ایسا نہیں کہ وہ فرشتہ تھا۔ انسان تھا! گوشت پوست کا بنا ہوا! اس سے غلطیاں بھی ہوئیں! مقصد کے حصول کے لیے اس نے جو طریقہ اپنایا، اس طریقے سے اختلاف بھی رہا۔ صرف اس کالم نگار کو نہیں، بے شمار دوسرے لوگوں کو بھی۔ اس کی زبان پر، اس کے انداز بیان پر بھی اعتراضات رہے! مگر ایک صفت ایسی تھی کہ سب عیوب کو ڈھانپ گئی۔ دل میں حُبِ رسول تھی! موج موج! اس قدر کہ اُس فقیر نے کوئی مصلحت دیکھی نہ ہی کوئی خوف لاحق ہوا۔ دنیاوی مال ومتاع تھا نہ منصب! اُس کا تو جسم بھی پورا نہ تھا‘ لیکن اُس نے رسول کی محبت کا جھنڈا اٹھایا اور لوگوں کو آواز دی۔ یہ حُبِ رسول کا معجزہ تھا، زندہ معجزہ! کہ لوگ اس کے گرد اکٹھے ہوگئے! فوج در فوج! سینکڑوں، ہزاروں، لاکھوں کی تعداد میں! اُس نے ثابت کیا کہ حُبِ رسول سے بڑھ کر کوئی شے ایک مسلمان کے لیے اس دنیا میں زیادہ قیمتی نہیں ہو سکتی! ویل چیئر پر بیٹھے ہوئے اِس جسمانی لحاظ سے معذور فقیر، اِس تہی دست بوڑھے نے، جس کے پاس محل تھا نہ جاگیر نہ کارخانے نہ عہدہ نہ سیاسی چھتری نہ بیرونی پُشت پناہی! جو اچار سے بھی روٹی کھا لیتا تھا لوگوں کو بتایا کہ رسول کی محبت کے بغیر یہ زندگی مٹی کے ایک ذرے کے برابر بھی نہیں! بَکری کی چھینک جتنی بھی نہیں! عزت اللہ اور اس کے رسول کی ہے۔ کسی بادشاہ، کسی وزیر، کسی صدر، کسی امیر، کسی سفیر کی نہیں! اُس نے آواز لگائی اور رسول کے شیدائی اُس سے آ ملے! دنیا داروں نے بہت باتیں بنائیں! کسی نے کہا‘ اسٹیبلشمنٹ کا آدمی ہے! کسی نے کہا‘ حکومت کو گرانا چاہتا ہے۔ کسی نے کہا‘ حکومت کو بچانا چاہتا ہے۔ کسی نے کہا‘ فلاں جماعت پشت پر ہے! مگر اُسے کسی افترا، کسی طعنے کی پروا نہیں تھی۔ اپنے کسی دنیاوی یا سیاسی فائدے کے لیے کسی گروہ، کسی جماعت، کسی ادارے نے اُس کی حمایت کی تو وہ اِس پر اِترایا نہیں! جس مقصد کے لیے اٹھا تھا، اُسے ایک لمحے کے لیے بھی نہیں بھولا۔ بخار سے پِنڈا دہکتا، سلگتا، بھڑکتا رہا! سانس اٹکتا رہا۔ یہاں تک کہ اس کی زندگی اسمِ محمد کی حرمت پر قربان ہو گئی۔
خلقت چہار دانگِ عالم سے امڈ کر آئی۔ اس تہی دست فقیر کو رخصت کرنے بوڑھے‘ جوان اور بچے‘ اور تندرست و بیمار لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوئے۔ عورتیں جنازے کے راستے پر چھتوں سے پھول پھینکتی رہیں۔ کوئی غیر مرئی طاقت مخلوق کو کھینچ کھینچ کر لارہی تھی۔ بسیں پکڑی گئیں نہ پٹواریوں‘ تھانیداروں تحصیلداروں کی ڈیوٹیاں لگائی گئیں۔ قیمے والے نان کھلائے گئے نہ بریانیاں پیش کی گئیں۔ یہ بھوکے پیاسے تھے، مگر کیسے بھوکے پیاسے کہ بھوک کی پروا تھی نہ پیاس کی۔ میلوں پیدل چلے مگر تھک کر کوئی بیٹھا نہ واپس ہوا۔ کوئی بس پر آیا توکوئی کسی سوزوکی سے لٹک کر، کوئی کسی ٹرک پر تو کوئی فرسنگ در فرسنگ، سائیکل چلاتا ہوا! کسی کے پاس شب بسری کا انتظام تھا تو کسی کے پاس وہ بھی نہ تھا۔ کسی کی جیب میں سفر کا خرچ تھا تو کوئی تہی کیسہ تھا! مگر ایک دولت سب کے پاس تھی! حْبِ رسول! یہ گٹھڑی بھری ہوئی تھی۔ یوں یہ سب غنی تھے۔ سب مالدار تھے۔
مجنوں پر لوگ ہنستے تھے کہ اتنی بھی کیا محبت کہ اپنا ہوش نہیں۔ محبت کیا ہے یہ اسی کو علم ہوتا ہے جس کے دل میں محبت جاگزین ہو! وہ جو کیڑے نکال رہے ہیں، افق افق سے امڈ کر جنازے میں شامل ہونے والوں کو سادہ لوح کہہ رہے ہیں، انہیں کیا معلوم محبت کیا ہے۔ محبت بھی رسول کی! انہیں کیا خبر یہ کیسا نشہ ہے۔ تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔ کتنوں پر تلوار اٹھا کر کہا گیا کہ محمدﷺ کو ماننے سے انکار کر دو بچ جاؤ گے، گردنیں کٹ گئیں، مگر چھوڑ دینے کا کسی نے سوچا تک نہیں۔ بہت سے دماغ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ محمد رسول اللہ تو محمد رسول اللہﷺ ہیں، ان کے غلاموں کے غلاموں کے غلاموں کے جوتوں کے نیچے لگی ہوئی مٹی بھی دنیا بھر کے خزانوں پر بھاری ہے۔ میکرون کو کیا خبر کہ مسلمان، اپنے پیغمبر کا نام لیتے ہوئے''فداہُ اْمّی و اَبی‘‘ کہتے ہیں کہ میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان! کیا کبھی کسی نے اپنے ماں باپ کو بھی قربان کیا ہے؟ ہاں! مسلمان کرتے ہیں اور فخر سے کرتے ہیں! اہل فرانس کو کیا علم کہ مسلمان نام نامی اسم گرامی لیتے ہوئے فداہ ابی و امی و روحی و مالی و ولدی پکارتے ہیں! کہ روح بھی آپﷺ پر قربان! مال بھی آپﷺ پر فدا! اولاد بھی آپﷺ پر نثار! گنہگار سے گنہگار مسلمان، نماز روزے سے غافل مسلمان، شراب پینے اور قمار بازی کرنے والا مسلمان بھی اپنے نبی کی توہین برداشت نہیں کر سکتا! اختر شیرانی بلا نوش تھے۔ بے عمل مسلمان! ہر وقت نشے میں غرق! ایک بزم میں بیٹھے تھے۔ ہوش سے عاری! جام پر جام لنڈھائے ہوئے! بات بھی روانی سے نہیں کر پارہے تھے۔ حاضرین مجلس مشاہیر کے بارے میں ان کی رائے لے رہے تھے اور ان کی مدہوشی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی بیباک نوجوان نے رحمت دو عالمﷺ کا نام لیا اور اختر کے خیالات جاننا چاہے! اختر کا ردعمل کیا تھا؟ شورش کاشمیری نے لکھا ہے، ''جیسے کوئی برق تڑپی ہو، بلور کا گلاس اٹھایا اور اس کے سر پر دے مارا۔ کہنے لگے، بدبخت! ایک عاصی سے سوال کرتا ہے۔ ایک سیہ رو سے پوچھتا ہے۔ ایک فاسق سے کیا کہلوانا چاہتا ہے؟... رونا شروع کیا گھگھی بندھ گئی۔ پھر فرمایا بدبخت! تم نے اس حال میں یہ نام کیوں لیا، تمہیں یہ جرأت کیسے ہوئی؟ گستاخ، بے ادب! اسے مجلس سے اٹھوا دیا، پھر خود اٹھ کر چلے گئے۔ تمام رات روتے رہے، کہتے تھے کہ یہ لوگ اتنے نڈر ہوگئے ہیں کہ ہمارا آخری سہارا بھی ہم سے چھین لینا چاہتے ہیں‘‘ مگر مغرب مسلمان کی ذہنی ساخت سمجھنے سے قاصر ہے۔ جن مسلمانوں کو خود ان کے خدا نے تلقین کی ہو کہ اپنی آوازیں، نبی کی آواز کے مقابلے میں پست رکھو ورنہ اعمال تہس نہس ہو جائیں گے وہ مسلمان اپنے نبی کی توہین کیسے برادشت کر سکتے ہیں! صوفیا تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ کوئی سیّد ہونے کا مشکوک دعویٰ کرے تب بھی اس کی تعظیم کرو کہ آخر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی اسم گرامی لے رہا ہے!
ویل چیئر والے فقیر کے عیوب حُبِ رسول نے ڈھانپ لیے۔ لاکھوں کے جم غفیر نے دست بستہ کھڑے ہو کر، باوضو حالت میں، اس کے لیے سفارش کی۔ روئے! گڑگڑائے! ساری منطقیں اور ساری بحثیں، سارے فقہی جھگڑے، مکاتب فکر کے سارے اختلافات، ایک مقام پر آ کر ختم ہو جاتے ہیں۔ جب آنکھ بھیگی ہوئی ہو تو اختلافات نہیں دیکھتی! اسے صرف محبت دکھائی دیتی ہے، امام مالکؒ نے خاک مدینہ پر چلتے ہوئے جوتے نہیں پہنے۔ کیسی منطق؟ کون سا فتویٰ؟ وقت کا حکمران ہشام بن عبدالملک بیت اللہ کے طواف کے دوران حجر اسود کو بوسہ دینا چاہتا ہے۔ ہجوم اتنا ہے کہ نہیں دے سکتا! پھر ایک شخص آتا ہے اور بے پناہ ہجوم اس کے لیے راستہ چھوڑ دیتا ہے۔ واقعہ طویل ہے اور کالم کا دامن تنگ۔ یہ نواسۂ رسول کے فرزند امام زین العابدینؓ ہیں! جس نام سے نسبت ہے اس کے سامنے حکمرانوں اور سلطنتوں کی کیا حیثیت!
ویل چیئر والا فقیر دنیا میں خالی ہاتھ رہا مگر جاتے ہوئے اس کے پاس بہت قیمتی زادِ راہ تھا!
No comments:
Post a Comment