Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, May 31, 2022

آہ ! ایک ازبک ادیب ! جو پاکستان کا عاشق تھا


دادا خان نوری کا اصرار تھا کہ وہ ازبک پلاؤ ہسپتال کے اُس کمرے میں پکائیں گے جس میں میں داخل تھا!
یہ ستائیس‘اٹھائیس سال پہلے کی بات ہے! میں بیمار ہو کر اسلام آباد کے ایک ہسپتال میں پڑا تھا۔ میرے گہرے دوست‘ معروف ازبک ادیب‘ دادا خان نوری نے‘ جو ازبک یونین آف جرنلسٹس کے صدر بھی تھے‘ میری علالت کی خبر سنی تو جہاز میں بیٹھے اور اسلام آباد پہنچ گئے۔ مگر وہ اکیلے نہ تھے۔ ازبک پلاؤ پکانے کا پورا سامان بھی جہاز میں ان کے ساتھ آیا تھا۔ اس سامان میں ایک بڑا برتن بھی شامل تھا جسے کازان کہتے ہیں اور جس میں یہ لوگ پلاؤ پکاتے ہیں! چاول‘ پیاز‘ گاجریں‘ ضروری مسالے‘ ہر چیز وہ ساتھ لائے تھے سوائے گوشت کے۔ وہ عام گوشت لینے کے لیے تیار نہ تھے۔ ازبکستان کے سفیر کو ساتھ لیا اور جہاں سے سفیر صاحب دنبے کا گوشت خریدا کرتے تھے‘ وہیں سے خریدا۔ اسے ازبکوں کا خیال کہہ لیجیے یا عقیدہ کہ ازبک پلاؤ کھانے سے بیمار شفا یاب ہو جاتا ہے۔ ان کا ارادہ ہسپتال کے کمرے میں پلاؤ پکانے کا تھا۔جب یہ ممکن نہ ہوا تو ہمارے کچن میں پکایا۔ میری بیگم کو کچن میں آنے سے منع کر دیا۔ خود پکایا۔ پھر مجھے کھلایا!
1992ء میں جب وسط ایشیائی ریاستیں اشتراکیت کے چنگل سے رہا ہوئیں تو سب سے پہلے وہاں پہنچنے والوں میں مَیں بھی شامل تھا۔ معروف صحافی مختار حسن مرحوم نے مجھے دادا خان کا ریفرنس دیا اور کہا کہ تاشقند جا کر ان سے رابطہ کرنا اور یہ کہ وہ پاکستان اور اہلِ پاکستان سے بہت محبت کرتے ہیں! تب سے لے کر ان کے انتقال تک‘ جس کی خبر چار دن پہلے ملی‘ دادا خان کے ساتھ دوستی رہی اور ایسی کہ میرا گھر ان کا گھر تھا اور تاشقند میں ان کا گھر اور ڈاچا میرے گھر تھے۔ وہ اردو بولتے تھے۔ اس لیے کہ تاشقند یونیورسٹی میں انہوں نے ہندی پڑھی تھی۔ اردو لکھ پڑھ نہ سکتے تھے مگر کمال یہ تھا کہ کئی سال ہندی کا طالب علم رہنے کے باوجود ان کا جھکاؤ مکمل طور پر پاکستان کی طرف تھا۔ تاشقند میں پاکستانی سفارت خانے کے قیام میں ان کی کوششیں بھی شامل تھیں! ان کے دروازے ہر پاکستانی کے لیے کھلے تھے۔ دل ان کا ہر وقت پاکستان آنے کے لیے تڑپتا تھا۔ جب بھی ان کے لیے ممکن ہوتا‘ آ جاتے! میرے غم کدے میں بارہا قیام کیا۔پاکستان پر کتاب لکھی جس کا بیشتر حصہ اسی غم کدے میں تحریر کیا۔ اس کتاب کا نام ''پاکستان‘ طلائی دیوار کے روزن سے‘‘ہے۔ ازبک سے اُردو میں اس کا ترجمہ ہمارے دوست شرف میرزا نے کیا جو تاشقند میں رہتے ہیں اور اُردو کے سکالر ہیں۔
روس کے زار نے تاشقند پر1865ء میں قبضہ کر لیا۔تین سال بعد سمرقند بھی ڈھیر ہو گیا۔ بخارا ایک الگ ریاست کی صورت میں‘ کچھ محکوم‘ کچھ آزاد‘1920ء تک سسکتا رہا۔ پھر سوویت ایمپائر کا حصہ بن گیا۔ پاکستان اور بھارت آزادہو ئے تو پاکستان جوں جوں امریکی کیمپ کا حصہ بنتا گیا‘ بھارت اور سوویت یونین کے تعلقات بڑھتے گئے۔ ان تعلقات کا اثر تھا کہ وسط ایشیائی ریاستوں پر بھارت چھا گیا۔ ہوٹل انڈسٹری‘ سنیما‘ تعمیراتی شعبہ‘ تعلیم‘ ہر شعبے میں بھارت کا وہاں عمل دخل تھا۔ تاشقند یونیورسٹی میں ہندی کے شعبے کا قیام اسی قربت کا شاخسانہ تھا۔ 1992ء میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھرا تو پاکستان کے لیے سنہری موقع تھا کہ ان ریاستوں کی مختلف شعبوں میں مدد کرے اور اپنا دائرہ ٔاثر بڑھائے۔ مگر پاکستان سویا رہا۔ کسی حکومت کا وژن اتنا نہیں تھا کہ اس سلسلے میں مؤثر اقدامات کرتی۔ حکیم سعید صاحب نے حکومت کی توجہ اس طرف دلائی۔اس فقیر نے بھی نقارخانے میں طوطی کی آواز اٹھائی۔ اُس وقت حاجی اکرم صاحب وفاق میں سیکرٹری اطلاعات تھے۔ ان کی خدمت میں عرض کیا کہ وسط ایشیا پاکستانی ڈراموں کی مارکیٹ بن سکتا ہے۔ مگر کچھ بھی نہ ہوا۔سفارت خانہ تاشقند میں کھلا تو بے نیازی ہی اس کی بھی شناخت تھی۔ ازبک حکومت نے جلال الدین خوارزم شاہ کی سات سوویں برسی پر ایک بین الاقوامی سیمینار کرایا۔ پاکستان سے معروف سکالر ڈاکٹر این اے بلوچ اور یہ کالم نگار مدعو کیے گئے۔ بھارتی وفد کی بھارتی سفارت خانے نے خوب آؤ بھگت کی۔ ہمیں اپنے سفارتخانے کا کوئی اہلکار تک پورے سیمینار کے دوران نظر نہ آیا۔ میں نے پاکستانی سفیر سے کہا کہ ازبک‘ جلال الدین خورازم شاہ ( جسے وہ جلال الدین منگو بیردی کہتے ہیں ) کے بارے میں بہت جذباتی ہیں۔ آپ نسیم حجازی کے ناول '' آخری چٹان‘‘ کا ازبک میں ترجمہ کرائیے اور اس کا عنوان جلال الدین منگو بیردی رکھیے۔ یہ کتاب ازبکستان میں ہِٹ ہو گی۔ مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!
پاکستان کی اس سردمہری پر دادا خان نوری کڑھتے تھے۔ وہ اس حقیقت پر رنجیدہ رہتے کہ بھارت کا وسط ایشیا میں اثر و رسوخ حد سے زیادہ بڑھ رہا تھا۔ پاکستان آکر وہ حکام سے ملتے اور ان کی اس طرف توجہ دلاتے۔ ازبک سفارت خانے پر بھی زور دیتے کہ پاکستانی سکالرز سے ربط بڑھایا جائے۔ ایک ملاقات میں‘ جس میں مَیں بھی موجود تھا‘ انہوں نے سرمد صہبائی صاحب کو بھی سفیر سے ملوایا۔ وہ چاہتے تھے کہ ثقافتی میدان میں دونوں ملکوں کے روابط آگے بڑھیں۔
ہمارے گھر میں وہ مہمان بن کر نہیں‘ خاندان کا حصہ بن کر قیام کرتے۔ہر ازبک کی طرح وہ بھی پانی نہیں پیتے تھے اور سارا دن چائے ( دودھ اور چینی کے بغیر) پیتے رہتے۔ اس کی سپلائی مسلسل جاری رہتی۔ شام کو ہماری سب سے چھوٹی بیٹی مرضیہ کو‘ جو تب پانچ چھ سال کی تھی‘ لے کر بازار چلے جاتے۔ اسے کھلاتے پلاتے۔ بچے ان کے قیام کے دوران بہت خوش رہتے۔ دادا خان پاکستانی اچار کے دلدادہ تھے اور اسے اس طرح کھاتے جیسے ہم سالن کھاتے ہیں۔ ایک دن صبح کی سیر سے واپس آئے تو ناراض لگ رہے تھے اور پریشان بھی۔ پوچھا کیا بات ہے؟ کہنے لگے: آپ پاکستانی حد درجہ سست لوگ ہیں۔ہر گھر کے ساتھ زمین موجود ہے اور بیکار پڑی ہے۔ سبزی اگائی جا رہی ہے نہ ثمردار درخت لگائے گئے ہیں۔ میں ہنسا اور جواب دیا کہ بس ہم تو ایسے ہی ہیں۔ ان کے ذہن میں ان کے اپنے ملک کا کلچر تھا۔ ہر گھر وہاں پھلوں کے حوالے سے خود کفیل ہوتا ہے۔ ایک بار میں اور اہلیہ ان کے ہاں قیام پذیر تھے تو سرما کے دن تھے۔سیبوں کا انبار‘ ریفریجریٹر کے بجائے باہر بالکونی میں رکھا تھا۔ صبح وہاں سے سیب لیتے۔ پھر اپنے ہاتھوں سے اخروٹ توڑتے۔ یہ سب ہمارے ناشتے کا حصہ ہوتا۔ تاشقند میں ایک محلے کا نام ہی سیب زار ہے۔ ایک چَغَتائی محلہ ہے جہاں کے تِکّے ( شش لیک ) ناقابلِ فراموش ہیں۔
جب بھی فون پر بات ہوتی‘ اصرار کرتے کہ ایک چکر لگا جاؤ۔ہم پروگرام بناتے۔ پھر کوئی غیبی سبب تاخیر کرا دیتا۔ چار دن پہلے فون کیا اور ان کے صاحبزادے رستم سے‘ حسبِ معمول‘ کہا کہ دادا خان سے بات کراؤ! وہ چپ ہو گیا۔ پھر بتایا کہ وہ ازبکستان کے ثمر زاروں کو چھوڑ کر جنت کے وسیع و عریض باغات میں منتقل ہو گئے ہیں! میرے تو وہ دوست تھے ہی‘ پاکستان بھی ایک مخلص دوست سے محروم ہو گیا ہے۔ ایک ایسے دوست سے‘ جو کسی تشہیر اور ستائش کی تمنا کے بغیر‘ پاکستان کے لیے کام کرتے رہتے تھے۔ سوچ رہا ہوں اب تاشقند جا کر کیا کروں گا! وہ جو مجسم پاکستان تھے‘ وہ تو چل بسے!۔ آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے!!

Monday, May 30, 2022

خدا نخواستہ یہ سلسلہ چل نکلا تو ؟؟


''جو مسلمان درخت لگائے یا فَصل بوئے‘پھر اس میں سے جو پرندہ یا اِنسان یا چوپایا کھائے تو وہ اس کی طرف سے صَدقہ شمار ہو گا۔ (صحیح بخاری)
''اگر قیامت کی گھڑی آجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں پودا ہے اور وہ اسے لگا سکتا ہے تو لگائے بغیر کھڑا نہ ہو۔(مسند احمد)
جو کوئی درخت لگائے‘پھر اس کی حفاظت اور نگرانی کرتا رہے یہاں تک کہ وہ درخت پھل دینے لگے‘وہ اس کیلئے اللہ کے یہاں صدقہ کا سبب ہوگا۔(مسند احمد )
عرب میں بالعموم ببول یا بیری کے درخت ہوا کرتے تھے‘ نبی کریمﷺ نے بیری کے درخت کے بارے میں فرمایا: جو بیری کا درخت کاٹے گا‘ اسے اللہ تعالیٰ اوندھے منہ جہنم میں ڈالے گا۔(سنن ابو داؤد)جب اسلامی لشکر کو مشرکین کی طرف روانہ فرماتے تو یوں ہدایات دیتے: کسی بچے کو قتل نہ کرنا‘ کسی عورت کو قتل نہ کرنا‘ کسی بوڑھے کو قتل نہ کرنا‘ چشموں کو خشک و ویران نہ کرنا‘ درختوں کو نہ کاٹنا۔(بیہقی)
یہ وہ ارشادات ہیں جو کم و بیش ہر مسلمان نے سنے ہیں اور بارہا سنے ہیں۔ اور یہ بات تو بچے بچے کو معلوم ہے کہ کفار سے جہاد کے دوران بھی فصلوں‘ کھیتوں اور درختوں کو تباہ کرنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ 25 مئی کو جو کچھ اسلام آباد میں ہوا وہ کفار کے ساتھ جہاد تھا نہ کوئی جنگ تھی! اس دن جو کچھ درختوں کے ساتھ کیا گیا‘ کم از کم اس کالم نگار کے ناقص علم کی رُو سے تاریخ میں شاید ہی ہوا ہو۔ خاص طور پر جب یہ ملکی آبادی کے ایک حصے کا محض سیاسی احتجاج تھا۔درختوں پر پٹرول چھڑک کر انہیں نذرِ آتش کیا گیا۔یہ نہ سوچا گیا کہ ان درختوں پر جن پرندوں کا بسیرا ہے‘ ان کے بچے بھی ہیں۔ ان کے انڈے بھی ہیں۔ ان کے گھر بھی ہیں! درخت جاندار ہیں اور پرندے ذی روح! ان جانداروں کا‘ ان پرندوں کا‘ ان پرندوں کے معصوم بچوں کا اپنے پروردگار سے براہ راست رابطہ بھی ہے! اگر آگ لگانے والے یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ کسی داروگیر کا شکار نہیں ہوں گے تو یہ ان کی بھول ہے!یہ درخت اور یہ پرندے رات دن‘ صبح شام‘ اپنے خالق کی تسبیح کرتے ہیں۔
ہر گیاہی کہ از زمین روید
وحدہ لا شریک لہ گوید
زمین سے پیدا ہونے والاگھاس کا ہر تنکا وحدہ لا شریک کا ورد کرتا ہے۔ ان درختوں کے پتے چھاؤں بُنتے ہیں اور اس چھاؤں کو جھلستی زمین پر پھیلا دیتے ہیں۔ یہ درخت پھل عطا کرتے ہیں۔ یہ بارش برسانے میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں ! ان کی لکڑی ہمارے لیے زندگی بخش ہے۔ کیا آپ نے کسی درخت کو کم ظرف دیکھا ہے! کیا کبھی کسی درخت نے کہا کہ فلاں میرا ثمر کھائے اور فلاں نہ کھائے؟ کیا کسی درخت نے کبھی یہ کہا کہ فلاں میری چھاؤں سے دور رہے! درختوں اور پرندوں کی سچائی کی وجہ سے انسانوں کے سر سے عذاب ٹلتا ہے! یہ پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ سال کے بزرگ درخت تھے جنہیں جیتے جی آگ کے شعلوں کی نذر کیا گیا۔ اگر اُس وقت آسمان سے پتھر نہیں برسے تو یہ کوئی نہ گمان رکھے کہ کبھی نہیں برسیں گے! نہیں نہیں! اس کا حساب ہو گا! اس نمرودی کارروائی کا جواب دینا ہو گا۔ آج نہیں تو کل‘ کل نہیں تو پرسوں!کچھ نہ کچھ ضرور ہو گا! فرشتے اس قتلِ عام کو کبھی نہیں بھول نہیں سکتے۔ وہ حکم کے منتظر ہیں!پرندوں کی فریاد کہکشاؤں سے پرے گئی ہے۔ ان کے بچوں کی چہکار کو مارنے والے اپنے انجام کو ضرور پہنچیں گے! کیا آگ لگانے والوں کے بچے نہیں ہیں ؟ کیا ان قاتلوں کے گھر نہیں ہیں ؟ دستِ قدرت کے سامنے ان ظالموں کے گھر‘ پرندوں کے گھونسلوں سے زیادہ کمزور ثابت ہوں گے! چہکنے والے ایک ایک بچے کابدلہ لیا جائے گا !
اب آئیے اس سوال کی طرف کہ یہ ظالم‘ یہ قاتل کون تھے؟ کیا یہ تحریک انصاف والے تھے ؟ کیا یہ شر پسند تھے جو تحریک انصاف کے حامیوں میں گھسے ہوئے تھے؟ کیا یہ وہ لوگ تھے جو تحریک انصاف کو بدنام کرنا چاہتے تھے ؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے اس ملک میں ایک عدد حکومت ہے اور ایک عدد پارلیمنٹ ہے! ظلم تو ہوا مگر اس سے بڑھ کر یہ ظلم ہوا کہ حکومت نے درختوں کے قتلِ عام کا کوئی خاص ذکر کیا نہ تشویش ہی کا اظہار کیا۔ پارلیمنٹ میں کسی کا دل لرزا نہ کسی کے دل میں خدا کا خوف پیدا ہوا۔کوئی قراردادِ مذمت تک پیش نہ کی گئی۔ یہ حکومت کا کام تھا کہ درختوں کو آگ لگانے والوں کو پکڑتی! یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی ایک ظالم بھی نہ پکڑا جائے! جو حکومت درختوں کی حفاظت نہیں کر سکتی وہ انسانوں کی حفاظت کیسے کرے گی ؟ یہ کیسی حکومت ہے کہ جب عدالت نے جی نائن کا میدان جلسے اور احتجاج کے لیے مقرر کر دیا تو لوگوں کو ڈی چوک میں آنے سے روک ہی نہ سکی! عمران خان کے آنے سے بہت پہلے‘ لوگ‘ کسی قیادت کے بغیر‘ ڈی چوک تک کیسے پہنچ گئے ؟ حکومت کہاں تھی؟ حکومت نے کیوں نہ روکا؟ درختوں کو آگ لگانے والوں کو پکڑنا کس کا فرض تھا؟ اگر حکومت کا نہیں تھا تو حکومت مطلع فرمائے کہ کس کا فرض تھا؟ ایک طرف حکومت کا یہ موقف ہے کہ لوگ باہر نہیں نکلے اور بہت کم تھے! اگر کم تھے تو پھر بھی حکومت کچھ نہ کر سکی ؟ عدالت نے ایک جگہ کا تعین کر دیا تھا۔ حکومت کے پاس‘ لوگوں کو ڈی چوک تک آنے سے روکنے کا پورا پورا جواز موجود تھا ! درختوں کوجلانے کی ایف آئی آر کس کے خلاف کٹنی چاہیے؟
عمران خان نے 28 مئی کی پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ درختوں کو جلانے والے (ن) لیگ کے لوگ تھے اور پولیس! خان صاحب سے یہ پوچھا جانا چاہیے کہ کیا آپ نے اس ضمن میں کوئی انکوائری کی یا کرائی ہے ؟ کیسے معلوم ہوا کہ یہ مجرم (ن) لیگ سے اور پولیس سے تعلق رکھتے تھے ؟ کیا کسی کو آپ کی جماعت نے آگ لگاتے ہوئے پکڑا جو (ن) لیگ کا نکلا ؟ کیا آپ نے آگ لگانے والوں کی شناخت کی یا کرائی ؟ آپ کس طرح یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ آگ لگانے والے تحریک انصاف سے تعلق نہیں رکھتے تھے ؟ بغیر ثبوت کے یہ بات آپ کیسے کہہ سکتے ہیں ؟
مگر لطف کی بات یہ ہے کہ عمران خان کے اس الزام کو حکومت چیلنج نہیں کر سکتی ! اگر چیلنج کرے گی تو جواب میں یہ پوچھا جائے گا کہ‘‘ پھر آگ لگانے والے کون تھے‘‘ ؟؟ اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ آگ لگانے والے (ن) لیگ کے تھے نہ پولیس کے اور اگر ہم یہ بھی مان لیں کہ آگ لگانے والے تحریک انصاف کے لوگ تھے تو پھر بھی حکومت ذمہ داری سے جان نہیں چھڑا سکتی ! جب پہلے درخت کو آگ لگی تو پولیس فوراً جائے واردات پر کیوں نہ پہنچی اور باقی درختوں کی حفاظت کیوں نہ کی گئی؟
محترمہ شیری رحمان موسمیاتی تبدیلی کی وفاقی وزیر ہیں۔ ہو سکتا ہے اس سانحہ پر ان کا کوئی بیان آیا ہو مگر اس کالم نگار کی نظر سے نہیں گزرا! یہ مسئلہ ان کی وزارت سے تعلق رکھتا ہے۔ لازم ہے کہ وہ پوری تفتیش کریں یا کرائیں۔ مجرموں کو پکڑنا آج کل کے زمانے میں مشکل ہے نہ ناممکن ! اگر آج ان مجرموں کو پکڑا نہ گیا اور سزائیں نہ دی گئیں تو آئندہ کسی احتجاج کے دوران معصوم درختوں کے ساتھ یہ ظلمِ عظیم زیادہ بھیانک پیمانے پر ہو سکتا ہے !!

Thursday, May 26, 2022

ڈاکٹر صاحبہ ! آپ خوش قسمت ہیں !!


اس ملک میں ایلیٹ کی کئی اقسام ہیں !

�کچھ اس لیے ایلیٹ ہیں کہ وہ فیوڈل ہیں۔ زمینوں اور جاگیروں کے مالک ! کچھ اس لیے کہ وہ سردار ہیں۔کچھ اس لیے کہ وہ حکومت میں ہیں۔ کچھ اس لیے کہ وہ اپوزیشن میں ہیں! مگر محترمہ ڈاکٹر شیریں مزاری صاحبہ! آپ کسی ایک وجہ سے ایلیٹ نہیں !آپ اس لیے ایلیٹ ہیں کہ آپ فیوڈل بھی ہیں! بہت بڑی فیوڈل! آپ اس لیے ایلیٹ ہیں کہ آپ سردارنی بھی ہیں! آپ اس لیے ایلیٹ ہیں کہ آپ حکومت میں بھی رہیں! آپ اس لیے ایلیٹ ہیں کہ آپ اپوزیشن میں بھی ہیں !

�آپ اس وقت ملک کی طاقتور ترین خاتون ہیں۔ آپ ایلیٹوں کی ایلیٹ ہیں۔ جو ہنگامہ ‘ جو غلغلہ‘ جو خروش و غوغا‘ جو شور‘ جو احتجاج آپ کی گرفتاری پر ہوا وہ اس ملک کی تاریخ میں کسی عورت ‘ کسی مرد کی گرفتاری پر آج تک نہیں ہوا۔ اپوزیشن تو اپوزیشن‘ حکومت نے بھی احتجاج کیا؛ تاہم کسی میں آپ سے پوچھنے کی جرأت نہ ہوئی کہ آپ جب انسانی حقوق کی وزیر تھیں تو کئی صحافیوں کے بنیادی انسانی حقوق کے پرخچے اڑائے گئے جن کا ایک زمانے کو علم تھا مگر آپ کو جیسے خبر ہی نہ تھی۔ میڈیا مالکان کو مہینوں‘ بغیر کسی جرم کے محبوس رکھا گیا۔ آپ کے منہ سے ایک لفظ نہ نکلا۔ ایک ایک اپوزیشن لیڈر کو حوالہ زنداں کیا گیا۔ آپ کو جیسے معلوم ہی نہ ہوا۔ خاتون اپوزیشن لیڈر کو مرد پولیس پکڑ کر لے گئی۔ جیل میں کیمروں کی زد میں رکھا گیا۔ آپ کے نزدیک یہ کوئی بات ہی نہ تھی۔ تو کیا آپ کی وزارت ‘ انسانوں کے نہیں جنات کے حقوق کی حفاظت کر رہی تھی؟

�بہت ہی محترمہ شیریں مزاری صاحبہ ! آپ مبینہ طور پر چالیس ہزار کنال زمین کی مالکن ہیں۔یہ معلوم نہیں کہ یہ آپ کی کْل زمین ہے یا یہ صرف آپ کی کْل ملکیت کا وہ حصہ ہے جو متنازع ہے! لیکن اگر آپ کی ٹوٹل ملکیت یہی چالیس ہزار کنال زمین ہے تو پھر بھی یہ ایک بہت بڑی ملکیت ہے۔اس ملک میں لاکھوں خاندان ایسے ہیں جو پندر بیس کنال سے لے کر سو‘ دو سو کنال تک کی ملکیت میں گزارا کر رہے ہیں۔ کروڑوں لوگوں کے لیے پانچ سو کنال زمین بھی ایسا خواب ہے جو نسلوں تک خواب ہی رہتا ہے۔ بہر طور ‘ چالیس ہزار کنال زمین کے لیے آپ کے پاس یقینا مزارعوں‘ ہاریوں اور نوکروں کی ایک فوج بھی ہو گی۔ ان مزارعوں‘ ہاریوں اور نوکروں کی بیویاں‘ مائیں‘ بہنیں اور بیٹیاں بھی ہوں گی ! ڈاکٹر شیریں مزاری صاحبہ ! کیا ان عورتوں کو وہی حقوق حاصل ہیں جن سے آپ لطف اندوز ہو رہی ہیں ؟ کیا ان میں سے جب کسی کو پولیس پکڑتی ہے تو کیا ملک کے اطراف و اکناف میں اسی طرح طوفان آجاتا ہے جیسا آپ کی گرفتاری سے آیا؟ کیا کوئی اور عورت پکڑی جائے تو اس کی بیٹی کو بھی وہی کچھ کہنے کی اجازت ہے جو آپ کی دختر نیک اختر نے کہا ؟�

کوئی مانے یا نہ مانے ‘ کسی کو یہ بات اچھی لگے یا بری‘ پتھر پر کھدی ہوئی سچائی یہ ہے کہ اس ملک میں اپوزیشن اور حزب ِاقتدار کی تقسیم محض دکھاوا ہے۔ محض نمائش ہے۔ اس ملک میں پارٹیاں دو ہی ہیں۔ دو ہی جماعتیں ہیں۔ ایک کو مراعات یافتہ کہہ لیجیے یا ایلیٹ کا نام دے لیجیے۔ یہ صبح کو حکومت میں ہیں تو شام کو اپوزیشن میں۔ رات کو پھر حکومت میں ہوتے ہیں۔ جنرل ضیا کی حکومت ہو یاجنرل مشرف کی‘ پی پی پی کی ہو یا مسلم لیگ کی یا تحریک انصاف کی ‘ یہ حکومت میں ہوتے ہیں یا اپوزیشن میں۔ اور حکومت اور اپوزیشن دونوں مراعات یافتہ ہیں۔ دوسرے عام لوگ ہیں۔ یہ عام لوگ مراعات سے محروم ہیں۔ ان کی گرفتاری سے اتنی آواز بھی نہیں اٹھتی جتنی ایک مکھی یا مچھر کے بھنبھنانے سے ہوتی ہے۔آپ دیکھیے ایک عام عورت مریم نواز کو ملنے پتا نہیں کہاں سے چل کر آتی ہے مگر وہ ہاتھ کے اشارے سے اسے جھٹک دیتی ہیں۔ نصرت بھٹو پر گلاب کے پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جاتی تھیں تو ناراض ہوتی تھیں کہ انہیں گلاب سے الرجی ہے۔ برملا کہتی تھیں کہBhuttos are born to rule کہ بھٹو خاندان حکومت کرنے کے لیے ہے۔ میاں نواز شریف کو دیکھ لیجیے۔ اقتدار میں نہ ہوں تو جدہ کے کسی محل میں ہوتے ہیں یا لندن کی عالی شان قیامگاہ میں ! بچے پاکستان کے شہری ہی نہیں ! عمران خان کو دیکھ لیجیے ! ان کے وابستگان کی خواتین مارچ میں بھی شامل ہوتی ہیں اور دھرنے میں بھی ! مگر ان کی اہلیہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ گھریلو خاتون ہیں اس لیے مارچ میں شامل نہیں ہوں گی۔ تو کیا شامل ہونے والی دوسری خواتین گھریلو نہیں؟ ملتان جانا ہو یا کراچی یا سیالکوٹ‘ یا بنی گالا سے وزیر اعظم آفس یا وزیر اعظم آفس سے بنی گالا ‘ عمران خان ہیلی کاپٹر پر جاتے ہیں یا چارٹرڈ جہاز پر۔ ان کے اپنے بچے لندن کی پُر آسائش زندگی گزار رہے ہیں اس لیے کہ وہ ایلیٹ کلاس سے ہیں۔ دوسروں کے بچے مارچ میں حصہ لے رہے ہیں۔ لاٹھیاں کھا رہے ہیں۔ آنسو گیس بھگت رہے ہیں۔ اس لیے کہ وہ مراعات یافتہ طبقے سے نہیں ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ مسجد نبوی میں ہنگامہ کرنے کے جرم میں جو افراداس وقت سعودی زندانوں میں پڑے ہیں‘ اگر مراعات یافتہ طبقے سے ہوتے تو ایسی ہی خاموشی ہوتی ؟ نہیں جناب! نہیں! ایسا ہوتا تو ایم بی ایس کے پاس ایک وفد کے بعد دوسرا وفد جا رہا ہوتا اور امریکہ سے لے کر یو اے ای تک سب کو درمیان میں ڈالا جا رہا ہوتا۔

