معلوم نہیں جناب آصف علی زرداری نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہے یا نہیں، اور کیا ہے تو کتنا کیا ہے مگر جو بات انہوں نے کہی ہے‘ تاریخ کا نچوڑ وہی ہے۔ بیج کوئی بوتا ہے اور پھل کوئی اور کھاتا ہے۔
پندرہ سال ہمایوں نے، بے پناہ مصائب جھیل کر، سلطنت واپس لی۔ چاہتا تو ہندوستان سے باہر، علم و فضل کے حصول اور تدریس میں باقی عمر گزار دیتا۔ عالم فاضل شخص تھا۔ شاید نہیں، بلکہ یقینا بابر سے لے کر اورنگ زیب عالم گیر تک تمام شاہانِ مغلیہ میں سب سے زیادہ پڑھا لکھا! مگر پندرہ سال، مہینے جس کے ایک سو اسی بنتے ہیں، جدوجہد میں بسر کر دیے ! تخت و تاج دوبارہ حاصل کرنے کے لیے خطرات مول لیے۔ دکھ اٹھائے! بھائیوں کی بد عہدیاں برداشت کیں! مسلسل نقل مکانی کی! حالت یہ ہو گئی کہ بادشاہ کا کھانا پکانے کے لیے دیگچی تک میسر نہ تھی۔ اس کے لیے خود میں گوشت پکایا گیا۔ اکبر کی ولادت کی خبر سنی تو سوائے مُشکِ نافہ کے کچھ بھی پاس نہ تھا۔ اسی کو حاضرین مجلس میں تقسیم کیا۔ سندھ سے افغانستان گیا۔ بھائی خون کے پیاسے تھے۔ اکبر کو وہیں چھوڑ کر ایران گیا۔ ایک سال وہاں رہ کر ایرانی کمک ساتھ لایا۔ کابل پر حملہ کیا تو بھائی نے اکبر کو فصیل پر بٹھا دیا۔ پندرہ سال کی مسلسل کوشش کے بعد دہلی کی بادشاہت دوبارہ حاصل کی۔ مگر یہ بادشاہت کتنی دیر رہی؟ صرف چھ ماہ اور تین دن! بیج ہمایوں نے بویا۔ پھل کسی اور نے کھایا۔
اقتدار ایک کیفیت کا نام ہے۔ یہ کیفیت خوابوں کے نگر میں لے جاتی ہے جہاں کچھ دکھائی نہیں دیتا سوائے اپنے اقتدار کے اور اپنے اقتدار کی طوالت کے! خواب نگر سے واپسی ہوتی ہے مگر اُس وقت جب اقتدار کے جسد میں سرطان پوری طرح پھیل چکا ہوتا ہے! ایوب خان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ایک طرف الطاف گوہر اور قدرت اللہ شہاب جیسے ذہین درباری یقین دلا رہے تھے کہ سب اچھا ہے۔ روایت ہے کہ صدر صاحب کے مطالعہ کے لیے خصوصی طور پر اخبار چھاپا جاتا تھا جس میں صرف اچھی اچھی خبریں ہوتی تھی۔ مشرقی پاکستان کے متلاطم دریاؤں میں ہچکولے کھاتی کشتیوں پر عشرۂ ترقی (Decade of Development) کے بینر پھڑپھڑا رہے ہوتے! دوسری طرف اقتدار کسی اور کی جھولی میں پکے ہوئے پھل کی طرح گرنے والا تھا۔
یحییٰ خان نے اپنے اقتدار کی ہمیشگی کے لیے ملک توڑ دیا۔ مگر کمالِ نَے نوازی کچھ کام نہ آیا! صدر ضیاء الحق نے وزارت خزانہ کے ایک اجلاس میں بیان دیا کہ وہ کرسی چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ کہتے ہیں کہ میت کی شناخت کے لیے دانتوں کے ڈاکٹر کی مدد لینا پڑی تھی۔ پھر مشرف صاحب نے وردی کو کھال قرار دیا۔ بڑے بڑے گھاگ سیاست دانوں نے اعلانِ عام کیا کہ جنرل صاحب کو وردی میں دس بار منتخب کرائیں گے! آج خاکِ وطن کو ترس رہے ہیں۔ دولت ہے اور عشرت کدے بھی! مگر پردیس پردیس ہے اور پردیس کا درد اسے ہی معلوم ہے جسے لاحق ہو!
ای وی ایم کا بیج بو دیا گیا۔ پھل کون کھائے گا؟ یہ صرف اسی کو معلوم ہے جس کی کرسی آسمانوں اور زمین پر حاوی ہے۔ وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا۔ کوئی انسان نہیں جانتا کہ کل کیا کرے گا! جسے اپنے بارے میں نہیں معلوم اسے ای وی ایم کا کیا پتہ کہ کس کے کام آئے گی۔ کنویں دو قسم کے کھودے جاتے ہیں۔ ایک خلق خدا کی خدمت کے لیے کہ پانی ملے۔ دوسرا اس لیے کہ اس میں کوئی گرے۔ فارسی کا محاورہ ہے: چاہ کَن را چاہ در پیش۔ دوسرے کے لیے کنواں کھودنے والا خود اس میں گرتا ہے۔
ای وی ایم پہلی قسم کا کنواں ہے یا دوسری قسم کا؟ یہ وقت ہی بتائے گا۔ اگر پہلی قسم کا ہے تو اس کے ٹھنڈے پانی سے کس کی پیاس بجھے گی؟ اور اگر دوسری قسم کا ہے تو اس میں کون گرے گا؟ یہ سب مستقبل کے راز ہیں۔
رہا مسئلہ تارکین وطن کو ووٹ کا حق دینے کا تو اگر یہ واقعی ان کا حق ہے اور اگر وہ یہ حق ملنے پر خوش ہیں تو ان کی خوشی میں ہماری خوشی اور ان کی خوشی سر آنکھوں پر! ہمیں ان کی رائے کی پختگی پر اور ان کی قوتِ فیصلہ پر پورا اعتماد ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ اس نے تارکین وطن کو یہ حق دے کر ان پر احسان کیا ہے اور وہ کل اس احسان کا بدلہ دیں گے اور آنکھیں بند کر کے روبوٹ کی طرح ووٹ ڈالیں گے تو وہ تاریخ سے بھی نا آشنا ہے اور تقدیر سے بھی!
تارکین وطن ہم سے زیادہ سیاسی شعور رکھتے ہیں۔ وہ جن ترقی یافتہ ملکوں میں رہ رہے ہیں وہاں شخصیت پرستی کا رجحان عنقا ہے۔ وہ جب بھی ووٹ ڈالیں گے، حقائق کو دیکھ کر ڈالیں گے۔ ابھی تک اگر ان میں سے کچھ تحریک انصاف کے حامی ہیں تو اس لیے کہ ان کی آنکھوں میں جلتے ہوئے امید کے چراغ ابھی تک گُل نہیں ہوئے۔ انہیں اب بھی توقع ہے کہ باقی ماندہ دو سالوں میں حکمران جماعت اُن وعدوں کو پورا کر دکھائے گی جن کی بنیاد پر عوام نے اسے ووٹ دیے تھے۔
تارکین وطن میں دو طرح کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جن کے انتہائی قریبی اعزّہ، جیسے ماں باپ، بہن بھائی، پاکستان میں رہتے ہیں۔ انہیں اپنے ان قریبی اعزّہ کے مصائب کا براہ راست علم ہے۔ وہ مہنگائی سے پریشان ہیں۔ اگر ایک ڈالر کا مطلب ان کے لیے ایک سو اٹھتر روپے ہے تو وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان ایک سو اٹھتر روپوں کی قوت خرید کیا ہے؟ جس گاڑی کی ٹینکی تین ہزار روپے میں بھر جاتی تھی اب پانچ ہزار روپے میں بھی نہیں بھر پاتی۔ یہ وہ تارکینِ وطن ہیں جو ملک کے حالات سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔
دوسری قسم تارکین وطن کی وہ ہے جن کے قریبی رشتے دار پاکستان میں نہیں۔ وہ یہاں کے حالات سے براہ راست متاثر نہیں ہوتے مگر ملک کی مجموعی صورت حال سے وہ بھی بے نیاز نہیں رہ سکتے۔ وہ جانتے ہیں کہ مبینہ طور پر ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایک عالمی استعماری ادارے کا ملازم مرکزی بینک کا مدارالمہام تعینات ہوا ہے جو تشویش ناک بات ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ مرکزی بینک حکومت اور پارلیمنٹ کو بھی جواب دہ نہیں رہا۔
تارکین وطن میں سے جو لوگ اقتصادیات کے اسرار و رموز سے آگاہ ہیں وہ اس صورت حال کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ یوں بھی کٹاؤ کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ تارکین وطن میں تحریک انصاف کی مقبولیت کے گراف کا رُخ نیچے کی طرف ہو چکا ہے۔ کہیں واپسی کی یہ رفتار زیادہ ہے اور کہیں کم! کون جانے دو سال کے بعد یہ گراف کہاں ہو گا؟ ایسا ہمیشہ ہوتا آیا ہے کہ جن پر تکیہ ہوتا ہے وہی پتّے ہوا دینے لگتے ہیں! ہاتھیوں نے تاریخ میں بارہا اپنی ہی افواج کو روندا ہے!
بہت سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ جناب! مان لیا تبدیلی تباہی کی صورت اختیار کر چکی مگر متبادل کیا ہے اور کون ہے؟ پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر ایک دوا مریض کو نقصان پہنچا رہی ہے اور اسے ہلاکت کی طرف لے جا رہی ہے تو کیا وہ فوراً بند نہیں کر دی جائے گی؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ، خدا نخواستہ، متبادل دوا پہنچنے تک، نقصان پہنچانے والی دوا مریض کا کام ہی تمام کر دے!
بشکریہ روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment