''I have requested CM PK Pervez Khatak to declare 9 Nov Iqbal Day as a public holiday in the province‘‘
(میں نے چیف منسٹر کے پی پرویز خٹک سے کہا ہے کہ صوبے میں نو نومبر کو عام تعطیل کا اعلان کریں)۔یہ ٹویٹ عمران خان صاحب نے سات نومبر 2015ء کو شام پانچ بج کر تیرہ منٹ پر کیا تھا۔ تین منٹ بعد انہوں نے ایک اور ٹویٹ کیا ''اگرچہ میں بہت زیادہ چھٹیوں کا حامی نہیں؛ تاہم یومِ اقبال باقی دنوں سے مختلف ہے‘ فکر اقبال نے نظریہ پاکستان کو عملی شکل دی ہے‘‘۔
یہ تب کی بات ہے جب حکومت نواز شریف کی تھی۔ حکومت نے یومِ اقبال کی چھٹی نہ کرنے کا فیصلہ کیا تو تحریک انصاف کے سربراہ نے فوری ایکشن لیا۔ کے پی میں ان کی حکومت تھی۔ وہاں عام تعطیل کرا دی۔ آج چونکہ عمران خان حکومت میں ہیں‘ اس لیے انہوں نے یومِ اقبال کی چھٹی نہ صرف وفاق میں نہیں کرائی بلکہ اپنے زیرِ اقتدار دونوں صوبوں کو بھی اس کا حکم نہیں دیا۔ یومِ اقبال بھی ان کے لاتعداد یو ٹرنز کی زد میں آ گیا۔ بیچارہ یومِ اقبال !!
وزیر اعظم کا اقبال پر یہ احسان اس لیے نمایاں ہو گیا کہ وہ حکومت میں ہیں۔ ورنہ احسانات اقبال پر ہم سب کے ہیں‘ اور من حیث المجموع پوری قوم کے!! یہ احسان ہمارا اقبال پر کیا کم ہے کہ ہم اسے پڑھتے ہی نہیں۔ چلیے‘ اسرار و رموز‘ پیام مشرق‘ جاوید نامہ‘ زبور عجم‘ پس چہ باید کرد اور نصف ارمغانِ حجاز تو فارسی میں ہیں‘ جو کتابیں ان کی اردو میں ہیں‘ وہ ہم میں سے کتنوں نے پڑھی ہیں اور کتنوں نے اپنے بچوں کو پڑھائیں یا اس طرف راغب کیا؟ ان کتابوں کے نام تک نئی نسل کو نہیں معلوم۔ اقبال میوزیم‘ جو جاوید منزل میں بنایا گیا ہے‘ کتنوں نے دیکھا؟ کتنے اپنے بچوں کو وہاں لے گئے؟ اب تو ہماری ذہنی سطح یہ ہو گئی ہے کہ کراچی یا لاہور جائیں تو صرف کھابوں اور ریستورانوں کی فکر میں رہتے ہیں۔ معدے پھیل گئے ہیں اور دماغ سکڑ گئے ہیں۔ فکری اعتبار سے ہم سب شاہ دولہ کے چوہے بن چکے ہیں۔ اقبال پر ہمارا یہ احسان بھی ہے کہ اس کے نام سے بہت سے ادارے بنائے جن کے ذریعے خاندانوں کی پرورش ہوئی۔ ان اداروں میں بیٹھ کر لوگوں نے اپنے اپنے تصوف کے چرچے کیے۔ اپنی کتابوں کی تشہیر کی۔ واعظوں نے اقبال کے کلام سے اپنی دکانیں چمکائیں۔ لیفٹ نے اپنے مطالب کی چیزیں الگ نکالیں۔
ہر کسی از ظنِ خود شد یارِ من
و زدرونِ من نجست اسرارِ من
(اپنی دانست میں ہر کوئی میرا دوست بنا۔ میرے دل میں کیا ہے؟ یہ کسی نے جاننے کی کوشش نہ کی)
سب سے بڑا احسان‘ اقبال پر ہمارا یہ ہے کہ ہر برس‘ یوم اقبال پر‘ تقاریب کا اہتمام کرتے ہیں۔ ضمیر جعفری کا مشہور شعر ہے۔
بپا ہم سال میں اک مجلس اقبال کرتے ہیں
پھر اس کے بعد جو کرتے ہیں وہ قوال کرتے ہیں
اس بار تو خیر سے ایک تقریب ایوانِ صدر میں بھی منعقد ہوئی۔ اس کا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ کم سے کم لوگ شریک ہو سکے۔ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا۔ہونا یہ چاہیے کہ اقبال کے کلام کو زیادہ سے زیادہ پڑھنے اور سمجھنے کی تحریک چلے۔ اقبال شناسی کے لیے مجلسیں‘ بیٹھکیں‘ گروپ اور زاویے تشکیل دیے جائیں جو مل بیٹھ کر کلام اقبال پڑھیں اور پڑھائیں۔ سمجھیں اور سمجھائیں۔ ابھی ہمارے درمیان ایسے اصحاب کافی تعداد میں موجود ہیں جو فارسی جانتے ہیں۔ انہیں تلاش کیا جائے۔ ان سے گروہوں کی شکل میں کلام اقبال سبقاً پڑھا جائے اور اتنی استعداد پیدا کی جائے کہ ہم سلسلہ وار دوسروں کو پڑھا سکیں۔ ایک تو غلط فہمی یہ مارے جا رہی ہے کہ فارسی مشکل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو اچھی خاصی فارسی آتی ہے مگر ہم جانتے نہیں کہ ہمیں فارسی آتی ہے۔ اردو کے کثیر الفاظ فارسی النسل ہیں۔ آمد و رفت‘ نقل و حمل‘ گفتگو‘ جستجو‘خور و نوش‘ پس و پیش‘ آب و تاب‘ خرابیٔ بسیار‘ نمود و نمائش‘ درودیوار‘ دریچہ‘ غلغلہ‘ پسماندگی‘ واماندہ‘ حالیہ‘ کوشش‘ تپش‘ ہوشیار‘ جنگ بندی‘ نیم دلی‘ ہراساں‘ مشکل‘ مشغلہ‘ پیشرو‘ دستبردار‘ دانا‘ نادان‘ زیرک‘ اور ہزاروں دوسرے الفاظ جو ہم روزمرہ میں بولتے ہیں‘ فارسی کے ہیں۔ رہی فارسی گریمر‘ تو اردو‘ عربی اور انگریزی کی گریمر کی نسبت‘ فارسی گریمر آسان تر ہے۔ (امید ہے ڈاکٹر معین نظامی‘ ڈاکٹر عارف نوشاہی‘ ڈاکٹر شعیب احمد اور دیگر اساتذہ اس طالب علم کی اس ضمن میں تصدیق فرمائیں گے)۔ کلام اقبال پڑھنے اور سمجھنے کے سلسلے میں جن احباب کی ٹوٹی پھوٹی معاونت کی‘ بہت تھوڑے عرصہ میں وہ رواں ہو گئے اور بغیر کسی مدد کے خود پڑھنے اور سمجھنے کے قابل ہو گئے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ فارسی سے بے خبری کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے آٹھ سو سالہ ادب‘ کلچر اور تاریخ سے بے خبر ہیں۔ امیر خسرو سے لے کر فیضی‘ بیدل اور غالب تک‘ ہمارے شعری اور نثری ادب کا وافر حصہ فارسی میں ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم سچائی یہ ہے کہ پاک و ہند کی جتنی بھی تاریخ‘ اٹھارہویں صدی تک اور اس سے پہلے کی ہے اس کے تمام منابع فارسی میں ہیں۔ ہندو‘ سکھ اور انگریز مورخ بھی وہی وقیع مانے جاتے ہیں جنہوں نے برصغیر کی تاریخ‘ اصل منابع کی مدد سے لکھی۔
کلام اقبال صرف ایک پہلو ہے۔ حیات اقبال‘ اقبالیات کا ایک اور اہم حصہ ہے۔ انسان حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے جب یہ دیکھتا ہے کہ اس عظیم شاعر کی زندگی کس قدر مصروف تھی اور تنوع سے چھلکتی ہوئی! بھرپور سیاسی سرگرمیاں‘ یونیورسٹیوں کے لیے خدمات‘ درسی کتب کی تالیف‘ مدراس سے لے کر حیدر آباد تک اور علی گڑھ سے لے کر لاہور تک لیکچرز کا سلسلہ‘ خطوط کا جواب‘ جلسوں میں شرکت‘ دنیائے علم کے تازہ واقعات اور نئی کتابوں سے مسلسل رابطہ‘ مسلسل مطالعہ‘ پھر معاش کے لیے وکالت‘ کبوتر بازی کا شوق‘ آم پارٹیوں میں شرکت‘ غرض ایک ہنگامہ خیز زندگی گزاری اور اس کے ساتھ ہی علوم کے خزانے اپنی شاعری اور دیگر تصانیف میں سمو دیے۔ ڈاکٹر سید سلطان محمود حسین کی تصنیف ''حیاتِ اقبال عہد بہ عہد‘‘ اقبال کی زندگی کا سال بہ سال خوب احاطہ کرتی ہے۔ اسے اقبال اکادمی لاہور نے چھاپا ہے۔ معروف محقق خرم علی شفیق نے 1927ء سے لے کر وفات تک کے حالات عرق ریزی سے اور کمال جستجو کے بعد قلم بند کیے ہیں۔ اسے رائٹ وژن‘ 74۔ آر‘ جی سی پی سوسائٹی‘ جوہر ٹاؤن لاہور نے شائع کیا ہے۔ اقبال کے خطوط بھی اقبالیات کا جزو لا ینفک ہیں۔ دہلی کے مظفر حسین برنی کے مرتّبہ خطوط پہلے بھارت میں چھپے۔ اب چار جلدوں میں جہلم کے پبلشر ''بک کارنر‘‘ نے بہت اہتمام سے شائع کیے ہیں۔
چند ماہ پہلے اپنی نواسی اور نواسوں کو اقبال میوزیم لے کر گیا۔ ایک الماری میں علامہ کے جوتے پڑے تھے۔ کیئر ٹیکر سے درخواست کی کہ باہرنکال دے‘ چومنا چاہتا ہوں‘ مگر اس نے کہا کہ اجازت نہیں ہے۔ شیشے کے اوپر ہی سے جوتے چھوئے اور چومے۔ الفاظ گنگ رہ جاتے ہیں۔ قوت اظہار سلب ہو جاتی ہے۔ ایک روشنی تھی جو راستہ دکھا کر آسمانوں کو لوٹ گئی۔ ایک ستارہ تھا جو ہمارے بخت کی پیشانی پر چمکا اور چلا گیا۔ حیرت ہوتی ہے کہ ایسا شخص اور اتنے قریب کے زمانے میں! ابھی تو صرف بیاسی سال ہوئے ہیں اور سینکڑوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ آنے والے زمانے اقبال کے ہیں۔ بر صغیر کے دو کناروں پر دو آزاد مسلمان مملکتیں اُس دانائے راز کی سوچ کا استعارہ ہیں
بشکریہ روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment