افسوس ! صد افسوس! فور سٹار جنرل ‘ پرویز مشرف مرحوم کے دفاع کے لیے کوئی نہ آگے بڑھا!
وہ سب جن کے لیے جنرل صاحب نے عاقبت کو داؤ پر لگا دیا‘ غائب تھے! ایک صاحب راولپنڈی میں '' سیّد پرویز مشرف‘‘ کا نام بہت ہی عقیدت سے لیتے تھے‘ کہیں دکھائی نہ دیے! پرویز الٰہی صاحب ‘ جن کا دعویٰ تھا کہ جنرل صاحب کو دس بار وردی میں '' منتخب‘‘ کرائیں گے‘ جیل میں تھے مگر کسی کو مامور تو کر سکتے تھے! انہوں نے بھی ایسا نہ کیا! کیا طنطنہ تھا جنرل صاحب کا ! اکبر بگتی کو مروا دیا! کسی نے چوں تک نہ کی! کراچی میں خون کی ہولی کھیلی گئی تو اسلام آباد میں اس پر فخر کیا اور اسے اپنی طاقت کے طور پر پیش کیا! کتنوں ہی کے حقوق تلف کیے اور دوسروں کو دے دیے!کسی جرنیل کو پوسٹل کے محکمے کا سربراہ بنا دیا کسی کو سول سروس کے تربیتی ادارے کا سربراہ! مکمل شہنشاہ تھے! کوئی نہ تھا جو اُن کے کسی حکم کی تعمیل میں ایک دو دن کی تاخیر بھی کر سکتا!
کم از کم شوکت عزیز کو ان کے دفاع میں ضرور عدالت میں آنا چاہیے تھا!مرحوم نے شوکت عزیز کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا تھا ! عین ممکن ہے کہ شوکت عزیز بیرونی طاقتوں کا گماشتہ ہو مگر اسے وزیر خزانہ‘ اور بعد میں وزیراعظم تو جنرل صاحب ہی نے بنایا تھا۔اقتدار کے سنگھاسن سے اترتے ہی شوکت عزیز نے قیمتی ‘ سرکاری ‘ تحائف کی بھاری گٹھڑی سر پر رکھی اور ملک سے فرار ہو گیا۔اس کے پاس مال و دولت کی کمی نہیں۔ چاہتا تو اپنے محسن کے لیے ایک بلند پایہ وکیل کر سکتا تھا۔ اُن کے احسانات کا بدلہ‘ سارا نہیں تو تھوڑا سا چکا سکتا تھا مگر:
اے رُو سیاہ تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا
المیے کی انتہا یہ ہے کہ جنرل مرحوم کی بیگم اور اُن کے بچوں نے بھی ان کا مقدمہ نہ لڑا۔ غالباً وہ بدستور پاکستان سے باہر ہیں! مرحوم کے دفاع کے لیے انہیں واپس آنے کی ضرورت بھی نہ تھی۔پاکستان میں ایک سے ایک اچھا وکیل موجود ہے‘ وہ باہر بیٹھ کر بھی ایک لائق وکیل کی خدمات حاصل کر سکتے تھے۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ جنرل مرحوم کے دوستوں‘ نام نہاد جان نثاروں‘ احسان مندوں‘ ان کے ماتحت کام کرنے والے وزیروں‘ جرنیلوں اور سول افسروں سے کیا گلہ‘ خود اُن کے فرزند‘ اُن کی دختر نیک اختر اور ان کی رفیقۂ زندگی نے انہیں عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ رمق بھر پروا بھی نہ کی! کسی نے بھی ان کا دفاع نہ کیا۔ عدالت نے سزائے موت بر قرار رکھی ! جی ہاں! بعد از مرگ سزائے موت !! فاعتبروا یا اولی الابصار!! بقول منیر نیازی۔
فکر والوں کو پتے ہیں اس نشانی میں بہت
یہ افسوسناک واقعہ ہمیں تین پہلوئوں پر غور و فکر کی دعوت دے رہا ہے۔ پہلا پہلو: غور کیجیے۔ یہ تو دنیا کی عدالت تھی۔ جن لوگوں پر جنرل مرحوم نے احسانات کیے تھے ان کی بھاری اکثریت مزے کی زندگی گزار رہی ہے۔وہ بہت آسانی سے ‘ اپنے آرام و راحت کو برقرار رکھ کر بھی جنرل صاحب کی مدد کو آسکتے تھے اور ان کی روح کو خوش کر سکتے تھے مگر کسی نے تنکا تک نہ توڑا۔ سب نے منہ موڑ لیا۔ مکمل اغماض برتا! اگر یہاں یہ حالت ہے تو وہاں‘ سب سے بڑی عدالت میں کیا ہو گا؟ اُس بڑی عدالت کے نقطہ نظر سے جنرل صاحب کے بجائے ہمیں اپنی فکر کرنی چاہیے۔ وہ جو بار بار بتا یا گیا ہے کہ وہاں بھائی بہن کام آئیں گے نہ اولاد حتیٰ کہ رفیقۂ حیات اور رفیقِ حیات بھی مدد کو نہ آئیں گے تو اس کی چھوٹی سی جھلک ہم نے دنیا میں اپنے سامنے ‘ جنرل مرحوم کے حوالے سے دیکھ ہی لی ہے۔ اس کے بعد قطمیر برابر شک کی بھی گنجائش نہیں رہنی چاہیے کہ جن پر دنیا میں تکیہ ہوتا ہے اور جن کے مفاد کے لیے ہم دوسروں پر ظلم کرتے ہیں وہ دنیا میں کام نہیں آتے تو اُس دن کیسے کام آئیں گے! وہ دن جو بہت ہی سخت دن ہو گا۔جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا۔جس دن سورج اور چاند کو ملا دیا جائے گا اور جس دن زمین کسی اور زمین سے تبدیل کر دی جائے گی۔
دوسرا پہلو غور کرنے کا یہ ہے کہ فرض کیجیے اگر بعد از مرگ کوئی مقدمہ کسی آمر کے بجائے کسی دانشور‘ کسی اہلِ قلم یا انسانوں کے کسی محسن پر چلایا گیا ہو تا تو کیا اسی طرح لوگ اسے بے یار و مدد گار‘ تنہا چھوڑ دیتے؟ فرض کیجیے‘ خدا نخواستہ آج ایدھی مرحوم کے خلاف مقدمہ چلتا ہے یا حکیم سعید صاحب یا فیض صاحب یا احمد ندیم قاسمی یا صادقین کے خلاف عدالتی کارروائی ہوتی ہے تو کیا تب بھی لوگ ان کے دفاع کے لیے نہیں اٹھیں گے؟ نہیں! اٹھیں گے اور اس طرح اٹھیں گے کہ ان کی گنتی مشکل ہو جائے گی! آمر یا حکمران اپنی جسمانی موت کے ساتھ مکمل طور پر مر جاتا ہے مگر ایک دانشور‘ ایک اہلِ قلم‘ ایک عوام کا خدمت گزار مر کر بھی زندہ رہتا ہے! آج اگر بادشاہوں کے نام زندہ ہیں تو اس لیے کہ سعدی‘ نظامی‘ امیر خسرو اور غالب نے اپنی شاعری میں ان بادشاہوں کے ناموں کا ذکر کیا ہے! ورنہ انہیں کون جانتا!
تیسرا پہلو اہم بھی ہے اور حساس بھی ! کیا آئین شکنی کا مجرم صرف جنرل پرویز مشرف تھا؟ کیا وہ پہلا آمر ہے جس نے اس ملک کو اپنی جاگیر سمجھا؟ کیا وہ پہلا غارت گر تھا جس نے جمہوریت کی بساط لپیٹی اور ہمیں برسوں نہیں دہائیوں پیچھے دھکیل دیا؟ نہیں ! جناب نہیں ! نہیں مائی لارڈ ! نہیں! انصاف کا تقاضا ابھی پورا نہیں ہوا! بعد از مرگ مقدمے کچھ اور لوگوں پر بھی چلنے چاہئیں! اور چلانے ہوں گے !! آج نہیں تو کل ، کل نہیں تو پرسوں چلیں گے اور ضرور چلیں گے! یہ پہلی بعد از مرگ سزائے موت ہے مگر یہ آخری بعد از مرگ سزائے موت نہیں! تاریخ کا پہیہ بہت ظالم ہے! جس نے پہلا مارشل لا ء لگایا اس پر بھی مقدمہ چلانا ہو گا! جس نے جس نے 1970ء کا انتخاب جیتنے والوں کو حکومت نہیں دی تھی اور اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ( بلکہ کینسل) کر دیا تھا اس پر بھی مقدمہ چلانا ہو گا! جس نے تیسرا مارشل لاء لگایا اُس پر بھی اور جس نے چوتھا لگایا اس پر بھی !! آج نہیں تو کل یہ مقدمے ضرور چلیں گے ! تاریخی عمل اور تاریخی ارتقا کا رُخ پیچھے کی طرف نہیں کیا جا سکتا! جو آج ہوا ہے اس کا ماضی میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا اور جو آج محال لگ رہا ہے وہ مستقبل میں ہو کر رہے گا ! کوئی ٹینک‘ کوئی بندوق‘ کوئی توپ‘ کوئی میزائل تاریخ کے پروسیس کو نہیں روک سکتا!!
اور جنہوں نے ان آمروں کا ساتھ دے کر ان کے ہاتھ مضبوط کیے ‘ کیا انہیں چھوڑ دیا جائے؟ جن نام نہاد سیاستدانوں نے اور صحافیوں نے ان آمروں کے جوتے صاف کیے‘ وردیاں استری کیں ‘ کُھرکُو بن کر ان کی پیٹھوں پر کھجلی کرتے رہے ‘ ان کے سامنے لیٹ گئے اور سیڑھی کی طرح استعمال ہوئے‘ ان پر بھی مقدمے چلانے ہوں گے ! کس نے مشورہ دیا تھا کہ امیر المومنین کا لقب اختیار کیجیے؟ کون نام نہاد شوریٰ میں بیٹھ کر آمر کو مضبوط کرتے رہے؟ کون تھے جو غیر جماعتی انتخابات کے مشورے دیتے رہے ! کس کس نے وزارتیں قبول کیں؟ کون قصیدے لکھتے رہے ؟ کون اپنے نام نہاد اداروں اور انسٹیٹیوٹس کے لیے آمروں سے گرانٹیں وصول کر کے ان کے حق میں رطب اللسان رہے؟ کون مارشل لاء کی اے ٹیم ‘ بی ٹیم اور سی ٹیم بنے رہے! یہ سب مقدمے چلانے ہوں گے ! اس دودھ اور پانی نے الگ الگ ہونا ہی ہے !
No comments:
Post a Comment