کھلا سکتے ہیں۔ چائے کا کپ ہی پلا دیجیے۔ برتن دھونے والی مائی کے بچے کی ماہانہ فیس نہیں دے سکتے تو بچے کو نئے جوتے ہی خرید دیجیے۔ آپ کو اس سے خوشی حاصل ہو گی۔ ایک بار اس خوشی کا آپ کو چسکا پڑ گیا تو یہ آپ کے لیے نشہ بن جائے گا۔ کسی کو کچھ دیے بغیر آپ سکون سے نہیں بیٹھیں گے۔ مضطرب رہیں گے۔ کیا ہی اچھا نشہ ہے اور کیا ہی دلکش عارضہ ہے! آپ گلّے میں سے سفید ترین بھیڑ دیتے ہیں یا ایک پاؤ گوشت‘ گندم کی بوری دیتے ہیں یا ایک وقت کا کھانا‘ نئی پوشاک دیتے ہیں یا فقیر کی پھٹی ہوئی گدڑی سی دیتے ہیں‘ کسی بے گھر کو مکان خرید دیتے ہیں یا کسی کو ایک چارپائی ہی لے دیتے ہیں‘ کچھ بھی دیں‘ مقدار اور قیمت کا مسئلہ نہیں۔ ایک روٹی کے مالک ہیں تو آدھی کسی کو کھلا دیجیے۔ جو آپ کے نزدیک ذرہ ہے‘ کیا عجب جسے دے رہے ہیں اس کے لیے پہاڑ ہو۔ اور دیتے وقت رنگ دیکھیے نہ نسل‘ مذہب دیکھیے نہ عقیدہ! زبان دیکھیے نہ علاقہ! دیجیے اور آنکھیں بند کر کے دیجیے۔ بس دیتے رہیے! جتنا آسانی سے کر سکتے ہیں کیجیے۔ بس کرتے رہیے۔

Tuesday, October 22, 2024

تھوڑا سا گلہ بھی سُن لے

!
پیدائش تو ماشا اللہ پاکستان کی ہے مگر رومانس بھارت کے ساتھ اتنا ہے جیسے کل ہی وہاں سے سب کچھ چھوڑ کر تشریف لائے ہیں۔ محلات کا سلسلہ ایسا تعمیر کرایا کہ عباسیوں کے دور میں البرامکہ نے بغداد میں کیا بنوائے ہوں گے! برامکہ نے تو بغداد کے اندر محلات بنوائے تھے‘ آپ نے لاہور کے نواح میں عظیم الشان محلات پر مشتمل ایک نیا شہر ہی بسا دیا۔ اور نام اس کا جاتی امرا رکھا۔ جاتی امرا سے ان کے والد گرامی مرحوم نے ہجرت کی تھی‘ خود انہوں نے نہیں! یہ کوئی ایسی قابلِ اعتراض بات بھی نہیں۔ من موہن سنگھ کو بھی اپنے چھوڑے ہوئے گاؤں سے پیار ہے۔ چکوال کے گاؤں ''گاہ‘‘ میں انہوں نے بچپن گزارا ہے۔ افسوس! ان کے پاس وسائل نہیں تھے۔ عقل بھی نہیں تھی کہ اِدھر اُدھر ہاتھ مارتے۔ ایف بی آر میں ایک دن ''ایس آر او‘‘ جاری کرتے۔ فائدہ اٹھا کر دوسرے دن کینسل کر دیتے۔ بیچارے من موہن سنگھ! یورپ میں جائیداد تو کیا بناتے‘ انڈیا میں بھی محلات کا شہر نہ بسا سکے کہ اس کا نام ''گاہ‘‘ رکھ دیتے! یہ خوش قسمتی صرف ہمارے میاں صاحب ہی کے نصیب میں تھی!
محتاط ماشا اللہ اتنے ہیں کہ جو بات پاکستانی صحافیوں سے کرنے کی ہوتی ہے وہ بھارتی صحافیوں سے کرتے ہیں۔ اگر پاکستان سے کوئی غلطی ہوئی بھی ہے تو اس کے بارے میں پاکستانیوں کو بتائیں اور سمجھائیں کہ آئندہ ایسا نہ کریں۔ مگر رومانس پھر رومانس ہوتا ہے‘ ازبکستان‘ بھارت‘ روس‘ چین‘ قزاقستان‘ کرغزستان‘ تاجکستان‘ بیلاروس‘ ایران‘ منگولیا اور ترکمانستان میں سے ان کی دور رَس نگاہ صرف بھارت پر ٹھہری۔ بھارت کی خاتون صحافی کو بطورِ خاص ایوانِ خاص میں ملے۔ وزیراعلیٰ بھی موجود تھیں۔ اس کے بعد بھارتی خاتون نے اپنے خاص نکتۂ نظر سے اس ملاقات کی خبر بنا کر وڈیو پر بات کی جو پاکستان کے لیے قابلِ رشک ہرگز نہیں تھی۔ میاں صاحب کو اگر پاکستان کی ترقی‘ پاکستان کے مستقبل اور پاکستان کے مسائل کی فکر ہوتی یا ان کی سو چ میں پختگی اور گہرائی ہوتی تو وہ اس خاص ملاقات کا اعزاز چین کے کسی صحافی کو بخشتے‘ سی پیک پر بات کرتے اور دہشت گرد جس طرح چینی شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں‘ اس پر بات کرتے اور تشویش کا اظہار کرتے! چلیے اگر بھارتی صحافی ہی کو یہ اعزاز بخشنا تھا تو کشمیر کی پامال کردہ آئینی حیثیت ہی کا ذکر کر دیتے۔ مگر ہو سکتا ہے آرٹیکل 370 ان کے ذہن ہی میں نہ ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کشمیر کو وہ بھول چکے ہوں۔ کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب بگاڑا جا رہا ہے۔ انہوں نے کبھی کلبھوشن کا بھی ذکر نہیں کیا۔
کوئی پاکستانی بی جے پی حکومت کے رویے کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ جب سے اس پارٹی کی حکومت آئی ہے‘ مسلمانوں کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے۔ کتنے ہی مسلمان گائے کے حوالے سے کچلے جا چکے ہیں۔ کوئی اگر بکرے کا گوشت بھی لے جا رہا ہے تو اس کا بھی گھر جلا دیا جاتا ہے۔ کوئی گائے بیچنے جا رہا ہے تو اسے بھی شہید کر دیا جاتا ہے۔ سانس لینا بھی دو بھر ہو چکا ہے۔ ادتیا ناتھ نے کون سا ظلم ہے جو نہیں کیا۔ یہاں تک کہا کہ مسلمان عورتوں کی آبرو ریزی کرو۔ اس درندے نے مسلم دشمنی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ شہروں کے مسلمان نام ایک ایک کر کے تبدیل کر رہا ہے۔ سینکڑوں سال کی مسلم تہذیب کو مٹانے کے درپے ہے۔ آگرہ‘ الہ آباد‘ علی گڑھ اور کئی اور شہروں کے نام بدل کر ایسے نام رکھ رہا ہے جن سے ہندو تعصب منوں ٹنوں کے حساب سے ٹپک رہا ہے۔ آسام میں اُن مسلمانوں کو شہریت سے محروم کیا جا رہا ہے جو صدیوں سے وہاں رہ رہے ہیں۔ میاں صاحب نے‘ اقتدار میں ہوں یا اقتدار سے باہر‘ کبھی بھول کر بھی ان حقائق کا ذکر نہیں کیا۔ اس لیے کہ ان کا ایک خاص سٹائل ہے۔ ایک طرزِ زندگی ہے۔ اس میں سوچ کی گہرائی یا تاریخ کے ادراک کا گزر نہیں۔ حکومت میں ہوتے ہیں تو مہینوں قومی اسمبلی یا سینیٹ کا رُخ نہیں کرتے۔ کابینہ کے اجلاس تک نہیں ہوتے۔ غیرملکی دوروں کا ریکارڈ انہوں نے توڑ دیا۔ اور لندن کے دورے تو بے شمار کیے۔ 
کوئی مانے یا نہ مانے‘ سچ یہ ہے کہ ان کا ایک خاص طرزِ زندگی ہے۔ بچہ بھی جانتا ہے کہ جو سکون انہیں لندن میں ملتا ہے وہ پاکستان میں نہیں ملتا۔ وہاں کے ریستوران‘ وہاں کے شاپنگ سنٹر‘ وہاں کے شب و روز‘ ایون فیلڈ اپارٹمنٹوں کی زندگی کا لطف‘ اس سب میں وہ طمانیت محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے اکثر و بیشتر عیدیں لندن میں منائی ہیں۔ لگتا ہے اصلی وطن وہی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اب بھی بعض مجبوریوں کی بنا پر وہ پاکستان میں رکے ہوئے ہیں۔ خبریں نکلتی رہتی ہیں کہ بس جانے والے ہیں۔ پاکستان میں ہوں تو لاہور کے محلات میں رہنا پسند کرتے ہیں یا مری کے ایوانوں میں۔ الیکشن سے پہلے وہ لاہور سے باہر ہی نہ نکلے۔ دوسرے صوبوں میں جانے کی زحمت نہیں کی۔ امیدواروں کو لاہور ہی میں طلب کرتے رہے۔ الیکشن مہم جس طرح انہوں نے چلائی‘ اس کا حال سب کے سامنے ہے۔
اس انتہائی فُل آف لگژری زندگی میں‘ تاریخ تو دور کی بات ہے‘ ہم عصر بین الاقوامی تعلقات کے بارے میں بھی کسی سوچ کا گزر کیسے ہو سکتا ہے۔ کشمیریوں پر کیا گزر رہی ہے؟ بی جے پی بھارتی مسلمانوں کے حوالے سے کیا کر رہی ہے اور کیا عزائم رکھتی ہے؟ ادتیا ناتھ کیا کر رہا ہے؟ امیت شاہ کے ارادے کیا ہیں؟ اگر اگلا وزیراعظم‘ خدا نخواستہ‘ ادتیا ناتھ ہو گیا تو کیا ہو گا؟ مودی مشرقِ وسطیٰ میں ایک کے بعد دوسرے ملک کو سفارتی میدان میں کیسے فتح کیے جا رہا ہے اور اس کے مضمرات پاکستان کے لیے کیا ہیں اور کیا ہوں گے‘ میاں صاحب کی شاہانہ زندگی میں ان تکلیف دہ موضوعات اور سوچوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ ان کا اشہبِ خیال شاہراہوں اور ہوائی اڈوں کی حد سے آگے نہیں جا سکتا۔ اس میں کیا شک ہے کہ موٹر وے ان کا کارنامہ ہے‘ مگر تعلیمی نظام‘ زرعی اصلاحات‘ آبادی کے مسائل‘ نئے صوبوں کی اشد ضرورت‘ مقامی حکومتوں کا وجود اور دوسرے گمبھیر مسائل کی تاب ان کا نازک دماغ نہیں لا سکتا۔ پہلے بھی کاروبارِ حکومت کی پیچیدگیاں انہوں نے اپنے معتمدِ خاص کے سپرد کر رکھی تھیں۔ 
بھارت کے ساتھ تجارت ہونی چاہیے۔ بالکل اسی طرح جیسے تائیوان اور چین کے درمیان ہو رہی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے چین اور بھارت کے درمیان ہو رہی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے امریکہ اور چین کے درمیان ہو رہی ہے۔ اس کالم نگار نے اس موضوع پر کئی مضامین لکھے ہیں۔ تجارت سے زیادہ فائدہ پاکستان کو ہے۔ بھارت ایک بہت بڑی منڈی ہے جو پاکستان کے ہاتھ آجائے گی۔ اس کے مقابلے میں پاکستان ایک چھوٹی منڈی ہے جو بھارت کو ملے گی۔ پاکستانی مصنوعات کو ڈیڑھ ارب گاہک ملیں گے اور بھارتی مصنوعات کو پچیس کروڑ! مگر تجارت اور سپردگی میں فرق ہے۔ تجارت اور محبت میں فرق ہے۔ چین اور بھارت اپنے اصولی اختلافات کبھی بھی پس پشت نہیں ڈالتے۔ تائیوان کے حوالے سے چین کی پالیسی کس قدر سخت ہے‘ انٹر نیشنل ریلیشنز کا مبتدی بھی اچھی طرح جانتا ہے۔ جب میاں صاحب کبھی کسی بھارتی کو مری میں خصوصی درشن دیتے ہیں اور کبھی کسی صحافی کو لاہور میں اور پاکستان کی ''غلطیوں‘‘ کا اعتراف کرتے ہیں مگر بھارت کی چیرہ دستیوں کی طرف ہلکا سا اشارہ بھی نہیں کرتے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ دماغ کا نہیں‘ دل کا معاملہ ہے۔ الیکشن مہم کے دوران مودی جو ہرزہ سرائی پاکستان کے بارے میں کرتے رہے ہیں‘ کسی وقت وہ بھی سُن لیتے!

Monday, October 21, 2024

ایک درد ناک ملاقات


آج کل جہاں قیام پذیر ہوں وہاں سے لائبریری بیس منٹ کی واک پر ہے۔ دن کو کسی بھی وقت لائبریری چلا جاتا ہوں۔ کچھ وقت وہاں گزارتا ہوں۔ لائبریری سے نکلتا ہوں تو دس منٹ کے فاصلے پر ایک بیکری ہے۔ کچھ دیر اس میں بیٹھتا ہوں۔ یہ بیکری بھی ہے‘ کافی شاپ بھی اور چائے خانہ بھی۔ دن کے وقت یہاں بیٹھنے والوں کی زیادہ تعداد میری طرح کے عمر رسیدہ حضرات اور بیبیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ کچھ تنہا ہوتے ہیں‘ کچھ میاں بیوی اور کچھ دوستوں اور سہیلیوں کے ساتھ۔ یہاں چائے کی پیالی پیتا ہوں۔ کتاب پڑھتا ہوں یا آئی پیڈ پر کام کرتا ہوں۔
ایک دن میری نگاہ ایک شخص پر پڑی جو بیکری کے کونے میں بیٹھا تھا۔ اس کی شکل کچھ کچھ جانی پہچانی لگی مگر میں نے یہ خیال جھٹک دیا۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں کوئی چہرہ آشنا سا لگتا ہے مگر ہم اسے کبھی نہیں ملے ہوتے۔ اس شخص نے سر پر بوسیدہ سی ٹوپی پہنی ہوئی تھی۔ عمر ہو گی چالیس کے پیٹے میں‘ جینز کا رنگ اُڑا اُڑا سا تھا۔ پاؤں میں اطالوی طرز کے سویڈ کے جوتے تھے۔ سگریٹ پی رہا تھا۔ سامنے دھرے کپ میں چائے تھی یا کافی‘ دور سے جاننا مشکل تھا۔ چہرے پر ایک نامعلوم سی کراہیت تھی جو اسے غیر پسندیدہ قسم کا انسان بنا رہی تھی۔اس نے کئی بار میری طرف دیکھا۔ میں نے بھی اسے دیکھا۔ میں اُس دن گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بیٹھا رہا۔ اٹھ کر آیا تو وہ ابھی وہیں تھا۔ اس کے بعد میں واک تو ہر روز کرتا رہا مگر لائبریری اور بیکری والی سمت کئی دن نہ جا سکا۔ کبھی بازار کی طرف نکل جاتا اور سودا سلف خرید لاتا۔ کبھی پارک میں چلا جاتا۔ دو دن بارش رہی اور گھر سے نکل ہی نہ پایا۔ آٹھ دس دن بعد ایک کتاب کی واپسی کی تاریخ تھی اس لیے لائبریری جانا ہی پڑا۔ یہاں کی لائبریریاں بھی ہمارے لیے حیرت کدے سے کم نہیں۔ ایک وقت میں تیس کتابیں ایشو کرا سکتے ہیں۔ کتابیں کمپیوٹر کے سامنے رکھیے۔ کمپیوٹر کو اپنا لائبریری کارڈ دکھائیے‘ فوراً ایک رسید باہر نکلے گی جس پر تمام کتابوں کے نام لکھے ہوں گے اور واپسی کی تاریخ بھی۔ کتاب واپس کرنی ہو تو تب بھی کاؤنٹر پر جا نے کی ضرورت نہیں۔ ایک لیٹر بکس قسم کا سوراخ ہے اس میں کتاب ڈال دیجیے۔ اسے ''شُوٹ‘‘
 (Chute)
 کہتے ہیں۔ ان ملکوں نے کوشش کی ہے کہ انسانی رابطہ کم سے کم ہو۔ زیادہ سے زیادہ کام خود کار مشینیں کریں۔ ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسانی رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے یا کم ہونے کی وجہ سے کرپشن پر کاری ضرب پڑتی ہے۔
کتاب واپس کرنے کے بعد قدم خود بخود بیکری کی طرف اُٹھنے لگے۔ چائے کی طلب محسوس ہو رہی تھی۔ کاؤنٹر پر چائے کی قیمت ادا کر کے بیٹھ گیا۔ ایک طالب علم نما ویٹر چائے کی چینک اور پیالی لایا اور مسکراتے ہوئے میز پر رکھ دی۔ میں چائے پیالی میں ڈال رہا تھا کہ وہی شخص نظر آیا۔ اُسی نشست پر‘ اسی انداز میں بیٹھا ہوا‘ نظریں میری طرف کیے‘ سگریٹ کا کش لگاتا! مجھے بے چینی سی محسوس ہونے لگی۔ خیر میں اُس دن زیادہ نہیں بیٹھا۔ چائے ختم ہوئی تو واپس گھر کی طرف چلنے لگا۔ مگر ایک بے نام سا اضطراب دل میں جیسے پَل رہا تھا۔ کوئی شے مجھے پریشان کر رہی تھی۔ 
دوسرے دن میں ناشتہ کرتے ہی بیکری کی طرف چل پڑا۔ اندر داخل ہوتے ہی نظر اس پر پڑی۔ وہی نشست‘ وہی انداز۔ نظریں میری طرف۔ میں آج یہ پُراسرار مسئلہ حل کرنے پر تُلا ہوا تھا۔ سیدھا اس کی میز کی طرف گیا اور اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ انگریزی میں پوچھا کہ وہ کون ہے۔ میری طرف مسلسل کیوں دیکھتا ہے۔ یہ طرزِ عمل یہاں آداب کے منافی سمجھا جاتا ہے۔ میرا سر گھوم گیا کیونکہ جواب اس نے پنجابی میں دیا اور وہ بھی اُس خالص لہجے میں‘ جو میرے گاؤں میں بولی جاتی ہے۔ پوچھا: وہ کہاں کا ہے؟ کہنے لگا: وہ کہیں کا بھی نہیں اور دنیا کی ہر زبان‘ ہر لہجہ بولنے پر قادر ہے۔ پھر اس نے بتایا کہ وہ شیطان کے بہت سے نائبین میں سے ایک نائب ہے اور ملکِ پاکستان کا انچارج ہے۔ پوچھا: یہاں کس سلسلے میں آئے ہو۔ کہنے لگا: آپ سے معافی مانگنے کیونکہ آپ نے محلے میں اور اپنے حلقۂ احباب میں اور تحریر وتقریر کے ذریعے جو بھی مثبت کوششیں کیں‘ انہیں وہ ناکام بناتا رہا اور اس پر شرمندہ ہے۔ میں نے کہا: غرض کے بغیر تو تم معافی مانگنے سے رہے‘ اصل کام بتاؤ۔ اس پر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گیا۔ اس سے پہلے کہ بیکری میں بیٹھے ہوئے لوگ متوجہ ہوتے میں اسے باہر لے آیا۔
ہم ایک بینچ پر بیٹھ گئے۔ کہنے لگا ''آپ جانتے ہیں میرا کام فساد پھیلانا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا میں نے حلوائی کی دکان سے شیرہ لے کر دیوار پر لگایا تھا۔ اس پر مکھیاں بیٹھیں۔ مکھیوں پر چھپکلی حملہ آور ہوئی۔ چھپکلی پر بلی جھپٹی۔ عین اس وقت نواب کا نوکر کتا لیے وہاں سے گزر رہا تھا۔ کتے نے بلی پر حملہ کیا۔ بلی بھاگ گئی مگر کتے نے مٹھائی کے سارے تھال الٹ پلٹ کر دیے۔ حلوائی نے گرم کفگیر کتے کی گردن پر مارا۔ کتا مر گیا۔ اس پر نواب کے نوکر نے حلوائی کو تھپڑ مارا۔ حلوائی کے ملازموں نے نوکر کی پٹائی کر دی۔ نوکر گیا اور نواب کے بہت سے لوگ لے کر آیا۔ ادھر سے تمام دکاندار اکٹھے ہو گئے۔ بھرپور لڑائی ہوئی۔ بہت سے لوگ دونوں طرف سے مارے گئے۔ مگر یہ گئے دنوں کی بات ہے۔ اب میرا فساد پھیلانے کا سارا کام انسٹا گرام‘ یوٹیوب اور وَٹس ایپ والوں نے سنبھال لیا ہے۔ ایسا ایسا فساد فی الارض پھیلا رہے ہیں کہ میں اس کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ تو دیوار پر شیرہ بھی نہیں لگاتے۔ بغیر کسی وجہ کے پورے ملک میں طلبہ کے ہنگامے کرا دیے۔ کسی لڑکی کے ساتھ زیادتی نہیں ہوئی مگر ان لوگوں نے وہ فساد پھیلایا کہ مجھ شیطان سے بھی کوسوں آگے نکل گئے۔ اب میرے باس‘ یعنی بڑے شیطان نے مجھے متنبہ کیا ہے کہ چونکہ میرا کام خود پاکستانیوں نے سنبھال لیا ہے اس لیے میری ٹرانسفر جنات کی دنیا میں کر رہا ہے۔ یہ کہہ کر اس نے پھر بھاں بھاں کر کے رونا شروع کر دیا۔ جنات کے ہاں فساد پھیلانا بہت مشکل تھا۔ اس کے علاوہ پاکستان کے بہت سے لوگ اس سے محبت بھی کرتے ہیں‘ یہاں تک کہ بظاہر باعمل مسلمان بھی اندر سے اس کے ساتھی ہیں۔
میں نے اس سے پوچھا کہ وہ مجھ سے کیا مدد چاہتا ہے؟ کہنے لگا: اگر سوشل میڈیا کے ذریعے فساد پھیلانے والوں کو حکومت پکڑ کر کڑی سزائیں دے تو یہ لوگ شیطانیوں سے باز آ جائیں گے۔ یوں اس کی مصروفیت دوبارہ شروع ہو جائے گی اور تبادلہ روک دیا جائے گا۔ میں نے اسے جواب دیا کہ مجھے اس سے نفرت ہے مگر وہ اتنی دور سے آیا ہے اور معافی بھی مانگی ہے اس لیے ممکن ہوتا تو مدد کرتا مگر یہ توقع رکھنا کہ پاکستانی حکومت مجرموں کو پکڑ کر عبرتناک سزا دے گی‘ ناممکن ہے۔ پاکستان میں مجرموں کو پکڑنے اور سزا دینے کا رواج ہی نہیں‘ جتنا فساد اس لڑکی کے نام پر پھیلایا گیا ہے‘ اس کے بعد تو حکومت پر لازم تھا کہ مجرموں کو نشان عبرت بناتی مگر پاکستان میں مجرموں کو پکڑنے اور کیفرِ کردار تک پہنچانے کی روایت ہی نہیں۔ آج ہی عدالتوں نے اُن سینکڑوں افراد کو رہا کر دیا ہے جنہیں پولیس نے فساد پھیلانے پر گرفتار کیا تھا۔
نائب شیطان روتے روتے اچانک میری آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔

Thursday, October 17, 2024

پیر صاحب کی بیٹی کو کتا کھا گیا


یہ 2005ءیا 2006ءکی بات ہے۔ اخبار میں خبر پڑھی کہ گوجر خان کے نواحی گاوں میں ایک میّت کی تدفین کے وقت قبر سے آگ کے شعلے بلند ہوئے۔ تدفین مکمل ہوئی یا نہیں؟ اب یاد نہیں کہ خبر میں اس حوالے سے کیا بتایا گیا تھا۔ میں نے گاڑی لی‘ اپنے ڈرائیور چاچے علی احمد کو ساتھ لیا اور گھنٹے ڈیڑھ بعد اُس گاوں میں پہنچ گیا۔ آج اٹھارہ برس بعد گاوں کا نام بھی یاد نہیں۔ پنڈی سے آتے ہوئے جی ٹی روڈ کے دائیں طرف تھا اور اچھا خاصا بڑا گاوں تھا۔ گاوں میں داخل ہونے کے بعد پوچھا کہ کیا یہاں کوئی اخبار فروش ہے؟ ایک کھوکھے کی طرف رہنمائی کی گئی۔ اخبار فروش کو بتایا کہ فلاں اخبار میں کام کرتا ہوں اور یہ کہ اخباری خبر کے مطابق تدفین کے وقت قبر میں آگ جل رہی تھی‘ اس کی تفصیل کیا ہے؟ کہنے لگا کہ اس نے بھی سنا ہی ہے۔ عام طور پر چھوٹے قصبوں اور بستیوں میں ایک ہی اخباری نمائندہ تمام اخباروں کو خبریں بھیجتا ہے۔ اس سے اخباری نمائندے کا نام پوچھا۔ اس نے غور سے مجھے دیکھا۔ پھر کچھ سوچ کر کہنے لگا کہ اسے نام نہیں معلوم۔ صاف معلوم ہو رہا تھا کہ وہ بتانا نہیں چاہتا تھا‘ وگرنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنی چھوٹی آبادی میں اخبار فروش‘ اخباری نامہ نگار کو نہ جانتا ہو۔ پھر پوچھا کہ میّت والا گھر کون سا ہے؟ اس نے بتایا کہ تدفین یہاں ہوئی ہے مگر پھُوہڑی (تعزیت کی جگہ) دوسرے گاوں میں ہے جو جی ٹی روڈ کی دوسری طرف واقع ہے۔ دوسرے گاوں میں جانے سے پہلے گاوں کے چند دکانداروں سے پوچھا کہ کیا آگ والی خبر درست ہے؟ اکثر اس خبر سے لاعلم تھے۔ کچھ نے کہا کہ انہوں نے بھی سنا ہے۔ اس اثنا میں چاچا علی احمد بھی گھوم پھر کر پوچھ گچھ کرتا رہا۔ مگر ہمیں کوئی ایسا شخص نہ ملا جس نے یہ واقعہ اپنی آنکھو ں سے دیکھا ہو۔ پھر ہم نے جی ٹی روڈ کو کراس کیا اور دوسرے گاو ں میں پہنچے۔ معلوم ہوا کہ یہ موت تو کئی ہفتے پہلے واقع ہوئی تھی۔ پھُوہڑی اٹھا دی گئی تھی۔ گھر میں کوئی مرد اس وقت دستیاب نہ تھا جس سے بات کی جاتی۔ ہم نے گاوں میں چل پھر کر بہت سے بھلے مانسوں سے پوچھا۔ عینی شاہد کوئی نہ ملا۔ اخبار میں خبر دینے والا شخص ملتا تو اس سے خبر کا سر چشمہ پوچھتے۔ لیکن اگر آگ دکھائی دی ہوتی تو گاوں میں ہر شخص کو اس کے بارے میں معلوم ہوتا اور عینی شاہد بھی کئی ہوتے!
ہمارے معاشرے میں کسی خبر‘ کسی واقعے یا کسی بات کی تصدیق ضروری نہیں۔ سارا سلسلہ افواہوں کی بنیاد پر قائم ہے۔ گواہ یا ثبوت پوچھنے کا دماغ ہی نہیں! ایک شخص ہانپتا کانپتا مولوی صاحب کے پاس آیا اور گویا ہوا کہ پیر صاحب کی بیٹی کو کتا کھا گیا ہے۔ مولوی صاحب نے پوچھا کون کہہ رہا ہے؟ جواب دیا قرآن پاک میں لکھا ہے اور یہ کہ اسے آج ہی معلوم ہوا ہے۔ مولوی صاحب کچھ دیر سوچتے رہے۔ پھر ہنسے اور کہا احمق! تُو نے بات کو کیا سے کیا کر دیا ہے۔ وہ پیر صاحب نہیں تھے‘ پیغمبر تھے اور بیٹی نہیں تھی پیغمبر کا فرزند تھا اور کتے نے نہیں کھایا تھا‘ بھیڑیے نے کھایا تھا اور بھیڑیے نے بھی کھایا نہیں تھا‘ بس بھائیوں نے جھوٹ بولا تھا۔ ایک راوی سے دوسرے راو ی تک‘ پھر تیسرے اور پھر چوتھے راوی تک بات کس طرح تبدیل ہوتی ہے‘ اسے سمجھنے کے لیے ایک کھیل ایجاد کیا گیا ہے جس کا نام ہے 
Chinese whispers 
یعنی "چینی سرگوشیاں"۔ کچھ بچے‘ فرض کیجیے پندرہ بچے‘ ایک دائرہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ پہلا بچہ ساتھ والے بچے کے کان میں ایک بات کہتا ہے۔ وہ بچہ اگلے بچے کو اور یوں یہ سرگوشی چلتے چلتے آخری بچے تک پہنچتی ہے۔ ہر بچے کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بات کو درست سنے اور بغیر کسی رد و بدل کے ساتھ والے بچے کے کان تک پہنچا دے۔ ساری احتیاط کے باوجود آخری بچے تک پہنچتے پہنچتے بات تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس کھیل کے مختلف ملکوں میں مختلف نام ہیں۔ برطانیہ‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں اسے "چینی سرگوشیاں" کہتے ہیں۔ امریکہ میں "ٹیلی فون گیم" اور بہت سے دوسرے ملکوں میں مختلف نام۔ یہ کھیل بہت بڑے پیمانے پر بھی کھیلا جاتا ہے۔ 2008ءمیں لندن میں یہ کھیل کھیلا گیا۔ 1330بچے اور کچھ مشاہیر شامل تھے۔ دو گھنٹے چار منٹ یہ کھیل جاری رہا۔ آغاز اس فقرے سے ہوا "ہم مل کر ایک مختلف دنیا بنائیں گے"۔ آخری کھلاڑی تک پہنچتے پہنچتے یہ فقرہ یوں ہو گیا "ہم ریکارڈ قائم کریں گے"۔ 2016ءمیں یہ کھیل آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں کھیلا گیا۔ اس میں 237 افراد شریک ہوئے جو سات مختلف زبانیں بولنے والے تھے۔ کھیل افلاطون کے اس قول کے سے شروع ہوا " زندگی ایک کھیل (ڈرامے) کی طرح گزاری جائے"۔ چھبیس گھنٹوں کے بعد جب کھیل الاسکا (امریکہ ) میں ختم ہوا تو افلاطون کے قول نے یہ شکل اختیار کر لی تھی "وہ گھونگوں کو دانتوں سے کاٹتا ہے"۔
اس کھیل سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ بات اپنے سفر کے دوران اپنی شکل تبدیل کر لیتی ہے۔ مگر جان بوجھ کر‘ ابلیسی ارادے کے ساتھ‘ خبر کو غلط رنگ دینا بہت بڑا جرم ہے اور گناہ بھی! اس میں دوسروں کی جان کو خطرہ ہے۔ ایک حالیہ شیطانی حرکت کے نتیجہ میں برطانیہ میں فسادات ہوئے اور مسلمان ظلم کا نشانہ بنے۔ مسلمانوں کو ایسے عمل سے خاص طور پر روکا گیا ہے۔ غیر ذمہ دارانہ طریقے سے بات پھیلانے والے کو فاسق قرار دیا گیا ہے۔ "اے لوگو‘ جو ایمان لائے ہو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو۔کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو (الحجرات:6)۔ غور کیا جائے تو یہی واحد طریقہ ہے جس سے غلط افواہوں کی روک تھام ہو سکتی ہے۔ جو لوگ مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں اور تحقیق کیے بغیر ہر سنی سنائی بات کو سچ مان لیتے ہیں‘ وہ نہ صرف بے وقوف اور کم عقل ہیں بلکہ قرآنی حکم کی مخالفت کا ارتکاب بھی کر رہے ہیں۔ یہ تو حکم تھا اس بات کے بارے میں جو ہم تک پہنچتی ہے۔ اب اگلا مرحلہ دیکھیے۔ فرمایا "کسی شخص کے جھوٹا ہونے 
ل
یے اتنا 

ہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات کو آگے بتاتا (پھیلاتا) پھرے"۔ یہ جو بھیڑ چال چلی ہے کہ "منقول" یا
Forwarded as received 

لکھ کر ہر رطب و یابس کو پھیلایا جائے اور فساد پھیلا کر لوگوں کی زندگیوں سے کھیلا جائے۔ یہ ایک مسلمان کا شیوہ نہیں ہو سکتا۔ میں اگر ظاہری شکل و صورت اور برہنہ ٹخنوں سے مسلمان ہونے کا اظہار کرتا ہوں‘ نماز پڑھتا ہوں‘ روزہ رکھتا ہوں‘ دیگیں چڑھاتا ہوں مگر افواہیں پھیلاتا ہوں‘ وٹس ایپ پر ہر سنی سنائی بات کو 
"Forward" 
کرتا پھرتا ہوں اور معاشرے میں ہیجان اور بدامنی پھیلاتا ہوں تو میں اچھا مسلمان ہر گز نہیں۔ ایک معروف ادیب کے بارے میں باوثوق ذریعے سے معلوم ہوا کہ انہوں نے میسج فارورڈ کرنے کے لیے ایک خاص وقت مخصوص کر رکھا ہے۔ ایک بیورو کریٹ بتا رہا تھا کہ صبح نماز پڑھنے کے بعد میسج فارورڈ کرتا ہے‘ لوگوں کو پھول بھیجتا ہے اور جمعہ کا دن ہو تو جمعہ مبارک بھی بھیجتا ہے۔ ہماری قوم کے پاس پیسہ دھیلا ہے نہ عقل! ہاں! فالتو وقت کروڑوں ٹنوں کے حساب سے ہے۔ اس لیے ہر روز جھوٹی سچی باتیں فارورڈ کرتے ہیں‘ پھول بھیجتے ہیں جن میں خوشبو نہیں ہوتی اور جمعہ مبارک بھیجتے ہیں۔ ویسے وٹس ایپ سے پہلے جمعہ مبارک کبھی نہیں سنا تھا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

Tuesday, October 15, 2024

ایک اور عبدالحمید


تب بھی ایک عبد الحمید شہید ہوا تھا۔
56 سال پہلے کی بات ہے۔ یہ دادا جان کا زمانہ تھا۔ طلبہ نے بغاوت کی۔ دادا جان کی فورس نے گولی چلائی۔ عبدالحمید نامی طالب علم شہید ہو گیا۔ اس 17 سالہ جوانِ رعنا کا تعلق پنڈی گھیب سے تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو اس کے والدین کی دلجوئی کے لیے اور طلبہ کی حمایت کے لیے پنڈی گھیب گئے۔ شہید کا خون رنگ لایا۔ دادا جان کی گرفت کمزور پڑنے لگی۔ پھر وہی ہوا جو ہر گردن بلند کے ساتھ ہوتا آیا ہے اور جسے ہر گردن بلند سمجھتا ہے کہ کبھی نہیں ہو گا۔ چند ماہ ہی گزرے تھے کہ اقتدار کی ریت پاؤں کے نیچے سے سرک گئی۔ رہے نام اللہ کا!
عبدالحمید کے خون کے علاوہ بھی دادا جان کے سر بہت کچھ ہے۔ آج پوتا کہتا ہے کہ ماشل لاء دادا جان نے نہیں لگایا تھا‘ اسکندر مرزا نے لگایا تھا۔ بالکل درست کہا۔ ابنِ خلدون اور ٹائن بی کے بعد یہی درست ترین تعبیر ہے تاریخ کی۔ اسکندر مرزا نے خود ہی اپنے آپ کو جلا وطن کر دیا اور سب کچھ دادا جان کو سونپ دیا۔ پھر اسکندر مرزا ہی نے روزنامہ امروز‘ پاکستان ٹائمز اور لیل و نہار پر قبضہ کرکے پریس کا گلا گھونٹ دیا۔ جس نام نہاد آئینی کمیشن نے پارلیمانی نظام کے نقائص گنوائے تھے‘ وہ بھی اسکندر مرزا نے گن پوائنٹ پر قائم کیا تھا۔ پھر یہ اسکندر مرزا ہی تھا جس نے انتخابات میں مادرِ ملت فاطمہ جناح کی ''شکست‘‘ کا انتظام کیا تھا۔ اسی نے مادرِ ملت کو غدار بھی قرار دیا تھا۔ یہ اسکندر مرزا ہی تھا جس نے Nincompoop منعم خان کو مشرقی پاکستان کا گورنر بنا کر ملک کے منہ پر کالک ملی۔ یہ اسکندر مرزا ہی تھا جو کھلم کھلا کہتا تھا کہ ان بنگالیوں نے ہمارے ساتھ نہیں رہنا۔ اسکندر مرزا ہی نے حسین شہید سہروردی جیسے قد آور سیاستدان کو قید کیا جو بیروت میں پُراسرار حالات میں مردہ پائے گئے۔ یہی وہ زخم تھا جو بنگالی کبھی نہ بھول پائے۔
دادا جان تو معصوم تھے۔ یہ اسکندر مرزا ہی تھا جس نے دادا جان کے گلے پر پاؤں رکھ کر مجبور کیا کہ جب تک دم میں دم ہے‘ اقتدار نہ چھوڑنا کہ ایسا نہ ہو کسی مشرقی پاکستانی کو پاکستان کی حکمرانی مل جائے۔ پھر یہ اسکندر مرزا ہی تھا جس نے ایوب خان کو حکم دیا کہ اقتدار چھوڑ رہے ہو تو آئین پر عمل نہ کرنا اور فوج کو ہی ملک پر مسلط کر کے رخصت ہونا۔ یوں اسکندر مرزا کے حکم پر دادا جان نے حکمرانی کا تاج جنرل یحییٰ خان کے سر پر رکھ دیا۔ بلکہ یہ اسکندر مرزا ہی تھا جس نے پوتے کو مجبور کیا کہ صبح شام‘ رات دن پارٹیاں بدلو۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اسکندر مرزا کو ان تمام جرائم کی‘ بعد از مرگ سزا دی جائے اور دادا جان کو جمہوریت کا بطلِ جلیل قرار دیا جائے۔
56 سال بعد تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا ہے۔ ایک اور عبد الحمید شہید ہوا ہے۔ چار اکتوبر 2024ء کے دن ریاست پاکستان کے ملازم عبدالحمید کو اپنے منصبی فرائض کی ادائیگی کے دوران احتجاج کرنے والی پارٹی کے کارکنوں نے اغوا کیا اور بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے عبدالحمید شہید ہو گیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس معاملے کا پوتے سے براہِ راست کوئی تعلق نہ تھا۔ مگر پوتے کو تاریخ اور فلسفۂ تاریخ پر کمال کی دسترس ہے۔ پوتے نے جب دیکھا کہ 56 سال پہلے دادا جان کی فورس نے جس معصوم کو شہید کیا تھا اس کا نام بھی عبدالحمید تھا اور اس ماہ جس بے گناہ کو پوتے کی پارٹی کے کارکنوں نے شہید کیا ہے اس کا نام بھی عبدالحمید ہے تو پوتا جذباتی ہو گیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ یہ تو تاریخ کا تسلسل ہے اور دادا پوتا دونوں ایک طرف کھڑے ہیں جبکہ دونوں شہید دوسری طرف کھڑے ہیں۔ اس پر پوتے نے ٹیلی ویژن پر پوری دنیا کو بتایا کہ عبدالحمید کی وفات تو ہائی بلڈ پریشر اور ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ہوئی ہے۔ پوتے نے شہید کے بیٹوں کا بھی حوالہ دیا۔ بدقسمتی سے شہید عبدالحمید کے بیٹوں کو اس باطل دعوے کا علم ہو گیا۔ انہوں نے ثبوت کے ساتھ پوتے کا دعویٰ رد کر دیا۔ شہید کے بیٹوں نعمان اور حماد کا کہنا ہے کہ والد کی میڈیکل رپورٹ کے مطابق ان کے سر اور جسم کے دیگر حصوں پر زخموں کے نشانات تھے۔ چار اکتوبر کو پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران شدید زخمی ہونے کے باعث پولیس کانسٹیبل عبدالحمید شاہ کی شہادت ہوئی۔ دوسرے بیٹے حماد حمید شاہ کے مطابق اس کے والد چار اکتوبر 2024ء کو پی ٹی آئی کے جلسے میں شہید کیے گئے۔ سی ٹی سکین رپورٹ کے مطابق ان کے سر پر چوٹ اور سینے پر زخموں کے نشانات تھے۔پہلے عبد الحمید کے قاتل کو بھی کوئی سزا نہیں ملی:
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا 
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
دوسرے عبدالحمید کے قاتلوں کو بھی کوئی نہیں پوچھنے والا۔ کوئی اور ملک ہوتا اور ریاست کا افسر شہید ہوتا تو مارنے والوں کی نسلیں بھی یاد رکھتیں۔ مگر یہاں ریاست کے اہلکار کا قصور یہ ہے کہ وہ انسان بھی ہے اور انسان کے خون کی اس دیار میں کوئی وقعت‘ کوئی قدر و قیمت نہیں۔ آپ کو یاد نہیں کہ کوئٹہ میں بھی ریاست کا اہلکار ڈیوٹی دے رہا تھا۔ دن دہاڑے ایک گردن بلند نے اسے اپنی گاڑی کے نیچے کچل دیا۔ پھر کیا ہوا؟ قاتل انگلیوں سے فتح کا نشان بناتا ہوا‘ دندناتا ہوا‘ جیل سے بھی نکل آیا اور مقدمہ بھی اپنی موت مر گیا۔ تاریخ کی دردناک ستم ظریفی دیکھیے کہ کل ایک عبدالحمید کو دادا کی فورس نے مار دیا۔ آج ایک اور عبدالحمید مارا جاتا ہے تو پوتا اس کے قاتلوں کے دفاع میں برسر عام دروغ گوئی کا مرتکب ہوتا ہے۔ یہ حسنِ اتفاق ہے یا سوئِ اتفاق؟ مگر جو کچھ بھی ہے عبرتناک ہے اور درد انگیز!
ہم کب تک مارنے والوں کا دفاع کرتے رہیں گے اور کب تک مرنے والوں کے ماتم میں سینہ کوبی کرتے رہیں گے؟ کب تک؟ آخر کب تک؟ قوم تو ایک ہی ہے۔ ملک تو ایک ہی ہے! قبیلہ تو ایک ہی ہے۔ اس قبیلے کا نام پاکستان ہے۔ دھرتی ماں کے سینے پر ہم کیوں خون کی ہولی کھیل رہے ہیں؟ کیا ہم دیکھ نہیں رہے کہ ماں زخموں سے چور ہے۔ ہم نے تو اکٹھے ہو کر اس ماں کی خدمت کرنا تھی۔ ہم کیوں اسے خون کے آنسو رُلا رہے ہیں؟ ہم عقل سے عاری کیوں ہو گئے ہیں؟ ہم آنکھیں بند کر کے ان کے پیچھے کیوں چل رہے ہیں جن کے پاس آگ اور خون کے سوا کچھ نہیں۔ وہ ہر جگہ آگ لگانا چاہتے ہیں۔ ہر جگہ خون بہانا چاہتے ہیں۔ گھر میں مہمان آ جائے تو ناہنجار سے ناہنجار فرزند بھی خاموش ہو جاتا ہے کہ مہمان کی بے حرمتی نہ ہو اور میزبان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا نہ لگ جائے۔ مگر ہم کیسے فرزند ہیں کہ مہمانوں کی موجودگی میں اپنے ہی گھر کی عزت خاک میں ملانا چاہتے ہیں۔ کیا شرفا ایسا ہی کرتے ہیں؟ بخدا نہیں! اور کچھ نہیں تو ہم اپنے حسب نسب ہی کا خیال کر لیں! ہمارے بزرگ تو ایسے نہ تھے۔ ہمارے خاندانوں کی تو یہ روایت نہ تھی۔ ہم پٹھان‘ ہم پنجابی‘ ہم سندھی‘ ہم اُردو بولنے والے‘ ہم کشمیری‘ ہم گلگتی‘ ہم بلتی‘ ہم چترالی‘ ہم سب تو بڑی غیرت والے تھے۔ رکھ رکھاؤ والے تھے۔ وضعدار تھے۔ افسوس آج ہم مہمانوں کے سامنے اپنے آپ کو رسوا کرنے پر تُلے ہوئے ہیں! اے خاصۂ خاصانِ رسل وقت دعا ہے۔

Monday, October 14, 2024

لیفٹیننٹ جنرل کمال اکبر


میری ان سے پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ لیفٹیننٹ کرنل تھے اور میں نے سی ایس ایس کر کے نئی نئی ملازمت شروع کی تھی۔ کسی ''لائق‘‘ ڈاکٹر نے عینک کا نمبر غلط دے دیا تھا۔ ایک سینئر نے کہا کہ چلو تمہیں ایک بہت ہی اچھے ڈاکٹر کے پاس لے چلوں۔ وہ ایم ایچ کے آئی ڈیپارٹمنٹ میں کرنل کمال اکبر کے پاس لے گئے۔ دو منٹ کے اندر اندر یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ پرانے دوست ہوں۔ سحر تھا یا کچھ اور‘ ایک عجیب مقناطیسی شخصیت تھی۔ کرنیلی تھی نہ ڈاکٹری! صرف نرم گفتاری تھی اور اپنائیت۔ نظر اُن کے سٹاف نے چیک کرنا تھی مگر انہوں نے خود کی۔ یہ اُس تعلق کی ابتدا تھی جو لگ بھگ پچاس برس قائم رہا۔ وہ فوج میں پروموٹ ہوتے گئے‘ میں سول سروس میں! وہ تھری سٹار جنرل ہو گئے۔ میں گریڈ بائیس میں پہنچ گیا۔ وہ آرمی میڈیکل کالج کے پرنسپل رہے۔ پھر سرجن جنرل ہو گئے‘ یعنی تینوں مسلح افواج کے میڈیکل شعبوں کے سربراہ! مگر نرم گفتاری اور اپنائیت میں کوئی فرق نہ پڑا۔ وہ ہمیشہ کمال اکبر رہے۔ کبھی جنرل کمال اکبر نہ بن سکے۔
خلقِ خدا کی خدمت کا عجیب جذبہ ودیعت ہوا تھا انہیں۔ بتایا کرتے تھے کہ سیالکوٹ میں بطور کپتان تعینات تھے۔ اپنے کتنے ہی ساتھیوں کے موٹر سائیکلوں پر حفاظتی اضافی چیزیں لگوائیں۔ پھر جب سینئر ہو کر راولپنڈی تعینات تھے تو ان کی زندگی کا مقصد لوگوں کی جان بچانا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھنے والے تو کیا‘ ڈرائیور بھی سیٹ بیلٹ نہیں باندھتے تھے۔ اُس زمانے میں مَیں نے دیکھا کہ جنرل کمال اکبر پچھلی سیٹ پر سیٹ بیلٹ لگا کر بیٹھتے تھے۔ ایک بار اُن کے پاس گیا تو آپریشن تھیٹر میں لے گئے۔ ایک خاتون دکھائی جس کا چہرہ‘ آنکھوں سمیت زخموں سے اتنے برے حال میں تھا کہ دیکھا نہیں جاتا تھا۔ کہنے لگے: یہ خاتون کار کے حادثے میں زخمی ہوئی ہے۔ اگر اس نے سیٹ بیلٹ باندھی ہوتی تو چہرا بچ جاتا۔ تب پنڈی لاہور موٹروے کا وجود ہی نہ تھا۔ جڑواں شہروں میں سیٹ بیلٹ باندھنے کا تصور عنقا تھا۔ گاڑیوں میں بیلٹ ہوتی ہی نہیں تھی۔ جنرل کمال اکبر سلطان کے کھوہ (جہاں نئے اور پرانے سپیئر پارٹس بِکتے ہیں) جاتے۔ کثیر تعداد میں سیٹ بیلٹیں خریدتے اور پھر اپنے مریضوں سمیت‘ ہر ملنے والے کو دیتے اور تاکید کرتے کہ خدا کا واسطہ ہے‘ سیٹ بیلٹ گاڑی میں لگاؤ اور پھر اسے ہر حال میں استعمال کرو۔ یہ اور بات کہ ہماری قوم قانون شکنی کو بہادری سمجھتی ہے۔ جہاں شیر خوار بچے کو گود میں بٹھا کر گاڑی چلائی جائے وہاں کون سی سیٹ اور کیسی بیلٹ! موٹروے بنی تو اس کے بعد ایک عرصہ تک اسلام آباد شہر میں سیٹ بیلٹ کا استعمال لازم نہیں تھا۔ ٹول پلازا سے نکلتے ہی ڈرائیور حضرات سیٹ بیلٹ سے یوں آزاد ہوتے جیسے سیٹ بیلٹ پولیس پر احسان کرنے کے لیے باندھی تھی۔
جنرل صاحب کے اندر ایک چھوٹا معصوم بچہ چھپا ہوا تھا‘ سٹاف میں سے جو ملتا اسے جیب سے بال پوانٹ یا ڈیجیٹل گھڑی یا کوئی اور گفٹ نکال کر پیش کرتے۔ ایک بار مجھے ایک چھوٹی سی عجیب وغریب بطخ دی۔یہ کبھی دائیں طرف‘ کبھی بائیں طرف جھکتی۔ دل چاہتا اسے گھنٹوں دیکھتے رہیے۔ کہنے لگے: یہ مریضوں کا وقت گزارنے کے لیے بہترین شے ہے۔ اسے بنانے والے کا سراغ لگانا چاہتے تھے۔ میں نے بھی کوشش کی۔ اندرون لاہور کوئی کاریگر تھا جس کی یہ ایجاد تھی۔ اب وہ یہ کام چھوڑ چکا تھا۔ جنرل صاحب کو ایسی اشیا ڈھونڈنے اور جمع کرنے کا شوق تھا جو مفید ہوں مگر سستی ہوں۔ اکثر اتوار کے دن پانی کی بوتل لیتے‘ پشت پر بیک پیک باندھتے اور چھوٹی گاڑی لے کر راجا بازار اور اس کے نواحی بازاروں کو نکل پڑتے۔ پلاسٹک کی بڑی دکانوں کو ضرور چھانتے۔ کوئی بھی نئی شے جو مفید ہو‘ خرید لیتے۔ پھر جو کچھ خریدتے‘ دوستوں اور سٹاف میں تقسیم کر دیتے۔ ایک دن غریب خانے پر تشریف لائے۔ دیوانِ غالب کا ایک بہت خوبصورت نسخہ عنایت کیا‘ کہنے لگے: یہ مجھے کسی نے تحفہ دیا ہے اور تم مجھ سے کہیں زیادہ اس کے مستحق ہو۔
پیشہ ورانہ امور میں حد سے زیادہ دیانت دار اور بے لوث تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد شفا آئی ٹرسٹ کو اپنی خدمات پیش کیں۔ وہیں ایک دن میں حاضر ہوا۔ عینک کے نمبر کا مسئلہ تھا۔ معائنہ کے دوران انہیں گلوکوما کا شک ہوا۔ اس شک کو دور کرنے کے لیے ایک عرصہ تک مجھے نگرانی میں رکھا۔ ایم ایچ کے آئی ڈیپارٹمنٹ میں سب بڑے بڑے ڈاکٹر اُن کے شاگرد تھے۔ انہیں میرے بارے میں خصوصی ہدایات دیں۔ کئی ٹیسٹوں اور طویل معائنوں کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ چونکہ عینک کا نمبر بہت ہائی ہے‘ اس لیے گلو کوما کا شک ہو گیا تھا۔ ان کے شاگردوں کی بات ہوئی ہے‘ تو یہ بھی بتاتا چلوں کہ شہید جنرل مشتاق بیگ بھی اُن کے شاگرد تھے اور جانشین بھی۔ ان سے ملاقات جنرل کمال اکبر ہی نے کرائی تھی۔ وہ بھی سراپا انکسار اور محبت تھے۔ دہشت گردی کی نذر ہو گئے اور شہادت پائی۔ جنرل مشتاق مرحوم میرے والد صاحب کے بھی معالج تھے۔ مجھے کہا ہوا تھا کہ وہ خود موجود نہ ہوں یا مصروف ہوں تو والد صاحب کو کرنل مظہر اسحاق کے پاس لے جایا کروں۔ کرنل صاحب مریضوں کے جمگھٹے میں رہتے اور بہت ہر دلعزیز تھے۔ ایک بار میں نے عرض کیا کہ والد صاحب عدم اطمینان کا اظہار فرماتے ہیں اس لیے انہیں اکثر لے آتا ہوں۔ کرنل صاحب کہنے لگے ''انہیں وہم بھی ہو تو فوراً لے آیا کریں اس لیے کہ ان کا اطمینان زیادہ ضروری ہے‘‘۔ مظہر اسحاق جنرل ہو کر ریٹائر ہوئے۔ ان کا کلینک اب انکم ٹیکس دفاتر کی بغل میں ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جنرل کمال اکبر نے آئی سپیشلسٹ ڈاکٹروں کی کئی نسلوں کو پڑھایا‘ ان کی تربیت کی۔ ان میں سے ہر ایک مریضوں کے لیے مینارۂ نور ثابت ہوا۔ لاکھوں لوگ ان چشمہ ہائے فیض سے شفایاب ہوئے اور مسلسل ہو رہے ہیں۔ وہ ذاتی زندگی میں بھی عام لوگوں کے لیے دردِ دل رکھتے تھے۔ ایک بار ان کے ایڈریس پر ایک ایسا خط آگیا جس میں کسی طالب علم کو انٹرویو کے لیے بلایا گیا تھا۔ یہ انٹرویو ملازمت کے لیے تھا۔ کال لیٹر پر بھی ایڈریس نامکمل تھا۔ جنرل صاحب پریشان ہوئے کہ اگر یہ کال لیٹر امیدوار کو نہ ملا تو اس کا نقصان ہو گا۔ انہیں تین دن لگے مگر مسلسل تلاش اور دوڑ دھوپ کے بعد وہ خط طالب علم تک پہنچا کر رہے۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو کسی اجنبی کے لیے تین دن کا آرام تج دیں؟
2014ء میں ڈیفنس شفٹ ہوا تو باکل سامنے والے گھر میں خواجہ جاوید قیام پذیر تھے۔ وہ اٹامک انرجی کے بڑے سائنسدان تھے۔ ان کی بیگم پروفیسر سہیلہ یونیورسٹی میں انگریزی ادب کے شعبے کی صدر تھیں۔ انتہائی شائستہ جوڑا تھا۔ ایک دن جنرل کمال اکبر غریب خانے پر تشریف لائے۔ کہنے لگے: سامنے خواجہ جاوید کے پاس آیا تھا۔ سوچا تمہیں بھی ملتا جاؤں۔ معلوم ہوا جنرل صاحب خواجہ صاحب کے بہنوئی ہیں۔ یوں ان سے ایک اور تعلق نکل آیا اور اس بہانے ملاقاتیں پہلے کی نسبت زیادہ ہو گئیں۔ جنرل صاحب میں حسِ مزاح بھی بہت تھی۔ کہنے لگے: ایک مریض آیا جو خود ڈاکٹر تھا۔ مجھے معلوم ہو گیا کہ یہ کوئی ہومیو پیتھ ڈاکٹر ہی ہو سکتا ہے۔ نسخہ لکھا تو اسے دیکھے بغیر ہی‘ تہہ کر کے جیب میں ڈال لیا۔ ڈاکٹر ہوتا تو پہلے نسخہ پڑھتا!
کل جب خواجہ جاوید صاحب نے کینیڈا سے اطلاع دی کہ دل میں بے لوث محبت کے خزانے رکھنے والے کمال اکبر اُفق کے پار چلے گئے تو دل مٹھی میں جیسے جکڑا گیا۔ رحمان اور رحیم ان کی لغزشوں سے درگزر کرے اور نیکیوں کو قبول کر کے ان کے ساتھ بہترین معاملہ کرے

Thursday, October 10, 2024

واہ! ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب واہ !


''مجھے بلایا اسلام آباد میں کہ یتیم بچوں کو ملو۔ میں بولا ٹھیک ہے۔ میں بہت بِزی تھا۔ دس منٹ دوں گا۔ تقریر ختم ہو گئی تو خواتین‘ میں خواتین ہی بولوں گا‘ بالغ تھیں سب‘ سٹیج کے اوپر آ گئیں۔ میں بولا کیا ہو رہا ہے؟ کہا ''بچیاں ہیں۔ میری بیٹیاں ہیں‘‘۔ یہ کدھر کا تصور ہے۔ لڑکی جب بالغ ہو جاتی ہے‘ 13سال‘ 14سال‘ 15سال‘ آپ اس کو چھو بھی نہیں سکتے۔ میں اسلام پر تقریر کر رہا ہوں۔ پوری فوج آجاتی ہے۔ لڑکی لوگوں کی۔ کیا ہے یہ؟ یتیم خانے کا جو مالک تھا کہنے لگا: ڈاکٹر صاحب یہ میری بچیاں ہیں۔ میں بولا تم کو بھی چھونا حرام ہے۔ تیری بیوی کے پیٹ سے اگر پیدا ہوئی تو جائز ہے۔ میں سٹیج سے نیچے اُتر گیا۔ سوشل میڈیا پر لوگ کہہ رہے ہیں ارے ڈاکٹر صاحب نے غلط کیا۔ بچوں سے نہیں ملا۔ کیا ہو گیا ہے اس دیش (پاکستان) کو! آپ نابالغ‘ نا محرم کو چھو بھی نہیں سکتے۔ اور یہ پاکستان میں ہو رہا ہے! انڈیا میں جب ہندو مجھے بلاتے ہیں تو احترام کرتے ہیں۔ ہندو جب مجھے بلاتے ہیں تقریر کرنے کے لیے‘ احترام کرتے ہیں کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک لڑکیوں کو نہیں چھوتے۔ دور رکھتے ہیں۔ یہاں تو میں جب اسلام آباد میں گیا تو ٹیلی ویژن کی جو ہوسٹ ہے‘ میرے نزدیک آئی‘ سوال پوچھنے‘ میں پیچھے جا (ہَٹ) رہا ہوں‘ وہ آگے آرہی ہے۔ کیا ہو رہا ہے۔ آپ اگر یتیم بچوں کو کھانا دے رہے ہیں‘ آپ کو چھونے کا حق نہیں۔ پیسے والے ہیں۔ پیسہ غریبوں میں بانٹتے ہیں اور چھو سکتے ہیں! کیا بولتے ہو! لا حول والا قوۃ!‘‘
یہ ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کی اس تقریر کا اقتباس ہے جو انہوں نے اسلام آباد میں کی۔ یہاں چھ پہلوؤں پر بات کرنی ضروری ہے۔ اول یہ کہ ڈاکٹر صاحب سے کس نے مطالبہ کیا کہ آپ انہیں چھوئیں؟ 
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
وہ بار بار چھونے کی بات کر رہے ہیں جس کا یہاں موقع ہے نہ محل! دوم: شیلڈ بچیوں کو چھوئے بغیر بھی دی جا سکتی ہے۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ شیلڈ یا انعام دیتے وقت ڈاکٹر صاحب کیسے چھو لیں گے؟ سوم: ان کے پاس کیا ثبوت ہے کہ یہ تمام بچیاں بالغ ہیں؟ ان میں بہت چھوٹی بچیاں بھی شامل تھیں۔ سب بچیوں نے سر بھی مکمل طور پر ڈھانپے ہوئے تھے۔ چہارم: یہ کہنا کہ ''پیسے والے ہیں۔ پیسہ غریبوں میں بانٹتے ہیں اور چھو سکتے ہیں‘‘۔ بہت نامناسب بات ہے۔ یہ یتیم گھر کے منتظمین پر اور عطیات دینے والوں پر الزام بلکہ تہمت لگانے والی بات ہے۔ نرم سے نرم الفاظ میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے چھوٹی بات کی! پنجم: ٹی وی کی خاتون ان سے بات کرنا چاہتی تھی۔ وہ آگے اس لیے آ رہی تھی کہ مائیک ان کے منہ کے سامنے رکھے۔ ڈاکٹر صاحب غلط سمجھے کہ وہ ان کو چھونا چاہتی ہے یا ان پر حملہ کرنا چاہتی ہے۔ ششم: اگر خواتین کی موجودگی پر اعتراض تھا تو جن جلسوں میں وہ تقریریں کرتے ہیں ان میں بھی خواتین موجود ہوتی ہیں اور ڈاکٹر صاحب سے سوال جواب بھی کرتی ہیں۔ بالکل اسی طرح ڈاکٹر صاحب ٹی وی ہوسٹ سے بھی بات چیت ک

ر سکتے تھے۔ یتیم بچیوں کو دیکھ کر سٹیج سے اُتر جانا اور ٹی وی ہوسٹ کو دیکھ کر پیچھے ہٹنا‘ اس سائیکی کو 

Paranoia 

ہی کہا جا سکتا ہے یعنی دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کا جنون!
اس سے بھی زیادہ افسوسناک واقعہ یہ ہوا کہ ایک خاتون کے بالکل سیدھے سادھے سوال کو ڈاکٹر صاحب نے حیرت انگیز طور پر غلط معنی پہنائے حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ خاتون کیا کہنا چاہتی تھی۔ پہلے خاتون کا سوال سنیے ''میں جس جگہ سے تعلق رکھتی ہوں وہاں مکمل مذہبی سوسائٹی ہے۔ وہاں خواتین بلا ضرورت گھر سے باہر نہیں جاتیں۔ مرد کوئی نماز قضا نہیں کرتے اور ہر شبِ جمعہ کو دعوت الی اللہ پر نکلے ہوئے لوگوں کا بیان ہوتا ہے۔ حال ہی میں ایک بہت بڑا تبلیغی اجتماع بھی ہوا ہے وہاں۔ ہمارے علاقے کے تمام لوگ 

Religious 

ہیں۔ سر! میرا سوال یہاں یہ ہے کہ آپ کی وِزڈم کے مطابق کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ وہاں پر منشیات کی لت‘ بدکاری‘ پیڈوفیلیا(بچوں کی ساتھ جنسی زیادتی) سود اور اس طرح کی برائیاں جڑ پکڑ چکی ہیں۔ آپ کے نزدیک کیا وجہ ہے کہ سوسائٹی کا وہاں انہدام ہو رہا ہے۔ ہمارے علما انہیں کال آؤٹ کیوں نہیں کرتے؟ خاص طور پر پیڈو فیلیا کو؟‘‘
اب ڈاکٹر صاحب کا جواب ملاحظہ کیجیے۔ ''آپ کے سوال میں تکرار ہے۔ آپ کہتی ہیں میرا معاشرہ اسلامی ہے پھر بولتی ہیں پیڈو فیلیا ہے‘‘۔ یہاں خاتون وضاحت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب جھڑ ک دیتے ہیں اور اسے بولنے نہیں دیتے۔ پھر اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں ''آپ نے جو سوال کیا ہے میرے حساب سے اس میں کنٹرا ڈکشن (تضاد) ہے۔ آپ نے کہا میرا معاشرہ بہت اسلامک ہے اور میرے معاشرے میں پیڈوفیلیا ہے۔ اسلامی ماحول میں پیڈوفیلیا ہو ہی نہیں سکتا۔ یا آپ کا پہلا پارٹ غلط ہے‘ آپ کو ماننا پڑے گا کہ سوال میں خطا ہے۔ آپ کو یہ کہنا چاہیے تھا کہ میرا معاشرہ سمجھتا ہے کہ وہ اسلامک ہے‘ تو مانوں گا۔ اسی لیے کبھی کسی پر الزام لگانے سے پہلے دس بار سوچو۔ اگر آپ اللہ کے دربار میں یہ سوال کریں گی تو پھنس جائیں گی میری بہن! آپ کو معافی مانگنی چاہیے کیونکہ آپ کا سوال غلط ہے‘‘۔ یہاں خاتون پھر کوشش کرتی ہے کہ وضاحت کرے مگر ڈاکٹر صاحب اسے نہیں بولنے دیتے اور کہتے ہیں ''پہلے آپ کو قبول کرنا پڑے گا۔ اگر آپ قبول نہیں کرتیں تو میرا جواب ختم‘‘۔ یہاں خاتون کہتی ہے۔ او کے سر! میرے سوال کی نوعیت غلط تھی۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں ''نوعیت غلط نہیں۔ سوال غلط ہے۔ آپ غلط ہیں‘‘۔ پھر ڈاکٹر صاحب سورۃ الحجرات کی آیت چھ کا حوالہ دیتے ہیں جس کا اس واقعہ پر اطلاق ہی نہیں ہو رہا۔ اور کہتے ہیں ''آپ سارے مجمع میں دہرا رہی ہیں۔ آپ اسلام پر تہمت لگا رہی ہیں اور آپ معافی بھی نہیں مانگ رہیں!‘‘
ڈاکٹر صاحب نے سوال کرنے والی ہی کو مجرم بنا دیا حالانکہ اس بیچاری کا مطلب وہ سمجھ چکے تھے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلامی ہیں مگر عمل ان کا الٹ ہے۔ لگتا ہے عمر کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب کی قوتِ برداشت کم ہو رہی ہے۔ وہ زود رنج ہو گئے ہیں۔ شاید ہائی بلڈ پریشر کے عارضے میں مبتلا ہیں۔ ایک اور مجمع میں (پاکستان میں نہیں) وہ ایک پروفیسر کو بار بار کہتے ہیں 

Keep your mouth shut 

یعنی اپنا منہ بند رکھو۔
ڈاکٹر صاحب پی آئی اے پر بہت غضبناک ہیں۔ انہی کی زبان سے سنیے ''میرا سامان ہزار کلو تھا۔ میں نے سی ای او سے بات کی اور کہا: سامان پانچ چھ سو کلو زیادہ ہے۔ کہنے لگا: پچاس فیصد ڈسکاؤنٹ دوں گا۔ میں نے بولا: بھائی دے گا تو فری‘ ورنہ مت دے‘ میں نے ٹھکرا دیا۔ ارے انڈیا میں کوئی غیر مسلم مجھے دیکھے گا تو فری میں چھوڑ دے گا۔ یہ ہے انڈیا! یہ پاکستان ہے‘ میں سٹیٹ گیسٹ ہوں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک! ارے نہیں چاہیے تیرا ڈسکاؤنٹ! یہ پاکستان کا حال ہے۔ جو عزت مجھے انڈیا میں ملتی ہے۔ ہندو بولتے ہیں یہ تو بھگوان کا آدمی ہے۔ یہاں میں سی ای او سے بات کرتا ہوں۔ یہ حال ہے پاکستان کا۔ اتنے افسوس کی بات ہے۔ جو مزا وہاں انڈیا میں آتا ہے۔ مجمع اس سے بڑا!‘‘۔ اس پر کسی کمنٹ کی ضرورت نہیں۔ یہ وہی رویہ ہے کہ ''تم نہیں جانتے میں کون ہوں؟‘‘ وہ اپنے آپ کو قانون سے مبرا سمجھتے ہیں۔ نرگسیت ہے یا تکبر!!
بہر طور ڈاکٹر صاحب کو بلانے والوں کا مقصد پورا ہو گیا۔ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹ گئی اور خوب ہٹی!

Tuesday, October 08, 2024

ایک بیٹی کی فریاد



'' میری عمر اس وقت 35 سال ہے۔ میری ابھی تک شادی نہیں ہوئی کیونکہ ہمارے خاندان کی رسم ہے کہ خاندان سے باہر رشتہ کرنا نیچ حرکت ہے۔ خاندان کے بڑے بوڑھے جب آپس میں بیٹھتے ہیں تو بڑے فخریہ انداز سے کہتے ہیں کہ سات پشتوں سے اب تک ہم نے کبھی خاندان سے باہر رشتہ نہیں کیا۔ میں عمر کے 35ویں سال میں پہنچی ہوں‘ اب تک میرے لیے خاندان سے کوئی رشتہ نہیں آیا جبکہ غیر خاندانوں سے کئی ایک رشتے آئے لیکن مجال ہے کہ میرے والدین یا بھائیوں نے کسی سے ہاں بھی کی ہو۔ میں اندر سے گھٹ گھٹ کر زندہ لاش بن چکی ہوں۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں جب اپنی ہمجولیوں کو اُن کے شوہروں کے ساتھ ہنستے مسکراتے دیکھتی ہوں تو دل سے درد کی ٹیسیں اٹھتی ہیں۔ یاخدا! ایسے پڑھے لکھے جاہل ماں باپ کسی کو نہ دینا جو اپنی خاندان کے ریت ورسم کو نبھاکر اپنی بچوں کی زندگیاں برباد کردیں۔ میرے درد کو مسجد کا مولوی صاحب بھی جمعہ کے خطبے میں بیان نہیں کرتا...
اے مولوی صاحب ذرا تو بھی سن!!! رات کو جب ابا حضور اور اماں ایک کمرے میں سو رہے ہوتے ہیں‘ بھائی اپنے اپنے کمروں میں بھابیوں کے ساتھ آرام کر رہے ہوتے ہیں تب مجھ پر کیا گزرتی ہے وہ صرف میں اکیلی ہی جانتی ہوں۔ اے حاکمِ وقت! تو بھی سن لے فاروق اعظمؓ کے زمانے میں رات کے وقت جب ایک عورت نے درد کے ساتھ ہجر کے اشعار پڑھے تو فاروق اعظمؓ نے ملازم شوہروں کے لیے حکم جاری کیا کہ کوئی شوہر اتنی مدت سے زیادہ اپنی فیملی سے دور نہ رہے۔ اے حاکمِ وقت‘ اے میرے ابا حضور‘ اے میرے ملک کے علما‘ اے میرے محلے کی مسجد کے امام صاحب‘ اے میرے شہر کے پیر صاحب! میں کس کے ہاتھوں پر اپنا لہو تلاش کروں؟
کون میرے درد کو سمجھے گا؟ میری 35 سال کی عمر گزر گئی لیکن میرے ابا کا اب بھی وہی رٹ ہے کہ میں اپنی بچی کی شادی خاندان سے باہر ہرگز نہیں کروں گا۔ اے خدا تو گواہ رہنا بے شک تونے میرے لیے بہت سے اچھے رشتے بھیجے لیکن میرے گھروالوں نے وہ رشتے خود ہی ٹھکرا دیے اب کچھ سال بعد میرا ابا تسبیح پکڑ کر یہی کہے گا کہ بچی کا نصیب ہی ایسا تھا۔ اے لوگو! مجھے بتاؤ کوئی شخص تیار کھانا نہ کھائے اور بولے تقدیر میں ایسا تھا تو وہ پاگل ہے یا عقلمند۔ اللہ پاک نوالے منہ میں ڈلوائے کیا؟؟ یونہی اس مثال کو سامنے رکھ کر سوچیں کہ میرے اور میرے جیسی کئی اوروں کے لیے اللہ نے اچھے رشتے بھیجے لیکن والدین نے یا بعض نے خود ہی ٹھکرا دیے۔ اب کہتے پھرتے ہیں کہ جی نصیب ہی میں کچھ ایسا تھا...‘‘
نہیں معلوم یہ تحریر اصلاً کس کی ہے۔ میں عام طور پر سوشل میڈیا سے کوئی تحریر نہیں اٹھاتا مگر اس تحریر کو پڑھ کر جو حالت ہوئی اس کا تصور ایک باپ ہی کر سکتا ہے یا ایک عورت! یہ پاکستان کے لاکھوں یا غالباً کروڑوں گھروں کی کہانی ہے۔ دنیا کہاں سے کہاں جا پہنچی ہے۔ خود پاکستان میں لاتعداد تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا نے اوپر کی مٹی نیچے اور نیچے کی مٹی اوپر کر دی ہے۔ مگریہ سماجی برائی بدستور تباہی پھیلا رہی ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی اپنے اردگرد دیکھے تو کئی گھر ایسے دکھائی دیں گے جہاں بیٹیوں کے بالوں میں چاندی اُتر آئی ہے مگر وہ ماں باپ‘ دادا دادی اور برادری کے جھوٹے تکبر اور نسلی رعونت کی قیمت ادا کر رہی ہیں۔ یہ دور افتادہ پسماندہ قصبوں اور بستیوں کی بات نہیں‘ پنجاب کے پڑھے لکھے لوگوں کی بات کی جا رہی ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیاں بیٹھی ہیں۔ والد صاحب کی یا والدہ محترمہ کی ایک ہی پالیسی ہے کہ لڑکا ہماری ذات ہی کا ہو۔ مغل ہی ہو۔ گجر ہی ہو‘ ارائیں ہی ہو‘ اعوان ہی ہو‘ سید ہی ہو! ورنہ بیٹی کی‘ بہن کی شادی نہیں ہو گی! ان سے کوئی پوچھے کہ اس کا کیا فائدہ ہو گا؟ کوئی دنیاوی فائدہ؟ کوئی اُخروی فلاح؟ کیا سائنسی تحقیق نے بتایا ہے کہ اپنی ہی ذات میں شادی کرنے سے بچے جینیس پیدا ہوں گے اور نوبیل انعام جیتیں گے؟ یا قوی ہیکل ہوں گے اور کشتی لڑنے کے ماہر نکلیں گے؟ یا ایسا کرنے سے عمریں طویل ہوتی ہیں؟ یا دولت ہن کی طرح برستی ہے؟ کوئی اور فائدہ ہے تو بتایا جائے! میں ایک ایسے خاندان کو جانتا ہوں جہاں چار بہنیں چالیس سے اوپر کی ہو چکی ہیں مگر کوئی سید رشتہ نہیں مل رہا۔ ایک مغل خاندان ہے جو مغل لڑکے کی تلاش میں بیٹی کی بددعائیں لے رہا ہے۔ ایک گجر فیملی ہے جو گجروں سے باہر نہ نکلنے پر مُصر ہے۔ ایک اعلیٰ ترین تعلیم یافتہ سید خاندان ہے۔ سب بڑے بڑے افسر ہیں مگر بیٹیاں جوانی کی دہلیز عبور کر کے ادھیڑ عمر کی ہو چلی ہیں۔ ایک اور صاحب نے بیٹی کے ساتھ یہی سلوک کیا۔ بیٹی ملازمت کرتی تھی۔ والدین سے مایوس ہو کر اس نے اپنے ایک رفیقِ کار سے شادی کر لی۔
اُس دن سے لے کر آج تک والد نے بیٹی کی شکل نہیں دیکھی۔ اس نے بھی دوسرے جاہلوں کی طرح وہی منحوس فقرہ کہا ''تم ہمارے لیے مر چکی ہو‘‘۔ غلط کام خود کیا اور نفرین بیٹی پر بھیج رہا ہے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے ایسے پسندیدہ اشخاص بھی نظر آتے ہیں جو ان بے سروپا خیالات سے چپکے رہنے کے بجائے اُس فرض سے سبکدوش ہوئے جو مذہب اور معاشرے نے ان پر عائد کیا۔ ایک اردو بولنے والے سید خاندان نے ایک بیٹی سندھی فیملی میں بیاہی۔ دوسری سرائیکی خاندان میں۔ دونوں داماد غیر سید ہیں۔ بیٹیاں اپنے اپنے گھروں میں خوش ہیں اور آسودہ حال۔ ان کے ماں باپ انہیں خوش دیکھ کر اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں۔ اللہ تعالی ان پر مزید نوازشیں کرتا ہے۔
آپ اندازہ لگایئے۔ یہ ملک یونیورسٹیوں‘ کالجوں اور مدرسوں سے اَٹا پڑا ہے۔کہنے کو یہ ایٹمی طاقت ہے۔ لاکھوں لوگ مغربی ملکوں میں رہ رہے ہیں۔ مسجدیں نمازیوں سے چھلک رہی ہیں۔ مگر لاکھوں لڑکیاں والدین کی ضد اور ہٹ دھرمی کے باعث اپنے اس حق سے محروم ہیں جو اللہ نے انہیں دیا ہے۔ ان شقی القلب والدین میں تھری پیس سوٹ پہننے والے مسٹر صاحبان بھی شامل ہیں اور عمامے اور چُغے زیب تن کرنے والے مذہبی افراد بھی! اور ان حضرات کی دلیل کیا ہے؟ کبھی کہیں گے کہ رشتے آسمانوں پر بنتے ہیں! کبھی فلسفہ جھاڑیں گے کہ قدرت کو یہی منظور تھا۔ اپنا رشتہ تو زمین پر طے ہوا۔ بیٹی کی باری آئی تو آسمان کے ذمے لگا دیا!
یہاں اُن لالچی لوگوں کا ذکر بھی ضروری ہے جو جہیز کے طلبگار ہیں۔ جہیز کی وجہ سے ایک لڑکی سے شادی نہ کرنا ظلم ہے اور جہالت بھی۔ منطق اور کامن سینس کہتا ہے کہ ایسے لوگوں سے آخرت میں ضرور باز پرس ہو گی۔ ایسے لڑکے جو جہیز طلب کرتے ہیں اور لیتے ہیں‘ گداگروں کی طرح ہیں۔ عزتِ نفس سے عاری ہیں۔ اور معاشرے میں فساد اور برائی کے ذمہ دار ہیں۔ اُن عورتوں کو جو بہوؤں کو طعنے دیتی ہیں کہ تمہارے باپ نے آخر تمہیں دیا کیا ہے‘ شرم آنی چاہیے۔ ایک باپ نے اپنی لخت جگر تمہارے حوالے کر دی۔ اس سے زیادہ قیمتی چیز کیا ہو گی؟ ایسی عورتوں کو سوچنا چاہیے کہ ان کی اپنی بیٹیاں بھی ہیں!
اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ شادی اپنے ''کفو‘‘ میں کرنی چاہیے۔ تو کفو سے مراد یہ نہیں کہ اگر آپ مغل ہیں یا ارائیں یا اعوان تو رشتہ صرف مغل یا ارائیں یا اعوان ہی میں ہو۔ اگر لڑکی مغل ہے اور کروڑ پتی باپ کی بیٹی ہے اور لڑکا مغل ہے مگر مزدور ہے تو یہ کفو ہرگز نہیں۔ مناسبت‘ یعنی کفو مال‘ دین‘شرافت‘ مزاج اور پیشوں میں بھی ضروری ہے۔ ریاست کا فرض ہے کہ لڑکیوں کو ذات برادری والی ضد سے بچانے کے لیے مناسب قانون سازی کرے!

Monday, October 07, 2024

ہم گنڈاپوری عہد میں جی رہے ہیں


جو کچھ ہونے والا ہے‘ اس کا سوچ کر آپ خلجی‘ تغلق‘ لودھی اور مغل خاندانوں کی عظیم الشان سلطنتوں کو بھول جائیں گے۔ آپ اس انگریزی یلغار کو بھی فراموش کر بیٹھیں گے جو جنوب سے شروع ہوئی تھی اور پورے ہندوستان پر چھا گئی تھی۔ جو کچھ ہونے والا ہے اس کے سامنے آپ کو راجہ پورس‘ سکندرِ اعظم‘ احمد شاہ ابدالی‘ نادر شاہ اور رنجیت سنگھ جیسے سورما چوہے نظر آئیں گے۔
گنڈاپوری لشکر چل پڑا ہے۔ جن توپوں کے ساتھ شہنشاہ ظہیر الدین بابر نے ابراہیم لودھی کے لشکرِ جرار کو دھول چٹوا دی تھی‘ وہ توپیں اب گنڈاپوری لشکر کے جلو میں ہیں۔ ان توپوں کو 20ہزار بیل کھینچ رہے ہیں۔ توپوں کے پیچھے جنگجو ہاتھیوں کی سیسہ پلائی دیوار کھڑی ہے۔ ایک ایک ہاتھی کے کجاوے پر پانچ پانچ بندوقچی متعین ہیں۔ ان بندوقچیوں کا نشانہ کبھی خطا نہیں ہوا۔ جس ہاتھی پر بہت بڑا سنہری چترِ بادشاہی نصب ہے‘ اس پر بانیٔ سلطنتِ گنڈاپوری‘ جناب گنڈاپور صاحب‘ خود بنفس نفیس تشریف فرما ہیں۔ ہاتھ میں تلوار ہے۔ کمر کے ساتھ خنجرِ آبدار لٹک رہا ہے۔ تاج پر لگے ہیرے اور موتی چمک رہے ہیں۔ ان کے دائیں بائیں جلو میں اور عقب میں تیر اندازوں کے دستے ہیں۔ سورج مغرب سے نکل سکتا ہے مگر ان تیر اندازوں کا تیر غلطی نہیں کر سکتا۔ کل شام کو گنڈاپوری لشکر نے دریائے سندھ کو عین اس جگہ سے عبور کیا جہاں جلال الدین خوارزم نے چھلانگ لگائی تھی۔ دریا عبور کرنے کے بعد گنڈاپوری لشکر نے اکبرِ اعظم کے بنائے ہوئے قلعے پر قبضہ کر لیا۔ آخری خبریں آنے تک وہ حسن ابدال میں عین اس جگہ پڑاؤ ڈالے ہیں جہاں شہنشاہ اورنگزیب نے قیام کیا تھا۔ شہنشاہ گنڈاپور نے اس جگہ دربار لگایا۔ خلعتیں تقسیم کیں۔ شاعروں نے قصیدے پڑھے۔ مساجد میں ان کے نام کا خطبہ پڑھا گیا۔ یہیں سے شہنشاہ عالی جناب نے پنڈی‘ جہلم‘ لاہور اور سیالکوٹ کے حکمرانوں کو خطوط لکھے اور متنبہ کیا کہ ہتھیار ڈال دیں ورنہ ان کی اس تلوار کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جائیں جو دشمنوں کے سر پر صاعقہ بن کر کوندتی ہے۔
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان شہروں کے والی‘ عالم پناہ کی غلامی قبول کر کے ان کا باجگزار بننا اپنی دنیاوی اور اُخروی سعادت سمجھیں گے۔ شہنشاہ گنڈاپور لاہور کی بادشاہی مسجد میں جمعہ کا خطبہ دیں گے۔ پھر شاہی قلعے میں استراحت فرمائیں گے۔ گنڈاپوری لشکر کی اگلی منزل پانی پت کا میدان ہو گا۔ قصور سے گزرتے ہوئے آپ ایک ذیلی لشکر کو‘ جناب علی احمد خان کی قیادت میں کشمیر کی فتح کے لیے روانہ فرمائیں گے۔ جیسے ہی شاہی لشکر پانی پت کے میدان میں خیمہ زن ہو گا‘ جناب علی احمد خان کشمیر فتح کر کے لشکر سے آن ملیں گے۔ دنیا بھر کے جنگی مبصرین کو یقین ہے کہ دہلی کا حکمران گنڈاپوری لشکر کا سامنا کرنے سے گریز کرے گا۔ اسے شکست صاف دکھائی دے رہی ہو گی۔ دہلی شہر کے دروازے کھول دیے جائیں گے۔ شہنشاہ گنڈاپور‘ جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں پر شمشیر بدست کھڑے ہو کر سہ روزہ قتلِ عام کا حکم دیں گے۔ تاہم ڈیرہ اسماعیل خان کے جید علما کی پُر زور سفارش پر یہ فرمان منسوخ کر دیں گے اور شمشیر کو نیام میں ڈال لیں گے۔ دہلی کے قلعے اور قطب مینار پر گنڈاپوری پرچم لہرا دیا جائے گا۔ دہلی کو سلطنتِ گنڈاپوری کا دارالحکومت قرار دے دیا جائے گا۔ یہاں سے مختلف سمتوں کو عساکر روانہ کیے جائیں گے۔ جناب سعد قیصر 20 ہزار مسلّح اسپ سواروں کے ساتھ چتوڑ‘ گوالیار اور آگرہ کے شہر فتح کرنے نکل جائیں گے۔ جناب عامر ایوب خان بنگال‘ بہار اور اڑیسہ فتح کرنے جائیں گے۔ جناب جوہر علی خان ایک لشکرِ جرار کی کمان سنبھالتے ہوئے حیدر آباد‘ بنگلور اور چنئی کا رُخ کریں گے۔ ایک اور لشکر جناب حمید اظہر کی سربراہی میں مہاراشٹرا فتح کرنے جائے گا اور بمبئی کی بندرگاہ پر قبضہ کرے گا۔ بالی وُڈ کی تمام سرگرمیوں کو فی الفور ڈیرہ اسماعیل خان منتقل کیا جائے گا۔ بہت جلد جناب عامر ایوب خان‘ جناب سعد قیصر اور جناب جوہر علی خان فتوحات کے پھریرے لہراتے‘ ایک لاکھ اونٹوں پر مالِ غنیمت لادے دارالحکومت حاضر ہوں گے۔ فتوحات کی خوشی میں دس روز تک جشن برپا ہو گا۔ بہادر کمانڈروں کو انعامات سے نوازا جائے گا۔ جناب جوہر علی خان کو حکم دیا جائے گا کہ گوا اور کیرالہ کو بھی فتح کریں۔ گنڈاپوری فتوحات کی برق رفتاری سے خوف زدہ ہو کر سری لنکا‘ افغانستان‘ نیپال‘ بھوٹان اور سکم کی ریاستیں اطاعت قبول کر لیں گی۔ جیسا کہ انگریز کیا کرتے تھے‘ ان ریاستوں میں گنڈاپوری امرا کو ریزیڈنٹ کے طور پر تعینات کیا جائے گا۔ یوں پورا برصغیر گنڈاپوری عملداری میں آ جائے گا۔
شہنشاہ گنڈاپور نظم و نسق کو درست فرمائیں گے۔ مالیہ جمع کرنے کے لیے ایک مضبوط نظام وضع فرمائیں گے۔ پورے برصغیر کو امن و امان کا گہوارہ بنا دیں گے۔ دوسرے ملکوں سے برابری کی بنیاد پر نہیں بلکہ برتری کی بنیاد پر تعلقات قائم کریں گے۔ ایشیا کے تمام ملک گنڈاپوری سلطنت کو خراج میں گھوڑے‘ اونٹ اور کنیزیں پیش کریں گے۔ لیکن شہنشاہ معظم خراج پر اکتفا نہیں کریں گے۔ بہت جلد برما پر فوج کشی کا حکم دیں گے۔ کاکس بازار کے مقام پر ہولناک جنگ ہو گی۔ رنگون فتح کر لیا جائے گا۔ اس کے بعد شہنشاہ گنڈاپور بنفس نفیس تھائی لینڈ پر حملہ کریں گے۔ تھائی لینڈ کے عوام اور افواج مقابلہ کریں گے مگر گنڈاپوری طریقِ جنگ کے سامنے بے بس ہو جائیں گے۔ بنکاک پر گنڈاپوری افواج کا قبضہ ہو جائے گا۔ بنکاک ایئر پورٹ کو ڈیرہ اسماعیل خان منتقل کر دیا جائے گا۔ تھائی لینڈ کے بادشاہ کو پنشن دے کر منوڑا (کراچی) میں نظر بند کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد دربارِ عام لگے گا۔ شہنشاہ گنڈاپور تختِ شاہی پر نزولِ اجلال فرما کر استفسار فرمائیں گے کہ تھائی لینڈ سے آگے کون کون سی اقلیمیں اور ولایتیں واقع ہیں۔ دربار کے علما نقشہ پھیلا کر کچھ بتانے کی کوشش کریں گے مگر حکم صادر ہو گا کہ نقشہ ہٹا کر صرف ملکوں کے نام بتائے جائیں کہ نقشہ کا مطالعہ کرنے میں عالم پناہ کو کوفت ہوتی ہے۔ عرض کیا جائے گا کہ اس سے آگے کمبوڈیا‘ لاؤس اور ویتنام ہیں۔ حکم صادر ہو گا کہ ان ممالک کو فتح کر کے سلطنتِ گنڈاپوری کے صوبوں میں تبدیل کیا جائے۔ کچھ عرصہ کے بعد شہنشاہ گنڈاپور ایک اور انگڑائی لیں گے۔ لشکر لیے‘ منزلوں پر منزلیں مارتے ایک طرف برونائی کے تیل کے کنووں پر قبضہ کر لیں گے‘ دوسری طرف ملائیشیا اور سنگاپور پر گنڈاپوری پرچم لہرانے لگے گا۔ تھوڑا ہی عرصہ گزرے گا کہ انڈو نیشیا اور ایسٹ تیمور کے ممالک اطاعت قبول کر لیں گے۔ شہنشاہ گنڈاپور اپنی ذات بابرکات کے لیے شہنشاہِ ہند و شرق الہند و مشرقِ بعید کا لقب پسند فرمائیں گے۔
یہ وہ وقت ہو گا جب سلطنتِ گنڈاپوری کا نام دنیا کی عظیم ترین طاقتوں میں شمار ہو گا۔ جاپان اور روس کے نمائندے اذنِ حضوری کے لیے ہفتوں انتظار کریں گے۔ بڑے بڑے ملکوں کے سربراہ فیصلے کرنے سے پہلے شہنشاہ گنڈاپور کی رائے اور مشورہ لینا ضروری سمجھیں گے۔ انہیں ہمہ وقت یہ خدشہ لاحق رہے گا کہ گنڈاپوری لشکر خدانخواستہ ان کے ملکوں کا رُخ نہ کر لے۔ آگ اور خون کے اس سیلِ رواں سے بڑی بڑی سلطنتیں لرزہ براندام ہوں گی!
ہم گنڈاپوری عہد میں جی رہے ہیں! ہم خوش قسمت ہیں! شہنشاہ گنڈاپور کا سایہ ہمارے سروں پر ہمیشہ رہے!

Thursday, October 03, 2024

نیوزی لینڈ

تلخ نوائی —- نیوزی لینڈ

جہاز میں داخل ہوا توکچھ مسافر ایشیائی شکل و صورت کے دکھائی دیے۔ ان کی جسامتیں بڑی تھیں اور وہ بھاری بھرکم تھے۔ مگر ایشیائی تو اس تن و توش کے مالک نہیں ہوتے۔ تو یہ کون تھے؟ نیوز ی لینڈ پہنچنے کے بعد اس نوع کے بہت سے مرد اور عورتیں دیکھیں۔ معلوم ہوا یہ وہ لوگ ہیں جو انگریزوں کی آمد سے پہلے سے نیوزی لینڈ میں رہ رہے تھے۔ ان کے آباؤ اجداد سینکڑوں سال پہلے تائیوان اور جنوب مشرقی ایشیا سے آئے تھے۔ یہ لوگ ماؤری کہلاتے ہیں اور نیوزی لینڈ کی کل آبادی کا 18 فیصد ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ آسٹریلیا کے اصل باشندے ایبوریجنل 
(Aboriginal) 
کہلاتے ہیں۔ انگریز آئے تو ان اصل باشندوں پر بہت ظلم ہوئے۔ یہاں تک کہ ان کے بچے تک اٹھائے جاتے رہے۔ جس طرح آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ایک بنیادی فرق ہے‘ اسی طرح آسٹریلیا کے ایبوریجنل اور نیوزی لینڈ کے ماؤری باشندوں میں بھی بنیادی فرق ہے۔ آسٹریلیا میں بنیادی طور پر مجرموں اور سزا یافتہ انگریزوں کو آباد کیا گیا تھا جبکہ نیوزی لینڈ میں آنے والے انگریز آزاد تھے۔ اسی طرح آسٹریلیا کے ایبوریجنی لوگ ہمیشہ سے آسٹریلیا ہی میں رہتے ہیں۔ یہ شکل‘ رنگ اور نقوش سے کچھ کچھ جنوبی بھارت کے لوگوں سے مشابہت رکھتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ لاکھوں سال پہلے آسٹریلیا برصغیر ہند و پاک سے جڑا ہوا تھا۔ کسی بہت بڑے حادثے کے نتیجے میں آسٹریلیا الگ ہوا اور خشکی کا یہ بہت بڑا ٹکڑا جنوب مشرق کی طرف چلا گیا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ ایبوریجنی افریقہ سے آئے۔ بہر طور ایبوریجنی لوگ آسٹریلیا کی اکثریتی آبادی میں آج تک گھل مل نہیں سکے۔ اس کے برعکس ماؤری خوش شکل لوگ ہیں۔ ان میں تعلیم یافتہ لوگوں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ یہ نیوزی لینڈ کے سماج سے جڑے ہوئے یعنی 
well integrated 
ہیں۔ میڈیا‘ سیاست اور کھیلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ نیوزی لینڈ کی موجودہ گورنر جنرل بھی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ خوش شکل ماؤری خاتون ہے۔ آسٹریلیا‘ کینیڈا‘ نیوزی لینڈ اور گیارہ دوسرے ملکوں کا بادشاہ اور ریاست کا سربراہ آج بھی برطانیہ کا بادشاہ ہے۔ ان ملکوں میں گورنر جنرل بادشاہ ہی کا نمائندہ ہوتا ہے۔ موجودہ ماؤری خاتون گورنر جنرل سے پہلے بھی دو ماؤری مرد نیوزی لینڈ کے گورنر جنرل رہ چکے ہیں۔ اس کے مقابلے میں آسٹریلیا میں کوئی ایبوریجنی گورنر جنرل نہیں رہا۔ ہاں ایک ریاست کا گورنر ضرور ایبوریجنی رہا ہے۔ ماؤری لوگ جب کوئی تقریب کرتے ہیں یا خوشی مناتے ہیں تو بہت شور مچاتے ہیں۔ چیختے اور چنگھاڑتے ہیں۔ پوری زبان بار بار باہر نکالتے ہیں۔ اس ساری سرگرمی کو ''ہاکا‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ عورتیں ٹھوڑی پر نقش و نگار بناتی ہیں‘ یوں لگتا ہے فرنچ کٹ داڑھی رکھی ہوئی ہے۔
آج سے ہزار‘ نو سو سال پہلے نیوزی لینڈ میں کوئی آدم‘ آدم زاد نہیں تھا۔ ماؤری اسکے بعد آئے۔ 1642ء میں ڈَچ مہم جُو ایبل تسمان یہاں آیا۔ اسکے ملک یعنی نیدر لینڈز میں ایک علاقے کا نام زی لینڈ تھا۔ اس نسبت سے اس نے ان جزیروں کا نام نیوزی لینڈ رکھ دیا۔ نیوزی لینڈ کی آبادی صرف 53 لاکھ ہے۔ دودھ اور دودھ سے بنی ہوئی چیزیں برآمدات کا 18 فیصد ہیں۔ کہیں بھی چلے جائیں‘ شاہراہوں کے دائیں بائیں گائیں چرتی نظر آتی ہیں۔ سبزہ زار اور چراگاہیں میلوں تک دکھائی دیتی ہیں۔ گائیں باندھی نہیں جاتیں‘ رات کو نہ دن کو۔ انگریزوں کی آمد سے پہلے ملک کا 80 فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل تھا۔ انگریز آئے تو جنگلات کو کاٹا اور چراگاہیں بنائیں تاکہ مویشی پالے جا سکیں‘ چنانچہ اب جنگلات ملک کے کل رقبے کا صرف 23 فیصد رہ گئے ہیں۔ نیوزی لینڈ دنیا کے ٹاپ کے کرپشن فری ملکوں میں گنا جاتا ہے۔ اسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ دنیا میں سب سے پہلے‘ 1893ء میں اِسی نے عورتوں کو ووٹ کا حق دیا۔ تعلیم کا معیار بلند ہے۔ خواندگی 99 فیصد ہے۔ اس ملک کی آٹھ یونیورسٹیاں دنیا کی ٹاپ کی تین فیصد یونیورسٹیوں میں شامل ہیں۔ یہاں چین کے بعد طلبہ کی سب سے زیادہ تعداد بھارت سے تعلق رکھتی ہے۔ پاکستانی طلبہ اور طالبات کیلئے یہاں کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کے بہت مواقع ہیں۔
ہمارا جہاز آک لینڈ اُترا۔ آک لینڈ نیوزی لینڈ کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اس کی آبادی 17 لاکھ کے لگ بھگ ہے جبکہ دارالحکومت ویلنگٹن کی آبادی اڑھائی لاکھ سے زیادہ نہیں۔ آک لینڈ کے بازار‘ مال اور ریستوران دیکھنے کے بجائے‘ جو ہر شہر میں ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں‘ ہم نے اصل نیوزی لینڈ دیکھنے کا فیصلہ کیا اور تین گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد ایک قصبے ''وائٹی اینگا‘‘ میں ڈیرے ڈال لیے۔ یہ ایک خوابیدہ‘ سرسبزو شاداب قصبہ تھا۔ پھولوں‘ درختوں اور پودوں سے بھرا ہوا۔ آدم‘ آدم زاد کوئی نہیں نظر آرہا تھا۔ نظر بھی کیا آتا‘ قصبے کی آبادی ہی ساڑھے چھ ہزار تھی۔ ہاں جب ہم ٹاؤن سنٹر میں گئے تو لوگ دیکھے۔ سمندر کے کنارے رونق تھی۔ پارکوں میں بچے کھیل رہے تھے۔
 Beach 
پر گئے تو رش تھا۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ہر مرد و زن نے بیلچہ اٹھایا ہوا تھا۔ ذرا آگے گئے تو دیکھا کہ سب بیلچے سے پانی کے نیچے ریت کھود کھود کر ایک طرف کر رہے ہیں۔ گڑھا سا بن جاتا تھا تو پانی میں بیٹھ جاتے تھے۔ شدید سردی کے باوجود یہ پانی گرم ہوتا تھا۔ قدرت کا کرشمہ تھا کہ اوپر سخت ٹھنڈا پانی اور نیچے گرم‘ آرام دہ! ایک سردار صاحب بچوں اور پوتوں کے ساتھ دکھائی دیے۔ بات چیت ہوئی تو پاکستان کی بے پناہ تعریفیں کرنے لگے۔ کہنے لگے کہ ننکانہ صاحب‘ حسن ابدال‘ لاہور‘ پنڈی‘ گوجرانوالہ‘ جہاں بھی گئے پاکستانیوں نے بہت خیال رکھا‘ مہمان نوازی کی اور عزت سے پیش آئے۔ بس پر بیٹھے تو بس کے منیجر (یا مالک) نے سب سے آگے والی سیٹ پر بٹھایا اور ڈرائیور کو تاکید کی کہ بس جہاں بھی رکے‘ سردار صاحب کی خاطر تواضع کرنی ہے۔ ان سردار صاحب کے ماموں اور خالائیں تقسیم کے وقت پاکستان ہی میں رہ گئے تھے۔ بعد میں مسلمان ہو گئے۔ یہ انہیں ملنے پاکستان آتے رہتے ہیں۔ وائٹی اینگا کے قصبے میں پاکستانی ریستوران نہیں دکھائی دیا۔ انڈین ریستوران موجود تھا۔ مرغی کا گوشت حلال تھا اور بکرے کا غیر حلال۔ سالن میٹھا تھا۔ ریستوران کا پنجابی منیجر کہنے لگا کہ گورے مرچیں نہیں کھاتے‘ اس لیے ہم سالن میں چینی بھی ڈال دیتے ہیں۔ شکر کیا کہ دال میٹھی نہیں تھی۔ کھائی اور بہت سی کھائی۔
نیوزی لینڈ کے 53 لاکھ افراد نے اپنے ملک کو سلامتی‘ امن اور اقتصادی خوشحالی کا گہوارا بنا رکھا ہے۔ کرپشن صفر ہے۔ جرائم کی شرح بہت کم ہے۔ پہاڑوں‘ جھیلوں‘ دریاؤں اور سمندر کا حسن قدرت نے دیا ہے اور معاشرتی حسن کا کریڈٹ ملک کے باشندوں کو جاتا ہے۔ زراعت کو انڈسٹری کا درجہ دیا گیا ہے۔ گوشت‘ دودھ‘ مکھن‘ پنیر‘ پھل اور خشک میوے بر آمد کیے جاتے ہیں۔ امن و امان کی وجہ سے سیاح لاکھوں میں آتے ہیں اور ملکی آمدنی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ نیوزی لینڈ سے سبق ملتا ہے کہ ترقی یافتہ کہلانے کیلئے بھاری صنعتوں کا ہونا ضروری نہیں۔ عقل اور دیانت ہو تو زرعی ملک بھی ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا ہو سکتا ہے۔ اس کیلئے نظم‘ انصاف اور رُول آف لاء کی ضرورت ہے۔ جتنے دن نیوزی لینڈ میں گزرے‘ گمشدہ شاعر شبیر شاہد کے یہ اشعار مسلسل ذہن میں گونجتے رہے:
بہار کی دھوپ میں نظارے ہیں اس کنارے
سفید پانی کے سبز دھارے ہیں اس کنارے
وہاں کی صبحوں کا رنگ ہے فاختاؤں جیسا
دُھلے ہوئے آسمان سارے ہیں اس کنارے
کسان دل شاد کھیت آباد ہیں وہاں کے
سفید بھیڑیں ہیں سبز چارے ہیں اس کنارے

Tuesday, October 01, 2024

ہر الزام تحریک انصاف پر مت دھریے


لطیفہ ہے یا واقعہ۔ خاتون نے گاڑی سرخ سگنل پر روکی۔ بھکاری مانگنے آیا۔ خاتون نے اسے دیکھا تو کہا: تمہیں پہلے بھی کہیں دیکھا ہے۔ بھکاری نے دانت نکالے اور کہنے لگا ''باجی! ہم فیس بک پر ایک دوسرے کے دوست ہیں‘‘۔
یہ اگر لطیفہ ہے تو اسے لطیفہ نہیں‘ سانحہ کہنا چاہیے۔ اس لیے نہیں کہ بھکاری انسان نہیں۔ اس لیے کہ سوشل میڈیا نے باہمی پردے ہٹا دیے ہیں۔ طبقات ایک دوسرے کے ساتھ مکس ہو رہے ہیں۔ جو لوگ نرم گفتار‘ وضعدار اور مہذب ہیں‘ اب وہ ان لوگوں سے نہیں بچ سکتے جو گالیاں دیتے ہیں‘ آوازے کستے ہیں اور ایک خاص طرزِ زندگی رکھتے ہیں۔ آپ اُس محلے میں بچوں کو نہیں رکھنا چاہتے جس میں غنڈے اور بدمعاش رہتے ہیں۔ آپ کسی بہتر آبادی میں منتقل ہو جاتے ہیں‘ مگر آپ ان غنڈوں اور بدمعاشوں سے نہیں بچ سکتے۔ اب وہ سوشل میڈیا پر آپ کو آ ملتے ہیں۔ ساری احتیاط دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ میر تقی میر بیل گاڑی پر دلّی یا لکھنؤ جا رہے تھے۔ سارا راستہ ہم سفروں سے بات نہ کی کہ زبان پر برا اثر پڑے گا۔ کیا اچھا زمانہ تھا کہ خراب زبان بولنے والوں سے بچا جا سکتا تھا اور بچوں کو بچایا جا سکتا تھا۔ میر صاحب آج کی دنیا میں ہوتے تو شاید کپڑے پھاڑ کر جنگل کو سدھار جاتے۔
پھاڑ ڈالا میں گریباں رات کو داماں سمیت
ایسے گھرانوں کے لڑکے لڑکیاں‘ جو ''آپ‘‘ کے عادی ہیں‘ اور جنہیں ان کے ماں باپ نے کبھی ''تم‘‘ کہہ کر مخاطب نہیں کیا‘ اب ان بچوں سے فیس بک پر دوستیاں کر رہے ہیں جنہیں کھانے کی تمیز ہے نہ پہننے کی نہ بات کرنے کی‘ جنہیں بڑوں کا ادب کرنا سکھایا ہی نہیں گیا۔ میں اخبار کی ویب سائٹ پر اپنے کالم کے نیچے جب ان لوگوں کے کمنٹ پڑھتا ہوں جو گالیاں دیتے ہیں‘ بدتمیزی کرتے ہیں‘ ذاتی حملے کرتے ہیں اور موضوع سے ہٹ کر ناشائستہ کلمات لکھتے ہیں تو سوچتا ہوں ویب سائٹ سے پہلے کا زمانہ کتنا بھلا تھا‘ اس قماش کے لوگوں کو نزدیک پھٹکنے کا بھی موقع نہیں ملتا تھا! کس کی مجال ہے کہ آپ کو راہ چلتے روکے اور کھڑا کر کے بتائے کہ وہ کل لاہور جا رہا ہے جہاں فلاں شخص اسے لنچ کھلائے گا۔ مگر سوشل میڈیا آپ کھولتے ہیں تو یہی شخص آپ کو اپنی تمام مصروفیات سے مکمل طور پر آگاہ کر رہا ہوتا ہے جن سے آپ کا کوئی تعلق نہیں۔ آپ سوشل میڈیا کا بائیکاٹ کرتے ہیں تو سوشل میڈیا کے فوائد سے‘ مثبت پہلوؤں سے بھی محروم ہو جاتے ہیں!
بیکری کے جس لڑکے نے چیف جسٹس کے ساتھ بدتمیزی کی‘ یہ بھی سوشل میڈیا ہی کا شاخسانہ ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ کچھ خاص پڑھا لکھا نہیں تھا۔ سوشل میڈیا نہ ہوتا تو اسے بھڑکایا نہ جا سکتا۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے تعلیم یافتہ لوگوں کے درمیان ہونے والی بحثیں اَن پڑھوں یا نیم تعلیم یافتہ لوگوں میں پہنچ گئیں۔ مسلکی حوالے سے بات کی جائے تو یہ نکتہ آسانی سے سمجھ میں آ جائے گا۔ سوشل میڈیا سے پہلے مسلکی بحثیں علما کے درمیان ہوتی تھیں۔ زیادہ سے زیادہ جلسوں میں علما کی تقریریں ہو جاتی تھیں۔ ان جلسوں میں وہی لوگ جاتے تھے جن کی ان معاملات میں خاص دلچسپی ہوتی تھی‘ مگر اب مسلکی معاملات یوٹیوب اور وٹس ایپ کے ذریعے ہر اس شخص تک بھی پہنچ گئے ہیں جس کا علم انتہائی سطحی ہے اور وہ مشتعل بھی ہو رہا ہے۔ اسے گالی دینے کے علاوہ کچھ آتا ہی نہیں۔ اس لیے وہ اپنے مخالف مسلک کو گالی دے کر اپنی دانست میں اپنا فرض ادا کر رہا ہے۔
اس صورتحال سے کیسے نکلا جائے؟ سوشل میڈیا کو ختم کرنا ناممکن ہے۔ ٹوپی چھوٹی ہے۔ سر کو چھوٹا کرنا ممکن نہیں۔ ٹوپی کو بڑا کرنا پڑے گا۔ جو سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہیں انہیں بدلنا ہو گا۔ انہیں سکھانا ہو گا کہ بات کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ شائستگی کسے کہتے ہیں۔ تہذیب کیا ہے؟ میں تحریک انصاف کا حامی نہیں۔ اگست 2018ء سے پہلے میں اس کا سخت حامی تھا مگر اس کے حکومت میں آنے کے بعد میری اُمیدیں خاک میں مل گئیں۔ اب میں اس کا مخالف ہوں‘ مگر میں یہ ماننے سے قاصر ہوں کہ بدتمیزی اور ناشائستگی انہوں نے سکھائی۔ کیا تحریک انصاف نے بدتمیزی سکھانے کے لیے خصوصی کورس کرائے؟ کیا گالیاں سکھانے کی کلاسیں لگائیں؟ نہیں ایسا نہیں! یہ تو ہمارے معاشرے کا وہ وصف ہے جو تحریک انصاف کی پیدائش سے پہلے کا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بحث ہمیشہ لڑائی اور دشنام طرازی پر ختم ہوتی آئی ہے۔ مسلکی بنیادوں پر خاندانوں میں جھگڑے ہمیشہ سے ہوتے آئے ہیں۔ ہمارا شعار ''جناب‘‘ کبھی بھی نہیں رہا۔ ہمیشہ ''اوئے‘‘ رہا ہے۔ جس سوسائٹی میں بات بات پر نکاح ٹوٹنے کی خوشخبری دینا عام چلن ہو‘ وہاں کوئی اور گالی سننے پر تعجب کیسا؟

Vulgarity

 ایسا وسیع لفظ ہے جس کا مجھ کم مایہ کو مترادف نہیں مل رہا۔ ہمارا معاشرہ 

Vulgarity  


کی انتہا پر پہنچ چکا ہے۔ اس لفظ کا مطلب بے ہودگی بھی ہے‘ اوچھا پن بھی‘ گنوار پن بھی‘ سفلہ پن بھی‘ ابتذال بھی‘ پستی بھی‘ رذالت بھی اور سوقیانہ پن بھی! یہ تمام اوصاف آج کے معاشرے میں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔ گالی دینا ہمارا تکیہ کلام ہے۔ بازار سے ایک بار گزر جائیں تو درجنوں گالیاں کانوں میں پڑتی ہیں۔ ہم آہستہ آواز میں بات ہی نہیں کر سکتے۔ ریل گاڑی میں ایک مسافر فون کرتا ہے تو پورا ڈبہ سنتا ہے۔ سونا ناممکن ہو جاتا ہے۔ جب تہذیب ہماری زندگی میں کہیں بھی نہیں تو صرف بدزبانی اور دشنام دہی پر اعتراض کیسا؟ کیا ہماری ٹریفک مہذب ہے؟ کیا ہم دوسرے کی باری کا احترام کرتے ہیں؟ کیا ہم گاڑی کے پیچھے گاڑی پارک نہیں کرتے؟ کیا ہم ہسپتالوں‘ عدالتوں‘ تھانوں‘ مسجدوں پر حملے نہیں کرتے؟ کیا ہاتھا پائی ہمارے ہاں عام نہیں؟ کیا ہم دعوتوں میں ایسا مظاہرہ نہیں کرتے جس سے جانور شرما جائیں؟ تحریک انصاف کے نوجوانوں نے وہی گالیاں دہرائی ہیں جو ہمارے معاشرے میں پہلے سے عام ہیں اور جو بزرگوں کے منہ سے یہ نوجوان سنتے آئے ہیں۔
یہ والدین کا اور اساتذہ کا فرض ہے کہ اس کلچر کو تبدیل کریں۔ بچوں کو بتائیں‘ سکھائیں اور اپنے عمل سے دکھائیں کہ وہ آہستہ بولیں‘ چیخیں نہیں‘ گالی نہ دیں‘ اختلاف رائے میں دوسرے کا احترام کرنا نہ بھولیں‘ بحث میں طعن وتشنیع سے نہیں دلیل سے کام لیں‘ اپنی غلطی ماننا سیکھیں‘ زبان سے یا عمل سے دوسرے کو تکلیف نہ دیں۔ دعوتوں میں انسانیت اور تہذیب کا مظاہرہ کریں۔ بچوں کو یہ بھی سکھانا ہوگا کہ مذہبی‘ مسلکی اور سیاسی بحثوں سے پرہیز کریں۔ ایسی بحثیں سنیں نہ ان میں حصہ لیں۔ ہمارا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم ویلے ہیں یعنی فارغ! جن معاشروں میں وقت کی پابندی ہے اور مصروفیت‘ ان میں بحث اور لڑائی کے لیے لوگوں کے پاس وقت ہی نہیں! ہمارے ہاں صبح دفتر یا سکول کالج‘ یا کارخانے میں دیر سے پہنچنا عام ہے۔ اس لیے رات بحث‘ جنگ و جدل اور گالی گلوچ میں گزر جائے تو کیا غم ہے۔ کون سا صبح آٹھ بجے کام پر پہنچنا ہے؟ امریکہ‘ یورپ‘ آسٹریلیا‘ جاپان‘ ہر جگہ ڈنر غروبِ آفتاب کے وقت یا اس سے بھی پہلے ہوتا ہے۔ بازار سرشام بند ہو جاتے ہیں‘ لوگ نو بجے بستروں میں ہوتے ہیں! کیوں؟ اس لیے کہ صبح کام پر پہنچنا ہے اور وقت پر پہنچنا ہے۔ ہمارا تو دن ہی مغرب کے بعد شروع ہوتا ہے۔ راتیں جاگتی ہیں اور دن نکمے پن میں گزرتے ہیں۔ وقت وافر ہے۔ تین چار گھنٹے سیاسی یا مسلکی بحث میں گزر جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ ہمارے سیاستدان بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ وہ بھی ٹاک شو میں ایک دوسرے پر پل پڑتے ہیں۔ کروڑوں فارغ اور نکمے لوگ ایک دوسرے کو گالیاں نہ دیں تو وقت کیسے کٹے؟

 

powered by worldwanders.com