Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, August 31, 2021

مکمل کنفیوژن



افغانستان سے انخلا کے مسئلے میں پاکستان نے جس طرح اپنے آپ کو شامل(Involve )کیا ہے یا جس طرح اسے شامل کیا گیا ہے‘اس کے حوالے سے معاملہ تاحال پیچیدہ اور مبہم ہے۔یوں لگتا ہے کہ حکومت خود بھی واضح نہیں ہے۔ وزارت ِداخلہ کچھ اور کہہ رہی ہے اور وزیر داخلہ کا بیان کسی اور سمت جا رہا ہے۔ رونامہ دنیا کے مطابق‘ وزارتِ داخلہ نے تحریری طور پر قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بتایا ہے ''نئے مہاجرین اور غیر قانونی افغان باشندے پاکستان کے لیے سنگین خطرات کا باعث بن سکتے ہیں‘‘۔ وفاقی وزیر داخلہ نے اگرچہ یہ کہا ہے کہ افغانستان سے آنے والوں کو آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت نہیں ہو گی مگر ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انخلا کے بعد پاکستان آنے والوں کی تعداد کا انحصار امریکہ اور دیگر ممالک پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ '' امریکہ اور اتحادی جتنے مرضی چاہیں افغان اور دیگر ممالک کے شہریوں کے لیے پاکستان میں ٹرانزٹ کی سہولت سے استفادہ کر سکیں گے۔اس معاملے میں تعداد کو سامنے نہیں رکھا جائے گا۔اتحادی جتنے مسافروں کو ٹرانزٹ دینے کی درخواست کریں گے‘ انہیں ویزے جاری کر دیے جائیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں شیخ رشید احمد نے کہا کہ افغانستان سے انخلا کے لیے پاکستان آنے والوں کو تیس دن کا ٹرانزٹ ویزا جاری کیا جائے گا۔‘‘ ( روزنامہ دنیا۔29اگست)۔
نوٹ کرنے والا پوائنٹ یہ ہے کہ وزارتِ داخلہ نے قائمہ کمیٹی کو بھیجے گئے تحریری جواب میں جس خطرے کا اظہار کیا ہے‘ وزیر داخلہ کے انٹرویو میں اس کا کوئی شائبہ تک نظر نہیں آرہا۔ بلکہ انہوں نے تو تعداد کے حوالے سے امریکہ اور اتحادیوں کو بلینک چیک دے دیا ہے۔ساتھ ہی ٹرانزٹ ویزا کے سلسلے میں تیس دن کی اطلاع بھی دی ہے۔
حسب ِمعمول حکومت نے اس انتہائی حساس ایشو پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا۔ یوں تو اپوزیشن کو بھی ساتھ بٹھا کر یہ معاملہ طے کرنا چاہیے تھا مگر خیر‘ جیساکہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں‘ موجودہ وزیر اعظم اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے یا بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔ سابق سربراہ سینیٹ جناب رضا ربانی نے حکومت سے کچھ سوال پوچھے ہیں۔ اول:پاکستان کو کس چیز نے مجبور کیا کہ وہ افغانستان سے نکلنے والوں کے لیے ٹرانزٹ سٹیشن کا کردار ادا کرے ؟ دوم:ان لوگوں کی‘ جنہیں ویزے دیے جا رہے ہیں‘ قومیتیں کیا کیا ہیں ؟ سوم:ان کا قیام کتنا ہو گا اور ویزا جو دیا جارہا ہے‘ کس ٹائپ کا ہے؟ چہارم: یہ امر یقینی بنانے کے لیے کہ یہ لوگ پاکستان سے چلے جائیں گے اور مقامی آبادی میں مکس نہیں ہوں گے‘ حکومت کیا احتیاطی تدابیر اختیار کر رہی ہے؟ پنجم: رضا ربانی نے ویزے دینے کی اس پا لیسی کو '' لبرل‘‘ قرار دیتے ہوئے یہ بھی پوچھا کہ حکومت نے داعش اور اسلامک سٹیٹ کے عسکریت پسندوں کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟ کیونکہ آنے والوں میں وہ بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ رضا ربانی نے کہا کہ یہ سب بنیادی سوالات ہیں۔عوام کو ان کے جوابات حاصل کرنے کا حق اس لیے بھی ہے کہ یہ مسئلہ ان کی زندگیوں کو متاثر کرے گا اورسوال ملک کی سکیورٹی کا بھی ہے۔ مسلم لیگ نون کے جناب احسن اقبال نے کہا ہے کہ حکومت کو‘ انخلا کے بعد آنے والوں کا ٹریک ریکارڈ رکھنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ یہ لوگ پاکستان چھوڑ کر چلے جائیں۔
دلچسپ بیان جماعت اسلامی کا ہے جو ماضی میں‘ خاص طور پر‘ جنرل ضیا ء الحق کے عہد میں‘ حکومت کی افغان پالیسی کی بہت بڑی حامی رہی ہے۔ قاضی حسین احمد مرحوم ایک اردو روزنامے میں شائع ہونے والے اپنے مضامین میں انکشاف کیا کرتے تھے کہ کس طرح اور کن کن جہادی رہنماؤں کو خفیہ طور پر لایا اور رکھا جاتا تھا۔ قاضی صاحب کے فرزند‘ جناب آصف لقمان قاضی نے‘ جو جماعت کے امورِ خارجہ ونگ کے سربراہ ہیں‘ حالیہ انخلا کے حوالے سے بہت منطقی سوالات اٹھائے ہیں۔ مثلاً یہ کہ جن افراد کو ایک ماہ ٹھہرنے کے لیے ویزے دیے جا رہے ہیں‘ حکومت ان کے کوائف مہیا کرے!یہ کہ کس فورم پر یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اتنے ہزار لوگوں کو ملک میں آنے دیا جائے گا؟ اور یہ کہ اس امر کی کیا ضمانت ہے کہ یہ غیر ملکی پاکستان کی سکیورٹی کے لیے خطرہ نہیں ثابت ہوں گے جیسا کہ ریمنڈ ڈیوس ثابت ہوا تھا؟ جماعت اسلامی کے رہنما نے اس کے بعد ایک سوال ایسا پوچھا ہے جس پر ہمارے پالیسی سازوں کو بالخصوس خارجہ امور کی گتھیاں سلجھانے والوں کو ضرور غور کرنا چاہیے۔ وہ یہ کہ کیا امریکہ نے بھارت کے ساتھ بھی‘ جو اس کاStrategic partnerہے‘ ایسے ہی انتظامات کیے ہیں؟ دوسرے لفظوں میں سوال یہ اٹھتاہے کہ امریکہ جس طرح پاکستان کو انخلا کے حوالے سے استعمال کر رہا ہے‘ بھارت کو کیوں نہیں کر رہا ؟
عملی طور پر کتنے افراد آتے ہیں اور کتنا قیام کرتے ہیں ؟اس سوال کا جواب‘ لمحہ موجود میں‘ شاید کوئی بھی نہ دے سکے۔اب تک‘ وفاقی وزیر داخلہ کے بیان کی رُو سے‘ ساڑھے تین ہزار افراد پاکستان آئے ہیں۔ان میں وہ چودہ سو بھی شامل ہیں جو سڑک کے ذریعے پہنچے ہیں۔ تقریباً تمام اپوزیشن جماعتوں نے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اگر موجودہ حکومت کے اصحابِ قضا و قدر اس وقت اپوزیشن میں ہوتے تو کیا عجب ان کا موقف اس سے بھی زیادہ سخت ہوتا اور یہ سارے سوالات یقینا وہ بھی پوچھتے۔پاکستان نے ماضی میں افغانستان سے آنے والوں کی وجہ سے بے پناہ جانی اور مالی نقصانات اٹھائے ہیں۔ یہ درست ہے کہ مہاجرین کی غالب اکثریت خطرناک نہیں تھی مگر لاکھوں افراد آرہے ہوں اور پھر سالہا سال‘ بلکہ دہائیوں تک قیام بھی کر رہے ہوں تو ان میں کئی ناپسندیدہ عناصر کا شامل ہو جانا ناممکن نہیں اور ایسا ہوتا رہا۔ اس ضمن میں یہ پالیسی کہ ان مہاجرین کو کیمپوں تک محدود رکھنے کے بجائے کھلا چھوڑ دیا جائے‘ ازحد نقصان دہ ثابت ہوئی۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ ایک انتہائی احمقانہ پالیسی تھی جس کا دور اندیشی سے دور کا تعلق بھی نہ تھا۔گھر میں معزز ترین مہمان بھی آ کر قیام کرے تو آپ اسے گھر کے تمام کمروں اور حصوں تک رسائی نہیں دے سکتے۔
انخلا میں پاکستان جو کردار ادا کر رہا ہے‘ یا‘ جو کردار ادا کرنے کے لیے‘ شاید‘ اسے مجبور کیا گیا ہے‘ اس کا پاکستان کو کیا فائدہ ہو گا؟ آج کل کی دنیا میں کوئی ملک کسی کے لیے کچھ نہیں کرتا جب تک اس کا اپنا مفاد شامل نہ ہو۔ امریکی تو اس رویے کے لیے خاص طور پر مشہور ہیں۔ یہ محاورہ کہ ''مفت میں لنچ کوئی نہیں کھلاتا‘‘ امریکہ ہی سے نکلا ہے۔ تو کیا پاکستان کو اتنا بڑا کردار ادا کر کے‘ اور اتنا بڑا خطرہ اپنی سکیورٹی کے ضمن میں لے کر‘ کچھ مالی اور دفاعی فوائد حاصل ہوں گے؟ اس سوال کا جواب عوام جاننا چاہتے ہیں۔ بات پھر وہی آجاتی ہے کہ اس سارے ایشو پر پارلیمان میں تفصیلی بحث ہونی چاہیے تھی۔ وزیر اعظم خود وہاں اپنی پالیسی کی وضاحت کرتے اور عوام کو اعتماد میں لیتے۔ اپوزیشن ارکان سوالات اٹھاتے۔ متعلقہ وزرا جواب دیتے۔ یوں مسئلے کے مختلف پہلو سامنے آتے اور حکومت کو فیصلہ کرنے میں آسانی بھی رہتی اور اس الزام سے بھی بچ جاتی کہ فیصلہ کرنے میں عوام شامل ہیں نہ پارلیمان نہ اپوزیشن! یہ طرفہ تماشا ہے کہ حکومت میاں نواز شریف صاحب کی ہو یا عمران خان صاحب کی‘ اس بات پرعملاً دونوں متفق ہیں کہ پارلیمان کی کوئی اہمیت نہیں۔ جمہوریت میں یہ پارلیمان ہوتی ہے جو حکومت کی رہنمائی کرتی ہے۔ دیکھیے ہمارے ہاں یہ اصلی جمہوریت کب آتی ہے؟

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, August 30, 2021

بیگانی شادی میں عبداللہ —ایک بار پھر—دیوانہ



یہ چھ سال پہلے کی بات ہے۔ شرقِ اوسط کے ایک طاقت ور حکمران نے فرانس میں تعطیلات گزارنے کا پروگرام بنایا۔ اس کے لیے تین ہفتوں کے قیام کا پلان بنا۔ جیسا کہ ان حضرات کا سٹائل ہے، ایک ہزار قریبی افراد، خاندان کے علاوہ، ساتھ تھے۔ اعلیٰ معیار کے ہوائی جہاز، گراں ترین گاڑیاں، اور دیگر لوازمات، جیسے جہاز سے اترنے کے لیے سنہری سیڑھیاں، سب ساز و سامان ساتھ تھا۔ خاص اور غیر معمولی بندوبست یہ تھا کہ مہمان کی خواہش کے مطابق، بیچ (ساحل) کا ایک بڑا حصہ عام پبلک کے لیے بند کر دیا گیا تاکہ مہمان کی پرائیویسی میں خلل نہ پڑے۔ بزنس کمیونٹی خوش تھی کیونکہ ان کھرب در کھرب پتی مہمانوں نے لاکھوں ڈالر فرانس میں خرچ کرنے تھے۔ پروگرام کے مطابق مہمان پہنچ گئے مگر ساتھ ہی ایک اور سلسلہ شروع ہو گیا۔ فرانسیسی سول سوسائٹی نے شدید احتجاج شروع کر دیا کہ بیچ‘ جو ملکیوں غیر ملکیوں سب کے لیے ہے، فرد واحد کی خاطر بند کیوں کر دیا گیا ہے۔ ڈیڑھ لاکھ شہریوں نے فرانسیسی صدر کو احتجاجی خط بھیجا۔ بالآخر مہمان اور میزبان‘ دونوں کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔ مہمان آٹھ دن کے بعد اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ مراکش چلا گیا۔ میزبان حکومت نے بیچ کی بندش کا حکم واپس لے لیا۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ فرانس ایک آزاد ملک ہے!
سنگا پور کا واقعہ قارئین کو پہلے بتایا تھا۔ وہاں رہنے والے ایک امریکی لڑکے کو ایک جرم میں کوڑوں کی سزا سنائی گئی۔ امریکہ میں تو جیسے آگ ہی لگ گئی۔ احتجاج اور ہر سطح پر احتجاج! امریکی کانگریس کے ارکان نے سنگا پور پارلیمنٹ کو خط لکھا۔ امریکہ کے صدر نے سنگا پور کے صدر کو فون کر کے سزا منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا‘ مگر سنگا پور ٹس سے مس نہ ہوا۔ امریکی لڑکے کو ایک عام مجرم کی طرح بید مارے گئے۔ اس لیے کہ سنگا پور ایک آزاد ملک تھا۔

ایک عام فرانسیسی کو کسی بھی وقت کسی بھی بیچ پر جانے کا حق حاصل ہے۔ وہ اس حق پر کسی کو ڈاکہ مارنے کی اجازت نہیں دیتا۔ پاکستان میں عام پاکستانی کے حقوق کتنے محفوظ ہیں؟ کئی بڑے شہروں کے ہوٹل گزشتہ ہفتے سے ملک کے شہریوں کے لیے بند ہیں۔ آئندہ تین ہفتوں تک کسی بُکنگ کی اجازت نہیں۔ پہلے سے موجود لوگوں کو بھی ہوٹلوں سے چلے جانے کے لیے آمادہ کیا جائے گا۔ ضلعی انتظامیہ نے ہوٹلز خالی کرانے کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا ہے۔ انگریزی معاصر کے مطابق وفاقی دارالحکومت کے تمام ہوٹلوں کا کنٹرول انتظامیہ نے سنبھال لیا ہے۔ جو غیر ملکی آئیں گے‘ وہ پاکستان میں مختصر قیام کے بعد اپنے اپنے ملک کو روانہ ہوں گے۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ایسا فرانس یا امریکہ یا کسی آزاد جمہوری ملک میں ہو سکتا ہے؟ لیکن یہاں اگر راستہ چلنے کا بنیادی حق غصب ہو سکتا ہے، اگر رُوٹ لگ سکتا ہے، اگر سرکاری اہل کاروں کی مدد سے یا کسی دھرنے یا جلوس کے ذریعے ٹریفک بلاک کی جا سکتی ہے‘ تو ہوٹلوں میں بکنگ کیوں نہیں بند کی جا سکتی! یہ جو محاورہ ایجاد ہوا ہے رُوٹ لگنا تو یہ بھی ہمارے ہاں کی خاص بات ہے۔ ایسے محاوروں کا مغربی ممالک سوچ بھی نہیں سکتے! اور پھر اگر یہ ملک ٹرانزٹ کے لیے استعمال ہونا بھی ہے تو یہ افراد یہاں، مبینہ طور پر، تین ہفتے کیوں ٹھہریں گے؟ کیا اگلی فلائٹ سے یہ اپنے ملک کو نہیں جا سکتے؟ کیا گارنٹی ہے کہ ان میں ہمیں نقصان پہنچانے والے لوگ شامل نہیں ہوں گے؟ آخر تین ہفتے یہاں رہنے کا کیا مقصد ہے؟

شادیانے بجائے جا رہے ہیں کہ ہمیں نئے مواقع مل رہے ہیں۔ ہمارا بہت بڑا رول ہے! ہم توجہ کا مرکز بننے جا رہے ہیں۔ ایک نئی Window of opportunity کھل رہی ہے۔ ہر ایسے موقع پر ہم نے یہی کہا اور پرائی آگ میں کُود گئے۔ افغانستان میں روسی آئے تو جنگ کی ذمہ داری ہم نے سنبھال لی۔ سرحد کی لکیر مٹا دی۔ دنیا بھر کے جنگجوئوں کو اپنے ملک کی سر زمین پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دی۔ ملک کے طول و عرض میں اسلحہ اور منشیات کی منڈیاں کھل گئیں۔ راکٹ تک بکنے لگے۔ سرکاری ملازموں کی اولادیں صنعت کار بن گئیں۔ شخصی ایمپائرز کھڑی کر لی گئیں‘ مگر ملک اتنا ہی غریب رہا۔ یہ جو آج پھر بھنگڑے ڈال رہے ہیں کہ دنیا کو ہماری ضرورت پڑ رہی ہے اور نئے مواقع مل رہے ہیں تو ان سے پوچھیے کہ گزشتہ مواقع میں آپ کے نفع و زیاں کا حساب کیا رہا! ضیاالحق اور پرویز مشرف کے زمانوں میں خوب خوب مواقع ملے، دنیا کو ہماری ضرورت پڑی۔ ہم اپنے شہریوں کو ایک ایک ہزار ڈالر میں فروخت تک کرتے رہے تو کیا ہم امیر ہو گئے؟ کیا غیر ملکی قرضے اتر گئے؟ کیا عام آدمی آسودہ حال ہوا؟ یہ کیسے مواقع تھے کہ آج ہم بین الاقوامی مالی اداروں کے پہلے سے بھی زیادہ محتاج ہیں؟ کہاں ہیں وہ ڈالر جو عشروں تک آتے رہے؟ ہمای بیلنس شیٹ میں اسی ہزار شہادتوں اور لاکھوں زخمیوں کے سوا کیا ہے؟

ہم ہمیشہ بیگانی شادی میں دیوانہ وار ناچتے ہیں اور پھر عزت نفس کو تار تار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دنیا ہماری قربانیوں کو تسلیم کرے؟ دنیا نے ہمارے آگے کب ہاتھ جوڑے تھے کہ جناب! کرم کیجیے اور قربانی دیجیے؟ دنیا کیوں تسلیم کرے؟ اگر کوئی قربانی ہم نے دی بھی ہے تو کیا دنیا سے داد لینے کے لیے دی ہے؟ کیا ہم نے ہر قربانی کا معاوضہ نہیں لیا؟ آج پھر ہم اپنے آپ کو پیش کر رہے ہیں! افغانستان کے پڑوس میں ہمارے علاوہ بھی تو ممالک آباد ہیں۔ ایران کو تو خیر کوئی یہ کہنے کی جسارت ہی نہیں کر سکتا کہ ہمارے لیے اپنے ملک کو راہ داری میں تبدیل کر دو‘ مگر تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان کے بارڈر بھی تو افغانستان کے ساتھ لگتے ہیں! کیا وہاں ہوٹل نہیں؟ کیا ان ہزاروں افراد کا انخلا ان ملکو ں کے ذریعے نہیں عمل میں لایا جا سکتا؟ صرف پاکستان ہی ہر بار کیوں استعمال ہوتا ہے؟ اس لیے کہ پاکستان اپنے آپ کو خود پیش کرتا ہے۔ پھر جب استعمال کرنے والے، استعمال کر کے پھینک دیتے ہیں تو ہم آہ و زاری اور نالہ و فریاد کرتے ہوئے آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں کہ ہمیں چھوڑ دیا گیا! کبھی ہم سسکیاں بھرتے ہیں کہ ہمیں ٹیلی فون نہیں کیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد پھر ایک نیا ہنگامہ کھڑا ہوتا ہے۔ ہم پھر کُود پڑتے ہیں۔ ہم عجیب مومن ہیں جو ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جاتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ افغان ہمارے بھائی ہیں۔ ہم ان کی خوشی اور غم میں شریک ہیں۔ ہم ان کے خیر خواہ ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان میں امن ہو۔ وہاں کے عوام خوشحال ہوں۔ ترقی کریں۔ تعلیم اور صحت کی وہاں سہولیات ہوں۔ افغان بچوں کے ہاتھوں میں بندوق کیوں ہو؟ کتاب کیوں نہ ہو؟ لیپ ٹاپ کیوں نہ ہو؟ تہذیبی، لسانی، نسلی، ادبی اور ثقافتی لحاظ سے ہم افغانستان سے اٹوٹ رشتہ رکھتے ہیں‘ مگر ہر بار افغانستان کے نام پر ہم یہ امریکی پنجالی اپنی گردن پر کیوں رکھ لیتے ہیں؟ سرسبز و شاداب کھیت میں یہ سانپ ہم سے کیوں لپٹ جاتا ہے؟ افغانستان آتے جاتے ہوئے ہم امریکی کھائی میں کیوں گر جاتے ہیں؟ ہم امریکہ کے ایک ٹیلی فون پر یا تو ڈھیر ہو جاتے ہیں یا ایک ٹیلی فون کے لیے ترستے رہتے ہیں! کبھی انخلا کے لیے استعمال ہوتے ہیں تو کبھی ادخال کے لیے! علامہ اقبال نے افغانوں کو نصیحت کی تھی:
اپنی خودی پہچان، او غافل افغان!
افغان تو علامہ کی نصیحت پر عمل پیرا ہیں۔ ہمارا کیا ہو گا؟ ہم اپنی خودی کب پہچانیں گے؟

بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, August 26, 2021

ٹانگ سُوجی ہوئی ہے



ایبٹ آباد نے مدتوں سے اپنی دلکشی کا اسیر کر رکھا ہے۔ کیا شہر ہے اور کیا اس کے مضافات ہیں! شہر کے ارد گرد پہاڑ! جیسے جنوبی اٹلی کے خوبصورت شہر نیپلز کے ارد گرد! فرق یہ ہے کہ جن پہاڑوں نے نیپلز کو حصار میں لے رکھا ہے ان کی چوٹیوں تک ٹرینیں جاتی ہیں اور بسیں بھی! ایسا کوئی امکان ایبٹ آباد کی قسمت میں نہیں! ہاں یہ ضرور ہو رہا ہے کہ ایبٹ آباد کے نواحی پہاڑوں کو ملیامیٹ کر کے جُوع الارض (Land Hunger) کی تسکین کی جا رہی ہے۔ دوسرے ملکوں نے قدرتی حسن کو سہولیات سے مالا مال کیا کہ سیاح کھنچے چلے آئیں اور ہم قدرتی حسن کو ڈائنامائیٹ سے ختم کر رہے ہیں۔ ایبٹ آباد کو علامہ اقبال کی میزبانی کا شرف بھی حاصل رہا ہے۔ علامہ کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد ایبٹ آباد میں بسلسلۂ ملازمت مقیم تھے۔ علامہ 1904 میں ان کے ہاں تشریف لائے۔ ایبٹ آباد کے پہاڑ ''سربن‘‘ کی خوش بختی ہے کہ علامہ کے کلام میں اس نے جگہ پائی
اٹھی پھر آج وہ پورب سے کالی کالی گھٹا
سیاہ پوش ہوا پھر پہاڑ ''سر بن‘‘ کا
مگر جو بات کہنی ہے اور ہے۔ ایبٹ آباد کے ماتھے کا جھومر شملہ پہاڑی ہے۔ شباب کے زمانے میں پیدل چوٹی تک جایا کرتے تھے۔ پہلی بار عجیب لگا کہ ہر درخت پر، ہر بنچ پر، ہر کوڑے دان پر، کسی نہ کسی کا نام لکھا تھا۔ اُس وقت ٹیلی فون خال خال تھے۔ چنانچہ یہ طالع آزما صرف اپنا نام اور اپنے شہر یا قصبے یا گاؤں کا نام لکھنے پر اکتفا کرتے تھے۔ اس کے بعد شملہ پہاڑی پر اتنی بار چڑھے کہ ان احمقانہ تحریروں کو دیکھنے کے عادی ہو گئے۔ یہ تحریریں ہماری سائکی کا مظہر ہیں۔ جو جو نقوش ہمارے لوگوں نے لیٹرینوں کی دیواروں پر چھوڑے ہیں، ان کا کیا ہی کہنا! بد اخلاقی اور فحش گوئی کے غلیظ نمونے! اور ساتھ ٹیلی فون نمبر! مگر جو کارنامہ اس حوالے سے تازہ ترین ہے اس نے تو گویا تاریخ رقم کر دی ہے!
یہ پی آئی اے کی بین الاقوامی پرواز تھی۔ جہاز اترا۔ مسافر چلے گئے۔ اس کے بعد، روٹین کے مطابق، جہاز کی صفائی شروع ہوئی۔ صفائی کے دوران دیکھا گیا کہ جہاز کی ایک کھڑکی پر کسی نے اپنا فون نمبر لکھ دیا ہے۔ ایک نہیں دو فون نمبر! صفائی کے انچارج نے ان نمبروں کے مالک کو پیغام بھیجا کہ یہ تم نے کیا چاند چڑھایا ہے! یہ کوئی سکول ڈیسک ہے یا بس؟ اور یہ کہ اس حرکت کی پاداش میں تمہیں عدالت میں بھی بلایا جا سکتا ہے اور جرمانہ بھی عائد کیا جا سکتا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے‘ اُس عظیم شہری نے معذرت کی ہو گی؟ نہیں! اس نے پوری ڈھٹائی اور بے خوفی سے جواب دیا کہ یہ تو تفریحاً لکھ دیا تھا۔ پھر اس مردِ دانا نے مشورہ دیا کہ مجھ سے ہزار پندرہ سو روپے لے لو اور بازار سے ڈیٹرجنٹ پاؤڈر منگوا کر صاف کر دو‘ اللہ اللہ خیر سلّا!
ایئر لائن کو چاہیے تھا کہ اس مسافر کو سال دو سال کے لیے بلیک لسٹ کر دیتی۔ یقیناً یہ کارنامہ سرانجام دے کر ہم نے ہوا بازی کی بین الاقوامی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے! ایک روشن باب! اور مسافر بھی کوئی ایسا ویسا نہیں تھا، بین الاقوامی پرواز میں تھا۔ اس کی ذہنی سطح کا تصور کیجیے! جب وہ فون نمبر لکھ رہا تھا تو نہ جانے کیا کیا تصوراتی محل اس کے ذہن میں تعمیر ہو رہے تھے۔ یا تو وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ ایسا کر کے وہ تاریخ میں ایک مقام حاصل کر رہا ہے یا اسے گمان تھا کہ کوئی حور وَش، کوئی زہرہ جبیں، کوئی سیم تن ان نمبروں پر فون کرے گی! جہاز کی صفائی کے انچارج نے اسے کہا کہ یہ کوئی ڈیسک تھا یا تم نے اسے بس سمجھا تھا! غور کیجیے تو اس طعنے میں (یا سرزنش میں) ایک جہان معنی چھپا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سکول کے ڈیسک پر یا بس کی دیوار یا کھڑکی پر لکھنا ہمارے ہاں کا معمول ہے! اسے اب برا سمجھا ہی نہیں جاتا! سرکاری بسیں جب عام تھیں تو کھڑکیوں پر کچھ لکھنے کے علاوہ ان کی نشستیں پھاڑ کر اسفنج نکالنا بھی مسافروں کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ جلد ہی بانس رہا نہ بانسری! بسیں غائب ہو گئیں! کسی کو نہیں معلوم کہ کروڑوں اربوں کے یہ اثاثے کس کھائی میں گرے یا کن معدوں میں اترے! وفاقی دارالحکومت کے آئی ایٹ سیکٹر میں ان سرکاری بسوں کا بہت بڑا ڈپو تھا۔ اسے جی ٹی ایس کا ڈپو کہا جاتا تھا۔ یہ اربوں کی قومی جائیداد تھی۔ ترقیاتی ادارے نے اسے پلاٹوں میں تبدیل کر دیا۔ وہی جُوع الارض یعنی لینڈ ہنگر ! جس کا علاج اگر ہے تو صرف قبر کی مٹی ہے۔
اب اگلے مرحلے میں ہوائی جہازوں کی نشستیں پھاڑی جائیں گی اور اندر سے اسفنج یا جو کچھ بھی ہے نکالا جائے گا۔ یہ ہمارا ذوق ہے! یہ ہماری سوچ کی معراج ہے۔ جو کچھ بسوں‘ ویگنوں‘ ٹرکوں، رکشوں یہاں تک کہ پرائیویٹ گاڑیوں کے پیچھے لکھا ہوتا ہے اس سے بھی ہمارے ذوق کا پتہ چلتا ہے۔ تعلیم کا معیار، شاعری کا معیار سب عیاں ہوتا ہے۔ عقیدے دلوں سے نکلے اور کاروں کے عقبی شیشوں پر ثبت ہو گئے۔ آپ یونان سے لے کر چلّی تک اور آئس لینڈ سے لے کر جنوبی افریقہ تک گھوم آئیے کسی گاڑی کے عقبی شیشے سے معلوم نہیں ہو گا کہ گاڑی کا مالک پروٹیسٹنٹ ہے یا کیتھولک! اس قبیل کی اطلاع کی سہولت صرف ہمارے ہاں ہے! ماں کو پتہ نہیں پوچھتا بھی ہے یا نہیں مگر یہ اعلان سارے زمانے میں کرتا پھرتا ہے کہ یہ سب میری ماں کی دعا ہے۔ اور تو اور، کھٹارہ ٹائپ وینوں کے پیچھے ''قصویٰ‘‘ لکھا ہوا بھی دیکھا۔ استغفراللہ! کہاں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ناقۂ مبارک! اور کہاں تمہاری یہ وین! کوئی غیر مسلم یہ حرکت کرتا تو دھر لیا جاتا مگر مسلمان خود جتنی توہین چاہیں کریں ! مکمل آزادی ہے ! ایسی گاڑیاں لا تعداد ہوں اور زرِ خالص کی کیوں نہ بنی ہوں، ناقۂ مبارک کے پاؤں سے اٹھی ہوئی دھول کے ذرے کے برابر بھی نہیں !
کوئی چلّہ، کوئی دم درود! کوئی وظیفہ ! کوئی وِرد! کوئی ٹونہ! کوئی فال! کوئی استخارہ ! کوئی منتر ، کوئی سِحر! کوئی افسوں! کہ ہم سلجھ جائیں ! سدھر جائیں ! ہے کوئی نجومی جو اس قوم کا ہاتھ دیکھے، زائچہ کھینچے اور بتائے کہ یہ قوم ذہنی بلوغت کو کب پہنچے گی؟ پہنچے گی یا نہیں ؟ ہے کوئی طبیب حاذق جو اس مدقوق قوم کو کوئی ایسا کُشتہ تجویز کرے کہ یہ ذہنی لحاظ سے تندرست ہو جائے ! کوئی سرجری ! کوئی پیوند کاری ! کوئی مصنوعی دماغ ! یا پھر ہم لا علاج ہیں! اب تو یہ بھی ممکن ہے کہ طبیب ہماری نبض پر انگلیاں رکھے اور بے ہوش ہو جائے ! ہمارا حال تو اب اُس شخص سا ہے جو ڈاکٹر کے پاس گیا تو اپنی تکلیف بتانے سے پہلے ڈاکٹر سے وعدہ لیا کہ اس کی بیماری کا مذاق نہیں اڑائے گا۔ ڈاکٹر نے یقین دلایا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہو گی ! اب اس نے اپنی ٹانگ دکھائی۔ ڈاکٹر ششدر رہ گیا۔ اتنی دُبلی پتلی ٹانگ ڈاکٹر نے زندگی میں پہلی بار دیکھی تھی۔ بالکل نحیف و نزار ! ماچس کی تیلی جیسی ! یوں لگتا تھا‘ ہاتھ ذرا زور سے لگ گیا تو ٹوٹ جائے گی ! ڈاکٹر کہنے لگا: میں سمجھ گیا ہوں‘ تم چاہتے ہو تمہاری ٹانگ نارمل ہو جائے ! اتنی نحیف، اتنی دبلی پتلی نہ رہے۔ مریض نے سر دائیں بائیں ہلایا! کہنے لگا: نہیں ڈاکٹر صاحب ! یہ سُوج گئی ہے! ہمارا بھی یہی حال ہے۔ ذہنیتیں کم مایہ ہیں اور زعم ارجمندی کا -
بشکریہ روزنامہ پاکستان

Tuesday, August 24, 2021

کس قدر مضبوط اعصاب ہیں ہمارے ! واہ


بہت شور اٹھا تھا۔
ایک سو پچاس سال پہلے جب سرسیداحمد خان نے کہا تھا کہ اگر انگریز ہمیں جانور سمجھتے ہیں تو درحقیقت ہم ایسے ہی ہیں‘ تو بہت شور اٹھا تھا۔ انہیں کرسٹان تک کہا گیا تھا۔ ڈیڑھ صدی گزر گئی۔ اس طویل عرصے میں کیا ہم انسان بن گئے ہیں ؟ یا جانور کے جانور ہی رہے؟ یا اس سے بھی بد تر ہو گئے ہیں؟ ہم میں سے ہر شخص‘ زبان سے اقرار کرے یا نہ کرے‘ اس کا جواب جانتا ہے اور خوب اچھی طرح جانتا ہے۔
یومِ آزادی پر گریٹر اقبال پارک میں جو کچھ ہوا اس کے بعد کسی سے پوچھنے کی ضرورت ہے نہ کسی کو بتانے کی کہ ہم کیاہیں ؟ انسان یا جانور؟ لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ بڑے بڑے دانشور‘ بڑے بڑے لکھاری‘ اصل بات کی طرف نہیں آرہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ واقعہ اچانک نہیں پیش آیا۔ اس کے پیچھے ہماری نسلوں کی محنت ہے۔ ایک عورت پر‘ خواہ وہ کتنی ہی بری کیوں نہ ہو‘ پِل پڑنا‘ وحشی ہو جانا‘ اسے نوچنا‘ ایک سوچ ہے‘ ایک رویہ ہے! یہ سوچ‘ یہ رویہ‘ پشت در پشت تربیت کا نتیجہ ہے۔ ان چار سو یا چار ہزار افراد کو ان کے گھروں سے‘ ان کے سکولوں کالجوں سے‘ ان کے گلی ‘ محلوں سے‘ ان کے اعزہ و اقارب سے یہی تربیت دی گئی ہے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ انہیں تربیت شرافت کی دی گئی تھی اور اس کے باوجود وہ جانور بن گئے تو وہ احمق ہے یا منافق۔ جیسا بیج بویا گیا‘ ویسی ہی فصل تیار ہوئی۔شرم آنی چاہیے ان چار سو یا چار ہزار افراد کے ماں باپ کو ‘ ان کے اساتذہ کو اور ان کے گلی محلوں کے بڑوں کو جنہوں نے یہ سلگتے انگارے اس قوم کو دیے!
قوم کو دیے ؟ کون سی قوم ؟ کیا یہ قوم ہے ؟ یا ایک بے سمت‘ بپھرا ہوا ہجوم ! جس کے آگے کوئی عورت‘ کوئی بچہ‘ کوئی بچی محفوظ نہیں! اور جو اقبال پارک کے المیے پر ماتم کر رہے ہیں ‘ ان کی سوچ پر بھی ماتم کرنا چاہیے! کیا باقی سب ٹھیک ہے ؟ کیا وحشت و بربریت کا مظاہرہ صرف اُسی دن ہوا؟ کیا ہماری ٹریفک انسانوں والی ہے ؟ وہ خوش لباس‘ تعلیم یافتہ شخص جو گاڑی کے پیچھے گاڑی کھڑی کر کے غائب ہو جاتا ہے ‘ کیا وہ انسان ہے؟ اس میں اور جانور میں کیا فرق ہے ؟ کیا کسی نے قومی یا صوبائی اسمبلی میں کبھی پوچھا ہے کہ ایک سال میں ڈمپروں‘ ٹریکٹروں اور ٹرالیوں کے ڈرائیور کتنے افراد کو ہلاک کرتے ہیں؟ کیا یہ ڈرائیور انسان ہیں ؟ اور کیا انہیں سڑکوں پر کھلا چھوڑ دینے والے انسان ہیں ؟ کیا وہ شخص جس نے گھر میں جعلی دواؤں کی فیکٹری لگا رکھی ہے اور لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار رہا ہے‘ کیا وہ انسان ہے ؟
آپ اس بنیادی بات پر غور کیجیے کہ کاؤنٹر پر آپ سودا لے کر ابھی قیمت ادا کر رہے ہیں کہ ایک شخص آکر‘ آپ کی بات کاٹ کر ‘ کاؤنٹر والے کو پیسے دینے کی کوشش کرتا ہے۔کیا وہ دیکھ نہیں رہا کہ ایک گاہک اس سے پہلے کھڑا ہے ؟ ایک انسان میں اتنی سمجھ بوجھ ہونی چاہیے کہ کاؤنٹر والا ایک اور گاہک کو ڈیل کر رہا ہے۔ اگر اس میں اتنی سمجھ بوجھ بھی نہیں تو اسے انسان کس طرح کہا جا سکتا ہے ؟ اور ایسا یہاں ہر جگہ‘ ہر روز سینکڑوں بار ہو رہا ہے۔
اس معاشرے میں کون انسان ہے ؟ کیا وہ انسان ہیں جن کے اکاؤنٹس میں کروڑوں اربوں آجاتے ہیں؟ کہاں سے ؟ کسی کو کچھ معلوم ہے نہ وہ خود ہی بتاتے ہیں۔ ملک کے اندر اور باہر مزے کی زندگی گزار رہے ہیں۔ شرفا بچوں کے رشتے وہاں طے کرتے ہیں جہاں شرافت ہو۔ یہاں مانے ہوئے ‘ رسوائے زمانہ‘ بد عنوان خاندانوں میں فخر سے بندھن باندھے جاتے ہیں اور یہ لوگ کون ہیں ؟ ہمارے مستقبل کے حکمران ! جتنا جھوٹ ‘جتنی عہد شکنی ‘ جتنی فریب کاری‘ جتنی حیلہ گری اس معاشرے میں ہے اور ہر سطح پر ہے اتنی کس مہذب معاشرے میں ہے ؟ کسی سے شکوہ کریں کہ بھائی آپ نے وعدہ کیا تھا! تو آگے سے پوری ڈھٹائی اور کمال بے شرمی سے کہے گا کہ میں نے وعدہ نہیں کیا تھا‘ میں نے تو ایک بات کی تھی ! ذرا سوچیے دکاندار بھول کر ہمیشہ کم رقم کیوں واپس کرتا ہے ؟ کبھی بھول کر زیادہ کیوں نہیں واپس کرتا؟ ادنیٰ سے ادنیٰ تک اور اعلیٰ سے اعلیٰ تک ‘ یہاں کوئی بھی سیدھا نہیں۔ شفافیت کا نام ونشان نہیں! کثافت کے ڈھیر لگے ہیں۔ جہاں واعظ سادہ لوح  عقیدت مندوں کو تلقین کریں کہ  حجامہ کرواؤ کہ ستر بیماریوں کا علاج ہے اور  بار بار کہیں کہ  اس سے ڈاکٹروں سے جان چھوٹ جائے گی اور خود دل کا عارضہ ہو تو ڈاکٹروں کے پاس جا کر سٹنٹ ڈلوائیں ‘ وہاں ایک عام آدمی کے قول اور فعل میں فرق کیوں نہ ہو ؟ ہمارے قول اور فعل میں تولے یا چھٹانک کا نہیں‘ منوں اور ٹنوں کا فرق ہے! ہمیں اس پر کوئی شرمندگی نہیں! کوئی افسوس نہیں ! کوئی ندامت نہیں!
ہم وہ بدقسمت قوم ہیں جس کے راہبر وں کو راستے کا علم نہیں ! ہم ہجوم کی صورت کبھی ایک کے پیچھے چلتے ہیں کبھی دوسرے کے پیچھے! پھر جس نے غلط راستہ بتایا تھا‘ بار بار اسی سے پوچھتے ہیں! اسی کے پیچھے چلتے ہیں! ہم ایک دوسال نہیں‘ چار پانچ سال نہیں‘ اکیس سال‘ پورے اکیس سال تبدیلی کے لیے جدو جہد کرتے ہیں! پھر جب تبدیلی لانے کا موقع ملتا ہے تو ہم ‘ تبدیلی لانے کا یہ کام شیخ رشید صاحب‘ عمر ایوب صاحب‘ فہمیدہ مرزا صاحبہ‘ زبیدہ جلال صاحبہ‘ فردوس عاشق اعوان صاحبہ‘ غلام سرور خان صاحب‘ اعظم سواتی صاحب ‘ ڈاکٹر عشرت حسین صاحب ‘ خسرو بختیار صاحب‘ فروغ نسیم صاحب‘ میاں محمد سومرو صاحب ‘ حفیظ شیخ صاحب‘ پرویز الٰہی صاحب اور عثمان بزدار صاحب کو سونپ دیتے ہیں۔ یہ قول آئن سٹائن سے منسوب ہے کہ The definition of insanity is doing the same thing over and over again, but expecting different resultsکہ دیوانگی یہ ہے کہ وہی چیز بار بار کی جائے مگر امید یہ رکھی جائے کہ نتیجہ مختلف نکلے گا!
ہم وہ لوگ ہیں جو پانی میں مدھانی ڈالتے ہیں‘ پھر گھنٹوں بلوتے ہیں پھر حیران ہوتے ہیں کہ مکھن نہیں نظر آرہا ! پھر ہم پانی میں نقص نکالتے ہیں یا اسی پانی میں مدھانی نئی ڈالتے ہیں! ہمارا انصاف یہ ہے کہ بے زبان سرکاری ملازم کو گرفتار کر لیتے ہیں اور احباب کو چھوڑ دیتے ہیں ! پٹواری کو پکڑ لیتے ہیں مگر جو ضلع کے ریونیو کا انچارج ہے اسے ڈپٹی کمشنر سے ترقی دے کر کمشنر بنا دیتے ہیں!
راتوں رات کوئی معجزہ برپا ہونے والا نہیں ! جانور راتوں رات انسان نہیں بنتے! یہاں ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا اور تیسرے کے بعد چوتھا ظاہر جعفر ظاہر ہوتا رہے گا!یہاں اقبال پارک میں جانور عورتوں کو اچھالتے‘ نوچتے ‘ بھنبھوڑتے رہیں گے! یہاں گرنے والے پر قہقہے لگتے رہیں گے! مجرموں کی ضمانتیں ہوتی رہیں گی ! سفید فام ریمنڈ ڈیوس ہی نہیں‘ گندمی رنگت اور سیاہ رنگت والے ریمنڈ ڈیوس بھی رہا ہوتے رہیں گے! اگر گزشتہ ڈیڑھ سو سال ہمیں بدل نہیں سکے تو اگلے ڈیڑھ سو برسوں کو کون سے سرخاب کے پر لگے ہوں گے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم نیچے‘ اور نیچے ‘ اور نیچے جا رہے ہیں! ہمارے تنزل کا کوئی انت نہیں! ہم شفاخانوں پر اپنے باپ کا نام فخر سے لکھتے ہیں مگر ان شفاخانوں کی تعمیر باپ کے پیسے سے نہیں‘ قوم کے خزانے سے کرتے ہیں! پھر ہم یہ شکوہ بھی کرتے ہیں کہ دنیا ہمارے سبز پاسپورٹ کی عزت نہیں کرتی ! کس قدر مضبوط اعصاب ہیں ہمارے ! واہ !

Monday, August 23, 2021

افغانستان میں تبدیلی اور ہماری امیدیں



اس میں کیا شک ہے کہ طالبان کی مراجعت ہم عصر تاریخ کا ایک انتہائی اہم واقعہ ہے۔
طالبان اپنے ملک میں کیا کرتے ہیں؟ ان کی پالیسیاں خواتین، موسیقی اور کھیلوں کے بارے میں کیا ہوں گی؟ وہ حکومت میں کون کون سے گروہ شامل کرتے ہیں اور کون کون سے نہیں؟ ان کی حکومت جمہوری ہو گی یا کچھ اور؟ اسلام کی تعبیر وہ کس طرح کرتے ہیں؟ یہ سب افغانستان کے اندرونی مسائل ہیں۔ ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ ہم یہ دعا بہر طور کرتے ہیں کہ افغانستان میں، جو زخموں سے چور چور ہے، امن ہونا چاہیے۔ وہاں کے عوام خوش اور خوش حال ہونے چاہئیں۔
ہم پاکستانیوں کی دل چسپی، طالبان کے حوالے سے، اُن امور میں ہونی چاہیے جو پاکستان سے متعلق ہیں۔ ہمارا پہلا مسئلہ یہ ہے کہ آج تک کسی افغان حکومت نے ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کیا۔ ڈیورنڈ لائن 1893 میں دونوں ملکوں کے مابین ایک معاہدے کے تحت کھینچی گئی تھی۔ ایک طرف برطانوی ہند تھا اور دوسری طرف امیر عبدالرحمان خان کا افغانستان!
قیام پاکستان سے پہلے افغانستان ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرتا رہا۔ پاکستان وجود میں آیا تو ایک طرف افغانستان نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی اور دوسری طرف ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس وقت سے لے کر آج تک کسی افغان حکومت نے ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کیا۔ ہم پاکستانی امید کرتے ہیں کہ طالبان حکومت اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کر دے گی اور ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرے گی جیسا کہ تقسیمِ ہند سے پہلے کی افغان حکومتیں تسلیم کرتی آئی تھیں۔
ہمارا دوسرا بڑا مسئلہ افغان مہاجرین ہیں جن کی تعداد تیس لاکھ سے کم نہیں۔ جنرل ضیاء الحق کی کوتاہ بین اور غیر متوازن پالیسی کی وجہ سے یہ مہاجرین گلگت کے پہاڑوں سے لے کر کراچی کے ساحلوں تک، پاکستان کے اطراف و اکناف میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان مہاجرین نے پاکستان کی معیشت، معاشرت اور امن و امان پر بہت زیادہ منفی اثر ڈالا ہے۔ عملاً یہ ریاست کے اندر ایک ریاست کی طرح ہیں۔ مثلاً وزیر اعظم کے دفتر سے دس پندرہ منٹ کی ڈرائیور پر ایک معروف بستی عملًا غیر ملکی بستی ہے جہاں باقاعدہ جرگہ سسٹم چلتا ہے۔ اٹک، لاہور اور کئی دیگر مقامات پر جھگڑے ہوئے اور قتل و غارت تک نوبت پہنچی۔ جہاں جہاں بھی مہاجر آباد ہیں، مقامی آبادیوں کے ساتھ ان کی کشمکش رہتی ہے۔ اب جب افغانستان میں امن و امان اور استحکام کی امید آ چلی ہے تو ہمیں یہ توقع رکھنی چاہیے کہ یہ مہاجرین واپسی کی راہ لیں گے۔ طالبان جہاں افغانوں سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ اپنا ملک چھوڑ کر نہ جائیں وہاں انہیں اُن مہاجرین سے بھی، جو پاکستان میں مقیم ہیں، کہنا چاہیے کہ وہ واپس آئیں اور ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں۔
ہمارا تیسرا مسئلہ وہ اینٹی پاکستان عناصر ہیں جو افغانستان میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ جمعہ کے روز ہماری وزارت خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ پاکستان، آنے والی افغان حکومت سے کہے گا کہ تحریک طالبان پاکستان کے خلاف ایکشن لے۔ ترجمان سے اس خبر کے بارے میں بھی سوال کیا گیا جس کی رُو سے افغانستان میں رہا کیے گئے قیدیوں میں اینٹی پاکستان عناصر بھی شامل ہیں۔ حال ہی میں ٹی ٹی پی کے سربراہ نے، جو مبینہ طور پر افغان علاقے میں ہے، سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے برملا اعلان کیا کہ اس کی لڑائی ریاست پاکستان سے ہے اور یہ کہ وہ سرحدی علاقوں پر قبضہ کر کے انہیں آزاد سٹیٹس دینا چاہتا ہے۔ صحافی اور سابق سفیر ملیحہ لودھی نے بھی اپنے ایک حالیہ مضمون میں اس دھمکی کا ذکر کر کے آنے والے خطرات سے آگاہ کیا ہے۔ لمحۂ موجود میں ہمیں طالبان سے امید رکھنی چاہیے کہ وہ ان پاکستان دشمن عناصر کو اپنے ہاں رہنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ جس طرح ایک مضبوط افغانستان، پاکستانی بہبود کے لیے لازم ہے، بالکل اسی طرح، افغانستان کا فائدہ بھی اسی میں ہے کہ اس کے پڑوس میں ایک پُر امن پاکستان ہو۔ اینٹی پاکستان عناصر کی افغانستان میں موجودگی سے بھارت کی آنکھیں تو ٹھنڈی ہو سکتی ہیں، افغانستان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا! ہاں کئی طرح کے نقصانات اور خطرات ضرور لاحق ہو سکتے ہیں۔
ہمارا تیسرا بڑا مسئلہ افغانستان کی معیشت ہے۔ آپ اعتراض کر سکتے ہیں کہ اس تحریر کے آغاز میں ہم نے افغانستان کے اندرونی معاملات میں عدم دلچسپی کا ذکر کیا تھا۔ تو پھر افغانستان کی معیشت ہمارا مسئلہ کیسے ہے؟ مگر ذرا سا بھی غور کیجیے تو جان جائیں گے کہ افغانستان کی معاشی بد حالی کا تمام تر بوجھ پاکستان پر پڑتا ہے۔ پہلے زمانوں میں جب قندھار، غزنی، کابل اور دیگر علاقوں میں اشیائے خور و نوش کی اور زر و سیم کی قلت ہوتی تھی تو وہاں سے لشکر آتے تھے اور اشیائے ضرورت چھین کر لے جاتے تھے۔ جو علاقے آج پاکستان کا حصہ ہیں، وہ ایک طویل عرصہ تک اس تاخت و تاراج کا شکار رہے۔ یہ جو پنجاب میں کہاوت تھی کہ '' کھادا پیتا لاہے دا، تے باقی احمد شاہے دا‘‘ تو اس کہاوت میں افغانستان کی اقتصادی تاریخ کا پورا احوال مستور ہے۔ اب جب لشکروں کی آمد کا سلسلہ منقطع ہے تو سمگلنگ وہی کام کر رہی ہے جو پہلے لشکر کَشی سے ہوتا تھا۔ افغانستان کے باقی پڑوسی ممالک (ایران، چین‘ ترکمانستان، ازبکستان، تاجکستان) کے مقابلے میں پاکستان کا افغان بارڈر طویل ترین ہے‘ اس لیے سمگلنگ کا بوجھ بھی پاکستان پر اسی حوالے سے پڑتا ہے۔
یہ کوئی سیکرٹ نہیں کہ افغانستان کی پیداوار، دو 'پ‘ پر مشتمل ہے۔ پھل اور پوست۔ ازبکستان کے بعد یہ افغانستان ہے جس کے پھل انسان کو حیران کرتے ہیں۔ پاکستان کے مقابلے میں افغانستان کے خربوزے، انگور، خوبانی اور انار کو جو برتری حاصل ہے، وہی برتری ازبک پھلوں کو افغان پھلوں پر حاصل ہے۔ افغان پھلوں کی منڈی پہلے پشاور میں تھی۔ اب پشاور والی منڈی ، نوشہرہ اور پشاور کے درمیان ایک مقام پر شفٹ ہو گئی ہے جسے کالا منڈی کہتے ہیں۔ افغان انگور اگست میں شروع ہو جاتا ہے۔ اکتوبر تک بغیر بیج والا انار بھی پہنچ جاتا ہے۔ خیر یہ جملۂ معترضہ درمیان میں آ گیا۔ المیہ یہ ہے کہ افغانستان میں صنعت نہ ہونے کے برابر ہے۔ گھی، چینی، آٹے، ادویات سے لے کر کپڑا، سیمنٹ، سریا تک پاکستان سے جاتا ہے۔ تجارت کے ذریعے کم اور سمگلنگ کے ذریعے زیادہ! طالبان حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہی اقتصادی حوالے سے ہے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر وہ کوریا، چین اور جاپان جیسے ملکوں کے صنعت کاروں کو اپنے ہاں کارخانے لگانے کی دعوت دیں اور ٹیکس کی چُھوٹ دیں۔ ٹیکس کی چھوٹ دینے سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ انہیں مکمل حفاظت کی گارنٹی دیں۔
اگر طالبان، افغانستان کا رُخ جنگ و جدل سے موڑ کر صنعت، ٹیکنالوجی اور سائنس کی طرف پھیر دیں تو یہ نہ صرف افغانستان کی بلکہ اسلام کی بھی عظیم خدمت ہو گی۔ اگر فغانستان اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے اور سمگلنگ پر تکیہ کرنا چھوڑ دے تو پاکستان کی معیشت کے لیے یہ نیک فال ہو گی کیونکہ یہ سمگلنگ پاکستان کی معیشت کو گُھن کی طرح کھائے جا رہی ہے۔ پاکستان جو کچھ اپنے لیے پیدا کرتا ہے وہ مغربی سرحد کے پار پہنچ جاتا ہے۔
جذبات، نعرے، جوش، فریفتگی اپنی جگہ، تاہم زندگی حقائق سے عبارت ہے۔ عوام کو روٹی چاہیے۔ روٹی کے لیے نوکری درکار ہے۔ نوکری کے لیے معاشی سرگرمی ضروری ہے۔ معاشی سرگرمی، کارخانوں، منڈیوں، شاپنگ سنٹروں اور لہلہاتے کھیتوں سے نکلتی ہے۔ معاشی سرگرمی کے لیے امن و امان ضروری ہے اور جان کی امان بھی!!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, August 19, 2021

جو نامہ بر رہے ہیں، ڈر رہے ہیں



کراچی، شہروں کا شہر! پاکستان کے ماتھے کا جھومر! اُس زمانے میں وحشت کے نشانے پر تھا۔ میّت کو تب کفن میں نہیں، بوری میں ڈالا جاتا تھا۔ ڈرل مشین سے دیوار میں نہیں، زندہ انسانی جسم میں سوراخ کیا جاتا تھا۔ تئیس سالہ شاہد بھی اسی بربریت کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اسے بے دردی سے قتل کیا گیا اور لاش دریا میں بہا دی گئی۔ شاہد کا باپ شاعر تھا۔ اس نے معاملہ پروردگار کے سپرد کیا اور آنسو شعروں میں پرو دیے۔ اس شاعر کا نام صابر ظفر ہے۔ بیٹے کی المناک موت پر اس نے جو دردناک شاعری کی اس کے مجموعے کا عنوان 'بے آہٹ چلی آتی ہے موت‘ رکھا۔ یہ اشعار دیکھیے:
وہ مجھے چھوڑ گیا دکھ بھری حیرانی میں/ خاک پر قتل ہوا اور ملا پانی میں
.........
میں تو یہ سوچ بھی نہ سکتا تھا/ تو مری موت پر نہ آئے گا
.........
کسی جگہ کا تعین، میں کرنے والا کون
جہاں بھی تو اسے رکھے تری رضا کے سپرد

سیالکوٹ کی نواحی بستی دولت پور سے تعلق رکھنے والا صابر ظفر بیالیس سال پہلے کراچی آیا تھا۔ سجاد باقر رضوی نے کہا تھا:
جس کیلئے اک عمر کنوئیں جھانکتے گزری/ وہ ماہِ کراچی مہِ کنعاں کی طرح تھا
کراچی کا چاند سمندر سے طلوع ہوتا ہے اور پھر مسافر کو یوں اپنی شعاعوں میں گرفتار کرتا ہے کہ مسافر وہیں کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ شاید یہ شعر کسی نے کراچی ہی کو مخاطب کرکے کہا تھا:
ڈوب گئے اس میں کئی پورے چاند 
درد ترا چاہِ طلسمات تھا

صابر ظفر کو بھی کراچی نے واپس نہ جانے دیا۔ وہ کراچی ہی کا ہو رہا۔
ستّر کی دہائی کے اوائل تھے۔ ایک شعر اکھوے کی طرح پھوٹا اور خوشبو کی طرح ہر سمت پھیل گیا اور پھر کچھ ہی عرصے میں ضرب المثل بن گیا:

گروہِ عاشقاں پکڑا گیا ہے/ جو نامہ بر رہے ہیں، ڈر رہے ہیں

یہ شعر صابر ظفر کا تھا۔ اس کا ایک اور شعر بھی زبان زدِ خاص و عام ہوا:

خزاں کی رت ہے، جنم دن ہے اور دھواں اور پھول
ہوا بکھیر گئی موم بتیاں اور پھول

'ابتدا‘ اس کا اولین مجموعہ کلام تھا۔ یہ محض ابتدا تھی۔ اب تک اس کے چوالیس شعری مجموعے دلدادگاں کے ہاتھوں میں پہنچ چکے ہیں۔ وہ پبلسٹی سے بے نیاز ہے اور پبلک ریلیشننگ میں ٹُھس! ٹیلی ویژن مشاعروں میں بھی کم نظر آتا ہے۔ بہت ہی کم! اور اس میں کیا شک ہے کہ پی ٹی وی کی طرح نجی الیکٹرانک میڈیا بھی مشاعرے برپا کرنے کے حوالے سے میرٹ کی راہ پر نہ چل سکا اور مخصوص مافیاز کے نرغے میں محصور ہو کر رہ گیا۔مگر صابر ظفر جیسے شاعر صرف اپنے لیے لکھتے ہیں اور صرف اپنے پڑھنے والوں کے لیے۔ بقول غالب: نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا۔ اس بات پر بہت کم لوگ غور کرتے ہیں کہ شعر اپنا مقام خود بناتا ہے اور جہاں اسے پہنچنا چاہیے، پہنچ کر رہتا ہے۔ اسے کسی بیساکھی کی ضرورت ہوتی ہے نہ سیڑھی کی۔
صابر ظفر کی غزل گوئی کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ کبھی کبھی اس کا پورا مجموعہ کلام ایک ہی غزل اور ایک ہی موضوع پر مشتمل ہوتا ہے۔ 'رانجھا تخت ہزارے کا‘ ایسا ہی مجموعہ ہے۔ بحر بھی یوں لگتا ہے پنجابی ہی سے لیا ہے۔

باپ مرتے ہی اس طرح بھائی آکڑے، اپنی سب زمیں کے کیے حصے بخرے/
اور رانجھڑے کو دیے کھیت بنجر، بال آگیا اس طرح شیشے اندر/ 

ایک عام سی زندگی کٹ رہی تھی، اور عمر بھی رانجھے کی گھَٹ رہی تھی/
پاتا کیا کسی غیر میں گرمجوشی، سرد مہری تھی خون کے رشتے اندر/

دیکھیں سازشیں ساری ہی بھابیوں کی، لمبی ہو گئی رات بے خوابیوں کی/
دیتیں طعنے وہ روز ہی کاہلی کے، کہتیں کوئی بھی گُن نہیں تیرے اندر

صابر ظفر نے کئی تجربے کیے ہیں۔ غزل میں نئی راہیں نکالی ہیں۔ بنے بنائے ہوئے راستوں سے بچ کر چلا ہے۔ اس کا نظریہ یہ ہے کہ پگڈنڈی ہی سہی، اپنی تو ہو! سندھی اور پنجابی کے الفاظ مناسب انداز سے استعمال کرکے اردو کا دامن وسیع کیا یوں کہ اس کی غزل میں غرابت آئی نہ تغزل مجروح ہوا۔ ایک ہی مجموعے میں غزلیں مختلف زمینوں اور مختلف بحور میں بھی کہیں مگر موضوع ایک ہی رکھا۔ یہ ایک مشکل کام تھا مگر اس نے کامیابی سے کیا۔ اوپر جس مجموعے کا ذکر کیا گیا ہے 'بے آہٹ چلی آتی ہے موت‘ اس میں موت ہی کا موضوع تمام غزلوں میں آتا ہے اور مختلف دروازوں سے آتا ہے‘ اس طرح کہ یکسانیت نہیں محسوس ہوتی نہ ہی اکتاہٹ آتی ہے۔ اس کا تازہ ترین مجموعہ 'کھیتوں کی ریکھاؤں میں‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ تمام کی تمام غزلوں میں پنجاب کا دیہی کلچر، کھیتی باڑی کی فضا، فصل پکنے کی خوشبو اور کاٹی جانے کی مصروفیت بھرپور انداز میں نظر آتی ہے۔ اس میں اردو زبان کا بھی کمال ہے کہ نئے الفاظ اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ذرا لفظیات پر غور کیجیے جو اس مجموعے میں نظر آتی ہیں: جَٹی، کڑاہ، ہالی، مزارع، نہری، کیاری، کٹائی، بیساکھ، ہرا کچور، جھینگر، کماد، گوڈی، سَکھیاں، خوشے اور بہت سے دوسرے الفاظ جو انہی موضوعات سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس مجموعے سے چند اشعار دیکھیے۔ دیہی پنجاب کا دل آپ کو ان میں دھڑکتا سنائی دے گا:
دانوں بھری بوریاں، لے کے ہوئے جو رواں
کوئی کہیں چھِن گئی، کوئی کہیں چھِن گئی

ہو گیا یوں بھی زوال، یوں بھی ہوا اشتمال
دور کی فصلیں تھیں دور، جو تھیں قریں، چھن گئیں

کھیت اور فصل ہی سے یاری کی
عمر بھر ہم نے کاشت کاری کی

اپنی اراضی الگ، اس کی اراضی الگ
نفرتیں پھر کس لیے دل میں بٹھائی گئیں

وساکھی پر اسے دیکھا تھا پہلی بار ظفر
وہ حُسن جس نے مرے دل پہ حکمرانی کی

جو بیج بوئے تھے ان کی نمو کا وقت آیا
بہار آئی ہے پھولوں کی پتیاں لے کر

مونگرے توڑتے جن کو دیکھا
وہ تھیں جَٹیاں مری دیکھی بھالی

میرا سرتاج ہے ہالی میرا
میری سرکار ہے کرماں والی

غربت کے دن ڈھل جائیں گے، دن ڈھل جائیں گے
آ جائے گی، آ جائے گی، خوشحالی کی شام

یہ زندگی زمیں ہے تو لگتا ہے یوں ظفر
ٹھیکے پہ لی ہوئی کوئی کلّر زمین ہے

دخل جو اک دوسرے کے کھیت میں دیں گے
کیسے رہیں گے تعلقات ہمارے

کُچھ ہالیوں کے اپنے مقدر کا حُسن ہے
کچھ کھیتیوں میں سون سکیسر کا حُسن ہے

ذرا بتائیے کیا اس کا ذائقہ ہو گا
اگر ہو عشق کی تھالی میں دُکھ کی ترکاری

لڑکیاں کھیتوں میں تھیں، پیلے دوپٹے لیے
پھولی وہ سرسوں، لگا، بابِ پرستاں کھلا

عجب ہے طرزِ سخن، جو طرح طرح سے ظفر
لکھا ہے تو نے سبھی کھیتیوں کے مضموں کو

کدالیں رکھ چکے کندھوں پہ ہالی
پرندہ شام کا پر اپنے جھاڑے

بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, August 17, 2021

اعلیٰ سطحی وفد کی ناکامی



ایک عجیب بے برکت اتفاق تھا کہ چار بڑے ملکوں میں بدانتظامی نے بیک وقت ہلّہ بولا۔
انارکی تھی اور ایسی انارکی کہ تاریخ میں اس کی مثال شاید ہی ملے۔ امریکہ ‘ روس‘ برطانیہ اور فرانس ایک ہی وقت میں اس انارکی کا نشانہ بنے۔ وہ جو دنیا پر حکومت کرتے رہے‘ اپنے زعم میں تہذیب سکھاتے رہے اور براعظموں پراپنے اپنے پرچم لہراتے رہے آج چاروں شانے چت گرے ہوئے تھے۔ یہ بد انتظامی‘ یہ انارکی‘ یہ افراتفری‘ یہ نفسا نفسی‘ یہ بدامنی ایک وائرل کی طرح اٹھی۔ سب سے پہلے امریکہ بہادر کھیت ہوا۔ کہاں وہ دن کہ عراق اور افغانستان میں انسانیت اس امریکہ کے ہاتھوں لہو لہان تھی اور یہ کرۂ ارض کا حاکم مطلق بنا پھرتا تھااور کہاں یہ دن کہ کوئی شہر محفوظ نہ تھا۔ جتھے نکلتے‘ غارتگری کرتے اور شہروں کو ویران کر دیتے۔ سکول ‘ کالج‘ یونیورسٹیاں بند ہو گئیں۔ ہسپتال مریضوں سے بھر گئے۔ ڈاکٹر کوئی ملتا نہ تھا۔ ہر کوئی جان بچانے کے لیے چھپتا پھرتا تھا۔ بلوائیوں نے بازار لوٹ لیے۔ لاس اینجلس سے لے کر نیویارک تک شاہراہیں جان بچاتے ‘ بھاگتے قافلوں سے اٹ گئیں۔پھر‘ نہ جانے کیسے‘ یہ ابتری برطانیہ پہنچ گئی۔ کہاں وہ دن کہ ملکہ کی ایمپائر میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور جنوبی افریقہ سے لے کر کینیڈا تک اور ہندوستان سے لے کر نیوزی لینڈ تک‘ ہر جگہ برطانوی جھنڈا لہراتا تھا اور کہاں یہ وقت کہ غدر مچا ہوا تھا۔ کالے‘ گورے‘ ایشیائی ‘ سب گتھم گتھا ہو گئے۔ پولیس خود بلوائیوں کے ساتھ مل گئی۔ یہی حال فرانس اور روس کا تھا۔ ماسکو سے قافلے امن کی تلاش میں سائبیریا کا رُخ کر رہے تھے۔ پیرس شہر نہیں‘ جنگل لگ رہا تھا!
دنیا لرز رہی تھی۔ ہر طرف ایک خوف تھا ! اگر اتنے بڑے بڑے ملک‘ جو دنیاکی قیادت کر رہے تھے‘ بد امنی کے سامنے ہتھیار ڈال چکے تھے تو باقی ملکوں کا حشر سب کے سامنے تھا۔مزید تباہی کا انتظارکرنے کے بجائے ملکوں کے سربراہ سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ کانفرنسوں پر کانفرنسیں ہونے لگیں۔ریسرچر ‘ تحقیق میں مصروف ہو گئے۔تاریخ کے اوراق پلٹے گئے۔ چین سے لے کر مصر تک اور برازیل سے لے کر جاپان تک ‘ ہر سرزمین کا ماضی کھودا گیا مگر کوئی حل نہ ملا اس لیے کہ ایسی ہمہ گیر انارکی اس سے پہلے تاریخ نے دیکھی ہی نہ تھی۔ پھر دانشوروں کا ایک وفد تشکیل دیا گیا۔ دفد نے پوری دنیا کے چھوٹے بڑے ہر ملک کا دورہ کیا اور ہر ملک کے نظم و نسق کا باریک بینی سے جائزہ لیا۔ اس ساری مشقت کا بالآخر ایک مثبت نتیجہ نکلا۔وہ یہ کہ ایک چھوٹے سے ملک کو آئیڈیل قرار دیا گیا۔ یہ ملک وسیع سمندر اور اونچے پہاڑوں کے درمیان واقع تھا۔ یوں تو سارا ملک ہی امن و امان اور معیشت کے لحاظ سے بے نظیر و بے مثال تھا مگر ایک صوبہ‘ بالخصوص‘ جنت کا نمونہ تھا۔ اس کا حکمران جینئس تھا۔ حسنِ انتظام اس کا ایسا تھا کہ لوگ خوشحال تھے۔ اشیائے ضرورت ارزاں تھیں۔شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پیتے تھے۔ چوری ‘ ڈاکے‘ اغوا‘قتل‘ ختم ہو گئے تھے۔ شر پسند عناصر کا قلع قمع کر دیا گیا تھا۔ ٹریفک کا سسٹم ایسا کہ دنیا رشک کرے۔ انصاف ایسا کہ نوشیرواں کو لوگ بھول چکے تھے۔ قیمتوں پر کنٹرول ایسا کہ لوگ علائوالدین خلجی کا دورِ حکومت یاد کرنے لگے۔ پھر‘ یہ حکمران لائق بھی بہت تھا۔ بولتا تو دریاؤں کی روانی شرمندہ ہوتی۔ فائلوں پر لکھتا تو علم و حکمت کے موتی لٹاتا۔ یہ سب کچھ سن کر فرانس‘ روس‘ برطانیہ اور امریکہ کے حکمرانوں کے منہ میں پانی آگیا۔ کاش ایسا جینئس ان کے ہاں بھی پیدا ہوتا! امریکہ کے صدر نے سب سے پہلے تجویز پیش کی کہ اسے بلا کر دو سال کے لیے امریکہ کا حکمران بناتے ہیں تاکہ اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر امن و امان قائم کرے۔ امریکی صدر کا خیال تھا کہ ایک بار امریکہ کے حالات بہتر ہو گئے تو باقی ممالک اس بہتری سے استفادہ کر سکیں گے۔ مگر باقی تینوں ممالک نے اس تجویز کو امریکہ کی خود غرضی قرار دیا۔ روس برطانیہ اور فرانس میں سے ہر ایک یہی چاہتا تھا کہ پہلے وہ اس عالی مرتبت منتظم کو ادھار لے۔ کئی دن بحث و تمحیص ہوتی رہی۔ آخر کار اس امر پر اتفاق ہوا کہ ان صاحب کو چاروں متاثرہ ممالک کا بادشاہ مقرر کیا جائے گا تا کہ چاروں ممالک ‘ بیک وقت ‘ استفادہ کر سکیں۔ چنانچہ چاروں ملکوں کے اعلیٰ نمائندے اس ملک میں جو سمندر اور اونچے پہاڑوں کے درمیان تھا ‘ آئے۔انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس جینئس حکمران کو اپنے ہاں لے جانا چاہتے ہیں تا کہ وہ اپنی غیر معمولی قابلیت سے ان ملکوں کو بدامنی کے عفریت سے نجات دلوائے۔ مگر عوام نے معزز مہمانوں کی اس خواہش کو یکسر مسترد کر دیا۔ جب اصرار بڑھا تو عوام سڑکوں پر نکل آئے۔انہوں نے سروں پر کفن باندھے ہوئے تھے۔ وہ نعرے لگا رہے تھے '' مر جائیں گے‘ مگر اپنے محبوب حکمران سے جدا ہونا گوارا نہیں کریں گے‘‘۔ کچھ دیوانوں نے وفورِ محبت میں چوراہوں پر خود سوزی بھی کی۔ یوں ایک بحران پیدا ہو گیا۔ ایک عالمی بحران! ایک بین الاقوامی بکھیڑا! پوری دنیا ہول سے تھرانے لگی۔اگر ان چار ملکوں کا امن بحال نہ کیا گیا تو باقی ممالک بھی ایک ایک کر کے انارکی کے اس جہنم میں گر پڑیں گے۔ یہ پوری انسانیت کی بقا کا مسئلہ تھا۔ اور حل ایک ہی تھا۔اور وہ یہ تھا کہ اس جینئس حکمران کو ‘ اس عبقری منتظم کو‘ ان چار ملکوں کا اقتدار سونپ دیا جائے۔ عوام کو سمجھایا گیا۔ انہیں بتایا گیا کہ دنیا کے امن کی خاطر انہیں یہ قربانی دینا ہو گی۔ انہیں اپنے محبوب لیڈر کا فراق برداشت کرنا ہو گا۔ بہت مشکل سے عوام مانے؛ تاہم ساتھ ہی انہوں نے ایک شرط رکھ دی۔ شرط یہ تھی کہ چونکہ ان کا محبوب لیڈر اپنے زیر اقتدار علاقے میں پانچ رہائش گاہیں‘ مختلف شہروں میں‘ رکھنے کا شوق رکھتا ہے اور چونکہ عوام ‘ وفورِ محبت میں‘ ان پانچ رہائش گاہوں کا خرچ‘ اپنے خون پسینے کی کمائی سے یعنی سرکاری خزانے سے ادا کرتے ہیں اس لیے وہاں بھی اس محبوب اور مقبول لیڈر کو پانچ پانچ سرکاری رہائش گاہیں لازماًدینا ہوں گی یعنی پانچ روس میں ‘ پانچ امریکہ میں ‘ پانچ فرانس میں اور پانچ برطانیہ میں !
چاروں ملکوں کی پارلیمنٹس نے اس شرط کو ماننے سے معذوری کا اظہار کیا۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ کسی جمہوری ملک میں ایک حکمران کی پانچ رہائش گاہیں رکھنے کا ‘ جو نصف درجن سے صرف ایک کم ہیں‘ وہ بھی قومی خزانے سے‘ کوئی تصور نہیں ! اُس شام چار ملکوں کا اعلیٰ سطحی وفد‘ تھکے تھکے‘ بوجھل قدموں کے ساتھ واپس چلا گیا۔
ضروری وضاحت۔ یہ ایک تصوراتی داستان ہے۔ اِس کا اُس حقیقی خبر سے کوئی تعلق نہیں جو کل پرسوں میڈیا میں چھپی ہے۔ اس حقیقی خبر کی رُو سے وزیر اعظم کی رہائشگاہوں کی سکیورٹی پر دس کروڑ اکتیس لاکھ روپے ‘ وزیر اعلیٰ کے پی کی سکیورٹی پر چودہ کروڑ ستر لاکھ روپے‘ گورنر پنجاب کی سکیورٹی پر گیارہ کروڑ چورانوے لاکھ‘ گورنر کے پی کی سکیورٹی پر پانچ کروڑ چالیس لاکھ روپے ‘ صدرِ مملکت کی سکیورٹی پر پانچ کروڑ سینتیس لاکھ روپے جبکہ صرف وزیر اعلیٰ پنجاب کی پانچ رہائشگاہوں پر چوبیس کروڑ انچاس لاکھ روپے سالانہ کے اخراجات ہیں۔ ان رہائش گاہوں میں تونسہ‘ ڈی جی خان اور ملتان کی رہائش گاہیں بھی شامل ہیں۔ کسی قسم کی مطابقت محض ایک اتفاق ہو گا۔

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, August 16, 2021

… 74 سال



74 سال ایک قوم کی زندگی میں بہت بڑی مدت نہیں مگر اتنی کم بھی نہیں!
اور اتنی کم تو ہرگز نہیں کہ کچھ بنیادی مسئلے بھی اس عرصہ میں طے نہ ہو سکتے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ہم آج تک یہی فیصلہ نہ کر سکے کہ ہفتہ وار چھٹی جمعہ کے دن ہو گی یا اتوار کے دن! ایک ہی بازار میں جمعہ کے دن کچھ دکانیں کھلی ہوتی ہیں اور کچھ بند! اسی طرح اتوار کے دن بھی نہیں معلوم ہوتا کہ کون سی دکان بند ہو گی اور کون سی کھلی! راولپنڈی میں راجہ بازار اور پرانے شہر کے دوسرے بازار جمعہ کے دن بند ہوتے ہیں‘ مگر صدر میں، جو بذات خود بہت بڑا کاروباری علاقہ ہے، اتوار کے دن چھٹی ہوتی ہے۔ یعنی مکمل کنفیوژن! ذرا سوچیے کیا یہ اتنا بڑا مسئلہ تھا کہ صدی کا تین چوتھائی حصہ گزرنے کے باوجود جوں کا توں ہے؟
ایک اور زبردست کنفیوژن امریکہ کے حوالے سے ہے۔ ان 74 برسوں میں ہمیں یہی معلوم نہ ہوا کہ امریکہ ہمارا دوست ہے یا دشمن! ایک بیوقوفی ہماری یہ ہے کہ ہم ملکوں کو بھی اسی پیمانے سے ماپتے ہیں جس پیمانے سے ذاتی دوستی یا دشمنی کو ماپا جاتا ہے۔ آپ میرے دوست ہیں اور پکے دوست تو دوستی نبھاتے ہوئے اپنا نفع یا نقصان نہیں دیکھیں گے۔ یہ ایک جذباتی رشتہ ہو گا۔ میرے دوستوں کو آپ اپنا دوست اور میرے دشمنوں کو اپنا دشمن سمجھیں گے۔ مگر ملکوں کی باہمی دوستی اس طرح کی نہیں ہوتی! بلکہ یہ دوستی ہوتی ہے نہ دشمنی! یہ اپنے اپنے مفادات کا کھیل ہوتا ہے۔ ہم اس سارے عرصہ میں یہ نکتہ جاننے کے باوجود سمجھ نہیں سکے۔ امریکہ نے آنکھیں پھیریں تو ہم نے معشوق کے تغافل کا شکوہ شروع کر دیا۔ مائل ہوا تو وصال کے گیت گانے لگے‘ حالانکہ اس کا تغافل بھی اس کے اپنے فائدے کے لیے تھا اور ہماری طرف میلان ہوا تو وہ بھی ہمارے فائدے کے لیے نہیں تھا۔ مشرق وسطیٰ کے کسی ملک میں مندر بنا، یا، مودی کی پذیرائی ہوئی تو ہمارے دل میں ٹیسیں اٹھنے لگیں۔ ہم نے یہ نہ سوچا کہ بھارت ایک وسیع و عریض منڈی ہے‘ اور سرمایہ کاری میں اس کا سٹیمنا ہم سے کہیں زیادہ ہے! امریکہ کے حوالے سے تو ہماری پالیسی سو فی صد دوغلی بھی ہے۔ اسے برا بھلا بھی کہتے ہیں اور گرین کارڈ بھی ہماری آبادی کے غالب حصے کا خواب ہے۔ بے نیازی بھی دکھاتے ہیں اور وہاں سے فون نہ آئے تو آسمان بھی سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ گویا: ؎
با من آویزشِ او الفتِ موج است و کنار
دمبدم با من و ہر لحظہ گریزان از من
یعنی اس کا اور میرا تعلق ایسا ہے جیسے موج کا ساحل کے ساتھ ہوتا ہے۔ ابھی موج ساحل سے گلے مل رہی ہے اور ابھی دور بھاگ رہی ہے!
بھارت نے تقسیم کے بعد شروع کے برسوں میں ہی جاگیر داری اور زمین داری کے سلسلے میں ایک واضح پالیسی بنائی اور اپنائی! نوابوں اور راجوں مہاراجوں کو قصۂ پارینہ میں بدل ڈالا۔ ہم اس سارے عرصہ میں زرعی اصلاحات ہی نہ لا سکے۔ کوشش ہوئی بھی تو چور دروازوں نے اس کوشش کو بے اثر کر ڈالا۔ کوئی مانے یا نہ مانے مگر سچ یہ ہے کہ ہاری، عملاً، نسل در نسل، غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کے حقوق صفر ہیں۔ ان کی عورتوں کے ساتھ زمین داروں کی حویلیوں میں جو کچھ ہوتا ہے ہم سب کو معلوم ہے۔ یہ ہاری، یہ مزارع، ووٹ اسے دیتے ہیں جس کے بارے میں انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ شوکت صدیقی کا عہد ساز ناول 'جانگلوس‘ کسی تصوراتی دنیا کی روداد نہیں! آج بھی وہی کچھ ہو رہا ہے جو چالیس سال پہلے اس میں لکھا گیا تھا! زرعی ملکیت کا ڈھانچہ Land ownership pattern میں رمق بھر تبدیلی نہ آ سکی۔ بلوچستان کے سرداری نظام میں ان 74 برسوں میں ایک معمولی سی دراڑ بھی نہیں پیدا ہوئی۔ آج بھی چور کی شناخت جلتے انگاروں پر چلا کر کی جاتی ہے۔ ایک پکا پکا قبائلی نظام! مکمل قبائلی معاشرہ! وزارتیں، گورنریاں، سب سرداروں کی جھولی میں گرتی ہیں!
لیکن سب سے دلچسپ صورت حال نام نہاد قومی زبان کی ہے جس پر اردو کا ٹھپہ لگا ہوا ہے۔ 74 برسوں میں ٹھپہ، ٹھپہ ہی رہا، حقیقت میں نہ بدل سکا۔ انگریز کی غلامی آج بھی ہم میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اندازہ لگائیے ہمارے بجلی، گیس، فون کے بل تک انگریزی زبان میں ہیں۔ ہم سو روپے کا چیک بھی انگریزی میں لکھتے ہیں۔ شادیوں کے دعوتی کارڈ بھی انگریزی میں چھپتے ہیں یہاں تک کہ جو کنبے انگریزی زبان سے نا بلد ہیں وہ بھی شادی کا کارڈ انگریزی میں چھپوانا پسند کرتے ہیں‘ اور اب تو رومن اردو کا کوڑا بھی اردو کی ننگی، زخمی پیٹھ پر تڑاخ تڑاخ مارا جا رہا ہے۔ یہ ہماری نا مرادی کی تازہ ترین شکل ہے۔ مقتدرہ قومی زبان، جس کا اب نام کچھ اور رکھ دیا گیا ہے، اردو کے سرکاری نفاذ کے لیے بنی تھی۔ اس کی سرکاری ویب سائٹ بتاتی ہے کہ ادارۂ فروغِ قومی زبان (مقتدرہ قومی زبان) کا قیام 4 اکتوبر 1973ء کو آئین پاکستان 1973ء کے آرٹیکل 251 کے تحت عمل میں آیا تاکہ قومی زبان 'اردو‘ کے بحیثیث سرکاری زبان نفاذ کے سلسلے میں مشکلات کو دور کرے اور اس کے استعمال کو عمل میں لانے کے لیے حکومت کو سفارشات پیش کرے۔
چالاکی یہ کی گئی اور کی جا رہی ہے کہ چونکہ اردو کا نفاذ افسر شاہی نے کرنا ہے اس لئے مقتدرہ پر ایسے اصحاب کو لگایا جاتا ہے جو افسر شاہی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کر سکتے۔ کہاں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور کابینہ ڈویژن کے جغادری سیکرٹری، اور فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے طاقت ور سربراہان اور کہاں اردو کے اساتذہ! ان محترم اساتذہ کے علم و فضل سے انکار نہیں مگر نفاذ کے لیے بیوروکریسی سے معاملات طے کرنا، اور وہ بھی برابری کی سطح پر طے کرنا، ایک بالکل مختلف معاملہ ہے۔ اسی لیے مقتدرہ قومی زبان ہر وہ کام کر رہی ہے جس کا اردو کے سرکاری نفاذ سے کوئی تعلق نہ ہو۔ سو سال بھی ٹیکس دہندگان کے پیسے سے اخبار اردو نکالتے رہیے، وزارتوں کی فائلوں پر کام انگریزی ہی میں ہوتا رہے گا۔ 2008ء میں جب پروفیسر فتح محمد ملک صاحب مقتدرہ کی صدر نشینی چھوڑ کر اسلامی یونیورسٹی کے سربراہ کی حیثیت سے جا رہے تھے تو مقتدرہ کی سربراہی کے لیے جن تین ناموں کا پینل حکمرانِ اعلیٰ کی خدمت میں بھیجا گیا اس میں ایک نام اس کالم نگار کا بھی تھا۔ میرے ذہن میں ایک واضح اور غیر مبہم پلان تھا کہ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور وفاقی پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین سے براہ راست معاملات طے کیے جائیں گے اور پھر معاملہ وزیر اعظم کے دفتر تک لے جایا جائے گا۔ اس لیے کہ بیوروکریسی کا چھتیس سالہ تجربہ بھی تھا اور اردو کے نفاذ کا جذبہ بھی دل میں موجزن تھا۔ پہلے مرحلے میں اردو کا پرچہ سی ایس ایس کے امتحان میں لازم کرانا تھا۔ دوسرے مرحلے میں امیدواروں کو اختیار دلوانا تھا کہ چاہیں تو سی ایس ایس کے تمام پرچے (سوائے لازمی انگریزی کے) اردو میں حل کریں اور چاہیں تو انگریزی میں! تیسرے اور فائنل مرحلے میں سی ایس ایس کا سارا امتحان اردو میں دلوایا جانا تھا۔ انگریزی لکھنے اور بولنے کی قابلیت کا بھی امتحان ہوتا مگر صرف ایک مضمون کے طور پر ! رہا امتحان تو اس کا ذریعہ (میڈیم) صرف اردو زبان ہوتی!
کچھ اور بھی بنیادی مسائل ہیں جو ہم اس ساری مدت میں حل نہ کر سکے! مگر خدا کا شکر ہے کہ مجموعی طور پر ہمارا سفر آگے کی جانب ہے!

بشکریہ  روزنامہ  دنیا

Thursday, August 12, 2021

خاتون سیاست دان کا مذاق مت اڑائیے


بنٹا اور سنٹا دو بھائی ہیں ۔دونوں کی شکل میں حیرت انگیز مماثلت ہے۔ ظاہر ہے دونوں کی پرورش، اٹھان، تربیت ایک ہی گھر میں ہوئی ہے۔ دونوں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں ۔ بنٹا کو ایک بار اس کے باس نے صرف اتنا کہا کہ آپ کام پر توجہ نہیں دے رہے۔ بنٹا کے لیے یہ بہت بڑی بات تھی۔ اس نے دو راتیں کرب میں جاگ کر گذاریں۔ پھر اپنی ساری حکمت عملی تبدیل کی۔ ماتحت عملے کی میٹنگ بلائی جہاں کام میں بہتری کی صورتیں سوچی گئیں۔ یہ ساری کوشش نتیجہ خیز ثابت ہوئی یہاں تک کہ باس نے سب کے سامنے بنٹا کی تعریف کی۔ اس پر بنٹا نے شکریہ ادا کیا مگر ساتھ ہی کہا کہ اس بہتری کا کریڈٹ اسکی ساری ٹیم کو جاتا ہے۔ میٹنگ کے بعد اس کے ماتحتوں نے اسے مبارک دی تو اس نے کہا کہ آپ سب لوگ مبارکباد کے مستحق ہیں کیونکہ آپ کے تعاون کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا۔ سنٹا کی شخصیت بالکل مختلف ہے۔ اسے اس کا باس کام میں بہتری کا کہتا ہے تو وہ سنی ان سنی کر دیتا ہے۔ بھری میٹنگ میں اس کی بے عزتی کی جاتی ہے تو وہ آگے سے ہنستا رہتا ہے۔ دفتر میں بیٹھ کر خوش گپیاں لگا تا ہے۔ اسے بر طرف کر دیا جاتا ہے تو کوئی اور نوکری ڈھونڈ نکالتا ہے۔

غور کیجیے۔ شکلیں ایک جیسی !والدین وہی ! ایک ہی گھر میں پلے بڑھے۔ مگر ذہنی سطح میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ دونوں کے مختلف ردِّ عمل آپ دیکھ چکے۔ ہمارے نزدیک اس کا سبب ذہنی ساخت ہے۔ یہ ذہنی ساخت ہی ہے جو سنٹا کو بتاتی ہے کہ جو کچھ تم کر رہے ہو اس میں غلط کچھ بھی نہیں ۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ کچھ لوگ خوشامد اور جی حضوری میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔ اس کالم نگار نے ایک شخص کو دیکھا جو ایک عورت کی تدفین کے وقت زارو قطار رو رہا تھا۔ یا ،رونے کی ادا کاری کر رہا تھا۔ اس کا بس چلتا تو میّت کی جگہ لحد میں وہ خود لیٹ جاتا۔یہ میت اس کے باس کے داماد کی خالہ کی تھی۔ پھر جب باس ریٹائر ہؤا تو وہ سب کے سامنے اس کی خوب خوب برائیاں کر رہا تھا۔ اگر کوئی اسے سمجھاتا کہ یہ طرزعمل درست نہیں تو وہ ہر گز نہ سمجھ پاتا۔ اس کی ذہنی ساخت ہی ایسی ہے کہ وہ چاپلوسی اور طوطا چشمی دونوں کو برا سمجھنے سے قاصر ہے۔ کیا آپ نے کسی خوشامد پسند کو خوشامد ترک کرتے دیکھا ہے ؟ شایدکبھی نہیں ! اقدرت نے کچھ لوگوں کے اندر خوشامد کرنے کی صلاحیت شاید اس لیے رکھی ہے کہ خوشامد کیے جانے والے کا امتحان لیا جائے۔روایت ہے کہ ایک صاحب نے امیر المومنین حضرت عمر فاروق کی خوشامد کی۔ آپ نے زمین سے مٹی اٹھائی اور اس کے منہ میں ڈال دی۔ مگر ہر شخص میں خوشامد رد کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ انسانوں کی بھاری اکثریت خوشامد کے جال میں پھنس جاتی ہے۔ یہی امتحان ہے۔ اگر صاحب ِ اقتدار خوشامد پرستوں کو نزدیک نہ آنے دے تو کامیابی اس کا استقبال کرتی ہے ورنہ تاریخ اپنا فیصلہ سنا کر رہتی ہے۔ شیخ مبارک نے، جو بہت بڑا عالم تھا، اور اس کے لائق بیٹوں فیضی اور اور ابوالفضل نے اکبر کی اس قدر تعریف کی ، اس قدر خوشامد کی کہ وہ اپنے آپ کو خدا سمجھنے لگا اور دین الہی ایجاد کر بیٹھا۔ قصیدہ گوئی خوشامد ہی کی ایک شکل ہے۔اگر آپ نے خوشامد کی انتہا دیکھنی ہو تو فارسی اور اردو ادب میں محفوظ کیے گئے قصائد پڑھیے ۔غالب بادشاہ کی تعریف میں کہتے ہیں ؎
تو آب سے گر سلب کرے طاقتِ سیلاں
تو آگ سے کر دفع کرے تاب شرارت
ڈھونڈے نہ ملے موجۂ دریا میں روانی
باقی نہ رہے آتشِ سوزاں میں حرارت

یعنی بادشاہ سلامت پانی سے بہنے کی اور آگ سے جلانے کی خاصیت چھین سکتے ہیں۔ مشہور فارسی شاعر قاآنی بادشاہ کی تعریف میں کہتا ہے کہ تمہارے غیض و غضب کی آگ سے اگر ایک چنگاری بھی جل اٹھے تو اُس چنگاری سے سات دوزخ وجود میں آجاتے ہیں ۔ اقبال کی نظم مکڑا اور مکھی ہم سب نے پڑھی ہے ۔ مکھی نے بہت مدافعت کی ۔ مگر مکڑے نے خوشامد کی تو ڈھیر ہو گئی؎
سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں
دیکھو جسے دنیا میں خوشامد کا ہے بندہ

آج کل قصاید کا دور نہیں۔ نہ ہی گھوڑا، ہاتھی، یا خلعت دینے کا رواج ہے۔ مگر خوشامد کرنے والے اور خوشامد کے جال میں پھنسنے والے ہر زمانے میں موجود تھے اور آج بھی موجود ہیں۔آج دربار اور قصیدے کی جگہ ٹیلی ویژن نے لے لی ہے جس کے ذریعے خوشامد کرنے والے اپنے مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں۔ ٹاک شو پر “ کار کردگی “ اچھی ہو تو وزارت مل جاتی ہے۔ حکومت کے حق میں مہم چلائیں تو منصب مل جاتا ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ خوشامد کرنے والے اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ٹیلی ویژن پر حقِ نمک ادا کرنے والوں سے لوگ کس قدر نفرت کرتے ہیں اور انہیں کتنا برا سمجھتے ہیں۔ مگر یاد رکھیے خوشامد کرنے والا صرف اور صرف اپنے مقصد پر فوکس کرتا ہے اور مقصد ہے فائدہ اٹھانا۔ لوگ کیا کہتے ہیں ؟ اس سے وہ بے نیاز ہے اور یکسر بے نیاز۔ چاپلوسی اور عزت نفس ، یہ دونوں ایک انسان میں یکجا نہیں ہو سکتیں۔ یہ آگ اور پانی کا کھیل ہے۔

دو تین دن پہلے معروف خاتون سیاستدان کو پنجاب اسمبلی کے اندر جانے سے روک دیا گیا۔ اس پر خوب خوب تبصرے ہوئے۔ وی لاگرز کی تو جیسے چاندی ہو گئی! اللہ دے اور بندہ لے! انہوں نے لمبے لمبے پروگرام کیے۔ سننے والوں نے بھی خوب چسکے لیے۔ مگر وہ یہ بھول گئے کہ محترمہ ایسے واقعات کو بُرا گردانتی ہیں نہ دل پر لیتی ہیں۔کیوں ؟ اس لیے کہ ان کی ذہنی ساخت ہی قدرت نے ایسی بنائی ہے۔ وہ ہر حال میں مقتدَر رہنا چاہتی ہیں۔ کسی بھی پارٹی کے طفیل! کسی بھی قیمت پر ! کہیں بھی ! صوبے میں یا مرکز میں ! انہیں قدرت نے اعصاب اس قدر مضبوط دیے ہیں کہ اجازت نہ دیے جانے پر ، انہوں نے ، وہیں کھڑے ہو کر، میڈیا سے کہا کہ یوں بھی دیر ہو گئی تھی۔ اور کورم پورا ہے۔ اسمبلی کے اندر مجھے بیٹھنا نہیں تھا! اقتدار حاصل کرنے کی جدو جہد میں ایسے کئی مقامات آتے ہیں۔ انہیں اگر عزت بے عزتی کا مسئلہ بنا لیا جائے تو پھر مل چکا قتدار ! ان کا یہ قول مشہور ہے کہ جو بھی فلاں پارٹی سے نکلتا ہے” تو وہ دنیا اور آخرت میں رسوا ہوتا ہے اور تاریخ اس کی گواہ ہے “۔یہ موقعہ وہ تھا جب یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم تھے اور ان کے وزیر خارجہ مستعفی ہو ئے تھے۔ خاتون سیاست دان اُس وقت بر سر اقتدار پارٹی کا حصہ تھیں ۔ مستعفی ہونے والے وزیر خارجہ کو انہوں نے” سیاسی خانہ بدوش” کا خطاب دیا تھا اور دعا کی تھی کہ” وہ کسی ایک جگہ مستقل پڑاؤ کر لیں ! “

سیاست ہو یا بیورو کریسی، یا کوئی اور شعبہ، ایسے کردار ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ کابینہ کا تجزیہ کر کے دیکھ لیجیے۔ کتنے خانہ بدوش ہیں اور کتنے مستقل پڑاؤ کرنے والے ! ہماری تاریخ ایسے کرداروں سے اٹی پڑی ہے۔ دن کے وقت جو ہمایوں کے کیمپ میں ہوتے تھے، رات کی تاریکی میں شیر شاہ سوری کو مل کر “ معاملات “ طے کرلیتے تھے۔ ایسے کرداروں کو مرفوع القلم سمجھنا چاہیے۔ ان کا مذاق مت اڑائیے ۔انہی سے تو رونقِ بازار قائم ہے۔
………………………………………………………………………

Tuesday, August 10, 2021

زندہ قوم کی زندگی کا ایک اور ثبوت



جب سے یہ خبر پڑھی ہے‘ دماغ شل ہے۔ روح کانپ رہی ہے۔ دل قاش قاش ہو رہا ہے۔کیا ہم سیاہ بختی کے اس مقام پر پہنچ چکے ہیں ؟ کیا تحت الثریٰ سے نیچے بھی کوئی درجہ ہے؟ کیا دُور آسمان پر‘ ذلت اور ذہنی افلاس ہمارے مقدر میں لکھا جا چکا؟
اگر آج بھی ہمارے حکمران‘ لیاقت علی خان کی طرح ہوتے تو یہ خبر المناک نہ ہوتی؟ مگر جب پچھلے تیس چالیس برسوں کے دوران ہمارے اہلِ اقتدار کے نوکروں کے نوکر بھی ارب پتی ہو چکے تویہ خبر ہمارے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے اور ہماری تہذیبی پستی کا نشان ! ہمارے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے صاحبزادے کے گردے فیل ہو چکے ہیں۔ زندگی کے باقی دن‘ جتنے بھی قسّامِ ازل نے لکھے ہیں‘ پورے کرنے کے لیے انہیں ہر ماہ ایک لاکھ پچھتر ہزار روپے درکار ہیں۔ دونوں بیٹیاں یہ ذمہ داری اٹھا رہی ہیں مگر اب معاملہ ان کی استطاعت سے باہر ہو رہا ہے۔ مدد کے لیے ان کی بیگم نے‘ مجبوراً سندھ حکومت کو خط لکھا ہے۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ لیاقت علی خان نواب تھے اور بہت بڑی جائداد بھارت میں چھوڑ کر آئے تھے۔ مشہوراور محترم سفیر جمشید مارکر نے اپنی سوانح ( کور پوائنٹ) میں لکھا ہے کہ وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے چند دن بعد بیگم رعنا لیاقت علی خان کے گھر میں چند قریبی احباب سوگوار بیٹھے تھے۔ بیگم صاحبہ نے ایک کتاب نکالی۔ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ جمشید مارکر سے کہنے لگیں‘ یہ دیکھو‘ راولپنڈی کے سفر کے دوران لیاقت کیا پڑھ رہے تھے۔ یہ اس وقت کے معروف مصنف اور صحافی Arthur Koestlerکی کتاب The God that Failed تھی۔ یاد رہے کہ وزیر اعظم کا راولپنڈی کا آخری سفر اکتوبر1951ء میں پیش آیا جبکہ یہ کتاب اس سے کچھ عرصہ پہلے ہی 1950ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس کا مطلب ہے وزیر اعظم ایک ایسی کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے جو تازہ ترین تھی!وزیر اعظم کی شہادت کے بعد کابینہ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں مرحوم وزیر اعظم کی بیوہ کے لیے پنشن‘ ایک پی اے‘ ایک گاڑی مع ڈرائیور اور ایک سرکاری رہائش گاہ کی منظوری دی گئی۔ جن چند دوستوں نے سامان شفٹ کرنے میں مدد دی ان میں جمشید مارکر اور ان کی اہلیہ ڈیانا بھی شامل تھیں۔ جمشید مارکر کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کا ''سازو سامان‘‘ دیکھ کر رحم آ رہا تھا! چند کپڑے‘ کتابیں اور ایک چھوٹی سی کیبنٹ جس میں چند سگریٹ لائٹر جمع تھے! وزیر اعظم کو سگریٹ لائٹر جمع کرنے کا شوق تھا اور یہ ایک لحاظ سے ان کی ہابی تھی۔ بینک اکائونٹ میں کل سرمایہ سینتالیس (47) ہزار روپے تھا!!زمین ایک انچ بھی ان کے نام نہیں تھی۔ ان کے بیمار صاحبزادے آج بھی اپنی ساس کے دیے ہوئے مکان میں رہتے ہیں۔
رونے والے اس خبر پر روئیں گے۔مگر حقیقت کیا ہے ! حقیقت یہ ہے کہ اس معاشرے کو جس نہج پر ہم لا چکے ہیں اس میں یہ خبر ہر گز‘ ہر گز‘ اچنبھا نہیں ہے۔ جس معاشرے میں اسمبلیوں تک پہنچنے کے لیے پلازوں‘ فیکٹریوں اور جاگیروں کی ضرورت ہو‘ جہاں میٹرک پاس یا میٹرک فیل کھرب پتی باقاعدہ بادشاہ گری کریں اور بادشاہ گری میں مغلوں کے عہدِ زوال کے سید برادران کو بھی مات کر دیں‘ وہاں ایک دیانت دار وزیر اعظم کی اولاد کا یہی حشر ہو گا۔ غور کیجیے۔دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیے ! ہمارے ساتھ کے جو ملک ہم سے کئی نُو ری سال آگے جا چکے ہیں ان کی کابینہ میں وزیروں کی نصف تعداد پی ایچ ڈی ہوتی ہے جبکہ ہمیں اپنے مرکزی بینک کی گورنری کے لیے بھی اور وزارتِ خزانہ چلانے کے لیے بھی سامراجی اداروں کے ملازم ادھار لینے پڑتے ہیں۔ ہمارے وزرائے اعظم تازہ ترین کتابیں تو کیا‘ اہم ترین فائلیں اور عدالتی فیصلے تک نہیں پڑھتے۔ فائلوں پر لکھنا تو بہت دور کی بات ہے۔ جبھی تو یہ حضرات پڑھی لکھی بیورو کریسی کے ہاتھوں میں یرغمال ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ سعودی عرب میں ٹیکس نہیں تو یہاں کیوں ہو؟ کوئی ہار کے حوالے سے شہرت پاتا ہے۔ کوئی جاپان اور جرمنی کا مشترکہ بارڈر دریافت کرتا ہے۔ خواندگی کے جعلی اعدادو شمار سے ہم اپنے بے وقعت کاغذوں کا ہر سال پیٹ بھر تے ہیں مگر ہمارے معاشرے میں کتاب سے زیادہ غیر مقبول چیز کوئی نہیں۔ پبلک لائبریریاں برائے نام ہیں۔ حکمرانوں کی دیانت اور لائبریریوں کا وجود لازم و ملزوم ہوتا ہے۔ جن ملکوں میں حکمران ایک ایک پائی کے لیے جوابدہ ہیں وہاں عزت اور سٹیٹس کا حوالہ پلازے‘ شاپنگ مال اور محلات نہیں‘ کتاب ہے۔ گلوسٹر (انگلستان ) کی کاؤنٹی میں انتالیس پبلک لائبریریاں ہیں۔ جیلانگ آسٹریلیا کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جہاں اٹھارہ پبلک لائبریریاں ہیں۔ امریکہ کے شہر ہیوسٹن کی چوالیس پبلک لائبریریوں میں چھتیس لاکھ کتابیں ہیں۔ ہاں ہمارے عوامی نمائندوں نے اب کے کتاب کا ایک نیا استعمال ضرور کیا ہے۔انہوں نے ایک دوسرے کو تاک تاک کر کتابیں ماریں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ لاکھوں روپوں کے خرچ سے بجٹ کی جو کتابیں چھاپی اور بانٹی جاتی ہیں انہیں کتنے وزیر اور کتنے ارکان پڑھتے اور سمجھتے ہیں۔
ہماری ترجیحات کیا ہیں؟ اقتدار کے لیے پارٹیاں بدلنا ! اور پے در پے بدلنا! کابینہ کا تجزیہ کر کے دیکھ لیجیے! ہم وہ مرغانِ باد نما ہیں جو ہر لمحے ہوا کے ساتھ رخ بدلتے ہیں۔ عزتِ نفس کا یہ حال ہے کہ پرانے وڈیو کلپ جب دکھائے جاتے ہیں جن میں آج کے دشمنوں کی تعریف میں ہم نے زمین و آسمان کے قلابے ملائے تھے تو ہم آنکھ تک نہیں جھپکتے اور ایک حیران کُن دیدہ دلیری کے ساتھ ان کا جواز پیش کرتے ہیں۔ ہم گالیاں دینے کے لیے کرایے پر ہمہ وقت دستیاب ہیں۔اب ہماری پتھر کی آنکھ بھی حیا سے عاری ہو چکی ہے۔ ایک منظم پلاننگ کے تحت تعلیم یافتہ اور با کردار سیاست دانوں کو منظر سے ہٹایا گیا اور اب جو مٹیریل رہ گیا ہے اور جو آرہا ہے اس کی سطح یہ ہے کہ اکثر کے فرمودات وارشادات سن کر پڑھے لکھے لوگ منہ چھپانے لگتے ہیں۔ واعظوں کا یہ حال ہے کہ عوام کو حجامہ کی تلقین کرتے ہیں اور خود دل کی وریدوں میں سٹنٹ رکھوانے سیدھے ڈاکٹروں کے پاس پہنچتے ہیں۔ تاجر سینہ پھلاکر اعلان کرتے ہیں کہ ٹیکس دینا ہے نہ توانائی بچانے کے لیے بازار کے اوقات تبدیل کرنے ہیں۔ ہجوم گردی کا یہ عالم ہے کہ سنے سنائے الزام پر انسانوں کو زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ ہمیں مطلق فکر نہیں کہ عالمی برادری میں ہمارا شمار اب افغانستان اور صومالیہ کے ساتھ ہوتا ہے۔
قائد اعظم کی دختر خوش قسمت تھیں کہ باہر ہی رہیں اور وہیں وفات پائی۔ یہاں ہوتیں تو انجام لیاقت علی خان کے فرزند اور مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے انجام سے مختلف نہ ہوتا۔ کون نہیں جانتا کہ مادرِ ملت کی موت آج تک معمہ ہے جس پر مہیب اسرار کی دبیز چادر پڑی ہوئی ہے۔ سابق وزرا ئے اعظم‘ سابق صدور‘ اسمبلی کے سابق سپیکر اور بے شمار دوسرے سابق عہدیداروں پر اس قلاش ملک کے کروڑوں روپے صرف ہو رہے ہیں۔ حکمرانوں کے قبیلوں کے قبیلے‘ خاندانوں کے خاندان‘سرکاری پروٹوکول سے بہرہ ور ہوتے رہے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ کتنے ہی غیر متعلقہ افراد اور کنبوں کے محلات کے دروازوں پر پولیس کے اہلکار خیموں میں رہتے ہیں اور شفٹوں پر ڈیوٹیاں دیتے ہیں۔ اور جس شخص نے پاکستان کو اپنا خون دیا اور بااختیار ہو کر بھی بے خانماں رخصت ہوا‘ اس کا فرزند ڈیڑھ دو لاکھ روپے مہینہ کے علاج کے لیے عرضیاں دے رہا ہے !
بشکریہ روزنامہ پاکستان

Monday, August 09, 2021

سِکّہ رائج الوقت



تعلیم تھی، خاندانی نجابت تھی، ذاتی شرافت تھی، اچھی شہرت تھی، مگر اُس کے پلے وہ شے نہ تھی جس کی حکومتی حلقوں میں مانگ تھی۔
یہ ضیاء الحق کا زمانہ تھا۔ اُس نے 'اِن‘ ہونے کی بہت کوشش کی۔ یہ ملک اُس کا بھی تھا۔ وزارتوں، سفارتوں، گورنریوں پر اس کا بھی حق تھا۔ اسے بھی رہنے کے لیے مکان اور مکان کے لیے پلاٹ چاہیے تھا۔ زرعی پلاٹ دھڑا دھڑ بانٹے جا رہے تھے۔ اس نے ادھر ادھر ہاتھ پیر مارے۔ بالآخر ایک شخص کے بارے میں معلوم ہوا کہ ٹاپ لیول تک رسائی رکھتا ہے۔ کسی نہ کسی ذریعے سے اس تک پہنچا۔ آدمی شریف تھا۔ بٹھایا۔ حال احوال پوچھا۔ چائے پلائی۔ پھر اس نے ایک عجیب سوال کیا۔ کیا تم اردن میں رہے ہو؟ ضیاء الحق صاحب جب وہاں تھے، اُس زمانے میں؟ حیرت میں گُم اس نے جواب دیا کہ نہیں! اس کا بھلا اردن میں کیا کام! اس پر اُس شریف آدمی نے ٹھنڈی سانس بھری اور سر کو پہلے بائیں سے دائیں اور پھر دائیں سے بائیں پھیرا۔ پھر اسے سمجھایا کہ جو لوگ اردن میں کسی بھی حوالے سے ضیا صاحب کو ملے تھے، ان کے وارے نیارے ہوئے۔ دوسرا معیار تھا کہ پیپلز پارٹی کے خلاف کچھ نہ کچھ جہاد کیا ہو۔ اس میں بھی اس کی کارکردگی صفر تھی۔ وہ دیکھتا رہا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے نا اہل نوازے جاتے رہے۔ وہ دل مسوس کر بس حافظ شیرازی کو یاد کرتا رہا۔ کیا پیش گوئی کر گیا تھا یہ با کمال شاعر:
احمقوں کو گلاب اور چینی کے شربت پلائے جا رہے ہیں اور دانا کے پاس پینے کے لیے اپنے خونِ جگر کے سوا کچھ نہیں۔ گدھے کا پالان گھوڑے پر رکھ کر اسے زخمی کر دیا گیا جبکہ سنہری پٹے گدھوں میں بانٹے گئے۔
پھر بی بی کی حکومت آ گئی۔ اب یہ دیکھا جانے لگا کہ کس کس کی پیٹھ پر کوڑوں کے نشان تھے۔ تگڑم لڑانے والے کچھ افراد نے اس کی پیٹھ پر مصنوعی نشان لگوانے کی پیشکش کی مگر اس کی روایتی شرافت اور خاندانی وقار نے یہ حیلہ قبول نہ کیا۔ پھر یادش بخیر میاں صاحب کی حکومتیں آتی اور جاتی رہیں۔ یہاں بھی اس کی دال نہ گلی۔ اس نے ثابت کیا کہ اس کے نانا کی پردادی کا تعلق کشمیر سے تھا‘ مگر معلوم ہوا کہ صرف کشمیری برادری سے تعلق کافی نہیں۔ ساتھ دھن دولت بھی ہونی چاہیے‘ اور اگر کشمیری برادری سے تعلق ہو اور تعلق خواجگان سے ہو اور ریٹائرڈ سول سرونٹ بھی ہو تو وزیر اعظم کے دفتر میں سجا سجایا کمرہ، گھومتی کرسی اور ساری بیوروکریسی پر کُلّی اختیار و اقتدار بھی عطا کر دیا جاتا ہے۔ یوں بھی اقبال، جو خود بھی کشمیری تھے، کہہ گئے ہیں:
تیرے امیر مال مست، تیرے فقیر حال مست
بندہ ہے کوچہ گرد ابھی، خواجہ بلند بام ابھی
اس نے کھانے پکانے اور پیش کرنے بھی سیکھے مگر اس نے دیکھا کہ دہی بڑے پیش کرنے والے بڑے بڑے ایوانوں میں متمکن ہو گئے اور وہ جہاں تھا وہیں رہا۔ لطیفہ گوئی میں محنت کی۔ مساج کا فن حاصل کیا مگر کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی۔ بخت سیاہ تھا! سیاہ ہی رہا!
پھر جنرل پرویز مشرف آئے اور چھا گئے۔ اب سب کچھ بدل گیا۔ پہلے ہر شے میں مذہب کو داخل کیا جاتا رہا۔ اب مذہب ہر شے سے نکالا جانے لگا۔ بغلوں میں سگ بچے داب داب دکھائے جانے لگے۔ ناؤ نوش والے گروہ زور پکڑنے لگے۔ شین قاف تو درست ہو ہی رہے تھے، شین سے شروع ہونے والے اشغال بھی معزز ہو گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب بیوروکریسی میں چار کی چوکڑی راج کرنے لگی۔ جس دن، ایف بی آر کے سربراہ نے بادشاہ کے حضور، بنفس نفیس، رقص کیا اور پہلے بادشاہ کے عہد میں واسکٹیں پہن کر نمازیں پڑھنے والی ٹاپ لیول نوکر شاہی نے رقص پر سر دھُنا اور تالیاں بجائیں تو اس نے بھی اِن ہونے کے لیے رقص سیکھنے کا فیصلہ کیا‘ مگر جلد ہی سمجھانے والے صاحبان عقل نے باور کرایا کہ معاملہ صرف رقص کا نہیں ہے۔ ہمایونی عہد میں جب مینا بازار کا آغاز ہوا اور جہانگیری عہد میں یہ سرگرمی عروج پر پہنچی تو غایت صرف اشیا کی خرید و فروخت نہیں تھی۔ قصہ کوتاہ، یہ عشرہ بھی اس کے لیے مسعود ثابت نہ ہو سکا۔
زمانے نے ایک اور کروٹ لی اور پیش منظر پر ملتان چھا گیا۔ اب تک تو چار ہی تحفے ملتان کے مشہور تھے۔ گرد و گرما، گدا و گورستان مگر اب رنگ رنگ کے تحفے بڑے بڑے مناصب پر نظر آنے لگے۔ اس ملتان نوازی میں ایک شریف آدمی کو تماشا بھی بنا دیا گیا۔ پروفیسر خواجہ علقمہ کو بنگلہ دیش میں سفیر مقرر کیا گیا۔ بچہ بھی بتا سکتا تھا کہ بنگلہ دیش کی حکومت یہ سفارت قبول نہیں کرے گی۔ پروفیسر علقمہ، خواجہ خیرالدین کے فرزند تھے جن کا تعلق ڈھاکہ کے معروف نواب خاندان سے تھا۔ خواجہ خیرالدین مشرقی پاکستان میں علیحدگی پسندوں کے مقابلے میں پاکستان کے حامی تھے۔ بنگلہ دیش بنا تو وہ پاکستان آ گئے۔ بنگلہ دیش کی حکومت ایسے لوگوں کے خون کی پیاسی تھی۔ بطور سفیر کیسے قبول کرتی؟ خواجہ صاحب پر کرم فرمائی کرنا ہی تھی تو کسی اور ملک میں تعینات کرتے۔ بہر طور، جس سیاہ بخت پاکستانی کی بات ہو رہی تھی، اس ملتانی عہد میں بھی وہ محرومِ عنایت ہی رہا۔ ڈومی سائل کہیں اور کا تھا۔
چند دن پہلے وہ میرے ہاں آیا۔ یہ تومجھے معلوم تھا کہ اب وہ اپنی تیرہ بختی کی تفصیلات سنائے گا مگر یہ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اپنی نا کامی اور نا امیدی کی تان اپنے مرحوم ماں باپ پر توڑے گا۔ چائے پیتے پیتے اس نے سرد آہ بھری۔ پھر رقت آمیز لہجے میں کہنے لگا: میرے ماں باپ پر خدا رحمت کرے! ان کے بے پایاں احسانات ہیں مجھ پر! میں تو اپنے چہرے سے مکھی بھی نہیں اُڑا سکتا تھا۔ میری انہوں نے پرورش کی۔ راتوں کو جاگے۔ دن کا آرام تج دیا۔ پڑھایا لکھایا۔ ادب آداب سکھائے۔ معاشرت کے اصول بتائے۔ مگر اللہ ان پر اپنی رحمتیں بارش کی طرح برسائے، مجھے ان سے ایک گلہ ہے۔
میں حیران ہو رہا تھا کہ اس کے والدین کو دنیا سے کُوچ کیے ایک مدت ہو گئی۔ اس نے آج تک ایسی بات نہیں کی تھی۔ یوں بھی وہ ایک سعادت مند اور فرماں بردار بیٹا تھا۔ زندگی میں بھی اُن کی خدمت کرتا رہا۔ اکثر میں اسے قبرستان میں بھی دیکھتا۔ التزام سے ان کی قبروں کے سرہانے بیٹھا، تلاوت اور دعائیں کرتا پایا جاتا۔ کیسا گلہ؟ ان کو تو دنیا سے رخصت ہوئے ایک عرصہ ہوا۔ اب کیا یاد آیا تمہیں؟ میں نے اس سے پوچھا۔ وہ روہانسا ہو گیا اور بولا: آپ خود سوچیے اگر وہ میرا نام ایسا رکھتے جو ایک خاص حرفِ تہجی سے شروع ہوتا تو آج میرے بھی بخت کا ستارہ چمک اٹھتا۔ جس جس کا نام اس حرف سے شروع ہوتا ہے، اسی کی قسمت جاگ اٹھی ہے۔
اس کے جانے کے بعد میں اس کے اس حسرت آمیز شکوے کے بارے میں سوچتا رہا۔ میں اسے کیسے بتاتا کہ اگر اس کا نام اُس خاص حرف تہجی سے شروع ہوتا بھی، تو اس کا نصیبہ محرومِ تمنا ہی رہتا۔ اس لیے کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا۔ عقل و شعور رکھتا تھا۔ مہذب تھا، لبیک صرف ضمیر کی آواز پر کہتا تھا۔ یہ وہ خصائص تھے جو اسے ایک خاص حرف تہجی کی موجودگی کے باوجود کسی منصب کے لائق نہ ہونے دیتے۔ سکہ رائج الوقت کچھ اور تھا!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, August 05, 2021

زندگی کا آخری کھانا



یہ گنوار نہیں تھے۔ کسی جنگل سے نہیں آئے تھے۔ ان پڑھ بھی نہیں تھے۔
یہ کسی سیاسی جماعت کے، دریاں بچھانے والے، کارکن بھی نہیں تھے۔ نہ یہ دیہاڑی پر کام کرنے والے مزدور تھے۔ کسی عرس کے لنگر پر ٹوٹ پڑنے والے خوش عقیدہ عوام سے بھی ان کا کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ ملک کے سب سے زیادہ تعلیم یافتہ طبقے کی نمائندگی کر رہے تھے۔ نئی صدی کو بھی دو عشرے ہو چکے۔ اس ملک میں ڈاکٹر اور انجینئر بننا آج بھی سنہری خواب ہے۔ یہ ایک سدا بہار چوائس ہے۔ سارے پیشوں پر فوقیت رکھنے والے دو پیشے! سی ایس ایس بھی خوب ہے۔ عساکرِ پاکستان کا کیریئر بھی جلال و شوکت رکھتا ہے۔ بینک کاری میں بھی آرام سے گزرتی ہے۔ ایم بی اے کا بخار بھی اپنا زور دکھا کر اتر چکا‘ مگر ماں باپ کی بھاری اکثریت آج بھی بچوں کو ڈاکٹر بنانا چاہتی ہے یا انجینئر! آج بھی ذہین ترین طلبہ و طالبات ڈاکٹری کی طرف جاتے ہیں یا انجینئری کی طرف! اگر یہ کہا جائے کہ ملک کی کریم کا زیادہ حصہ آج بھی انہی دو شعبوں کا انتخاب کرتا ہے تو ہرگز مبالغہ نہ ہو گا۔
کہا جاتا ہے کہ یہ انجینئر تھے۔ کھانا کھلا تو جو مظاہرہ ملک کی اس کریم نے کیا اس کی وڈیو وائرل ہو چکی ہے اور اب تک، ملک کے اندر اور ملک سے باہر بے شمار لوگ اسے دیکھ چکے ہیں۔ قیامت کا سماں تھا۔ شمشیر زنی، نیزہ بازی، تیر اندازی اور گھڑ سواری کا مظاہرہ بیک وقت ہو رہا تھا۔ مختصر ترین تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ڈشوں، پراتوں اور ڈونگوں سے پلاؤ، چمچوں کے ذریعے نہیں، براہ راست پلیٹوں سے نکالا جا رہا تھا۔ کچھ بہادر‘ ہاتھوں سے چاول نکال نکال کر پلیٹوں میں ڈال رہے تھے۔ میدان کار زار تھا۔ کشتوں کے پشتے لگ رہے تھے۔ اس ساری جنگی کارروائی کے دوران جو شور تھا، پانی پت کے معرکوں کی یاد دلا رہا تھا۔ کان پڑی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی۔ جو شے جس کے ہاتھ آئی لے اُڑا۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ انجینئرز کے بجائے کوئی اور گروہ بھی ہوتا تو مظاہرہ ایسا ہی ہونا تھا۔ ایسا نہیں کہ باقی سب شائستگی کے پیکر ہیں اور صرف ایک طبقہ اس ہلڑ بازی کا مرتکب ہوا ہے۔ یہ صرف ایک جھلک ہے قومی سطح پر ہمارے ابتذال اور پستی کی! شادیوں پر جب کھانا کُھلتا ہے تو اچکنوں، شیروانیوں، ریشمی واسکٹوں، تھری پیس سوٹوں اور برانڈڈ نکٹائیوں میں ملبوس شرفا جس ''شرافت‘‘ اور ''ٹھہراؤ‘‘ کا ثبوت دیتے ہیں‘ اس سے ہمارے قومی مائنڈ سیٹ پر خوب روشنی پڑتی ہے۔ اچھے خاصے متین حضرات کو ایسی نشست تاکتے دیکھا ہے جہاں سے میدان کار زار نزدیک پڑتا ہو اور حملہ کرنے میں پہل ہو سکتی ہو۔ ایک زمانے میں حکیم محمد سعید مرحوم نے شامِ ہمدرد کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ یہ خالص علمی اور ادبی تقاریب ہوتی تھیں مگر ان میں بھی حاضرین کی زیادہ تعداد چائے کے موقع پر ہڑبونگ مچا دیتی تھی۔ سیاسی پارٹیوں کے اجلاسوں کے حوالے سے بھی اس قسم کی خبریں آئے دن رپورٹ ہوتی ہیں کہ کارکنوں نے ساری رکاوٹیں توڑ ڈالیں اور وقت سے پہلے ہی کھانے پر پل پڑے۔ اس میں سب پارٹیاں، ایک جیسی ہیں۔ سب اسی زمین سے اٹھی ہیں۔ آسمان سے کوئی نہیں اتری۔
کیا بد نظمی اور اوچھے پن کا سلسلہ صرف کھانے تک محدود ہے؟ نہیں! یہ بیماری پورے وجود میں سرایت کیے ہوئے ہے۔ یہ برف کا ایک بہت بڑا تودہ ہے جو زیرِ آب چلا آ رہا ہے اور کھانے پر جو ہمارا طرز عمل ہے اس برفانی تودے کا صرف وہ ذرا سا حصہ ہے جو پانی سے باہر دکھائی دے رہا ہے۔ ملک کے معتبر ترین اور معزز ترین ایوان میں چند روز پہلے جو کچھ ہوا، جس طرح دشنام طرازی کی گئی، جس طرح بجٹ دستاویزات کو میزائلوں کے طور پر استعمال کیا گیا یہاں تک کہ خواتین کے چہرے زخمی ہو گئے اور جس طرح سب نے، حسب توفیق، اس جوتم پیزار میں حصہ لیا اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہم سب، بطور قوم، شائستگی، نظم و ضبط اور خوش اطواری سے محروم ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہم، من حیث القوم، کرخت، درشت اور اکھڑ ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ کرختگی، درشتی اور اکھڑ پن صرف اس چیز کا نام نہیں کہ آپ کسی کو ڈانٹ دیں یا اونچی آواز میں کھردری بات کریں۔ کسی کا شکریہ نہ ادا کرنا، کسی کی گاڑی کے پیچھے گاڑی کھڑی کر دینا، قطار توڑ کر آگے بڑھنا، جہاز میں کسی کی نشست پر اجازت لیے بغیر بیٹھ جانا، سڑک پر تھوکنا، سب کے سامنے ناک میں انگلی گھمانا، جمائی لیتے وقت منہ پر ہاتھ نہ رکھنا، سگرٹ اس طرح پینا کہ دھواں ساتھ بیٹھے ہوئے کی آنکھوں میں پڑے، دوسروں کی موجودگی میں، خاص طور پر بس یا ٹرین میں، فون پر بلند آواز میں بات کرنا، باتھ روم کو استعمال کے بعد فلش نہ کرنا، یہ صرف چند مثالیں ہیں ہمارے اکھڑ پن، کھردرے پن اور کرختگی کی! اب تو دو سال ہونے کو ہیں کورونا نے مقید کر کے رکھ دیا ہے، ورنہ لاہور اور راولپنڈی کے درمیان سفر کے لیے یہ کالم نگار ہمیشہ ریل کار پارلر کو ترجیح دیتا ہے۔ ایسے ایسے تجربے ہوئے کہ خدا کی پناہ۔ ایک بار ایک صاحب نے فون پر، انتہائی بلند آواز میں کاروبار، ٹینڈروں اور نیلامیوں پر مشتمل گفتگو شروع کی۔ لاہور سے چلے، جہلم آ گیا۔ وہ لگے رہے۔ پورے ڈبے پر ان کی آواز چھائی رہی۔ ریلوے کا ایک اہلکار گزرا تو اس سے شکایت کی۔ اس نے بے بسی سے کہا کہ منع کیا تو جھگڑا کریں گے اور مزید شور مچے گا۔
کوئی افتاد پڑے، جیسے سیلاب، زلزلہ یا وبا، تو امدادی اشیا کی تقسیم ہمیں پوری طرح بے نقاب کر کے رکھ دیتی ہے۔ قطار بندی کا دور دور تک وجود نہیں ہوتا۔ چاروں طرف ہجوم اور عجیب بے رحم اور کٹ تھروٹ قسم کا عالم ہوتا ہے۔ بیک وقت سینکڑوں دست ہائے سوال دراز ہوتے ہیں۔ کوئی بہت کچھ لے اُڑتا ہے اور کسی کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آتا۔ یہ تو لینے والوں کا حال ہے۔ رہے دینے والے، تو انہیں بھی پروا نہیں کہ کسی قاعدے اور ترتیب سے تقسیم کریں اور مستحقین کی عزتِ نفس کا خیال رکھیں۔ سرکاری شخصیات تو ایسے مواقع پر یوں بھی صرف فوٹو سیشن میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ 

کہتے ہیں کہ کسی قوم کی شائستگی کو جانچنا ہو اور یہ دیکھنا ہو کہ وہ کتنی مہذب ہے تو دو پہلوئوں کا جائزہ لو۔ ایک یہ دیکھو کہ ٹریفک کیسی ہے، دوسرے، یہ دیکھو کہ باتھ روم کتنے صاف ہیں۔اب تو موٹر وے پر بھی وہ پہلی سی بات نہیں رہی۔ کسی کو ہماری اصل نیچر جاننی ہے تو قصبوں کی ٹریفک کا حال دیکھے۔ لاقانونیت برہنہ ہو کر رقص کر رہی ہوتی ہے۔ بڑے شہروں کی ٹریفک بھی کم شرمناک نہیں۔ وفاقی دارالحکومت کی کسی شاہراہ پر رات کو کھڑے ہو جائیے۔ ہر پچیس تیس گاڑیوں کے بعد ایک گاڑی بتیوں کے بغیر جا رہی ہو گی۔ نوے پچانوے فی صد موٹر سائیکلوں کی عقبی بتیاں غائب ہیں۔ لین نام کی کوئی شے نہیں، پوری سڑک آپ کی جاگیر ہے۔ سامنے سے آنے والا، روشنیاں، چاقو کی نوک کی طرح آپ کی آنکھوں میں چبھوتا ہے۔ آپ وقتی طور پر اندھے ہو جاتے ہیں۔ آپ نے بائیں طرف مُڑنے کا اشارہ دے رکھا ہے مگر سب یہی سمجھ رہے ہیں کہ آپ مذاق کر رہے ہیں چنانچہ سب آپ کو بائیں طرف سے اوور ٹیک کیے جا رہے ہیں۔ آپ خود بھی یہی کچھ کرتے ہیں!
انگریز کے بارے میں لطیفہ ہے کہ ایک ہو تب بھی قطار بناتا ہے۔ ہم بہت سے ہوں تب بھی نہیں بناتے‘ اور کھانا لیتے ہوئے تو بالکل نہیں۔ کیا خبر یہ زندگی کا آخری کھانا ہو!
بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, August 03, 2021

کیا وزیر اعظم یہ حکم جاری کریں گے ؟



نہیں! اس معاشرے میں یہ ناممکن ہے !
اس معاشرے میں مرد عورت کو کبھی اس قابل نہیں سمجھے گا کہ بغیر اجازت اسے ہاتھ نہ لگائے۔ عورت کا قتل‘ مار پیٹ‘ ریپ‘یہاں ہوتا رہے گا۔ کوئی ایسی چِپ ایجاد ہوئی ہے نہ ہو گی جو پاکستانی بلکہ جنوبی ایشیا کے مرد کے دماغ میں لگائی جائے تو وہ عورت کو چیز نہیں بلکہ انسان سمجھنے لگ جائے۔ آپ اس معاشرے میں عورت کی تذلیل کا اندازہ لگائیے کہ رشتہ کرنے کے لیے اسے باقاعدہ دیکھا اور پسند یا ناپسند کیا جاتا ہے جیسے وہ فرنیچر کا آئٹم ہو۔ دیکھنے اور پسند یا ناپسند کرنے کے بے شمار باعزت طریقے بھی موجود ہیں مگر یہاں باقاعدہ اعلان ہوتا ہے کہ لڑکی دیکھنے آرہے ہیں۔ جس معاشرے میں اسوارہ‘ کاروکاری اور ونی آج بھی رائج ہیں‘ جہاں لڑکی پیدا ہونے پر سوگ منایا جاتا ہے‘ جہاں نرس لڑکی کی پیدائش کا بتاتے ہوئے ڈرتی ہے کہ بد سلوکی کا ہدف نہ بنے‘ جہاں بچی کی پیدائش پر‘ اسی وقت‘ ہسپتال ہی میں‘ طلاق دینے کے واقعات آئے دن رونما ہوتے ہوں‘ جہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ بیگمات بھی بیٹوں کی دوسری شادیاں کراتی ہیں کہ پہلی بیوی تو بیٹیاں ہی جن رہی ہے‘ جہاں‘ اسمبلی میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف بِل پیش ہوا تو ایک ممبر کے سوا باقی سارا ہاؤس‘ بیک آواز‘ بل کے خلاف تھا۔عمامے‘ چُغے‘ نکٹائیاں‘ واسکٹیں سب ایک ہو گئے۔ یہاں تو ہر مرد کے لاشعور میں یہ بات بچپن ہی سے راسخ کر دی جاتی ہے کہ عورت ناقص العقل ہے۔کبھی اس کی شادی قرآن پاک سے کرائی جاتی ہے۔ ( نعوذ باللہ )۔ کبھی جائیداد میں اس کے جائز حق سے محروم کرنے کے لیے سو حیلے تراشے جاتے ہیں۔ کبھی اسے اعلیٰ تعلیم دلانے کے بعد ان پڑھ بھتیجے یا اپاہج بھانجے کے ساتھ باندھ دیا جا تا ہے۔ جہیز کی باقاعدہ فہرستیں دی جاتی ہیں۔ اس صورتحال میں ناممکن ہے کہ عورت گھر سے باہر محفوظ ہو۔ لباس کی بات ناقابل فہم ہے۔ مختاراں مائی نے کون سی جینز پہن رکھی تھی؟ چک بیلی خان کے بازار میں بھیک مانگنے والی نے‘ جسے آبرو ریزی کے بعد اس کے بچے سمیت قتل کیا گیا‘ کون سا بغیر آستینوں کے بلاؤز پہنا ہوا تھا اور کون سی زلفیں پارلر سے آراستہ کروائی ہوئی تھیں۔ یہ دلیل تو‘ رومی کے بقول‘ لکڑی کا پاؤں ہے
پائے استدلالیاں چوبیں بود
پائے چوبیں سخت بے تمکیں بود
اس طرح کی منطق بگھارنے والوں کے پاؤں لکڑی کے ہوتے ہیں‘ اور لکڑی کا پاؤں سخت بے وقعت ہو تا ہے۔
یہ تو ظاہر ہے کہ اس معاملے میں پولیس‘ انتظامیہ‘ سوسائٹی‘ کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔جب ایک مکان کے اندر‘ یا ایک ویران جنگل میں‘ ایک وحشی درندہ‘ ایک لڑکی کے درپے ہے تو وہاں پولیس یا انتظامیہ کیا کر سکتی ہے۔ ہاں جب جرم سرزد ہو جائے تو اس کے بعددیکھا جائے گا کہ پولیس نے کیس دیانت داری سے بنایا یا اس میں جان بوجھ کر جھول رکھے۔ دولت کی چمک اپنا کرشمہ دکھا گئی یا کیس کی تیاری سے لے کر فیصلہ سنائے جانے تک صرف صدقِ مقال اور اکل حلال ہی کا کردار رہا۔ سوال یہ ہے کہ خالی مکان میں یا ویران جنگل میں یا گاڑی کے اندر لڑکی کیسے بچے ؟ ایک ہزار سال بھی سوچتے رہیے‘ سینکڑوں تھنک ٹینک بنا کر ان کی رپورٹیں پڑھ لیجیے۔ لڑکیوں کے بچاؤ کا صرف اور صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے سیلف ڈیفنس! اپنا بچاؤ خود! اور یاد رکھیے جب لڑکیوں کو سیلف ڈیفنس کی تربیت دی جانے لگے گی‘ تو دو طبقات سب سے زیادہ مخالفت کریں گے۔ فیوڈل اور مذہبی حضرات۔
ہمیں بتایا جاتا ہے اور فخر کے ساتھ بتایا جاتا ہے کہ صدر اوّل میں مسلمان خواتین گھڑ سواری‘ تیر اندازی اور شمشیر زنی کی ماہر تھیں۔ ایک جنگ میں صحابیاتؓ نے خیموں کی چوبوں سے دشمن کو مار مار کر پسپا کیا تھا۔ امِ عمارہؓ نے احد کے میدان میں مسلح ہو کر آپﷺ کا دفاع کیا۔درجنوں ایسے واقعات تاریخ میں ملتے ہیں۔ حضرت انس ؓکی والدہ ام سلیم ؓغزوہ حنین کے دوران خنجر سے مسلح تھیں۔ یہ سب تاریخ کا حصہ ہے اور ہمیں یہ تاریخ سنائی بھی جاتی ہے مگر ہماری لڑکیوں کی حالت یہ ہے کہ چھوئی موئی بن کر رہ گئی ہیں۔ کوئی لڑکا گلی میں چھیڑتا ہے‘ بکواس کرتا ہے یا تعاقب کرتا ہے تو آگے سے zombieکی طرح‘ سر جھکا کر چلتی رہتی ہیں۔ ہاتھ اٹھتا ہے نہ لات بدمعاش کے پیٹ پر پڑتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بدمعاش کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے۔ وہ ہراساں کرنے کے اس عمل کو روز کا معمول بنا لیتا ہے اور اپنے سفلہ دوستوں کو بھی ساتھ لے آتا ہے۔ یاد رکھیے‘ چور اور غنڈہ بنیادی طور پر بزدل ہوتا ہے۔ عورت سے تھپڑ کھانے کے بعد وہ جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔ اب یہ بدمعاش مسلح بھی رہنے لگے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ لڑکی اپنے دفاع کی خاطر کیوں نہیں مسلح ہو سکتی ؟ کیا یہ کسی آسمانی کتاب میں لکھا ہے کہ لڑکی کے ہینڈ بیگ میں خنجر نہیں ہونا چاہیے ؟ یا اس کے پاس ریوالور ہوا تو وہ دین کے دائرے سے خارج ہو جائے گی؟
یورپ میں سفر کے دوران دیکھا ہوا ایک منظر آج تک نہیں بھولا۔ ریل کے ڈبے میں‘ سامنے والی نشست پر ایک لڑکی اور تین لڑکے بیٹھے ہوئے تھے۔ وضع قطع‘ گفتگو اور ہنسی مذاق سے ظاہر ہو رہا تھا کہ کسی یونیورسٹی کے طالب علم ہیں اور چاروں دوست ہیں۔ اتنے میں لڑکی نے اپنے بیگ سے چاکلیٹ نکالی اور کھانا شروع کر دی۔لڑکوں نے حصہ مانگا تو اس نے ہنس کر جھنڈی دکھا دی۔ تینوں لڑکوں نے اس سے بزور چاکلیٹ چھیننا چاہی مگر وہ کھاتی بھی رہی‘ ہنستی بھی رہی اور اپنا دفاع بھی کرتی رہی۔ لڑکوں نے چاکلیٹ والے ہاتھ تک پہنچنے کے لیے پورا زور لگایامگر اس نے تینوں کو روکے رکھا یہاں تک کہ اس نے اپنی چاکلیٹ پوری ختم کر دی۔ پاکستان کے ایک حکومتی دفتر میں پیش آنے والا واقعہ بھی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ سیلف ڈیفنس لڑکیوں کے لیے کس قدر لازم ہے۔ شہراور محکمے کا نام نہیں بتاتے نہ کوئی اور اشارہ دیتے ہیں نہ ہی یہ تصریح کرنے کی ضرورت ہے کہ دفتر وفاقی تھا یاکسی صوبے کا۔اس لیے کہ مقصد کسی کی عزت اچھالنا نہیں‘ سبق حاصل کرنا ہے اور فیصلے کی طرف بڑھنا ہے۔ ایک خاتون افسر تھی۔ جوان مگر سخت ریزرو! باس کے کمرے میں جاتی تو کبھی نہ بیٹھتی۔ کھڑے ہو کر کام کی بات کرتی اور پھر واپس۔ ایک دن جوائنٹ سیکرٹری صاحب ترنگ میں تھے۔ انہوں نے بیٹھنے کے لیے کہا اور چائے کی دعوت دی۔ اس نے کہا کہ سر! میں نے کام کی بات کر لی ہے۔ رہی چائے تو وہ میں اپنے کمرے ہی میں پیاکرتی ہوں۔ افسر اٹھا اور اسے بازو سے پکڑ کر شاید بٹھانے کوشش کی۔ اس کے بعد‘ عینی شاہد کہتا ہے کہ نہ جانے کیا ہوا‘ مگر جو کچھ بھی ہوا بجلی کی رفتار سے ہوا اور صاحب زمین پر چت پڑے تھے۔ اس لیے کہ خاتون افسر نے یونیورسٹی سے صرف ایم اے کی ڈگری ہی نہیں لی تھی بلکہ بلیک بیلٹ بھی حاصل کی تھی!
لڑکیوں کے لیے ہر سکول میں‘ خواہ غریبانہ سرکاری سکول ہو یا طبقہ امرا کا گراں بہا سکول‘ سیلف ڈیفنس کی تربیت لازمی کی جائے۔ جوڈو کراٹے ہو یا کَنگ فو یا کِک باکسنگ‘ یا مارشل آرٹ کی کوئی اور قسم‘ خدا کے لیے لڑکیوں کو سکھائیے ورنہ یاد رکھیے یہ ملک ظاہر جعفروں سے لبا لب بھرا ہے !
کیا وزیر اعظم حکم جاریں گے کہ ہر سکول‘ ہر کالج میں لڑکیوں کے لیے سیلف ڈیفنس کی تربیت لازمی ہو گی؟

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, August 02, 2021

زہرجو پھیل چکا ہے



تو کیا دولت کے نشے میں چُور، متکبر لوگ، ہماری خواتین کے سر، جسم سے الگ کرتے رہیں گے؟
اصل سوال یہ ہے کہ قاتل کون ہے؟ ظاہر میں تو قاتل وہ بگڑا ہوا امیر زادہ ہے جس نے یہ لرزہ خیز، گھناؤنا، وحشت ناک اور مہیب جرم کر کے اپنے آپ کو انسانیت سے خارج کر دیا ہے‘ مگر وہ تو ظاہری قاتل ہے۔ اصل قاتل وہ ہے جس نے اس معاشرے کو یہ ظاہری قاتل دیا ہے۔ اصل قاتل وہ ہے جس نے مقتولہ کے والد کو مبینہ طور پر بتایا تھا کہ ''نور میرے بیٹے کے ساتھ نہیں ہے‘‘۔ جسے مبینہ طور پر ملازمین نے دو بار ہولناک صورت حال سے مطلع کیا مگر اس کے کان پر جوں تک نہ رینگی، جسے اس کے بیٹے نے بھی مبینہ طور پر بتایا کہ میں لڑکی کو قتل کر رہا ہوں مگر یہ بھی اس کے نزدیک کوئی اہم بات نہ تھی۔
تو یہ شخص کس برتے پر قتل کو ایک عام، معمولی واقعہ سمجھ رہا ہے؟ اس کا بیٹا کس برتے پر فساد فی الارض کا مرتکب ہو رہا ہے؟ دولت! مال! بے تحاشا مال! بے تحاشا دولت! یہ اُس کی دولت ہی ہے جس کی وجہ سے پورے پاکستان کو خدشہ ہے کہ ملزم چھوٹ جائے گا! ایسے شخص کا واحد علاج یہ ہے کہ اسے اپنی دولت کے استعمال سے روک دیا جائے۔ یہ علاج اسلامی فقہ کے پانچوں بڑے مکاتب فکر میں موجود ہے۔ اس قانون کو قانون حجر کہتے ہیں۔ حجر کی ''ح‘‘ کے نیچے زیر بھی پڑھ سکتے ہیں اور زبر بھی! یعنی حِجر بھی اور حَجر بھی! یہ شخص جسے اس کے مال میں تصرف سے روکا جائے گا، سفیہ کہلائے گا۔ سفیہ کی جمع سفہا ہے۔ فقہ حنفی کے دو بڑے ستون امام محمدؒ اور امام ابو یوسفؒ کہتے ہیں کہ سفیہ پر حجر کیا جائے گا‘ یعنی اسے اپنے مال میں تصرف سے روکا جائے گا۔ امام شافعیؒ بھی یہی کہتے ہیں۔ مالکی فقہ کی رو سے سفیہ تبذیر کا اور مال میں بخوبی تصرف نہ کر سکنے کا نام ہے۔ جب کسی شخص میں یہ بات پائی جائے تو اس پر حجر کیا جا سکتا ہے۔ عبدالرحمان الجزیری (وفات 1941) جو معروف مصری سکالر ہیں اور جنہوں نے سُنی فقہ کے چاروں مسالک کو یکجا کیا ہے‘ لکھتے ہیں ''جمہور علما اور آئمہ اسلام کی رائے یہ ہے کہ ایسا شخص فاترالعقل یا نابالغ بچوں کے مانند ہے۔ ایسا کرنے میں، (یعنی اسے مال کے تصرف سے روکنے میں) عوام کا بھی بھلا ہے‘ کیونکہ لازمی طور پر ایسا شخص دوسروں کے معاملات انجام دے کر ان کا مال بھی غارت کرے گا‘‘ الجزیری یہ بھی کہتے ہیں کہ مال خرچ کرنے سے روکنا یعنی حجر، بنی نوع انسان کی بہبود پر مبنی ہے۔
حجر کا قانون فقہ جعفریہ میں بھی برابر موجود ہے۔ امام خمینی اپنی معروف تصنیف ''تحریر الوسیلہ‘‘ (جلد سوم) میں لکھتے ہیں ''شرعی اصطلاح میں حجر کا مطلب یہ ہے کہ چند اسباب میں سے کسی ایک سبب کی بنا پر کسی شخص کو اپنے مال میں تصرف نہ کرنے دیا جائے‘‘۔ امام خمینی نے احکام سفاہت کا باب الگ باندھا ہے۔ لکھتے ہیں ''سفیہ اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے مال کی حفاظت اور اپنی شخصیت کا تحفظ نہیں کر سکتا۔ مال بے موقع صرف کرتا ہے‘ اور بے محل برباد کرتا ہے۔ اس کے معاملات دور اندیشی اور فراست پر مبنی نہیں ہوتے‘ چنانچہ ایسا شخص شریعت کی رو سے ممنوع التصرف ہے‘‘۔ آگے لکھتے ہیں ''سفیہ کا مال اس وقت تک اس کو نہیں دیا جائے گا جب تک اس کے صاحبِ رُشد ہونے کا پتہ نہ چل جائے‘ اور اگر اس کی حالت مشتبہ ہو تو اس کا امتحان لیا جائے گا‘‘۔
جو لوگ دولت کی بنیاد پر قتل و غارت کر رہے ہیں، اور قانون کو اپنے پاؤں کی جوتی بنانا چاہتے ہیں، ان کا یہ علاج، پوری دنیا میں، صرف اسلامی فقہ ہی کر سکتی ہے۔ ریاست کو اختیار ہے کہ ایسے امیروں کے گلے میں، جو معاشرے میں کینسر کی طرح ہیں، رسی ڈالے تا کہ وہ اپنی دولت کی بنا پر وہ سب کچھ نہ کریں جو وفاقی دارالحکومت میں کیا گیا ہے اور جس پر ان دولت مندوں کی پیشانیوں پر عرقِ انفعال کا ایک قطرہ تک نہیں ہے بلکہ اسی دولت کی بنا پر اب وہ قاتل کو بچانے میں لگے ہوئے ہیں۔ امام ابو یوسفؒ اپنی تاریخ ساز تصنیف ''کتاب الخراج‘‘ میں لکھتے ہیں:
''امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کا طریقہ یہ تھا کہ کسی قبیلے یا آبادی میں اگر کوئی بد معاش آدمی ہوتا تو اسے قید کر دیتے۔ اگر وہ آدمی صاحب مال ہوتا تو اس پر اسی کے مال میں سے صرف کیا جاتا۔ بصورت دیگر آپ اس کے اخراجات کا بار مسلمانوں کے بیت المال پر ڈال دیتے۔ آپؓ نے فرمایا: لوگوں کو اس آدمی کے شر سے محفوظ رکھا جائے گا اور اس کے مصارف ان کے بیت المال سے ادا کیے جائیں گے...‘‘۔
کوفہ بسایا گیا تو ابتدا میں مکان بانس اور نرسل سے بنائے گئے۔ انہیں جلد آگ لگ جاتی اور جل کر راکھ ہو جاتے۔ امیرالمومنین حضرت عمرؓ سے پکے مکان بنانے کی اجازت مانگی گئی۔ آپؓ نے اجازت دی مگر اس شرط پر کہ کوئی شخص تین سے زیادہ مکانوں کا مالک نہیں ہو گا۔ مدینہ منورہ میں ایک شخص نے بہت سے گھوڑے رکھ لیے۔ حضرت عمرؓ نے منع کر دیا۔ لوگ درمیان میں پڑے تو آپ نے اس شرط پر اجازت دی کہ چارہ مدینہ کے بازار سے نہیں بلکہ باہر سے منگوائے گا تا کہ ایسا نہ ہو کہ ایک ایک دو دو گھوڑوں کے مالک چارہ ڈھونڈتے ہی رہ جائیں۔ چنانچہ وہ چارہ یمن سے درآمد کرتا تھا۔ یہ دلائل ہیں اس بات کے کہ ریاست اجتماعی مفاد کی خاطر فرد پر پابندیاں لگا سکتی ہے۔ نہیں لگائے گی تو معاشرہ امیروں کی چراگاہ بن کر رہ جائے گا۔
شاہ ولی اللہؒ اپنی معروف تصنیف 'حجۃ اللہ البالغہ‘ میں امیروں کی مادر پدر آزادی کو دیوانے کتے کے زہر سے تشبیہ دیتے ہیں۔ لکھتے ہیں:
''... جب شہر کے امرا رقص و سرود، عورتوں کے بناؤ سنگھار، بلند و بالا عمارتوں اور، کپڑوں اور جواہرات میں‘ عجیب و غریب فیشن نکالنے میں روپیہ صرف کریں گے تو اسی قدر شہر کی دیگر مصلحتوں میں کوتاہی ہو جائے گی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جو لوگ ضروری پیشے کرتے ہیں مثلاً کاشت کار، تاجر، اہلِ صنعت، ان پر تنگی ہو گی اور ان پر زیادہ ٹیکس لگایا جائے گا۔ اس میں شہر کے لیے بڑا ضرر ہے جو اس کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک پہنچ کر تمام شہر کو گھیر لے گا اور دیوانے کتے کے زہر کی طرح اس میں پھیل جائے گا...‘‘۔
یہ زہر ہماری سوسائٹی میں پھیل چکا ہے۔ زیادہ تر دولت مند قانون سے بالا تر ہیں۔
بات ریاست مدینہ کی کی جاتی ہے! تو پھر کہاں ہے قصاص؟ کہاں ہے جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت؟؟ اگر فرات کے کنارے مرنے والے کتے کے بارے میں ریاست مدینہ کے والی سے پُرسِش ہو گی تو پھر شاہ زیب کا قتل کس کے کھاتے میں جائے گا اور کوئٹہ کے چوک پر گاڑی کے نیچے آنے والے ٹریفک وارڈن کی موت کا جواب کون دے گا؟ اسامہ ندیم کے قاتل کب اور کہاں پھانسی لگے؟ مانسہرہ کے چار نوجوانوں کو دن دہاڑے گاڑی کے نیچے دے کر مار دیا گیا! کیا انصاف ہوا؟ لاہور کے زین رؤف کی ماں نے بھری عدالت میں کہا تھا کہ وہ بیٹے کے اُن قاتلوں کا کیسے مقابلہ کر سکتی ہے جو طاقت ور اور با اثر ہیں۔ تو کیا ریاست بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکی؟ اور اب نور مقدم کا دھڑ سے الگ کیا گیا سر!!

بشکریہ روزنامہ دنیا
 

powered by worldwanders.com