�پاکستان میں اپوزیشن ہمیشہ اقتدار میں شامل رہتی ہے ! اسد عمر ہوں یا زبیر عمر‘ مونس الٰہی ہوں یا چوہدری سالک حسین ! وہی گھر اپوزیشن کا ہوتا ہے اور وہی گھر حزب اقتدار کا ! جو رشتہ دار نہیں وہ بھی مضبوط بندھن میں بندھے ہیں۔ شادیوں پر‘ منگنیوں پر‘ سماجی تقاریب میں سب ایک دوسرے کے دست و بازو ہیں۔ اکٹھے دعوتیں اڑاتے ہیں! ہنستے کھیلتے ہیں۔ ایک دوسرے کے سمدھی ہیں یا مامے‘ چاچے‘ بھتیجے‘ بھانجے! ان کی یکجائی اور اتحاد دیکھنا ہو تو اس وقت دیکھیے جب قومی یا کسی صوبائی اسمبلی میں ارکان کی تنخواہوں‘ ٹی اے‘ ڈی اے اور دیگر مراعات میں اضافے کا کوئی بل پیش ہو! یوں لگتا ہے سب سگے بھائی ہیں۔ کیا اپوزیشن ‘ کیا حکومتی ارکان ‘ کیا مذہبی جماعتوں کے نمائندے‘ کیا سیکولر خیالات کے حامل‘ سب سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے ہیں !�پاکستان میں فخر سے لکھا اور بتایا جاتا ہے کہ سعیدہ وارثی‘ صادق خان اور ساجد جاوید بس ڈرائیوروں کے بچے تھے جو برطانیہ میں پارلیمنٹ تک پہنچے‘ وزارتیں لیں اور مئیر بنے! سوال یہ ہے کہ کیا ہماری زنبیل سے بھی کبھی کوئی ایسا طلسم برآمد ہوا؟ کیا یہاں بھی کوئی بس ڈرائیور کا بچہ ایسے منصب تک پہنچا؟ وہ تو بھلا ہو انگریز سرکار کا کہ ایسے ادارے بنا کر دے گئے جن کے طفیل عام لوگوں کے بچے فوج اور سول سروس میں داخل ہو کر اعلیٰ عہدوں پر پہنچ جاتے ہیں۔نائب صوبیدار کا بچہ جرنیل بن جاتا ہے۔ حال ہی میں ایک ڈرائیور کی بیٹی فارن سروس کے لیے منتخب ہوئی ہے۔ اس لیے کہ محنت کی۔ مگر محنت سے یہاں وزیر کوئی نہیں بن سکتا اس لیے کہ سیاست میں صرف مراعات یافتہ طبقے کے ارکان اوپر جا سکتے ہیں۔ شریف برادران‘ بھٹو خاندان‘ عمران خان‘ مولانا‘ چوہدری‘ باچا خاندان ‘ سب کئی کئی دہائیوں سے پارٹیوں پر قابض ہیں!

�ڈاکٹر شیریں مزاری صاحبہ ! آپ خوش بخت ہیں کہ ایلیٹ کلاس سے ہیں !
بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, May 23, 2022

تلاشِ گمشدہ


حالاتِ حاضرہ کی عجیب ترین ستم ظریفی یہ ہے کہ اگر کوئی شریفوں یا زرداریوں کے خلاف ہے تو اسے عمران خان کا حامی سمجھا جاتا ہے۔ اور اگر کوئی عمران خان کے چار سالہ دورِ اقتدار پر تنقید کرتا ہے تو اسے فوراً شریفوں اور زرداریوں کے ساتھ بریکٹ کر دیا جاتا ہے۔ جو شریفوں کے حامی ہیں وہ بھی مزے میں ہیں۔ جو عمران خان کے ساتھ ہیں وہ بھی مست ہیں۔ جو دونوں کو ناپسند کرتے ہیں وہ دونوں طرف سے شعلوں کی لپیٹ میں ہیں۔
مظلوم ترین گروہ وہ ہے جو شریفوں اور زرداریوں کی چیرہ دستیوں سے عاجز آکر عمران خان کی طرف لپکا تھا۔ اقتدار میں آنے سے پہلے عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ جو انصاف‘ جو میرٹ جو طرزِ حکومت مغرب کے جمہوری ملکوں میں رائج ہے‘ اسے پاکستان میں نافذ کریں گے؛ چنانچہ یہ جو گروہ تھا‘ شریفوں اور زرداریوں سے تنگ آکر عمران خان کے جھنڈے تلے آنے والا گرو ہ‘ اس گروہ نے عمران خان کے اس وعدے میں پناہ لی۔اس گروہ میں ایک کثیر تعداد اُن لوگوں کی تھی جو ووٹ ڈالنے زندگی میں پہلی بار گھر سے نکلے۔ ان لوگوں نے عمران خان کو ووٹ دیا۔ ان کی حکومت آنے پر خوش ہوئے۔اب یہ لوگ جب عمران خان کے عہدِ حکومت پر تنقید کرتے ہیں تو کوئی جواز نہیں کہ جواب میں انہیں شریفوں اور زرداریوں کی بدعنوانیوں پر لیکچر پلائے جائیں۔ اللہ کے بندو! شریفوں اور زرداریوں سے تو تنگ آکر ہی انہوں نے عمران خان کو ووٹ دیا تھا۔ ان کا مسئلہ یہ نہیں کہ عمران خان کا شریفوں اور زرداریوں سے موازنہ کیا جائے۔یہ موازنہ کرتے ہیں عمران خان کا عمران خان سے! عمران خان کے دو روپ ہیں: ایک عمران خان وہ ہے جو پیش از اقتدار تھا یعنی اگست2018ء سے پہلے! دوسرا عمران خان وہ ہے جو بعد از اقتدار ہے یعنی حکومت سنبھالنے کے بعد! یہ بد قسمت گروہ عمران خان کا شریفوں اور زرداریوں سے نہیں‘ بلکہ اُس عمران خان سے مقابلہ کرتا ہے جس نے اس گروہ کو اپنی طرف کھینچا تھا۔ تحریکِ انصاف کی خدمت میں ایک سنجیدہ تجویز ہے کہ ان اسباب و علل کو دریافت کرے جن کی وجہ سے عمران خان کے حامیوں کی اچھی خاصی تعداد بد دل ہوئی۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ متین اور سنجیدہ ارکان کی ایک کمیٹی بنے جو سروے کرے‘ منحرفین کی آرا سنے اور پھر ان اسباب کو مدوّن کرے۔
لیکن اس وقت تحریک انصاف کا جو مائنڈ سیٹ ہے‘ کیا اس میں ایساکرنا ممکن ہے ؟ کیا ایسے ارکان موجود ہیں جو سروے کریں اور بد دل لوگوں کے موقف کو سنجیدگی سے سنیں؟ کیا اپنا محاسبہ کرنے کی اخلاقی جرأت تحریکِ انصاف میں دکھائی دے رہی ہے؟ جس طرح تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت سے زیادہ ایک Cultیا فرقہ کی شکل اختیار کر چکی ہے اور جس طرح سیاسی حمایت اندھی تقلید میں تبدیل ہو چکی ہے اور جس طرح خود احتسابی‘ دروں بینی‘ خود نگری اور معروضیت اس جماعت میں دور دور تک نہیں نظر آرہی‘ اس کے پیش نظر اس اَمر کا کوئی امکان نہیں کہ سابق حامیوں کی بات سنی جائے گی!
اگست2018ء سے پہلے والے عمران خان اُسی دن تاریخ کے دھندلکے میں گم ہو گئے تھے جس دن چیف منسٹر پنجاب کے دفتر میں پاکپتن کے پولیس افسر کی سرزنش‘ چیف منسٹر نے نہیں‘ بلکہ چیف منسٹر کی موجودگی میں گْجر صاحب نے کی تھی ! یہ اس بات کا اعلان تھا کہ صوبہ اصل میں کس نے چلانا ہے اور ڈور کس کے ہاتھ میں ہو گی! اگر عمران خان اسی دن یہ اعلان کر دیتے کہ آئندہ یہ شخص کسی سرکاری معاملے میں مداخلت نہیں کرے گا تو صورتحال مختلف ہوتی ! آپ کاکیا خیال ہے جو لوگ گزشتہ حکومتوں کی اقربا پروری اور دوست نوازی سے تنگ آکر عمران خان کی طرف لپکے تھے ان کے لیے آنکھوں دیکھنا یہ مکھی اور ایسی کئی اور مکھیاں نگلنا ممکن تھا؟ وہی دوست نوازی! جو گزشتہ حکومتوں میں تھی ! تین افراد میں سے دو کو چور کہا۔ تیسرے کو سب سے بڑا ڈاکو کہا۔ مان لیا! سو فیصد درست ! مگر پھر جس کو سب سے بڑا ڈاکو کہا اسے ساتھ ملا لیا! آج تک اس کا جواب نہیں دیا گیا۔ کم از کم یہی کہہ دیتے کہ وہ جو ہم نے کہا تھا کہ سب سے بڑا ڈاکو ہے تو غلط کہا تھا! ایک اور صاحب کو کہا کہ چپڑاسی رکھے جانے کے قابل نہیں۔ انہیں وزارت دے دی ! وزارت بھی وہ جو حساس ترین وزارتوں میں سے ہے! کم از کم یہی کہہ دیتے کہ چپڑاسی والی بات نہیں کہنی چاہیے تھی ! عمران خان کے فین کلب کی بات اور ہے۔ مگر وہ جو سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہتے ہیں اور کسی کے فین ہیں نہ اندھے مقلد‘ ان کے لیے یہ قلابازیاں مضحکہ خیز ہی نہیں‘ ناقابلِ قبول تھیں!
یہ لوگ وزیر اعظم عمران خان کا مقابلہ شریفوں یا زرداریوں سے نہیں کرتے۔ یہ عمران خان کا مقابلہ عمران خان سے کرتے ہیں۔ کہاں گیا وہ عمران خان جس نے کہا تھا کہ کابینہ سترہ ارکان پر مشتمل ہو گی؟جس نے پی ٹی وی کے سربراہ کو للکارا تھا کہ ہرماہ پینتیس روپے کا جگا ٹیکس کیوں لیتے ہو؟ جس نے بجلی کے بل کو نذر آتش کیا تھا۔ جس نے اُن حکومتوں کی بار بار مذمت کی تھی اور انہیں رد کیا تھا جنہیں شیخ رشید‘ عمر ایوب‘ فہمیدہ مرزا‘ خسرو بختیار‘ اعظم سواتی‘ رزاق داؤد‘محمد میاں سومرو‘ زبیدہ جلال اور فواد چوہدری چلاتے رہے۔ جو پوچھتا تھا کہ سرکاری عمارتیں شریفوں اور زرداریوں کے نام کیوں کی جاتی ہیں؟ جوکہتا تھا کہ جب بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوتو سمجھ جاؤ وزیراعظم چور ہے۔ یہ لوگ جو عمران خان کے حامی تھے اور اس کے اسلوبِ حکمرانی کو دیکھ کر اس کا ساتھ چھوڑ گئے‘ آج بھی اُس عمران خان کے ساتھ ہیں جو اگست 2018ء سے پہلے والا عمران خان ہے اور جو گُم ہو گیا ہے!
عمران خان امریکہ‘ برطانیہ‘ کینیڈا‘ سویڈن‘ ڈنمارک اور جرمنی کی مثالیں دیا کرتے تھے۔ ان کے وابستگان کو سوچنا چاہیے کہ ان میں سے کون سا ملک ہے جس کا حکمران ہر روز‘ گھر سے دفتر‘ اور دفتر سے گھر‘ ہیلی کاپٹر میں آتا جاتا ہے؟ جو دوسرے ملکوں کے حکمرانوں سے جہاز مانگ کر اس میں سفر کرتا ہے اور پھر اسے راستے کے بیچ جہاز سے اتار دیا جاتا ہے ؟ کس مغربی اور کس جمہوری ملک میں سب سے بڑے صوبے کو اُس گمنام Non entityکے سپرد کیا جاتا ہے جسے خود وزیراعظم بھی نہ جانتا ہو‘ جو بولنے‘ لکھنے‘ بحث کرنے اور فیصلہ کرنے کے قابل ہی نہ ہو ! ان میں سے کون سا ملک ہے جہاں صوبے کا چیف سیکرٹری‘ آئی جی پولیس اور دیگر اعلیٰ حکام ہر چند ہفتوں بعد بدل دیے جاتے ہوں اور لوگ ایسی گورننس کا مذاق اڑاتے ہوں؟
شریفوں اور زرداریوں کو چھوڑیے۔ان کی کرپشن‘ ان کی بدعنوانیاں‘ یہ لوگ مانتے ہیں! یہ بتائیے کہ اگست 2018ء سے پہلے والا عمران خان اب کہاں ملے گا؟ یہ لوگ جو عمران خان کے ساتھ تھے اور چار سالہ دور حکومت سے بد دل ہو کر پیچھے ہٹ گئے‘ دوبارہ عمران خان کا ساتھ دینا چاہتے ہیں مگراُس عمران خان کا جو ابھی حکومت میں نہیں آیا تھا! وہ کہاں ہے ؟ تحریک انصاف کو اس کا اتا پتا معلوم ہو تو از راہ کرم اطلاع دے !!
بشکریہ روزنامہ دنیا 

Thursday, May 19, 2022

چوگان


شہر میں چوگان کا میچ تھا۔ ایک عزیز، جو مدعو تھے، ساتھ لے گئے!
گھوڑے دوڑ رہے تھے۔ ایالیں ان کی بندھی ہوئی تھیں جیسے عورتوں کی چوٹیاں! سوار، پاؤں جن کے رکابوں میں تھے، زینوں پر اُٹھتے تھے، پھر بیٹھتے تھے، پھر اٹھتے تھے۔ سبزہ، گرد کو روکے تھا ورنہ وہی حال ہوتا جو نظامی گنجوی نے سکندر کی لڑائی کا بیان کیا ہے: 
ز سمِّ ستوران دران پہن دشت
زمین شش شد و آسمان گشت ہشت
گھوڑوں کے سُموں سے میدانِ جنگ میں اتنی گرد اٹھی کہ زمین گرد بن کر آسمان کی طرف اُٹھ گئی۔ یوں زمینیں سات کے بجائے چھ رہ گئیں اور آسمان سات کے بجائے آٹھ ہو گئے!
آنکھیں چوگان دیکھ رہی تھیں۔ ذہن انار کلی میں پھر رہا تھا۔ یونیورسٹی کی طرف سے انار کلی میں داخل ہوں۔ لوہاری کی طرف چلیں۔ راستے میں دائیں طرف جانے والی ایک گلی میں وہ شخص مٹی اوڑھ کر سو رہا ہے جسے لاہور بہت پسند تھا۔ جو لاہور کا دلدادہ تھا۔ گلابی جاڑوں کی ایک دوپہر تھی جب چوگان کھیلتے ہوئے آٹھ سو بارہ سال پہلے قطب الدین ایبک گھوڑے سے گرا۔ زین کا فتراک سینے میں پیوست ہو گیا اور جان بدن سے پرواز کر گئی۔ زندگی بھی کیا چیز ہے! ترکستان میں شروع ہوئی۔ نیشا پور کے بازار میں غلام بن کر فروخت ہوا۔ موت بھی کیا شے ہے! لاہور میں آئی جب وہ پورے شمالی ہند کا بادشاہ تھا۔ 
چوگان اصلاً وسط ایشیا کے قبائل کا کھیل تھا۔ کھیل بھی اور اس بہانے جنگ کی تربیت بھی۔ قبل مسیح میں چوگان ایران پہنچا جہاں اس کی خوب پذیرائی ہوئی۔ اعلیٰ طبقات نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ بادشاہوں نے لشکر میں متعارف کرایا۔ یوں یہ اہلِ فارس کا قومی کھیل بن گیا۔ فردوسی سے لے کر بعد کے شعرا تک سب نے اسے اشعار میں باندھا۔ چلیے یہاں ایک وضاحت کیے دیتے ہیں۔ ارے بھئی! یہ چوگان وہی ہے جسے آج کل پولو کہا جاتا ہے۔ اصل میں وہ ہاکی نما سٹک، یا ڈنڈا، جس سے گھُڑ سوار، بال کو مارتا ہے، اُسی کو چوگان کہتے ہیں۔ ہاکی نما سے زیادہ اسے ہتھوڑا نما کہا جا سکتا ہے۔ ایران کے شاعروں نے خم کھاتی زلف کو چوگان سے تشبیہ دی‘ اور عاشق کے دل کو گیند یعنی بال سے! کبھی اپنے آپ کو بال بنا لیا۔ سعدی نے کہا:
آن کہ دل من چو گوی در خم چوگان اوست
یعنی میرا دل گیند کی طرح ہے اور اس کے چوگان کے خم کی دسترس میں ہے۔
بوستانِ سعدی میں محبت کی ایک کہانی ہے۔ ہمارے ہاں محبت کی دو تین کچی پکی Teen ager ٹائپ نظمیں لکھ کر شاعر ہوا میں اڑے پھرتے ہیں۔ کبھی رومی، سعدی، سنائی، صائب، طالب آملی اور ابو طالب کلیم کو پڑھ کر دیکھیے۔ معلوم ہو گا کہ شاعری کسے کہتے ہیں اور محبت کی نظم کیسے کہی جاتی ہے۔ سعدی اس کہانی میں لکھتے ہیں:
بگفت ار خوری زخمِ چوگانِ او
بگفتا بپایش در، افتم چو گو
پوچھا گیا اگر تمہیں محبوب کے چوگان سے زخم لگ گیا تو کیا ہو گا؟ جواب دیا میں اس کے پاؤں میں گیند کی طرح پڑ رہوں گا۔
عرفان و تصوف کے حوالے سے بھی شعرا نے چوگان کی علامت سے خوب فائدہ اٹھایا۔ چوگان تقدیر کی طرح ہے جس کے سامنے ہم گیند سے بڑھ کر کچھ نہیں! رومی کہتے ہیں:
پیشِ چوگانہایِ حکمِ کُن فکان
می دویم اندر مکان و لا مکان
اس کا کن فیکون کا حکم تو چوگان ہے جس کے سامنے ہم مکان اور لا مکان کے اندر گیند کی طرح لڑھک رہے ہیں۔
قصہ مختصر، چوگان نے ایران کے بادشاہوں کو نہال کیا اور شاعروں کے کلام میں رچ بس گیا۔ ( ہمارے دوست پروفیسر ڈاکٹر معین نظامی چاہیں تو فارسی ادب کے طلبہ سے ایک تحقیقی مقالہ فارسی ادب میں چوگان کے موضوع پر لکھوا سکتے ہیں) پھر یہ کھیل ایران سے نکلا۔ مغرب میں قسطنطنیہ پہنچا۔ مشرق میں ہنزہ، لداخ اور تبت، وہاں سے جاپان اور جنوب میں ہندوستان وارد ہوا۔ ترک سلاطین اسے ہندوستان ساتھ لائے۔ قطب الدین ایبک کا احوال آپ نے اوپر پڑھا۔ خلجی، تغلق، لودھی سب اس کے شائق تھے‘ مگر اکبر نے اسے سرکاری سرگرمیوں کا لازمی حصہ بنا دیا۔ شاہی خاندان کے افراد کے علاوہ، وزرا، عمائدین اور بیوروکریٹس کی یہ کھیل کھیلنے کے لیے حوصلہ افزائی کی گئی۔ اکبر نے اس کے قوانین ترتیب دیے۔ ڈنڈوں کے دستوں پر چاندی اور سونے کے دستے لگائے گئے۔ دلچسپ ترین بات یہ ہے کہ چوگان رات کو کھیلنے کے لیے اکبر نے چمکدار گیند ایجاد کی۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ پالاش نامی درخت کی لکڑی رات کو روشن کی جاتی تھی تا کہ چوگان کا میچ کھیلا جا سکے۔ یہ درخت بہار اور جھاڑ کھنڈ سے نکلا اور بنگال آسام سے ہوتا ہوا کمبوڈیا، ویت نام اور ملائیشیا تک پہنچ گیا۔ اسے جنگل کا شعلہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے پھول بھڑکتے ہوئے شعلے کی طرح ہوتے ہیں۔ ڈھاک اور تیسو بھی اس کے نام ہیں۔ کیا اکبر نے پالاش درخت ہی کی لکڑی سے چمکدار بال ایجاد کیا تھا یا محض پالاش کی لکڑی رات کو روشنی کے لیے جلائی جاتی تھی؟ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا‘ نہ ہی یہ معلوم ہو سکا کہ اسے اردو اور پنجابی میں کیا کہتے ہیں۔ بہر طور مغلوں کے عہد میں چوگان ثقافت کا ایک اہم حصہ تھا۔ اکبر کا ایک قریبی درباری میر شریف قزوینی چوگان کھیلتے ہوئے گھوڑے سے گر کر مر گیا۔ اکبر نے اس کا مقبرہ بہت اہتمام سے تعمیر کرایا۔ مغل عہد کی منی ایچرز یعنی مصوری میں چوگان کے میچ عام دکھائی دیتے ہیں۔ مغل دربار کے مشہور مصور عبدالصمد نے چاول کے دانے پر چوگان کا پورا میدان دکھایا جس میں تماشائی بھی دکھائی گئے، گھوڑے بھی اور کھلاڑی بھی!
مغلوں کے زوال کے ساتھ ہی چوگان پر بھی زوال آگیا۔ اس لیے کہ گھوڑوں کے بجائے پالکیاں آ گئیں اور چوگان پالکیوں پر کھیلنا ممکن نہ تھا۔ اب مغل مرغ بازی اور کبوتربازی میں مگن ہو گئے۔ اب علاقوں کے بجائے باورچی فتح ہونے لگے اور مقابلے شطرنج اور مشاعروں کے ہونے لگے۔ پھر انگریز آ گئے۔ اب چوگان نے انگڑائی لی۔ اس نے ہیٹ کوٹ پہنا اور چوگان سے پولو بن گیا۔ چوگان کا یہ ولایتی دور بھی خاصا دلچسپ ہے۔ ہندوستان کی سب سے مشرقی ریاست منی پور میں، جو برما کی سرحد پر ہے، انگریز وں نے چائے کے باغات لگائے۔ وہاں انہوں نے مقامی لوگوں کو پولو کھیلتے دیکھا تو اسے اپنا لیا۔ کلکتہ میں 1862ء میں پولو کلب بنا جو دنیا کا قدیم ترین پولو کلب ہے۔ سات سال بعد پولو کا کھیل برطانیہ پہنچا اور پھر وہاں سے دنیا بھر میں پھیل گیا۔
پاکستان کے شمالی علاقے پولو کا گڑھ ہیں۔ دن کے کسی بھی وقت خپلو جائیں یا شگر یا کسی اور شہر میں، پولو کھیلا جا رہا ہو گا۔ چترال میں شیندور کا سالانہ میلہ پوری دنیا میں مشہور ہے۔ اسے دنیا کا بلند ترین پولو کلب کہہ لیجیے۔ گلگت بلتستان اور چترال کی ٹیموں کے درمیان یہ مشہور عالم میچ ہر سال جولائی میں کھیلا جاتا ہے۔ یہ سرگرمی سکردو کے راجہ علی شیر خان نے 1935ء میں شروع کرائی تھی۔ شیندور کی مرکزی سرگرمی تو پولو میچ ہی ہوتا ہے مگر ساتھ ساتھ لوک موسیقی اور رقص کا بھی بھرپور مظاہرہ ہوتا ہے۔ اگر آپ نے یہ میلہ ابھی تک نہیں دیکھا تو پاکستان کی ایک انتہائی خوبصورت جھلک سے آپ ابھی تک محروم ہیں۔
بشکریہ روزنامہ دنیا 

Tuesday, May 17, 2022

صرف دو ماڈل راس آسکتے ہیں


مرزا غالب کسی کے ہاں‘ کچھ روز قیام کرنے‘ تشریف لے گئے۔ غالباً کوئی نواب صاحب تھے۔ مرزا کے قیام کے دوران ہی نواب صاحب کا کہیں جانے کا پروگرام بن گیا۔ انہوں نے جاتے ہوئے مرزا سے کہا ''اللہ کے حوالے‘‘۔ مرزا کہاں چوکنے والے تھے۔ برجستہ جواب دیا ''اللہ نے آپ کے حوالے کیا تھا‘آپ پھر اللہ کے حوالے کر رہے ہیں‘‘۔
ہم نے پیپلز پارٹی ‘ مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ قاف سے تنگ آکر عمران خان کو ووٹ دیا تھا کہ ان پرانے حکمرانوں سے جان چھوٹے گی۔ مگر عمران خان ہمیں پھر انہی حکمرانوں کے حوالے کر کے یہ جا ‘ وہ جا! ایسا ہماری تاریخ میں پہلی بار نہیں ہوا۔ جنرل ضیا الحق دس سال حکمرانی کر گئے تو بھٹو صاحب کی مہربانی سے! ضیا الحق سینئر ترین جرنیل نہیں تھے۔ بھٹو صاحب انہیں نیچے سے اوپر لائے۔پھر جو کچھ ہوا‘ آج تک قوم بھولی ہے نہ پیپلز پارٹی! جنرل مشرف کے اقتدار کی ذمہ داری میاں نواز شریف پر عائد ہوتی ہے۔ میرٹ کو پسِ پست ڈال کر میاں صاحب نے انہیں سپہ سالار مقرر کیا اور پھر نہ صرف بھگتا بلکہ خوب خوب بھگتا۔ اب جو پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ (ن) ‘ جے یو آئی اور دیگر پارٹیاں تخت نشین ہوئی ہیں تو اس مراجعت کی ذمہ داری سو فیصد عمران خان پر عائد ہوتی ہے۔ عمران خان کو حکومت ملی تو آئیڈیل ترین حالات تھے۔ طاقتور ادارے ان کے ساتھ تھے‘ الیکٹ ایبلز ساتھ تھے‘ ایم کیو ایم ساتھ تھی‘ بلو چستان والے ساتھ تھے‘ مسلم لیگ (ق) ساتھ تھی۔ اگر عمران خان عقلمندی سے‘ حوصلے سے‘ برداشت سے‘ رواداری سے اور بردباری سے کام لیتے اور ایک خودسر نوجوان بننے کے بجائے ایک متحمل مزاج بزرگ بن کر حکمت کو بروئے کار لاتے تو آج بھی حکمران ہوتے! حکمرانی کیلئے بڑا دل چاہیے۔ سکندر اعظم کے استاد ‘ ارسطو‘ نے اسے نصیحت کی تھی کہ جن علاقوں کو فتح کرو‘ انہیں ان کے سابقہ حکمرانوں ہی کے سپرد کرو۔ وہ ہمیشہ تمہارے وفادار رہیں گے۔ یہ کام بظاہر تو آسان ہے مگر حقیقت میں اس نصیحت پر عمل کرنا بہت مشکل ہے۔ ایک دشمن ہے جو آپ سے لڑا۔ آپ شکست کھا جاتے تو امکان تھا کہ وہ آپ کو قتل کر دیتا‘ مگر اب وہ مفتوح ہے اور آپ فاتح! آپ کا دل چاہتا ہے اسے موت کے گھاٹ اتاردیں‘ یا زندان میں پھینک دیں! مگر استادِ گرامی فرماتے ہیں کہ اسے مفتوحہ علاقے کا حکمران رہنے دیں! ارسطو کی دور اندیشی کے کیا کہنے ! احسان کا قلاوہ ہمیشہ اس کی گردن میں رہے گا۔ سر ہمیشہ بارِ احسان سے جھکا رہے گا! مغلوں نے‘ اور ان سے پہلے سلاطینِ ہند نے یہی گُر آزمایا اور کامیاب رہے۔ دانا وہ ہوتا ہے جواپنے دشمنوں کی تعداد کم کرے اور دوستوں کی تعداد زیادہ کرے۔ اس کیلئے وسعتِ قلب درکار ہے۔ سعدی نے کہا تھا :
شنیدم کہ مردانِ راہِ خدا
دلِ دشمنان ہم نہ کردند تنگ
ترا کَی میسّر شود این مقام
کہ با دوستانت خلاف است و جنگ
اللہ کے برگزیدہ بندے تو دشمنوں کا دل بھی نہیں دکھاتے تھے۔تمہارا یہ حال ہے کہ دوستوں سے بھی کھٹ پٹ ہے اور لڑائی!
عمران خان صاحب نے اقتدار سنبھالا تو ان کے نقطہ نظر سے حالات انتہائی موافق تھے۔جسے اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے‘ ساتھ تھی‘ عدلیہ وہ تھی جس نے پانامہ کیس میں فیصلہ دیا تھا۔ چیف الیکشن کمشنر کی انہوں نے خود تعریف کی۔ اپوزیشن منتشر تھی مگر عمران خان صاحب نے ایک ایک کو اپنا مخالف کیا۔ اپوزیشن کو تسلیم ہی نہ کیا۔ چلیے شہباز شریف سے ہاتھ نہ ملاتے‘ کسی کو تو خاطر میں لاتے۔ حالت یہ تھی کہ کراچی جاتے تو وزیراعلیٰ کو خبر ہی نہ ہوتی۔یہ ایک ایسی حکومت تھی جس میں کسی حزبِ اختلاف کا وجود‘ کسی صورت میں قابلِ قبول نہیں تھا۔
اب آئیے ان کے اپنے ساتھیوں کی طرف۔ ان کے ساتھ کیا برتاؤ رہا۔ فرض کیجیے علیم خان کو پنجاب کا وزیر اعلی بنا دیتے اور جہانگیر ترین کو جنوبی پنجاب کے امور کا انچارج مقرر کر دیتے تو ان کا کیا جاتا ؟ صوبہ مضبوط ہاتھوں میں ہوتا۔ مگر خان صاحب اپنے اُن ساتھیوں سے بھی خائف تھے جن میں کچھ دم خم تھا۔انہوں نے ایک کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ چنا جو‘ان کے سامنے تو کیا‘ کسی کے سامنے بھی بات نہیں کر سکتا تھا۔ ایک عرصہ تک یہ راز راز ہی رہا کہ بزدار کس کی دریافت تھے۔ اب یہ حقیقت عام ہوئی ہے‘ سنتا جا شرماتا جا ! اگر اقتدار سنبھالتے وقت خان صاحب کے دوستوں کی تعداد کا اُس تعداد سے موازنہ کریں جو اقتدار کے آخری ایام میں تھی تو ایک عبرتناک صورت حال سامنے آتی ہے۔ جہانگیر ترین‘ علیم خان‘ عون چوہدری‘ محسن بیگ‘ احمد جواد ، یہ تو برگشتگان میں سے وہ نام ہیں جو زبان زدِ خاص و عام ہیں۔ کتنے ہی ایسے افراد ہیں جن کے نام ظاہر نہیں ہوئے۔
قاضی حسین احمد مرحوم کبھی کبھی کالم لکھتے تھے اور افغان جنگ کے رازوں سے ‘ دانستہ یا نا دانستہ‘ کچھ پردے اٹھاتے تھے۔ ایک بار انہوں نے لکھا کہ اگر ملا عمر کی ساری باتیں مان بھی لی جائیں اور وہ دوبارہ اقتدار میں آ بھی جائیں تب بھی ‘ ان کا جو مزاج ہے اور ان کی جو افتادِ طبع ہے‘ اس کے پیش نظر ان کا کسی کے ساتھ گزارہ مشکل ہو گا۔ یہ الفاظ کالم نگار کے ہیں۔ ان کے الفاظ یاد نہیں مگر مفہوم سو فیصد یہی تھا۔ قاضی صاحب مرحوم کے یہ الفاظ اس لیے اہم تھے کہ وہ سیکولر تھے نہ طالبان کے مخالف۔ یہ ان کی جچی تلی دیانت دارانہ رائے تھی۔ کچھ ایسی ہی صورتحال عمران خان صاحب کے ساتھ بھی ہے۔ فرض کیجیے وہ دوبارہ اقتدار میں آتے ہیں۔یہ بھی فرض کیجیے کہ راولپنڈی میں سب کچھ ان کی منشا کے مطابق ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کو وہ خود نامزد کرتے ہیں۔ عدلیہ ان کے ساتھ ایک پیج پر ہے۔ اپوزیشن میں شریف ہیں نہ زرداری! آپ کا کیا خیال ہے کہ ان کی حکومت آرام سے چلتی رہے گی؟ نہیں ! ان کا جو مزاج ہے اور ان کی جو افتادِ طبع ہے‘ وہ انہیں نہیں چلنے دے گی۔ صرف ایک صورت میں وہ خوش رہیں گے۔اور وہ صورت یہ ہو گی کہ ان کے ساتھ کوئی بھی رمق بھر اختلاف نہ کرے۔سب موم کے پتلے ہو جائیں۔ کسی نے اختلاف کیا تو خان صاحب کیلئے ناقابلِ قبول ہو گا۔ اگر اپوزیشن بالکل ضعیف‘ یتیم اور بے زبان ہو تب بھی وہ اس کے ساتھ بیٹھیں گے نہ ہاتھ ملائیں گے۔ شریف اور زرداری تو ان کے بقول چور تھے‘ سندھ کا وزیر اعلیٰ تو چور ڈاکو نہیں تھا۔ کیا کراچی کے کسی دورے میں وہ انہیں ملنے کیلئے آمادہ ہوئے؟
لکھ لیجیے کہ عمران خان صاحب کو صرف دو ماڈل راس آسکتے ہیں۔ ایک شمالی کوریا ماڈل۔ دوسرا ایم بی ایس ماڈل۔یہ ایسے ماڈل ہیں جن میں حزب اختلاف ہے نہ عدلیہ !چیف الیکشن کمشنر ہے نہ کوئی اور! یعنی
حجرے شاہ مقیم دے اک جٹی عرض کرے
میں بکرا دیواں پیر دا جے سر دا سائیں مرے
ہٹی سڑے کراڑ دی جتھے دیوا نِت بلے
کُتی مرے فقیر دی‘ جیڑی چَؤں چَؤں نت کرے
پنج ست مرن گوانڈھناں‘ رہندیاں نوں تاپ چڑھے
گلیاں ہو جان سنجیاں‘ وچ مرزا یار پھرے

Monday, May 16, 2022

ہے کوئی جو اس قتلِ عام کو رکوائے


خاندان کے خاندان ختم ہو رہے ہیں۔ لوگ دن دہاڑے قتل کیے جا رہے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ریاست بے نیاز ہے۔ حکومتی ترجیحات کی فہرست میں عوام کی جان و مال کی حفاظت دکھائی نہیں دیتی۔ پولیس لاتعلق ہے۔ منتخب ایوان اس ضمن میں قانون سازی نہیں کر رہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس خونخوار سفاکی کو سنجیدگی سے لے نہیں رہیں! نتیجہ یہ ہے کہ روک ٹوک کوئی نہیں۔ قاتل دندناتے پھرتے ہیں۔ لوگ مارے جارہے ہیں۔ لوگ ہلاک کیے جا رہے ہیں۔ لوگ ختم ہو رہے ہیں۔ لوگ اپنے پیاروں سے محروم ہو رہے ہیں۔ یتیموں اور بیواؤں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ شاید آہیں آسمان تک جا نہیں پا رہیں۔
منتخب ایوانوں کو اگر عوام کی حالت کا احساس ہوتا اور قوم کا درد ہوتا تو قومی اسمبلی کا یاکسی صوبائی اسمبلی کا کوئی رکن تو کھڑا ہو تا اور حکومت سے پوچھتا کہ گزشتہ پانچ سال یا دو سال‘ یا چلو ایک سال ہی میں‘ ٹریکٹروں‘ ٹرالیوں‘ ڈمپروں‘ آئل ٹینکروں اور واٹر ٹینکروں نے کتنے لوگ ہلاک کیے ہیں ؟ کسی منتخب ایوان کی اگر ریڑھ کی ہڈی ہوتی تو وہ اس قتلِ عام پر تشویش کا اظہار کرتا اور اس سلسلے میں ضروری قانون سازی کرتا‘ مگر المیہ یہ ہے کہ وہ جو منتخب ایوانوں میں بیٹھے ہیں یا جن کے ذمے عوام کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری ہے‘ انہیں کبھی ان ڈمپروں‘ ان ٹرالیوں‘ ان ٹریکٹروں اور ان ٹینکروں کے ہاتھ نہیں لگے۔ ہاتھ لگیں بھی تو کیسے‘ یہ تو مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور مراعات یافتہ طبقے کے ارکان جہازی سائزکی لینڈ کروزروں میں سفر کرتے ہیں۔ ان کی گاڑیوں کے آگے پیچھے اسلحہ بردار گماشتے ہوتے ہیں۔کچھ گاڑیوں پر جھنڈے پھڑ پھڑا رہے ہوتے ہیں۔ ان شاہانہ سواریوں کو دیکھ کر ڈمپر‘ ٹریکٹر‘ ٹرالیاں اور ٹینکر دور ہی سے راستہ تبدیل کر لیتے ہیں۔بھیڑیے شیروں اور چیتوں پر کبھی حملہ نہیں کرتے۔ شیر اور چیتے تو خود چیرنے پھاڑنے والے ہیں اور مراعات یافتہ ہیں۔ بھیڑیے صرف نیل گائیوں‘ غزالوں‘ اور بکریوں پر حملہ کر کے انہیں ہلاک کرتے ہیں۔ڈمپر‘ ٹریکٹر‘ ٹرالیاں اور ٹینکر بھی چھوٹی گاڑیوں‘ موٹر سائیکلوں‘رکشاؤں‘ چنگ چیوں اور ویگنوں کو شکار کرتے ہیں۔ یہ چھوٹی گاڑیاں‘ چنگ چی اور ویگنیں عام لوگوں کی سواریاں ہیں۔ عام لوگوں کو ہلاک کرنے سے کوئی طوفان نہیں اٹھتا۔ کوئی قیامت نہیں آتی۔کسی قانون کے ماتھے پر شکن نہیں پڑتی۔ کوئی طاقت‘ از خود نوٹس نہیں لیتی ؎
نہ مدعی نہ شہادت‘ حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا‘ رزقِ خاک ہوا
صرف ایک دن کا سکور ملاحظہ کیجیے۔ فیصل آباد سمندری روڈ پر آئل ٹینکر نے رکشے کو ٹکر ماری اور اس میں سوار ایک ہی خاندان کے پانچ افراد کو چشم زدن میں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ پولیس کے بیان کی رُو سے ٹینکر کا ڈرائیور تیز رفتاری کا مرتکب ہو رہا تھا۔ پانچ بے گناہ انسانوں کو ہلاک کرنے کے بعد‘ ٹینکر کا ڈرائیور بھاگ گیا۔ دوسری خبر کے مطابق حافظ آباد گوجرانوالہ روڈ پر ڈمپر نے دو مسافر ویگنوں کو ٹکر ماری۔ بارہ انسان مر گئے۔ آٹھ زخمی ہیں۔ یہ حادثہ بھی ڈمپر ڈرائیور کی تیز رفتاری کے باعث پیش آیا۔ مگر اس سے بھی کئی گنا زیادہ دردناک اور بھیانک خبر یہ ہے کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ دونوں نے قیمتی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیاہے۔ دونوں حکمرانوں نے مرے ہوؤں کے لیے جنت کی اور پسماندگان کے لیے صبر کی دعا بھی کی ہے! سوال یہ ہے کہ کیا دعا کے بعدحکمرانوں کی ذمہ دار ی ختم ہو گئی ؟ افسوس اور دعا تو ان سب لوگوں نے کی ہو گی جنہوں نے خبر سنی یا جو تعزیت کے لیے آئے۔ آپ حکمران ہیں۔ آپ نے صرف افسوس اور دعا نہیں‘ سدِ باب بھی کر نا ہے۔ آپ نے دماغ کا اطلاق بھی کرنا ہے۔ ان گاڑی نما عفریتوں کے لیے راستے مخصوص کر نے ہوں گے یا سزائیں سخت کرنا ہوں گی یا وحشی‘ان پڑھ‘ جلاد صفت ڈرائیوروں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا۔ قانون سازی کرنا ہو گی۔
کراچی میں صورتحال ابتر ہے۔ سال ِرواں کے پہلے چار ماہ کے دوران ٹریفک کے جتنے حادثات ہوئے ان میں سے نصف سے زیادہ کے ذمہ دار ڈمپر‘ٹرالر اور ٹینکر تھے۔ 22 مارچ کو شاہراہ فیصل پر ایک شخص اپنی دو چھوٹی بیٹیوں کے ساتھ موٹر سائیکل پر جا رہا تھا کہ ایک سیمنٹ مکسر نے تینوں کو کچل دیا۔ داؤد چورنگی کے پاس ایک واٹر باؤزر‘ یعنی پانی والے ٹینکر کی بریکیں فیل ہو گئیں اور وہ دو موٹر سائیکل سواروں کے اوپر سے گزر گیا۔ کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ بڑی گاڑیاں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ اصل مسئلہ یہ نہیں کہ پولیس کچھ نہیں کرتی! اصل مسئلہ یہ ہے کہ پولیس کچھ کر نہیں سکتی۔ سزائیں نرم ہیں۔ قوانین میں کمزوریاں ہیں۔ایک ڈرائیور اگر ٹریفک قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی کو موت کے گھاٹ اتار تا ہے تو اسے قتلِ عمد سمجھنا چاہیے نہ کہ قتلِ خطا! جو خاندان خون کے آنسو رو رہے ہیں ان کی حالتِ زار سے سب بے نیاز ہیں!
پوری دنیا میں ٹریفک حادثات کی وجہ سے جتنی اموات ہوتی ہیں اور جتنے لوگ زخمی ہوتے ہیں‘ ان کا نوّے فیصد غیر ترقی یافتہ ملکوں میں ہو رہا ہے۔ اس کی متعدد وجوہ ہیں۔ بھاری گاڑیاں کتنا وزن اٹھا سکتی ہیں؟ کیا ان راکھشس نما گاڑیوں کو باقاعدگی سے چیک کیا جاتا ہے کہ یہ روڈ پر آنے کے قابل ہیں یا نہیں ! اگر بریکیں فیل ہو گئیں تو اس کا مطلب ہے کہ گاڑی سڑک پر چلنے کے قابل نہیں تھی! اسے روکنا جس ادارے کے ذمہ تھا اس نے اپنا کام نہیں کیا ! کیوں ؟ لائسنس ایشو کرتے وقت تمام عوامل کو دیکھا جا رہا ہے یا نہیں ؟ ایسے کئی عوامل ہیں جن پر ہمارے ملک میں کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ بڑے شہروں کا یہ حال ہے تو قصبوں اور بستیوں میں جو کچھ سڑکوں پر ہو رہا ہے اس کا اندازہ ہی نہیں لگایا جا سکتا۔گنّا جب چینی کے کارخانوں میں پہنچایا جاتا ہے تو گنے سے بھری ٹرالیاں سڑکوں پر یوں قابض ہوتی ہیں کہ دوسری ٹریفک کو مشکل ہی سے راستہ ملتا ہے۔ آپ نے بھوسہ لدے ٹرک دیکھے ہوں گے جو مضحکہ خیز لگتے ہیں۔ جتنا بھوسہ ٹرک کے اندر ہوتا ہے اتنا یا اس سے زیادہ ٹرک سے باہر‘ دائیں‘ بائیں اور پیچھے‘ ساتھ ساتھ چل رہا ہوتا ہے۔ یوں عملاً ایک ٹرک سڑک پر دو ٹرکوں کی جگہ لیتا ہے۔ ہے کوئی قانون جو ان ٹرکوں کو وزن یا حجم کے اعتبار سے کنٹرول کرے ؟
ٹرکوں کی بہتات کی بھی وجوہ ہیں۔ جنرل ضیاالحق کے عہدِ ہمایونی میں (کہ مسائل کے اکثر کُھرے اُسی طرف جاتے ہیں) ایک باقاعدہ پلاننگ کے تحت بار برداری کا کام ٹرین سے سڑک کی طرف منتقل کیا گیا۔ایسے محکمے تشکیل دیے گئے جو طاقتور اداروں کے سائے میں تھے مگر کام نجی شعبے میں کرتے تھے۔ ان سے سوال جواب کرنا تو دور کی بات‘ ان کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے کوئی دیکھ نہیں سکتا تھا۔سچ پر اس ملک میں ہمیشہ مٹی ڈالی جاتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ وہیں سے پاکستان ریلوے کا زوال شروع ہوا۔ ریلوے کی کمائی کا اصل ذریعہ پوری دنیا میں کارگو ہے یعنی مال گاڑیاں۔ جب مال گاڑیاں بیکار کر دی گئیں تو آمدنی کم اور نقصان زیادہ ہونے لگا۔ نہلے پر دہلا یہ ہوا کہ جو شخص بار برداری کے طاقتور ادارے کا مدار المہام تھا اُسی کو ریلوے کا وزیر لگا دیا گیا! اندازہ لگائیے کیا کیا ہوتا رہا اس ملک کے ساتھ ! اور کیا کیا ہو رہا ہے !!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, May 12, 2022

مرنے کا آسان نسخہ


بہت سے کام ہمارے ملک میں مشکل ہیں؛ تاہم ایک کام آسان ہے۔ حد درجہ آسان! اور وہ ہے مرنا!
بیمار ہیں تو نجی ہسپتال جائیں۔ اتنا نچوڑیں گے کہ آپ کی جان نکل جائے گی۔ سرکاری شفا خانے میں جائیں گے تو عدم توجہی سے مارے جائیں گے۔ سڑک پر گاڑی یا موٹر سائیکل چلائیں گے تو کوئی ڈمپر، کوئی ٹریکٹر‘ کوئی ٹرالی، کوئی پانی کا ٹینکر آپ کو کچل دے گا۔ یہ وہ عفریت ہیں جن پر کوئی پابندی نہیں۔ نیم وحشی، چِٹے ان پڑھ، بے حس ڈرائیور ایسے قاتل ہیں جن پر قتل کی دفعہ ہی نہیں لگتی۔ اس سے بھی زیادہ آسان طریقہ مرنے کا یہ ہے کہ بینک سے کچھ لاکھ روپے نکلوائیں اور چل پڑیں۔ پیدل ہیں یا سواری پر، اس سے کچھ فرق نہیں پڑنے والا۔ بچنے کا کوئی امکان نہیں۔ موت کے سوداگر گھیر چکے۔ اب گولی آپ کے سینے میں اور کرنسی نوٹوں کی تھیلی ان کے ہاتھوں میں ہو گی۔ محمد حنیف کے ساتھ یہی ہوا۔ تیس سال سے اخبار فروشی کرنے والے حنیف عباسی کو ڈاکوئوں نے مار ڈالا۔ بینک سے بیس لاکھ کی رقم نکالنے کی حماقت ایک اور شہری نے کی۔ ڈاکو اسے لوٹ رہے تھے کہ حنیف نے ڈاکوئوں پر اینٹوں سے حملہ کر دیا۔ بے وقوف شہری کے تو صرف بیس لاکھ گئے۔ حنیف کی جان چلی گئی۔ بچے اس کے یتیم ہو گئے۔ بیوی اس کی بیوہ ہو گئی۔
ہم کس زمانے میں رہ رہے ہیں؟ دنیا کریڈٹ کارڈ سے بھی آگے نکل چکی۔ ہم ابھی تک کرنسی نوٹ گن رہے ہیں اور نوٹوں کی تھدّیاں تھیلوں میں ڈال کر گھوم پھر رہے ہیں۔ خدا کے بندے! بیس لاکھ اگر کسی کو دینے تھے تو آن لائن ٹرانسفر کرتے۔ ایسا نہیں کر سکتے تھے تو بینک کا چیک دیتے۔ چلو پچاس ہزار نکلوا لو۔ ایک لاکھ نکلوا لو مگر بیس لاکھ؟ یہ علائوالدین خلجی کا دور ہے نہ شیر شاہ سوری کا‘ نہ ہی انگریز بہادر کا کہ کوئی مجرم بچ نہیں سکے گا۔ یہاں تو ایک ایک رات میں بیسیوں ڈاکے پڑ رہے ہیں۔ کار چوری عروج پر ہے۔ گھروں میں کیمرے لگانے کا کام انڈسٹری بن چکا ہے۔ سکیورٹی کمپنیاں الارم لگا کر اربوں کما رہی ہیں۔ گاڑیوں کی انشورنس اور ٹریکر کا سلسلہ آسمان تک پہنچ چکا ہے۔ جس معاشرے میں پانی کے کولر کے ساتھ گلاس کو زنجیر سے باندھنا پڑتا ہے اور راتوں کو کئی بار اٹھ اٹھ کر دروازے چَیک کرنے پڑتے ہیں وہاں آپ بیس لاکھ روپے نقد ہاتھ میں لے کر سڑک پر خراماں خراماں چل رہے ہیں۔ آپ کا دماغ خراب ہے اور آپ کی قسمت بھی! ہمارے ایک قریبی دوست نے چند ماہ پہلے گاڑی بیچی۔ خریدنے والے صاحب روپوں سے بھرا بیگ لائے اور کہا کہ گن لیجیے۔ ہمارے دوست نے بڑے ٹھسے سے جواب دیا کہ اس کام کے لیے میں نے بینک کو ملازم رکھا ہوا ہے۔ یہ میرا اکاؤنٹ نمبر ہے۔ اس میں جمع کرا دیجیے۔ بینک والے خود ہی گن لیں گے۔ وہ جمع کرا آئے تو انہوں نے فون کر کے بینک سے تصدیق بھی کر لی۔ وہ جو غالب نے کہا تھا: 'رہا کھٹکا نہ چوری کا، دعا دیتا ہوں رہزن کو!‘ تو بینک کو دعا دیجیے کہ آپ نے کسی کو ادائیگی کرنی ہے یا کسی سے رقم لینی ہے، دونوں صورتوں میں گننے کا کام بینک ہی کرے گا!
جن ملکوں میں چوریاں اور ڈاکے کم ہیں، جہاں گھروں کے گیٹ ہی نہیں، وہاں بھی کرنسی نوٹ معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ سو ڈالر کا نوٹ دکان دار کو دیں تو حیران ہوتا ہے۔ پلاسٹک روپیہ (plastic money) کا دور دورہ ہے۔ تین ڈالر کی شے خریدنی ہے یا تین سو ڈالر کی، کارڈ مشین پر رکھیے، کوئی دستخط نہیں، کوئی پِن کوڈ نہیں‘ کوئی پاس ورڈ نہیں‘ بلکہ اب تو کریڈٹ کارڈ کی بھی ضرورت نہیں۔ متعلقہ اَیپ اور فنگر پرنٹس کی مدد سے کریڈٹ کارڈ کو موبائل فون میں ڈالیے۔ اب دکاندار کی مشین پر کریڈٹ کارڈ نہ رکھیے۔ کریڈٹ کارڈ کا جو عکس موبائل فون میں ہے، اُس عکس کو مشین پر رکھیے۔ دوسرے لفظوں میں کریڈٹ کارڈ کو جیب میں رکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔
بجلی، گیس، پانی، ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کے بل آپ گھر بیٹھے، آن لائن ادا کر سکتے ہیں۔ جس بینک میں بھی آپ کا اکاؤنٹ ہے، وہ بینک اپنی ویب سائٹ، یا ایپ پر، آپ کو بل ادا کرنے کی سہولت مہیا کرتا ہے۔ سودا سلف بھی کریڈٹ کارڈ پر مل جاتا ہے۔ اب تو مرغیاں بیچنے والوں نے بھی کریڈٹ کارڈ کی مشین رکھی ہوئی ہے۔ پارچہ فروشوں نے بھی‘ سپر سٹوروں نے بھی، ہسپتالوں، لیبارٹریوں اور دوا فروشوں نے بھی! نقد رقم جیب میں یا گھر رکھنی بھی ہے تو کم سے کم رکھنی چاہیے۔ زمانہ بدلتا ہے تو اس کے اطوار بھی بدل جاتے ہیں۔ کبھی بارٹر ٹریڈ تھی‘ یعنی مال کے بدلے مال۔ گاؤں میں ہماری نسل نے گندم دے کر دکانوں سے سودا خریدا ہے۔ یعنی گندم کو روپے کا درجہ حاصل تھا۔ پھر سکے آئے۔ پھر کرنسی نوٹ! اس اثنا میں ٹریولر چیک بھی روپے کا کردار ادا کرتے رہے۔ اب پلاسٹک منی کا دور بھی آخری ہچکی لے رہا ہے۔ آن لائن سودا خریدا جانے لگا ہے یا موبائل فون کے ذریعے! دو تین منٹ کے اندر اندر آپ رقم کسی بھی بینک اکاؤنٹ میں جمع کرا سکتے ہیں۔ اے ٹی ایم پر انحصار بھی کم ہونے لگا ہے۔
سازشی تھیوریاں ہمارا من بھاتا کھاجا ہیں۔ اس معاملے میں بھی سازشی تھیوری میدان میں اتر چکی ہے اور بھنگڑا ڈال رہی ہے۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ کریڈٹ کارڈ کے ذریعے خریداری کریں گے تو امریکہ میں ہر شے ریکارڈ پر آ جائے گی۔ یہ امریکی سازش ہے۔ اس طرح ہماری قوت خرید انہیں معلوم ہو جائے گی۔ نہیں معلوم یہ مؤقف کتنا درست ہے‘ مگر بات یہ ہے کہ اگر امریکہ کو معلوم ہو بھی جائے کہ جمیل خان نے یا عبدالکریم نے یا اظہارالحق نے گھی کا ڈبہ، چائے کی پتی، کپڑے دھونے کا صابن، آٹا اور دالیں خریدی ہیں تو کیا ہو جائے گا؟ اگر امریکہ اس فکر میں گُھلنا شروع ہو گیا ہے کہ جمیل خان یا عبدالکریم یا اظہارالحق کی قوت خرید کیا ہے تو پھر اسے زوال سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ وہی بات جو دوسری جنگ عظیم میں فوجی بھرتی کے حوالے سے عام ہوئی تھی کہ اگر ملکہ برطانیہ اپنے دفاع کے لیے گامے کمہار کے بیٹے کی محتاج ہو گئی ہے تو پھر اسے ہٹلر سے صلح ہی کر لینی چاہیے۔ سازشی تھیوریاں ہمیں یوں بھی بہت راس آتی ہیں۔ سابق مشرقی پاکستان میں مولانا بھاشانی ایک عوامی لیڈر تھے۔ بائیں بازو کی ترجمانی کرتے تھے۔ ہر خراب شے کا الزام امریکہ پر لگاتے تھے۔ ان کے بارے میں لطیفہ مشہور تھا کہ کسی نے انہیں بتایا کہ ان کے ہاں، یعنی مولانا بھاشانی کے ہاں، بچے کی ولادت ہوئی ہے۔ فوری ردّ عمل یہ تھا کہ امریکہ کی شرارت ہے۔
ملک کی اکثریت کا تعلق گاؤں سے اور چھوٹے قصبوں سے ہے۔ وہاں پلاسٹک روپیہ تو دورکی بات ہے، ابھی عام بینکاری کا رواج بھی نہیں پڑا۔ پورے پورے گاؤں ایسے ہیں جہاں کسی ایک شخص کا بھی کسی بینک میں اکاؤنٹ نہیں۔ قصور دونوں فریقوں کا ہے۔ بینکوں نے اس طرف توجہ نہیں کی۔ پھر، گاؤں گاؤں برانچ کھولنا ان کے لیے نفع بخش بھی نہیں۔ دوسری طرف گاؤں کے مکینوں کو بینک اکاؤنٹ کھولنے کا شوق ہے نہ ضرورت۔ یوں بھی گاؤں میں سکیورٹی، شہروں کی نسبت زیادہ ہے۔ اجنبی عناصر کا وہاں جا کر مذموم ارادوں میں کامیاب ہونا آسان نہیں۔ ڈاکے، کار چوری، اغوا کا کاروبار شہروں ہی میں پھلتا پھولتا ہے۔

بشکریہ روزنامہ دنیا 

Monday, May 09, 2022

قوموں کی تقدیر وہ مردِ درویش



یادش بخیر ، مولانا طارق جمیل کا ایک مختصر سا انٹرویو ایک نجی   ٹیلی ویژن چینل  پر نشر ہؤا۔  اسی سے ملتا جلتا بیان اخبارات میں بھی شائع ہؤا ہے۔ ( روزنامہ دنیا ۲۷۔اپریل ۲۰۲۲ ء )۔   اس بیان میں انہوں نے مندرجہ ذیل باتیں کی ہیں۔  

۱۔۔ یہ کہ ان کا تعلق تبلیغی جماعت سے ہے۔
۲۔۔  یہ کہ وہ سیاست میں بالکل نہیں ہیں۔
۳۔۔ یہ کہ ریاست مدینہ کا تصور  عمران خان نے دیا ۔
۴۔۔یہ کہ ریاست مدینہ کو بنانا ہم نے ، یعنی عوام نے، تھا۔ جھوٹا جھوٹ چھوڑتا، رشوت والا رشوت چھوڑتا، دھوکہ دینے والا دھوکہ چھوڑتا، ظلم کرنے والا ظلم چھوڑتا، فحاشی کرنے والافحاشی چھوڑتا، بدکاری کرنے والا بدکاری چھوڑتا ۔ لڑنے والے قتل و غارت کی دشمنیاں ختم کر کے  صلح کرتے۔اپنانا تو معاشرے نے تھا۔ معاشرے نے یہ تصور قبول نہیں کیا تو عمران خان کا اس میں کوئی قصور نہیں۔
۵۔۔ یہ کہ تحائف کے حوالے سے  مولانا کو   پاکستانی قا نون کے بارے میں پتہ نہیں ہے۔ 

مولانا کے یہ ارشادات پڑھ کر اور سن کر ہمارے  نارسا  ذہن میں کچھ سوالات ابھرے ہیں جو ہم اپنے قارئین کے ساتھ شئیر کرنا چاہتے ہیں۔ اول یہ کہ مولانا کا تعلق، بقول ان کے ،  تبلیغی جماعت سے ہے۔ جہاں تک ہماری ناقص معلومات کا تعلق ہے ، تبلیغی جماعت کے بزرگ کسی حکمران کے ہاں کبھی حاضری نہیں دیتے جبکہ  مولانا اکثرو بیشتر حکمرانوں کے ہاں تشریف لے جاتے ہیں۔ابھی چند دن پہلے، وہ ایوان صدر بھی تشریف لے گئے جہاں انہوں نے صدر صاحب سے ملاقات کی۔  جس “ شبِ دعا”  میں آپ نے شرکت فرمائی وہ بھی  کسی مسجد میں منعقد نہیں ہوئی تھی۔ وہ ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ کے گھر میں منعقد ہوئی تھی اور شرکت کرنے والے صرف اُسی پارٹی سے تعلق رکھتے تھے ۔سوال یہ ہے کہ کیا تبلیغی   جماعت کی پالیسی اس ضمن میں  بدل گئی ہے؟ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جو کچھ مولانا ایک سیاسی جماعت اور اس کے رہنما کے بارے میں  کہتے ہیں کیا وہ جماعت کی طرف سے کہتے ہیں ؟ لگتا ہے کہ وہ اس ضمن میں جماعت ہی کی نمائندگی کرتے ہیں جبھی انہوں نے وضاحت بھی کی ہے کہ ان کا تعلق  تبلیغی جماعت سے ہے۔ اس سے ہم یہ نتیجہ بھی اخذکرنے پر مجبور ہیں کہ وہ  حکمرانوں کے ہاں حاضری، تبلیغی جماعت کے بزرگوں  کی اجازت سے دیتے ہیں۔ دوم، بقول ان کے وہ سیاست میں بالکل نہیں ہیں۔ عمران خان ایک سیاسی جماعت کے رہنما ہیں۔ مولانا خود بھی ان کی حمایت کرتے ہیں اور عوام کو بھی اس کی تلقین کرتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو غیر سیاسی کس طرح کہہ سکتے ہیں؟ اگر ان کا موقف یہ ہے کہ یہ حمایت  وہ ریاست مدینہ کے حوالے سے کر رہے ہیں تو ایک زیادہ دلچسپ سوال  پیدا ہوتا ہے کہ  ملک بھر میں،  کسی بھی  مسلک کے،  کسی اور مشہور  عالم نے عمران خان کی   حمایت نہیں کی ۔ یہ راز صرف مولانا ہی پر کیوں کھُلا کہ  خان صاحب کا ریاست مدینہ کے حوالے سے  دعوی سچائی پر مشتمل ہے اور    محض مذہب کا  سیاسی  استعمال نہیں  ؟ 

سوم۔  یہ بات کہ   ریاست مدینہ کا تصور  عمران خان نے دیا ، بہت عجیب ہے اور امر واقعہ کے خلاف !۔ تاریخ کے ایک عام طالب علم کو بھی معلوم ہے کہ ریاست مدینہ کا تصور اُسی مقدس ہستی نے دیا جس نے ریاست مدینہ کی بنیاد رکھی۔ آپ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ  عمران خان ریاست مدینہ کی، بزعمِ خود، پیروی کرنا چاہتے ہیں۔چہارم ، اس سے بھی زیادہ ناقابل رشک  موقف یہ ہے کہ ریاست مدینہ کے قیام کی ذمہ داری عوام پر تھی، حکمران پر یا حکمران جماعت پر نہیں تھی۔اگرریاست مدینہ صرف عوام کے جھوٹ، فریب کاری اور دیگر برائیاں چھوڑنے سے بننا تھی  تو مکہ سے مدینہ ہجرت کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ یہ سب کام تو مکہ میں بھی ہو سکتے تھے۔ ریاست مدینہ میں حکمران سب سے پہلے معاشرے کے لیے نمونہ بنے۔ انصاف قائم کیا۔ راتوں کو جاگ جاگ کر، گلیوں میں پھِر پھِر کر ، عوام کی حالت کا  خود  براہ راست مشاہدہ کیا۔ حکمران اگر دن کے ایک بجے ہیلی کاپٹر پر سوار ہر کر دفتر پہنچے اور شام کو ہیلی کاپٹر پر سوار ہو کر تین سو کنال کے گھر میں واپس جا بیٹھے اور ریاست مدینہ کے قیام کی  تمام ذمہ داری عوام پر یا معاشرے پر ہو تو پھر حکمران کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ مولانا نے تو حکمران کو سو فی صد بری الذمہ قرار دے دیا۔ 

حضرت مولانا سے بہتر کون جانتا ہے کہ تبلیغ میں امر بالمعروف کے ساتھ نہی عن المنکر کا بھی وجود لازم ہے۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد جب حکمران جماعت نے ریاست مدینہ کا نام لیا اور جب مولانا نے حمایت کی اور عوام کو حمایت کی تلقین کی تو اس کے بعد اگر نہی عن المنکر کا فرض ادا کیا جاتا تو   حالات اُس نہج پر نہ پہنچتے جس پر پہنچے۔ جب عثمان بزدار کو تعینات کیا گیا اور  تحریک انصاف کے ارکان سمیت پورے ملک نے تعجب اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا ، جب ادویات کی قیمتیں کئی سو گنا بڑھ گئیں اور ذمہ داروں کو سزا نہ دی گئی، جب سعودی عرب، امریکہ اور برطانیہ سے دوستوں  اور فنڈ ریزنگ کرنے والوں کو بلا بلا کر اعلی عہدوں پر بٹھا یا گیا، جب انتقام کی چکی میں ایک ایک مخالف کو پیسا جاتا رہا،جب ہاتھ ملانے سے انکار کر کے ، ہاتھ منہ پر پھیرا جاتا رہا کہ چھوڑوں گا نہیں تو نہی عن المنکر کا فرض کیوں نہ ادا کیا  گیا؟ ہاں  اگر ریاست مدینہ کی تفہیم ہی یہ ہو کہ سارا کام معاشرے نے کرنا ہے اور حکمران نے  کچھ بھی نہیں کرنا  تو پھر حکمران کو منکرات پر روکنے اور ٹوکنے کی ضرورت ہی کیا ہے!! ؏ 

بجا کہتے ہو سچ کہتے ہو  پھر کہیوکہ ہاں کیوں ہو !! 

رہی یہ بات کہ  تحائف یا  توشہ خانے کے حوالے سے پاکستانی  قوانین کا علم  ہی نہیں تو اسے تجاہل عارفانہ کے علاوہ کیا کہا سکتا ہے ! یہ قوانین تو اسی دن بن گئے تھے جب پوچھا گیا تھا کہ  حکمران کا کرتا کیسے بنا؟کیا امیر المومنین کا جواب یہ تھا کہ یہ سیکرٹ ہے اور بتایا نہیں جا سکتا؟ میاں نواز شریف کا یہی  جواب تھا۔ اگر عمران خان نے بھی یہی جواب دینا تھا  تو پھر ریاست مدینہ کی پیروی کہاں گئی ؟ نہی عن المنکر کا فریضہ کدھر گُم ہو گیا؟

بہت کچھ اور بھی عرض کرنے کوہے مگر حدِ ادب  مانع ہے۔ بس اتنی گذارش ہے کہ لوگ سمجھدار ہیں۔ پڑھے لکھے ہیں۔ ریاست مدینہ کی حقیقی تاریخ سے بھی آگاہ ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ ریاست مدینہ کی تعریف کیا ہے۔انہیں معلوم ہے  کہ  اہل بیت عظام سے لے کر امام ابو حنیفہ، امام مالک اور امام احمد بن حنبل تک اور مجدد الف ثانی تک ، اہل حق نے کیا کیا تکلیفیں جھیلیں اور کیا کیا سزائیں برداشت کیں ! اگر خلق خدا ادب کی وجہ سے یا مروت کے سبب کچھ نہیں کہتی اور مصلحتا” منہ دوسری طرف کر لیتی ہے  تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ حقیقت سے آگاہ نہیں ! اختلاف تو اس بات پر ہے کہ مُردے سنتے اور دیکھتے ہیں یا نہیں؟  جو لوگ زندہ ہیں ان کے دیکھنے، سننے اور جاننے پر تو کوئی اختلاف نہیں۔ یوں بھی اصل بات علامہ   اقبال  کر گئے ہیں ؎

قوموں   کی   تقدیر   وہ   مردِ  درویش 

جس نے نہ ڈھونڈی سلطاں کی درگاہ 

…………………………………………………………………

Tuesday, May 03, 2022

میرے ماں باپ قربان

یہ تو اپنی اپنی قسمت ہے!

کوئی حرمت ِرسول پر جان قربان کر دیتا ہے اور کسی کو اتنا کہنے کی بھی توفیق نہیں ہوتی کہ مسجد ِنبوی میں شورو غوغا اور دنگا فساد کرنے والوں نے برا کیا۔ جو اسلام کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں وہ اسی طرح بے نقاب ہوتے ہیں۔
لیکن اللہ اور اس کے رسول کو ایسے لوگوں کی ضرورت ہی نہیں! اپنے رسول کی حرمت کی ذمہ داری اللہ تعالی نے خود اٹھائی ہوئی ہے۔دنیا میں سب سے زیادہ رکھا جانے والا نام محمد ہے۔ کرۂ ارض پر ‘ ہر وقت‘ کسی نہ کسی جگہ اشہد ان محمد اًرسول اللہ ضرور کہا جا رہا ہے۔ اگر امریکہ میں صبح کی نماز پڑھی جارہی ہے تو مشرقِ وسطیٰ میں اُس وقت ظہر کی اذانیں ہو رہی ہیں۔ فجی اور آسٹریلیا میں عشا کی نماز کے دوران لوگ السلام علیک ایہا النبی ( سلامتی ہو آپ پر اے نبی ) کہہ رہے ہوتے ہیں تو جنوبی ایشیا میں اس وقت عصر کی نماز میں اللہم صل علیٰ محمد کہہ کر درود بھیجا جا رہا ہوتا ہے۔
ہر قبر اور ہر چوکھٹ پر سجدہ ریز ہونے والوں کو حرمت رسول کا احساس بھی نہیں ہو سکتا۔یہ تو توفیق کی بات ہے اور توفیق دینے والابندوں کو خوب پہچانتا ہے۔اس نے ترکان عثمان کو توفیق دی اور انہوں نے دنیا کو نمونہ بن کر دکھا دیا کہ اُس جگہ کی عزت کیسے کرنی ہے جہاں اللہ کے آخری رسول تشریف فرما ہیں۔ مسجد نبوی کی توسیع اور تجدید کے دوران جو ادب عثمانی ترکوں نے کر کے دکھایا وہ ضرب المثل بن چکا ہے۔ معمار‘ نقاش‘ شیشہ گر‘ سنگ تراش اور دیگر کاریگر تیار کرنے میں انہیں پچیس سال لگ گئے۔ یہ ایک طویل داستان ہے۔ جن جنگلوں سے لکڑی کاٹی انہیں اس سے پہلے کسی نے چھوا نہیں تھا۔ جن کانوں سے پتھر اور مر مر نکالا انہیں سر بمہر کر دیا۔ سنگ تراشی اور ہر وہ کام جس سے شور ہو سکتا تھا ‘ مدینہ منورہ کی حدود سے باہر کیا جاتا۔ گرد سے بچانے کے لیے جالیوں کو کپڑوں میں لپیٹ دیا گیا۔پتھر کو دوبارہ تراشنا پڑتا تو دوبارہ شہر سے باہر بھیجا جاتا! ایسی محبت‘ ایسی عزت‘ اتنا ادب !! اللہ اللہ! قیامت تک ترکوں کا یہ کارنامہ زندہ رہے گا۔ جن کی زبان سے خاتم النبیین کا لفظ درست نہیں نکل سکتا ‘ انہیں ایسی توفیقات کہاں!
معروف محقق اور سکالر حافظ محمود شیرانی کے فرزند‘ مشہور شاعر‘ اختر شیرانی رندِ بلا نوش تھے۔ ان کے حوالے سے شورش کاشمیر ی کا لکھا ہوا یہ واقعہ مشہور ہے: ''عرب ہوٹل میں ایک دفعہ بعض کمیونسٹ نوجوانوں نے جو بلا کے ذہین تھے‘ اختر شیرانی سے مختلف موضوعات پر بحث چھیڑ دی۔ وہ اس وقت تک شراب کی دو بوتلیں چڑھا چکے تھے اور ہوش قائم نہ تھے۔ تمام بدن پر رعشہ طاری تھا‘ حتیٰ کہ الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر زبان سے نکل رہے تھے۔ ادھر اَنا کا شروع سے یہ حال تھا کہ اپنے سوا کسی کو نہیں مانتے تھے۔ جانے کیا سوال زیر بحث تھا۔ فرمایا: مسلمانوں میں تین شخص اب تک ایسے پیدا ہوئے ہیں جو ہر اعتبار سے جینئس بھی ہیں اور کامل الفن بھی۔ پہلے ابوالفضل‘ دوسرے اسد اللہ خاں غالب‘ تیسرے ابوالکلام آزاد۔ شاعر وہ شاذ ہی کسی کو مانتے تھے۔ ہمعصر شعرا میں جو واقعی شاعر تھا‘ اسے بھی اپنے سے کمتر خیال کرتے تھے۔ کمیونسٹ نوجوانوں نے فیض کے بارے میں سوال کیا‘ طرح دے گئے۔ جوش کے متعلق پوچھا‘ کہا: وہ ناظم ہے۔ سردار جعفری کا نام لیا‘ مسکرا دیے۔ فراق کا ذکر چھیڑا‘ ہونہہ ہاں کر کے چپ ہو گئے۔ ساحر لدھیانوی کی بات کی‘ سامنے بیٹھا تھا۔ فرمایا‘ مشق کرنے دو۔ ظہیر کاشمیری کے بارے میں کہا: ''نام سنا ہے‘‘۔ احمد ندیم قاسمی؟ فرمایا ''میرا شاگرد ہے‘‘۔ نوجوانوں نے دیکھا کہ ترقی پسند تحریک ہی کے منکر ہیں‘ تو بحث کا رخ پھیر دیا۔
''حضرت! فلاں پیغمبر کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘
آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ نشہ میں چور تھے۔ زبان پر قابو نہیں تھا‘ لیکن چونک کر فرمایا: ''کیا بکتے ہو؟‘‘۔''ادب و انشا یا شعر و شاعری کی بات کرو۔‘‘ کسی نے فوراً ہی افلاطون کی طرف رخ موڑ دیا۔ ''ان کے مکالمات کی بابت کیا خیال ہے؟‘‘ ارسطو اور سقراط کے بارے میں سوال کیا‘ مگر اس وقت وہ اپنے موڈ میں تھے‘ فرمایا: ''اجی پوچھو یہ کہ ہم کون ہیں۔ یہ افلاطون‘ ارسطو یا سقراط آج ہوتے‘ تو ہمارے حلقہ میں بیٹھتے‘ ہمیں ان سے کیا؟ کہ ان کے بارے میں رائے دیتے پھریں۔‘‘ اس لڑکھڑاتی ہوئی گفتگو سے فائدہ اٹھا کر ایک قادیانی نوجوان نے سوال کیا۔
''آپ کا محمدﷺ کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘
اللہ اللہ! ایک شرابی‘ جیسے کوئی برق تڑپی ہو‘ بلور کا گلاس اٹھایا اور اس کے سر پر دے مارا۔
''بدبخت ایک عاصی سے سوال کرتا ہے۔ ایک سیاہ رُو سے پوچھتا ہے! ایک فاسق سے کیا کہلوانا چاہتا ہے؟‘‘
تمام جسم کانپ رہا تھا۔ ایکا ایکی رونا شروع کر دیا۔ گھگی بندھ گئی ''تم نے اس حالت میں یہ نام کیوں لیا؟ تمہیں جرأت کیسے ہوئی؟ گستاخ! بے ادب!!
باخدا دیوانہ باش و با محمدﷺ ہوشیار!
اس شریر سوال پر توبہ کرو‘ تمہارا خبث باطن سمجھتا ہوں۔ خود قہر و غضب کی تصویر ہو گئے۔ اس قادیانی کو محفل سے اٹھوا دیا پھر خود اُٹھ کر چلے گئے۔ تمام رات روتے رہے۔ کہتے تھے: یہ بدبخت اتنے نڈر ہو گئے ہیں کہ ہمارا آخری سہارا بھی ہم سے چھین لینا چاہتے ہیں‘ میں گنہگار ضرور ہوں لیکن یہ مجھے کافر بنانا چاہتاہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔‘‘
صرف نعت کا سوچیں تو انسانی دماغ سن ہو کر رہ جاتا ہے۔ دربارِ نبوت کے شاعر حضرت حسان بن ثابتؓ سے لے کر آج تک کتنے شاعروں نے مدحِ رسول میں عرض گزاری کی ہو گی! کتنی زبانوں میں!!اور کتنے زمانوں میں ! شمار کا تو ذکر ہی کیا‘ تصور ہی محال ہے۔ کتنے ہی کلمات ہیں جو ان گنت لوگوں کی زبان سے ادا ہوئے اور ادا ہو رہے ہیں۔ صرف سعدی کے ان چار مصرعوں کا ہی سوچئے۔ بلغ العلیٰ بکمالہ‘ کشف الدجیٰ بجمالہ‘ حسنت جمیع خصالہ‘ صلّو علیہ وآلہ
کب سے پڑھے جا رہے ہیں اور پڑھے جاتے رہیں گے ! جامی کی شہرہ آفاق نعت جس کا ڈکشن ہی نرالا ہے اور اسلوب ہی اچھوتا ہے‘ کتنوں کو رُلا چکی ! اور آنے والے زمانوں میں کتنے دلوں میں چھید کرے گی ! کالم کا دامن تنگ ہے۔ اصل فارسی اشعار کے بجائے صرف ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔'' دردِ فراق سے دنیا کی جان نکلنے والی ہے! رحم ! یا نبیَ اللہ ! رحم! ہماری شبِ غم کو دن بنادیجیے۔آپ کے چہرے ہی سے ہمارا دن ظفر یاب ہو سکتا ہے۔ حضور! یمنی چادر سے اپنا مبارک سر باہر نکالیے۔آپ کا روئے مبارک زندگی کی صبح ہے۔ خوشبودار ملبوس زیبِ تن فرمائیے! مبارک سر پر کافوری عمامہ رکھئے۔طائف کے بہترین چرم سے بنے ہوئے جوتے پہنیے۔ ان کے تسمے ہماری زندگیوں کے دھاگے سے بنائیے۔پھر اپنے حجرہ مبارک سے صحنِ حرم میں قدم رنجہ فرمائیے۔ جو آپ کے راستے کی خاک چومتے ہیں ان کے سر پر قدم رکھیے۔ آپ ابرِ رحمت ہیں! کیا ہی اچھا ہو اگر ان پر نگاہِ کرم ہو جائے جن کے ہونٹ خشک ہیں۔
چمگادڑ کے نہ دیکھ سکنے سے سورج کا کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ آفتابِ رسالت ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔مسجد نبوی دست بستہ ‘ پُرنم ‘ زائرین سے ہمیشہ چھلکتی رہے گی! جہاں لفظوں سے زیادہ آنسو کام آتے ہیں !

Monday, May 02, 2022

با محمدﷺ ہوشیار!!


بال کھول لو، پٹکے کمر کے ساتھ باندھ لو۔ پھر سینہ کوبی کرو۔ یہاں تک کہ تم گر جاؤ اور جان، جان آفرین کے سپرد کر دو۔ اس لیے کہ جینے کا جواز ختم ہو چکا!
اس کائنات میں جتنے جہان ہیں اور جتنے زمانے ہیں اور جتنی دنیائیں ہیں اور جتنی زمینیں ہیں اور جتنے آسمان ہیں اور جتنی کہکشائیں ہیں اور جتنے ستارے ہیں اور جتنے سیارے ہیں، اور جتنے شمسی نظام ہیں اور جو آئندہ بھی اس ہر لحظہ پھیلتی کائنات میں پیدا ہوں گے ان سب میں مقدس ترین مقام وہ ہے جہاں اللہ کے آخری رسول محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرما رہے ہیں‘ اور وہ شہر مقدس ترین ہے جہاں آپ اپنا وطن چھوڑ کر تشریف لائے اور جو آپ کو اتنا عزیز تھا کہ تا دمِ آخر اس سے جدا نہ ہوئے۔ کیا شہر ہے جہاں کے کنکر موتی ہیں، جہاں کے درخت آسمانی ہیں جس کی مٹی بادشاہوں اور ولیوں اور عالموں کی آنکھ کا سرمہ ہے۔ روضۂ رسول تو روضۂ رسول ہے، مسجدِ نبوی تو مسجدِ نبوی ہے، مدینہ کی تو عام گلی بھی ادب کا اور خاموشی کا اور شرافت کا تقاضا کرتی ہے۔
کاش تم دیکھ سکتے کہ فرشتے وہاں کس حالت میں حاضری دیتے ہیں! اس کائنات کا مالک، خود، ہاں خود، جس ہستی پر درود بھیجتا ہے اور اس کے لاکھوں‘ کروڑوں فرشتے جس پر درود بھیجتے ہیں اور جس سے موت کا فرشتہ اجازت لے کر اپنا فرض ادا کرتا ہے۔ اور جس پر ہر وقت، ہر لحظہ کروڑوں لوگ سلام بھیجتے ہیں، وہ کھربوں لوگ بھی جو دنیا سے چلے گئے اور وہ لا تعداد انسان بھی جو قیامت تک آئیں گے، اُس ہستی کی عظمت کا اور تقدیس کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے۔
تیرہ بختو! تم سے تو لکڑی کا وہ بے جان ستون ہزار گنا افضل ہے جو اُس وقت دھاڑیں مار مار کر رویا جب اس کے ساتھ ٹیک لگا کر خطبہ دینے کے بجائے اللہ کے رسولﷺ منبر پر تشریف لے گئے۔ تم سے تو وہ کنکر لاکھ درجہ بلند مرتبہ ہیں جنہوں نے آپﷺ کی حقانیت ثابت کرنے کے لیے کلمہ پڑھا۔ افسوس صد افسوس! تمہیں اندازہ ہی نہیں کہ تم نے کیا کر دیا۔ ہیہات! ہیہات! تم نے اُس ہستی کے سامنے شور و غوغا کیا جس کے سامنے ابوبکرؓ و عمرؓ اور عثمانؓ و علیؓ جیسے بے مثال انسان دبی زبان میں بات کرتے تھے۔ تم نے اپنا سب کچھ کھو دیا۔ تم گڑھے میں گر گئے۔ تم اگر تائب نہ ہوئے تو اس زمین کے اوپر اور اس آسمان کے نیچے تمہارے لیے کوئی جائے پناہ نہیں! تم نے اُس پروردگار کو ناراض کیا جو اپنے محبوب کی شان میں ایک رمق بھر، ایک رتی جتنی، ایک قطمیر کے برابر گستاخی نہیں برداشت کرتا۔ بد نصیبو! تم اس مقدمے میں پھنس چکے جس کا مدعی، کوئی اور نہیں، خود خداوندِ قدوس ہے! آج تک، ان ساری صدیوں میں، ان سارے برسوں میں، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی گستاخ دنیا ہی میں نشانِ عبرت نہ بنا ہو! آخرت تو پھر آخرت ہے! وہاں کا عذاب تو شدید تر ہے!
کسی امام، کسی عالم، کسی مجتہد، کسی فقیہ، کسی مفسر، کسی محدث کسی مولانا، کسی آیت اللہ کو اس امر میں کوئی شک، کوئی اشتباہ نہیں اور سب اس پر متفق ہیں کہ اگر حرمتِ رسول جان سے بڑھ کر عزیز نہیں، اگر جناب کی ذات اقدس اپنی ماں اور اپنے باپ سے بڑھ کر پیاری نہیں تو ہزار سال کیا، ایک لاکھ سال کی عبادت، سجدے، دعائیں، روزے، حج، عمرے، زکوٰۃ، سب بیکار ہے! جس مسجد میں پلکوں سے جھاڑو دینا خوش قسمتی کی انتہا ہے، وہاں تم نے دنیا کی آلائش بکھیر دی! فرشتے حیران ہیں کہ پتھر برسانے کا حکم کیوں نہیں مل رہا! آندھیاں، زلزلے، طوفان، سیلاب، سب پا بہ رکاب ہیں کہ حکم ملے تو گستاخوں کو گرے ہوئے درختوں کے تنوں کی طرح بے جان کر دیں! اس کائنات کا ہر ذرہ افسردہ ہے! ایک ایک پھول، گھاس کا ایک ایک تنکا پژمردہ ہے۔ عناصر دھرتی الٹنے کو بے تاب ہیں! رعد اور برق فریاد کناں ہیں کہ انہیں کڑکنے اور جلانے کے لیے کیوں نہیں کہا جا رہا! تم نے غضب ڈھایا۔ اپنے آپ پر ظلم کیا۔ تم سے گناہ صادر ہوا! مگر اس سے بھی بد تر یہ ہوا کہ تم نے گناہ پر اصرار کیا۔ اس کی توجیہات اور تاویلات پیش کیں! آئیں بائیں شائیں سے کام لیا! گناہ پر اصرار کر کے، گناہ کو بغاوت میں بدل دیا۔ کیا تم نہیں جانتے کہ ساری عزت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے! تم کون ہو؟ تمہاری حیثیت کیا ہے؟ اب تم بھی انتظار کرو! ہم بھی انتظار کرتے ہیں! ہم دیکھتے ہیں تمہارے سرپرست تمہیں کب تک بچاتے ہیں! اللہ تدبیریں کرنے والے تمام لوگوں سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے! مچھر سے لے کر پہاڑ تک، کچھ بھی، کوئی بھی، کسی بھی وقت، سزا نافذ کر سکتا ہے! اپنے محبوب کی شان میں گستاخی کا ردّ عمل دینے کے لیے پروردگار، قیامت کا انتظار نہیں کرتا! اب تمہارے لیے ہر دن قیامت کا دن ہے! تمہارے لیے ہر رات انتظار کی رات ہے۔ بہت جلد تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ تمہارے دل تمہارے خلاف بغاوت کر رہے ہیں اور تمہارے دماغ تمہارا ساتھ دینے سے انکار کر رہے ہیں۔
ایودھیا میں مسجد کی چھت پر چڑھ کر اس کے گنبد پر حملہ کرنے والا پہلا شخص بلبیر سنگھ تھا۔ جب وہ یہ کارنامہ سرانجام دے کر اپنے شہر پانی پت لوٹا تو اسے ہیرو کا درجہ دیا گیا۔ دوسرے دن ہی وہ ذہنی عذاب میں مبتلا ہو گیا۔ اس کا دماغ اس کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ اس کا دل جسم کی قید سے نکلنے کے لیے بے تاب تھا۔ اس کی حالت ایسی ہو گئی کہ سب کو یقین ہو گیا کہ وہ پاگل ہو گیا ہے۔ ایک بے پناہ، پُراسرار اذیت تھی جس میں وہ گرفتار ہو گیا۔ زمین اس کا بوجھ برداشت کرنے کو تیار نہ تھی۔ آسمان میں کوئی دریچہ وا نہ تھا جس میں داخل ہو کر اسے سکون ملتا۔ بھوک مٹ گئی تھی، نیند اُڑ گئی تھی۔ اسے لگتا تھا دنیا میں کوئی اس کا اپنا نہیں۔ یہ عذاب تب ختم ہوا جب اس نے اسلام قبول کیا اور اپنے آپ سے اور اپنے پروردگار سے عہد کیا کہ ایک مسجد کے بدلے میں ایک سو مسجدیں تعمیر کرے گا۔ نوّے مساجد وہ مکمل کر چکا ہے۔ بلبیر سنگھ سے محمد عامر بننا اور اس کے ایک ساتھی کا بھی مسلمان ہو جانا انتہا پسند ہندوؤں کے گال پر ایک زناٹے دار تھپڑ سے کم نہ تھا۔ ایودھیا مسجد تو بابر نے تعمیر کرائی تھی۔ ایک دنیا دار حکمران! ایک گنہگار بادشاہ! جُوع الارض کا مارا ہوا! ارے خدا کے بندو! بے حرمتی تو اللہ تعالیٰ نے اُس کی بنائی ہوئی مسجد کی بھی برداشت نہیں کی، تو اپنے نبی کے ہاتھوں سے بنائی ہوئی مسجد کی توہین کیسے برداشت کرے گا۔
روئے زمین پر قائم ہر مسجد مقدس ہے اس لیے کہ اَنَّ الْمَسَاجِدَ للہ! مسجدیں اللہ کے لیے ہیں۔ اور وہ مسجد! جس کی زمین آپﷺ نے خود خریدی، اپنے ہاتھوں سے تعمیر کی! جہاں آپﷺ قیامت تک تشریف فرما ہیں! اُس مسجد کو تم کیا سمجھ رہے ہو؟ ہوش کرو! ہوش!
توبہ! اجتماعی توبہ! پوری قوم توبہ کرے! گھروں سے نکلے! میدانوں، پارکوں، باغوں، صحراؤں میں جمع ہو! گڑگڑا کر معافی مانگے اور اُن بدنصیبوں سے قطعِ تعلق کرے جو اس گستاخی میں شامل تھے!

 

powered by worldwanders.com