سیاست کے لیے مذہب کا استعمال شروع تو قائد اعظم کی وفات کے فوراً بعد ہو گیا تھا مگر جس طرح مذہب کو عمران خان اور ان کی جماعت نے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا اس کی مثال شاید ہی حالیہ تاریخ میں ملتی ہو۔ عمران خان کے ایک قریبی ساتھی نے جس طرح ان کی تقریر کے عین درمیان‘ مداخلت کر کے‘ اسلامی ٹچ دینے کی ہدایت دی ‘ اس کے بعد ان حضرات کا خلوصِ نیت اس ضمن میں عیاں ہو گیا مگر شاید کاتبِ تقدیر نے مکمل برہنگی کی ساعت ابھی نہیں لکھی اور مقلّب القلوب نے دلوں کو پھیرنے کا فیصلہ ابھی نہیں کیا۔خان صاحب اپنی تقریروں میں شرک سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔ دوسری طرف غیر اللہ کی چوکھٹ پر سجدہ کناں بھی ہوتے ہیں۔�سب سے زیادہ جو نعرہ لگا وہ ریاستِ مدینہ کا ہے۔اور اس بے دردی سے لگا اور اس کثرت اور تواتر سے لگا کہ الامان و الحفیظ! رسالت مآبﷺ اور ان کے بعد خلفاء راشدین نے جس طرح کی زندگیاں گزاریں اس کا تصور کرنا بھی محال ہے۔ بیت المال سے کچھ لیا بھی تو قُوت لا یموت کے برابر! یعنی اس قدر کہ بس گزارہ تنگی سے ہوتا رہے۔ اس سلسلے میں بہت سی مثالیں ہیں جو ‘ کم و بیش‘ ہر مسلمان کے علم میں ہیں۔ حضرت عمر فاروقؓ نے زمانۂ قحط میں گھی کا استعمال ترک کر دیا۔بیت المال کا ایک اونٹ بھاگ گیا تو اسے خود تلاش کرتے رہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ عید کے دن جَو کی روٹی تناول فرما رہے تھے۔ جبھی اقبال نے کہا ہے ؎�تری خاک میں ہے اگر شرر تو خیال فقر و غنا نہ کر�کہ جہاں میں نان شعیر پر ہے مدارِ قوّتِ حیدری�شعیر کا معنی جَو ہے۔خان صاحب نے بطورِ وزیر اعظم جس بے دردی سے سرکاری ہیلی کاپٹر کا استعمال کیا اس کی شاید ہی کہیں کوئی مثال ملے۔ وہ ہر روز دفتر آنے کے لیے اور واپس بنی گالہ جانے کے لیے فضائی راستہ اختیار کرتے رہے جیسے زمین اور اہلِ زمین سے انہیں کوئی سروکار نہ تھا۔ اس طرز عمل کے ساتھ جب وہ ہر تقریر میں ریاستِ مدینہ کا ذکر زور و شور سے اور شد و مد سے کرتے تو ہنسی بھی آتی اور عوام کی سادہ لوحی پر ترس بھی آتا۔ جب حکمران زمین سے اپنا رشتہ توڑ لے تو اسے زمین اور اہل زمین کی خبر نہیں رہتی۔ حکومت چلے جانے کے بعد خان صاحب مئی میں‘ جلسے سے خطاب کرنے کے لیے ‘ سیالکوٹ گئے تو سواری کے لیے چارٹرڈ ہوائی جہاز کا انتخاب کیا۔ اگر وہ زمینی راستے سے جاتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ وزیر آباد سے سیالکوٹ تک کی سڑک کا عملاً وجود ہی نہیں۔ جہاں کسی زمانے میں سڑک تھی وہاں اب گڑھے ہیں اور سڑک کے نشانات۔سڑک کے دونوں طرف پانی کھڑا رہتا ہے۔ یعنی دونوں طرف جو دکانیں ہیں ‘ ان دکانوں اور سڑک کے درمیان پانی ہی پانی ہے۔اب بھی اگر خان صاحب اپنی پنجاب حکومت سے یہ سڑک بنوا دیں تو وزیر آباد‘ سمبڑیال اور سیالکوٹ کے مکین ‘ اور اسلام آباد سے سیالکوٹ جانے والے مسافر ان کے گرویدہ ہو جائیں۔�تین چار دن پہلے روزنامہ دنیا نے خیبر پختونخوا کے سرکاری ہیلی کاپٹر کے حوالے سے جو خبر شائع کی ہے وہ ہوشربا بھی ہے اور عبرت ناک بھی۔ عمران خان صاحب نے خیبر پختونخوا کے ہیلی کاپٹر کو غیر معمولی طور پر 137بار استعمال کیا۔ وہ سات کروڑ روپے سے زائد کے نادہندہ ہیں۔ جہانگیر ترین نے تین بار ہیلی کاپٹر استعمال کیا۔ خان صاحب کی سابق اہلیہ ریحام خان نے دو بار ‘ شاہ فرمان نے بتیس بار ‘ شوکت یوسفزئی نے نو باراور سکندر حیات شیر پاؤ نے سات بار سرکاری ہیلی کاپٹر کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ امین اسلم نے دس بار‘ افتخار درانی نے نو بار‘ زلفی بخاری نے سات بار اور شفقت محمود نے دو بار استعمال کیا۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں مجموعی طور پر ایک سو اٹھائیس افراد کے ناموں سے آگاہ کیا گیا۔مجموعی طور پر غیر مجاز افراد نے خیبر پختونخوا کے سرکاری ہیلی کاپٹر کو 577بار استعمال کیا۔ گورنمنٹ ریٹ کے مطابق پانچ ارب آٹھ کروڑ پچھتر لاکھ روپے سے زائد کا نقصان قومی خزانے کو پہنچایا گیا۔ عام کمرشل حساب سے یہ رقم چھ ارب تین کروڑ سے زیادہ بنتی ہے۔�کیا ریاستِ مدینہ میں بیت المال کے گھوڑے اور اونٹ سواری کے لیے خلفاء راشدین اور ان کے ساتھیوں کے استعمال میں ہوتے تھے؟ یہاں کسی حکومت نے بھی سرکاری خزانے پر رحم نہیں کیا۔ آپ بھی جو مرضی ہے کیجیے مگر خدا کے لیے اقتدار کی خاطر مقدس اصطلاحات کو تو استعمال نہ کیجیے۔ ان کی بے حرمتی تو نہ کیجیے۔ ناصر کاظمی کا ایک شعر یاد آگیا؎�مانو مری کاظمی‘ تم ہو بھلے آدمی�پھر وہی آوارگی‘ کچھ تو حیا چاہیے�ایک گھر تو ڈائن بھی چھوڑ دیتی ہے۔ آپ کم از کم مذہب کو تو معاف کر دیتے۔ایک واعظ صاحب بھی تشہیر کر رہے ہیں کہ کسی نے اس سے پہلے ریاستِ مدینہ کی بات نہیں کی اس لیے خان صاحب کا ساتھ دینا چاہیے۔ مگر جب ان سے ٹیلی ویژن پر‘ پوچھا گیا کہ کون کون سے کام خان صاحب کے عہدِ حکومت کے دوران ریاستِ مدینہ کے حوالے سے کیے گئے تو کمال سادگی اور بے پناہ معصومیت سے جواب دیا کہ میں کیا ان کے ساتھ ہوتا ہوں ؟ جیسے آپ پاکستان میں نہیں رہتے!‘ جب ایک دعویٰ کی بنیاد پر ساتھ دینے کا اعلان کیا تو پھر فرض بنتا ہے کہ جائزہ بھی لیجیے کہ دعوے کو عملی جامہ پہنانے کیے کیا کچھ کیا جارہا ہے؟ افسوس ! ساری زندگی کی تبلیغی جدو جہد ‘سیاسی دھڑے بندی کی اور پارٹی بازی کی نذر ہو گئی۔ شبلی نعمانی نے کہا تھا�ہست چل سال کہ بیہودہ نگہ داشتمش�گر نہ بر سنگ زنم شیشۂ تقویٰ چہ کنم�چالیس سال ہوئے کہ خواہ مخواہ ہی تقوے کی دیکھ بھال کرتا رہا‘ اب بھی اگر تقوے کے شیشے پر پتھر نہ ماروں تو کیا کروں۔�مایۂ تقویٰ سی سالہ فراہم شدہ است�ارمغانش بہ نگارے بدہم یا چہ کنم�تیس سالہ تقوے کا مایہ فراہم ہو گیا ہے‘ اسے محبوب کو ہدیہ کر دوں یا کیا کروں؟�جب ان چیرہ دستیوں کا ذکر کیا جاتا ہے ‘ وہ بھی خلوص اور دلسوزی کے ساتھ‘ تو اکثر احبّا جواب میں یہ کہتے ہیں کہ شریفوں اور زرداریوں نے بھی تو یہ یہ کچھ کیا ہوا ہے! تو پھر۔ آپ کا معیار ‘ آپ کا پیمانہ ‘ کیا شریفوں اور زرداریوں کے کارنامے ہیں؟ ہم اور ہزاروں لاکھوں لوگ ان دو خاندانوں اور ان کی حکومتوں سے مایوس ہو کر ہی تو آپ کے جھنڈے تلے آئے تھے ! آپ اپنے غلط کاموں کا جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ ہم نے یوں کیا ہے تو کیا ہوا! انہوں نے تو بھی یہ یہ کیا ہے! یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہمیں تو صرف ساڑھے تین سال ملے ہیں۔ تو ساڑھے تین سال میں آپ نے ٹریلر تو چلا دیا۔ اصل فلم لمبی بھی ہوئی تو ظاہر ہے ایسی ہی ہو گی۔ ہمارے علاقے میں ایک محاورہ ہے کہ جو یہاں' بھَیڑے‘ ہیں وہ لاہور پہنچ جائیں تو وہاں بھی' بھَیڑے‘ ہی رہیں گے۔ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔لیاقت کا شروع ہی میں پتہ چل جاتا ہے۔پوت کے پاؤں پالنے ہی میں نظر آجاتے ہیں۔ گجر خاندان کو ساڑھے تین سال سے زیادہ کتنا عرصہ درکار تھا ؟
بشکریہ روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment