Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, December 28, 2023

بولو! ہے تماشا کیسا؟


وہ ایک اور زمانہ تھا!
ہمارے بھی ننھیال تھے۔ اور ددھیال بھی! ''نانکے‘‘ بھی! ''دادکے‘‘ بھی! ہم بھی شہزادے تھے! جیسے ہی گرمیوں کی چھٹیوں کا اعلان ہوتا ہم خوشی سے ہوا میں اُڑنے لگتے! اپنا اپنا سامان باندھتے۔ اس سامان میں کتابیں ضرور ہوتیں! شہر میں‘ جہاں والد صاحب کی ملازمت تھی‘ ہم اپنے آپ کو ہمیشہ مسافر سمجھتے تھے! ادھر پہلی چھٹی کا دن چڑھتا‘ اُدھر ہمارا چھوٹا سا قافلہ بس میں سوار ہو جاتا۔ ابا‘ اماں‘ میں‘ بڑی بہن‘ چھوٹے بھائی! یہ وہ زمانہ تھا جب بسیں دن میں تین چار سے زیادہ نہیں ملتی تھیں۔ ان بسوں کے ہارن غباروں کی شکل کے تھے جو ڈرائیور کے دائیں طرف والے دروازے کے باہر لگے ہوتے۔ ڈرائیور ان کو دبا دبا کر بجاتا اور عجیب سی آواز نکلتی جیسے گائے ڈَکرا رہی ہو۔ بس کے اندر‘ دیواروں پر ہدایات لکھی ہوئی ہوتیں جن میں سے دو اب بھی یاد ہیں۔ ایک یہ کہ ''ڈرائیور کو گاڑی تیز چلانے پر مجبور نہ کریں‘‘۔ دوسری یہ کہ ''چلتی گاڑی سے جسم کا کوئی حصہ باہر نہ نکالیں‘‘۔ طبیعت بچپن ہی سے شاعرانہ تھی۔ اس دوسری ہدایت کو میں نے مصرعے میں ڈھال کر اپنے ذہن میں یوں کر دیا تھا کہ ''چلتی گاڑی سے بدن کا کوئی حصہ نہ نکال!‘‘ گھنٹے ڈیڑھ کے سفر کے بعد ہمارے گاؤں کا سٹاپ آجاتا۔ پہاڑ کٹا ہوا! درختوں کے جھنڈ۔ گاؤں سے ہمارے لیے گھوڑیاں آئی ہوئی ہوتیں۔ پانچ کلومیٹر کا کچا راستہ طے کرکے گاؤں پہنچتے تو دادی جان دروازے پر ہمارا استقبال کرتیں۔ بہت دیر تک کہتی رہتیں ''بسم اللہ ! میرے بچے آگئے!‘‘ چند دن بعد دوسرے شہروں سے ہمارے کزن بھی پہنچ جاتے! دن بھر دھما چوکڑی برپا ہوتی! کبھی ہم دُور کھیتوں میں چلے جاتے! گاؤں کی سوغاتوں سے کمرے بھر جاتے۔ ہر وقت ہم بچوں کے منہ چلتے رہتے! رات کو لمبے چوڑے صحن میں چارپائیاں بِچھ جاتیں۔ بجلی تھی نہ بجلی کے پنکھے! اب سوچ کر تعجب ہوتا ہے کہ گرمی کا احساس تک نہیں ہوتا تھا جبکہ بڑی بوڑھیاں دن بھر ہاتھوں میں پنکھیاں لیے جھَلتی رہتی تھیں! ایک بار ہم سب چچا زاد بھائیوں نے تیر کمان بنائے اور گاؤں سے باہر جا کر لوگوں کے جانوروں کو تختۂ مشق بنانا شروع کر دیا۔ جلد ہی دادا جان کے پاس شکایتیں پہنچ گئیں اور ہمیں تنبیہ کی گئی! پھر ننھیال والے گاؤں سے گھوڑیاں آتیں۔ اس گاؤں کا اپنا لینڈ سکیپ تھا اور اپنے مزے! گرمیوں میں پانی کی قلت ہوتی جسے مقامی زبان میں ''روڑا‘‘ کہتے تھے۔ ماشکی دُور دُور سے پانی لاتے۔ مسجد میں نہانے کے لیے ہم بچے کُوزے زیادہ تعداد میں بھر لیتے تو نمازی ہمیں ڈانٹتے کہ یہ شہر نہیں! یہاں پانی بہت دُور سے لایا جاتا ہے! نانکے گھر کا دروازہ اتنا بڑا اور اونچا تھاکہ ہم صحن میں پہنچ کر گھوڑیوں سے اترتے! گاؤں بھر سے امی جان کی بچپن کی سہیلیاں انہیں ملنے آیا کرتیں۔ خوب چہل پہل رہتی! سویّاں بنانے والی مشین پر‘ جسے گھوڑی کہتے تھے‘ سویّاں بنائی جاتیں۔ پھر انہیں چٹائیوں پر بکھیر کر دھوپ میں سُکھایا جاتا! تھل سے‘ جہاں ہمارے ننھیال کی زمینیں تھیں‘ اونٹوں پر لدی ہوئی کالے چنوں کی بوریاں آتیں۔ تنور میں چنے رکھے جاتے۔ پھر ان کی چاٹ بنتی! سر شام صحن میں چارپائیاں بچھائی جاتیں۔ ان پر دریاں ڈالی جاتیں اور تکیے رکھے جاتے۔ 
رخصتی کے مناظر درد ناک ہوتے۔ نانی جان اداس ہو جاتیں۔ دادی جان کا بھی یہی حال ہوتا۔ جب تک ہمارا قافلہ نظر آتا رہتا‘ دادی جان دروازے پر کھڑی رہتیں اور دیکھتی رہتیں۔ بس سٹاپ پر پہنچ کر گھوڑیاں اور گھوڑیوں والے واپس چلے جاتے۔ ہم شہر واپس پہنچتے۔ سکول کھل جاتے! ہم بچے گاؤں کو یاد کرتے رہتے اور اگلی تعطیلات کا انتظار شروع کر دیتے! مگر یہ ایک اور زمانہ تھا! یہ زمانہ لد چکا! 
وقت کی پرکار دائرہ مکمل کر چکی! یہ ایک اور زمانہ ہے! اب ہم خود دادا اور نانا ہیں! گاؤں چھوٹ چکے!گھوڑیاں غائب ہو گئیں۔ صحن اور صحن میں بچھی چارپائیاں جیسے ہوا میں تحلیل ہو گئیں! ہاتھ والی پنکھیاں نوادرات میں شامل ہو گئیں! اب دو پنکھیاں ڈرائنگ روم میں ڈیکوریشن کے طور پر پڑی ہیں! اب بچے گاڑیوں میں آتے ہیں! کل بڑا پوتا جو میرے پاس سوتا ہے کہہ رہا تھا ''ابو! آج میں آپ کے پاس نہیں سوؤں گا! میں اوپر والی منزل میں اپنے کزنز (چچا زاد اور پھپھی زاد) کے ساتھ سوؤں گا‘‘۔ سونا انہوں نے کہاں ہے۔ عجیب و غریب کھیل کھیلتے رہتے ہیں۔ کبھی کسوٹی‘ کبھی کیرم‘ کبھی کچھ اور! رات دیر سے کھانے گھر پر منگواتے ہیں۔ صبح کرکٹ کے لیے نکل جاتے ہیں! کبھی کسی فاسٹ فوڈ کا پروگرام بناتے ہیں‘ کبھی کسی مال کے فوڈ کورٹ کا! کان پڑی آواز نہیں سنائی دیتی مگر یہ ایسا شور ہے جس سے سکون ملتا ہے! کل میں اپنی اہلیہ سے کہہ رہا تھا کہ ان دنوں کو یہ بچے زندگی بھر یاد رکھیں گے بالکل اسی طرح جیسے ہم گاؤں میں اکٹھی گزاری ہوئی چھٹیوں کو یاد کرتے رہتے ہیں! اب یہ رخصت ہوتے ہیں تو ہم گھوڑیوں کو نہیں‘ گاڑیوں کو جاتا دیکھتے ہیں اور اس وقت تک گیٹ کے باہر گلی میں کھڑے ہو کر دیکھتے رہتے ہیں جب تک کہ گاڑیاں موڑ سے اوجھل نہ ہو جائیں! پھر ہم فون کرکے پوچھتے ہیں کہ کہاں پہنچے ہو؟ جو بچے جہازوں میں سوار ہو کر دُور کے دیسوں کو چلے جاتے ہیں ان سے وڈیو کال پر باتیں کرتے ہیں۔ انہیں دیکھ سکتے ہیں‘ چھُو نہیں سکتے! سینے سے نہیں لگا سکتے! 
ابراہام ایرالی میرے پسندیدہ مصنفین میں سے ہے۔ وہ کیرالہ میں پیدا ہوا۔ چنائی (مدراس) میں پڑھاتا رہا اور پانڈی چری میں زندگی کے آخری سانس لیے۔ ''مغل تھرون‘‘ اس کی شہکار تصنیف ہے! یہ خالص تاریخ کی کتاب ہے مگر مزا اس میں فکشن کا ہے۔ اس کے آغاز میں وہ شہنشاہ اکبر اور بیربل کے درمیان ہونے والا مختصر مکالمہ درج کرتا ہے۔ بیربل اکبر کے نو رتنوں میں سے ایک تھا۔ اس کے بارے میں اتنی باتیں اور لطیفے مشہور ہو گئے کہ وہ ایک تصوراتی کردار لگتا ہے مگر ایسا نہیں! اکبر نے اسے شمال مغربی قبائلی علاقے میں بغاوت فرو کرنے کیلئے بھیجا جہاں وہ مارا گیا۔ یہ مکالمہ جس طرح کتاب میں لکھا گیا ہے‘ اسی طرح یہاں نقل کیا جا رہا ہے۔


AKBAR :Tell me, if you please, what is the greatest consolation that man has in this world? 
BIRBAL: Ah! Sir! It is when a father finds himself embraced by his son!! 


اکبر: ارزاہِ کرم مجھے یہ بتاؤ کہ ایک آدمی کے لیے دنیا میں سب سے بڑی دلداری کیا ہے؟ 
بیربل: آہ! جہاں پناہ! جب اس کا بیٹا اس سے بغل گیر ہوتا ہے!! 
بیٹے‘ بیٹیاں‘ پوتیاں‘ نواسیاں‘ پوتے‘ نواسے کتنی دلکش اور انوکھی دلداریاں ہیں! ٹھنڈک آنکھوں سے ہوتی ہوئی روح تک پہنچتی ہے! ایک عزیزہ‘ جو ایک سکول کی پرنسپل ہے‘ بتا رہی تھی کہ بچوں کے ماں باپ کو تو ہم مطمئن کر لیتے ہیں مگر ان کے دادا‘ دادی یا نانا‘ نانی کو مطمئن کرنا بہت مشکل ہوتا ہے! زمانے آ آ کر جا رہے ہیں! بہت جلد ایک اور نیا زمانہ ہمارے زمانوں کی جگہ لے لے گا۔ آج کے پوتے کل کے دادا ہوں گے اور آج کی پوتیاں نواسیاں کل کی دادیاں نانیاں ہوں گی! کون جانے نئے زمانوں میں سواریاں کیسی ہوں گی! کھیل تماشے کیسے ہوں گے! مواصلات کے ذرائع کیا سے کیا ہو جائیں گے! مگر مجید امجد کا کنواں چلتا رہے گا! وقت کا پانی رہٹ سے نکلتا رہے گا! بقول شاعر:
لوگ آتے ہیں‘ ٹھہرتے ہیں‘ چلے جاتے ہیں 
پھر پلٹتے نہیں! بولو ہے تماشا کیسا!

Monday, December 25, 2023

شبِ یلدا


شبِ یلدا آئی اور گزر گئی!! 
سال کی سب سے لمبی رات جو اکیس دسمبر کو پڑتی ہے‘ فارسی بولنے والی دنیا میں شب یلدا کہلاتی ہے۔ صرف فارسی بولنے والی دنیا ہی میں نہیں‘ اُن ملکوں میں بھی جوایران‘ تاجکستان اور افغانستان کے ارد گرد ہیں اور جہاں فارسی بولنے والے بڑے بڑے علاقے ( پاکٹس ) ہیں جیسے ترکی‘ آزربائیجان اور باقی وسط ایشیائی ریاستیں!
شب یلدا ایک دلچسپ‘ بھرپور اور دلآویز تہوار ہے۔ اس میں ثقافت بھی ہے‘ تاریخ بھی‘ روایت بھی‘ ادب بھی‘ رومان اور فخر بھی! فخر اس لیے کہ یہ صدیوں پرانا تہوار ہے اور تہوار منانے والے اپنے آبا ؤ اجداد کی اس روایت کو ایک شان کے ساتھ‘ ایک سٹائل کے ساتھ‘ برقرار رکھے ہوئے ہیں! انہیں احساس ہے کہ ان کا کلچر ثروت مند ہے‘ تہی دامن نہیں!! پرانے اور نئے فارسی شعرا نے شبِ یلدا پر شعر کہے ہیں! طویل رات کو معشوق کی جدائی سے تشبیہ دی ہے۔ اس طویل رات کے بعد جو دن چڑھتا ہے وہ لمبے دنوں کا آغاز ہوتا ہے! تاریکی بتدریج کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ایرانی اسے زمستان کا یعنی سرما کا آغاز قرار دیتے ہیں! سال کی اس طویل ترین رات کو کنبے اور خاندان اکٹھے بیٹھتے ہیں! باتیں کرتے ہیں‘ جب تک کہ صبح کاذب کے آثار ہویدا نہ ہو جائیں! دو سرخ رنگ کے پھل اس رات خاص طور پر اہتمام کے ساتھ کھائے جاتے ہیں! تربوز اور انار! ان کے علاوہ بھی اس رات دسترخوان ماکولات اور مشروبات سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں! ہر قسم کے میوے‘ خشک بھی اور تازہ بھی! شربت بھی! متعدد پکوان بھی! شبِ یلدا صرف کھانے پینے کی رات نہیں‘ اس رات دیوانِ حافظ پڑھا اور سنایا جاتا ہے! شاہنامۂ فردوسی اور گلستانِ سعدی کی حکایات سُنی اور سنائی جاتی ہیں! نو بیاہتا جوڑے بھی خوشی مناتے ہیں! سب اپنے اپنے بزرگوں کے پاس بیٹھتے ہیں۔ یہ ایک یادگار رات ہوتی ہے!!محبت سے بھری ہوئی! روایت سے جُڑی ہوئی! 
اس میں کیا شک ہے کہ ایران اور فارسی بولنے والے دیگر علاقوں کی ثقافت غالب‘ مُحکم اور مُرَتّب ہے! جن لوگوں کی زبان میں مثنویٔ رومی اور دیوانِ شمس تبریز ہو‘ سعدی کے شاہکار ہوں‘ فردوسی کا شہرہ آفاق شاہنامہ ہو‘ اور امیر خسرو‘ نظامی‘ جامی‘ سنائی‘ قا آنی اور صائب جیسے نابغوں اور عبقریوں نے ادب تخلیق کیا ہو‘ ان لوگوں کو اپنی ثقافت اور ادب پر فخر کرنے کا حق بھی پہنچتا ہے! انہوں نے کسی غیر زبان کا سہارا نہیں لیا! ان کا جو کچھ بھی ہے‘ ان کی اپنی زبان میں ہے! کوئی پیوند کاری نہیں کی! کسی احساسِ کہتری میں مبتلا نہیں ہوئے! ہم فیضی‘ بیدل اور اقبال کو سمجھیں یا نہ سمجھیں‘ وہ حافظ‘ فردوسی اور رومی کو سمجھتے ہیں! 
شبِ یلدا آئی اور گزر گئی! ایرانی دوسرے دن بیدار ہوئے تو امید اُن کے دروازے پر پھول لیے کھڑی تھی! دن لمبے ہونے شروع ہو گئے! ایک ہم ہیں کہ پون صدی سے شبِ یلدا میں بیٹھے ہیں! گھُپ اندھیرے میں! میوے نہیں! یہاں بھوک رقص کُناں ہے! ہماری تو ساری تاریخ ہی اکیس دسمبر کی رات ہے! کبھی نہ ختم ہونے والی رات! معیشت ہم سے سنبھلتی نہیں! سیاست ہماری در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہے! ہمارے ایک ہاتھ میں ایٹم بم ہے‘ دوسرے میں کشکول! تاریخ میں ہم سے بڑا شعبدہ باز کوئی نہیں گزرا! ہزاروں لاکھوں مدارس! مسجدیں نمازیوں سے چھلکتی ہوئیں! اور فحش مواد دیکھنے میں ہماری پوزیشن امتیازی! بلکہ کچھ روایتوں کی رُو سے پہلی پوزیشن!! دروغ گوئی اور عہد شکنی میں ہمارا ثانی کوئی نہیں! لائبریریوں کا رواج ہی نہیں! پچیس کروڑ کی آبادی میں کتاب ہزار یا پانچ سو کی تعداد میں چھپتی ہے!اس کی فروخت بھی کارے دارد ہے! 
کون سا کلچر اور کہاں کی ثقافت ؟ بر صغیر کو ہم نے اپنایا نہیں اور مشرق ِوسطیٰ‘ ایران اور وسط ایشیا سے ہم نکل آئے! ادھر کے رہے نہ اُدھر کے! ہماری تو بنیاد ہی کوئی نہیں! ہم میں اتنا شدید احساسِ کمتری ہے کہ بیساکھی اور بسنت ہی کے دشمن ہیں! اسلام ہمارا اسقدر کمزور ہے کہ پتنگ اڑانے سے‘ فصل کاٹنے کی خوشی میں گیت گانے سے‘ یہاں تک کہ خدا حافظ کہنے سے بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے!! دنیا کہاں جا پہنچی ہے اور ہمارا واعظ ہمیں یہ سمجھا رہا ہے کہ خدا کا لفظ استعمال نہ کیا کرو! یعنی پندرہ سو سال کا اسلامی لٹریچر دریا برد کردو! 
ہماری شبِ یلدا ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی! ہم سے تو یہی طے نہیں ہو رہا کہ زنداں میں کسے ڈالنا ہے اور پنجرے سے باہر کسے نکالنا ہے! چور سپاہی کے کھیل میں کبھی ہم چور کو سپاہی بناتے ہیں کبھی سپاہی کو چور! الیکشن کی آمد آمد ہے! کسی سیاستدان‘ کسی سیاسی پارٹی کی زبان سے معیشت‘ صنعت‘ زراعت‘ تعلیم‘ صحت کے الفاظ نہیں نکل رہے! صرف پارٹیوں کے سربراہوں کی شان میں قصیدے پڑھے جا رہے ہیں! اور کوالیفیکیشن کیا ہے‘ جس پر فخر کیا جا رہا ہے؟ جیل میں رہنے کی مدت!! جو جتنا زیادہ جیل میں رہا‘ وہ اتنا ہی بڑا لیڈر ہے! کچھ یہ ٹرافی‘ یعنی قید‘ حاصل کر چکے‘ کچھ حاصل کر رہے ہیں! اور سوچ کی پرواز دیکھیے! اپنی بیٹی اور اپنے بیٹے کے علاوہ وزارتِ عظمیٰ کا اہل کوئی نہیں!
انتخابات ہو جائیں گے۔ کسی نہ کسی کی حکومت بھی بن جائے گی۔مگر رات اسی طرح طاری رہے گی! الیکشن کے انتخابات کو تسلیم کرنے کی روایت ہی نہیں! کبھی چار حلقے کھولنے کا مطالبہ! کبھی پینتیس پنکچر کا الزام! کبھی دھاندلی کا رونا! یہ سارے الزامات غلط بھی نہیں ہوتے! ایک دستِ غیب ظاہر ہوتا ہے اور انتخابات کے نتائج کو الٹ پلٹ کر رکھ دیتا ہے!! پھر احتجاج کی لمبی رات! شاہراہیں جلوسوں سے بھر جاتی ہیں! ماردھاڑ‘ پکڑ دھکڑ!حوالات! جیل! عدالتیں! ضمانتیں! پریس کانفرنسیں! ایک لامتناہی سلسلہ! یہ جو نسل اس وقت بڑی ہو رہی ہے‘ اس نے کیا دیکھا ہے! کیا دیکھ رہی ہے! اسے جمہوریت کا جو تصور دیا جا رہا ہے‘ جمہوریت کی جو تصویر دکھائی جا رہی ہے‘ وہ یہ کیسے بھول سکتی ہے! جنگ و جدل کے درمیان بڑی ہوتی یہ نسل ملک سے بھاگنے کا نہ سوچے تو کیا کرے!! اگر سیاسی رہنما کبھی بھاگ کر دبئی جا بیٹھتے ہیں اور کبھی لندن! تو عوام یہاں کیوں رہیں! سو‘ جس کا بس چلتا ہے‘ ملک چھوڑ کر جا رہا ہے! ایون فیلڈ نہ سہی‘ سرے محل نہ سہی‘ دبئی کے محلات نہ سہی‘ روزگار تو مل جائے گا! معاشرتی تحفظ تو میسر ہو گا! بیروزگاری بھی ہوئی تو ریاست تو سر پر ہاتھ رکھے گی! سوشل سیکورٹی تو ہو گی! پولیس کا خوف تو نہ ہو گا! کسی مصیبت میں پھنسے تو تھانے تو نہیں جانا پڑے گا! پولیس خود دروازے پر آئے گی! چائے پانی مانگنے کے بجائے آنسو پونچھے گی! سر پر ہاتھ رکھے گی! 
جو بھی حکومت آئے گی‘ تھانوں اور کچہریوں پر رات ہی طاری رہے گی! اس ملک پر اصل بادشاہت تھانیدار کی ہے! پٹواری کی ہے! تحصیلدار کی ہے! اے سی کی ہے اور ڈی سی کی ہے! ایس پی کی ہے!! یہ ملازم نہیں‘ یہ پبلک سرونٹ نہیں! یہ حکمران ہیں! اصل حکمران! جن لوگوں کی خدمت کے عوض انہیں بھاری تنخواہیں اور مراعات مل رہی ہیں‘ وہ لوگ تو ان سے بات ہی نہیں کر سکتے! ذرا کوئی ڈی سی سے‘ اے سی سے‘ ایس پی سے بات کر کے تو دکھائے! ملاقات کر کے تو دکھائے! ایس پی اور ڈی سی تو آسمان پر ہیں‘ کوئی مائی کا لال پٹواری یا تھانیدار ہی سے مل کر دکھا دے! یہ ملک کئی ریاستوں میں بٹا ہوا ہے۔ کوئی ریاست نادیدہ ہے۔ کوئی بنی گالہ میں ہے۔ کسی کا صدر مقام رائیونڈ ہے کسی کا نواب شاہ! ایک ریاست ڈی آئی خان میں ہے! نسل در نسل بادشاہی!! ہر ایس پی‘ ہر ڈی سی‘ ہر پٹواری‘ ہر تھانیدار کی اپنی ریاست ہے!! رات لمبی ہے! اس میں انار اور تربوز نہیں! دھکے اور مُکّے ہیں!

Thursday, December 21, 2023

غزالی صاحب

پرسوں منگل کا دن تھا جب علی الصبح چھوٹے بھائی انتصار الحق نے میسج بھیجا کہ جسٹس پروفیسر ڈاکٹر محمد الغزالی دنیا نامی سرائے سے رخصت ہو کر اپنے پروردگار کے ہاں حاضر ہو گئے!
غزالی صاحب اور ان کے بڑے بھائی ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم سے تعلق 54‘ 55برس سے تھا۔ یہ تعلق اس وقت قائم ہوا جب 1970ء کے اوائل میں ڈھاکہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو کر اسلام آباد واپس آیا۔ فراغت کے زمانے تھے۔ بیروزگار ہو کر بھی رنجِ روزگار لاحق نہ تھا۔ بلکہ یہ بیروزگاری خود اختیاری تھی۔ بینک میں ملازمت ملی۔ ایک ہفتے بعد چھوڑ دی۔ لیکچرر کے طور پر گورنمنٹ کالج تلہ گنگ میں تعیناتی ہوئی۔ انکار کر دیا۔ پی سی ایس (پراونشل سول سروس) کا امتحان دیا۔ تحریری امتحان میں اچھی پوزیشن آئی۔ انٹرویو کال ملی تو جواب ہی نہ دیا۔ اس وقت کا اسلام آباد بہت مختصر تھا۔ بس زیرو پوائنٹ کے مشرقی حصے میں سمایا ہوا!! بلیو ایریا کی جگہ چٹیل میدان تھا۔ اس کی تعمیر 1985ء میں شروع ہوئی۔ ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی تب میلوڈی سینما کے سامنے والے بلاک کی دوسری منزل پر واقع تھا اور ہمارے گھر کے نزدیک تھا۔ ڈھاکہ جانے سے پہلے بھی میں ادارے کی لائبریری میں جایا کرتا تھا۔ اب جب روزگار نہ تھا اور بے فکری کا دور تھا تو ہر روز وہاں جانا ہوتا۔ وہیں محمود احمد غازی سے ملاقات اور پھر دوستی ہوئی۔ آج کا نہیں پتہ مگر اُس وقت ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی میں جو نوجوان ریسرچ پر مامور تھے وہ صحیح معنوں میں سکالر اور محقق تھے۔ غازی صاحب کے علاوہ دو اور سکالرز سے بھی دوستی ہوئی۔ غلام حیدر عاصی صاحب اور حافظ محمد طفیل صاحب! یہ سب لوگ عربی دان تھے اور بلند پایہ عالم! غلام حیدر عاصی جلد ہی امریکہ سدھار گئے۔ حافظ طفیل صاحب سے اب بھی رابطہ ہے۔ وہ ادارۂ تحقیقات اور اسلامی یونیورسٹی کے اعلیٰ مناصب سے فارغ ہو کر اسلام آباد میں مقیم ہیں!! سی ایس ایس کی تیاری کیلئے ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی کی لائبریری بہت نزدیک پڑتی تھی۔ پیدل چند منٹ کا فاصلہ تھا۔ آہستہ آہستہ لائبریری کے بجائے زیادہ وقت ان حضرات کے ساتھ گزرنے لگا۔ محمود احمد غازی کے چھوٹے بھائی غزالی‘ تب دینی تعلیم کے آخری مراحل میں تھے۔ ان سے ابتدائی تعلق اس حوالے سے قائم ہوا کہ غازی صاحب کے چھوٹے بھائی ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان سے غازی صاحب سے بھی زیادہ دوستی اور بے تکلفی ہو گئی۔ ان کے والد صاحب کو اور میرے والد صاحب کو جو سرکاری گھر ملے ہوئے تھے‘ حسنِ اتفاق سے وہ بھی قریب قریب تھے۔ درمیان میں بس دو گلیاں پڑتی تھیں! اکثر شام کو ہم اکٹھے ہوتے! ان کے والد صاحب متشرّع اور بہت نیک شخصیت تھے۔ میرے والد گرامی کو ہمیشہ کھیرا کھانے کی تر غیب دیتے کیونکہ انہیں گردے کی پتھری کا عارضہ تھا۔ وہ بتایا کرتے کہ کھیرا اس مرض کیلئے اکسیر ہے۔ 
ان دونوں بھائیوں‘ محمود احمد غازی اور محمد الغزالی نے اسی درسِ نظامی کی تکمیل کی تھی جو مدارس میں لاکھوں طلبہ پڑھتے ہیں۔ مگر انہوں نے فراغت کے بعد جو کام کیا وہ کوئی کوئی ہی کرتا ہے۔ دونوں بھائیوں نے عربی گفتگو میں کمال حاصل کیا۔ زبان قربت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ عربی بولنے اور لکھنے پر قدرت رکھنے کی وجہ سے بہت سے عرب سفارتکاروں کے ساتھ ان کے ذاتی تعلقات تھے۔ ملازمت کے دوران جب میں نے عربی میں ایم اے کا امتحان دینا چاہا تو نثر کے کچھ حصے غازی صاحب سے پڑھے۔ جب جنرل مشرف کی کابینہ میں وہ مذہبی امور کے وفاقی وزیر تھے تو مجھے یہ اعزاز بخشا کہ زکوٰۃ کے نظام پر انہیں بریفنگ دوں۔ میں اس وقت چیف کنٹرولر ملٹری اکاؤنٹس کے طور پر جی ایچ کیو میں کام کر رہا تھا۔ میں نے اُن کے حکم پر زکوٰۃ کے موجودہ نظام کا تجزیہ پیش کیا اور متبادل نظام کا تفصیلی خاکہ بنا کر دیا جس کے تمام اخراجات زکوٰۃ کی رقم ہی سے پورے ہونے تھے اور ملکی خزانے پر کوئی اضافی بار نہیں پڑنا تھا۔ یہ 
Presentation
میں نے انہیں ان کے دفتر میں دی۔ میرا خیال تھا کہ وہ وزارت کے حکام کو بھی اس موقع پر طلب کریں گے مگر انہوں نے بتایا کہ اس مرحلے پر وہ کسی اور کو اس میں شریک نہیں کرنا چاہتے۔ میری بریفنگ سے وہ مطمئن تھے تاہم مجھے یقین تھا کہ حکومتِ پاکستان میں کسی نظام کی اصلاح یا تبدیلی ناممکن نہیں تو ازحد مشکل ضرور ہے۔ یہی ہوا! یوں بھی غازی صاحب کی وزارتِ مذہبی امور کی مدت قلیل تھی۔ دو سال سے بھی کچھ دن کم! 
غزالی اپنے بڑے بھائی کے مقابلے میں ہنس مکھ تھے۔ ان کی حسِ مزاح بہت تیز اور خوشگوار تھی۔ میرے نام کو انگریزی میں ترجمہ کرکے بلاتے تھے یعنی 
Expression of Truth‘ 
ان سے گفتگو کر کے ہمیشہ لطف آتا۔ ہم اکثر اسلام آباد کی شاہراہوں پر لمبی واک کرتے۔ شام ان کی معیت میں ہمیشہ دلآویز رہتی! ذہانت پروردگار نے کمال کی عطا کی تھی۔ مقاماتِ حریری عربی ادب کی مشکل کتابوں میں سے ہے۔ مسجع اور مقفیٰ نثر! اس کے صفحوں کے صفحے غزالی کو حفظ تھے۔ عربی اشعار بے شمار یاد تھے۔ کچھ مضامین انگریزی میں بھی لکھے جو معروف انگریزی روزناموں میں چھپے۔ درسِ نظامی کی تکمیل کے بعد دونوں بھائیوں نے انگریزی اپنے طور پر سیکھی اور تحریر و تقریر دونوں میں کمال حاصل کیا! غزالی کچھ عرصہ اسلام آباد ہوٹل ( اب ہالیڈے اِن ) کی مسجد میں نمازِ تراویح بھی پڑھاتے رہے۔ ان کی اقتدا میں کئی بار تراویح ادا کیں! خوش الحان تھے۔ ان کی قرأت سن کر مولانا احتشام الحق تھانوی کی قرأت یاد آجاتی تھی۔
مشہور کتاب ''امام شامل‘‘ اور درجنوں دوسری کتابوں کے مصنف کرنل ڈاکٹر محمد حامد میرے اور غزالی کے مشترکہ دوست تھے۔ کرنل حامد دو سال قبل انتقال کر گئے۔ وہ 1995ء والی مشہور فوجی بغاوت کی لپیٹ میں آگئے تھے۔ میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی اور بریگیڈیر مستنصر باللہ اس بغاوت کے کرتا دھرتا تھے۔ پنشن اور دیگر مراعات سے محرومی کے بعد حامد صاحب نے زاویہ کے نام سے تعلیمی ادارہ کھولا جو بہت کامیاب رہا۔ جن دنوں کرنل حامد ملٹری اکیڈیمی کاکول میں پڑھا رہے تھے‘ انہوں نے غزالی صاحب کو اور مجھے دعوت دی کہ آکر مل جاؤ؛ چنانچہ ہم دونوں ایبٹ آباد گئے اور ایک دن ان کے ساتھ گزارا۔
غزالی صاحب کے جانے سے ہم ایک خدا ترس جج ‘ ایک لائق استاد‘ ایک قابل عربی دان‘ ایک دیانت دار عالمِ دین اور ایک صاف گو انسان سے محروم ہو گئے ہیں۔ قحط الرجال کے اس مشکل زمانے میں ان جیسے گوشہ نشین اثاثہ تھے۔ وہ چاہتے تو مشرقِ وسطیٰ کے کسی بھی بادشاہ کے سیکرٹری یا معاون ہو کر کروڑوں میں کھیل سکتے تھے۔ فتویٰ فروشی بھی کر سکتے تھے مگر اللہ نے علم و عمل کے ساتھ قناعت کی دولت سے بھی مالا مال کیا تھا۔ جس صبح ان کی وفات ہوئی ان کے شاگرد‘ ممتاز کالم نگار اور مصنف آصف محمود نے بتایا کہ غزالی اسلامی یونیورسٹی کے تنزل‘ زبوں حالی اور لاقانونیت سے سخت دل گرفتہ تھے۔ وہ ان افراد میں سے تھے جنہوں نے اس یونیورسٹی کی علمی تعمیر و ترقی میں حصہ لیا تھا۔ اب وہ اپنی آنکھوں سے اس کا زوال دیکھ رہے تھے۔ عبرتناک زوال! ناگفتہ بہ صورت حال!! کیا عجب یہی صدمہ انہیں لے بیٹھا ہو۔ سلیم احمد کی وفات پر ایک غزل کہی تھی۔ اس کا آخری شعر آج پھر یاد آرہا ہے:
ستارہ ٹوٹنے سے پیشتر آواز آئی 
فرشتو! دیکھنا کیسا ستارہ ٹوٹتا ہے

Tuesday, December 19, 2023

ایک اور سولہ دسمبر… (2)

میجر جنرل خادم حسین راجہ 1969ء سے لے کر1971ء تک مشرقی پاکستان میں جی او سی ( جنرل آفیسر کمانڈنگ) تھے۔ان کی تصنیف

:A stranger in my own country EAST PAKISTAN 1969-71

صورتحال کی مستند شہادتوں میں سے ہے۔ جنرل یحییٰ صدرِ پاکستان نے تین مارچ 1971ء کو قومی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں طلب کیا ہوا تھا۔ یکم مارچ کو اس نے یہ اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا۔ اس وقت مشرقی پاکستان کے گورنر ایڈمرل احسن تھے۔ جنرل خادم حسین راجہ کہتے ہیں کہ ایڈ مرل احسن نے پوری کوشش کی کہ جنرل یحییٰ اجلاس کے التوا کا اعلان نہ کریں مگر وہ ناکام ٹھہرے۔ اُلٹا یحییٰ۸ خان نے ایڈمرل احسن کو گورنری سے ہٹا دیا۔ ان کی جگہ جنرل صاحبزادہ یعقوب خان گورنر بنے جو پہلے سے مشرقی پاکستان میں ایسٹرن فرنٹ کے کمانڈر کی حیثیت سے موجود تھے۔ صاحبزادہ یعقوب آرمی ایکشن کے خلاف تھے۔ یکم مارچ کو جب قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کیا گیا تو حالات خراب ہو گئے۔ پورا مشرقی پاکستان سڑکوں پر نکل آیا۔ نوشتۂ دیوار صاف نظر آرہا تھا۔ صاحبزادہ یعقوب خان تین دن اور تین راتیں کوشش کرتے رہے کہ صدر بذاتِ خود مشرقی پاکستان آکر صورتحال دیکھے۔ مگر یحییٰ خود آنے سے گریز کر رہا تھا۔ صاحبزادہ یعقوب نے واضح کیا کہ اگر صدر خود نہ آئے تو وہ احتجاجاًاستعفیٰ دے دیں گے۔ ہزار دقت کے بعد صدریحییٰ راضی ہوا کہ پندرہ مارچ کو ڈھاکہ آئے گا۔ مگر فوراً ہی یہ پروگرام منسوخ ہو گیا۔ صاحبزادہ یعقوب خان نے اس بے حسی پر احتجاجاً گورنری سے استعفیٰ دے دیا۔ ایسٹرن کمانڈ سے بھی ان کا تبادلہ کر دیا گیا۔ان کی جگہ جنرل ٹکا خان آئے جنہیں مغربی پاکستان میں رہنے والے دوسرے افسروں کی طرح اصل صورتحال کا کوئی اندازہ نہ تھا۔جنرل ٹکا خان کی تعیناتی سے واضح ہو گیا کہ وفاقی حکومت سیاسی حل کے بجائے عسکری حل تلاش کرنے پر بضد ہے۔ بہر طور صدر یحییٰ مارچ کے وسط میں ڈھاکہ آیا۔ اس نے آتے ہی کانفرنس بلائی۔ جنرل خادم حسین راجہ نے صورتحال پر بریفنگ دی۔ مگر بہادری کا کام ایئر کموڈور مسعود نے کیا۔ مسعود '' مشرقی پاکستان ایئر فورس‘‘ کے سربراہ تھے۔ انہوں نے آرمی ایکشن کے خلاف زبردست گفتگو کی۔ انہوں نے صدر یحییٰ کو یاد دلایا کہ مشرقی پاکستان میں غیر بنگالی آبادیاں بہت زیادہ ہیں۔ مغربی پاکستانی بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ ان کی جان‘ مال اور آبرو کی ذمہ داری ریاست پاکستان پر عائد ہوتی ہے۔ آرمی ایکشن کی صورت میں بہت بڑی تباہی آئے گی اور یہ سب لوگ فسادات کی نذر ہو جائیں گے۔ ایئر کموڈور مسعود کی تقریر کے دوران مکمل سناٹا چھایا رہا۔ کانفرنس روم میں بسیط خاموشی تھی۔ صدر نے کہا کہ وہ یہ ساری بات سمجھتے ہیں۔ ایئر کموڈور مسعود کا چند ہی دن میں تبادلہ کر دیا گیا۔ پھر انہیں وقت سے پہلے ایئر فورس سے ریٹائر بھی کر دیا گیا۔ سچ بولنے کی پاداش میں ایک لائق اور بہادر افسر کو اپنے کیریئر کی قربانی دینا پڑی اور فضائیہ ایک بہترین دماغ سے محروم کر دی گئی۔ 
پھر وہی ہوا جو طے کیا گیا تھا۔ آرمی ایکشن!! جس کے دوران بے شمار غیر مسلح بنگالی بھی مار دیے گئے۔ اندھے کو بھی معلوم تھا کہ99فیصد مقامی آبادی جہاں مخالف ہو وہاں بڑی سے بڑی فوج بھی نہیں جیت سکتی! آخری مرحلے میں جنرل ٹکا خان کی جگہ جنرل امیر عبداللہ نیازی نے آکر کمانڈ سنبھالی۔جنرل خادم حسین راجہ کے الفاظ میں '' ہم چار بجے شام آپریشن روم میں جمع ہوئے۔سب سے آخر میں نیازی داخل ہوا۔ اس نے پیٹی میں پستول لٹکایا ہوا تھا۔اس نے اعلان کیا کہ اس نے کمانڈ سنبھال لی ہے۔ پھر روٹین کی کچھ ہدایات دیں اور یہ بھی کہا کہ افسر جب وردی میں ہوں تو پستول ضرور رکھا کریں۔ کمرے میں کچھ بنگالی افسر بھی تھے۔ ہم سخت پریشان ہوئے جب اس نے گالیاں نکالنا شروع کر دیں۔ اس نے اُردومیں کہا : میں اس حرامزادی قوم کی نسل بدل دوں گا۔یہ مجھے کیا سمجھتے ہیں۔ پھر اس نے دھمکی دی کہ وہ اپنے سپاہیوں کو ان کی عورتوں پر چھوڑ دے گا۔ اس کی ان باتوں پر سناٹا چھا گیا۔ افسر ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے اور اس بے ہودگی پر حیران تھے۔ اسی اضطراب کی حالت میں اجلاس ختم ہوا۔ اگلی صبح ہمیں ایک افسوسناک خبر ملی۔ میجر مشتاق نامی ایک بنگالی افسر ‘ جو جیسور میں میرا ماتحت رہا تھا‘ کمانڈ ہیڈ کوارٹر کے ایک غسل خانے میں گیا اور اپنے سر میں گولی مار لی۔ وہیں‘ اُسی وقت‘ اس کی موت واقع ہو گئی۔ وہ ایک لائق افسر تھا اور عزتِ نفس رکھتا تھا۔ میں اس افسر کو اچھی طرح جانتا تھا۔ اس کی یاد ہمیشہ میرے ساتھ رہے گی۔ افسوس کہ نیازی کے الفاظ اور اعمال کا وہ سب سے پہلا شکار تھا‘‘ ۔
آگے چل کر جنرل خادم حسین راجہ لکھتے ہیں ''گیارہ اپریل ڈھاکہ میں میرا آخری دن تھا۔ صبح کے وقت میں لیفٹیننٹ جنرل نیازی کو ملنے کمانڈ ہیڈ کوارٹر گیا تا کہ اس سے موجودہ اور آنے والے آپریشن پر بات چیت کروں۔میں اسے پہلے کہہ چکا تھا کہ بات چیت کے دوران نقشے کا ہونا ضروری ہے۔ اس کا انتظام کر رکھے مگر میرے لیے اس کے پاس ایک اور سرپرائز تھا۔ ایک عجیب سہل انگاری کے ساتھ اس نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور کہنے لگا ''یار لڑائی کی فکر نہ کرو! وہ تو ہم کر لیں گے۔ فی الحال مجھے بنگالی گرل فرینڈز کے فون نمبر دے دو‘‘۔ میں نیازی کو اچھی طرح جانتا تھا مگر اس کے ساتھ اتنے قریبی تعلقات بھی نہ تھے۔ میرے جیسا مزاج رکھنے والے کیلئے اس کے یہ الفاظ دھماکے سے کم نہ تھے۔میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ان حالات میں کوئی ہوشمند پاکستانی ان چیزوں کی فکر کرے گا ‘ وہ بھی ایک خانہ جنگی کے دوران جو موجودہ حکمرانوں نے قوم پر مسلط کی ہے! میں نے اسے جواب دیا کہ جنرل ! آپ مجھے اچھی طرح جانتے ہیں! پھر میں نفرت سے بھری ہوئی حالت میں اس کے دفتر سے نکل آیا‘‘۔
جنرل راجہ نے کتاب کے آخر میں پروفیسر رحمان سبحان کے اس مضمون کا اقتباس بھی پیش کیا ہے جو لندن کے جریدے ساؤتھ ایشین ریویو کے جولائی 1971ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ یاد رہے کہ رحمان سبحان ایک ممتاز سول سوسائٹی لیڈر اور ماہرِ اقتصادیات تھا۔ اسی نے چھ نکات تیار کیے تھے اور'' دو معیشتوں‘‘کا نظریہ پیش کیا تھا۔ اس مضمون میں رحمان سبحان نے لکھا کہ یکم اور سات مارچ کے دوران شیخ مجیب الرحمان پر سخت دباؤ تھا کہ وہ مکمل آزادی کا اعلان کر دے۔ مگر اُس نے ایسا نہ کیا اور ایک ایسی پوزیشن لی جو عوامی مطالبے اور فوج کے مؤقف کے درمیان تھی! وہ اب بھی ایسا حل چاہتا تھا جو متحدہ پاکستان کے اندر ہو! یہ کہنا کہ پارٹی کے انتہا پسند عناصر اس کی گرفت سے نکل گئے تھے‘ درست نہیں! سات مارچ تک اس نے پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط کر لی تھی اور اسی کا حکم حرفِ آخر ہوتا تھا۔ مثلاً جب سٹوڈنٹ لیڈرز نے خود ہی یہ فیصلہ کیا کہ جو مغربی پاکستانی جا رہے ہیں ان کی کسٹم چیکنگ کی جائے جیسی کہ غیر ملکیوں کی کی جاتی ہے‘ تو شیخ مجیب الرحمان نے چار گھنٹے طلبہ قیادت کے ساتھ بات چیت کی اور یہ فیصلہ واپس کروایا! اس عرصہ میں اس کے رضاکاروں نے صوبے میں مکمل امن و امان رکھا۔
مشرقی پاکستان کبھی واپس نہیں آسکتا۔ مگر لازم ہے کہ ریکارڈ درست کیا جائے!ہم میں اتنی جرأت ہونی چاہیے کہ کھلے ذہن کے ساتھ بنگالیوں کا مؤقف جانیں اور پھر جو کچھ حقائق پر مبنی ہو اسے تسلیم کریں ! غدار غدار کی رٹ لگا کر ہم اپنے آپ کو صرف کمزور ثابت کر رہے ہیں ! (ختم)

Monday, December 18, 2023

ایک اور سولہ دسمبر


یہ سطور سولہ دسمبر کے دن لکھی جا رہی ہیں! آج شام ڈھلے ایک اور سولہ دسمبر گزر جائے گا۔ایک اور دن ! ایک اور شام ! کتنے ہی دن گزر گئے! کتنی ہی شامیں ڈھل کر راتوں کا روپ دھار چکیں! مگر افسوس! وقت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکا! ہم وہیں ہیں جہاں کھڑے تھے!
ہم آج بھی ‘ اہلِ قلم کی ایک اقلیت کو چھو ڑ کر‘ یہی راگ الاپے جا رہے ہیں کہ بنگالیوں نے غداری کی!یہ کہ شیخ مجیب الرحمان غدار تھا! یہ کہ زبان کے حوالے سے ان کا مطالبہ غلط تھا۔ یہ کہ غیر بنگالیوں پر ظلم ہوئے!! اس کور چشمی کا‘ اس بد دماغی کا‘ اس تعصب کا ‘ اس ہٹ دھرمی کا اور اس تکبر کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم آج بھی قومی سطح پر ‘ بھِک منگے ہیں ! بنگلہ دیش کوسوں آگے پہنچ چکا ہے! ہمارے موجودہ ریزرو بارہ بلین ڈالر ہیں۔ بنگلہ دیش کے اس سے دو گنا زیادہ! باقی اشاریے بھی اسی سے قیاس کر لیجیے! ہمیں آج بھی دنیا میں کوئی دہشت گرد قرار دیتا ہے ‘ کوئی سکیورٹی سٹیٹ ! کوئی ہمیں کیلے کی ریاست کہتا ہے! اس لیے کہ ہم مستقل انکار کی حالت 
(State of denial )
 میں ہیں۔ ہم سچ کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہیں! ہم یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ مشرقی پاکستان پر اردو مسلط کرنا اور اردو کو واحد قومی زبان قرار دینا بہت بڑی غلطی تھی۔ ایک حقیقت بہت دلچسپ ہے۔پروفیسر غلام اعظم‘ جو بعد میں جماعت اسلامی کی ٹاپ لیڈر شپ تک پہنچے ‘ 1947ء سے 1949ء تک ڈھاکہ یونیورسٹی سنٹرل سٹوڈنٹس یونین کے جنرل سیکرٹری رہے۔ اسی حیثیت میں انہوں نے ستائیس نومبر 1948ء کے دن ‘ جمنیزیم گراؤنڈ ڈھاکہ یونیورسٹی میں ‘وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان کو ایک میمورنڈم پیش کیا جس میں مطالبہ کیا کہ بنگالی کو ملک کی قومی زبان قرار دیا جائے! بچے کھچے پاکستان کے دانشور ( الا ماشاء اللہ ) آج بھی یہ ماننے کیلئے تیار نہیں کہ بنگالی اردو سے قدیم تر اور امیر تر زبان تھی اور ہے! ( یہاں یہ بتانا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ سندھی زبان میں روزانہ شائع ہونے والے اخبارات کی تعداد دس سے کم نہیں! ہم اہلِ پنجاب کی بھاری اکثریت کے لیے یہ بات بھی اچنبھے سے شاید کم نہ ہو !!) کئی ملکوں میں قومی زبانیں ایک سے زیادہ ہیں۔ جیسے کینیڈا اور سوئٹزر لینڈ! بعد میں بنگالی کی حیثیت قومی زبان کے طور پر مان لی گئی مگر اعتبار کے شیشے میں بال آچکا تھا۔ ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ چکا تھا۔ 
یہ کون سا انصاف ہے کہ سالہا سال تک فوجی آمریت رہے۔ مغربی پاکستان کا ایوب خان حکمرانی کرے۔ پھر وہ زمام اختیار مغربی پاکستان کے یحییٰ خان کو سونپ دے! پھر انتخابات ہوں۔ مشرقی پاکستان کو حکمرانی کا حق ملے۔ آئینی حق! قانونی حق!اخلاقی حق! مگر اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ''ملتوی ‘‘ کر دیا جائے ! پھر اس کا ردِ عمل ہو تو اسے پوری قوت سے کچل دیا جائے! اور پھر آج ‘ پچاس پچپن سال بعد اپنے آپ کو پوتّر اور مظلوم پارٹی کو غدار کہا جائے!! واہ جناب واہ ! آپ کس دنیا میں رہ رہے ہیں ! جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں ‘ پوری دنیا میں اسے کوئی بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں !! 
پروفیسر جی سی دیو کا کیا قصور تھا؟ وہ تو ایک فلسفی تھا اور استاد! قتل کے وقت بھی وہ ‘‘ پاکستان فلوسوفیکل سوسائٹی ‘‘ کا جنرل سیکرٹری تھا جو وہ گیارہ سال سے چلا آرہا تھا! اس کی لے پالک بیٹی کا نام رقیہ سلطانہ تھا۔ رقیہ کے میاں کا نام محمد علی تھا۔ محمد علی بھی پروفیسر دیو کے ساتھ ہی قتل کیا گیا! قتل و غارت کی یہ داستان طویل ہے اور درد ناک!! پاکستان میں اس موضوع پر جس قدر لکھا گیا اور اب بھی لکھا جا رہا ہے تقریباً سارے کا سارا ‘ یا تو مغربی پاکستانیوں کا موقف ہے یا مشرقی پاکستان کے غیر بنگالیوں کا!! اتنی اخلاقی جرأت کہاں کہ بنگالیوں کا مؤقف دیا جائے یا سنا جائے !! یک طرفہ کہانی ہے جو ہر سال‘ بار بار دہرائی جاتی ہے!! بقول غالب ؎
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق 
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا 
خدا جھوٹ نہ بلوائے ‘ ایسے ایسے جغادری اپنے زعم میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر تبصرے کر تے رہے ہیں اور کر رہے ہیں جو مشرقی پاکستان کی تاریخ تو دور کی بات ہے‘ جغرافیہ سے بھی نا بلد ہیں!! زر مبادلہ کون کماتا تھا؟ خرچ کہاں ہوتا تھا ؟ مرکزی ملازمتوں میں ان کا قانونی حصہ کتنا تھا اور اصل میں کتنا دیا جا رہا تھا؟ مسلح افواج سے انہیں کیوں دور رکھا گیا ؟ کیا ان کے قد اور سینے ویت نامیوں سے بھی چھوٹے تھے جنہوں نے طویل قامت امریکیوں کو شکست دی ؟ تاریخ کا مطالعہ کرنے والوں کو معلوم ہے کہ جن تین علاقوں نے انگریزوں کا مقابلہ کیا ان تین علاقوں کو انگریز سرکار نے باقاعدہ ایک پالیسی کے تحت فوجی بھرتی کے لیے اَن فِٹ قرار دیا! یہ تین علاقے بنگال‘ یوپی اور سندھ تھے! پاکستان نے انگریز کی یہ پالیسی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے نو سال بعد تبدیل کی جب 1980 میں سندھ رجمنٹ کا قیام عمل میں آیا۔ پالیسی میں یہ تبدیلی بہت پہلے آجانی چاہیے تھی!! 
غیر بنگالیوں پر '' ظلم ‘‘ کے بہت تذکرے کیے جاتے ہیں !اصل حقیقت کی طرف کوئی نہیں دیکھتا! پاکستان بنا تو مشرقی پاکستان نے بھارت سے آنے والے مہاجرین کے لیے اپنے بازو وا کر دیے! ان میں غالب تعداد بہار سے آنے والوں کی تھی ! مگر ان مہاجرین نے کیا کیا؟ سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ انہوں نے مقامی آبادی میں مِکس ہونے سے مکمل اعراض برتا۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنے میزبانوں سے گھُل مِل کر رہتے‘ انہوں نے الگ بستیاں بسائیں جن میں صرف وہی رہتے تھے۔ جیسے ڈھاکہ میں میر پور اور محمد پور کی بستیاں تھیں! جب بھی کسی ملک یا کسی شہر میں لسانی یا نسلی بنیاد پر الگ آبادیاں بسائی جاتی ہیں ‘ اختلاف پیدا ہوتا ہے اور جھگڑے ہوتے ہیں۔ ان حضرات کا برتاؤ مقامی لوگوں کے ساتھ متکبرانہ تھا۔ یہ انہیں کم تر گردانتے تھے! ریلوے اور پوسٹل کے محکموں پر ان کا مکمل قبضہ تھا۔ مقامی افراد کو لینے سے گریز کیا جاتا تھا! میں نے اپنے تین سالہ قیام کے دوران ان حضرات کی مقامی آبادی سے نفرت کو کئی بار نوٹ کیا۔ خود ہمارے ساتھ کے مغربی پاکستانی طلبہ کی اکثریت بنگالیوں کی تضحیک کرتی۔ کوئی انہیں ڈڈو ( مینڈک ) کہتا ‘ کوئی ''بھات ‘‘ کے حوالے سے مذاق اڑاتا! 
عوامی لیگ کے چھ نکات پر اب بھی غور کر کے دیکھ لیجیے۔ یہ ساتھ رہنے کی ‘ یعنی پاکستان کو متحد رکھنے کے لیے بہترین تجویز تھی۔ علیحدگی بھی ہوتی تو امن و امان سے ہو تی! مجیب الرحمان کو وزیر اعظم بننے دیا جاتا تو اقتدار میں آنے کے بعد مشرقی پاکستان میں اس کی مقبولیت کم ہونا شروع ہو جاتی! مگر جمہوری عمل کو روک دیا گیا! جب بھی‘ جہاں بھی ‘ جمہوری عمل کو روکا جاتا ہے ‘ فساد برپا ہوتا ہے جو قتل و غارت پر منتَج ہوتاہے! آپ اتنی بڑی آبادی کو بندوق کے زور پر کیسے ساتھ رکھ سکتے ہیں ! وقتی طور پر یہ کوشش کامیاب بھی ہو جائے تو اس کامیابی کی عمر بہت کم ہوتی ہے! اسمبلی کا اندھا التوا پہلی سنگین غلطی تھی اور پچیس مارچ کا ایکشن دوسری بڑی غلطی! صاف معلوم ہوتا ہے کہ فیصلہ ساز قوت ‘ جو بھی تھی‘ اس قدر کمزور نظر رکھتی تھی کہ چند گز آگے دیکھنا اس کیلئے نا ممکن تھا۔ ورنہ نوشتۂ دیوار تو دور سے بھی نظر آرہا تھا! جو تدبیر کی گئی اس کا انجام یہی ہونا تھا جو ہوا اور ڈنکے کی چوٹ ہوا!! سرگودھا کے سید قاسم شاہ نے ایک نظم کمال کی کہی ہے۔ اس کی چند سطور بے ساختہ یاد آرہی ہیں
اِتھے لُولے کھیڈن کوڈیاں ‘اِتھے گنجے کڈھن چِیر 
اِتھے اَنھّے ویکھن سینمے ‘اِتھے گونگے گاندے ہِیر
اِتھے چور اچکّا چوہدری‘ اتھے لُنڈی رَن پردھان 
( جاری )

Thursday, December 14, 2023

اُن سردیوں کا نوحہ جو اَب کبھی نہیں آئیں گی

یہ سرما کیسا ہے! مجھے کوئی نہیں کہتا سر پر ٹوپی پہنو! میرے ہاتھ میں کھیس کوئی نہیں پکڑاتا کہ باہر جاتے ہوئے اسے اوڑھو! میرے لیے چولہے پر دیگچی رکھ کر پانی کوئی نہیں گرم کرتا کہ میں اس سے وضو کروں یا نہاؤں! نہانے کے بعد مجھے رضائی میں کوئی نہیں لپیٹتا! 

وہ سردیاں کہاں چلی گئیں جو دلکش تھیں! مشینی نہیں تھیں! جن میں گیس کے ہیٹر تھے نہ اِنورٹر! جیسے ہی دھوپ نکلتی تھی ہم چارپائیاں باہر بچھا لیتے تھے۔ سب اکٹھے بیٹھتے تھے۔ وہ مامے‘ چاچے اور بابے کہاں چلے گئے جو نئے کھیس اوڑھے ہوئے‘ انہی کھیسوں کے کنارے لٹکتے ہوئے دھاگوں کو رسیوں کی طرح بُنتے رہتے تھے۔ حُقہ بھی چلتا تھا اور لسی بھی! اس بات کا خیال رکھا جاتا تھا کہ سردیوں میں لسی گاڑھی ہو اور گرمیوں میں پتلی! پھر جیسے ہی دھوپ ذرا زور پکڑتی‘ ہم تین چار ہمجولی‘ کھیس لپیٹے‘ سروں پر گرم ٹوپیاں پہنے‘ گاؤں کے جنوب میں اس میدان کا رُخ کرتے جو پہاڑی کی چوٹی پر واقع تھا۔ ہم وہاں اس وقت تک گُلّی ڈنڈا کھیلتے جب تک دھوپ زرد نہ پڑ جاتی! اس سارے کھیل کے دوران جھگڑے بھی ہوتے اور قہقہے بھی! جسے گُلّی کے پیچھے زیادہ بھاگنا پڑتا‘ وہ زیادہ جھگڑتا۔ ہمارے ساتھ فضل الٰہی بھی ہوتا۔ پکا زمیندار! گُلّی کو ایسی ضرب لگاتا کہ ہمارے چھکے چھوٹ جاتے! کچھ دن پہلے جب میں گاؤں گیا تو فضل الٰہی سے ملاقات ہوئی۔ لمبی سفید داڑھی کے ساتھ اس کی ہنسی اب بھی وہی تھی جو ہمیں دوڑاتے ہوئے ہوتی تھی!! اس نے اپنا مکان واہ میں بنا لیا ہے۔ بچے واہ فیکٹریز میں ملازمت کرتے ہیں! گاؤں میری طرح کبھی کبھی ہی جاتا ہے! 
عشا کی نماز کے بعد کسی نہ کسی کی بیٹھک میں محفل برپا ہوتی! گاؤں کے بڑے بھی ہوتے اور چھوٹے بھی! دیوار پر لالٹین لٹکی ہوتی! حُقے کا دھواں فضا میں مرغولے بناتا۔ ملکی سیاست پر بات ہوتی‘ ہر کوئی اپنا اپنا فلسفہ جھاڑتا۔ کوئی پڑھا لکھا یا نیم تعلیم یافتہ آدمی شہر سے چھٹی پر آیا ہوا ہوتا تو اس کی بات زیادہ توجہ سے سنی جاتی۔ فصلوں کے اچھا یا خراب ہونے کی پیشگوئیاں کی جاتیں! یہ بارانی علاقہ ہے۔ نہروں سے محروم! بارش ہونے کی توقعات باندھی جاتیں! سب کو پتا ہوتا کہ منڈی میں کس کس کا کون کون سا جانور جانے والا ہے اور کتنے میں بکے گا! کس کی گائے لیاری ہے اور کس کی سُوکھی! کس کا بیل زور آور ہے! گاؤں میں یا قریب کی کسی بستی میں قتل کی واردات ہوئی ہوتی تو اس کی لرزہ خیز تفصیلات سنائی اور سنی جاتیں! میں گھر واپس جا کر لالٹین کی روشنی میں دیر تک پڑھتا! جتنے دن چاند روشن رہتا‘ آدھی رات کو کمرے سے باہر صحن میں نکلنا ہوتا تو صحن بقعۂ نور بنا ہوا ہوتا۔ یہ ایک عجیب طلسمی منظر ہوتا۔ رات کی بسیط خاموشی! آسمان پر چاند! صحن اور دیواریں چاندنی میں نہائی ہوئیں! کمرے میں میری چارپائی کھڑکی کے ساتھ ہوتی! صحن میں جب بھی نکلتا شکیب جلالی کا شعر ضرور یاد آتا ؎
خزاں کے چاند نے پوچھا یہ جھک کے کھڑکی میں 
کبھی چراغ بھی جلتا ہے اس حویلی میں 
پھر بارشیں شروع ہو جاتیں۔ کئی کئی دن جھڑی رہتی! کچے صحن کیچڑ سے بھر جاتے۔ اُپلوں‘ لکڑیوں اور درختوں کی ٹہنیوں سے آگ جلائی جاتی تو رسوئی دھوئیں سے بھر جاتی! آنکھوں سے پانی نکلتا۔ اس کا اپنا مزہ ہوتا۔ چولہے کے ساتھ ہی چٹائی بچھائی جاتی۔ اسی پر بیٹھ کر کھانا کھاتے اور گُڑ والی چائے پیتے جس میں تھوڑا تھوڑا نمک بہت مزہ دیتا! ناشتے میں پراٹھے‘ مکھن اور دودھ ہوتا! انڈے‘ تب صرف انڈے تھے۔ شیور کے یا فارمی انڈے بہت بعد میں متعارف ہوئے!! 
ہمارا کنبہ 1966ء میں اسلام آباد منتقل ہوا۔ یہ ایک حیرت انگیز حد تک خوبصورت اور خیرہ کُن اسلام آباد تھا! ایسا اسلام آباد جس کا آج تصور بھی نہیں کیا جا سکتا! سرما میں اس شہر کا حُسن عروج پر ہوتا تھا۔ یہ اسلام آباد فارن آفس سے شروع ہوتا تھا اور زیرو پوائنٹ پر ختم ہو جاتا تھا۔ مکان کم تھے اور درخت زیادہ! سردیوں میں اکثر درختوں کے پتے لہو کی طرح سرخ ہو جاتے تھے۔ خزاں بہار سے کم دلکش نہ تھی! صبح سویرے سڑکوں پر شیشے کے صاف شفاف ٹکڑے دکھائی دیتے تھے جو اصل میں منجمد پانی ہوتا تھا۔ بارشوں میں اسلام آباد خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ پُراسرار بھی ہو جاتا۔ سٹریٹ لائٹس بہت اونچی تھیں۔ بارش میں یہ چراغ لرزتے دکھائی دیتے! ہم سرما کی بارشوں میں روسی ناول پڑھتے اور مارگلہ کی پہاڑیوں کو حسرت سے دیکھتے کہ کبھی ان پر بھی برفباری ہو!! آج یہ شہر اپنی خوبصورتی‘ دلکشی اور آب و تاب کھو بیٹھا ہے۔ جوع الارض ( زمین کی لالچ) میں سرما کہیں کھو گیا ہے! ہر طرف مکان ہی مکان ہیں! ایک ایک مکان کے تین تین چار چار حصے ہیں جن میں الگ الگ خاندان رہ رہے ہیں! لان کا تصور ہی ختم ہو گیا ہے! سردیوں میں بیٹھیں گے کہاں اور دھوپ کیسے تاپیں گے؟ غضب یہ ہوا ہے کہ مسجدوں میں بھی صحن غائب ہونے لگے ہیں۔ پوری پوری مسجدوں کے اوپر چھتیں تَن دی گئی ہیں۔ پہلے ظہر اور عصر کی نمازیں دھوپ میں ادا کی جاتی تھیں۔ اب یہ سہولت بھی ختم کی جا رہی ہے! بارشیں بھی وہ نہیں رہیں اس لیے کہ درخت کٹ گئے۔ جو باقی ہیں ان کی زندگی بھی مختصر ہی دکھائی دے رہی ہے! بارشوں میں پُراسرار نظر آنے والے چراغ کہیں نہیں کہ سٹریٹ لائٹس ہی نہیں ہیں اور اگر ہیں تو جلتی نہیں! شہر سے لائبریریوں کا صفایا ہو چکا! اب رضائیوں میں لپٹے ہوئے نوجوان روسی ناول نہیں پڑھتے‘ سوشل میڈیا کی جہالت سے فیضیاب ہوتے ہیں! یہ سوچ کر خوف آتا ہے کہ یہ جو دو‘ اڑھائی کتاب فروش شہر میں رہ گئے ہیں یہ بھی کوئی اور کاروبار نہ شروع کر دیں! ہمارے لیے سب سے بڑی عیاشی یہ تھی کہ انگیٹھی میں کوئلے دہکا کر پاس رکھ لیں اور رضائی اوڑھ کر کتابیں پڑھیں۔ ساتھ ڈرائی فروٹ ہو۔ ہمارا ڈرائی فروٹ بھی کیا تھا؟ مونگ پھلی اور ریوڑیاں! 
اب گاؤں میں بھی سرما کے وہ مزے نہیں رہے! شہر کا کلچر گاؤں میں پہنچ کر غالب آ چکا ہے! اول تو ہر چوتھا گھر مقفل ہے کیونکہ مکین شہروں اور قصبوں کو سدھار گئے۔ گاؤں کا واحد معمار بھی جا چکا! شہر کو ہجرت کرنے والی پہلی نسل گاؤں سے تعلق کو نبھا رہی ہے۔ مکانوں کی مرمت کے لیے بھی آتے ہیں۔ شادیوں اور جنازوں میں شرکت کے لیے بھی آتے ہیں! ان کے بعد دوسری نسل جو شہر ہی میں پلی بڑھی‘ گاؤں سے تعلق بر قرار نہیں رکھ سکے گی! انگارے ہی نہیں رہے‘ تاپیں گے کیا! گاؤں کی عورتوں کو گیس سلنڈر کی لت لگ چکی ہے! دھوپ میں بیٹھنے والے بوڑھے رخصت ہو گئے! سردیوں کی راتوں کو جو محفلیں جمتی تھیں‘ خواب و خیال ہو گئیں! اب ٹی وی ڈرامے دیکھے جاتے ہیں! لالٹین کا وجود عنقا ہو چکا! کچے کمرے‘ جن میں اُپلے جلائے جاتے تھے اور چٹائیاں بچھائی جاتی تھیں‘ پکے کمروں میں تبدیل ہو گئے ہیں! کچھ چیزیں تو گاؤں سے مکمل طور پر غائب ہو گئی ہیں! جیسے مٹی کے برتن ! گُلّی ڈنڈا اور دھوتی یا تہمد! چکّی بھی اب کوئی نہیں پیستا! اناج مشینوں پر پسوایا جاتا ہے! پنگھٹ بھی جانے ہیں یا نہیں! پیدل چلنے کا رواج صفر فیصد رہ گیا ہے۔ موٹر سائیکل‘ کاریں‘ سوزوکیاں اور ویگنیں عام ہو گئی ہیں! وہ راستے ہی ختم ہو گئے ہیں جن پر پیدل سفر کیا جاتا تھا! پکی سڑکیں نئے راستوں پر بچھی ہیں! اور ہاں! ہوشیار!! سوشل میڈیا گاؤں میں داخل ہو چکا ہے!!

Tuesday, December 12, 2023

یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں

یہ جن ملکوں میں انصاف کا دور دورہ ہے‘ میرٹ کی حکومت ہے‘ عدلیہ رینکنگ میں ممتاز حیثیت رکھتی ہے‘ حکمرانوں کا احتساب ہوتا ہے‘ ان کی قیام گاہیں سادہ ہیں‘ پولیس ضرورت مندوں کے دروازے پر آتی ہے‘ ضرورت مندوں کو تھانوں میں نہیں آنا پڑتا‘ مسلمان ملکوں سے کروڑوں افراد ان ملکوں میں جا بسے ہیں‘ ان ملکوں میں کوئی قراردادِ مقاصد ہے نہ کوئی اسلامی نظریاتی کونسل‘ نہ کوئی شریعہ کورٹ‘ نہ ان ملکوں کے ناموں میں مذہبی ٹچ ہے‘ نہ ان ملکوں میں قسمیں کھانے کا رواج ہے‘ تو پھر ان ملکوں میں ایسا بہت کچھ کیوں موجود ہے جس کا تقاضا اسلام کرتا ہے؟
ان ملکوں میں نیب جیسے اداروں کا وجود بھی نہیں! پھر بھی کرپشن نہ ہونے کے برابر ہے۔ پچھلے سال شفافیت کے لحاظ سے ڈنمارک کا پہلا نمبر تھا۔ دوسرے نمبر پر نیوزی لینڈ تھا۔ اس کے بعد بالترتیب فن لینڈ‘ ناروے‘ سنگا پور‘ سویڈن‘ سوئٹزر لینڈ‘ نیدر لینڈ‘ جرمنی‘ لگزمبرگ ‘ آئرلینڈ‘ ہانگ کانگ‘ آسٹریلیا‘آئس لینڈ ‘ایسٹونیا‘ یورا گوئے‘کینیڈا‘ جاپان‘ برطانیہ‘ بلجیم‘ فرانس‘آسٹریا‘ امریکہ‘ تائیوان‘ بھوٹان‘ اور چلی کے نام آتے ہیں۔ اس کے بعد پہلا مسلمان ملک یو اے ای ستائیسویں نمبر پر ہے! چالیسویں نمبر پر قطر ہے۔پاکستان کا نمبر ایک سو چالیس ہے! یہ فہرست کسی الل ٹپ طریقے سے نہیں بنائی جاتی! اس کا ایک لمبا چوڑا سسٹم ہے۔ ایک طریقِ کار ہے۔ معیار اور کسوٹیاں ہیں! اچھی طرح جانچ پڑتال کر کے‘ ماپ تول کر ‘ ایک ایک ملک کی چھان بین کر کے یہ فہرست تیار کی جاتی ہے! ثابت ہوا کہ قراردادِ مقاصد ہمارے لیے بیکار ثابت ہوئی۔ یہ ہماری کرپشن کو کم نہ کر سکی! اسلامی نظریاتی کونسل ہماری عملی زندگیوں کو اسلام کے نزدیک نہ لاسکی! ایسے تمام ادارے ہماری کوئی مدد نہ کر سکے!ہماری عدلیہ کی رینکنگ دیکھ لیجیے۔ پاسپورٹ کی رینکنگ ملاحظہ کر لیجیے۔ ہم ہر جگہ خائب اور خاسر ہیں۔ 
اس ذلت کی وجہ جاننے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں! وجہ بتا دی گئی تھی۔''تم سے پہلی قومیں اس لئے تباہ ہوئیں کہ جب کمزور جرم کرتا اسے سزا دیتے اور طاقتور کوئی خطا و جرم کرتا تو اسے معاف کر دیتے ‘‘۔ اس کی ہمارے ہاں لاکھوں مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ تازہ ترین مثال دیکھیے۔ وفاقی حکومت نے ایک صاحب محمد رازق سنجرانی کو سینڈک میٹلز لمیٹڈ 

(Saindak Metals Limited) 

کے سربراہ کے منصب سے بر طرف کر دیا ہے۔ وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اُن صاحب کی تقرری میں متعلقہ قوانین کی خلاف ورزی کی گئی تھی۔ بظاہر یہ حکم بہت سادہ اور بے ضرر دکھائی دیتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے یہ تقرری کل پرسوں کی گئی ہے اور جیسے ہی حکومت کو معلوم ہوا اس نے تقرری کو خلافِ قانون قرار دے دیا۔مگر ایسا نہیں ہے‘ یہ تقرری پندرہ سال پہلے 2008ء میں کی گئی تھی۔ سفارش بلوچستان کے سابق چیف منسٹر رئیسانی صاحب کی تھی۔ وزیر اعظم کے منصب پر اُس وقت یوسف رضا گیلانی صاحب فائز تھے۔ یہ کمپنی سونے اور پیتل کی اُن کانوں کی کرتا دھرتا ہے جو بلوچستان میں سینڈک قصبے کے قریب 1970ء میں دریافت ہوئی تھیں۔ اس کمپنی کے سربراہ کی پوسٹ ایک طاقتور منصب ہے۔ اس تقرری کے دس سال کے بعد نیب نے تفتیش کی اور بتایا کہ یہ تقرری اس کمپنی کے اپنے ہی قوانین کی صریح خلاف ورزی تھی۔ نیب نے سابق چیف منسٹر بلوچستان اور دیگر ملزموں کو طلب کیا مگر کوئی بھی نہ حاضر ہوا۔ نیب نے رپورٹ میں واضح کیا کہ مسٹر رازق سنجرانی کا ‘ جنہیں کمپنی کا سربراہ مقرر کیا گیا‘ دھاتوں اور کانوں کے شعبے کا کوئی تجربہ نہ تھا اور عمر بھی صرف چوبیس برس تھی۔ مگر نیب کی یہ رپورٹ صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔ کوئی ایکشن نہ لیا گیا۔ پانچ سال اور گزر گئے۔ اب نگران وزیر اعظم نے اس غلط بخشی کو ختم کرتے ہوئے ایکشن لیا ہے۔ ان پندرہ سالوں میں کیا ہوتا رہا؟ کمپنی کس طرح چلائی جاتی رہی؟ کون کون سے اقربا تمتع اٹھاتے رہے ؟ کس کس خاندان کی مالی حالت میں انقلاب آئے؟ یہ سب کچھ ایک تفصیلی تفتیش کا متقاضی ہے۔ 
آپ کا کیا خیال ہے ؟ اس برطرفی کے بعد کیا تقرری کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہو گی ؟ غالباً نہیں! کیونکہ جو افراد بھی ملوث ہیں‘ طاقتور ہیں! اب ایک بار پھر اس فرمانِ نبوی کو غور سے دیکھیے '' تم میں سے پہلی قومیں اس لئے تباہ ہوئیں کہ جب کمزور جرم کرتا اسے سزا دیتے اور طاقتور کوئی خطا و جرم کرتا تو اسے معاف کر دیتے۔‘‘ جو قومیں شفافیت میں ممتاز حیثیت کی مالک ہیں‘ اُن میں سے شاید ہی کوئی غریب یا غیر ترقیاتی یافتہ ہو! اس لیے کہ جس کسی نے اس فرمان پر عمل کیا‘ جو بھی تھا‘ جیسا بھی تھا‘ اس کا بیڑہ پار ہو گیا۔دوا مسلمان کھائے یا کافر‘ ضرور اثر کرتی ہے۔ پیغمبرِ خداﷺ نے ایک نسخہ ‘ ایک فارمولا بتایا۔ اس نسخے پر سویڈن اور نیوزی لینڈ جیسے غیر مسلم ملکوں نے عمل کیا۔کامیاب ٹھہرے ! مسلمان ملک عمل پیرا نہ ہوئے! سو تباہی کے دہانے پر ہیں !!! 
آپ ظلم اور بد دیانتی کی انتہا دیکھیے کہ ایک طرف لاکھوں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگار جوتیاں چٹخا رہے ہیں اور دوسری طرف مراعات یافتہ خاندانوں کے افراد اُن مناصب پر فائز کیے جاتے ہیں جن کے وہ ہر گز اہل نہیں! اس خیانت کا نقصان ملک کو ہو رہا ہے۔ اس صورتحال میں ملک ترقی کیسے کر سکتا ہے؟ ترقی تو دور کی بات ہے‘ ملک کی بقا کا سوال ہے۔ ایک شخص جو پہلے ہی مریض ہے‘ اسے دوا غلط دی جائے تو وہ کیسے بچ سکے گا ؟ اس سانحے کو ایک اور تناظر میں بھی دیکھیے۔ یہ ملک بے پناہ معدنی وسائل کا مالک ہے۔ یہاں تیل‘ سونا‘ تانبا‘ لوہا غرض ہر قیمتی دھات موجود ہے۔ اول تو ان کی تلاش ہی نہیں کی جاتی۔ کر لی جائے اور کچھ دریافت بھی ہو جائے تو یہ دریافت بد عنوانی‘ اقربا پروری‘ دوست نوازی اور سفارش کی نذر ہو جاتی ہے! ملک کا درد رکھنے والے کم ہیں او ر جو تھوڑے بہت ہیں انہیں گمنامی کی گپھاؤں میں دھکیل دیا جاتا ہے ! 
ایک ہزار قراردادِ مقاصد لے آئیے۔ ہر ضلع ‘ ہر تحصیل‘ ہر یونین کونسل میں اسلامی نظریاتی کونسل کی برانچ قائم کر دیجیے‘ ہر ادارے‘ ہر محکمے‘ ہرشعبے کے ساتھ شرعی کا یا اسلامی کا لفظ لگا دیجیے ‘ یہ منافقت کسی کام نہ آئے گی‘ شفافیت میں وہی ممالک فہرست کی ٹاپ پر ہوں گے جنہیں ہم نفرت اور حقارت سے کفار کہتے ہیں۔اس لیے کہ کوئی بڑا آدمی وہاں سزا سے بچ نہیں سکتا۔ اس لیے کہ غیر قانونی تقرری کو ہٹانے میں وہاں پندرہ برس نہیں لگتے!ان ملکوں میں قانون قانون ہے۔ ہمارے ہاں قانون وہ قالین ہے جس پر بڑے لوگ جوتوں سمیت چلتے ہیں اور وہ پھندا ہے جس میں عام آدمی کی گردن پھنس جائے تو بچنا مشکل ہے!سنگاپور میں امریکی لڑکے نے جرم کیا تو امریکی صدر کی مداخلت کے باوجود اُسے بَید لگائے گئے! اور جرم کیا تھا ؟ گاڑیوں کی توڑ پھوڑ اور سڑکوں پر لگے ٹریفک سائن کی چوری! ہمارے ملک میں ریمنڈ ڈیوس نے دو پاکستانیوں کو قتل کر دیا۔ اس کے قبضے سے حساس پاکستانی تنصیبات کے فوٹو بھی بر آمد ہوئے۔جب اس پر مقدمہ چل رہاتھا تو ایک بہت بڑا‘ انتہائی طاقتور‘ پاکستانی سرکاری ملازم عدالت سے براہِ راست امریکی سفیر کو لمحے لمحے کی رپورٹ دے رہا تھا۔ یہ بات خود نیویارک ٹائمز نے اپنی9 اپریل2013 ء کی اشاعت میں لکھی۔ جب مقتولین کے ورثا عدالت میں ریمنڈ ڈیوس کو '' معاف‘‘ کر رہے تھے تو اُن کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اور کچھ‘ نیویارک ٹائمز کے بقول‘ سسکیاں لے رہے تھے! 
آج قوموں کی برادری میں سنگا پور کا مقام دیکھیے اور پاکستان کی حیثیت کا بھی اندازہ لگا لیجیے!!

Monday, December 11, 2023

ایک چھوٹا سا پاکستان

میں جب اپنے اُن احباب سے اُکتاتا ہوں جو گاڑیوں میں گھومتے پھرتے ہیں‘ کوٹ پتلون پہنتے ہیں یا کلف زدہ کھڑ کھڑاتے شلوار قمیض! بڑے بڑے مناصب پر رہے ہیں اور اپنے کارنامے فخریہ سناتے ہیں! زرعی پیداوار سے حاصل شدہ‘ حیران کن آمدنی کا ذکر کرتے ہیں‘ بلغراد‘ ویانا اور سکینڈے نیویا کے سفر کے حالات سناتے ہیں اور پلاٹوں کی خرید اور ان پر تعمیر کردہ محلات کا ذکر کرتے ہیں تو میں ایسے مقامات کا رُخ کرتا ہوں جہاں ان گردن بلندوں کا گزر نہیں ہوتا! حافظ شیرازی نے کہا تھا ؎

غمِ غریبی و غربت چو بر نمی تابم 
بشہرِ خود روَم و شہر یارِ خود باشم
کہ مسافرت کے غم جب برداشت سے باہر ہوجاتے ہیں تو اپنے شہر کو جاتا ہوں اور اپنا مالک و مختار خود بنتا ہوں! 
سبزی منڈی میں جیسے ہی داخل ہوا تو نوٹ کیا کہ چودہ پندرہ سال کے ایک لڑکے نے میری گاڑی کو اور مجھے غور سے دیکھا۔ اس کے ہاتھ میں چھوٹی ریڑھی تھی جس میں سودا رکھا جاتا ہے اور ڈھویا جاتا ہے۔ اس ریڑھی کا ایک ہی پہیہ ہوتا ہے۔ فرنگی زبان میں اسے 

wheelbarrow

کہتے ہیں! منڈی میں بے تحاشا رش تھا۔ مزدور سروں پر ٹوکرے رکھے ادھر اُدھر تیزی سے آجا رہے تھے۔ سڑک پر سوزوکیاں‘ ٹرک‘ ٹرالیاں‘ کاریں۔‘ موٹر سائیکل‘ سبھی گاڑیاں موجود تھیں۔ ارد گرد بازار لگا تھا۔ پھل اور سبزیاں بیچنے والے آوازے لگا رہے تھے۔ میری گاڑی ایک ایک انچ آگے بڑھ رہی تھی۔ریڑھی والا لڑکا ساتھ ساتھ آرہا تھا۔ جہاں ہم بری طرح پھنس جاتے‘ وہ آگے چل کر ٹریفک کلیئر کراتا۔ جس جگہ میں رکنا چاہتا تھا‘ وہاں تک پہنچنے میں آدھا گھنٹہ لگ گیا۔میں گاڑی سے اُترا تو اس سے ہاتھ ملایا اور کہا‘تم اتنی دیر سے ہماری گاڑی کے ساتھ ساتھ چل رہے ہو! تم نے ٹریفک بھی ہمارے لیے کلیئر کرائی!وہ مسکرایا! اس کا نام عرفان تھا اور سوات سے تھا۔ کمائی کا پوچھا تو کہنے لگا :صبح سے تین سو کمائے ہیں! کہنے لگا: ایک بجے تک کام کرتا ہوں۔ اس کا باپ اسی منڈی میں تھا۔ وہ بھی ریڑھی بان تھا۔ عرفان میرے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ ہم باتیں کرتے رہے۔ مجھے اخلاق کے پاس پہنچنا تھا جو میوہ فروش ہے اور میرا دوست ہے۔ کشمیر سے تعلق رکھنے والا اخلاق‘ خوش اخلاق ہے! پھلوں کے خالی کریٹ جوڑ کر اس نے ایک چبوترہ سا بنایا ہوا ہے۔ اس کے اوپر کھیس اور کھیس کے اوپر کپڑا بچھا کر بیٹھنے کی جگہ بنائی ہوئی ہے۔ ساتھ ایک کرسی بھی رکھی ہوئی ہے مگر میں چبوترے پر اس کے ساتھ بیٹھنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ وہ پھلوں کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کا رونا رو رہا تھا۔اس کی زندگی ایک سخت معمول کے مطابق چل رہی تھی۔ نیلامی میں بولی دے کر پھل خریدنے کے لیے اسے بہت جلد اُٹھ کر منڈی پہنچنا ہوتا ہے۔میں سوچ رہا تھا کہ سارا دن اور ساری شام اس سخت چبوترے پر بیٹھنا آسان کام نہیں! وہ میرے لیے کھانا منگوانا چاہتا تھا مگر یہ کھانے کا وقت نہیں تھا۔ابھی تو دن کے گیارہ بجے تھے؛چنانچہ اس نے قہوہ منگوایا۔میرے کہنے پر اس نے عرفان کے لیے بھی قہوہ منگوایا! 
جس سے پیاز خریدے وہ سیالکوٹ سے تھا۔ ساڑھے سات سو روپے دھڑی یعنی پانچ کلو۔ آج کل کم ہی لوگ جانتے ہوں گے کہ دھڑی کیا ہوتی ہے! پیاز چھانٹ چھانٹ کر‘ صاف کر کر کے‘ ڈھیریاں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر کر کے وہ سخت تھکا ہوا تھا اور تقریباً ہانپ رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ اسے بھاؤ کم کر نے کا کہوں مگر اس کا لباس اور اس کی حالت دیکھ کر ہمت نہ ہوئی۔ وہ پیاز کے ڈھیروں سے اٹھنے والی گرد اور زمین سے اٹھنے والی مٹی سے اٹا ہوا تھا۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ دکان کے بجائے ریڑھی والوں سے سودا خریدوں! ایک ریڑھی والا آخر کتنا کما لیتا ہو گا! لوگ بڑے بڑے مال میں جاتے ہیں اور سپر سٹوروں سے مہنگا سودا خریدتے ہوئے چُوں بھی نہیں کرتے۔ شاپنگ بیگ کے پیسے الگ دیتے ہیں مگر ریڑھی سے کچھ لیتے ہیں تو کاروباری رگ پھڑکنے لگتی ہے اور بھاؤ تاؤ یوں کرتے ہیں جیسے دو کلو گوبھی اور ایک درجن کیلے نہیں‘ پلاٹ خریدنے لگے ہیں۔ ایک سفید ریش‘ عمر رسیدہ پٹھان تھا جس سے ٹماٹر خریدے۔ وہ ایک پیالے سے کچھ کھا رہا تھا۔ میں نے کہا چاچا ! بڑے مزے ہیں! کیا کھا رہے ہو؟ کہنے لگا: کھیر کھا رہا ہوں! پھر پوچھا: آپ کے لیے منگواؤں ؟ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا‘ مسکرایا اور شکریہ ادا کیا !! 
یہ سبزی اور فروٹ منڈی چھوٹا سا پاکستان ہے! یہاں پٹھان بھی ہیں اور پنجابی بھی ! کشمیری بھی اور سندھی بھی! کوئٹہ والے بھی ہیں اور گلگت والے بھی ! مگر یہ ایسا پاکستان ہے جہاں زبان اور نسل کی بنیاد پر کوئی جھگڑا ہے نہ سیاست! یہ سب آپس میں مل کر کا روبار کر رہے ہیں۔ مل کر کھانا کھاتے ہیں۔اکٹھے چائے پیتے ہیں ! ایک کسی کام کو جاتا ہے تو دوسرا اس کی دکان‘ اس کا ٹھیلا‘ اس کی ریڑھی سنبھال لیتا ہے۔ یہ ٹوکرے سروں پر اٹھائے بوڑھے‘ یہ ریڑھیاں دھکیلتے لڑکے‘ یہ آوازیں لگاتے سبزی فروش! یہ کیچڑ! یہ چھلکوں اور کوڑے سے بھری گلیاں! یہی اصل پاکستان ہے!! 
یہاں پانی کے نکاس کا نظام ہوتا! یہاں کوئی ترتیب‘ کوئی تنظیم ہوتی! اتنی صفائی ہوتی کہ خواتین بھی آکر خریداری کر سکتیں! بارش نہ بھی ہو تو یہاں ٹخنوں تک کیچڑ ہوتا ہے۔ جو حال بارش میں ہوتا ہے‘ وہ ناقابلِ بیان ہی نہیں‘ ناقابلِ تصور ہے! شہر میں سی ڈی اے کے نام سے ایک ترقیاتی ادارہ ہے! اس میں اعلیٰ افسروں کی بھرمار ہے۔ کیا کبھی سی ڈی اے کے چیئر مین صاحب نے اس منڈی میں قدم رنجہ فرمایا ہے ؟ چلئے ! افسر شاہی سے تو امید بھی نہیں رکھنی چاہیے!کیا منڈی میں بیٹھنے والے دکانداروں اور تاجروں میں اتنا شعور نہیں کہ سی ڈی اے کے چیئر مین کے پاس جا کر اپنے حقوق کا مطالبہ کریں! یہ دکاندار‘ یہ تاجر‘ جو لاکھوں گھرانوں کو سبزی اور پھل مہیا کرتے ہیں‘ کیا ان کا حق نہیں کہ انہیں صاف ستھری جگہ مہیا کی جائے؟ کسی چینل کو بھی کبھی خیال نہیں آیا کہ یہاں کی حالتِ زار کو ٹی وی پر دکھائے! پورا علاقہ بے توجہی کا شکار ہے ! یہاں سے لوگوں کو غذا فراہم کی جاتی ہے۔ اس جگہ کی صفائی مثالی ہونی چاہیے تھی مگر افسوس! یہ گندگی اور کثافت کا گڑھ ہے ! 
'' صفائی نصف ایمان ہے‘‘۔ پیدائش سے یہی بتایا اور سنایا جا رہا ہے! مگر سچ یہ ہے کہ ہم گندے ہیں! ہمارا صفائی سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں! جس ملک میں چلتی گاڑیوں سے چھلکے اور آئس کریم کے خالی ڈبے باہر پھینکے جائیں‘ اور پھینکنے والوں کو کوئی سزا نہ دی جائے وہاں کیا صفائی ہو گی ! کہیں ایسا تو نہیں کہ کوڑا کرکٹ ہمارے ذہنوں میں بھرا ہوا ہے؟ کہیں ہم ذہنی طور پر تو کثیف نہیں؟ لگتا ہے اس سوال کا جواب اثبات میں ہے! ہمارا باطن صاف نہیں اس لیے ہمارا ظاہر بھی گندا ہے! ہمارے باتھ روم بتاتے ہیں کہ ہم غیر مہذب ہیں! ہمارے بازار‘ ہماری منڈیاں‘ ہمارے چوک‘ ہمارے بسوں کے اڈے‘ ہمارے ریستوران‘ یہاں تک کہ ہماری عبادت گاہیں بھی صفائی سے محروم ہیں! جس دن ہم اندر سے صاف ہو گئے‘ امید ہے کہ باہر سے بھی ہو جائیں گے !!

Thursday, December 07, 2023

پا بہ زنجیر پولیس

گزشتہ ہفتے ایک نوجوان افسر کے دائرۂ اختیار میں تین مجرم پکڑے گئے جن کے خلاف ٹھوس الزامات تھے۔تاہم سیاسی دباؤ اتنا زیادہ تھا کہ حکام بالا کی طرف سے انہیں چھوڑ نے کا حکم ملا اور وہ چھوڑ دیے گئے!!
یہ ہے اصل حقیقت ہمارے بڑے بڑے دعووں کی! قیمتی کوٹ اور پتلون کے نیچے ہم نے چیتھڑے پہنے ہوئے ہیں اور دھجیاں لپیٹی ہو ئی ہیں!غلام عباس نے اپنا مشہور افسانہ '' اوور کوٹ‘‘ شاید ہماری اصلیت کے بارے میں ہی لکھا تھا۔ جھنڈا اپنا ہم نے وائٹ ہاؤس پر بھی لہرانا ہے اور لال قلعے پر بھی! آزادی ہم نے کشمیر کے علاوہ فلسطین اور چیچنیا کو بھی دلوانی ہے! جنگجو ہم نے ساری دنیا سے سمیٹ کر اپنے گھر میں ڈال لیے! کہلواتے ہم اسلام کا قلعہ ہیں! مگر اصلیت ہماری اتنی مکروہ ہے کہ کسی مجرم کو سزا نہیں ملتی! پولیس زنجیروں سے بندھی ہے۔ اعلیٰ افسران اپنے ماتحتوں کی تعیناتیوں اور تبادلوں کے معاملات میں بے بس ہیں! جو مدافعت کرتا ہے اسے منظر ہی سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ کیا پورے ملک میں ایک کچہری بھی ایسی ہے جہاں دہانوں میں ہڈیاں ڈالے بغیر کام ہو سکے؟ کل ہی ایک دوست بتا رہے تھے کہ ان کی زرعی زمین کی گرداوری کے لیے چار لاکھ کا نذرانہ مانگا گیا ہے! پٹواری‘ نائب تحصیلدار‘ تحصیلدار‘ اے سی‘ ڈی سی‘ سب کی دیہاڑیاں لگی ہیں! گاؤں میں زمین کی نشاندہی کرانی ہو تو تحصیل سے اہلکار آتے ہیں اور ان اہلکاروں کو منگوانا آسمان سے چاند اتارنے سے کم نہیں! قیامت یہ ہے کہ شہر کے لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ گاؤں کے لوگ کس طرح تحصیلوں میں ریزہ ریزہ ہو رہے ہیں۔ پِس رہے ہیں۔ مسجدوں میں نمازیوں کے ہجوم دیکھیں تو لگتا ہے اس ملک کا ہر باشندہ ولی ہے۔ یوٹیوب پر مذہب کا قبضہ ہے! لاکھوں پاکستانی ہر سال عمروں اور حج سے سرفراز ہوتے ہیں! رمضان کے آخری عشرے میں آدھا ملک حجاز منتقل ہو جا تا ہے! گھروں سے جائے نمازیں اور تسبیحیں اکٹھی کی جائیں تو ڈھیر آسمان تک جا پہنچے گا! مگر مجال ہے کہ مذہب اس سے آگے جا سکے! مذہب پر شدید پابندی ہے کہ مسجد اور امام بارگاہ سے باہر نہ نکلے! دفتر‘ بازار‘ کارخانے‘ کھیت‘ وزارت‘ تھانے اور کچہری میں مذہب کا داخلہ ممنوع ہے۔ مجرموں کو سزا نہیں ملتی۔ رشوت کے بغیر کام نہیں ہوتا! اسلام گلے سے اوپر اوپر ہے۔ دل غلاظت کی آماجگاہ ہیں!! بھارت کے دورافتادہ مقامات میں اسلام قبول کرنے کے لیے گائے کا گوشت کھانا کافی ہے۔بالکل اسی طرح ہمارے لیے مسلمانی کی شان اتنی ہی ہے کہ گھروں میں غیر مسلموں کے لیے کھانے کے برتن الگ کر لیں! ہاں جب یورپ اور امریکہ جائیں تو انہی غیر مسلموں کے ہاتھوں کا پکا ہوا‘ انہی کے ہاتھوں سے ٹیبل پر لایا اور لگایا ہوا‘ کھانا‘ مہنگا زرِ مبادلہ خرچ کر کے فخر کے ساتھ تناول فرمائیں! 
اگر پولیس کے کام میں سیاستدانوں نے مداخلت کرنی ہی کرنی ہے اور اگر اس مداخلت کا خاتمہ دور دور تک نہیں نظر آتا‘ تو پھر پولیس فورس کی ضرورت ہی کیا ہے؟ مجرم کو اندر رکھنے یا چھو ڑنے کا فیصلہ وزیر یا میئر ہی نے کرنا ہے اور اگر تھانیدار یا ایس پی بے بس اور مجبور ہے تو سیاستدان پولیس کا کام خود کیوں نہیں سنبھال لیتے! عوام کے خون سے نچوڑے ہوئے کروڑوں اربوں روپے پولیس پر خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ تھانوں میں مقامی کھڑ پینچوں کو بٹھائیں! ہر ضلع کے بااثر ترین سیاستدان کو ایس پی مقرر کریں۔ صوبے کا وزیر اعلیٰ کسی خوش اخلاق‘ سوشل اور ہنس مکھ وزیر کو آئی جی کے منصب پر بٹھائے جو سفارشیں مانے۔ ستے خیراں ہوں گی! درمیان سے پولیس کا ٹنٹا ہی ختم ہو جائے گا۔ ضرورت کیا ہے لمبا راستہ چلنے کی؟ پہلے مقامی سیاستدان وزیر یا وزیر اعلیٰ سے بات کرے۔ وزیر اعلیٰ آئی جی سے بات کرے۔ آئی جی ایس پی کو حکم دے کہ مجرم کو رہا کردو کیونکہ اوپر سے حکم آیا ہے! اس پیچ در پیچ طریق کار کے بجائے درمیان سے ایس پی اور آئی جی ہی کو 
Delete
کر دیجیے! ہاں ایک کام ہے جس کے لیے پولیس کا باقی رکھا جانا ضروری ہو گا۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں کے محلات پر پہرا دینے کے لیے!! 
ایک بار ایک پولیس افسر نے میرے سامنے اس حسرت کا اظہار کیا (اور اس میں کوئی افسانہ نگاری نہیں! سو فیصد سچ ہے ) کہ کاش وہ اس ملک میں افسر ہونے کے بجائے ایک ایسے ملک میں پولیس کا معمولی سپاہی ہوتا جہاں سپاہی کے اختیارات میں مداخلت نہیں کی جا سکتی۔ جہاں کوئی وزیر‘ کوئی چیف منسٹر‘ کوئی وزیر اعظم‘ کوئی سپیکر‘ کوئی چیئرمین‘ پولیس کو غلط کام کہنے کی جرأت نہیں کرتا! یہ حسرت‘ یہ خواہش‘ ہم سب کے چہرے پر طمانچہ ہے۔ میں نے اسے کہا کہ ہر شخص میرٹ کا متلاشی ہے مگر کون کون یہاں سے جائے گا ؟ پچیس کروڑ تو نہیں جا سکتے۔ اس نے جواب دیا کہ جو جا سکتے ہیں‘ وہ تو جائیں! اور یہی ہو رہا ہے! برین ڈرین 
(Brain drain) 
بد ترین سطح پر پہنچ چکا ہے جبکہ بھارت میں لوگ بیرون ملک سے واپس آرہے ہیں! 
انفرا سٹرکچر پر بہت بات ہوتی ہے کہ انفراسٹرکچر ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔شاہراہیں‘ پُل‘ ہوائی اڈے‘ ذرائع رسل رسائل‘ ذرائع آمدورفت!! مگر جس معاشرے میں مجرم چھوٹ جائیں‘ پولیس پا بہ زنجیر ہو‘ رشوت سرنگیں بنا چکی ہو‘ سیاستدان سفارش کو اپنا پیدائشی حق گردانیں‘ اس ملک میں انفرا سٹرکچر بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ اندھے کو بھی معلوم ہے کہ رشوت‘کِک بیک‘ اور '' کمیشن‘‘ جہاں ہو گا وہاں پُل خطرناک‘ شاہراہیں ناقص اور ہوائی اڈے عیب دار ہوں گے! اسلام آباد کا نیا ایئر پورٹ دیکھ لیجیے۔ دس سال میں سسک سسک کر‘ رینگ رینگ کر‘ بنا‘ وہ بھی کتنے ہی مسائل کے ساتھ! سنگا پور‘ کوالا لمپور‘ بنکاک‘ دبئی‘ ابو ظہبی کے ایئر پورٹوں کے مقابلے میں بسوں کا اڈہ لگتا ہے!! اس لیے کہ ایسے تمام منصوبوں میں شفافیت نہیں ہوتی! خدا کے بندو! اصل انفرا سٹرکچر قانون کی حکمرانی ہے! اصل انفرا سٹرکچر پولیس کی خوداعتمادی ہے۔اصل انفرا سٹرکچر وہ سلوک ہے جو چین میں کِک بیک لینے والوں کے ساتھ کیا جاتا ہے!ورنہ ہر چیز ناقص ہو گی۔ پُل گر جائیں گے! شاہراہیں ہمیشہ مرمت ہوتی رہیں گی۔ یہی یہاں ہو رہا ہے! پچاس سال سے جی ٹی روڈ ایک مثالی شاہراہ نہیں بن سکی! کچھ عرصہ پہلے پنڈی بھٹیاں سے چنیوٹ جانا ہوا۔ گاڑی کا اور اپنا بھی انجر پنجر ہِل گیا۔ فتح جنگ سے کھوڑ یا پنڈی گھیب جائیں تو رونا آتا ہے۔ رشوت دیمک ہے۔ سفارش کینسر ہے! بیورو کریسی کے کام میں سیاسی مداخلت ناسور ہے۔ کون سی عمارت ہے جو دیمک کے ساتھ سلامت رہ سکتی ہے! کون بہادر ہے جو کینسر اور ناسور کے ساتھ زندہ رہ جائے؟ ہم سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ ملک کو نیچے‘ نیچے‘ اور نیچے جاتا دیکھ رہے ہیں اور فکر ہے نہ تشویش!! ہزار الیکشن کراتے رہیے! سول سپری میسی کے نعرے لگاتے رہیے! جب تک تھانوں اور کچہریوں میں رشوت‘ سفارش اور سیاسی دباؤ موجود ہے‘ ملک ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھے گا!! 
بیورو کریسی کے اوپر جو سیاستدان بیٹھے ہیں اور حکمرانی کرتے ہیں ان کا مائنڈ سیٹ کیا ہے ؟ ان میں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ کتنے ہیں؟ جو ہر نئی ششماہی پر پارٹیاں بدل لیں‘ ان کا Visionکیا ہو گا ؟ ان کے نزدیک تو بیورو کریسی کا ایک ہی استعمال ہے کہ جو سفارشی چِٹ وہ جیب سے نکال کر بیوروکریٹ کو دیں‘ وہ اس پرعمل کرے یا کروائے! اس چٹ پر مجرم کا نام ہوتا ہے جسے رہا کرنا چاہیے یا کسی نالائق کا نام ہوتا ہے جسے دوسروں کا حق مار کر ملازمت دی جائے! اس سے آگے یہ لوگ سوچ ہی نہیں سکتے!!

Tuesday, December 05, 2023

ہم ابھی جوتے ڈھونڈ رہے ہیں


میرے دوست نے جاپان کی مثال دی ہے۔ کئی افراد نے کوریا کی ترقی کا ذکر کیا ہے جس نے پانچ سالہ اقتصادی منصوبہ پاکستان ہی سے لیا تھا۔میں نے خود بارہا سنگاپور کو ماڈل کے طور پر پیش کیا ہے۔ چار چار بالشت کے تھائی جس طرح صرف ایئر پورٹ سے روزانہ کروڑوں کمارہے ہیں‘ حیرت ہوتی ہے! یو اے ای اس وقت پورے کرۂ ارض پر سیاحت اور کاروبار کا مرکز اور مالیات کا محور ہے۔ کیا تھا یو اے ای؟ ریگستان! جس میں خاردار جھاڑیوں‘ ریت کے ٹیلوں‘ اونٹوں اور بکریوں کے سوا کچھ نہ تھا! پاکستان جہاں تھا‘ وہاں بھی اب نہیں! رجعتِ قہقری کا عبرتناک نمونہ ہے!
ہم جاپان کیوں نہیں بنے؟ سنگا پور‘ کوریا‘ تھائی لینڈ‘ یو اے ای‘ سب ہمارے لیے خوابوں کی دنیا کیوں ہیں ؟ کیا اس لیے کہ کوریا‘ تھائی لینڈ‘ سنگا پور اور یو اے ای کی بغل میں کوئی افغانستان نہیں؟ مگر پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں یہی افغانستان ہمارا پڑوسی تھا! ہماری صنعتی ترقی رواں دواں تھی۔ ہماری ایئر لائن کا شُہرہ تھا۔ ہم نے ڈیم بنائے تھے۔ دنیا میں ہماری عزت تھی ! تو کیا اس لیے کہ کوریا‘ سنگاپور اور یو اے ای میں کوئی مردِ مومن مردِ حق نہیں آیا؟ جس نے افغانستان کی منشیات اور اسلحہ سے اس ملک کو بھر دیا۔ جس نے اپنے ہی ملک کی سرحدیں ملیا میٹ کر دیں۔ ویزا کے بغیر لاکھوں جنگجو لا کر آباد کیے۔ افغانستان کے نام پر امداد لی اور ایسی امداد کہ اپنے پیٹی بند بھائیوں کی ذریت کو بھی نہال کر دیا! 
تو کیا اس لیے کہ کوریا‘ سنگاپور‘ تھائی لینڈ اور یو اے ای نے اپنے آپ کو مذہبی انارکی سے بچایا؟کوئی مذہبی جماعت عقیدے کی بنیاد پر ان ملکوں میں سیاسی پارٹی نہیں بنا سکتی! نہ دھرنا دے کر حکومت اور عوام کو ناکوں چنے چبوا سکتی ہے۔یواے ای میں نوے‘ پچانوے فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے۔ مگر مذہب کا ریاست کے کاموں میں کوئی عمل دخل ہے نہ بلیک میلنگ!! ایک بار ایک مذہبی تنظیم نے‘ جس کا مرکز لاہور میں تھا‘ ایک اجلاس منعقد کیا تھا‘ اُسی دن اجلاس منعقد کرنے والوں کو جہازمیں بٹھا کر یو اے ای سے نکال دیا گیا تھا کہ یہ کام جا کر اپنے ملک میں کرو! ان ملکوں میں کوئی قراردادِ مقاصد نہیں لائی گئی جس کے بعد تمام جوگندر ناتھ منڈل ملک چھوڑ گئے! تو کیا اس لیے کہ پاکستان میں وہ تمام گیلانی اور قریشی آج بھی حکمران ہیں جو انگریزوں کی خدمت اور اپنوں سے غداری کے صلے میں جاگیروں سے نوازے گئے تھے؟ بھارت نے جاگیرداری کو ختم کر دیا۔ زرعی اصلاحات کیں اور ان اصلاحات کے نفاذ میں کوئی فریب کاری نہیں کی! پاکستان میں کروڑوں مزارع اور ہاری‘ اور ان کی عورتیں‘ اپنی مرضی سے ووٹ نہیں ڈال سکتیں! تعلیم ان پر حرام ہے! غربت سے چھٹکارا پانا نا ممکن ہے۔ حکم عدولی کریں تو وڈیرے خونخوار کتوں کے آگے ڈال دیتے ہیں!!
تو کیا اس لیے کہ ان ملکوں میں پولیس اور بیورو کریسی سیاست زدہ نہیں؟ کوئی بھی ملک ہو‘ اصل میں پولیس اور بیوروکریسی ہی ملک کو چلاتی ہے۔پاکستان میں پولیس بڑے لوگوں کی کنیز ہے اور چھوٹے لوگوں کے لیے آسمانی قہر ! بیورو کریسی کو بے بس کر دیاگیا ہے اس لیے کہ آئین کی طرف سے ان کے سر پر جو چھتری تنی ہوئی تھی‘ وہ ہٹا دی گئی۔ حکمرانوں کی غیر مشروط اطاعت نہ کرنے والے بیوروکریٹ منظر سے ہٹا کر کونوں کھدروں میں پھینک دیے جاتے ہیں۔یوں جی حضوریے افسر اس خلا کو پُر کرتے ہیں۔ بے بس پولیس اور مفاد پرست افسر شاہی نے ملک کو آگے بڑھنے ہی نہیں دیا۔ تو کیا اس لیے کہ جاپان اور ان دوسرے ملکوں کے حکمران ہمارے حکمرانوں کی طرح لالچی اور کئی نسلوں سے بھوکے نہیں تھے ؟ خریدو فروخت میں کِک بیکس! بینکوں سے قرضے جو کبھی واپس نہ کیے گئے ! دبئی‘ لندن اور امریکہ میں جائدادیں ! ایک دن ملک میں تو چار ہفتے یورپ میں! وہ ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے جس کے حکمران دولت کے سمندر میں تیر رہے ہوں اور جس کے عوام پانی‘ بجلی‘ گیس‘ تعلیم اور ہسپتالوں سے محروم ہوں؟ جس کے حکمران‘ بشمول سب سیاستدان‘ اپنا علاج بیرون ملک سے کراتے ہوں! 
تو کیا اس لیے کہ ان ملکوں میں کوئی اچکزئی‘ کوئی جتوئی‘ کوئی کانجو‘ دوسروں کو مار کر‘ دوسروں کو روند کر‘ دوسروں کو کچل کر‘ جیل سے رہا نہیں ہو سکتا ۔ وہاں کسی کو قتل کرنے کے بعد کوئی ظاہر شاہ زندہ نہیں بچتا۔ اور کسی کو شک ہو تو لکھ لے کہ یہ جس لڑکے نے چھ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے‘ یہ بھی چھوٹ جائے گا۔جس نے اسلام آباد میں چار انسانوں کو مار دیا تھا اسے کیا سزا ملی ؟ ہماری عدلیہ کی عالمی رینکنگ میں کیا پوزیشن ہے ؟ تو کیا اس لیے کہ ان ملکوں میں کوئی پسِ پردہ رہنے والی طاقت سیاستدانوں کو نیچے سے اوپر اور اوپر سے نیچے نہیں لاتی؟ حکومتیں ان ملکوں میں آزاد ہیں! ہدایات لیتی ہیں تو صرف پارلیمنٹ سے! یو اے ای میں پارلیمنٹ نہیں ہے مگر جو فیصلہ ساز ہیں‘ وہ فیصلہ سازی بنفسِ نفیس خود کرتے ہیں! 
کیا ستم ظریفی ہے کہ ہم ان ملکوں کی مثالیں دیں جن کی گرد کو بھی ہم نہیں پہنچ سکتے؟ ہم سب‘ میرے سمیت خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں ! ہمارے افلاس کا یہ عالم ہے کہ اتنی بڑی پارٹی میں ایک ہی شخص ہے جو پہلی بار بھی وزیراعظم بنتا ہے‘ دوسری بار بھی‘ تیسری بار بھی اور چوتھی بار بھی! ہم ذہنی طور پر اس قدر قلاش ہیں کہ ہمیں اپنے بیٹے کے علاوہ کوئی شخص وزیر اعظم ہوتا نظر ہی نہیں آتا! ہم اس قدر بدھو ہیں کہ سینکڑوں وعدے کرکے اقتدار میں آتے ہیں تو پورے ملک کو جادو ٹونے کی آگ میں جھونک دیتے ہیں یہاں تک کہ بیورو کریٹس کی تعیناتیاں ان کی تصویروں کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ کیا ایسے ملک جاپان‘ کوریا‘ سنگا پور‘ تھائی لینڈ‘ تائیوان یا یو اے ای بن سکتے ہیں؟ موجودہ اہلِ سیاست کے ساتھ قیامت تک نہیں بن سکتے! خواب جھوٹے خواب میرے خواب تیرے خواب بھی !!
لکھنؤ میں ایک نواب کے ہاں دعوت تھی۔ ایک سکھ سردار صاحب بھی مدعو تھے! اتفاق سے دسترخوان پر دہی نہیں تھا۔ نواب صاحب نے ملازم کو دہی لینے بھیجا۔ جیسے ہی وہ نکلا‘ نواب صاحب نے کہنا شروع کر دیا: اب اس نے جوتے پہنے ہیں۔ اب یہ دالان میں پہنچا ہے۔ اب یہ حویلی سے نکلا ہے۔ اب یہ گلی میں چل رہا ہے! اب یہ گلی کے موڑ پر ہے۔ اب یہ بازار میں داخل ہوا۔ اب یہ یہ بائیں طرف مُڑا۔ اب یہ دہی کی دکان پر پہنچا۔ اب اس نے دہی لے لیا۔ اب یہ واپس چل پڑا ہے۔ اب بازار سے نکلا ہے۔ اب گلی کا موڑ مُڑا ہے۔ اب حویلی میں داخل ہوا۔ ا ب دالان عبور کیا۔ اب کمرے کے باہر ہے۔ اب جوتے اتار رہا ہے۔ اور پھر جیسے ہی نواب صاحب نے کہا کہ '' یہ اندر آگیا ‘‘ تو ملازم دہی ہاتھ میں لیے‘ اندر داخل ہو گیا۔ سردار صاحب بہت متاثر ہوئے۔ گھر واپس آئے تو انہوں نے بھی احباب کو دعوت پر بلایا۔ دعوت کے درمیان ملازم کو دہی لینے بھیجا۔ پھر اسی طرح کمنٹری شروع کی جیسے نواب صاحب نے کی تھی۔ اب اس نے جوتے پہنے ہیں۔ اب یہ دالان میں پہنچا ہے۔ اب یہ حویلی سے نکلا ہے۔ اب یہ گلی میں داخل ہوا۔ ا ب دالان عبور کیا وغیرہ۔ آخر میں جب کہا کہ یہ اندر داخل ہو گیا تو کوئی بھی اندر نہ آیا۔ آواز دی تو ملازم نے کہا کہ حضور میں تو ابھی گیا ہی نہیں! ابھی تو میں جوتے ڈھونڈ رہا ہوں! تو جناب! ہم نے کوریا اور یو اے ای کیا بننا ہے ! ہم تو ابھی جوتے ڈھونڈ رہے ہیں!

Monday, December 04, 2023

نوجوان افسر کی خود کُشی

اعلی  عہدے پر فائز ایک نوجوان افسر نے خود کشی کر لی۔سوشل میڈیا پر یہ خبر ٹاپ ٹرینڈ بنی رہی۔ بہت تجزیے ہوئے۔ جتنے منہ اتنی باتیں! اس خاص واقعہ کے پیچھے کیا عوامل کار فرما ر ہے ؟ اس میں ازدواجی معاملات نے کیا اور کتنا کردار ادا کیا؟ اس ضمن میں کوئی کارآمد اور ٹھوس تجزیہ تاحال سامنے نہیں آیا۔ ہاں! افسر کی اہلیہ کے حوالے سے '' سابق اہلیہ ‘‘ کا لفظ پڑھنے میں ضرور آیا جو مبینہ طور پر اچھے منصب پر فائز ہیں۔ 

ماضی قریب میں اعلیٰ افسروں کی جس تعداد نے خود کشی کی ہے وہ تعداد تشویشناک ہے۔ اس حوالے سے کوئی سٹڈی تاحال نہیں ہوئی کہ عوامل کیا ہیں۔ کسی سنجیدہ سٹڈی کا امکان بھی نہیں۔ ہمارے ہاں اس کا رواج ہی نہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس افسر کا خاندانی اور معاشرتی حدوداربعہ کیا تھا۔ اور ازدواج کے پہلو کا اس سانحہ میں کتنا عمل دخل ہے۔ بہر طور میں اپنے ایک قریبی دوست کا ‘ جو کلاس فیلو بھی تھا‘ احوال قارئین کے ساتھ شیئر کرتا ہو ں۔اس نے بھی اعلیٰ منصب پر پہنچ کر اپنی زندگی اپنے ہاتھوں سے ختم کی۔ یہ بتانا مناسب نہیں کہ وہ کس شہر یا کس سکول یا کالج یا یونیورسٹی میں میرا ہم جماعت تھا یا کس سروس میں تھا یا کس منصب پر تھا۔ اس لیے کہ پردہ پوشی ضروری ہے۔ہو سکتا ہے کچھ قریبی دوست اس تحریر کے بعد اس کی شناخت تک پہنچ جائیں۔ ایسا ہوا بھی تو ان کی تعداد تین چار سے زیادہ شاید نہ ہو! 
وہ ایک بہت غریب گھرانے سے تھا۔ ایک گنجان محلے میں پرانی وضع کا گھر تھا۔ صحن اور دو یا تین کمرے۔ تھا بہت لائق! بہت ذہین۔ ہم کبھی کبھی اس کے گھر جاتے۔ جو پکا ہوتا خوشی سے کھاتے۔ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ وہ شام کو ملازمت بھی کرتا رہا۔ اس سے وہ اپنی تعلیم کے اخراجات بھی پورے کرتا اور گھر والوں کی مالی مدد بھی کرتا۔ ایم اے تک کی تعلیم اسی محنت اور اسی مشقت کے ساتھ حاصل کی۔ پھر مقابلے کا امتحان دیا۔ کامیابی نے قدم چومے۔ ایسی سروس یعنی سروس گروپ ملا جس کی حسرت امرا کے بچے بھی کرتے ہیں مگر ناکام رہتے ہیں۔ پھر شادی کا مرحلہ آیا اور اس سے وہی غلطی ہوئی جو نہ صرف لوئر یا مڈل کلاس سے ہوتی ہے بلکہ طبقۂ بالا کے افراد سے بھی ہوتی ہے اور پھر اس غلطی کی قیمت ادا کرنا ہوتی ہے۔ اس قیمت کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں۔کبھی یہ غلطی سکون چھین لیتی ہے۔ کبھی ازدواجی زندگی شکست و ریخت کا شکار ہو جاتی ہے۔ کبھی خون کے رشتے چھوٹ جاتے ہیں۔ کبھی کیرئیر زخمی ہو جاتا ہے۔ اور کبھی اپنے جسم و جان کا تعلق اپنے ہی ہاتھوں سے ختم کرنا پڑتا ہے۔ 
یہ جو کہا گیا ہے کہ شادی اپنے کُفو میں کرو تو اس کا آخر کیا مطلب ہے؟ لوگ سمجھتے ہیں کہ شادی اپنے قبیلے‘ اپنی ذات‘ اور اپنی برادری میں کرنے کا مطلب کُفو ہے! لیکن اگر اپنی ذات اور اپنی برادری کا گھرانہ بہت زیادہ امیر ہے یا بہت زیادہ غریب ہے تو کیا وہ کُفو ہے ؟ نہیں! ہر گز نہیں ! کُفو سے م راد مالی ہم آہنگی اور سماجی مناسبت( 
Compatibility ) 
بھی ہے۔ اور ہم آہنگی اور مناسبت تو ایک باپ کے دو بیٹوں میں بھی مفقود ہو سکتی ہے۔ ہمارے قصبے میں دو سگے بھائی تھے۔ ایک کا معاش یہ تھا کہ وہ گدھے پر ریت ڈھوتا تھا۔ اسے سب لوگ''فضل ریت والا ‘‘ کہتے تھے۔ دوسرا بھائی ایک ہائی سکول میں ہیڈ ماسٹر کے عہدے پر فائز تھا۔ دونوں گھرانوں کی نہ صرف مالی حیثیت میں فرق تھا بلکہ رہنا سہنا‘ سوشل سرکل‘ تعلیمی معیار‘ نفسیات ‘ سب کچھ مختلف تھا۔ دونوں گھرانوں کے بچے اپنے اپنے ماحول میں پلے بڑھے تھے اور یہ ماحول یکسر مختلف تھے۔ اپنے سے بہت اوپر اور اپنے سے بہت نیچے ‘ دونوں فرق ہی مہلک ہیں! ہمارے اس دوست نے بہت اوپر کے گھرانے سے شادی کر لی۔ بہت بڑے لوگ تھے۔ لڑکے کو تو لڑکی نے قبول کر لیا اور پسند بھی مگر وہ لڑکے کے ماں باپ کو‘ لڑکے کے گھر کو ‘ لڑکے کے بھائی بہنوں کو قبول نہ کر سکی۔ سماجی فرق بھی بہت زیادہ تھا اور لڑکی بھی پہاڑ سے نہ اُتر سکی! یہاں تک کہ تعطیلات میں بچے دادا دادی کو مل سکتے نہ ہی ان کے پاس رہ سکتے ! لڑکے کی زندگی میں زہر سرایت کر گیا۔ وہ اندر ہی اندر گھُلتا رہا۔ پہلے تو کیرئیر میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی۔ وہ اپنے ہم چشموں سے پیچھے رہ گیا۔ آخر میں اُس نے خود کشی کر لی! 
بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ بڑے گھر کی لڑکی چھوٹے گھر میں اور چھوٹے گھر کی لڑکی بڑے گھر میں ایڈجسٹ ہو جائے۔ اور جو شاذ ہوتا ہے وہ معدوم ہوتا ہے۔ یعنی مستثنیات سے اصول نہیں بنتے نہ ہی تعمیم 
(generalisation ) 
ہو سکتی ہے! ملازمت پیشہ خاندانوں اور کاروباری خاندانوں کے درمیان جو فرق ہوتا ہے اسی پر غور کر لیجیے۔ دونوں کی نفسیات میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ کھانا پینا ‘ لباس ‘ عادات ‘مزاج‘ رجحانات ‘ سب کچھ الگ ہے۔ کروڑ پتی تاجر انکم ٹیکس کے دفاتر میں ادنیٰ لباسوں میں دیکھے ہیں ! بکرا قصاب سے سالم خریدیں گے! ملازم پیشہ لوگوں کی نفسیات یہ نہیں! ان دونوں گروہوں کے درمیان ہونے والی شادیاں کم ہی کامیاب ہوتی ہیں۔ عسکری خاندانوں نے اس نکتے کو خوب سمجھا ہے۔ ان کی شادیاں زیادہ تر آپس ہی میں یعنی عسکری خاندانوں ہی میں ہوتی ہیں۔ لڑکی اور لڑکے کو اپنے اپنے سسرال میں وہی ماحول ملتا ہے جو اس کے اپنے گھر کا ہو تا ہے۔ 
غریب گھر کا لڑکا جب اعلیٰ افسر بنتا ہے تو وہ دو وجوہ کی بنا پر اپنے سے اوپر والوں کے ہاں شادی کا بندھن باندھتا ہے! کچھ تو مال و دولت کی لالچ میں کسی بڑے گھر میں ازدواجی نقب لگاتے ہیں! ہمارے ساتھ کے ایک دو افسروں نے بھی سیٹھوں کے گھرانوں میں شادیاں کیں! اگر زندگی میں ترجیح پیسہ اور صرف پیسہ ہو تو انسان بہت کچھ مرضی سے اور خوشی سے قربان کر دیتا ہے! ایسا لالچی شخص بیوی سے اپنی عزت نہیں کرا سکتا تو اپنے ماں باپ کی اور خاندان کی کیسے کرا سکتا ہے! دوسری وجہ ''پھنسنے ‘‘ کی یہ ہے کہ کچھ شِکرے ‘ کچھ شکاری ‘ کنوارے افسروں کی تاک میں رہتے ہیں! ایک تو ان کے خیال میں بیٹی کا مستقبل محفوظ ہوجاتا ہے۔ دوسرا‘ افسر کی وجہ سے ان کے خاندانی وقار اور اثر و رسوخ میں اضافہ ہوتا ہے اور اگر بزنس ہے تو اس کے مشکل مقامات میں بھی دستگیری ہو جاتی ہے۔ پنجاب کے ایک بڑے شہر کی ایک مخصوص برادری کا سول سروس میں بڑا مؤثر نیٹ ورک ہے! یہ لوگ بھی نوجوان کنوارے افسروں سے رشتہ داریاں گانٹھتے ہیں۔ ان کے پھینکے ہوئے جال سے اور ان کی لگائی ہوئی کَڑْکّی سے بچنا بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ ایسے مؤثر نیٹ ورک کا حصہ بننا نوجوان افسر کے کیرئیر کے لیے بھی مہمیز ثابت ہوتا ہے!! 
جہیز کی لعنت بھی بے سروپا اور غیر متوازن شادیوں میں اپنا کردار ادا کرتی ہے! بہت عرصہ پہلے کراچی گیا تو ایک افسر دوست سے ملنے اس کی قیام گاہ پر گیا! وہ گھر میں اکیلا تھا۔ بیگم صاحبہ مصوّری کی نمائش دیکھنے گئی ہوئی تھیں! ڈرائنگ روم کیا تھا شیشہ گھر تھا۔ انتہائی قیمتی اور دیدہ زیب فرنیچر ! بے تکلفی تو تھی ہی ‘ میں صوفے پر بیٹھا تو کہنے لگا: یار اس پر نہ بیٹھو‘ بیوی نے منع کیا ہوا ہے‘ چنانچہ میں اُس صوفے پر بیٹھا جو اس نے تجویز کیا۔ یہ دوست بھی جلد ہی دنیا سے رخصت ہو گیا۔ موت کی وجہ خود کشی بتائی گئی! بعد میں یہ سنا کہ کسی اپنے نے گولی مار دی تھی !! ہمارے استاد پروفیسر کرم حیدری مرحوم نے خوب کہا ہے 
خود جلائی آ گ اپنے سر پہ ہم نے کیوں کرمؔ
دوسروں کو دیکھتے ‘ انجام اپنا جانتے

 

powered by worldwanders.com