یہ سرما کیسا ہے! مجھے کوئی نہیں کہتا سر پر ٹوپی پہنو! میرے ہاتھ میں کھیس کوئی نہیں پکڑاتا کہ باہر جاتے ہوئے اسے اوڑھو! میرے لیے چولہے پر دیگچی رکھ کر پانی کوئی نہیں گرم کرتا کہ میں اس سے وضو کروں یا نہاؤں! نہانے کے بعد مجھے رضائی میں کوئی نہیں لپیٹتا!
وہ سردیاں کہاں چلی گئیں جو دلکش تھیں! مشینی نہیں تھیں! جن میں گیس کے ہیٹر تھے نہ اِنورٹر! جیسے ہی دھوپ نکلتی تھی ہم چارپائیاں باہر بچھا لیتے تھے۔ سب اکٹھے بیٹھتے تھے۔ وہ مامے‘ چاچے اور بابے کہاں چلے گئے جو نئے کھیس اوڑھے ہوئے‘ انہی کھیسوں کے کنارے لٹکتے ہوئے دھاگوں کو رسیوں کی طرح بُنتے رہتے تھے۔ حُقہ بھی چلتا تھا اور لسی بھی! اس بات کا خیال رکھا جاتا تھا کہ سردیوں میں لسی گاڑھی ہو اور گرمیوں میں پتلی! پھر جیسے ہی دھوپ ذرا زور پکڑتی‘ ہم تین چار ہمجولی‘ کھیس لپیٹے‘ سروں پر گرم ٹوپیاں پہنے‘ گاؤں کے جنوب میں اس میدان کا رُخ کرتے جو پہاڑی کی چوٹی پر واقع تھا۔ ہم وہاں اس وقت تک گُلّی ڈنڈا کھیلتے جب تک دھوپ زرد نہ پڑ جاتی! اس سارے کھیل کے دوران جھگڑے بھی ہوتے اور قہقہے بھی! جسے گُلّی کے پیچھے زیادہ بھاگنا پڑتا‘ وہ زیادہ جھگڑتا۔ ہمارے ساتھ فضل الٰہی بھی ہوتا۔ پکا زمیندار! گُلّی کو ایسی ضرب لگاتا کہ ہمارے چھکے چھوٹ جاتے! کچھ دن پہلے جب میں گاؤں گیا تو فضل الٰہی سے ملاقات ہوئی۔ لمبی سفید داڑھی کے ساتھ اس کی ہنسی اب بھی وہی تھی جو ہمیں دوڑاتے ہوئے ہوتی تھی!! اس نے اپنا مکان واہ میں بنا لیا ہے۔ بچے واہ فیکٹریز میں ملازمت کرتے ہیں! گاؤں میری طرح کبھی کبھی ہی جاتا ہے!
عشا کی نماز کے بعد کسی نہ کسی کی بیٹھک میں محفل برپا ہوتی! گاؤں کے بڑے بھی ہوتے اور چھوٹے بھی! دیوار پر لالٹین لٹکی ہوتی! حُقے کا دھواں فضا میں مرغولے بناتا۔ ملکی سیاست پر بات ہوتی‘ ہر کوئی اپنا اپنا فلسفہ جھاڑتا۔ کوئی پڑھا لکھا یا نیم تعلیم یافتہ آدمی شہر سے چھٹی پر آیا ہوا ہوتا تو اس کی بات زیادہ توجہ سے سنی جاتی۔ فصلوں کے اچھا یا خراب ہونے کی پیشگوئیاں کی جاتیں! یہ بارانی علاقہ ہے۔ نہروں سے محروم! بارش ہونے کی توقعات باندھی جاتیں! سب کو پتا ہوتا کہ منڈی میں کس کس کا کون کون سا جانور جانے والا ہے اور کتنے میں بکے گا! کس کی گائے لیاری ہے اور کس کی سُوکھی! کس کا بیل زور آور ہے! گاؤں میں یا قریب کی کسی بستی میں قتل کی واردات ہوئی ہوتی تو اس کی لرزہ خیز تفصیلات سنائی اور سنی جاتیں! میں گھر واپس جا کر لالٹین کی روشنی میں دیر تک پڑھتا! جتنے دن چاند روشن رہتا‘ آدھی رات کو کمرے سے باہر صحن میں نکلنا ہوتا تو صحن بقعۂ نور بنا ہوا ہوتا۔ یہ ایک عجیب طلسمی منظر ہوتا۔ رات کی بسیط خاموشی! آسمان پر چاند! صحن اور دیواریں چاندنی میں نہائی ہوئیں! کمرے میں میری چارپائی کھڑکی کے ساتھ ہوتی! صحن میں جب بھی نکلتا شکیب جلالی کا شعر ضرور یاد آتا ؎
خزاں کے چاند نے پوچھا یہ جھک کے کھڑکی میں
کبھی چراغ بھی جلتا ہے اس حویلی میں
پھر بارشیں شروع ہو جاتیں۔ کئی کئی دن جھڑی رہتی! کچے صحن کیچڑ سے بھر جاتے۔ اُپلوں‘ لکڑیوں اور درختوں کی ٹہنیوں سے آگ جلائی جاتی تو رسوئی دھوئیں سے بھر جاتی! آنکھوں سے پانی نکلتا۔ اس کا اپنا مزہ ہوتا۔ چولہے کے ساتھ ہی چٹائی بچھائی جاتی۔ اسی پر بیٹھ کر کھانا کھاتے اور گُڑ والی چائے پیتے جس میں تھوڑا تھوڑا نمک بہت مزہ دیتا! ناشتے میں پراٹھے‘ مکھن اور دودھ ہوتا! انڈے‘ تب صرف انڈے تھے۔ شیور کے یا فارمی انڈے بہت بعد میں متعارف ہوئے!!
ہمارا کنبہ 1966ء میں اسلام آباد منتقل ہوا۔ یہ ایک حیرت انگیز حد تک خوبصورت اور خیرہ کُن اسلام آباد تھا! ایسا اسلام آباد جس کا آج تصور بھی نہیں کیا جا سکتا! سرما میں اس شہر کا حُسن عروج پر ہوتا تھا۔ یہ اسلام آباد فارن آفس سے شروع ہوتا تھا اور زیرو پوائنٹ پر ختم ہو جاتا تھا۔ مکان کم تھے اور درخت زیادہ! سردیوں میں اکثر درختوں کے پتے لہو کی طرح سرخ ہو جاتے تھے۔ خزاں بہار سے کم دلکش نہ تھی! صبح سویرے سڑکوں پر شیشے کے صاف شفاف ٹکڑے دکھائی دیتے تھے جو اصل میں منجمد پانی ہوتا تھا۔ بارشوں میں اسلام آباد خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ پُراسرار بھی ہو جاتا۔ سٹریٹ لائٹس بہت اونچی تھیں۔ بارش میں یہ چراغ لرزتے دکھائی دیتے! ہم سرما کی بارشوں میں روسی ناول پڑھتے اور مارگلہ کی پہاڑیوں کو حسرت سے دیکھتے کہ کبھی ان پر بھی برفباری ہو!! آج یہ شہر اپنی خوبصورتی‘ دلکشی اور آب و تاب کھو بیٹھا ہے۔ جوع الارض ( زمین کی لالچ) میں سرما کہیں کھو گیا ہے! ہر طرف مکان ہی مکان ہیں! ایک ایک مکان کے تین تین چار چار حصے ہیں جن میں الگ الگ خاندان رہ رہے ہیں! لان کا تصور ہی ختم ہو گیا ہے! سردیوں میں بیٹھیں گے کہاں اور دھوپ کیسے تاپیں گے؟ غضب یہ ہوا ہے کہ مسجدوں میں بھی صحن غائب ہونے لگے ہیں۔ پوری پوری مسجدوں کے اوپر چھتیں تَن دی گئی ہیں۔ پہلے ظہر اور عصر کی نمازیں دھوپ میں ادا کی جاتی تھیں۔ اب یہ سہولت بھی ختم کی جا رہی ہے! بارشیں بھی وہ نہیں رہیں اس لیے کہ درخت کٹ گئے۔ جو باقی ہیں ان کی زندگی بھی مختصر ہی دکھائی دے رہی ہے! بارشوں میں پُراسرار نظر آنے والے چراغ کہیں نہیں کہ سٹریٹ لائٹس ہی نہیں ہیں اور اگر ہیں تو جلتی نہیں! شہر سے لائبریریوں کا صفایا ہو چکا! اب رضائیوں میں لپٹے ہوئے نوجوان روسی ناول نہیں پڑھتے‘ سوشل میڈیا کی جہالت سے فیضیاب ہوتے ہیں! یہ سوچ کر خوف آتا ہے کہ یہ جو دو‘ اڑھائی کتاب فروش شہر میں رہ گئے ہیں یہ بھی کوئی اور کاروبار نہ شروع کر دیں! ہمارے لیے سب سے بڑی عیاشی یہ تھی کہ انگیٹھی میں کوئلے دہکا کر پاس رکھ لیں اور رضائی اوڑھ کر کتابیں پڑھیں۔ ساتھ ڈرائی فروٹ ہو۔ ہمارا ڈرائی فروٹ بھی کیا تھا؟ مونگ پھلی اور ریوڑیاں!
اب گاؤں میں بھی سرما کے وہ مزے نہیں رہے! شہر کا کلچر گاؤں میں پہنچ کر غالب آ چکا ہے! اول تو ہر چوتھا گھر مقفل ہے کیونکہ مکین شہروں اور قصبوں کو سدھار گئے۔ گاؤں کا واحد معمار بھی جا چکا! شہر کو ہجرت کرنے والی پہلی نسل گاؤں سے تعلق کو نبھا رہی ہے۔ مکانوں کی مرمت کے لیے بھی آتے ہیں۔ شادیوں اور جنازوں میں شرکت کے لیے بھی آتے ہیں! ان کے بعد دوسری نسل جو شہر ہی میں پلی بڑھی‘ گاؤں سے تعلق بر قرار نہیں رکھ سکے گی! انگارے ہی نہیں رہے‘ تاپیں گے کیا! گاؤں کی عورتوں کو گیس سلنڈر کی لت لگ چکی ہے! دھوپ میں بیٹھنے والے بوڑھے رخصت ہو گئے! سردیوں کی راتوں کو جو محفلیں جمتی تھیں‘ خواب و خیال ہو گئیں! اب ٹی وی ڈرامے دیکھے جاتے ہیں! لالٹین کا وجود عنقا ہو چکا! کچے کمرے‘ جن میں اُپلے جلائے جاتے تھے اور چٹائیاں بچھائی جاتی تھیں‘ پکے کمروں میں تبدیل ہو گئے ہیں! کچھ چیزیں تو گاؤں سے مکمل طور پر غائب ہو گئی ہیں! جیسے مٹی کے برتن ! گُلّی ڈنڈا اور دھوتی یا تہمد! چکّی بھی اب کوئی نہیں پیستا! اناج مشینوں پر پسوایا جاتا ہے! پنگھٹ بھی جانے ہیں یا نہیں! پیدل چلنے کا رواج صفر فیصد رہ گیا ہے۔ موٹر سائیکل‘ کاریں‘ سوزوکیاں اور ویگنیں عام ہو گئی ہیں! وہ راستے ہی ختم ہو گئے ہیں جن پر پیدل سفر کیا جاتا تھا! پکی سڑکیں نئے راستوں پر بچھی ہیں! اور ہاں! ہوشیار!! سوشل میڈیا گاؤں میں داخل ہو چکا ہے!!
No comments:
Post a Comment