Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, November 30, 2021

واعظ اور استاد



ذہن میں کچھ سوالات تھے ۔

پہلے واعظ کی خدمت میں حاضر ہؤا۔ رعب تھا اور طمطراق! دستار بھی تھی، قبا  بھی  اور عصا بھی !  حاضرین ہمہ تن گوش تھے۔ بیان میں روانی تھی۔ الفاظ موسلا دھار بارش کی صورت برس رہے تھے۔  کہیں آبشار، کہیں میدان میں چلتی ہوئی ندی کی طرح خوش خرام !کہیں اشعار! کہیں امثال! کہیں قصے! کہیں حورو غلمان کے تذکرے اور ایسے کہ دماغ نہ مانے مگر واہ واہ کے ڈونگرےبرسیں! تشریف لے جانے لگے تو خوش عقیدگی رخصت کرنے  دور تک  آئی!  آنجناب اپنی بیش قیمت سواری پر بیٹھنےلگے تو اپنے بابرکت ہاتھوں کو چوما پھر ہاتھ لہرا کر  یہ بوسہ سامعین  کو  پہنچایا۔ بار بار یہ عمل  دہرایا۔ فرنگی اسے” فلائینگ کِس” کہتے ہیں ۔ عموما” یہ حرکت  نوخیز نوجوان  کرتے ہیں  مگر واعظ جب کریں تو اس پر تقدیس کا رنگ چڑھتا ہے ۔ عقیدتمند تتبّع کرتے ہیں ۔ تاہم میرا مسئلہ حل نہ ہؤا۔ ذہن میں جو سوالات تھے ان کے پوچھنے کی نوبت ہی نہ آئی۔ ان کے  متوسّلین سے بات کی  تو انہوں نے اسے گستاخی پر محمول کیا۔ ان کا موقف تھا کہ وعظ سنتے رہیے۔ آہستہ آہستہ سوالات کے جواب مل جائیں گے۔ مگر براہ راست ان سے سوال پوچھنا؟ یہ سُوءِ ادب ہے۔ اس کی اجازت حضرت دیں گے نہ ان کے جاں نثار !

پھر استاد کے پاس گیا۔ وہاں دستار تھی نہ عبائے فضیلت! نہ ہاتھ میں عصا! جاہ و جلال تھا  نہ تزک و احتشام ! قالین پر تشریف فرما تھے۔ سامنے کچھ کتابیں تھیں ۔ ارد گرد شاگرد ، نصف دائرہ باندھے ،   بیٹھے تھے۔ یہ علم کے متلاشی تھے ! یہ سوال پوچھتے ۔ استاد جواب دیتے۔ طالب علم مطمئن نہ ہوتا۔ پھر پوچھتا یہاں تک کہ سوال کبھی بحث کی صورت بھی اختیار کر لیتا۔  مگر استاد ہر سوال کا جواب دیتے۔جب تک شاگرد مطمئن نہ ہوتا سوال جواب کا سلسلہ جاری رہتا۔ حاضرین مجلس میں سے کوئی بھی استاد کے جواب پر مزید گفتگو کر سکتاتھا۔ مجھے بھی موقع ملا۔ سوالات کیے۔ کچھ سے تشفی ہوئی۔ جن سے نہ ہوئی، ان پر مزید سوال پوچھے۔ استاد نکتے سے نکتہ نکالتے جاتے۔ مثالیں دیتے۔ گذشتہ سکالرز کا حوالہ دیتے۔  کبھی ان سے بھی  اختلاف کرتے۔ علم کا سمندر تھے۔ مگر اپنی بات کو حرف آخر نہیں گردانتے تھے۔ خدا کاشکر ادا کیا  کہ مکالمہ ہؤا۔ تشنگی بجھی۔

قومیں استاد سے بنتی ہیں۔ واعظ سے نہیں۔ واعظ لوری  دے کر سلاتا ہے۔استاد جھنجھوڑتا ہے۔ جگاتا ہے اور سونے نہیں دیتا۔واعظ مسحور کرتا ہے، استاد سِحر کو اور سِحر کے اثرات کو زائل کرتا ہے۔ واعظ جوش دلاتا ہے، استاد ہوش میں لاتا ہے۔ واعظ  خوابوں کی دنیا میں لے جا کر، وہاں چھوڑ کر، اگلے مجمع کی طرف لپکتا ہے۔ استاد خواب سے حقیقت کی دنیا میں لاتا ہے۔ مسائل سمجھاتا ہے اور جینے کا ہنر سکھاتا ہے۔ واعظ ہمیشہ درباروں میں پایا جاتا ہے، استاد اپنے حلقۂ درس کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاتا۔ واعظ بادشاہوں کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے۔ بادشاہ استاد کی بارگاہ میں حاضری دیتا ہے۔ واعظ بادشاہ کے پاس آتا ہے تو خاموش ہو کر بادشاہ کی باتیں سنتا ہے۔بادشاہ اپنی تعریفوں کے پل باندھتا ہے۔استاد کا سامنا بادشاہ سے ہو جائے تو یہ  بادشاہ  ہے جو خاموش رہ کر استاد سے فیضیاب ہوتا ہے۔ بادشاہ استاد کے سامنے یاوہ گوئی کی جسارت ہی نہیں کرتا کجا کہ اپنی تعریفوں کے انبار لگائے۔واعظ حکمران کے سامنے نہی عن المنکر کی ہمت ہی نہیں کرتا۔ یہ استاد ہے جو بادشاہ کو روکتا ہے اور ٹوکتا ہے۔آج تک کسی  شاعر نے استاد کی شان میں گستاخی نہیں کی۔ اس لیے کہ مادر فطرت نے استاد کو پیدا ہی اس لیے کیا ہے کہ اس کا احترام کیا جائے ۔استاد اپنا احترام دلوں میں خود  پیدا کرتا ہے۔ واعظ کی تعریف صرف اس وقت تک ہوتی ہے جب تک اس کے لچھے دار الفاظ ہوا میں مرغولے بناتے رہتے ہیں۔  جیسے ہی یہ مرغولے  تحلیل ہو کر ناپید ہوتے ہیں، واعظ کے الفاظ اپنا اثر کھو دیتے ہیں۔یہ واعظ ہے جس کے بارے میں کبھی شاعر کو کہنا پڑتا ہے ؎
واعظان کین جلوہ بر محراب و منبر می کنند

چون بہ خلوت می روند آن کار دیگر می کنند

کہ محراب و منبر پر جلوہ افروز ہونے والے واعظ خلوت میں کیا کرتے ہیں، کچھ نہ پوچھو! 
اور کبھی شاعر کہتا ہے 
بڑی باریک ہیں واعظ کی چالیں 

لرز  جاتا  ہے آوازِ  اذاں سے 

سقراط سے گیلی لیو تک یہ استاد تھے جو اپنے شاگردوں سے مکالمہ کرتے تھے۔ ان کے آثار جو موجود ہیں، ان کے نام ہی “ ڈایالاگ “ ہیں۔ سقراط کے شاگرد افلاطون نے” مکالمات “ ترتیب دیے۔ پھر یہ اس کا شاگرد ارسطو تھا جس نے دنیا بھر کو بالعموم اور یورپ کو بالخصوص  تحقیق  کے اسالیب سکھائے اور جستجو کی تعلیم دی۔پھر مسلمان اس سے   فیضیاب ہوئے۔ 

یہ جن ائمہ کی آج مسلمانان عالم اتباع کر رہے ہیں ، امام جعفر صادق ہیں یا امام ابو حنیفہ یا امام مالک یا امام شافعی یا امام احمد بن حنبل۔ ان میں سے کوئی بھی واعظ نہیں تھا۔ یہ سب استاد کے مقام پر فائز تھے۔ ان کی مقدس مجالس میں سوال جواب ہوتے، بحث ہوتی، مکالمہ ہوتا تب جا کر کسی رائے کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوتا۔  کون نہیں جانتا کہ امام ابو حنیفہ کے دونوں بڑے شاگردوں، امام محمد اور قاضی ابو یوسف نے اکثر معاملات و مسائل میں اپنے استاد سے اختلاف کیا اور یہ اختلاف اصول اور فروع دونوں میں تھا۔ یہاں تک کہ لوگوں نے سوال اٹھایا کہ ان  دونوں  شاگردوں کی  آرا اور فیصلوں کو  حنفی مسلک میں کیوں شمار کیا جاتا ہے  جب کہ ان کی  آرا امام ابو حنیفہ کی آرا سے بالکل مختلف ہیں؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ امام ابو حنیفہ ہی نے ان دونوں شاگردوں اور دوسرے تمام شاگردوں کو اختلاف کا طریقہ سکھایا تھا۔  امام ابو حنیفہ پہلے ایک رائے قائم کرتے۔ پھر خود ہی اس کا رد کرتے ۔پھر ایک اور احتمال پیدا کرتے۔ اس  کے حق میں دلائل  دیتے۔ پھر خود ہی اس کے خلاف دلائل دیتے اور ایک نیا احتمال پیدا کرتے۔ اس طرح انہوں نے اپنے شاگردوں کو لکیر کا فقیر ہونے سے بچایا۔ تنقید اور جرح سکھائی۔ بحث کرنے کے انداز  بتائے۔ منطق اور عقل کو بروئے کار لانے اور تقلید سے بچنے کا ہنر سکھایا۔ مرحلہ وار مشق کرائی۔پھر یہ شاگرد  استاد سے کبھی اتفاق کرتے تو  کبھی اختلاف! واعظ وہیں کھڑا ہے جہاں یہ ائمہ چھوڑ کر گئے تھے۔ یہ استاد ہے جو آج کے مسائل کی روشنی میں نئے راستے دکھاتا ہے۔ کچھ سوچنے سمجھنے والے علما نے جب اسلامی بنکاری کا راستہ کھولا  تو واعظین نے مخالفت کی۔ جب متبادل کا پوچھا گیا تو ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ 

واعظ کی مجلس میں اس کے سوا کوئی اور نہیں بولتا نہ بول سکتاہے۔  واعظ سوال کا جواب دینے کی صلاحیت ہی نہیں  رکھتا۔  اس سے اگر جمہوریت کا پوچھا جائے تو کہے گا کہ جمہوریت درست نہیں ۔ پھر اس سے  دلائل مانگے جائیں اور یہ پوچھا جائے کہ جمہوریت کا متبادل کیا ہو گا تو وہ آئیں بائیں شائیں کرے گا۔ یہ تو استاد کی شان ہے کہ اگر جمہوریت کو رد کرے گا تو دلائل کے انبار لگادے گا۔ اس کا متبادل بتائے گا۔ یا جمہوریت کی حمایت کرے گا تو اس کے حق میں دلائل دے گا۔ اختلاف سنے گا اور اختلاف برداشت کرے گا !

اب خود حساب لگا لیجیے۔ آئینہ دیکھ کر فیصلہ کر لیجیے۔جو قومیں آگے بڑھی ہیں ، ان میں استاد زیادہ ہیں یا واعظ ؟

……………………………………………………………………

Monday, November 29, 2021

وقتِ دعا ہے!



پنجابی کا ایک محاورہ ہے‘ جس کا ترجمہ ہے: بھیڑیا چھوڑنا‘ یعنی ایک پُرامن جگہ کو تباہی سے دوچار کر دینا۔ پنجابی ایک پرانی، بڑی اور وسیع زبان ہے۔ عین ممکن ہے کوئی زیادہ پڑھا لکھا پنجابی اس محاورے کا مفہوم بہتر انداز میں سمجھا سکے۔ ہم ضلع اٹک کے لوگ یوں بھی کنارے پر رہتے ہیں۔ لاہور آئیں تو احباب استقبال کرتے ہوئے کہتے ہیں ''اچھا! پنجاب آئے او‘‘۔ جناب نجم حسین سید پنجابی زبان و ادب پر اتھارٹی ہیں۔ ان کی تصانیف بیرون ملک یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ معلوم نہیں اہل لاہور کو علم ہے یا نہیں کہ یہ فقیر منش عالم ان کے شہر میں رہتا ہے‘ اور اگر علم ہے تو ان کی قدر ہے یا نہیں۔ وہ سول سروس کی افسری چھوڑ کر کچھ عرصہ پنجاب یونیورسٹی کے پنجابی ادب کے شعبے میں پڑھاتے بھی رہے۔ نجم صاحب سول سروس میں جب بڑے بڑے عہدوں پر فائز تھے تو بس یا ویگن میں دفتر تشریف لاتے تھے یا پیدل! ایک بار انہیں زچ کرنے کے لیے ان کے حکام بالا نے انہیں اسلام آباد آنے پر مجبور کیا۔ وجہ اس غیر ضروری تبادلے کی یہ بتائی گئی کہ اگلے گریڈ میں ترقی ہو گی حالانکہ ان ظلم رساں (Sadist) حکام کو معلوم تھا کہ نجم صاحب ترقی قبول کریں گے‘ نہ ہی اسلام آباد رہنا۔ یہ لوگ چاہتے بھی یہی تھے کہ نجم صاحب قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لیں۔ یوں ایک اسامی خالی ہو جائے گی اور فلاں کو ترقی دے کر اُس خالی اسامی پر براجمان کر ا دیں گے۔ یہی ہوا۔ نجم صاحب استعفا دے کر لاہور واپس چلے گئے۔ یہ اور بات کہ جن صاحب نے یہ سارا جال بُنا تھا، اللہ ان کی مغفرت کرے کہ اب اس دنیا میں نہیں، کچھ عرصہ بعد ان کے ساتھ بالکل یہی کھیل کسی اور نے کھیلا۔ بیوروکریسی میں اس قسم کی کھینچا تانی چلتی رہتی ہے۔ آج نہیں ہمیشہ سے! آج کل تو ٹرانسفروں اور برطرفیوں پر بات ختم ہو جاتی ہے۔ پہلے زمانوں میں سر قلم کرا دیے جاتے تھے۔ شہنشاہ اکبر کا آڈیٹر جنرل بہت لائق تھا اور حساب کتاب میں تیز۔ مخالفین نے ایسی چال چلی کہ شہنشاہ کے حکم سے تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا۔
ان چند دنوں کے دوران جب جناب نجم حسین سید کو جبراً، یا مجبوراً، اسلام آباد رہنا پڑا‘ ایک شام انہوں نے شفقت فرمائی اور اس طالب علم کے کلبۂ احزاں میں قدم رنجہ فرمایا۔ مجھے جب اپنے بچوں کے ساتھ ٹھیٹھ پنجابی میں گفتگو کرتے دیکھا اور سنا تو مسرت کا اظہار کیا اور حوصلہ افزائی فرمائی! میں نے جھٹ طعنہ دیا کہ حضرت! آپ وسطی پنجاب کے لوگ ہماری ''لہندی‘‘ پنجابی کی، جو مغربی پٹی میں بولی جاتی ہے، کہاں توقیر کرتے ہیں! آپ تو پتا نہیں، اسے پنجابی قرار دیتے بھی ہیں یا نہیں! اس پر نجم صاحب نے کہا کہ اصل پنجابی یہی ہے جو تم لوگوں کی ہے۔ اس بات کو عرصہ بیت گیا۔ ایک دن اتفاقاً لاہور ہی کی ایک بُک شاپ میں مجھے امرتا پریتم کا شعری مجموعہ ''کاغذ تے کینوس‘‘ ہاتھ آ گیا جو ہمارے رسم الخط (شاہ مُکھی) میں تھا۔ امرتا پریتم کی نظمیں پڑھ کر معلوم ہوا کہ بے شمار الفاظ جو ہم لہندی پنجابی میں استعمال کرتے ہیں، انڈین پنجاب کی شاعری اور نثر میں کثرت سے برتے جا رہے ہیں۔
بات پنجابی کے اس محاورے سے شروع ہوئی تھی‘ بھیڑیا چھوڑنا۔ لگتا ہے‘ آج کل ہماری حکومت کا یہی شغل ہے۔ بیٹھے بٹھائے کسی پُرامن گوشے میں بھیڑیا چھوڑ دیتی ہے۔ نِت نئے ایشو! ایسے ایسے اقدامات کہ عقل دنگ رہ جائے۔
اسلام آباد کا ایک منتخب شدہ میئر تھا۔ اس کی مدت فروری میں ختم ہوئی۔ ایک سو بیس دنوں کے اندر اندر، یعنی چار ماہ میں، اگلے میئر کا انتخاب ہو جانا چاہیے تھا۔ یہ چھ ماہ جون میں ختم ہو گئے۔ چار ماہ گزرنے کے بعد پانچ ماہ اور گزر چکے ہیں۔ مستقبل قریب میں لوکل گورنمنٹ یعنی میئر کے انتخابات کے کوئی آثار نہیں‘ مگر فیصلہ بزرجمہروں نے یہ کیا ہے کہ وفاقی ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن کو میئر کے نیچے کر دیا جائے۔ یوں چار سو کے لگ بھگ پرائمری سکول بھی میئر کی تحویل میں آجائیں گے۔ میئر کہاں ہے؟ کون ہے؟ کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ میئر کا وجود ہی کوئی نہیں۔ حسب معمول یہ فیصلہ بھی پارلیمنٹ نے نہیں کیا بلکہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ہوا ہے‘ جیسے پارلیمنٹ میں وفاقی دارالحکومت کی نمائندگی ہی کوئی نہ ہو۔ ان چار سو کے لگ بھگ سکولوں کے ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ سٹاف نے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ منگل سے اس سلسلے میں کلاسوں کا بائیکاٹ شروع کیا جائے گا۔ رہے کالج تو وہ وفاقی وزارت تعلیم کے تحت رہیں گے۔ کچھ کالجوں میں سکول کے سیکشن بھی ہیں۔ یہ کس کے پاس ہوں گے؟ کچھ معلوم نہیں! سوال یہ ہے کہ اگر سکول میئر کی تحویل میں دئیے جا سکتے ہیں تو کالج کیوں نہیں؟ اور اگر کالجوں کو وزارتِ تعلیم سنبھال سکتی ہے تو سکولوں کو کیوں نہیں سنبھال سکتی؟ یہ دو عملی کیوں؟ اس کنفیوژن کا کیا فائدہ ہے؟ اٹھارہویں ترمیم کے ساتھ تعلیم کا شعبہ صوبوں کو منتقل کر دیا گیا تھا۔ صرف وفاقی دارالحکومت کا تعلیمی انتظام وفاق کے پاس بچا۔ اسے بھی نِت نئے تجربات کی نذر کیا جا رہا ہے۔ پھر ایک اور سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ وفاقی دارالحکومت کے تین منتخب نمائندے قومی اسمبلی میں بیٹھے ہوئے ہیں، کیا ان کی رائے لی گئی؟ یہ جو بیٹھے بٹھائے بھیڑیا چھوڑا گیا ہے، تو ان نمائندوں کا اس حوالے سے کیا رد عمل ہے؟ مانا کہ کہیں آرڈیننسوں کی فیکٹری لگی ہوئی ہے جو رات دن کام کر رہی ہے مگر کیا وفاق کے تعلیمی بندوبست جیسا ''بے ضرر‘‘، غیر سیاسی کام بھی منتخب اسمبلی سے نہیں کرایا جا سکتا؟ معزز منتخب ایوان پر اتنی بے اعتباری؟ اگر ایک شہر کا تعلیمی در و بست بھی آرڈیننسوں کے بغیر نہیں چل سکتا تو پھر ہمارا مستقبل دیکھنے کے لیے کسی آنکھوں والے کی ضرورت نہیں، اندھا بھی یہ کام آسانی سے کر لے گا!
سٹیل ملز یا قومی ایئر لائن کو تو چھوڑیے۔ ریلوے کو بھی تقدیر کے حوالے کیجیے۔ معیشت کی زمام ہم نے پہلے ہی آئی ایم ایف کو سونپ دی ہے۔ ہم سے وفاقی دارالحکومت کا تعلیمی انتظام تک سنبھالا نہیں جا رہا۔ بائیکاٹ اور احتجاج ہو رہے ہیں۔ وزیر تعلیم کا پس منظر ضلعی انتظامیہ کا ہے! کیا کسی کو پروفیسر اشفاق علی خان یاد ہیں جو گورنمنٹ کالج اٹک، گورنمنٹ کالج اصغر مال راولپنڈی اور گورنمنٹ کالج لاہورکے پرنسپل رہے؟ وہی جو الحمزہ کے قلمی نام سے انگریزی میں کالم لکھتے تھے؟ وہ یہ کہتے کہتے، روتے پیٹتے، دنیا سے گزر گئے کہ لگان جمع کرنے والوں سے لگان جمع کرنے ہی کا کام لو، پالیسیاں نہ بنواؤ! مگر تاریخ ہمارے ساتھ کتنا بے رحم مذاق کر رہی ہے۔ کبھی یہ لگان جمع کرنے والے، ضلعی انتظامیہ کے افسر کہلانے والے اہلکار، ہماری سروسز ریفارمز کے سربراہ بن جاتے ہیں اور کبھی جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر ہماری تعلیم کے مالک و مختار بن جاتے ہیں۔ تو پھر کسی پٹواری یا نائب تحصیل دار کو کیوں نہ یہ کام سونپ دیا جائے؟ یونی ورسٹیاں ہم نے پہلے ہی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو سونپ رکھی ہیں! یہ جماعتیں اپنی شاخوں کے ذریعے ان یونیورسٹیوں کو کنٹرول کر رہی ہیں! شاہراہیں دھرنوں کے لیے وقف ہو چکی ہیں۔ گھر سے نکلتے ہوئے کسی کو یقین نہیں کہ وہ منزل تک پہنچ پائے گا! اے خاصۂ خاصانِ رسل! وقت دعا ہے!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, November 25, 2021

مارشل پلان اور پچپن مسلم ملک


دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا تو یورپ زخم زخم تھا۔
مسلسل بمباری سے شہر مجروح ہو چکے تھے۔ لاکھوں افراد مہاجر کیمپوں میں پناہ گزین تھے۔ خوراک کی سخت قلت تھی۔ ریلوے، پُل، بندرگاہیں ناقابل استعمال تھیں۔ سامان سے بھرے بحری جہاز ڈبو دیئے گئے تھے۔ ہر طرف تباہی ہی تباہی تھی۔ اس صورت حال میں امریکہ آگے بڑھا۔ یورپ، خاص طور پر مغربی یورپ کے ساتھ امریکہ کی ہمدردیاں مذہبی بنیادوں کے علاوہ اس لیے بھی تھیں کہ کمیونزم مشترکہ دشمن تھا۔ امریکہ نے مارشل پلان کے نام سے ایک بہت بڑا منصوبہ بنایا جس کا مقصد یورپ کی اقتصادی بحالی تھا۔ اس نے تیرہ ارب (اُس زمانے کے تیرہ ارب) ڈالر یورپ کو دیئے تاکہ شہروں کی تعمیرِ نو ہو، صنعت کو جدید کیا جائے، بزنس کے ماڈرن طریقے اپنائے جائیں اور مجموعی پیداوار میں اضافہ ہو۔ اٹھارہ یورپی ممالک مارشل پلان سے فیض یاب ہوئے۔ برطانیہ، فرانس اور مغربی جرمنی ان میں سر فہرست تھے۔ جارج مارشل اُس وقت امریکہ کا وزیر خارجہ تھا۔ اس نے ہارورڈ یونیورسٹی میں ایک تقریر کے دوران تباہ حال یورپ کی تعمیرِ نو کا تصور پیش کیا۔ اسی تصور نے مارشل پلان کی صورت اختیار کی۔ منصوبے کی تیاری میں زیادہ حصہ بھی وزارت خارجہ کے حکام ہی کا تھا۔
مارشل پلان نے یورپ کی قسمت بدل ڈالی۔
1948 سے 1952 تک کا عرصہ تیز ترین رفتارِ ترقی کا تھا۔ صنعتی ترقی کی شرح 35 فیصد رہی۔ زرعی پیداوار بھی بڑھ گئی۔ غربت اور بھوک کا بہت حد تک خاتمہ ہو گیا۔ اگلے دو عشروں کے دوران مغربی یورپ نے معیار زندگی میں حیرت انگیز اضافہ دکھایا۔ ستر کی دہائی کے وسط تک یورپ کی مجموعی آمدنی میں بیس فیصد اضافہ ہو رہا تھا۔ مشرقی یورپ بہت پیچھے رہ گیا۔ مغربی یورپ کی شکل ہی بدل گئی۔ مغربی یورپ کے ملکوں میں ایک لحاظ سے ہم آہنگی بھی پیدا ہوئی۔ کچھ مؤرخ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اسی ہم آہنگی نے یورپی یونین کی بنیاد رکھی۔
اس ساری روداد کا موازنہ افغانستان کی موجودہ صورت حال سے کیجیے۔ پچپن مسلم ملکوں میں سے کسی کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ مارشل پلان کے خطوط پر تباہ شدہ افغانستان کے لیے کوئی منصوبہ پیش کرتا۔ مشرق وسطیٰ کے امیر ممالک میں سے کوئی ایک بھی اس کام کا بیڑہ اٹھانا چاہتا تو اٹھا سکتا تھا۔ ایک نہیں، تو کچھ ریاستیں مل کر ہی کنسورشیم (Consortium) بنا لیتیں! پاکستان دنیا بھر کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا لگا کر منت سماجت کر رہا ہے کہ افغانستان کے استحکام کے لیے انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کی جائے۔ کیا اس سے بہتر یہ نہیں تھا کہ پاکستان کا پلاننگ ڈویژن افغانستان کے لیے ایک جامع معاشی منصوبہ تیار کرتا اور پاکستان کے وزیر خارجہ اپنے طویل تجربے اور تعلقات کی بنیاد پر دوسرے ملکوں کو اس منصوبے میں شامل ہونے پر آمادہ کرتے! آپ مسلم ملکوں کی بے حسی اور لاتعلقی دیکھیے کہ امریکہ نے افغانستان کے اثاثوں کو منجمد کر رکھا ہے اور افغانستان سے شکست کھا کر بھی اس کو گلے سے پکڑ رکھا ہے‘ مگر کسی مسلم ملک نے یہ نہیں کہا کہ ہم سب مل کر اس نقصان کی تلافی کریں گے اور افغانستان کو امریکہ کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہونے دیں گے۔ انڈونیشیا اور برونائی سے لے کر مراکش تک پھیلی ہوئی آزاد خود مختار مسلم ریاستوں میں سے کسی ایک کو بھی یہ توفیق نہ ہوئی! اس کے باوجود ہماری مستقل مزاجی کا یہ عالم ہے کہ امت مسلمہ کے موضوع پر ہمارے خطیب گھنٹوں تقریریں کر سکتے ہیں! ہمارے دینی اور سماجی جریدے اتحادِ امت کی برکات پر لکھے گئے مضامین سے بھرے ہوتے ہیں! ہمارے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے بچے بچیاں‘ ہر مباحثے میں یہ شعر ضرور پڑھتے ہیں:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر
مگر عملاً کچھ بھی نہیں ہوتا۔ مسلم حکومتیں اپنے اپنے مسائل میں الجھی ہوئی ہیں یا غیروں کے بچھائے ہوئے جال میں گرفتار! ایک ادارہ او آئی سی ہے۔ اسلامی کانفرنس! افغانستان کو موجودہ مشکل صورت حال سے نکالنے کے لیے اس کے کتنے اجلاس ہوئے؟ اس کا کیا کردار ہے؟ کیا اس نے اپنے ہونے کا ثبوت دیا ہے؟
چلیے، مسلم حکومتوں کو چھوڑ دیجیے۔ اسلامی کانفرنس کو بھی مرفوع القلم سمجھیے! مسلم ملکوں کے بزنس مین، صنعت کار، بڑی بڑی کمپنیوں کے مالکان، مل کر اپنے طور ہی کچھ کر لیتے۔ ایک نجی اشتراک ہی قائم کر لیتے۔ مسلم ملکوں میں ارب پتیوں اور کھرب پتیوں کی کوئی کمی نہیں۔ عرب ہیں یا افریقی، پاکستانی ہیں یا بنگالی، ملائیشیا کے ہیں یا انڈونیشیا کے، ان کی جائیدادیں یورپ اور امریکہ میں ہیں۔ ان کے بینک بیلنس سوئٹزرلینڈ میں ہیں۔ ان میں سے بہت سوں نے تفریحی جزیرے خرید رکھے ہیں۔ ایک ایک یاچ ان کی کروڑوں ڈالر کی ہے۔ آسٹریلیا اور امریکہ میں ان کے فارم (Ranch) ہیں۔ ذاتی جہاز ہیں۔ انہوں نے لندن اور پیرس جیسے شہروں میں بڑے بڑے سپر سٹور، فائیو سٹار اور سیون سٹار ہو ٹل خرید رکھے ہیں۔ ان کھرب پتیوں میں سے ہی کچھ مل کر ایک تنظیم بنا لیتے جو افغانستان کی تعمیر نو میں سرگرم حصہ لیتی! کیا پتہ ان کی کوششوں کو دیکھ کر مسلم حکومتوں میں سے کچھ کو شرم آجاتی اور وہ بیدار ہو جاتیں ! حکومتیں نہیں، مگر ہر مسلمان، انفرادی طور پر تو امت سے جُڑا ہوا ہے! مغربی ممالک میں بڑے بڑے ادارے حکومتوں کے نہیں، افراد کے بنے ہوئے ہیں‘ جو حکومتوں سے زیادہ کام کرتے ہیں!
پانچ ارب روپے کا امدادی پیکیج‘ جو حکومت پاکستان نے افغانستان کے لیے منظور کیا ہے، اونٹ کے منہ میں زیرہ ہے۔ یوں بھی اس کا بوجھ پاکستانی امرا پر پڑے گا نہ حکومت پر! یہ بوجھ تنخواہ دار طبقہ اٹھائے گا یا ایک عام پاکستانی! تنخواہ دار طبقہ ٹیکس سے کسی صورت نہیں بچ سکتا۔ عام آدمی جو شے بھی خریدتا ہے اس پر ٹیکس ادا کرتا ہے۔ موبائل فون کا کارڈ ہو یا چینی یا دوا، اس کی قیمت میں ٹیکس شامل ہے۔ امرا کو اس ٹیکس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ خود پاکستان کی حالت یہ ہے کہ قرض پر قرض لیے جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ اِن دنوں ہونے جا رہا ہے وہ پاکستان کے مستقبل کو نہ صرف پا بہ زنجیر کرکے رکھ دے گا بلکہ طویل اقتصادی غلامی کا پیش خیمہ ہو گا! اب ایسے قرضے لیے جا رہے ہیں جن سے اثاثوں میں اضافہ نہیں ہو رہا۔ گزشتہ چار ماہ کے دوران 3.8 ارب ڈالرز کے نئے قرضے حاصل کیے گئے ہیں۔ ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے لینا ہوں گے۔ اس صورت حال میں افغانستان کے لیے پانچ ارب کا امدادی پیکیج، جس کا بار عام پاکستانی پر پڑے گا، پاکستانی عوام کی طرف سے قیمتی تحفے سے کم نہیں۔ اس کے علاوہ بھی پاکستان افغانستان کے لیے بہت کچھ کر رہا ہے۔ نہ صرف اقتصادی میدان میں بلکہ سفارتی محاذ پر بھی پاکستان اپنی بساط سے بڑھ کر افغانستان کی مدد کر رہا ہے یہاں تک کہ اس مدد کے منفی اثرات بھی مترشّح ہو رہے ہیں جو پاکستان کو بھگتنا ہوں گے!
ہمارے سامنے مغربی ملکوں اور مشرق بعید کے ملکوں نے کئی اتحاد بنا کر اور چلا کر دکھا دیے۔ مارشل پلان کے بعد نیٹو بنا۔ یورپی یونین کرشمے سے کم نہیں! اس نوع کے اتحاد کے لیے جس ذہنی پختگی، جس سیاسی بلوغت، جس اصل جمہوریت اور جس تعلیم و ترقی کی ضرورت ہے، مسلم ممالک اس سے کوسوں دور ہیں !
نالہ ہے بلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی

Monday, November 22, 2021

کیا پھل وہی کھاتا ہے جو بیج بوتا ہے؟؟



معلوم نہیں جناب آصف علی زرداری نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہے یا نہیں، اور کیا ہے تو کتنا کیا ہے مگر جو بات انہوں نے کہی ہے‘ تاریخ کا نچوڑ وہی ہے۔ بیج کوئی بوتا ہے اور پھل کوئی اور کھاتا ہے۔
پندرہ سال ہمایوں نے، بے پناہ مصائب جھیل کر، سلطنت واپس لی۔ چاہتا تو ہندوستان سے باہر، علم و فضل کے حصول اور تدریس میں باقی عمر گزار دیتا۔ عالم فاضل شخص تھا۔ شاید نہیں، بلکہ یقینا بابر سے لے کر اورنگ زیب عالم گیر تک تمام شاہانِ مغلیہ میں سب سے زیادہ پڑھا لکھا! مگر پندرہ سال، مہینے جس کے ایک سو اسی بنتے ہیں، جدوجہد میں بسر کر دیے ! تخت و تاج دوبارہ حاصل کرنے کے لیے خطرات مول لیے۔ دکھ اٹھائے! بھائیوں کی بد عہدیاں برداشت کیں! مسلسل نقل مکانی کی! حالت یہ ہو گئی کہ بادشاہ کا کھانا پکانے کے لیے دیگچی تک میسر نہ تھی۔ اس کے لیے خود میں گوشت پکایا گیا۔ اکبر کی ولادت کی خبر سنی تو سوائے مُشکِ نافہ کے کچھ بھی پاس نہ تھا۔ اسی کو حاضرین مجلس میں تقسیم کیا۔ سندھ سے افغانستان گیا۔ بھائی خون کے پیاسے تھے۔ اکبر کو وہیں چھوڑ کر ایران گیا۔ ایک سال وہاں رہ کر ایرانی کمک ساتھ لایا۔ کابل پر حملہ کیا تو بھائی نے اکبر کو فصیل پر بٹھا دیا۔ پندرہ سال کی مسلسل کوشش کے بعد دہلی کی بادشاہت دوبارہ حاصل کی۔ مگر یہ بادشاہت کتنی دیر رہی؟ صرف چھ ماہ اور تین دن! بیج ہمایوں نے بویا۔ پھل کسی اور نے کھایا۔
اقتدار ایک کیفیت کا نام ہے۔ یہ کیفیت خوابوں کے نگر میں لے جاتی ہے جہاں کچھ دکھائی نہیں دیتا سوائے اپنے اقتدار کے اور اپنے اقتدار کی طوالت کے! خواب نگر سے واپسی ہوتی ہے مگر اُس وقت جب اقتدار کے جسد میں سرطان پوری طرح پھیل چکا ہوتا ہے! ایوب خان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ایک طرف  الطاف گوہر اور قدرت اللہ شہاب  جیسے ذہین درباری یقین دلا رہے تھے کہ سب اچھا ہے۔ روایت ہے کہ صدر صاحب کے مطالعہ کے لیے خصوصی طور پر اخبار چھاپا جاتا تھا جس میں صرف اچھی اچھی خبریں ہوتی تھی۔ مشرقی پاکستان کے متلاطم دریاؤں میں ہچکولے کھاتی کشتیوں پر عشرۂ ترقی (Decade of Development) کے بینر پھڑپھڑا رہے ہوتے! دوسری طرف اقتدار کسی اور کی جھولی میں پکے ہوئے پھل کی طرح گرنے والا تھا۔
یحییٰ خان نے اپنے اقتدار کی ہمیشگی کے لیے ملک توڑ دیا۔ مگر کمالِ نَے نوازی کچھ کام نہ آیا! صدر ضیاء الحق نے وزارت خزانہ کے ایک اجلاس میں بیان دیا کہ وہ کرسی چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ کہتے ہیں کہ میت کی شناخت کے لیے دانتوں کے ڈاکٹر کی مدد لینا پڑی تھی۔ پھر مشرف صاحب نے وردی کو کھال قرار دیا۔ بڑے بڑے گھاگ سیاست دانوں نے اعلانِ عام کیا کہ جنرل صاحب کو وردی میں دس بار منتخب کرائیں گے! آج خاکِ وطن کو ترس رہے ہیں۔ دولت ہے اور عشرت کدے بھی! مگر پردیس پردیس ہے اور پردیس کا درد اسے ہی معلوم ہے جسے لاحق ہو!
ای وی ایم کا بیج بو دیا گیا۔ پھل کون کھائے گا؟ یہ صرف اسی کو معلوم ہے جس کی کرسی آسمانوں اور زمین پر حاوی ہے۔ وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا۔ کوئی انسان نہیں جانتا کہ کل کیا کرے گا! جسے اپنے بارے میں نہیں معلوم اسے ای وی ایم کا کیا پتہ کہ کس کے کام آئے گی۔ کنویں دو قسم کے کھودے جاتے ہیں۔ ایک خلق خدا کی خدمت کے لیے کہ پانی ملے۔ دوسرا اس لیے کہ اس میں کوئی گرے۔ فارسی کا محاورہ ہے: چاہ کَن را چاہ در پیش۔ دوسرے کے لیے کنواں کھودنے والا خود اس میں گرتا ہے۔
ای وی ایم پہلی قسم کا کنواں ہے یا دوسری قسم کا؟ یہ وقت ہی بتائے گا۔ اگر پہلی قسم کا ہے تو اس کے ٹھنڈے پانی سے کس کی پیاس بجھے گی؟ اور اگر دوسری قسم کا ہے تو اس میں کون گرے گا؟ یہ سب مستقبل کے راز ہیں۔
رہا مسئلہ تارکین وطن کو ووٹ کا حق دینے کا تو اگر یہ واقعی ان کا حق ہے اور اگر وہ یہ حق ملنے پر خوش ہیں تو ان کی خوشی میں ہماری خوشی اور ان کی خوشی سر آنکھوں پر! ہمیں ان کی رائے کی پختگی پر اور ان کی قوتِ فیصلہ پر پورا اعتماد ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ اس نے تارکین وطن کو یہ حق دے کر ان پر احسان کیا ہے اور وہ کل اس احسان کا بدلہ دیں گے اور آنکھیں بند کر کے روبوٹ کی طرح ووٹ ڈالیں گے تو وہ تاریخ سے بھی نا آشنا ہے اور تقدیر سے بھی!
تارکین وطن ہم سے زیادہ سیاسی شعور رکھتے ہیں۔ وہ جن ترقی یافتہ ملکوں میں رہ رہے ہیں وہاں شخصیت پرستی کا رجحان عنقا ہے۔ وہ جب بھی ووٹ ڈالیں گے، حقائق کو دیکھ کر ڈالیں گے۔ ابھی تک اگر ان میں سے کچھ تحریک انصاف کے حامی ہیں تو اس لیے کہ ان کی آنکھوں میں جلتے ہوئے امید کے چراغ ابھی تک گُل نہیں ہوئے۔ انہیں اب بھی توقع ہے کہ باقی ماندہ دو سالوں میں حکمران جماعت اُن وعدوں کو پورا کر دکھائے گی جن کی بنیاد پر عوام نے اسے ووٹ دیے تھے۔
تارکین وطن میں دو طرح کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جن کے انتہائی قریبی اعزّہ، جیسے ماں باپ، بہن بھائی، پاکستان میں رہتے ہیں۔ انہیں اپنے ان قریبی اعزّہ کے مصائب کا براہ راست علم ہے۔ وہ مہنگائی سے پریشان ہیں۔ اگر ایک ڈالر کا مطلب ان کے لیے ایک سو اٹھتر روپے ہے تو وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان ایک سو اٹھتر روپوں کی قوت خرید کیا ہے؟ جس گاڑی کی ٹینکی تین ہزار روپے میں بھر جاتی تھی اب پانچ ہزار روپے میں بھی نہیں بھر پاتی۔ یہ وہ تارکینِ وطن ہیں جو ملک کے حالات سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔
دوسری قسم تارکین وطن کی وہ ہے جن کے قریبی رشتے دار پاکستان میں نہیں۔ وہ یہاں کے حالات سے براہ راست متاثر نہیں ہوتے مگر ملک کی مجموعی صورت حال سے وہ بھی بے نیاز نہیں رہ سکتے۔ وہ جانتے ہیں کہ مبینہ طور پر ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایک عالمی استعماری ادارے کا ملازم مرکزی بینک کا مدارالمہام تعینات ہوا ہے جو تشویش ناک بات ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ مرکزی بینک حکومت اور پارلیمنٹ کو بھی جواب دہ نہیں رہا۔
تارکین وطن میں سے جو لوگ اقتصادیات کے اسرار و رموز سے آگاہ ہیں وہ اس صورت حال کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ یوں بھی کٹاؤ کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ تارکین وطن میں تحریک انصاف کی مقبولیت کے گراف کا رُخ نیچے کی طرف ہو چکا ہے۔ کہیں واپسی کی یہ رفتار زیادہ ہے اور کہیں کم! کون جانے دو سال کے بعد یہ گراف کہاں ہو گا؟ ایسا ہمیشہ ہوتا آیا ہے کہ جن پر تکیہ ہوتا ہے وہی پتّے ہوا دینے لگتے ہیں! ہاتھیوں نے تاریخ میں بارہا اپنی ہی افواج کو روندا ہے!
بہت سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ جناب! مان لیا تبدیلی تباہی کی صورت اختیار کر چکی مگر متبادل کیا ہے اور کون ہے؟ پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر ایک دوا مریض کو نقصان پہنچا رہی ہے اور اسے ہلاکت کی طرف لے جا رہی ہے تو کیا وہ فوراً بند نہیں کر دی جائے گی؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ، خدا نخواستہ، متبادل دوا پہنچنے تک، نقصان پہنچانے والی دوا مریض کا کام ہی تمام کر دے!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, November 18, 2021

سنتا جا! شرمانے کی ضرورت نہیں!!



آپ کے گھر میں دو بھائی دست و گریباں ہو جائیں، محلے والے سب کچھ سنیں اور دیکھیں تو آپ اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ لڑنے والے میرے بھائی یا میرے بچے تھے۔ میرا اُس لڑائی سے کوئی تعلق نہیں! لڑائی آپ کے گھر میں ہوئی۔ انگلیاں آپ کی طرف اٹھیں گی۔
بھول جائیے کہ یہ تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ یہ بھی بھول جائیے کہ اس سے پہلے نون کی حکومت تھی یا پی پی پی کی یا قاف کی یا کسی آمر کی!
بس یہ ذہن میں رکھیے کہ جس کی بھی حکومت تھی، جب بھی تھی، پاکستانیوں ہی کی تھی! دھرنے دینے والے بھی پاکستانی تھے۔ خون میں نہائے ہوئے پولیس مین بھی پاکستانی تھے۔ ماڈل ٹاؤن کے چودہ مقتولوں پر گولیاں بھی پاکستانیوں نے چلائی تھیں۔ دنیا میں کوئی یہ نہیں کہتا کہ عمران خان کی حکومت میں ایسا ہوا یا نواز شریف کے زمانے میں یہ حال تھا۔ دنیا والے اچھا ہو یا برا، پاکستان کے کھاتے میں ڈالتے ہیں! ہمارے پاسپورٹ پر کسی حکمران کا کسی حزب اختلاف کا، کسی فوجی آمر کا نام نہیں لکھا ہوا۔ صرف اور صرف پاکستان کا نام ہے۔ ہماری کرنسی پاکستان کی کرنسی ہے‘ کسی حکومت کی نہیں۔ عالمی منڈی میں جب اس کی بے قدری ہوتی ہے تو کوئی نہیں کہتا کہ زرداری یا نواز شریف یا عمران خان کی کرنسی تحت الثریٰ کو چھو رہی ہے۔ یہی کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی کرنسی خاک میں مل رہی ہے!
پرسوں سے ایک دن پہلے سیالکوٹ میں کیا ہوا؟ اسّی کے قریب قانون دانوں نے خاتون اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر کا گھیراؤ کیا۔ اس کے بعد حملہ کیا۔ دفتر کے سامان کی توڑ پھوڑ کی۔ سامان اور نیم پلیٹیں اکھاڑ کر باہر پھینک دیں۔ خاتون اے سی کے خلاف نعرے لگائے۔ اس دوران احاطے میں قائم دوسرے دفاتر، رجسٹرار آفس، محکمہ مال کے دفاتر، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن، نقول برانچ اور ڈپٹی کمشنر کے ماتحت عملے نے، خوف زدہ ہو کر دفتروں کو تالے لگائے اور چلے گئے۔ یہ ہے ہمارا رویہ، ہماری سائیکی، ہمارا مائنڈ سیٹ! اور یاد رہے کہ یہ وہ طبقہ ہے جو قانون کا محافظ ہے! اور صرف وکیل برادری کیوں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ سارا ملک فرشتوں سے چھلک رہا ہو اور صرف ایک طبقہ مار دھاڑ کرے؟ عام راہ گیر سے لے کر وزیروں اور منتخب نمائندوں تک سب اسی دودھ سے دھلے ہوئے ہیں۔ وزیر کا بس چلے تو صحافی کو چانٹا رسید کر دیتا ہے۔ صحافی کا بس چلے تو وہ وی لاگر کو فرش پر لٹا کر دھنائی کرتا اور کرواتا ہے۔ مریض ڈاکٹروں پر حملے کرتے ہیں۔ پولیس نے تھانوں کو عقوبت خانوں میں تبدیل کر رکھا ہے۔ ہجوم پولیس کو کچل دیتا ہے۔ ٹاک شوز میں سیاست دان ایک دوسرے پر ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ وزیر شو میں بوٹ لے آئے تو اینکر مسلسل مسکراتا ہے مگر یہ کبھی نہیں کہتا کہ بوٹ کے ساتھ شو نہیں ہو گا۔ ایک دکاندار، ایک ڈاکٹر، ایک دفتری بابو، پولیس کو مطلوب ہو تو سارے دکاندار، سارے ڈاکٹر، سارے دفتری بابو، مجرم کو بچانے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ وزیر کہتا ہے: حزب اختلاف آئی تو کُٹ لگائیں گے۔ وزیر اعظم وزرا کو ہدایت دیتے ہیں کہ الیکشن کمیشن میں دو وزیروں کی پیشی ہے تو تمام وزرا ساتھ جائیں! ہاری زبان کھولتا ہے تو وڈیرا اسے قتل کرا دیتا ہے۔ نچلی سطح پر دیکھیے تو ہر گلی، ہر سڑک، ہر چوک پر لوگ آپس میں گتھم گتھا ہو رہے ہیں۔ گالیاں دے رہے ہیں۔ لوگ اسے انٹرٹینمنٹ سمجھتے ہیں اور اکٹھے ہو کر تماشا دیکھتے ہیں۔ ایک ہی خاندان کے افراد ایک دوسرے کے خلاف تھانے جا کر رپٹ درج کراتے ہیں۔ بہنوئی برادر نسبتی کو دیکھنا گوارا نہیں کرتا اور برادر نسبتی بہنوئی کی جان کا دشمن ہے۔ سرکاری دفاتر پر حملے عام ہیں۔ پوسٹ آفس کی خاتون افسر کو تھپڑ مارا گیا۔ گارڈ نے بینک منیجر ہی کو گولی مار دی۔ اس پس منظر میں وکیلوں نے خاتون اے سی کے دفتر پر چڑھائی کر دی تو کون سی اچنبھے کی بات ہے؟ یہ حملہ ہمارے مزاج کے عین مطابق ہے۔ یہی ہیں ہم! یہی ہماری اصل ہے اور یہی ہماری شناخت ہے ! ہم نے اسی طرح رہنا ہے۔ آپ کالموں کے نیچے پڑھنے والوں کے کمنٹ دیکھیے۔ گالیاں! ذاتی حملے! کمنٹ کرنے والوں کے ایک دوسرے پر حملے۔ کالم کے مندرجات پر کوئی بات نہیں کرنی! جو ذہن میں پہلے سے موجود ہے اسی میں مدھانی ڈالنی ہے اور اسے ہی بلونا ہے! ایاز امیر ہمارے سینئر صحافی اور دانش ور ہیں۔ بہت قابل احترام! ان کا قلم انگریزی اور اردو دونوں زبانوں پر یکساں حکومت کرتا ہے۔ ان کے کالم کے نیچے ایک صاحب لکھتے ہیں کہ آپ یہ بتائیے آپ نے ملک اور قوم کے لیے آج تک کیا کیا؟ اس کالم نگار نے یہ کمنٹ پڑھا اور شرم سے پانی پانی ہو گیا! جو کچھ کالم میں لکھا ہے اس سے کوئی سروکار ہی نہیں۔ ہر شخص، ہر گروہ، ہر طبقہ، ہر وقت، ہر جگہ شمشیر بدست ہے۔ زبان ہے یا ڈنڈا، ہر وقت ہر کسی کے لیے تیار ہے۔ اس پس منظر میں بھول جائیے کہ ہم مستقبل قریب تو کیا، مستقبل بعید میں بھی قوموں کی برادری میں معزز کہلائیں گے۔ ہمارا اخلاق، ہماری تربیت، ہمارا رویہ، بالکل اتنا ہی قابل عزت ہے جتنا ہمارا پاسپورٹ اور ہماری کرنسی!
دوسری طرف بیرونی محاذ پر ہماری نالائقی ملاحظہ ہو! قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی برائے زرعی مصنوعات کو آگاہ کیا گیا ہے کہ زرعی تجارت میں زمینی راستے سے وسطی ایشیاء کے ممالک کے حوالے سے مسائل کا سامنا ہے۔ ایران کہتا ہے کہ آپ صرف ایرانی ٹرک میں سامان لے جا سکتے ہیں۔ اُن سے کوئی پوچھے کہ آپ یہ سامان افغانستان کے راستے کیوں نہیں بھیجتے؟ آپ تو افغانستان کے نفسِ ناطقہ بنے ہوئے ہیں‘ پوری دنیا کی منتیں کر رہے ہیں کہ افغانستان کو تنہائی سے نکالیں، امداد دیں، تسلیم کریں۔ وزیر اعظم سے لے کر وزیروں، معاونین اور بیوروکریسی تک سب پاکستان کے نہیں افغانستان کے مفادات کے پہریدار بنے ہوئے ہیں۔ امداد دے بھی رہے ہیں۔ دلوا بھی رہے ہیں۔ افغانستان سے محبت کا یہ عالم ہے کہ اگر افغان حکومت، ریاست پاکستان اور ایک کالعدم گروہ کو ایک دوسرے کے برابر سمجھتی ہے تو کوئی چوں کرتا ہے نہ چرا! سر جھکا کر آمنا و صدقنا کہا جا رہا ہے۔ تو اس قدر صدقے قربان ہونے کے باوجود اور مکمل طور پر تھلّے لگنے کے باوجود، اگر آپ افغانستان کے راستے وسط ایشیائی ممالک سے تجارت تک نہیں کر سکتے تو پھر تو آفرین ہے آپ پر اور آپ کی افغان پالیسی پر!!
وزارت تجارت کے حکام نے قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کو یہ اطلاع بھی دی کہ بہت سے سعودی شہریوں نے بھارت میں ملز خرید لی ہیں! تو سوال یہ ہے کہ سعودیوں نے آپ کے ہاں آ کر کیوں نہیں خریدیں؟ آپ کی مارکیٹنگ کی مہارت کیا گھاس چرنے گئی ہوئی تھی؟ ظاہر ہے ان خریداروں پر بھارت نے کام کیا ہو گا؟ آپ نے کیوں انہیں ٹارگٹ نہیں کیا؟ فارن آفس کیا کر رہا تھا؟ زراعت اور تجارت کے وزیر کیا کر رہے تھے؟ کیا آپ کی اس ضمن میں کوئی پالیسی نہیں؟ کیا آپ کا سارا زور اس بات پر ہے کہ غیر ملکی حکمران آپ کی بستیوں اور زمینوں اور عزتوں کو تاراج کرتے ہوئے اُن از حد قیمتی پرندوں کا کُھلے عام شکار کریں جن کی نسل تیزی سے معدوم ہو رہی ہے؟ ملز بے شک بھارت میں خریدیں !!
بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, November 16, 2021

کیا اب تمہاری جیب میں وعدے نہیں رہے ؟؟



غزل کی حالیہ تاریخ میں کچھ معزز شعرائے کرام نے‘ جن میں چند مرحومین بھی شامل ہیں‘ مکالماتی غزل کے بانی ہونے کا دعویٰ کیا ! مگر یہ درست نہیں۔ '' ایجادِ بندہ‘‘ کا رواج بدقسمتی سے ہر زمانے میں رہا ہے۔ مکالماتی غزل برصغیر میں وہیں سے آئی ہے جہاں سے غزل آئی ہے۔ مولانا روم کی یہ مکالماتی غزل مشہور ہے۔

گفتا کہ کیست بر در گفتم کمین غلامت
گفتا چہ کار داری گفتم مھا سلامت

اس نے پوچھا دروازے پر کون ہے؟ میں نے جواب دیاکہ عاجز غلام۔ پوچھا :کام کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اے چاند! سلام عرض کرنا ہے!

رومی کی اس مکالماتی غزل کے چند  باقی اشعار کاترجمہ دیکھیے۔

میں نے عشق کا دعویٰ کیا ہے۔قسمیں کھائی ہیں۔خود مختاری اور حکومت کو محبت کے لیے تج دیا ہے۔

س نے کہا دعویٰ کے ثبوت میں قاضی گواہ طلب کرتا ہے۔ میں نے کہا میرے آنسو میرے گواہ ہیں اور چہرے کی زردی شہادت۔

اس نے کہا ساتھ کون آیا ہے ؟ میں نے کہا حضور ! آپ کا خیال! اس نے کہا بلایا کس نے ہے؟ میں نے کہا آپ کے ساغر کی خوشبو نے! 

اس نے کہا کیا ارادہ ہے ؟میں نے کہا وفا اور دوستی کا ! اس نے کہا مجھ سے کیا چاہتے ہو ؟ میں نے کہا آپ کا لطفِ عام ! 

اس نے کہا آفت کہاں ہے ؟ میں نے کہا تمہارے کوچۂ عشق میں! اس نے کہا تم وہاں کس حال میں ہو‘ میں نے کہا استقامت میں

رومی کے لگ بھگ سو سال بعد حافظ شیرازی نے بھی مکالماتی غزل کہی جو اہلِ علم اور باذوق حضرات کے وردِ زبان رہتی ہے۔ مطلع ملاحظہ فرمائیے

گفتم غمِ تو دارم‘ گفتا غمت سر آید
گفتم کہ ماہِ من شو‘ گفتا اگر بر آید

میں نے کہا مجھے تیرا غم لاحق ہے! اس نے کہا تمہارا غم ختم ہو جائے گا۔ میں نے کہا تم میرے چاند بن جاؤ۔ اس نے کہا اگر یہ چاند چڑھا تو!
حافظ کی اس مکالماتی غزل کے چند اور اشعار دیکھیے۔

میں نے کہا محبت کرنے والوں سے وفا کی رسم سیکھ لو۔اس نے کہا خوبصورت چہروں سے یہ کام کم ہی صادر ہوتا ہے ! 

میں نے کہا تمہاری زلف کی خوشبو نے مجھے دنیا بھر کا گمراہ کر دیا ہے۔ اس نے کہا استقامت سے کام لو۔ یہی تمہاری رہبری کرے گی۔

میں نے کہا تمہارا یہ مہربان دل کب تک صلح کا اردہ رکھتا ہے؟ اس نے کہا جفائیں برداشت کرو۔ صلح کا وقت بھی آجائے گا/پ۔

میں نے کہا اپنی نظر کا راستہ تمہارے خیال کے لیے بند کردوں گا۔ اس نے کہا یہ تو چور ہے‘ کسی اور راستے سے آدھمکے گا ! 

میں نے کہا وہ ہوا کس قدر خوشگوار ہے جو باغِ خلد سے آتی ہے۔ اس نے کہا خنک تو وہ بادِ نسیم ہے جو کوچہء محبوب سے آئے۔
۔

 میں نے کہا تمہارے لعل کی شیرینی نے ہمیں آرزو میں مار ڈالا/اس نے کہا اس کی غلامی کر و یہی بندہ پروری کرے گی! 

میں نے کہا تم نے دیکھا کہ ایامِ عشرت ختم ہو گئے/ اس نے کہا حافظ! صبر کر و ! یہ رنج کے دن بھی ختم ہو جائیں گے۔

جدید رنگ میں کلاسیکی غزل کہنے والے سراج الدین ظفر (1912-1972 )نے بھی مکالماتی غزل کہی۔دلکش جارحانہ رنگ میں غزل کہتے تھے مثلاً

کل شب جو بے خودی میں مجھے آ گیا جلال
میں جام اٹھا کے درپئے سرِ ازل ہوا

ان کی مکالماتی غزل دیکھیے

میں نے کہا کہ تجزیۂ جسم و جاں کرو
اس نے کہا یہ بات سپردِ بتاں کرو
میں نے کہا کہ صَرفِ دلِ رائیگاں ہے کیا
اس نے کہا کہ آرزوئے رائیگاں کرو
میں نے کہا کہ عشق میں بھی اب مزا نہیں
اس نے کہا کہ از سر نو امتحاں کرو
میں نے کہا کہ اور کوئی پندِ خوش گوار
اس نے کہا کہ خدمتِ پیر مغاں کرو
میں نے کہا کہ بابِ مشیّت میں کیا ہے حکم
اس نے کہا نہ اس میں چنین و چناں کرو
میں نے کہا کشائشِ مشکل ہو کس طرح
اس نے کہا وظیفۂ اسمِ بتاں کرو
میں نے کہا کہ زہد سراسر فریب ہے
اس نے کہا یہ بات یہاں کم بیاں کرو
میں نے کہا کہ حدِ ادب میں نہیں ظفرؔ
اس نے کہا نہ بند کسی کی زباں کرو

جدید ہم عصر شعرا میں حسن عباس رضا نے کمال کی مکالماتی غزل کہی ہے۔ یہ ایک مشہور و مقبول غزل ہے۔

میں نے کہا وہ پیار کے رشتے نہیں رہے
کہنے لگی کہ تم بھی تو ویسے نہیں رہے
پوچھا گھروں میں کھڑکیاں کیوں ختم ہو گئیں؟
بولی کہ اب وہ جھانکنے والے نہیں رہے
پوچھا کہاں گئے مرے یارانِ خوش خصال
کہنے لگی کہ وہ بھی تمہارے نہیں رہے
اگلا سوال تھا کہ مری نیند کیا ہوئی؟
بولی تمہاری آنکھ میں سپنے نہیں رہے
پوچھا کرو گی کیا جو اگر میں نہیں رہا؟
بولی یہاں تو تم سے بھی اچھے‘ نہیں رہے
آخر وہ پھٹ پڑی کہ سنو اب مرے سوال
کیا سچ نہیں کہ تم بھی کسی کے نہیں رہے
گو آج تک دیا نہیں تم نے مجھے فریب
پر یہ بھی سچ ہے تم کبھی میرے نہیں رہے
اب مدتوں کے بعد یہ آئے ہو دیکھنے
کتنے چراغ ہیں ابھی‘ کتنے نہیں رہے!
میں نے کہا مجھے تری یادیں عزیز تھیں
ان کے سوا کبھی کہیں الجھے نہیں رہے
کہنے لگی تسلّیاں کیوں دے رہے ہو تم
کیا اب تمہاری جیب میں وعدے نہیں رہے
بہلا نہ پائیں گے یہ کھلونے حروف کے
تم جانتے ہو ہم کوئی بچے نہیں رہے
پوچھا تمہیں کبھی نہیں آیا مرا خیال؟
کیا تم کو یاد‘ یار پرانے نہیں رہے
کہنے لگی میں ڈھونڈتی تیرا پتا‘ مگر
جن پر نشاں لگے تھے‘ وہ نقشے نہیں رہے
بولی کہ سارا شہرِ سخن سنگ ہو گیا
ہونٹوں پہ اب وہ ریشمی لہجے نہیں رہے
جن سے اُتر کے آتی دبے پاؤں تیری یاد
خوابوں میں بھی وہ کاسنی زینے نہیں رہے
میں نے کہا‘ جو ہو سکے‘ کرنا ہمیں معاف
تم جیسا چاہتی تھیں‘ ہم ایسے نہیں رہے
اب یہ تری رضاؔ ہے‘ کہ جو چاہے‘ سو‘ کرے
ورنہ کسی کے کیا‘ کہ ہم اپنے نہیں رہے

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, November 15, 2021

افغانستان… سہیلی بوجھ پہیلی


جنگیں صرف بندوقوں سے نہیں جیتی جاتیں! جیت تب ہوتی ہے جب جیتنے کے بعد کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے پڑیں! یہ سبق ماضی کی تاریخ کا نہیں! یہ سبق اُس تاریخ کا ہے جو ہمارے سامنے ہے! ہم، آپ نے یہ تاریخ اپنی آنکھوں سے بنتے دیکھی ہے! اِس تاریخ کا تازہ ترین واقعہ زمانے کے صفحے پر دو دن پہلے رقم ہوا ہے۔ صرف دو دن پہلے!!
اُس قلاش کی تیرہ بختی کا اندازہ لگائیے جس کے گھر پر گاؤں کا چوہدری قبضہ کر لے۔ وہ مقابلہ کرے! سخت مقابلہ! عزیمت اس کی بے مثال ہو! شیر دلاور کی طرح لڑے۔ مقابلے میں گھر کے کئی افراد کام آ جائیں! ایک طویل مزاحمت کے بعد وہ چوہدری کو گھر سے نکالنے میں کامیاب ہو جائے مگر اس فتح کے بعد اسی چوہدری سے روٹی بھی مانگے، کپڑا بھی، دوا بھی اور پیسے بھی! اور ستم ظریفی کی انتہا یہ کہ اپنے آپ کو فاتح بھی سمجھے!
طالبان نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف طویل جنگ لڑی۔ ہزاروں افغان کھیت رہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے۔ خاندان کے خاندان اجڑ گئے۔ یتیموں اور بیواؤں کی تعداد میں ہولناک اضافہ ہوا۔ زمینیں پامال ہوئیں۔ پہاڑ ریزہ ریزہ ہوئے۔ کھیتیاں جل گئیں۔ باغ بنجر ہو گئے۔ بالآخر امریکہ نے خود ہار مانی۔ سامان اٹھایا اور نکل گیا‘ مگر امریکہ کو معلوم تھا کہ یہ ہار میدان میں ہوئی ہے۔ اصل جنگ تو اس کے بعد ہونی ہے۔ وہ میز پر لڑی جانی ہے۔ اس میں افغان نہتے ہوں گے اور امریکی سر تا پا مسلح! اس میں امریکی زور آور ہوں گے اور افغان زیر دست! یہ بھی کیا ستم ظریفی ہے تاریخ کی! پہاڑوں، گھاٹیوں، غاروں، کھائیوں، درّوں اور ریگ زاروں میں آتش و آہن سے جیتی جانے والی بیس سالہ جنگ میز پر ہار دی جائے! دو دن پہلے افغان وزیر خارجہ پاکستان کے دارالحکومت میں تھے۔ انہوں نے کہا کہ اثاثے منجمد ہونے کے باعث تنخواہیں نہیں دی جا سکیں۔ اس ضمن میں ضروری ہے کہ منجمد اثاثوں تک رسائی کی اجازت دی جائے۔ یہ اجازت امریکہ بہادر نے دینی ہے۔ وہی امریکہ جو میدان میں ہارا ہے! مگر افغان وزیر خارجہ نے اس کے بعد ایک ایسی بات کہی جو ان کی بے بسی کو ظاہر کرتی ہے۔ کہا کہ ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ ہم کون سا ایسا عمل کریں جس سے امریکہ سمیت دیگر ممالک ہمیں تسلیم کریں۔ دھیان اُس عمل کی طرف جاتا ہے  جو تعویز وغیرہ سے  کیا جاتا ہے۔ مختار صدیقی نے کہا تھا:
پیر، فقیر، اوراد، وظائف اس بارے میں عاجز ہیں
ہجر و وصال کے باب میں اب تک حکم چلا ہے ستاروں کا
مگر بے بسی سے زیادہ وزیر خارجہ کے اس بیان میں اور اظہارِ حیرت میں بے خبری کا عنصر نمایاں ہے۔ بے خبری نہیں بلکہ تجاہل عارفانہ! جیسے انہیں معلوم ہی نہیں کہ دنیا کیا چاہتی ہے۔ گیارہ نومبر کو، یعنی افغان وزیر خارجہ کے اس بیان سے صرف دو دن پہلے اسلام آباد میں سہ فریقی اجلاس ہوا جس میں امریکہ‘ چین اور روس کے نمائندوں نے شرکت کی۔ چونکہ اس میں پاکستان بھی تھا اس لیے اسے Troika Plus کہا گیا۔ ان چار نے مشترکہ بیان میں افغانستان سے مطالبہ کیا کہ
1: طالبان پڑوسی ملکوں کے ساتھ دوستانہ رویہ اپنائیں۔
2: بنیادی انسانی حقوق، غیر ملکی شہریوں اور اداروں کے تحفظ اور حقوق کے لیے بین الاقوامی قانونی ذمہ داریاں پوری کریں۔
3: امداد کی فراہمی کیلئے بشمول خواتین، بلاروک ٹوک رسائی یقینی بنائیں۔
4: تمام دہشت گرد گروپوں سے تعلقات منقطع کریں۔
5: ان گروپوں کو فیصلہ کن انداز میں ختم کریں۔
6: کسی بھی دہشت گرد تنظیم کو جگہ دینے سے انکار کریں۔
7: ہم وطن افغانوں کے ساتھ مل کر ایک جامع اور نمائندہ حکومت کی تشکیل کے لیے اقدامات کریں جو تمام افغانوں کے حقوق کا احترام کرے۔
8: افغان معاشرے کے تمام پہلوؤں میں خواتین اور لڑکیوں کی شرکت کے لیے مساوی حقوق فراہم کریں۔
9: امداد کی فراہمی کیلئے، خواتین سمیت، ہر ایک کی معاونت کریں۔
10: عورتوں اور لڑکیوں کو معاشرے کے تمام پہلوؤں میں شرکت کے مساوی مواقع مہیا کریں۔
افغان کابینہ میں تا حال کسی خاتون کا کوئی نام و نشان نہیں۔ حکومت نے شروع شروع میں یہ کہا تھا کہ حالات ٹھیک ہونے تک دفتروں میں ملازمت کرنے والی خواتین گھروں ہی میں رہیں۔ انہیں تنخواہ وہیں پہنچائی جائے گی۔ معلوم نہیں اب تک وہ گھروں ہی میں ہیں یا معمول کے مطابق ڈیوٹی پر آ رہی ہیں؟ عام تاثر یہی ہے کہ تعلیمی اداروں میں بھی بہت کم خواتین باقی رہ گئی ہیں۔ رہا جامع حکومت کا مطالبہ تو صورت حال دلچسپ ہے۔ افغان حکومت کا موقف ہے کہ جو ہمارے مخالف ہیں اور جو ہمارے خلاف لڑتے رہے‘ انہیں حکومت میں کیسے شامل کر سکتے ہیں؟ انہوں نے مثال دی کہ کیا جو بائیڈن اپنی حکومت میں ٹرمپ کو شامل کریں گے؟ شاید یہ دلیل زیادہ طاقت ور نہ ہو۔ محترم وزیر خارجہ نے اس پہلو پر توجہ نہیں دی کہ امریکہ یا دوسرے جمہوری ملکوں میں حزب مخالف، حکومت کا حصہ تو نہیں ہوتی مگر ایک منتخب ایوان میں بیٹھ کر اپنی رائے کا اظہار کرتی ہے۔ اس کی رائے سنی جاتی ہے۔ منتخب ایوانوں میں ہر بل کے حق یا مخالفت میں ووٹ ڈالتی ہے۔ الیکشن کے نتیجے میں حکومت بھی سنبھال سکتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر افغان حکومت، ایسی مجلس شوریٰ تشکیل دے جس میں مخالفین بھی موجود ہوں، انکے خیالات سنے جائیں اور سب ملکر کاروبارِ مملکت چلائیں۔
کیا افغانستان میں دہشت گرد گروہ موجود ہیں؟ اس سوال کا جواب ہم سب جانتے ہیں۔ اس ضمن میں افغان وزیر خارجہ کے ایک بیان پر ضرور غور کرنا چاہیے۔ ایک معروف پاکستانی اینکر کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ امارت اسلامی پاکستان اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان ثالثی کر رہی ہے اور چونکہ افغان حکومت کا کردار ثالث کا ہے اس لیے کسی فریق کی طرف جھکاؤ ظاہر کرنا مناسب نہیں۔ بادی النظر میں یہ بات منطقی نظر آ رہی ہے؛ تاہم اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ایک کالعدم گروہ کو ایک حکومت کے برابر سمجھا جا رہا ہے! ایسی حکومت کے برابر، جو افغانستان کو تسلیم کرانے کیلئے اور اس کی تنہائی ختم کرانے کیلئے دنیا بھر سے اپیلیں کر رہی ہے!
پس نوشت: (بلا تبصرہ) ایک تقریب میں طالبان کے خود کش حملہ آوروں کے خاندانوں کو مدعو کیا گیا اور ان میں رقم اور تحائف تقسیم کیے گئے۔
اس تقریب میں افغانستان کے وزیر داخلہ نے شرکت کی اور ان خود کش حملہ آوروں کو سراہتے ہوئے کہا کہ 'یہ ہمارے اور قوم کے ہیرو ہیں‘۔ طالبان حکومت کی جانب سے ان حملہ آوروں کے خاندانوں کو دس ہزار افغانی (افغان کرنسی) کے ساتھ ساتھ ایک پلاٹ دینے کا بھی وعدہ کیا گیا۔ جس ہوٹل میں ان خود کش حملہ آوروں کو قوم کا ہیرو قرار دیا گیا اسی ہوٹل کو طالبان کی جانب سے ایک نہیں بلکہ دو بار خود کش حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا‘ جس میں درجنوں افغان شہری ہلاک ہوئے۔ ایک ستائشی ویڈیو بھی جاری کی گئی جس میں طالبان کیلئے خود کش حملے کرنے والوں کی تصاویر اور نام تھے اور جس میں ان حملوں میں استعمال ہونے والی خود کش جیکٹس کی نمائش کی گئی۔
پس نوشت 2: افغانستان کے سپریم لیڈر کے حکم پر طالبان نے ملٹری کورٹ کی تشکیل کا فیصلہ کر لیا۔ فوجی عدالت، دفاع، داخلہ‘ انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ کے خلاف شکایات کی تحقیق کرے گی۔—

بشکریہ روزنامہ دنیا —

Thursday, November 11, 2021

اور اب آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا ادارہ…


سفید ہاتھیوں کی تعداد دنیا میں کم ہے! بہت ہی کم۔ یہ جو جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک ہیں، تھائی لینڈ، لاؤس‘ برما، کمبوڈیا، ان ملکوں میں اگر حکمران کے فیل خانے میں سفید ہاتھی ہوں تو انہیں انصاف، خوش بختی اور طویل المیعاد اقتدار کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ مغل بادشاہ بھی سفید ہاتھی کی بہت قدر کرتے تھے۔
2016ء میں تھائی لینڈ کے بادشاہ کے پاس دس سفید ہاتھی تھے۔ سفید سے مراد یہ نہیں کہ سارا ہاتھی سفید رنگ کا ہو۔ اگر اس پر کہیں کہیں سفید نشانات ہوں تب بھی اسے سفید ہی کہا جاتا ہے۔ سفید ہاتھی سے مشقت کا کام لینا اس کی توہین سمجھی جاتی ہے۔ اگر بادشاہ کسی کو سفید ہاتھی تحفے میں دے دے تو اس کو مصیبت پڑ جاتی ہے۔ ایک تو اس سے کام نہیں لیا جاتا، دوسرے اس کی خوراک کا انتظام دیوالیہ کر کے رکھ دیتا ہے۔
تھائی لینڈ کے بادشاہ کے پاس صرف دس سفید ہاتھی تھے جن کی بدولت وہ خوش بخت تھا۔ پاکستانی حکمرانوں کے پاس تو سفید ہاتھی ان گنت تعداد میں ہیں۔ قومی ایئر لائن، سٹیل ملز، ریلوے، یہ سب سفید ہاتھی ہی تو ہیں۔ انہی کے وجود سے پاکستان میں برکتوں کا نزول رہتا ہے۔ وفاقی اور صوبائی کابینہ، منتخب قومی اور صوبائی مقدس ادارے، گورنرز، وزرائے اعلیٰ، سب برکت، اور اچھے شگون کا مظہر ہیں۔ وعدہ یہ کیا گیا تھا کہ کابینہ سولہ سترہ افراد پر مشتمل ہو گی۔ ایسی کابینہ عام ہاتھی کی طرح ہوتی۔ جیسے جیسے کابینہ کا حجم بڑھتا گیا ہاتھی کا رنگ سفید ہوتا گیا! یہاں تک کہ یہ سفید ہاتھی مکمل خوش بختی اور طوالتِ اقتدار کا نشان بن کر رہ گیا۔
سفید ہاتھیوں کی ایک اور قبیل نے سر اٹھایا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ قومی خزانے پر چھا گئے۔ انہیں عرف عام میں اتھارٹی کہتے ہیں۔ جیسے  پی ٹی اے۔ ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی ،نیپرا بجلی  کی اتھارٹی ،  اوگرا ، آئل و گیس  کی اتھارٹی ،پیمرا  میڈیا کی اتھارٹیز وغیرہ وغیرہ۔
اول تو یہی بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ جب متعلقہ وزارتیں کروڑوں روپے کے اخراجات سے چل رہی ہیں جن میں وزیروں، سیکرٹریوں، جوائنٹ سیکرٹریوں، ڈپٹی سیکرٹریوں، سیکشن افسروں اور دیگر قسم قسم کے اہلکاروں کی بھرمار ہے تو ان اتھارٹیوں کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ میرے خیال میں ان اتھارٹیوں کے قیام کا سب سے بڑا مقصد اپنے اپنے پیاروں کو نوازنا تھااور یہ مقصد پورا کیا جاتا رہا۔ ان اتھارٹیوں کی ثقاہت اور اعتبار کا اندازہ صرف ایک مثال سے لگا لیجیے۔ اکتوبر 2007ء میں کابینہ ڈویژن نے میڈیا میں اشتہار دیا کہ نیپرا (بجلی اتھارٹی) کا چیئرمین درکار ہے‘ اس لیے مناسب امیدوار درخواستیں دیں۔
72 درخواستیں موصول ہوئیں۔ ان میں سے سترہ امیدوار شارٹ لسٹ ہوئے۔ کمیٹی نے ان کے تفصیلی انٹرویو کیے۔ کمیٹی کی سربراہی اُس وقت کے سیکرٹری کابینہ مسعود عالم رضوی کر رہے تھے۔ ایک جانکاہ محنت کے بعد پانچ امیدوار چنے گئے: حسین اختر بابر‘ میاں شاہد احمد‘ منیر اے شیخ‘ ظفر علی خان اور جاوید نظام! یہ سب اس کام کے ماہر تھے۔ ان پانچ کامیاب امیدواروں کے نام اٹھارہ جنوری 2007 کو وزیر اعظم کو حتمی چناؤ کے لیے بھیج دیے گیے۔
چودہ فروری کو یہ سمری جوں کی توں بغیر کسی فیصلے کے واپس کر دی گئی۔ اگلے دن یعنی پندرہ فروری کو وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری خالد سعید کو نیپرا کا چیئرمین لگا دیا گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ذرائع نے بتایا کہ چال بازی اس وقت شروع ہوئی جب وزیر اعظم سیکرٹریٹ نے سمری کئی ہفتے رکھے رکھی اور مرکزی کمپیوٹر سیکشن میں درج ہی نہ کی۔ خالد سعید کی ریٹائرمنٹ اکتیس دسمبر 2008 کو تھی۔ عبوری وزیر اعظم اس وقت محمد میاں سومرو تھے۔ نیپرا میں اس غیر قانونی تقرری کے خلاف سینیٹ نے متفقہ ریزولیوشن پاس کی۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ جان محمد جمالی نے عبوری وزیر اعظم کو باقاعدہ خط لکھا کہ سینیٹ کی قرارداد پر عمل کرتے ہوئے خالد سعید کو چیئرمین نیپرا کی پوسٹ سے ہٹایا جائے‘ مگر کچھ بھی نہ ہوا۔ جن امیدواروں کے انٹرویو کیے گئے، انہیں کیڑے مکوڑوں کی طرح روند کر ایک ایسے شخص کو چیئرمین لگا دیا گیا جس نے درخواست دی تھی نہ انٹرویو۔ دھاندلی کی یہ ساری روداد معروف بزنس اخبار بزنس ریکارڈر اپنی سات جنوری 2009 کی اشاعت میں ریکارڈ پر لے آیا۔ خالد سعید نے چار سال اس سبز چراگاہ میں گزارے ۔ یہ صرف ایک مثال ہے کہ یہ اتھارٹیاں کیوں بنائی گئیں اور کس طرح غیر مستحق افراد کو نوازا گیا۔
اب سنیے کہ آج سے بارہ دن پہلے کیا ہوا۔ ایف آئی اے نے آئل اور گیس اتھارٹی کے اور متعلقہ وزارت کے پانچ بڑے مگر مچھوں کو گرفتار کر لیا۔ اتھارٹی کے ملزموں نے غلط پٹرولیم لائسنس جاری کیے تھے‘ اور وزارت کے افسروں نے غیر قانونی پٹرولیم درآمدی کوٹہ کی اجازت دی تھی۔ ابتدائی اندازے کے مطابق نجی کمپنیوں کو ستر کروڑ روپے سے زیادہ کا فائدہ پہنچایا گیا۔
یہ غیر قانونیت، دھاندلی اور ظلم کی ایک مکمل تصویر ہے‘ مگر ان اتھارٹیوں کی دیدہ دلیری دیکھیے کہ یہ آڈیٹر جنرل کو اپنے کام کا، اپنے جاری کردہ لائسنسوں کا اور اپنے فیصلوں کا آڈٹ نہیں کرنے دے رہے۔ یہ کہتے ہیں کہ آڈیٹر جنرل ہمارے بجٹ کا آڈٹ کرے مگر ہم کس کو لائسنس جاری کرتے ہیں، ہمارے بورڈ کیا نادر شاہی فیصلے صادر کرتے ہیں، ملکی خزانے کو ہم کتنا چونا لگاتے ہیں، اس پر کوئی سوال جواب نہ ہو۔ یعنی گلیاں ہو جان سُنجیاں، وچ مرزا یار پھرے! سوال یہ ہے کہ پاکستان کا آئین کیا کہتا ہے؟ آئین کی شق 170 (2) میں لکھا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حسابات کا آڈٹ، اور کسی ایسی اتھارٹی یا باڈی کے حسابات کا آڈٹ، جو وفاقی یا کسی بھی صوبائی حکومت نے قائم کی ہو یا ان کے کنٹرول میں ہو، آڈیٹر جنرل کرے گا‘ اور اس آڈٹ کی حدود اور نوعیت کا تعین خود آڈیٹر جنرل کرے گا‘ یعنی یہ فیصلہ کہ آڈٹ کی حدود کیا ہیں، کس حد تک، کس قسم کا آڈٹ کرنا ہے، یہ فیصلہ آڈیٹر جنرل کرے گا۔ اتھارٹی کیسے کہہ سکتی ہے کہ جناب آپ میرے اُن لائسنسوں کا اور میرے بورڈ کے ان تباہ کُن فیصلوں کا آڈٹ نہ کیجیے جن کے نتیجے میں نجی کمپنیوں کو کروڑوں کا فائدہ اور قومی خزانے کو کروڑوں کا نقصان پہنچ رہا ہے! واہ! کیا کہنے آپ کی فرمائش کے!
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بائیس دسمبر 2011ء کی ریزولیوشن میں اسی پہلو پر زور دیا ہے کہ سپریم آڈٹ کے ادارے کو بغیر کسی روک ٹوک کے کام کرنے دیا جائے۔ شفافیت کو اہمیت دی جائے۔ جنرل اسمبلی کے اس ریزولیوشن نے بطور خاص کہا ہے کہ آڈٹ کا نتیجہ صرف اسی صورت میں مؤثر ہو گا جب آڈٹ اُس اتھارٹی یا محکمے سے مکمل طور پر آزاد ہو جس کا آڈٹ کیا جا رہا ہے۔ کسی بھی قسم کے دباؤ سے آڈٹ کو بچانا ہو گا!
جو، حال ملک میں اداروں کا ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ لے دے کے ایک ادارہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا بچا ہے، خدا کے لیے اس کی حرمت کو برقرار رہنے دیجیے۔ اگر ہم اپنی جڑوں کو اسی طرح کھودتے رہے تو ہماری ابتری اور پراگندگی بڑھتی رہے گی۔ اداروں کی آزادی پر ہاتھ نہ ڈالیے۔ اُس شاخ کو نہ کاٹیے جس پر آپ بیٹھے ہوئے ہیں۔ سات گھر تو وہ بھی چھوڑ دیتی ہے جس کا نام ڈال سے شروع ہوتا ہے۔
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں

Tuesday, November 09, 2021

آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ



پھر یوں ہوا کہ جو بھی ضروری کام ہوتا‘ پایۂ تکمیل تک نہ پہنچتا۔
لڑکی والوں سے بات چیت کر کے تاریخ طے کی۔ شادی ہال بُک کرا لیا۔ رقم کی ادائیگی کرنے لگا تو شادی ہال کا منیجر کہنے لگا کہ ابھی رقم نہیں لے سکتے۔ یہ کچھ دن بعد‘ او کے ہو گا۔ ہم آپ کو بلا کر معاملات فائنل کر لیں گے۔ مینیو دیا تو اس کے بارے میں بھی یہی کہا گیا کہ بعد میں منظوری دیں گے۔
مکان تعمیر کرنا تھا۔ نقشہ بنوایا۔ بورڈ کے دفتر میں منظوری کے لیے جمع کرایا تو بتایا گیا کہ چھ ماہ لگیں گے۔ پوچھا: چھ ماہ کیوں ؟ چیف انجینئر‘ جس نے حتمی منظور ی دینی ہے‘ ساتھ والے کمرے میں بیٹھتا ہے۔ کلرک کے چہرے پر ایک عجیب اداسی سی چھا گئی۔ میں باہر نکل آیا۔
گاڑی خریدنی تھی۔ شو روم گیا۔ ایک اوسط درجے کی گاڑی اچھی لگی۔ استطاعت کے اندر بھی تھی۔ ساری رقم اسی وقت کیش میں ادا کی۔ چابی مانگی تو سیلزمین کہنے لگا ''صاحب! ابھی تشریف لے جائیے۔ منظوری آنے پر گاڑی آپ کے گھر پہنچا دیں گے‘‘۔ میں حیران ہوا۔ پھر خیال آیا کہ کمپنی کا ہیڈ آفس کراچی میں ہے۔یہ ہر فروخت کی اطلاع کراچی دیتے ہوں گے۔ اسی میں کچھ وقت لگتا ہو گا۔
نواسی کو گیارہویں جماعت میں داخل کرانے کالج لے کر گیا۔ مضامین کچھ لازمی تھے تو کچھ اختیاری! بچی نے اپنی سوچ کے مطابق چُنے۔ داخلہ فیس پوچھی تو کالج کا ہیڈ کلرک بولا کہ فیس اس مرحلے پر نہیں لے سکتے۔ بچی نے جو مضامین چُنے ہیں ان کی منظوری لینا ہو گی۔ مجھے عجیب لگا۔ یہ وزیر تعلیم عجیب ہیں کہ گیارہویں جماعت کی طالبہ کے مضامین کی منظوری پرنسپل صاحب کے بجائے خود دیں گے۔
یہ تینوں واقعات تین دن میں رونما ہوئے۔میں سمجھا اتفاق ہے مگر اس کے بعد جو ہونے لگا‘ ناقابلِ یقین تھا۔ہماری آبادی کے پاس جو بڑی شاہراہ تھی‘ اس کی تعمیرِ نو اور توسیع کے لیے حکومت نے فنڈز دے دیے تھے۔ ٹینڈ ر وغیرہ کے مراحل طے ہو گئے تھے مگر کام تھا کہ شروع ہی نہیں ہو رہا تھا۔ایک دن ہم چند شرفا ترقیاتی ادارے گئے اور افسرِ اعلیٰ سے ملے۔ بہت خوش اخلاقی سے پیش آیا۔پوچھا‘ جب تمام مراحل طے ہو چکے تو کام شروع کرنے میں کیا اور کیسی تاخیر ہے ؟ اس کے چہرے پر ایک کرب پھیل گیا۔ کہنے لگا: تاخیر کی وجہ اس وقت نہیں بتا سکتے۔ آپ حضرات پریشان نہ ہوں۔ چھ ماہ لگیں گے! زیادہ سے زیادہ! اس کے بعد امید ہے کہ کام کا آغاز ہو جائے گا۔
سی ایس ایس کے امتحان کا فائنل نتیجہ نکلا۔ بچوں اور بچیوں کی محنت رنگ لائی۔ سول سروس کے گروپ الاٹ کر دیے گئے۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ سول سروس اکیڈیمی میں فوراً تربیت شروع ہو جاتی تھی مگر اب کے ایسا نہ ہوا۔ نوخیز افسر انتظار کرتے رہے۔سی ایس ایس کا اگلا امتحان شروع ہو گیا۔کسی کو اس غیر معمولی تاخیر کی وجہ بھی نہیں معلوم ہو رہی تھی۔ خدا خدا کر کے ٹریننگ شروع ہوئی مگر کچھ نامعلوم اور پُراسرار وجوہ کی بنا پر چند نئے افسروں کے نام فائنل فہرست سے غائب تھے۔ کیوں ؟ کوئی کچھ نہیں بتا رہا تھا۔
ہر معاملے میں ایک پُر اسرار تاخیر ہوتی گئی۔ وفاقی بجٹ کئی ماہ کی تاخیر سے پیش ہوا۔ صوبائی بجٹ دیر سے آئے۔ پھر احکام موصول ہوئے کہ لڑکے یا لڑکی کی شادی طے ہو تو دونوں کے نام اور خاندانوں کے کوائف اوپر بھیجے جائیں۔ منظوری آنے تک شادی نہیں ہو سکے گی۔ پھر نوبت محلوں تک آگئی۔ گلیوں کی مرمت‘ چھوٹی چھوٹی مارکیٹوں کی تعمیر‘ پانی کے نلوں کی تنصیب‘ بجلی اور گیس کے کنکشن‘ ایک ایک معاملہ اوپر بھیجا جانے لگا۔
پھر نوبت تقرریوں‘ تعیناتیوں‘ ترقیوں اور تبادلوں تک آگئی۔ اے سی اور ڈی سی کے تبادلوں میں غیر معمولی تاخیر ہونے لگی۔ تحصیلدار‘ سیکشن افسر‘ مجسٹریٹ‘ ڈپٹی سیکرٹری‘ ڈائریکٹر‘ لیکچرر‘ پروفیسر‘ سب کی ترقیوں کے معاملات فائنل ہو کر بھی تاخیر کا شکار ہونے لگے۔ پھر ایک ایک گاؤں میں ایک ایک کسان کو ہدایات دی جانے لگیں کہ اب کے تم نے فلاں اناج بونا ہے اور فلاں نہیں بونا۔اتنے رقبے میں فلاں نسل کی گندم اور اتنے رقبے میں فلاں قسم کی کپاس اگانی ہے۔ اب کے گنا نہیں اگانا۔گنا اور گندم خاص طور پر نشانہ بنے۔سراسیمگی‘ پریشانی اور پُراسراریت نے اضطراب پیدا کیا۔ بے چینی بڑھنے لگی۔ عوام سڑکوں پر آگئے۔ کسی کو معلوم نہیں ہورہا تھا کہ ہر معاملے میں یہ فائنل منظوری کہاں سے آتی ہے؟ کون دے رہا ہے ؟ شہر شہر جلوس نکلنے لگے۔راستے بند ہونے لگے۔ لوگوں نے سینہ کوبی شروع کر دی۔ عورتوں نے بال کھول لیے۔ مردوں نے کمر کے ساتھ پٹکے باندھ لیے۔ کیا عام لوگ‘ کیا سرکاری اہلکار سب آکر شاہراہوں پر بیٹھ گئے۔جب کئی ہفتے ملک کا نظام تعطل کا شکار رہا‘ معیشت کو اربوں کھربوں کی ٹھوکر لگ چکی تو ٹیلی وژن پر اعلان ہوا کہ سرکاری ترجمان عوام کو اعتماد میں لے گا۔ پوری قوم ٹی وی سکرینوں سے چپک کر بیٹھ گئی۔ ترجمان نے بات یوں شروع کی کہ حوصلے سے سنو اور حکومت اور حکمرانوں کی مجبوریاں سمجھنے کی کوشش کرو۔ پھر ترجمان نے بتا یا کہ قرضے بہت زیادہ ہو گئے تھے۔ دیوالیہ ہونے کی نوبت آگئی تھی۔ اس صورتحال سے بچنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط من و عن مان لیں؛ چنانچہ ماننا پڑیں۔ اب وہی سپریم اتھارٹی ہے۔ جس کام کی بھی منظوری حکومت دیتی ہے‘ اسے آئی ایم ایف کے پاس بھیجنا ہوتا ہے۔ اگر وہ منظور کر لے تو ٹھیک‘ ورنہ حکومت کی منظوری کالعدم ہو جاتی ہے۔ سارے معاملات‘ جیسے سی ایس ایس کی تعیناتیاں‘ سرکاری ملازموں کی ترقیاں اور تبادلے‘ شاہراہوں اور پلوں کی تعمیر‘ لڑکوں لڑکیوں کے رشتے‘ شادی ہالوں کی بکنگ‘ مینیو کا انتخاب‘ کالجوں یونیورسٹیوں میں طلبہ و طالبات کے مضامین‘ کون سا شہری کون سی گاڑی خریدے گا‘ یہ اور دیگر تمام معاملات اب آئی ایم ایف طے کرے گا؛ چنانچہ تاخیر‘ ہر معاملے میں لازماً ہو گی۔
عوام نے یہ وضاحت سنی۔ دل مسوس کر رہ گئے۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ قہرِ درویش بر جانِ درویش! مگر لوگوں نے یہ تجویز حکومت کو دی کہ اگر کنٹرول اس عالمی ادارے ہی نے کرنا ہے تو پھر ہر فائل سمندر پار اس کے ہیڈ آفس میں بھیجنے کے بجائے‘ اس کے با اختیار نمائندوں کو یہیں ملک کے اندر بلا لیجیے۔ یہ تجویز منظور ہو گئی۔ اب اس استعماری ادارے کے نمائندے وفاق اور صوبوں کی وزارتوں میں بیٹھ گئے۔ اس سے بھی کام نہ چلا تو ہر شہر‘ ہر قصبے ہر گاؤں اور ہر محلے میں تعینات ہو گئے۔ یوں لوگوں کے کام ہونے لگے۔ بیٹے یا بیٹی کا رشتہ طے کرتے تو محلے میں تعینات اس ادارے کا نمائندہ اسی دن منظوری دے دیتا۔ کسی نے اپنے گھر میں ایک کمرہ اضافی تعمیر کرنا ہے تو اس کی اجازت بھی لی جاتی۔ پھر آئی ایم ایف کے نمائندے قبرستانوں میں بھی بیٹھ گئے۔ جنازہ کون پڑھائے گا‘ قبر کہاں بنے گی‘ دعائیں کون کون سی کی جائیں گی‘ پھول کون کون سے چڑھائے جائیں گے‘ کون کتنا روئے گا؟ یہ سب پہلے سے طے ہوتا۔ اب عوام مطمئن تھے کہ خود مختاری کو گولی مارو‘ کام تو ہو رہے تھے!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, November 08, 2021

مقتولین کی فہرست میں ایک اور کا اضافہ



ناظم جوکھیو کی میت کی پوسٹ مارٹم رپورٹ آ گئی ہے۔ اس کے سارے جسم پر زخموں کے نشان تھے۔ لاش ملیر (کراچی) کے ایک فارم ہاؤس سے ملی تھی۔ فارم ہاؤس سندھ کی حکمران پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک ایم پی اے کی ملکیت بتایا جا رہا ہے۔ ایم پی اے نے گرفتاری دے دی ہے۔ کیا مجرم کو سزا ملے گی یا ویسا ہی انصاف ہو گا جیسا کوئٹہ کے ایک چوک پر ڈیوٹی دینے والے ٹریفک پولیس کے سپاہی کے ساتھ ہوا تھا‘ جسے ایک وڈیرے کی گاڑی نے کچل دیا تھا؟ اس سوال کا جواب ہم سب کو معلوم ہے۔
سندھ کے گورنر نے مقتول کے پسماندگان سے ملاقات کی اور اُس جے آئی ٹی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا جو سندھ کی حکومت نے بنائی ہے۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ وفاق کی سطح پر جے آئی ٹی بنوائیں گے۔ معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اس نوجوان کی درد ناک موت کا بہت افسوس ہے۔ اگر وہ مجرم کو قرار واقعی سزا دلوا سکیں تو یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہو گا۔ کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں کہ وہ مقتول کے ساتھ ہمدردی اس لیے کر رہے ہیں کہ ملزم کا تعلق ایسی پارٹی سے ہے جو وفاقی حکومت کی مخالف صف میں ہے۔ یہ سوچنا کہ یہ حبِ علی نہیں بغضِ معاویہ ہے، قرینِ انصاف نہیں ہو گا۔ اگر اجازت ہو تو ان کی خدمت میں ایک گزارش ہے۔ یہ قتل تو سندھ میں ہوا ہے‘ جس کے نظم و انصرام کا تعلق وفاق سے براہ راست نہیں۔ کیا وہ اُن ہلاکتوں کے بارے میں کچھ معلومات مہیا فرما سکتے ہیں جو وفاق کی ناک کے عین نیچے ہوئیں؟ سالِ رواں کے پہلے مہینے میں اسلام آباد کے ایک نوجوان اسامہ ستی کو چار سرکاری اہلکاروں نے گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔ کیا نتیجہ نکلا؟ نو ماہ ہو گئے کیا قاتلوں کو سزا ملی؟ اُس پر بھی جے آئی ٹی بنوا دیں! اس سفاکانہ قتل کے ایک ماہ بعد وفاقی دارالحکومت ہی میں ایک بڑی گاڑی نے مانسہرہ کے چار نوجوانوں کو کچل دیا تھا جو تلاشِ روزگار میں گھر سے نکلے تھے۔ اس حوالے سے ایک با اثر خاتون کے بیٹے کا ذکر بھی میڈیا میں ہوتا رہا۔ کیا وہ ایک خصوصی جے آئی ٹی اس ضمن میں بھی بنوائیں گے؟ یوں تو ماڈل ٹاؤن کے قتلِ عام کا مقدمہ بھی موجودہ حکومت کے ایجنڈے پر تھا۔ توقع تھی کہ قاتلوں کو سزا ملے گی‘ مگر کچھ بھی نہ ہوا!
معاملے کا اصل پہلو اور ہے۔ شرمناک پہلو! جو ہماری بے بسی ظاہر کرتا ہے۔ بے بسی غلامی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ایک غلامی وہ تھی جو پاکستان بننے کے بعد ختم ہو گئی۔ انگریزی استعمار جسمانی لحاظ سے رخصت ہو گیا۔ ایک غلامی وہ ہے جس میں آج تک ہم گلے گلے دھنسے ہوئے ہیں۔ ہاتھ پیٹھ پیچھے بندھے ہیں۔ پاؤں زنجیروں میں مقید ہیں۔ منہ میں کپڑا ٹھنسا ہے۔ اسے اقتصادی غلامی کہتے ہیں۔ کشکول بدست، ساری دنیا میں پھر رہے ہیں۔ گلی گلی، در در صدا لگا رہے ہیں۔ کہیں سے تیل، کہیں سے ڈالر، جو دے اس کا بھلا، جو نہ دے اس کا بھی بھلا۔ اس کی تازہ مثال ملاحظہ ہو۔ فیصل آباد میں پینے کا صاف پانی مہیا کرنے کے لیے جاپان چھ ارب روپے کی گرانٹ دے رہا ہے۔ گرانٹ وہ رقم ہوتی ہے جو واپس نہیں کرنا ہوتی۔ دوسرے لفظوں میں بھیک! اس رقم سے واٹر ٹریٹمنٹ کا پلانٹ لگے گا اور ڈسٹری بیوشن انفراسٹرکچر بھی بچھایا جائے گا‘ یعنی صاف کیا ہوا پانی گھر گھر پہنچایا جائے گا۔ جاپانی سفیر کو حق پہنچتا ہے کہ اس پر تھوڑا سا مذاق بھی کرتا؛ چنانچہ اس نے معاہدے کی تقریب میں کہا کہ اس امداد کے بعد، جاپان کو طلوع آفتاب کی سرزمین کے بجائے پینے کے صاف پانی کے ذریعہ کے طور پر تسلیم کیا جا سکتا ہے! 

اور یہ کون سا فیصل آباد ہے؟ یہ فتح جنگ کا غریب قصبہ نہیں!! نہ ہی سندھ یا بلوچستان کا کوئی غربت زدہ شہر ہے! فیصل آباد تو خیر سے پاکستان کا مانچسٹر ہے۔ صنعت و حرفت کا مرکز! پاکستان کا تیسرا بڑا شہر! ایک بے حد امیر شہر!
2013ء کے اعداد و شمار کے مطابق فیصل آباد کا جی ڈی پی 43 بلین ڈالر تھا۔ پانچ اعشاریہ سات فی صد شرح ترقی پر 2025ء میں یہ جی ڈی پی 87 بلین ڈالر ہو جانا ہے‘ یعنی ستاسی ارب ڈالر۔ کون سی صنعت ہے جو فیصل آباد میں نہیں۔ کاٹن ٹیکسٹائل، سِلک ٹیکسٹائل، سپر فاسفیٹ، ہوزری، صنعتی رنگ، صنعتی کیمیکلز، گارمنٹس، کاغذ، پلپ، پرنٹنگ، زرعی آلات، گھی، اور مشروبات! اس شہر سے ہر سال لاکھوں افراد حج، عمرے اور زیارات کے لیے جاتے ہیں۔ کروڑوں کی خیرات دیتے ہیں! فیصل آباد کے کتنے ہی کنبے موسم گرما میں مری اور ایبٹ آباد کے گراں ترین ہوٹلوں میں ہفتوں ٹھہرتے ہیں۔ اولادیں ان کی کچھ مغربی ملکوں میں پڑھ رہی ہیں اور کچھ بزنس کر رہی ہیں۔ مگر یہ سب امرا، اور بہترین کھانے تناول کرنے والے آسودہ حال حضرات، اپنے ہی شہر کے لیے چھ ارب روپے صاف پانی پر نہیں لگا سکتے۔ آج کل ڈالر تقریباً ایک سو ستر روپے کا ہے۔ چھ ارب روپے جو جاپان خیرات میں دے رہا ہے، ڈالروں میں ساڑھے تین کروڑ ڈالر بنتے ہیں۔ 2013ء کے اعداد و شمار پر بھی جائیے تو شہر کی آمدنی تینتالیس ارب ڈالر ہے۔ کیا تین ساڑھے کروڑ ڈالر، اُس میں سے، یہ شہر اپنے پانی پر نہیں خرچ کر سکتا؟؟؟ مگر صاحب! جو مزا مانگ کر کھانے میں ہے وہ کما کر کھانے میں کہاں!
اب واپس چلتے ہیں ناظم جوکھیو کے قتل کی درد ناک کہانی کی طرف! اس کا اصل سبب وہ غیر ملکی شہزادے ہیں جو ناظم جوکھیو کے گاؤں کے نواح میں تلور کا شکار کھیل رہے تھے۔ ان کے پاس بڑی بڑی گاڑیاں تھیں، ان گاڑیوں کی نمبر پلیٹیں مبینہ طور پر غیر ملکی تھیں۔ راستے انہوں نے روکے ہوئے تھے۔ ناظم نے انہیں اپنے علاقے میں دندنانے سے منع کیا۔ منع انہوں نے کیا ہونا تھا۔ ناظم نے وڈیو بنائی جو وائرل ہوئی۔ اس کے علاوہ وہ کر بھی کیا سکتا تھا۔ تلور کا شکار منع ہے‘ مگر جب صدقہ خیرات اور قرضے دینے والے ملکوں کے حکمران یہ ممنوعہ شکار آپ کے ملک میں، آپ کی زمینوں پر کھیلیں تو آپ سوائے انہیں جُھک کر سلام کرنے کے اور کیا کر سکتے ہیں؟ شکار تو شکار ہے، ہمارے ایک سابق حکمران نے تو ایک غیر ملکی سفیر کو وفاقی دارالحکومت میں پلاٹ بھی الاٹ کر دیا تھا۔ یہ الگ بات کہ اُس دانا شخص نے قبول نہ کیا۔ فارسی میں کہتے ہیں کہ احتیاج شیر کو بھی لومڑی بنا دیتی ہے۔ ہم بھی شیر ہیں۔ اپنے مجبوروں اور بے کسوں پر شیر کی طرح حملہ کرتے ہیں خواہ وہ ملیر کا ناظم جوکھیو ہو یا اسلام آباد کا اسامہ ستی یا کوئٹہ کا ٹریفک سارجنٹ حاجی عطااللہ ہو! مگر جب ہمارے کشکول میں سکے پھینکنے والے غیر ملکی آئیں تو ہم لومڑی بن جاتے ہیں! مشرق وسطیٰ کا ایک طاقت ور بادشاہ انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ سیر کے لیے پہنچا۔ جگہ جگہ مجسمے نصب تھے۔ بادشاہ کے عقیدے پر ضرب پڑی۔ اس نے انہیں ڈھانپنے کے لیے کہا۔ بالی کے میئر نے انکار کر دیا۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہ کشکول بدست نہ تھا!!!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, November 04, 2021

— شکنجہ کسا جا رہا ہے


دشمن کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ سب کو ایک ہی طریقے سے ختم نہیں کیا جاتا۔ کچھ زہر سے مر تے ہیں تو کچھ گُڑ سے!
لیبیا کو ختم کرنا تھا تو اس کے لیے خاص قسم کی تکنیک استعمال ہوئی۔ عراق کو مارنا تھا تو مہلک ہتھیاروں کا جھوٹا الزام لگا کر صدام حسین کو ختم کیا۔ پھر سنی شیعہ تفریق کو ہوا دی۔ کرد زیادہ تر سُنی ہیں مگر انہیں قومیت کی بنیاد پر عربوں کے سامنے کھڑا کر دیا۔ جس کی گردن میں جو پھندہ فّٹ آیا، ڈال دیا! کہیں فرقہ واریت! کہیں قومیت! مراکش اور شرق اوسط کے ملکوں کو بادشاہی نظام کے ذریعے قابو کیا۔ پارلیمنٹ کا دخل نہ پریس کا ٹنٹا۔ بادشاہ یا کسی طاقتور شہزادے کو پکڑا اور کٹھ پتلی بنا لیا۔ جمہوریت کے چیمپئن بنتے ہیں مگر جہاں اپنے استعماری مقاصد بادشاہت کے ذریعے پورے ہوتے دکھائی دیتے ہیں وہاں بادشاہت کی حمایت کر ڈالی! کسی بادشاہ نے آنکھیں دکھائیں تو وہاں پیٹ میں جمہوریت کا مروڑ اٹھنے لگا۔ شام کو کمزور کرنے کے لیے مختلف ترکیب آزمائی۔ شام اور عراق دونوں لہو تھوک رہے ہیں۔ ایسی آگ لگائی جو کسی کے تصور میں نہ تھی۔ ایران کو جاں بلب کرنے کے لیے ایک نیا فارمولا ایجاد کیا کہ ایٹمی طاقت کیوں بننا چاہتا ہے؟ اسرائیل تو جیسے داماد ہے‘ جو چاہے کرے۔ علاقے کا غنڈہ ہے اور بڑے صاحب کا خاص دوست! وہ بے شک ایٹمی تجربات کرے، کوئی مضائقہ نہیں۔ فرانس اور برطانیہ بھی ایٹمی طاقتیں ہیں مگر انہیں چودہ خون معاف ہیں۔ ایران پر پابندیاں لگا دیں تاکہ سسک سسک کر مرے اور مر مر کے جیے! ترکی کو یورپی یونین میں نہ آنے دیا۔ جب جی چاہا، ترکی کے کُردوں کو بغاوت پر اکسا دیا۔ وسطی ایشیا کی ریاستیں چونکہ روس کے دائرۂ اثر میں ہیں اس لیے اطمینان ہے کہ روس اس معاملے میں اپنا ہی اتحادی ہے۔ روس سے بڑے صاحب کے لاکھ جھگڑے ہوں مگر مسلمانوں کو نقصان پہنچانا ہو تو دونوں شیر و شکر ہو جاتے ہیں۔ روس ان ریاستوں کی پوری طرح نگرانی کر رہا ہے اور ثقافتی، لسانی اور عسکری اعتبار سے انہیں باقی مسلمان ممالک کے نزدیک نہیں آنے دے رہا!
رہے مصر اور پاکستان تو انہیں زندہ درگور کرنے کے لیے ایک اور نسخہ نکالا گیا‘ اور وہ ہے آئی ایم ایف والا نسخہ۔ مصر بھی اسی شکنجے میں کسا جا رہا ہے جس میں پاکستان! مگر ان دنوں پاکستان پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ اب آئی ایم ایف کے ذریعے مارنا ہو تو اس کا ایک خاص طریقہ ہے! طویل اور مرحلہ وار! یہ برسوں پر نہیں، عشروں پر محیط ہوتا ہے۔پہلے بجٹ کم کرایا جاتا ہے ۔ ٹیکس بڑھائے جاتے ہیں۔ بجلی، گیس، پانی کی قیمتیں زیادہ کی جاتی ہیں۔ پھر جب ان اقدامات کے ذریعے غربت میں اضافہ ہوتا ہے تو آئی ایم ایف کہتا ہے کہ غربت کم کرنے کی تجاویز بھی اس کے پاس ہیں؛ چنانچہ Poverty alleviation programs شروع کرائے جاتے ہیں جس کا مطلب ہے قرض میں مزید اضافہ!
جس ملک کو آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک کے زہر سے مارنا ہو تو پہلے وہاں اپنے گماشتے چھوڑے جاتے ہیں۔ یہ گماشتے دساور کے نہیں بلکہ اسی ملک کے ہوتے ہیں۔ یہ کبھی کھلم کھلا تو کبھی اندر سے اس استعماری ادارے کے ایجنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ انہیں اُن اداروں تک رسائی دی جاتی ہے جہاں ملک کی مالیاتی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں۔ یہ دی گئی ہدایات کے مطابق پالیسیوں کا رخ تبدیل کرا دیتے ہیں اور ملک کو آئی ایم ایف کے دروازے پر لا کھڑا کرتے ہیں۔ کرنسی کی قدر ڈالر کے مقابلے میں کم کرنا، آئی ایم ایف کا خاص ہتھیار ہے۔ اپریل 2000 میں اسی ادارے کے ماتحت ایکOverseas Development Council کی ٹاسک فورس بنائی گئی جس نے رپورٹ تیار کی۔ اس رپورٹ کو پڑھ کر انسان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ پہلے غربت، ایک منصوبے کے تحت، بڑھائی جاتی ہے۔ پھر غربت کم کرنے کے منصوبے پیش کیے جاتے ہیں، یوں حکومت کا جو نظام ہے اس کے اندر گھسا جاتا ہے۔ پاکستان کی وزارت خزانہ کے اندر، ایک طویل عرصہ سے، آئی ایم ایف کے نمائندے براجمان ہیں۔ پاکستان میں ایک اور کام کیا گیا ہے جو پہلے یہاں کبھی نہیں گیا۔ آئی ایم ایف کے ایک مستقل ملازم کو سٹیٹ بینک کا گورنر لگا دیا گیا ہے۔ یہ صاحب پہلے مصر میں آئی ایم ایف کے نمائندے کی حیثیت سے تعینات تھے۔
اگر آنکھیں کھلی ہیں تو صاف نظر آرہا ہے کہ پاکستان کو کس طرح شکنجے میں کسا جا رہا ہے۔ روپے کی قدر کم کی گئی۔ اب ڈالر کے مقابلے میں ایک سو ستر سے اوپر ہے۔ کیا عجب، ٹارگٹ اسے تین سو تک لے جانا ہو۔ پٹرول کی قیمت مسلسل بڑھائی جا رہی ہے۔ ملک کی تاریخ میں ایک سو سینتیس روپے فی لٹر کی قیمت اس سے پہلے کبھی بھی نہیں تھی۔ شنید ہے‘ سات روپے فی لٹر کا اضافہ مزید تیار ہے۔ ایک دو ماہ تک قوم کو بتایا جائے گا کہ وزیر اعظم اضافے کی تجویز کو نہیں مان رہے۔ اس کے بعد یہ اضافہ کر دیا جائے گا۔ ماضی میں بھی یہی ہوا۔ پہلے بچے کو لولی پاپ دیا جاتا ہے پھر اسے چپت رسید کی جاتی ہے۔ چپت کا پروگرام پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے۔ پٹرول کی قیمت میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی۔ یہ دو ہتھیار اس استعماری ادارے کے مضبوط ترین پھندے ہیں۔ یہ ملک کے گلے میں ڈال کر کسنا شروع کیا جاتا ہے۔ ملک ہاتھ پاؤں مارتا ہے۔ پھر بجلی اور گیس کی قیمت میں اضافہ، ٹیکسوں کی ظالمانہ بھرمار! بجٹ کی تیاری سے لے کر ترقیاتی منصوبوں کی تیاری تک، ہر کام میں مداخلت! ملک کی خود مختاری عملاً ختم ہو جاتی ہے۔ پاکستان کے ساتھ یہی کچھ ہو رہا ہے۔ مہنگائی کو وہاں تک لے جایا جائے گا جہاں عوام کے پاس سڑکوں پر آنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ بد امنی کا عفریت باہر نکل آئے گا۔ یہ وہ موقع ہو گا جب یہ عالمی ادارے تمام اندرونی اور خارجہ پالیسیوں کو ڈکٹیٹ کریں گے۔ اصل ہدف پاکستان کی ایٹمی قابلیت ہے۔ اقتصادی طور پر بے بس کرنے کے بعد چھری پھیری جائے گی۔ ہاں! اگر وہ مسبّب الاسباب غیب سے بچا لے تو اور بات ہے!
سٹیٹ بینک کے گورنر کی یہ عجیب و غریب منطق الیکٹرانک میڈیا پر سب نے سنی کہ روپے کی قدر میں کمی کا فائدہ تارکین وطن کو ہوا ہے کہ باہر سے ڈالر بھیجیں گے تو ان کے روپے زیادہ بنیں گے! ارے بھائی! ان روپوں کی قدر ہی کیا رہ گئی ہے۔ کل ردّی خریدنے والا رو رہا تھا کہ ردّی تولنے والا سکیل نواز شریف کے زمانے میں ایک سو ستر روپے کا تھا۔ اب چار سو تیس روپے میں مل رہا ہے‘ یعنی دو سو فی صد سے بھی زیادہ! ایک بڑے ترقی یافتہ ملک کے بڑے شہر سے ایک دوست بتا رہے تھے کہ اُن کے شہر میں تحریک انصاف کی تنظیمیں عملاً ختم ہو چکی ہیں۔ حمایت کا گراف تیزی سے نیچے جا رہا ہے۔ امریکہ میں بھی اس گراف کا رُخ نیچے کی طرف ہو چکا ہے۔ یہ اور بات کہ وہاں کے تارکین وطن کی آنکھیں بہت آہستہ آہستہ کھل رہی ہیں۔ پوری آنکھیں کھلیں گی مگر کچھ دنوں کے بعد۔ شکنجہ تو اُن لوگوں کے گرد کسا جا رہا ہے جو ملک کے اندر ہیں! سنیے! ہڈیاں ٹوٹنے کی آوازیں صاف سنائی دے رہی ہیں۔

بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, November 02, 2021

تاخیر مت کیجیے


پروفیسر صاحب کالج میں اس کے استاد تھے۔ خبر ملی کہ بیمار رہنے لگے ہیں۔ اسی دن اس نے ارادہ کر لیا کہ ان کی خدمت میں حاضر ہو گااور ان کے لیے پھل اور نیالباس لے کر جائے گا۔ ان سے پوچھے گا کہ ادویات کون کون سی لے رہے ہیں۔ پھر باقاعدگی سے ادویات پہنچایا کرے گا۔ کچھ رقم بھی ان کی خدمت میں پیش کرے گا۔ آج وہ جو کچھ بھی ہے‘ جس پوزیشن میں‘ مالی آسودگی کے ساتھ‘ اپنے اساتذہ کی وجہ سے ہے۔ اسے سکندر اعظم کا قول یاد آیا کہ والد مجھے آسمان سے زمین پرلایا اور استاد زمین سے اٹھا کر‘ دوبارہ آسمان جتنی بلندی پر لے گیا۔
اس کا پروگرام تھا کہ اسی اتوار کو ان کی خدمت میں حاضر ہو گا۔ اتفاق سے اتوار کی صبح گاؤں سے اس کا پرانا دوست آگیا جو شام تک اس کے پاس رہا۔ یوں معاملہ اگلے اتوار پر جا پڑا۔ اگلے اتوار اسے طبیعت میں اضمحلال سا محسوس ہوا۔ وہ دو پہر تک بستر ہی میں پڑا رہا۔ اس سے اگلے اتوار سسرال میں ایک دعوت تھی۔ ہفتے اسی طرح مہینے بن بن کر گزرتے رہے۔ اس نے اپنے آپ کو ملامت کی اور مصمم ارادہ کیا کہ اس اتوار کو سارے کام چھوڑ کر‘ہر حال میں‘ جائے گا۔ تاہم موت کے فرشتے نے اس کے مصمم ارادے سے اتفاق نہ کیا۔ اتوار آنے سے پہلے ہی اسے پروفیسر صاحب کی رحلت کی اطلاع مل گئی۔ وہ ہاتھ ملتا رہ گیا۔یاس اور حسرت نے اس کے دل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اسے اپنے آپ سے جرم کی بُو آنے لگی۔ وہ کئی دن خاموش رہا۔ بار بار سوچتا کاش گزشتہ اتوار کو ان کی خدمت میں چلا جاتا۔اب کفِ افسوس ملنے کے سوا کیا ہو سکتا تھا۔ اس نے ان کے ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی کرائی۔ ان کی بیوہ کو پھل‘ آٹا اور چینی بھجوائی۔فیس بک پر ان کی تصویر شیئر کی۔ بہت سے لائکس آئے۔ دوستوں نے کمنٹس میں مغفرت کی دعائیں کیں۔ مگر ایک کانٹا سا اس کے دل میں رہ گیا جس کی چبھن وقتاً فوقتاً اسے بے چین کرتی۔ افسوس! ہائے افسوس! کاش وہ ان کی وفات سے پہلے ان کے پاس چلا جاتا۔
یہ ایک شخص کی داستانِ حسرت نہیں! اس بے برکت آئینے میں ہم میں سے اکثر اپنا اپنا چہرا دیکھ سکتے ہیں! ہمارا کوئی پیارا‘ کوئی بزرگ‘ کوئی پیر صاحب‘ کوئی استاد‘ مرحوم والد کا کوئی دوست‘ گاؤں میں کوئی عزیز بیمار ہوتا ہے‘ یا بڑھاپے کی آخری منزلیں طے کر رہا ہوتا ہے‘ ہم دل کی گہرائیوں کے ساتھ اس کے پاس جانے کا پروگرام بناتے ہیں۔ کوئی نمائشی پہلو نہیں ہوتا۔ صرف اور صرف اپنے دل کی تسکین کی خاطر ! صدق ِدل کے ساتھ ! مگر پھر دنیا کی مکروہات اور روزمرہ کی مصروفیات آڑے آجاتی ہیں۔ آج نہیں‘ کل‘ کل نہیں پرسوں! غیر ارادی طور پر التوا پڑتا ہے اور بڑھتا جاتا ہے۔پھر خبر آتی ہے کہ وہ صاحب چل بسے۔ اس لیے اگر کسی سے ملنا ہے تو اس کی موت کا انتظار نہ کیجیے۔ دنیا کے کام کبھی ختم نہیں ہوتے۔ آپ کے اور ہمارے بعد بھی یہ کام ہوتے رہیں گے۔جس دن ساری مصروفیات چھوڑ کر بیمار کو یا کسی بوڑھے بزرگ کو ملنے چلے جائیں گے تو ان مصروفیات کو ترک کرنے سے کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑے گی۔ پہلے زمانے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ زمین کے نیچے ایک گائے ہے جس نے زمین کو اپنے ایک سینگ پر اٹھا رکھا ہے۔ ہم غیر شعوری طور پر سمجھتے ہیں کہ دنیا ہم نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھی ہے۔ یقین کیجیے جس دن آپ اپنے ضروری کاموں کی خود ساختہ فہرست کو نظر انداز کر کے کسی بیمار‘ یا کسی بسترِ مرگ پر پڑے شخص کو ملنے چلے جائیں گے‘ کاروبارِ دنیا کو ایک رمق برابر بھی نقصان نہیں ہو گا۔یہ ہمارا وہم ہے یا غلط فہمی یا ایک غیر شعوری خود پسندی کہ دنیا کے کام ہماری وجہ سے چل رہے ہیں۔ قبرستان ایسے لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جو اپنی دانست میں دنیا کا کارخانہ چلا رہے تھے۔ ایسی بہت سی کھوپڑیوں میں کوّے انڈے دے رہے ہیں اور آنکھوں کے سوراخ سانپوں کی گزر گاہوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
دوسروں کی موت کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ اس سے پہلے ہی ان سے ملاقات کر لینی چاہیے مگر ہمیں اپنی موت کا انتظار بھی نہیں کرنا چاہیے۔کسی کا قرض واپس کرنا ہے‘ یا کسی کی مدد کرنی ہے‘ کسی کے سامنے کچھ اعتراف کرنا ہے‘ یا کسی سے معافی مانگنی ہے‘ تو یہ کام ورثا کو سونپنے سے قبل خود ہی کر دینا چاہیے۔نیک کاموں کی فہرست کو مزید ملتوی نہ کریں۔ کل تو دور کی بات ہے‘ اگلا لمحہ‘ زندگی کا آخری لمحہ ہو سکتا ہے۔ جو کچھ کسی کو دینا چاہتے ہیں بس دے ڈالیے۔ ابھی ! اسی وقت !
کیا پتہ کل دینے والا نہ رہے‘ یا لینے والا نہ ملے!
پاکستان ہی کی بڑی بڑی کاروباری ایمپائرز کے انجام پر غور کر لیجیے۔ کراچی کا کیسا عظیم الشان کباب اور پراٹھا ہاؤس تھا۔ جیکب لائنز کے تھڑے سے آغاز ہوا اور سلطنت بن گئی۔ جڑواں شہروں میں بہت بڑا تعلیمی سلسلہ تھا۔ آج سب ورثا میں بانٹے جانے کے بعد اور کچھ وراثتی جھگڑوں کے بعد‘ پارہ پارہ ہو چکے ہیں؎
مرے لاشے کے ٹکڑے دفن کرنا سو مزاروں میں
بنے گا کوئی تو تیغِ ستم کی یادگاروں میں
دبئی سے لے کر اٹلانٹک پار تک محلات اور اپارٹمنٹس ! مگر کفن ایدھی کا! دولت بے حساب مگر خوراک عبرتناک !! خواجہ حسن نظامی نے مغل شہزادوں‘ شہزادیوں کا احوال قلم بند کیا ہے جو در در بھیک مانگتے تھے اور عبرت کا نشان تھے۔ یہ بات تو عام کہی جاتی ہے کہ کفن کی جیب نہیں ہوتی مگر سکندر کے تو دونوں ہاتھ تابوت سے باہر نکالے گئے تھے تا کہ سب دیکھ لیں‘ خالی ہاتھ جا رہا ہے!
وقت کی گیند‘ دنیا کے اس بازیچے میں‘ مسلسل گول کیے جا رہی ہے! تاریخ ہر رات ٹھیک بارہ بجے تبدیل ہو جاتی ہے۔ اذان دینے میں ایک منٹ کی تاخیر نہیں کی جاتی۔ اذان صرف نماز کے لیے بلانے کا کام نہیں کرتی بلکہ یہ بھی بتاتی ہے کہ وقت بگٹٹ بھاگا چلا جا رہا ہے۔ بڑے سے بڑے علامہ یا بادشاہ کے لیے بھی اذان مؤخر نہیں کی جاتی! سورج طلوع اور غروب ہونے میں ایک ثانیہ تاخیر یا تقدیم نہیں کرتا۔ دھوپ اور چھاؤں بڑے سے بڑے شہنشاہ کے لیے اپنا پروگرام نہیں بدلتی۔ تو پھر ہم اور آپ کس کھیت کی مولی ہیں اور ہماری کیا اوقات ہے۔ یہ جو ہم ٹائم ٹیبل بناتے پھرتے ہیں اس ٹائم ٹیبل کی کیا حیثیت ہے؟ ٹائم ٹیبل ضروری ہے! بالکل ضروری! مگر خالق اور اس کی مخلوق کے حوالے سے جو ہمارے واجبات ہیں‘ جو ذمہ داریاں ہیں اور جن جن چیزوں کی جواب دہی کرنی ہے‘ ان میں تاخیر کرنا‘ اور کرتے جانا‘ غفلت نہیں‘ پرلے درجے کی حماقت ہے۔ ہم نے اپنی اولاد کو جو کچھ دینا ہے‘ وہ تو ہمارے بعد بھی انہیں مل جائے گا مگر جو کچھ ہم خلقِ خدا کو دینا چاہتے ہیں وہ ہمارے بعد کسی نے نہیں دینا۔آنکھ بند ہونے کے ایک لمحے بعد دو اہم تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ایک تو نام ختم ہو جاتا ہے۔اب یہ چوہدری صاحب یا ڈپٹی صاحب نہیں‘ اب یہ میت ہے۔ صرف اور صرف میت! دوسرے‘ ملکیت کا خاتمہ! اس لیے تاخیر مت کیجیے!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, November 01, 2021

حالات کو زیادہ خراب کیسے کیا جائے؟؟


حکومتیں حماقتوں کا ارتکاب کرتی ہیں جب کہ فرد اپنے فیصلے عقل مندی سے کرتا ہے۔
گلستانِ سعدی اور قابوس نامہ کے علاوہ حکمرانوں کو ایک اور کتاب جو ضرور پڑھنی چاہیے، وہ خاتون امریکی تاریخ دان باربرا ٹَک مَین کی شہرۂ آفاق تصنیف 'حماقتوں کا مارچ‘ ہے‘ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے حکمران ایسی کتابیں پڑھتے ہیں؟ بلکہ زیادہ معقول سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے حکمران کتابیں پڑھتے بھی ہیں یا نہیں؟ لیاقت علی خان اپنے آخری سفر کے دوران بین الاقوامی تاریخ پر لکھی ہوئی، اُس وقت کی، تازہ ترین کتاب پڑھ رہے تھے۔ بھٹو صاحب کتابیں پڑھتے تھے۔ بے نظیر بھٹو بھی۔ ان کے بعد جو آئے، ان کے بارے میں کہنے کی نسبت کچھ نہ کہنا بہتر ہے۔ باربرا ٹک مین کی طرف واپس آتے ہیں۔ ان کا نظریہ یہ ہے کہ حکومتوں کے مقابلے میں فرد کے فیصلے دانش مندانہ ہوتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ایک فرد جب فیصلہ کرتا ہے کہ بزنس کون سا کرے، بچوں کی شادیاں کہاں کرے، مکان کیسا بنائے، تو خوب سوچ سمجھ کر اور معاملات کی تمام جہتوں کو پیشِ نظر رکھ کر کرتا ہے۔ حکومتوں کے فیصلے اس کے مقابلے میں احمقانہ ہوتے ہیں۔ آپ نجی ایئر لائنوں کا مقابلہ قومی ایئر لائن سے کر کے دیکھ لیجیے۔ سرکاری سٹیل مل کو دیکھ لیجیے۔ نجی شعبے میں سٹیل کا کاروبار خوب نفع کما رہا ہے۔ صنعتوں کو قومیانے کے فیصلے پر غور کیجیے۔ بے پناہ نقصان ہوا۔ ملک کئی عشرے پیچھے چلا گیا۔ جنرل ضیا کے فیصلے نے ملک کو غیر ملکیو ں سے، اسلحہ سے اور منشیات سے بھر دیا۔ موجودہ حکومت کے فیصلوں پر غور کیجیے۔ سیاحت کے محکمے کے تیس سے زیادہ موٹل بند کر دیے گئے ہیں۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی کا سربراہ جس طرح لگایا گیا، کیا اُس طرح نجی شعبے میں ہو سکتا ہے؟
موجودہ منظرنامہ دیکھ لیجیے۔ ایسی مضحکہ خیز صورت حال ہے کہ سر پیٹنے کو دل کر رہا ہے۔ کالعدم تنظیم کے حوالے سے جو وزرا بیان پر بیان دے رہے ہیں اور دیتے رہے ہیں، کیا ان میں سے کسی ایک کو بھی جناب وزیر اعظم اپنے ہسپتال یا اپنی یونیورسٹی کا انتظام سونپ سکتے ہیں؟ نہ صرف یہ کہ وزرا کے بیانات ایک دوسرے کے بیانات سے متصادم ہیں بلکہ ایک ہی وزیر کے بیانات ایک دن کچھ اور، دوسرے دن کچھ اور ہیں۔ صرف اسی حقیقت پر غور کیجیے کہ جن صاحب نے قوم کو اطلاع دی کہ کالعدم تنظیم کے ساتھ جو معاہدہ حکومت نے کیا تھا اور جس پر دو وفاقی وزرا نے دستخط کیے تھے، اس معاہدے کا علم وزیر اعظم کو نہیں تھا، آپ کا کیا خیال ہے کہ نجی شعبے میں ایسا بیان دینے والے شخص کے خلاف کوئی ایکشن نہ ہوتا؟ مذہبی امور کے وزیر نے برملا اسے جھوٹ قرار دیا اور کہا ہے کہ ان کی (یعنی وزیر مذہبی امور کی) مجال نہیں کہ وزیر اعظم کو بتائے بغیر کوئی معاہدہ کریں۔
فرض کیجیے آپ کی ایک فیکٹری ہے جس میں کچھ ہزار ورکر کام کر رہے ہیں۔ آپ نے اس کا چیف منیجر یا منیجنگ ڈائریکٹر رکھنا ہے۔ کیا آپ کسی ایسے شخص کو اس حساس کام کے لیے منتخب کریں گے جو پچھلے چند برسوں میں کئی ملازمتیں چھوڑ چکا ہے؟ کیا آپ اس کے ماضی کی بنیاد پر اس کا پروفائل نہیں بنائیں گے؟ موجودہ بحران کے تناظر میں جو حکومتی عمائدین پیش منظر پر چھائے ہوئے ہیں، وہ کئی پارٹیوں کی مسافرت طے کر کے، اور کئی حکومتوں کا پانی پی کر اس حکومت میں شامل ہوئے ہیں۔ کیا وہ اس بحران کے حوالے سے موزوں ترین شخصیات ہیں؟ موجودہ حکومت میں، گنتی ہی کے سہی، مگر ایسے افراد ضرور موجود ہیں جو اس بحران کے دوران ابلاغ کی ذمہ داری بہتر طور پر نبھا سکتے تھے‘ مگر Right man for the right job پر عمل کرنا یہاں بہت مشکل ہے۔ یہ تو ایک سائنس ہے۔ پوری سائنس! یہی تو وہ رکاوٹ ہے جو اس ملک کی ترقی کے راستے میں حائل ہے۔ جس کام کے لیے الف موزوں ہے وہاں جیم کو بٹھا دیا جاتا ہے اور الف کو جو کام سونپا جاتا ہے وہ اس سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا! کون انکار کر سکتا ہے کہ متضاد بیانات کی وجہ سے حکومت خجالت کا سامنا کر رہی ہے۔ مگر ذرا ٹھہریے! خجالت بھی تب ہوتی ہے جب اسے محسوس کیا جائے۔ محسوس کرنے کی صلاحیت ہی نہ ہو تو کہاں کی خجالت!
ایک عذرِ لنگ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ ٹیم اچھی نہیں! تو کیا کسی نے یہ ٹیم زبردستی مسلط کی ہے؟ خود ہی تو وزیر اعظم نے یہ ٹیم چنی ہے اور تشکیل دی ہے۔ انسان اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے اور حکمران اپنی ٹیم سے! پچاس سے زیادہ افراد کے بجائے پندرہ بیس افراد کابینہ میں ہوتے مگر ایسے کہ ایک ایک فرد بیس بیس کے برابر ہوتا۔ ایسے کہ جن کی مناسبت، موزونیت، لیاقت، تجربہ اور اخلاص شک و شبہ سے ماورا ہوتا۔ ایسا ہوتا تو سارا منظرنامہ ہی مختلف ہوتا۔ جب تحریک انصاف اپوزیشن میں تھی تو سب سے بڑی دلیل ہی اس کے حق میں یہی تھی کہ سب کو آزما لیا ہے تو تحریک انصاف کے لیڈر کو بھی آزما لیا جائے۔ مگر شومئی قسمت کہ جب تحریک انصاف کو حکومت ملی تو چُن چُن کر اُن افراد کو ذمہ داریاں سونپی گئیں جو ایک بار نہیں بار بار آزمائے جا چکے تھے۔ وہی پرانے چہرے!! مرغانِ باد نما کے ڈھیر لگا دیے گئے۔
اندرونی بحران طاقت سے نہیں، حکمت سے نمٹائے جاتے ہیں۔ اپنے عوام پر طاقت کا استعمال جمہوریت کا نہیں آمریت کا شاخسانہ ہے۔ دھمکی والی جو زبان جنرل پرویز مشرف نے اکبر بگتی کے لیے استعمال کی تھی، اس زبان سے گریز کرنا چاہیے۔ نیت صاف ہو تو مذاکرات سے مسئلہ حل ہو سکتا ہے‘ لیکن اگر طرز عمل یہ ہو کہ معاہدہ کیا جائے، پھر اس معاہدے کو خاطر ہی میں نہ لایا جائے، وعدے پورے ہی نہ کیے جائیں تو اس پس منظر میں مذاکرات کی کامیابی کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ پھر مردانِ کار ایسے جو پانی ڈالنے کے بجائے آگ کو ہوا دیں، متضاد بیانات دیں اور اشتعال انگیز باتیں کریں، جن کی ساکھ ہی نہ ہو اور جن پر اعتبار ہی کوئی نہ کرے!
اصل مسئلہ وہ دیوار ہے جو حکمران اپنے ارد گرد کھڑی کر لیتے ہیں۔ ایک حصار ہے جو ان کے گرد باندھ دیا جاتا ہے۔ اصل صورت حال سے انہیں جان بوجھ کر بے خبر رکھا جاتا ہے۔ حکمران اپنی اس مصنوعی دنیا میں گُم ہو جاتے ہیں اور مست رہتے ہیں۔ اپنی نوکریاں پکی کرنے کے لیے مفاد پرست مصاحب غلط مشورے دیتے ہیں۔ پھر جب طوفان سر پر آتا ہے تو کمال معصومیت سے پوچھتے ہیں کہ لوگ برہم کیوں ہیں؟ اسی معصومیت سے ہمارے وزیر اعظم نے کل کہا ہے کہ غربت کم ہو گئی ہے۔ پہلے زمانوں کے بادشاہ بھیس بدل کر شہروں میں پھرتے تھے تو اس میں یہی حکمت تھی کہ اپنی آنکھوں سے حالات دیکھیں اور اپنے کانوں سے عوام کی باتیں سنیں۔ مغربی ممالک کے حکمران برگر خریدنے کے لیے قطار میں کھڑے ہوتے ہیں یا اپنا سودا سلف بازار سے خود خریدتے ہیں تو اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی زلہ خوار یا چرب زبان یا دروغ گو انہیں اصل حالات سے بے خبر نہیں رکھ سکتا۔ ناروے کا وزیر اعظم عوام کے خیالات جاننے کے لیے بھیس بدل کر ٹیکسی چلاتا رہا اور مسافروں کی باتیں سنتا رہا۔ خلفائے راشدین کی یہی وہ روایات ہیں جو دوسروں نے اپنا لیں اور کامیاب ٹھہرے!
 

powered by worldwanders.com