Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, July 28, 2020

مغلانی سے ڈیرہ دارن تک


‎نیا تنازعہ کھڑا ہوگیا۔ مولانا فضل الرحمن کے بھائی کو سندھ حکومت نے ڈپٹی کمشنر تعینات کر دیا۔ سوشل میڈیا کے کھلاڑیوں کو وقت گزاری کا نیا عنوان ہاتھ آ گیا ؎
‎ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
‎نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی
‎اس میں کیا شک ہے کہ اس تعیناتی کی پشت پر اثر و رسوخ کھڑا تھا! مولانا سیاست اور شہرت کے جس مقام پر ہیں‘ اُس کے تناسب سے‘ ایسے کام کیلئے ان کا اشارہ ہی کافی ہے! مگر اس قضیے میں غور و فکر کا بہت سامان ہے! کیا سندھ حکومت نے مولانا کے بھائی کو کے پی سے اغوا کر کے بزورِ شمشیر ڈپٹی کمشنر لگایا؟ اگر وہ کے پی حکومت کے پاس تھے تو سندھ میں کیسے پہنچ گئے؟ دلچسپ پہلو معاملے کا یہ ہے کہ خود تحریک انصاف کی حکومت نے انہیں سندھ حکومت کے سپرد کیا۔ اس کیلئے یقینا کوئی آرڈر‘ کوئی نوٹی فیکیشن جاری ہوا ہوگا۔ کوئی افسر بھی‘ اپنے طور پر‘ ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں نہیں جا سکتا! لطیفہ اس پر یہ ہے کہ تحریک انصاف کے کسی نمائندے نے عدالت جانے کااعلان کیا ہے!! بقول احمد ندیم قاسمی ؎
‎ہنسی آتی ہے مجھ کو امتیازِ دشت و گلشن پر
‎گھٹا کعبے سے اٹھتی ہے‘ برستی ہے برہمن پر
‎سول سروس کے ساتھ یہ زبردستی‘ یہ زور آزمائی‘ یہ اقربا پروری‘ یہ دوست نوازی‘ پہلی بار نہیں ہوئی۔ اور اس ملک کا اندازِ حکمرانی ظاہر کرتا ہے کہ آخری بار بھی نہیں ہوئی۔ سول سروس تو وہ ڈیرہ دارن ہے جو کبھی مغلانی تھی مگرعرصۂ دراز سے اُس کی حرمت کی دھجیاں اُڑ رہی ہیں۔ ہر حکومت نے اسے کنیز سمجھا۔ جو کچھ اس کے ساتھ ہوتا رہا‘ اس کے مقابلے میں مولانا فضل الرحمن کے بھائی کی تعیناتی ایک معمولی کیس ہے۔ اس سے کوئی یہ نتیجہ اخذ نہ کرے کہ ہم اس تعیناتی کا جواز پیش کررہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سفارش کا ایک واضح شاخسانہ ہے۔
‎غالباً یہ جنرل ضیاء الحق تھے جنہوں نے سول سروس کے تین گروپوں (ضلعی انتظامیہ‘ فارن سروس اور پولیس) میں پچھلے دروازے سے داخلے کا راستہ کھولا۔ عساکر سے آمد ہوئی۔ پھر سیاست دانوں نے وہ ہولی کھیلی کہ الامان الحفیظ ! ضیا ء الحق سے پہلے بھٹو دور میں سول سروس کے کان کاٹے جا چکے تھے۔ لیٹرل (Lateral) انٹری کے نام پر اُن لوگوں کو بھی بلند و بالا مناصب دیے گئے جو مقابلے کے امتحان میں فیل ہوچکے تھے۔
‎اگر یہ کہا جائے کہ سب سے زیادہ ظلم فارن سروس کے ساتھ ہوا تو مبالغہ نہ ہوگا۔ ضیاء الحق کے بعد پیپلز پارٹی اور (ن )لیگ نے اس بہتی گنگا میں خوب خوب ہاتھ دھوئے۔ ایک صاحب کو کینیڈا کا سفیر لگایا گیا توکینیڈا والوں نے بتایا کہ یہ تو کینیڈین شہریت کے امیدوار ہیں۔ ایک صاحب! شمالی علاقوں میں‘ مشہورِ عام روایت کے مطابق‘ گندم کی کٹائی میں مصروف تھے کہ بطور سفیر تعیناتی کا پروانہ پہنچ گیا۔ ہمارے دوست جاوید حفیظ برما میں سفیر لگے ہی تھے کہ بادشاہِ وقت کے ایک عزیز کو ‘جن کا فارن سروس تو کیا‘ کسی بھی سروس سے کوئی تعلق نہ تھا‘ وہاں سفیر متعین کردیا گیا۔ شاید کوئی ''تجارتی‘‘ مشن تھا!! جنرل مشرف نے اپنے ایک دوست کو انڈونیشیا میں سفیر لگایا۔ انہوں نے پاکستان کی ملکیت میں جو عمارت تھی اسے غلط طریقے سے بیچنے کی کوشش کی۔ وہاں فارن سروس کے مشتاق رضوی بھی تعینات تھے‘ انہوں نے اس دھاندلی کی اطلاع وزارت ِخارجہ کو دی۔انہیں جنرل مشرف نے اس ''گستاخی‘‘ کی عبرت ناک سزا دی۔ انہیں کئی سال بغیر تعیناتی کے رکھا گیا یہاں تک کہ اسی عالم میں وہ ریٹائر ہوئے اور وفات پا گئے۔ بہت سینئر افسر تھے اور اچھی شہرت کے مالک تھے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں اس سارے معاملے پر بہت شور مچا مگر یہ واویلا بعد از مرگ تھا۔ یہ ایسا ظلم تھا‘ ایسا صریح ظلم تھا جو جنرل پرویزمشرف کے دامن کو کبھی صاف نہ ہونے دے گا۔

‎جنرل پرویز مشرف کا ذکر چھڑا ہے تو اُن کے زمانے کی دوسری دھاندلیاں اور دوست نوازیاں بھی یاد آنے لگی ہیں۔ 
‎موصوف نے پوسٹل سروس پر (جو سی ایس ایس ہی کا گروپ ہے) ایک ریٹائرڈ جنرل صاحب کو بٹھا دیا۔ یوں جو افسران‘ ساری زندگی کی سروس کے آخری موڑپر اس پوسٹ کے حقدار تھے‘ محروم ہوتے گئے۔ ایک اور دوست کو انہوں نے وفاقی محکمۂ تعلیم کا سربراہ بنایا۔ انہیں پانچ بار توسیع ملی۔ جو اصل حقدار تھے وہ جوتیاں چٹخاتے ریٹائر ہوتے گئے۔ اقتدار کے تخت پر انسان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ اُسے یہ گمان‘ یقین کی صورت لگتا ہے کہ یہ طاقت ہمیشہ رہے گی۔ یہاں تک کہ کھڑکی کے راستے موت کا فرشتہ اس کے خوبصورت بیڈ روم میں داخل ہوتا ہے اور کہانی ختم ہو جاتی ہے۔ جنہیں نوازنے کیلئے حقداروں کی بد دعائیں لی تھیں‘ وہ بد دعائیں رنگ لاتی ہیں۔ ''صوابدیدی‘‘ اختیارات کا ڈھونگ ختم ہو جاتا ہے۔ پھر پوچھا جاتا ہے کہ ''صوابدیدی‘‘ اختیارات کو تم نے انصاف سے استعمال کیا تھا یا ذاتی‘ خاندانی‘ گروہی اور سیاسی مفادات کیلئے استعمال کیا تھا؟

‎اور یہ تو ابھی ماضی قریب کا واقعہ ہے کہ ماڈل ٹاؤن 14قتل کیس کے حوالے سے ایک مشہور بیوروکریٹ کو شریف برادران نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں سفیر لگا دیا حالانکہ ان کا فارن سروس سے تعلق تھا نہ تجارت سے۔ بعد میں سپریم کورٹ میں بھی یہ معاملہ زیر بحث آیا۔ سنا ہے کہ شریف برادران مذہبی رجحان رکھتے تھے۔ ان کے فرزندِ گرامی کی تلاوت کی تعریف بھی سننے میں آئی ہے۔ اسی کتابِ مقدس میں کہا گیا ہے کہ امانتیں ان کے سپرد کرو جو اہل ہوں۔ اس کی تفسیر میں مفسرین نے جو احادیث نقل کی ہیں‘ انہیں جان کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور یہ کوئی ایک بار نہیں ہوا‘ ایسی غلط بخشی کی مثالوں سے ساری حکومتوں کے ادواربھرے  پڑے ہیں -صدر یا وزیراعظم اپنے جس اے ڈی سی کو نوازنا چاہتے اسے سول سروس میں داخل کردیتے۔ یہی جنرل ضیاء الحق نے کیا۔ یہی نواز شریف نے کیا۔ 
‎فارن سروس کے علاوہ‘ جو بیرون ملک تعیناتیاں ہیں‘ جیسے کمرشل اتاشی یا قونصلر‘ اُن کے حوالے سے تو دھاندلیوں کا ریکارڈ ہے! بہت سے ڈپٹی کمشنر اور پولیس افسران اس قبیل کی پوسٹوں پر اس لئے لگائے جاتے رہے کہ حکمران ِاعلیٰ کا وہ ایئر پورٹوں پر‘ ڈیوٹی کے طور پر‘ استقبال کرتے تھے یا انہیں رخصت کرتے تھے۔ ان تعیناتیوں کیلئے سیاست دانوں نے خوب خوب سفارشیں کیں۔ ایک سیاسی پارٹی کے معروف رہنما کی‘ جو مرحوم ہو گئے‘ قریبی عزیزہ کو بیرونِ ملک پاکستانی سفارت خانے میں لگایا گیا۔ راولپنڈی کے ایک میئر تھے جو ہر رمضان میں جنرل ضیاء ا لحق کیلئے دعوتِ افطار کا اہتمام کرتے تھے۔ انہیں بھی نوازا گیا۔

‎سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے صاحبزادے کی مثال بھی نمایاں ہے۔ میڈیکل کالج میں ان کا داخلہ کس طرح ہوا‘ پھر وہ ایف آئی اے میں کیسے افسر بنے۔ پھر اے ایس پی کیسے ہو گئے۔ یہ ساری داستان عبرت ناک ہے اور اقربا پروری اور زور آوری کی مثال بھی!

‎مولانا فضل الرحمن کے بھائی کے معاملے میں تحریک انصاف کو عدالت میں ضرور جانا چاہئے۔ وہاں اگر تحریک انصاف یہ بھی پوچھ لے کہ حکمران صرف اپنی دوستی کی بنیاد پر کسی غیر منتخب شخص کو حکومت کے نمایاں شعبے سونپ دے تو اس ضمن میں عدالت کی کیا رائے ہے؟
‎پسِ نوشت: تازہ اطلاعات کے مطابق وفاقی حکومت نے مولانا کے بھائی کوسندھ سے واپس لانے کا فیصلہ کیا ہے ۔

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, July 27, 2020

کیا آپ نے باجرے کی روٹی کھائی ہے؟



یہ درست ہے کہ کھانے پینے کے لحاظ سے مزے بھی بہت تھے! دن کا آغاز ہم دہی‘ پراٹھوں اور انڈوں سے کرتے تھے۔ شہد ہمیشہ موجود رہتا۔ مکھن اور دودھ اپنی گائے بھینسوں کا ہوتا۔ بکری دوہے جانے کے بعد چھوٹے سائز کی بالٹی ہمارے منہ سے لگا دی جاتی۔ دودھ گائوں میں اس لیے نہیں ابالا جاتا تھا کہ پینا ہے‘ بلکہ اس لیے ابالا جاتا تھا کہ رکھنے سے خراب نہ ہو جائے۔ دن کا کھانا عام طور پر مکھن‘ گھی‘ شکر اور لسی سے کھایا جاتا۔ ان چھوٹے قریوں میں قصاب نہیں ہوتے تھے جو ہر روز گوشت مہیا کریں مگر گوشت کی کمی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ فارمی مرغی کا کوئی تصوّر نہ تھا۔ گھر گھر کبوتر خانے تھے۔ ایک روپے میں کبوتر مل جاتا تھا۔ یہ علاقہ شکار کے حوالے سے بہت امیر تھا۔ رشتے کے ایک ماموں افیون کا شوق رکھتے تھے۔ گوشت ان کی خوراک کا لازمی جزو تھا۔ شکار پر جاتے تو ہم ساتھ ہوتے۔ خرگوش اور ہرن کا شکار عام تھا۔ مزے مزے کا‘ پرندوں کا گوشت بھی بہت کھایا۔ بعد میں کچھ معروف افراد نے اس علاقے کو شکار کیلئے خوب خوب استعمال کیا۔ یہ افراد مقامی نہیں تھے مگر مقتدر اور زور آور تھے۔ ان میں سے کچھ اقتدار میں بھی آئے۔ پوری کوشش کی گئی کہ ہرن معدوم ہو جائے۔
تو یہ درست ہے کہ مزے بھی بہت تھے۔ مگر تصویر کا دوسرا رُخ بھی تھا۔ کچھ نہ میسر ہوتا‘ تب بھی بہت کچھ ہوتا۔ ہم لنگری میں پسی ہوئی لال مرچ ڈالتے‘ اس میں لسّی یا دہی مکس کرتے پھر اس کے ساتھ تنور کی چُپڑی ہوئی روٹی مزے سے کھاتے۔ چارپائی کے پائے پر رکھ کر پیاز مکّے سے توڑتے‘ ان سفید براق پھانکوں کے ساتھ روٹی کھاتے۔ رات کی بچی ہوئی دال‘ مٹی کی پلیٹ (صحنکی) میں‘ صبح پراٹھوں کے ساتھ خوشگوار لگتی۔ کبھی شہر سے آتے ہوئے ڈبل روٹی لے آتے تو بزرگ اسے جھاگ یا چھلکا (چھلڑ) کہہ کر مذاق اڑاتے۔ باہر کھیتوں میں ہوتے یا پہاڑ پر جاتے تو انڈا‘ پانی اور برتن کے بغیر ابالنے کا خاص طریقہ آزماتے۔ انڈوں کو ہر طرف سے گیلی مٹی سے لیپ دیتے پھر جھاڑیاں جلاتے اور انہیں آگ کے درمیان رکھ دیتے۔ کچھ ہی دیر میں انڈے بریاں ہو جاتے۔
ہم کھیتوں سے توڑ کر موٹھ کی تازہ پھلیاں کھاتے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سطح مرتفع کے ان علاقوں میں مونگ پھلی کی نقد آور فصل نہیں متعارف ہوئی تھی۔ خربوزے اور تربوز افراط سے ہوتے تھے۔ یہ خربوزے آج کل کے ''شیور‘‘ نما خربوزوں کی طرح ایک ہی رنگ کے نہیں ہوتے تھے۔ یہ ملٹی کلر تھے۔ پیلے‘ سبز اور دوسرے رنگوں کے۔ حدِّ نظر تک خربوزوں اور تربوز کے کھیت ہوتے۔ بیلوں میں چھپے خربوزے ڈھونڈنے کا اپنا لطف تھا۔ خربوزوں کے ساتھ روٹی کھا لیتے اور آم کی پھانکوں کے ساتھ بھی! آپ کے نزدیک کوئی بچہ یا لڑکا بیٹھا ہوا ہے تو اس سے پوچھ کر دیکھیے کہ خربوزے کا درخت کتنا بڑا ہوتا ہے۔ نوے فیصد امکان ہے کہ اسے معلوم نہیں ہوگا کہ یہ درخت نہیں‘ بیل پہ لگتے ہیں۔ گنے کے گٹھوں کے گٹھے آتے‘ انہیں کماد کہا جاتا تھا۔ اب گنڈیریاں بھی خال خال نظر آتی ہیں۔ آپ آخری بار گھر میں کب لائے؟ اور کیا آپ کے بچوں نے انہیں چکھّا؟ ہم ریوڑیاں کھاتے‘ مچھلی نما سنگتری! بتاشے‘ مکھانے اور پھُلیاں کھاتے! چنے کے دانوں پر چینی چڑھی ہوئی ہوتی اور یہ بچوں کا من بھاتا کھاجا تھا! کیا آپ نے بچوں کو نُگری (ٹانگری) کھلائی ہے؟ اور چاول کے مرونڈے؟؟
پھر خربوزے اور تربوز سطحِ مرتفع کے اضلاع سے غائب ہونا شروع ہو گئے۔ مونگ پھلی کی نقد آور فصل آ گئی۔ گوجر خان سب سے پہلے اس تبدیلی سے آشنا ہوا۔ ساٹھ کی دہائی سے پہلے یہاں مونگ پھلی آ چکی تھی۔ ہمارے دوست ملک فتح خان‘ جو زراعت کے معروف ماہر ہیں اور بہت عرصہ آباد (ایجنسی فار بارانی ایریاز ڈیویلپمنٹ) کے سربراہ رہے‘ کبھی کبھی تفصیل بتاتے ہیں۔ ساٹھ کی دہائی میں حکومتی سطح پر تلہ گنگ‘ چکوال‘ فتح جنگ‘ پنڈی گھیب اور اٹک کے علاقوں میں کسانوں کی ذہن سازی شروع ہوئی۔ محکمۂ زراعت کے لوگ گائوں گائوں مونگ پھلی بونے کی ترغیب دیتے۔ دیواروں پر جابجا لکھ دیا گیا ''مونگ پھلی سونے کی ڈلی‘‘! ساٹھ کی دہائی کے اختتام اور سترکی دہائی کے آغاز تک مونگ پھلی پورے خطے پر چھا چکی تھی! 
ملک فتح خان صاحب کو ہم لوگ آمادہ کرتے رہتے ہیں کہ اپنی تفصیلی یادداشتیں ترتیب دیں تا کہ آج کی نسل کو معلوم ہو کہ کیسے یہ بارانی علاقے جو گندم ‘ کیکر اور بیر کے سوا کچھ نہ اُگاتے تھے‘ آج مونگ پھلی کے علاوہ مالٹے کے باغات 
سے بھر گئے ہیں۔ انگور کے کھیت بھی دکھائی دیتے ہیں۔ یہ علاقہ بادام کی کاشت کے لیے بھی موزوں قرار دیا گیا ہے!

گزشتہ چالیس پچاس برس میں جو تبدیلیاں معاشرت میں آئی ہیں‘ اتنی پچھلے دو تین سو سالوں میں نہیں آئی تھیں۔ نیشنل کالج آف آرٹس لاہور 1875ء میں بنا۔ اُس وقت اس کا نام میو سکول آف آرٹس تھا۔ جان لاک وُڈ کپلنگ جو اس کا پہلا پرنسپل تھا شہرۂ آفاق ادیب رڈیارڈ کپلنگ کا باپ تھا۔ این سی اے کی کچھ پرانی تصاویر‘ بیسویں صدی کے اوائل کی۔۔۔۔۔ کہیں کہیں نظر پڑتی ہیں۔ طلبہ نے پگڑیاں باندھی ہوئی ہیں جن کے لمبے شملے ان کی گردن سے کمر تک آتے ہیں۔ یہ پگڑی یا دستار‘ جو بھی کہہ لیجیے‘ آج سے پچاس سال پہلے بھی عام نظر آتی تھی اور کئی سو سال سے چلی آ ر ہی تھی‘ مگر گزشتہ نصف صدی میں جو تغیرات آئے‘ وہ سینکڑوں سال کی ایسی کئی روایات کو بہا لے گئے۔ مٹی کے برتن گائوں سے بھی غائب ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ لگتا ہے آئندہ برسوں میں گائوں کے بچوں کو بھی نہیں معلوم ہو گا کہ تہمد کیا ہوتا ہے۔ آج اگر بچوں کو کہا جاتا ہے کہ ناشتے میں پراٹھا مکھن اور شہد یا شکر کھائو اور دودھ کا گلاس پیو تو حیرت سے پورا منہ کھول کر ایسے دیکھتے ہیں جیسے انہیں سر میں تیل ڈالنے اور آنکھوں میں سرمہ لگانے کا کہہ دیا ہے!
یہ تبدیلی ہر رُخ پر آئی ہے۔ پہلے ایک انتہا تھی کہ شادی کے بعد ماں باپ کے سامنے میاں بیوی ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اُن کی موجودگی میں باپ اپنے بچوں کو اٹھاتا تک نہیں تھا! ہمارے ایک بزرگ بتایا کرتے تھے کہ ان کی شادی ہوئی تو بیوی اپنے سسرال آ گئیں۔ یہ ملازمت کیلئے گھر سے دور تھے۔ والدین کو لکھا کہ ہوٹل سے کھانا کھانا پڑتا ہے جو تکلیف دہ ہے۔ مطلب ان کا یہ تھا کہ ان کی بیوی کو ان کے پاس بھیج دیا جائے مگر والدین نے بہن کو بھیج دیا کہ بھائی کو روٹیاں پکا کر دے! ہماری جو بزرگ خواتین‘ تقسیمِ ہند سے پہلے لڑکپن میں تھیں انہیں پڑھنا سکھایا جاتا تھا مگر لکھنے سے ناواقف رکھا جاتا تھا‘ سوئے ظن یہ تھا کہ لکھنا سیکھ گئیں تو پڑوسیوں کو محبت نامے لکھتی رہیں گی! یہ سب کچھ انتہا پسندانہ تھا اور غیر فطری! مگر توازن آج بھی نہیں! آج پنڈولم دوسری طرف جا لگا ہے۔ آج بزرگوں کے سامنے دلہن‘ میاں کا نام لے کر تحکمانہ لہجے میں بات کرتی ہے۔ رہی سہی کسر ٹیلی ویژن ڈراموں نے پوری کر دی ہے! وہ وقت بھی تھا جب خاندان کا بڑا‘ نومولود بچوں کے نام رکھتا تھا۔ آج بڑوں کو صرف مطلع کیا جاتا ہے کہ یہ نام رکھا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بے معنی ناموں کے ڈھیر لگ گئے ہیں۔ مطلب پوچھیں تو نوے فیصد ناموں کے مطلب اس قبیل کے ہوں گے۔ جنت کی چڑیا۔ جنت کا پھول۔ ماشاء اللہ کچھ نام تو ایسے بھی رکھے جا رہے ہیں کہ دنیا کی کسی زبان میں ان کا کوئی معنی نہیں! مگر پوچھیے تو فارسی ‘ عربی تو کیا اردو سے بھی نابلد پایا اور ماما فخر سے آپ کے علم میں اضافہ کریں گے کہ جنت میں ہُد ہُد کے پھڑپھڑاتے پروں سے جو آواز نکلتی ہے‘ اسے سن کر چڑیا ایک مخصوص لے میں گیت گاتی ہے‘ اس نام کا مطلب وہی گیت ہے۔ 

مجھے اجازت دیجیے‘ میں نے مکئی کی روٹی پکوائی ہے۔ ٹھنڈی ہو گئی تو مکھن اس پر رکھنے سے پگھلے گا نہیں! آپ بس یہ بتا دیجیے کیا آپ نے باجرے یا جوار کی روٹی کھائی ہے؟

Thursday, July 23, 2020

تارکینِ وطن ہمارا اثاثہ ہیں

نہیں! ہرگز نہیں! دُہری شہریت رکھنے والوں سے ہم وطن کے اندر رہنے والوں کو کوئی کد نہیں، کوئی پرخاش نہیں! بلکہ معاملہ الٹ ہے! ہم تو ان کے مدّاح ہیں!
تارکین وطن، خواہ دُہری شہریت والے ہیں یا سنگل شہریت رکھتے ہیں پاکستان اور اہلِ پاکستان کی جان ہیں! ان کی حب الوطنی میں کیا شک ہو سکتا ہے، ان کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ان کی وفاداری پاکستان کے ساتھ مسلمہ ہے اور ہمارا اثاثہ ہے! وہ ہمیں رقوم بھیجتے ہیں۔ دیارِ غیر میں جو پاکستانی جائے، اُسے سہارا دیتے ہیں۔ وہ اردو کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ سڈنی میں ارشد سعید کے ہاں قیام تھا۔ ان کے صاحبزادے بلال کے کمرے میں گیا۔ پوری دیوار پر پاکستان کا پرچم بنا ہوا تھا۔ کرکٹ کا میچ ہو رہا ہو تو بلال کی جان پر بنی ہوتی ہے کہ پاکستان ہار نہ جائے۔ اور یہ وہ بلال ہے جس کی پیدائش پاکستان کی ہے نہ اٹھان! تو پھر ان کی کیا کیفیت ہو گی جو یہاں پیدا ہونے کے بعد بیرون ملک گئے! میلبورن میں مقیم راولپنڈی میڈیکل کالج کے سابق طلبہ نے اپنی مادرِ درسگاہ کے لیے آلات اور سامان بھیجا۔ دل میں وطن کے لیے سوز نہ ہو تو یہ سب کیسے ہو سکتا ہے؟ اس کالم نگار نے ایک چودہ اگست کو نیویارک کی شاہراہوں پر پاکستانیوں کا جشن دیکھا۔ کیا منظر تھا اور کیا سماں تھا! یہ تارکین وطن ہی ہیں جو پاکستانی سفارت خانوں کی سرد مہری، بے نیازی اور نا اہلی پر بھی (اِلا ماشا اللہ) خاموش رہتے ہیں۔ صبر کرتے ہیں کہ ملک کی بدنامی نہ ہو!
ان کے جسم بیرون ملک مگر دل آخری سانس تک پاکستان میں ر ہتے ہیں۔ پاکستان پر جب بھی افتاد پڑی، جنگ تھی یا سیلاب، تارکین وطن بے چین ہوئے۔ ایک ایک پل کی خبر رکھی۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ پاکستان کے متعلق ہم پاکستان میں رہنے والوں کی نسبت، وہ زیادہ باخبر اور اپ ڈیٹ رہتے ہیں! بے شمار گمنام تارکینِ وطن، پاکستان میں فلاحی کام سرانجام دے رہے ہیں۔ تعلیمی ادارے چلا رہے ہیں۔ ہسپتال بنا رہے ہیں۔ طالب علموں کی کفالت کر رہے ہیں! اس ضمن میں دو آراء ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہو سکتا! تارکین وطن، پاکستان ہی کا حصہ ہیں۔ ہمارے محسن ہیں۔ ہمارے قالب کا جزو ہیں۔ اپنے اپنے دیار میں، جہاں جہاں بھی وہ رہ رہے ہیں، وطن کی توسیع ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہر تارکِ وطن، اپنی جگہ پر پاکستان کا سفیر ہے۔ وہ کسی صورت بھی پاکستان کے مفاد پر سمجھوتہ نہیں کر سکتا نہ کرتا ہے!
یہاں پاکستان میں جو مسئلہ اٹھا، اُس پر تارکین وطن نے تشویش کا اظہار کیا ہے! ان کی ای میلز آئی ہیں! ٹیلی فون آئے ہیں! کہ دہری شہریت والوں پر انگلیاں کیوں اٹھائی جا رہی ہیں! اُن کی تشویش بجا! اُن کا اضطراب سر آنکھوں پر! مسئلے کی نوعیت، تاہم، مختلف ہے! بالکل مختلف! جب حکومت پاکستان کی کابینہ ڈویژن نے اعلان کیا کہ فلاں فلاں معاونِ خصوصی امریکی شہری ہیں یا دُہری شہریت رکھتے ہیں تو اس پر دو حوالوں سے اعتراض اٹھے!
پہلا اعتراض یہ اٹھا کہ وزیر اعظم، جب اقتدار میں ابھی نہیں آئے تھے، اُس وقت ان کا اِس ضمن میں کیا مؤقف تھا؟ اعتراض تارکین وطن پر نہیں تھا نہ کسی نے یہ کہا کہ دُہری شہریت رکھنا جرم ہے! اعتراض یہ تھا کہ دہری شہریت والوں پر، ایک سے زیادہ پاسپورٹ رکھنے والوں پر، اعتراض خود عمران خان صاحب نے کیا تھا۔ گزشتہ چار پانچ دن سے جو وڈیو کلپ لاکھوں لوگ دیکھ اور سُن رہے ہیں، اُن پر تحریک انصاف کے سربراہ یہ الفاظ کہتے صاف سنائی دیتے ہیں ''آئین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ دُہری شہریت کو پارلیمنٹ میں بھی نہیں آنا چاہیے اور وزارتیں بھی نہیں ملنی چاہئیں‘‘۔
ایک اور بیان میں وہ اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ کہہ رہے ہیں ''جو پاکستان میں الیکشن لڑنا چاہتا ہے، اسمبلی میں آ کر قانون سازی کرنا چاہتا ہے، بڑے بڑے عہدے لینا چاہتا ہے، وہ واحد پاکستانی پاسپورٹ ہولڈر کے علاوہ کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہیے‘‘۔
جب انہوں نے یہ برملا اعلان کیا تھا کہ ''بڑے بڑے عہدے‘‘ صرف پاکستانی پاسپورٹ ہولڈر کو ملیں گے، تو پھر انہیں احتیاط کرنی چاہیے تھی۔ ہوا یہ کہ اقتدار میں آ کر اپنے اعلان کو پسِ پشت ڈالا اور جن کے پاس برطانیہ، امریکہ، کینیڈا اور سنگاپور کے پاسپورٹ تھے، انہیں ''بڑے بڑے عہدے‘‘ دیئے۔ کسی کو پٹرولیم کا مشیر لگایا، کسی کو توانائی کا قلم دان سونپا اور کسی کو آئی ٹی کا مدارالہام بنا دیا۔ یہ وضاحت اس لیے کی جا رہی ہے کہ یہ قول اور فعل کا تضاد تھا جس پر ہنگامہ برپا ہوا۔ حاشا و کلّا، اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ تارکین یا دُہری نیشنیلٹی رکھنے والوں کے بارے میں، مجموعی طور پر، قوم کی رائے منفی ہے! دوسرا اعتراض اس سے بھی زیادہ جینوئن یہ اٹھا کہ دُہری قومیت رکھنے والے جن حضرات کو یہ بڑے بڑے مناصب سونپے گئے، وہ میرٹ پر منتخب نہیں کیے گئے۔ اکثریت دوستوں کی ہے! اس دوست نوازی پر، اس کرونی ازم پر لوگوں کو دُکھ ہے! تارکین وطن میں بڑے بڑے لائق لوگ ہیں۔ اپنے اپنے فیلڈ کے ماہر! کسی ترتیب، کسی نظام، کسی پروسیس کے ذریعے اہلِ کمال کو تلاش کرکے، میرٹ پر، یہ مناصب تفویض کیے جاتے تو کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔
قول اور فعل کا ایک اور تکلیف دہ تضاد ٹیلی ویژن کے لیے اُس ''فیس‘‘ کے حوالے سے بھی ریکارڈ پر ہے جو پہلے 35 روپے پر مشتمل تھا، اب سو روپے کیا جا رہا ہے اور فی الحال معاملے کو ایک ہفتے کیلئے مؤخر کیا گیا ہے۔ حکومت سنبھالنے سے پہلے وزیراعظم نے اس ناروا ٹیکس کی بھرپور طریقے سے مذمت کی تھی۔ ان کے الفاظ یہ تھے ''پی ٹی وی جو ہمارے پیسے پر چلتا ہے، آپ کو پتہ ہے پاکستانیو! ہر مہینے آپ کے بل سے پی ٹی وی کے لیے تیس یا چالیس روپے کٹتا ہے، 35 روپے کٹتا ہے اور ہر سال دس ارب روپیہ پی ٹی وی کو آپ دیتے ہیں۔ ہم دیتے ہیں۔ میں پی ٹی وی سے پوچھتا ہوں اور پی ٹی وی کا جو ایم ڈی ہے اس سے پوچھتا ہوں کہ آپ کو شرم نہیں آتی کہ آپ نون لیگ اور نواز شریف کے پُتلے بنے ہوئے ہیں۔ ان کو پروجیکٹ کر رہے ہیں، آپ کو شرم نہیں آتی۔ پیسہ ہمارا ہے...‘‘۔
یہ عوام کے دل کی آواز تھی۔ عوام توقع کر رہے تھے کہ اس برملا، دو ٹوک اور بھرپور مذمت کے بعد، جب خان صاحب اقتدار میں آئیں گے تو یہ ٹیکس نما بھتہ ختم کر دیں گے۔ چلیے، پہلے یا دوسرے یا تیسرے مہینے نہیں تو ایک سال یا دو سال میں اسے ہٹا دیں گے‘ مگر ختم ہونے کے بجائے اسے بڑھا کر سو روپیہ ماہانہ کر دیا گیا۔ پھر جب سوشل میڈیا پر احتجاج کا طوفان اٹھا اور کابینہ میں چند وزرا نے عوام کا اضطراب پہنچایا تو معاملے کو ختم نہیں کیا گیا، صرف مؤخر کیا گیا ہے۔ یعنی تلوار ابھی عوام کے سر پر لٹکی ہوئی ہے۔ جب یہ ٹیکس 35 روپے تھا تو خود وزیراعظم صاحب کے بقول کل رقم دس ارب بن رہی تھی۔ اس حساب سے اگر یہ ماہانہ سو روپے ہو جائے تو کل رقم جو عوام پی ٹی وی کے منہ میں ڈالیں گے وہ اٹھائیس ارب کے لگ بھگ ہو جائے گی!!
پاکستانی عوام یہ چاہتے ہیں کہ جو جو جوہرِ قابل ہمارا بیرون ملک موجود ہے، اسے سنجیدگی سے تلاش کیا جائے! پھر ایک شفاف پروسیس ہو، مقابلہ ہو، تمام خواہش مند تارکین وطن کا انصاف کے ساتھ غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے اور بہترین اشخاص کو چنا جائے، تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ فلاں دوستی کی سیڑھی پر چڑھ کر معاون خصوصی بنا ہے اور فلاں کسی اور زینے کے ذریعے!
دُہری شہریت رکھنے والوں اور تارکین وطن سے زیادہ میرٹ کی اہمیت کون جان سکتا ہے! یہ میرٹ ہے نہ کہ دوستی جس کی بنیاد پر پاکستانی، دوسرے ملکوں میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں! ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہو!

Tuesday, July 21, 2020

ایک انوکھی قسم کی امپورٹ

یہ ''قومی انگریزی لغت‘‘ ہے! مقتدرہ قومی زبان (حکومت پاکستان) نے اسے شائع کیا ہے۔ ایڈیشن چھٹا ہے سالِ اشاعت اس ایڈیشن کا 2006 ہے۔ہم نے اس مستند لغت میں دو انگریزی الفاظ کے معانی دیکھنے ہیں۔ پہلا لفظ 
Renounce
ہے۔ حکومت پاکستان کی چھاپی ہوئی اس لغت میں اس لفظ کا معنی ہے: لاتعلق ہونا‘ دست بردار ہونا‘ چھوڑ دینا یا ترک کر دینا‘ رد کر دینا‘ پھینک دینا یا نا منظور‘ مسترد کر دینا‘طلاق دے دینا‘ انکار کرنا(صفحہ نمبر 1671) ۔دوسرا لفظ جس کا معنی دیکھنا ہے 
Abjure
ہے۔ اس کا معنی لکھا ہے: حلفاً دست بردار یا منکر ہونا‘ قسم کھا کر انکار کرنا‘ حلفاً مسترد کرنا‘ باضابطہ انکار کرنا‘ اعترافِ خطا کرنا‘ توبہ کرنا ترک کرنا (صفحہ 4)۔یہ دونوں الفاظ اس لئے اہم ہیں کہ جب کوئی شخص امریکی شہریت لیتا ہے تو وہ ایک حلف اٹھاتا ہے‘ بائبل پر یا قرآنِ پاک پر ہاتھ رکھ کر۔ اپنے اپنے مذہب کے مطابق۔قسم کھا کر مندرجہ ذیل اعلان کرتا ہے:
I hereby declare, on oath, that I absolutely and entirely renounce and abjure all allegiance and fidelity to any foreign prince, potentate, state, or sovereignty, of whom or which I have heretofore been a subject or citizen.
یعنی ''میں حلف اٹھا کر اعلان کرتا ہوں کہ میں اُس تمام اطاعت اور وفاداری کو جو مجھے اس سے پہلے کسی بھی غیر ملکی شہزادے‘ حکمران‘ ریاست یا حاکمیت کے ساتھ‘ رعایا یا شہری کی حیثیت سے رہی ہے‘ کاملاً‘ مکمل اور قطعی طور پر ترک اور مسترد کرتا ہوں اور حلفاً اس سے دستبردار ہوتا ہوں‘‘۔اس پہلے اعلان کے بعد یہ نیا امریکی شہری‘ یہ وعدہ بھی کرتا ہے کہ وہ امریکہ کے آئین اور قوانین کی مدد اور دفاع کرے گا۔ آئین اور قوانین کا وفادارر ہے گا۔ جب قانون تقاضا کرے گا تو امریکہ کی طرف سے ہتھیار اٹھائے گا‘ وغیرہ!
آپ کا کیا خیال ہے کہ جب کوئی شخص امریکی شہریت کا حلف اٹھاتا ہے تو کیا وہ کسی دوسرے ملک کا وفادار یا شہری رہ سکتا ہے؟ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ وہ اپنے پرانے ملک کے ساتھ ہر قسم کی وفاداری اور تعلق کو 
Renounce
کرتا ہے اور 
Abjure
کرتا ہے اور ان دونوں الفاظ کے معنی آپ لغت میں دیکھ چکے ہیں۔امریکی شہریت حاصل کرنے کے بعد ''دہری‘‘ قومیت کا دعویٰ دھوکے اور فریب کے سوا کچھ نہیں! امریکہ تو حلف کی ابتدا ہی میں پہلی قومیت کو ختم کرا دیتا ہے! اب اس ستم ظریفی‘ بلکہ ظلم پر غور کیجئے کہ پاکستان میں جو صاحب ''نیشنل سکیورٹی‘‘ کے معاون خصوصی ہیں وہ امریکی شہری ہیں اور امریکی شہریت کا حلف اٹھاتے ہوئے وہ پہلی (یعنی پاکستان کے ساتھ) وفاداری اور اطاعت کو قسم اٹھا کر مسترد کر چکے ہیں! پٹرولیم کے ضمن میں جن صاحب کو معاون خصوصی مقرر کیا گیا ہے وہ بھی امریکی شہری ہیں اور یہی حلف اٹھا چکے ہیں جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے۔ پاور ڈویژن کے معاون خصوصی بھی امریکی شہری ہیں‘ ان تمام صاحبان نے قسم اٹھا کر اعلان کیا ہے کہ پہلے انہیں جس ریاست کے ساتھ (یعنی پاکستان کے ساتھ) رعایا یا شہری کے طور پر اطاعت اور وفاداری تھی‘ اسے وہ ترک اور مسترد کرتے ہیں اور حلفاً اس سے دستبردار ہوتے ہیں!
بھارت کا آئین دہری شہریت کی اجازت نہیں دیتا۔ جب ایک بھارتی‘ دوسرے ملک کا پاسپورٹ حاصل کر لیتا ہے تو اس کا بھارتی پاسپورٹ ختم ہو جاتا ہے یعنی بیک وقت دو پاسپورٹوں کی اجازت نہیں! ایسے ''غیر ملکی‘‘ بھارتیوں کو ''اوورسیز سٹیزن آف انڈیا‘‘ یعنی OCI کا سٹیٹس دیا جاتا ہے‘ مگر یاد رہے کہ OCI بھارتی شہریت کا متبادل نہیں نہ ہی اس کا مطلب ویزا ہے۔ بھارت میں آنے کیلئے ان سابق بھارتیوں کو ویزا الگ لینا ہوتا ہے یا اب ایسے OCIبھی جاری ہو رہے ہیں جن پر ویزا کی مُہر الگ سے لگی ہوتی ہے۔ ایک بھارتی جب کسی دوسرے ملک کا پاسپورٹ حاصل کرتا ہے تو اس کی بھارتی شہریت ختم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح جب ایک غیر ملکی کو بھارتی شہریت ملتی ہے تو اس کی پہلی شہریت‘ جس ملک کی بھی ہو‘ ختم ہو جاتی ہے‘ بالکل اسی طرح جیسے امریکہ‘ پہلی شہریت کی اجازت نہیں دیتا!
صورتحال دلچسپ ہے اور عبرت ناک بھی۔ کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں جن کا جواب نہیں معلوم کون دے گا!اوّل: اپوزیشن کا مؤقف ہے کہ وزیراعظم نے ماضی میں کہا ہے کہ دہری شہریت والے پارلیمان میں نہیں بیٹھ سکتے۔ کیا یہ درست ہے؟ اگر درست ہے تو کیا دہری شہریت والے کابینہ میں بیٹھ سکتے ہیں؟دوم: کہا گیا ہے کہ غیر منتخب حضرات صرف دعوت پر کابینہ اجلاس میں شریک ہوتے ہیں اور ہر مشیر اور معاون خصوصی کو ہر بار مدعو نہیں کیا جاتا۔ تو کیا یہ کہہ کر اقرار نہیں کیا جا رہا کہ غیر منتخب حضرات جن میں دوسرے ملکوں کے شہری بھی ہیں‘ کابینہ میں۔ دعوت ہی پر سہی‘ شریک تو ہوتے ہیں؟ سوم: حکومت کی طرف سے وضاحت کی جا رہی ہے کہ مشیر یا معاون خصوصی کا کام صرف مشورہ دینا ہے‘ انہیں کسی انتظامی فیصلے پر دستخط کرنے کا اختیار نہیں! بجا فرمایا! اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ وہ حتمی ذمہ داری سے مبّرا ہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ سرکاری رازوں‘ دفاعی معاملات کی تفصیلات اور اہم اطلاعات تک ان غیر ملکی‘ غیر منتخب‘ افراد کو رسائی تو یقینا حاصل ہوتی ہے‘ جبھی تو وہ مشورہ دینے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں! کیا یہ بات باعثِ اطمینان ہے؟چہارم: حکومت پاکستان کابینہ ڈویژن کے اعلان کی رُو سے قومی سلامتی کے مشیر امریکی شہری ہیں‘ قومی سلامتی کے مشیر نے وضاحت کی ہے کہ ان کے پاس پاکستان کے علاوہ کسی ملک کی شہریت نہیں اور یہ کہ غلط افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں! لیکن اگر یہ ''افواہ‘‘ ہے تو یہ تو حکومت (کابینہ ڈویژن) نے خود پھیلائی ہے۔ اس کا سدِباب کیسے ہو؟پنجم: یہ کہنا کہ اپوزیشن لیڈروں کے پاس بھی تو اقامہ تھا‘ کوئی منطقی بات نہیں! اقامہ رکھنا غلط حرکت تھی! اگر اقامہ رکھنا مستحسن نہیں تھا تو غیر ملکی شہریت رکھ کر ملکی معاملات چلانا قابلِ قبول کیسے ہو سکتا ہے؟ اقامہ کا الزام دینا درست ہو سکتا ہے‘ مگر اس سے یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کے پاس غیر ملکی شہریت نہیں؟
مسئلے کا ایک پہلو اقامہ‘ ورک پرمٹ‘ گرین کارڈ اور پرماننٹ ریزیڈنسی کی اصطلاحات بھی ہیں! اقامہ اُس ورک پرمٹ کا نام ہے جو مشرق ِوسطیٰ کے ممالک جاری کرتے ہیں۔ اسے مغربی ملکوں میں ورک پرمٹ یا گرین کارڈ کہا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ سب ایک ہی نوعیت کی دستاویزات ہیں! رہا گرین کارڈ تو ہم سب جانتے ہیں کہ یہ امریکی شہریت کی طرف پہلا قدم ہے۔ ایک اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ گرین کارڈ رکھنے والا امریکی مسلح افواج میں بھی شامل ہو سکتا ہے گویا عملاً وہ امریکی شہری ہی ہوا۔
اپوزیشن کو چاہیے کہ اس ضمن میں الزام در الزام کا کھیل کھیلنے کے بجائے قانون سازی کی طرف توجہ دے۔ اگر غیر ملکی شہریوں کو مشیر یا سپیشل اسسٹنٹ بنانا مستحسن امر نہیں تو اس ضمن میں کلیئر اور صاف قانون بننا چاہئے۔ جس میں تمام کیٹیگریز (اقامہ‘ گرین کارڈ‘ ورک پرمٹ پرماننٹ ریزیڈنسی وغیرہ) کے متعلق پارلیمنٹ کے واضح فیصلے ہونے چاہئیں۔ اس وقت حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جو مناظرہ چل رہا ہے اس کا عملی نتیجہ سوائے تلخی کے کچھ نہیں نکلے گا! رہے عوام تو وہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ اگر کوئی الزام لگا رہا ہے یا دفاع کر رہا ہے تو یہ نہ سمجھے کہ عوام متاثر ہوجائیں گے! ان کی اپنی رائے بن رہی ہے ‘جس کا وہ اپنے وقت پر اظہار کریں گے۔ اقاموں والے بھگت رہے ہیں۔ شہریتوں والے بھی بھگتیں گے۔

Monday, July 20, 2020

اصل سے نقل تک

جس محترم شخصیت کو جناب ِوزیراعظم نے ملک کے تین چوتھائی حصے کا والی تعینات فرمایا ہے‘ کیا وہ اسے اپنے ہسپتال یا اپنی یونیورسٹی کا چیف ایڈمنسٹریٹر لگانا پسند فرمائیں گے؟ کیا وہ اجازت مرحمت فرمائیں گے کہ کوئی ہسپتال ان کی ذاتی دولت سے تعمیر ہو اور اس پر تختی ان کے کسی ملازم کے باپ کی لگا دی جائے؟ نہیں معلوم ان بنیادی اور اہم سوالوں کے جواب ملیں گے یا نہیں؟ مگر مناسب سمجھا کہ بی بی باربرا ٹک مین سے پوچھ لیں۔
باربرا 1912 میں امریکہ میں پیدا ہوئی۔ والد امیر کبیر شخص تھا۔ باربرا کا نانا صدر وُڈ رو ولسن کے عہد میں سلطنتِ عثمانیہ میں امریکی سفیر تھا۔ باربرا نے دنیا کے بہت سے بڑے بڑے ممالک دیکھے۔ بہت سی کتابیں لکھیں۔ چین‘ ہسپانیہ‘ میکسیکو‘ عالمی جنگیں۔ سب اس کا موضوع رہے۔ مگر ایک طلسماتی کام جو اُس نے کیا وہ اس کی تصنیف ''مارچ آف فولی‘‘ ہے۔ یعنی حماقتوں کا مارچ! جو اصول باربرا نے اس کتاب میں بتایا وہ قدم قدم پر درست ثابت ہوتا ہے۔ خاص طور پر ہمارے جیسے ملکوں میں!
تاریخی واقعات سے باربرا اس نتیجے پر پہنچی کہ فرد اپنی زندگی میں جو فیصلے کرتا ہے‘ وہ عقل مندی کی بنیاد پر کرتا ہے اور حکمت اور دانائی کو پوری طرح بروئے کار لا کر کرتا ہے۔ کاروبار کون سا کرنا ہے؟ کہاں کرنا ہے؟ مکان کہاں بنانا ہے؟ کس ملک میں آباد ہونا ہے؟ بچوں کی شادیاں کہاں کہاں‘ کس کس خاندان میں کرنی ہیں۔ ملازم کس کو رکھنا ہے؟ مزارعوں‘ ہاریوں کے ساتھ کیسے پیش آنا ہے؟ یہ سارے فیصلے خوب سوچ سمجھ کر دانائی سے کیے جاتے ہیں۔ مگر یہی فرد‘ یا افراد‘ جب حکومت میں آتے ہیں تو ان کے فیصلوں سے حکمت‘ دانائی‘ عقل مندی‘ سب کچھ رخصت ہو جاتا ہے۔ اس نظریے کو ثابت کرنے کیلئے باربرا تاریخ سے کئی مثالیں دیتی ہے۔ مثلاً امریکہ کی ویت نام پالیسی حماقتوں سے بھری ہوئی تھی۔ اس سے پہلے امریکہ جب برطانوی کالونی تھا تو برطانیہ نے پے در پے حماقتیں کیں اور یہ کالونی اس کے ہاتھوں سے نکل کر ''ریاست ہائے متحدہ امریکہ‘‘ میں تبدیل ہو گئی۔ دلچسپ ترین مثال‘ حکومتی حماقت کی جو باربرا پیش کرتی ہے وہ لکڑی کے گھوڑے کی ہے! یہ کہانی ہم سب نے سنی ہوئی ہے۔ یونانی جب ٹرائے کا شہر‘ طویل محاصرے کے باوجود فتح کرنے میں ناکام ہوئے تو انہوں نے چال چلی۔ لکڑی کا بنا ہوا بڑاسا گھوڑا‘ فصیل کے باہر چھوڑ کر‘ بظاہر پسپا ہو گئے۔ شہر پر ''سِٹی کونسل‘‘ کی حکومت تھی۔ اس حکومت نے فیصلہ کیا کہ حملہ آور بھاگ گئے‘ اور یہ گھوڑا مالِ غنیمت ہے‘ اسے شہر کے اندر لے جائیں۔ لوگوں نے بہت منع کیا‘ بہت سمجھایا کہ یہ دشمن کی چال لگتی ہے۔ اسے فصیل کے اندر نہ لائو۔ مگر حکومت نہ مانی۔ اسے اندر لے آئی۔ رات کو اس میں چھپے ہوئے یونان باہر نکلے۔فصیل کے دروازے کھول دیئے اور یوں جو شہر دس سال کی فوج کشی سے فتح نہ ہو سکا‘ ایک رات ہی میں مغلوب ہو گیا۔
ہمیں دنیا سے کیا غرض! اپنا گھر سنبھال لیں تو غنیمت ہے۔ اپنے وطن سے ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں جن سے باربرا کا نظریہ درست ثابت ہوتا ہے۔ غور کیجیے‘ شریف خاندان بنیادی طور پر لوہے کو ڈیل کرتے تھے۔ اسی فن سے ان کے کاروبار کا آغاز ہوا۔ بے پناہ ترقی کی۔ بھٹی سے کام شروع کیا اور کارخانوں کے انبار لگا دیئے۔ مگر سالہا سال کی حکومت میں ایک فیصلہ بھی ایسا نہ کیا کہ ملک کی واحد سٹیل مل بھی اسی طرح ترقی کر جاتی جیسے ان کے ذاتی کاروبار نے کی۔
قومی ایئر لائن کی مثال لے لیجیے۔ شاہدخاقان عباسی صاحب کی ذاتی ایئر لائن ترقی کرتی گئی۔ وہ کئی بار حکومت میں آئے مگر کوئی نسخۂ کیمیا قومی ایئر لائن پر نہ آزما سکے۔ ایک ایئر لائن مسلسل نیچے سے اوپر جاتی رہی۔ دوسری مسلسل اوپر سے نیچے آتی رہی!
جو بھی حکمران آیا‘ اس کے اثاثے بڑھتے رہے۔ خاندان امیر سے امیر تر ہوتے گئے۔ ملک غریب سے غریب تر ہوتا گیا۔ حکمران خاندانوں کے اثاثے بیرونِ ملک بڑھتے رہے‘ ملک مقروض ہوتا گیا۔
حکومت نے سب سے بڑا صوبہ ایک ایسے شخص کے سپرد کر دیا جس کا کوئی تجربہ تھا نہ ایکسپوژر! تحصیل ناظم سے براہ راست وزارت علیا! کیا ایسے فرد کو وہ اپنے ہسپتال یا اپنی یونیورسٹی کا انچارج بناتے؟ اس سوال کا جواب ہمیں بھی معلوم ہے اور آپ کو بھی!! وزیراعظم نے دن رات محنت کر کے ہسپتال بنایا۔ کسی ملازم کے والد کے نام پر نہیں‘ اپنی والدہ محترمہ کے نام پر نام رکھا۔ یہ ان کا حق تھا۔ سرکاری رقم سے جو ہسپتال بنا‘ اس پر وزیراعلیٰ کے والد کے نام کا کیا حق تھا؟ قوم کا باپ تو قائداعظم تھے! ان کے نام پر رکھتے! مادرِ ملت کے نام پر رکھ لیتے۔ افسوس! صد افسوس!
دوسروں پر یہی تنقید ہوتی رہی! خود آئے تو یہی کچھ کیا۔ بہت سوں کے نزدیک یہ کوئی بڑا ایشو نہیں! مگر یہ بہت بڑا ایشو ہے! یہ علامتیں ہیں‘ جن سے سفر کی سمت کا علم ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ صوبائی اسمبلی نے اس کے لیے قرارداد پیش اور پاس کی! خوشامد کرنے والوں کے منہ میں مٹی ڈالی جاتی ہے‘ ان کی قراردادیں قبول نہیں کی جاتیں! ایک شخص نے امیرالمومنین عمر فاروقؓ کی خوشامد کی۔ آپ جھُکے‘ مٹھی میں مٹی اٹھائی اور اس کے منہ میں ڈال دی۔ مگر وہ اصل ریاستِ مدینہ تھی! یہاں صرف ریاست مدینہ کا نام لیا جاتا ہے! نام اور کام میں‘ اصل اور نقل میں‘ فرق ہوتا ہے!؎
بھٹک رہے ہیں مثالوں میں اب جو خاک بسر
تو اس لیے کہ ہمیں اصل سے جدائی ہوئی
رویوں میں یہ فرق کیسے آ جاتا ہے؟ اپنا پیسہ ہو تو ایک ایک پائی سوچ کر خرچ کی جاتی ہے۔ ریاست کا خزانہ لٹا دیا جاتا ہے! ریاستِ مدینہ کا اولین اصول یہ تھا کہ سرکاری پیسے کو اسی طرح سوچ سمجھ کر‘ سینت سینت کر‘ استعمال کرو جس طرح اپنا کرتے ہو! اسی پر عمل ہوتا رہا۔ خلیفہ بیت المال سے اپنی گزر بسر کے لیے اتنا ہی لیتے جتنا کوئی مزدور! یہ اصول خلیفۂ دوم نے وضع کیا کہ صوبے کا مالیات کا سربراہ‘ صوبے کے گورنر کے تحت نہیں ہوگا۔ وہ براہِ راست خلیفہ کو رپورٹ کرے گا۔ امیر المومنین علی مرتضی کرم اللہ وجہہ نے یہی اصول برقراررکھا۔ ایک صوبے کا گورنر ان کا قریبی عزیز تھا۔ اس نے صوبے کے سرکاری خزانے سے قرض لیا۔ مالیات کے سربراہ نے مقررہ مدت کے بعد واپسی کا تقاضا کیا۔ گورنر نے لیت و لعل سے کام لیا۔ مالیات کے سربراہ نے امیر المومنینؓ کو رپورٹ کی۔ آپ کے عمائدین نے مشورہ دیا کہ حالات خراب ہیں۔ شام کی فوج سے مقابلہ ہے۔ اس معاملے کو جانے دیں‘ مگر آپ نے فرمایا: نہیں! سرکاری خزانے کے ایک ایک پیسے کی حفاظت ہوگی۔ گورنر‘ بھاگ کر مکہ چلا گیا اور ایک روایت کے مطابق شامی فوج سے جا ملا۔ مگر سرکاری پیسے میں خیانت یا اس کے ضیاع کو امیر المومنین نے برداشت نہ کیا۔
پاکستان میں اس وقت جو جنرل فنانشل رُولز (GFR) رائج ہیں ان میں یہ اصول سرِفہرست ہے کہ خرچ کرتے وقت سرکاری رقم کو اسی احتیاط سے خرچ کیا جائے جس طرح ذاتی رقم خرچ کی جاتی ہے۔ یہ سختی فرنگیوں نے آ کر رائج کی۔ ہمارے بادشاہ تو سونے میں تولتے تھے اور موتیوں سے منہ بھرتے تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی آئی تو کمپٹرولر اینڈ اکائونٹنٹ جنرل ساتھ لائی۔ اس کی کارکردگی دیکھنی ہو تو سکندر مرزا کے فرزند ہمایوں مرزا کی تصنیف ''پلاسی سے پاکستان تک‘‘ پڑھیے۔
پاکستان بنا تو ایک عرصہ تک ان اصولوں پر سختی سے عمل ہوتا رہا۔ بارہا گورنر جنرل یا وزیراعظم کی بات ماننے سے وزارتِ خزانہ نے معذرت کی! مگر پھر وزارتِ خزانہ حکمرانوں کی کنیز بن گئی۔ حکمرانوں کی کنیز نہ بنتی تو یہ نوبت نہ آتی کہ آج آئی ایم ایف کی کنیز ہے!


Thursday, July 16, 2020

صراحی تھی ہی ٹوٹی ہوئی

یہ لاہور سے ایک پرانے دوست کا فون تھا۔ کہنے لگا: آج کل تم فلاں صاحب کے ساتھ زیادہ ہی اُٹھ بیٹھ رہے ہو! پوچھا: تم کیوں حساب کتاب کر رہے ہو! کہنے لگا: حساب کتاب نہیں کر رہا‘ صرف متنبہ کرنا تھا کہ اگر وہ صاحب کچھ رقم بطور قرض مانگیں تو نہ دینا۔
یاد آیا کہ ''اُن‘‘ صاحب نے یہ فرمائش کی تھی، خوش بختی یا بد قسمتی سے اُس دن مطلوبہ رقم میسّر نہیں تھی ورنہ پیش کر دیتا۔ یوں بچ گئے۔
آپ کا کیا خیال ہے اُن صاحب نے یہ شہرت کتنی تگ و دو سے حاصل کی ہو گی؟ یقینا بہت زیادہ تگ و دو سے! ایک دو افراد سے قرض مانگ کر واپس نہ کیا جائے تو شہرت خراب نہیں ہوتی۔ وعدہ خلافی میں مشہور ہونے کے لیے ایسی حرکت بار بار کرنا پڑتی ہے۔ درجنوں دوستوں، رشتے داروں سے قرض لینا پڑتا ہے۔ پھر واپس نہیں کیا جاتا۔ تقاضوں پر تقاضے ہوں تب بھی اعصاب مضبوط رکھ کر بہانے بنانے پڑتے ہیں۔ جو قرض خواہ گریبان میں ہاتھ ڈالنے والے لگیں انہیں کچھ حصّہ واپس کر کے ٹھنڈا کر دیا جاتا ہے۔ جو شرفا ہوں انہیں مسلسل جُل دیا جاتا ہے۔ تب کہیں جا کر ایسی شہرت بنتی ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو متنبہ کرتے پھریں کہ یار فلاں رقم مانگے گا، نہ دینا۔ دو گے تو خوار ہو گے! 
قرض لے کر قرض خواہ کو خراب و خستہ کرنے والوں کی دو اقسام ہیں۔ پہلی قسم تو وہ ہے جو ماشاء اللہ واپس کرنے کا ارادہ ہی نہیں رکھتے۔ اس کی آگے پھر دو قسمیں ہیں۔ اے اور بی۔ اے میں وہ حضرات ہیں جو یہ کام چھوٹی اور مقامی سطح پر کرتے ہیں۔ رشتہ داروں، دوستوں سے دس دس ہزار، بیس بیس ہزار لے لیے۔ بعض سے پچاس ہزار یا لاکھ تک نکلوا لیے۔ پھر جُل دینا شروع کر دیا۔ فون نہیں اٹھاتے۔ قرض خواہ گھر تک پہنچ جائے تو پچھلے دروازے سے نکل کر غائب ہو جاتے ہیں۔ معاملات سنجیدہ ہو جائیں تو رہائش گاہ بدل لی۔ شہر بدلنے کی نوبت بھی آ سکتی ہے۔ یہ حضرات انسانی نفسیات کے ماہر ہوتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگ نا امید ہو کر، آخر کار، دی ہوئی رقم بھول جاتے ہیں۔ انہیں یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ایسے شرفا قرض خواہوں میں کون کون سے ہیں، جو زیادہ سختی کے ساتھ واپسی کا تقاضا کرتے ہیں۔ ان سے نمٹنے کا ہنر بھی وہ خوب جانتے ہیں۔ رسید وغیرہ عام طور پر ان معاملات میں ہوتی نہیں کہ کوئی عدالت جائے۔
''بی‘‘ میں وہ مضبوط اعصاب والے کاروباری حضرات آتے ہیں جو لے کر واپس نہ کرنے کا کام ''کارپوریٹ‘‘ سطح پر کرتے ہیں۔ یہ کسی نہ کسی پراجیکٹ کے لیے رقم لینا شروع کرتے ہیں۔ اعتبار ان کا پہلے سے احباب یا کلائنٹس کے حلقے میں مستحکم ہو چکا ہوتا ہے۔ رقم کروڑوں میں ہو چکتی ہے تو غائب ہو جاتے ہیں۔ ایک معروف شخص پنجاب سے دیارِ مغرب کو چلا گیا۔ ایک صاحب کا جڑواں شہروں میں بزنس تھا، جس کا تعلق اشتہار بازی کے فن سے تھا۔ وہ بھی بحیرۂ روم پار کر گئے۔ یہ پرانی بات ہے! ڈبل شاہ تو لیجنڈ ہی بن چکا ہے۔ کچھ حضرات نے مذہب کو ڈھال بنا کر بھی یہ کام کیا مگر پکڑے گئے۔ دوسری قسم وہ ہے جو واپس کرنے کا عزم رکھتے ہیں مگر ان کی نیچر ایسی ہے کہ وعدہ خلافی کو بُرا نہیں سمجھتے۔ اگر رقم تین ماہ کے لیے لی ہے تو ان کے خیال میں یہ وعدہ ''قرآن یا حدیث‘‘ نہیں کہ اس کی پابندی کی جائے۔ آپ یاد دہانی کراتے رہیں گے۔ وہ وعدہ کر کر کے توڑتے رہیں گے۔ پھر کل رقم کا نصف لوٹائیں گے اور باقی نصف کے لیے آپ کو تھوڑا سا اور پریشان کریں گے۔ کیا ایسے افراد کو ہم Casual (غیر سنجیدہ) کہہ سکتے ہیں؟ یا انہیں عہد شکن کہیں گے؟؟ بے ایمان یقینا نہیں کہہ سکتے اس لیے کہ ان کا ارادہ رقم ہڑپ کرنے کا ہرگز نہیں! اصل بات یہ ہے کہ ایسے مقروضوں سے بھی اجتناب ہی بہتر ہے۔
ایک عقل مند اور سرد و گرم چشیدہ دوست کی تھیوری یہ ہے کہ تیس چالیس برس کی عملی زندگی میں آپ کو زیادہ سے زیادہ تین یا چار ایسے افراد ملتے ہیں جنہیں آپ آنکھیں بند کر کے قرض دے سکیں۔ وہ آپ کو مقررہ وقت پر گھر آ کر واپس کریں گے۔ مگر اس سے زیادہ تعداد کی، بقول ان کے، امید نہیں ر کھنی چاہیے۔ انسان سے زیادہ پیچیدہ مخلوق شاید ہی کوئی اور ہو۔ تہہ در تہہ ایک پرت کے نیچے ایک اور پرت! عزیز ترین احباب کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب لین دین ہو اور مالی معاملات درمیان میں پڑیں۔ ایک دوسرے پر جان چھڑکنے والے بھائی بہن‘ جائیداد کے بٹوارے میں خون کے پیاسے ہو جاتے ہیں۔ سالہا سال مقدمے چلتے ہیں۔ شکلیں دیکھنا ناقابلِ برداشت ہو جاتا ہے۔ قریبی اعزہ کا بھی اصل روپ اس وقت سامنے آتا ہے‘ جب ان سے ادھار مانگا جائے یا ادھار دیا جائے۔ بعض اوقات دو اور دو چار کی طرح معلوم ہوتا ہے کہ یہ ''قرض‘‘ واپس نہیں ملے گا مگر علائق دینے پر مجبور کرتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں بجائے اس کے کہ تعلقات آلودہ کئے جائیں‘ اسے قرض کے بجائے صدقہ سمجھ کر دل ہی دل میں معاف کر دیا جائے تو بہت سی تلخیوں سے بچا جا سکتا ہے۔ قرض دیتے یا لیتے ہوئے وقت کا تعین لازماً ہونا چاہیے۔ کہ اتنے عرصہ بعد واپسی ہو گی۔ یہ جو تین چار افراد پوری زندگی میں آپ کو قابلِ اعتبار ملتے ہیں یہ وقت مقررہ پر رقم نہ لوٹا سکیں تو بنفس نفیس اس دن، یا اُس سے پہلے، آ کر وضاحت کریں گے اور نئے وقت کے لیے نئی اجازت لیں گے۔ اصول یہ ہے کہ کسی سے مانگو تو وقت معینہ پر واپس کرو، اور کسی کو دو اور وہ عہد شکنی کا مرتکب ہو تو آئندہ اسے نہ دو!
یہ تو روپے پیسے کی بات ہو گئی۔ کیا ہم باقی امور میں بھی صحت مند شہرت کے مالک ہیں؟ کسی سے کوئی کتاب لی، مہمان آئے اور پڑوسیوں سے پلنگ یا بستر لیے، زیادہ کھانا پکانے کے لیے بڑا برتن مانگنا پڑا۔ وزن کرنے والی مشین لینا پڑی۔ جب ہم چھوٹے تھے تو ایک دوسرے کے گھروں سے استری مانگنے کا رواج تھا۔ اگر دینے والے کو اپنی شے واپس لینے کے لیے یاد دہانی کرانا پڑی تو یہ نوبت آنی نہیں چاہیے تھی۔ سورہ الماعون میں تنبیہہ کی گئی ہے کہ اڑوس پڑوس کے لوگوں کو یا رشتہ داروں کو چھوٹی موٹی شے کی ضرورت ہو تو دینا ہو گی۔ معاشرہ ایک دوسرے سے پیوست ہونے کا نام ہے۔ دوسروں سے بے نیازی نہیں برتی جا سکتی۔ سب کو کسی نہ کسی موقع پر کچھ نہ کچھ مانگنا پڑتا ہے۔ جس طرح ایسے مواقع پر کام آنا فرض ہے، اسی طرح، استعمال کے بعد اشیا کی واپسی بھی لازم ہے۔ ہم میں سے کچھ ملا نصرالدین بن جاتے ہیں۔ اس نے ہمسائے سے صراحی مانگی۔ واپس کی تو ٹوٹی ہوئی حالت میں تھی، جھگڑا ہو گیا۔ ملّا نے کہا: اول تو میں نے جب صراحی واپس کی تو بالکل ٹھیک حالت میں تھی۔ دوم جب ملی تو اسی وقت شکستہ تھی۔ سوم یہ کہ میں نے کبھی لی ہی نہیں! 
یہ سب کچھ گھر سے سیکھا جاتا ہے۔ نسلوں تک اس کی تاثیر منتقل ہوتی ہے۔ اگر بچے دیکھ رہے ہیں کہ باپ یا ماں نے کسی سے کوئی شے مانگی اور پھر وہ یہیں پڑی رہی یہاں تک کہ شے کا مالک آیا اور آ کر خود واپس لے گیا تو یہ رویہ ان کی تربیت کا حصہ بن جائے گا۔ ہم میں سے کچھ کی کھال موٹی ہے۔ احساس سے عاری ہیں۔ عزتِ نفس بھی مجروح ہو جائے تو پروا نہیں! یہ ایک ناقابلِ رشک صورتِ حال ہے۔ غالباً گائوں کی ثقافت اس لحاظ سے بہتر تھی کہ شادی یا موت پر چار پائیاں، بستر، تکیے، حُقّے، برتن، دیگیں، سب مل کر مہیا کرتے تھے۔ تقریب ختم ہوتے ہی اشیا مالکوں کو واپس بھجوا دی جاتی تھیں۔ کسی کو یاد دہانی کرانا پڑتی تھی نہ خود آنا پڑتا تھا۔ 
اب یاد دہانیوں کا زمانہ ہے۔ یہاں تک کہ حکمرانوں کو بھی یاد دہانی کرانا پڑتی ہے کہ یہ وعدے کیے تھے، اب خدارا پورے کیجیے۔



Tuesday, July 14, 2020

مولانا طارق جمیل کی خدمت میں

 

ایک بزرگ سے روایت منسوب ہے کہ بارش میں کہیں تشریف لے جا رہے تھے۔ راستے میں کیچڑ تھا۔ ایک لڑکا ان کے سامنے پھسلتے پھسلتے بچا۔ آپ نے ہدایت فرمائی کہ بیٹا دیکھ کر چلو‘ پھسل نہ جانا۔ اس نے آگے سے عرض کیا! حضور! میری خیر ہے! پھسل بھی گیا تو کوئی بات نہیں! آپ اپنا خیال رکھیے‘ آپ پھسل گئے تو آپ کے پیچھے آپ کے پیروکار بھی نہیں سنبھل سکیں گے!
حضرت مولانا طارق جمیل کے لاکھوں پیروکار ہیں۔ ان کی تبلیغ اور تقریر میں اللہ تعالیٰ نے تاثیر رکھی ہے۔ یوٹیوب کا سلسلہ تو جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے شروع ہوا ہے۔حضرت اُس وقت مقبولیت حاصل کر چکے تھے جب آڈیو کیسٹوں کا زمانہ تھا۔ ان کے مواعظ کی کیسٹیں شائقین جمع کرتے تھے۔ ایک دوسرے کو تحفے میں دیتے تھے۔ ویگنوں پر‘ ٹیکسیوں میں‘ نجی گاڑیوں میں‘ ان کیسٹوں کے ذریعے ان کی تقریریں سنتے تھے۔ اب تو یہ کام اور بھی آسان ہو چکا ہے۔ موبائل فون ان کے ارشادات سے ایک عالم کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ پھر ان کے اسفار بھی ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جہاں وہ تبلیغ دین کے لئے نہ گئے ہوں!
دوسرے مسالک کا احترام ان کا خاصہ ہے! وہ فرمایا کرتے ہیں کہ اللہ کی جنت بہت بڑی ہے۔ اس میں سب کو آنے دو! ہم نے دوسرے مسلکوں کے علما سے بھی ان کی تعریف سنی ہے!
حضرت وزیراعظم عمران خان سے متاثر ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عمران خان ریاستِ مدینہ کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہیں۔ حضرت کا موقف یہ ہے کہ اس سے پہلے کسی حکمران نے یہ بات نہیں کی۔ اسی بنا پر انہیں وزیراعظم سے حسنِ ظن ہے۔ اس میں کوئی دکھاوا نہیں‘ حضرت کا خلوص شامل ہے۔ حضرت کوئی عام شخصیت نہیں اُن کی وجہ سے ان کے لاکھوں پیروکار بھی صدقِ دل سے یہی سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم کی پالیسیاں‘ احکام اور طرزِ حکمرانی ریاستِ مدینہ کی اتباع ہے۔
یہ بہت بھاری ذمہ داری ہے۔ فرض کیجیے‘ خدانخواستہ ایسا نہ ہوا یا ایسا نہیں ہو رہا تو لاکھوں افراد کی طرف سے عمران خان صاحب کی حمایت‘ حضرت مولانا سے منسوب ٹھہرے گی! ''ریاستِ مدینہ‘‘ ایک مقدس لفظ ہے۔ اس کا ذکر جس طرح ہر وقت‘ ہر بیان میں‘ آسانی سے لیا جا رہا ہے۔ بذات خود ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ یہ آسان کام نہیں! اگر کوئی اس کی اتباع کا دعویٰ کرتا ہے تو اسے یہ احساس بھی ہونا چاہیے کہ یہ جان جوکھوں کا کام ہے۔ ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا!
ہم حضرت مولانا کی خدمت میں بصد احترام عرض کرتے ہیں کہ وہ ریاستِ مدینہ کا مقام و منزلت ذہن میں رکھے ہوئے‘ حکومت کی پالیسیاں اور گورننس کا بغور جائزہ لیں۔ تجزیہ کریں‘ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ریاستِ مدینہ ہی کی پیروی ہو رہی ہے‘ تو خوش آئند امر ہے۔ اور اگر وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ نام تو ریاست مدینہ کا لیا جا رہا ہے مگر عملاً اعرابی ترکستان کی طرف جا رہا ہے تو پھر مناسب یہی ہوگا کہ وہ اپنے تحفظات کا برملا اظہار فرمائیں تاکہ وہ لاکھوں پیروکار جو ان کی رائے کی اتباع کر رہے ہیں‘ اپنی ذمہ داری پر آزادانہ رائے قائم کریں اور کل روزِ حساب ذمہ داری حضرت مولانا پر نہ ڈال سکیں!
اس میں کیا شک ہے کہ حضرت مولانا نے کسی عقیدت مند کو یہ نہیں کہا کہ وہ وزیراعظم کے ضمن میں اُن کی رائے سے اتفاق کرے۔ مگر ہمارا ذہنی رویہ اس قبیل کا ہے کہ ہم تقلید کے اسیر ہیں مذہبی یا سیاسی لیڈر کے ہر موقف کو من و عن تسلیم کرنا ہماری نفسیات کا حصہ بن چکا ہے جبھی تو حافظ نے صدیوں پہلے کہہ دیا تھا ؎
بہ می سجادہ رنگین کن گرت پیر مغاں گوید
کہ سالک بے خبر نہ بود ز راہ و رسمِ منزل ہا
ریاستِ مدینہ بچوں کا کھیل نہیں کہ نام تو اس کا لیا جائے اور کام اپنی مرضی کے کیے جائیں۔ ریاستِ مدینہ کے حکمران اپنی بات منوانے کے لئے دلائل دیتے تھے‘ لوگوں کو کھینچ کھانچ کر ڈنر پر نہیں لاتے تھے نہ ہی فنڈز کے وعدے کرتے تھے۔ ریاست مدینہ کا بنیادی اصول تھا کہ ''امانتیں اُن کے سپرد کرو جو اہل ہوں‘‘ اس آیت کی تفسیر میں مولانا مفتی محمد شفیع مرحوم نے جو احادیث لکھی ہیں وہ مولانا طارق جمیل صاحب نے یقینا ملاحظہ فرمائی ہوں گی۔ ریاست مدینہ میں ہر کام مشورے سے ہوتا تھا۔ یہاں تو گمنام اور تحصیل ناظم کی سطح کے افراد کو تین چوتھائی ملک کا والی بنا دیا جاتا ہے جو لکھ سکتے ہیں نہ بات کر سکتے ہیں۔ ایڈمنسٹریشن کا یہ حال ہے کہ دو سال کے عرصہ میں پانچ آئی جی‘ چار چیف سیکرٹری‘ تین ہیلتھ سیکرٹری‘ پانچ سیکرٹری خزانہ اور چھ سیکرٹری تعلیم بدل چکے ہیں مگر جو منبع ہے اسے کوئی نہیں ہٹا سکتا اور اہلیت سے ایک دنیا واقف ہے!
ریاست مدینہ میں چار ارب روپے کے منصوبے کا نام اپنے باپ کے نام پر نہیں رکھا جاتا تھا۔ اور نہ ہی وہاں نعوذ باللہ نفاق تھا کہ دوسرے لوگ منصوبوں پر اپنے اور اپنے بزرگوں کے ناموں کی تختیاں لگائیں تو تنقید کی جائے اور اپنے دور میں یہ کراہیت جاری رہے تو احتجاج کے باوجود آنکھیں بند کر لی جائیں۔ ریاست مدینہ میں ذاتی دوستوں کو سیاہ و سفید کا مالک نہیں بنایا جاتا تھا اور شوریٰ (پارلیمنٹ) سے بالا بالا بیسیوں مشیر ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر نہیں رکھے جاتے تھے۔ ایسے ایسے افراد کو مناصب دیئے گئے ہیں کہ خود ایک وفاقی وزیر کو کہنا پڑا کہ فلاں صاحب ''1968ء سے یہ کام کر رہے ہیں انہیں اصلاحات لانا ہوتیں تو پہلے لے آتے۔‘‘دو سال ہو گئے ہیں ابھی ان صاحب کی زنبیل سے اصلاحات کی کوئی کچی صورت بھی برآمد نہیں ہوئی حالانکہ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں بھی وہ یہی کام کرتے رہے۔ تب بھی کوئی نتیجہ نہ نکلا۔
صرف دعویٰ سن کر حمایت کر دینا ایک غیر منطقی عمل ہے۔ حضرت مولانا جس مقامِ بلند پر فائز ہیں‘ لازم تھا کہ وہ دعویٰ کے بعد اعمال بھی دیکھتے‘ پالیسیوں کا بھی جائزہ لیتے اور پھر اگر دعویٰ اور عمل میں ہم آہنگی دیکھتے تب حمایت کرتے صرف اس بنیاد پر کہ ریاست مدینہ کا نام لیا جا رہا ہے‘ حمایت کرنا‘ تعریف کرنا اور لاکھوں افراد کو متاثر کرنا قرینِ انصاف نہیں!
''ریاستِ مدینہ‘‘ کی طرح ''صادق امین‘‘ کی مقدس اصطلاح کو بھی بازیچۂ اطفال بنا لیا گیا ہے۔ صادق امین محض دو لفظوں کا مرکب نہیں‘ ایک پاکیزہ اصطلاح ہے اور ہر شخص کے ذہن میں یہ اصطلاح سنتے ہی اُس ہستیؐ کا تصور آتا ہے جو کائنات میں خدائے بزرگ و برتر کے بعد اعلیٰ ترین ہے! اس اصطلاح کو ہر کہ و مہ پر چسپاں کرنا اگر توہین نہیں تو بے ادبی ضرور ہے۔ اس کے بجائے کوئی اور الفاظ استعمال ہو سکتے ہیں۔ مثلاً امانت دار‘ دیانت دار یا راست گو‘ مگر خاص انہی الفاظ کا دوسروں کے لئے استعمال ناقابلِ برداشت ہے۔ اسی طرح اس سخت کسوٹی پر دوسروں کو پرکھنا بھی ناممکن کو ممکن بنانے والا کام ہے۔ اس آسمان کے نیچے‘ اور اس زمین کے اوپر ''صادق و امین‘‘ صرف ہمارے ہادیٔ برحق ﷺ تھے۔ اب لوگ دیانت دار‘ راست باز اور قابلِ اعتماد تو قرار دیئے جا سکتے ہیں‘ ''صادق اور امین‘‘ کی مقدس اصطلاح کے سزاوار نہیں ہو سکتے!
ہم بصد احترام حضرت مولانا کی خدمت میں عرض گزار ہیں کہ وہ رہنمائی فرمائیں کہ کیا ریاستِ مدینہ کے تقاضے عملاً پورے ہو رہے ہیں؟ بصورت دیگر وہ کم از کم دعا کے ساتھ ساتھ یہ نصیحت بھی فرما دیں کہ اس مقدس نام کو استعمال کرنا ہی ہے تو اس کے تقاضے بھی پورے کئے جائیں۔

Monday, July 13, 2020

بے مقصد زندگی کے مزے

دو بھائی تھے۔ ایک مست ملنگ۔ مرضی سے کام کرتا ۔ جو مل جاتا کھا لیتا۔ فکر نہ فاقہ! کسی کی ماتحتی نہ رعب! دوسرا بھائی سرکار کا ملازم تھا‘ اور شاہ کا مصاحب! مرغن کھانے اڑاتا۔قیمتی لباس پہنتا۔ اس کیلئے اسے کمر پر سنہری پیٹی باندھنا ہوتی اور پہروں بادشاہ کے حضور دست بدستہ کھڑا رہنا ہوتا۔
بھائی کے لیے فکر مندی تو تھی! ایک دن مصاحب بھائی نے آزاد منش بھائی سے کہا: بادشاہ کی نوکری میں کیوں نہیں آ جاتا تا کہ آسودہ حال ہو جائے! اس نے جواب دیا کہ تو میری طرح آزاد کیوں نہیں ہو جاتا تا کہ چاکری کی ذلت سے رہائی پائے‘ اس لیے کہ عقل مندوں نے کہا کہ تلوار سنہری پیٹی سے باندھ کر حضورِ شاہ کھڑے رہنے سے بہتر ہے کہ روکھی سوکھی کھا لی جائے اور آرام سے بیٹھا جائے۔ لوہا کوٹنا، نوکری میں کھڑے رہنے سے بہتر ہے!
مگر آج کل سعدیؔ شیرازی کی یہ کہانی بیکار ٹھہرے گی۔ اب کیریئر بنانے کا زمانہ ہے۔ پی آر ہونی چاہیے۔ اس کیلئے دوڑ دھوپ لازم ہے۔ فہرست ترتیب دی جائے کہ ہفتہ رواں میں کس کس سے ملنا‘ کس کس کو ظہرانے یاعشائیے پر بلانا ہے۔کس کس کے گھر آم کا کریٹ یا قربانی کا گوشت یا مالٹوں کی پیٹی بھجوانی ہے۔ صبح اٹھے، بے اطمینان سا تیز رفتار ناشتہ کیا۔ چائے کے آخری گھونٹ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر یا گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے زہر مار کیے۔ یہ سب کچھ زندگی کے لوازمات میں سے ہے۔ آسودہ حالی، ترقی، پروموشن، پی آر، سب ایک عمودی چڑھائی والی زندگی کا حصہ ہے مگر اپنی مرضی سے جینے کا مزہ اور ہی ہے۔ طارق نعیم کا کیا معنی خیز شعر ہے؎
یوں ہی تو کنجِ قناعت میں نہیں بیٹھا ہوں
خسروی، شاہ جہانی مری دیکھی ہوئی ہے!
جس دن کالم لکھنے کی ڈیوٹی نہ ہو اور دوسرے کام بھی جھٹک کر پرے کر دیئے جائیں، اُس دن ایک عجیب بادشاہت کا احساس ہوتا ہے! دوسرے کام کون سے؟ کچھ تراجم شروع کیے ہوئے ہیں۔ ایک دو کتابیں زیر تصنیف و تالیف ہیں۔ ان کا ہوّا بھی سر سے اتار دیا جائے کیونکہ نہ بھی مکمل ہوئے تو دنیا چلتی رہے گی! بندہ آرام سے اٹھے۔ گوبھی والا یا آلو والا پراٹھا، مکھن کے ساتھ کھائے۔ پھر اپنی پسند کی چائے پیے۔ مِکس، کڑھی ہوئی، زیادہ دودھ ڈال کر یا ٹی بیگ والی، ذرا سی دودھ کے ساتھ (اسے کچھ لوگ دھاگے والی، کچھ تعویذ والی اور کچھ گُتھی والی چائے کہتے ہیں)۔ سامنے آئی پیڈ ہو، ساتھ اخبارات کا پلندہ پڑا ہو۔ ہاتھ میں ٹیلی ویژن کا ریموٹ کنٹرول ہو، پشت صوفے کی ٹیک سے لگی ہو یا نیچے دری یا قالین پر کُہنی کے نیچے تکیہ ہو تو اس زندگی پر ٹاک شو میں ہزار شمولیتیں اور صد ہزار پی آر قربان!! ہائے! حافظ شیرازی نے کیا کہا تھا؎
غم غریبی و غربت چو بر نمی تابم
بہ شہر خود روَم و شہریارِ خود باشم
ہمیشہ پیشۂ من عاشقی و رندی بود
دگر بکوشم و مشغولِ کار خود باشم
مسافرت کا غم بڑھ جائے تو اپنے شہر کو لوٹتا ہوں اور اپنا بادشاہ خود بنتا ہوں۔ بھائی! ہمارا پیشہ تو شروع ہی سے عاشقی اور رندی ہے اور اسی میں مشغول رہنا پسند کریں گے۔ گرما کے اس موسم میں سبک باری کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ لباس وہ زیب تن کیا جائے جس میں بدن کو راحت ملے۔ ململ کے پتلے کرتے اور بنگالی لُنگی سے زیادہ راحت بخش لباس اور کیا ہوگا! اور پھر جب کرتے کو ''ڈیزائن‘‘ بھی خود ہی کیا ہوا ہو۔ گھر والے بازار سے ایک برانڈڈ ٹائپ کرتا لائے تھے۔ سخت گرمی تھی۔ قینچی لے کر اس کی لمبائی بھی کم کی اور بازو بھی۔ پھر گھر کے پاس جو ارزاں ترین درزی تھا اس سے اسی ماپ کے بنوالیے۔ پنجابی میں جسے ہم دھوتی کہتے ہیں اسے بنگال و بہار میں لنگی کہتے ہیں۔ یہ آگے سے سلی ہوئی ہوتی ہے اور شتر بے مہار نہیں ہوتی۔ دو تین سنگاپور سے خریدی تھیں۔ وہ بوڑھی اور بوسیدہ ہو گئیں۔ فیس بک پر اعلان کیا کہ ہے کوئی اللہ کا بندہ جو عازمِ ڈھاکہ ہورہا ہو کہ رقم لے اور خرید لائے۔ فوراً دبئی سے عزیزی طاہر بندیشہ کہ سینکڑوں کالموں کا غواص ہے‘ مدد کو پہنچا ۔ اس کے ''مریدوں‘‘ میں خاصی تعداد بنگلہ دیشیوں کی ہے؛ چنانچہ وہاں سے لنگیاں براستہ دبئی موصول ہو گئیں۔ نواسی ایک دن پوچھ رہی تھی یہ کیوں پہنتے ہیں، اس کا کیا فائدہ ہے؟ اسے بتایا کہ بنگال و بہار کے علاوہ تھائی لینڈ، ملائیشیا، انڈونیشیا، سنگاپور، برونائی میں یہی پہنتے ہیں۔ جب اسے بتایا کہ برما میں یہ قومی لباس ہے اور دفاتر میں پہنا جاتا ہے تو اس نے اسی طرح منہ بنایا جیسے خراب موڈ میں اس کی نانو بناتی ہیں!
اس بے فکر زندگی کو چار چاند اُس وقت لگے جب گزشتہ ہفتے عزیزم حبیب مرزا نے نیا طبع شدہ ناول ''اور ڈان بہتا رہا‘‘ بھیجا۔ روسی ناول، دنیا بھر کے ناولوں کے ماتھے کا جھومر ہیں‘ اور یہ ناول میرے خیال میں بورس پاسترناک کے'' ڈاکٹر ژواگو ‘‘اور سولشرے نٹسن کے'' کینسر وارڈ‘‘ کے بعد نمایاں ترین ہے۔ شولوخوف کے اس شہرۂ آفاق ناول کا ترجمہ مخمور جالندھری نے کیا ہے۔ مخمور جالندھری کا اصل نام سردار گورنجش سنگھ تھا۔ 1953ء میں بارہ مولہ میں پیدا ہوئے۔ بہت بڑے نثر نگار تھے اور اس سے بھی بڑے مترجم۔ ٹالسٹانی کے ''وار اینڈ پیس‘‘ کا بھی ترجمہ کیا۔ شاعر بھی تھے۔ غیر مسلم ہونے کے باوجود نعتیں لکھیں اور وفورِ محبت سے لکھیں۔ 
خیر'' اور ڈان بہتا رہا‘‘ ملا تو سارے مشاغل ایک طرف رکھ دیئے۔ فراغتے و کتاب و گوشۂ چمنے والا حال ہے! میز پر شمار کیں تو دس گیارہ کتابیں مطالعے کی منتظر ہیں جن کی باری اب اس ضخیم ناول کے بعد ہی آئے گی۔ قارئین اکثر پوچھتے ہیں کہ کیا پڑھا جائے، ہر شخص کا اپنا ذوق ہے۔ جس طرح جوتا اور قمیض اپنے اپنے سائز کی پہنی جاتی ہے، اسی طرح کتاب بینی کا ذوق بھی ہر پڑھاکو کا اپنا ہے۔ کالم نگار کی میز پر مطالعہ کی منتظر کتابوں میں ولیم ڈال رمپل کی تازہ ترین تصنیف ایسٹ انڈیا کمپنی (انارکی) ہے۔ پھر ہمارے بزرگ صحافی جناب منیر احمد منیر کی تالیف ''حاجی حبیب الرحمن کا انٹرویو‘‘ ہے جو ایک ہزار سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہے اور پاکستان کی عصری تاریخ ہے! سشی تھرور کی ''وائے آئی ایم اے ہندو؟‘‘ ہے۔ تھرور نے اس سے پہلے بھی ایک معرکہ آرا کتاب ''اِیرا آف ڈارک نیس‘‘ لکھی ہے‘ جس میں بتایا ہے کہ انگریزی عہد نے برِّصغیر کو نقصان زیادہ اور فائدہ کم پہنچایا ہے۔ اس سے مجھے اتفاق اور عزیزی یاسر پیرزادہ کو شدید اختلاف ہے!
پھر جان سلائٹ کی ''برٹش ایمپائر اینڈ حج‘‘ ہے۔ راجر کرائولی نے آخری صلیبی جنگ کا حال لکھا ہے جس میں بتایا ہے کہ مملوکوں نے عکّا کا شہر 1291ء میں کیسے فتح کیا تھا۔ اب یہ شہر اسرائیل کے پاس ہے۔ شیرلٹ برونٹی کی سوانح بھی ابھی پڑھنا ہے۔ کرسٹوف پکارڈ کی Sea of Caliphs مطالعہ کی منتظر ہے۔ یہ بحرِ روم کی یوں سمجھیے مسلم ہسٹری ہے۔ جسٹن ماروزی نے پندرہ بڑے شہروں کی تاریخ قلم بند کی ہے۔
مکہ، دمشق، بغداد، قرطبہ، یروشلم، قاہرہ، فاس، سمرقند، قسطنطنیہ، کابل، اصفہان، طرابلس، بیروت، دبئی اور دوحہ ان میں شامل ہیں۔ ایک خاتون سیلینا او‘گریڈی نے ایک اچھوتے موضوع پر کتاب تصنیف کی ہے۔ عیسائیوں اور مسلمانوں کی عدم برداشت کی تاریخ۔ اس کتاب کا نام اس نے ''اِن دی نیم آف گاڈ‘‘ رکھا ہے۔ دلچسپ ترین کتاب کِم ویگنر کی ہے جس کا عنوان ہے ''عالم بیگ کی کھوپڑی‘‘۔ یہ اُس کھوپڑی کی کہانی ہے جو 1963ء میں برطانیہ کے ایک پب میں پائی گئی۔ یہ عالم بیگ کی تھی جو سیالکوٹ سے تھا اور 1857ء کی جنگ آزادی کا مجاہد تھا۔ یہ کھوپڑی برطانیہ کیسے پہنچی، اور مصنف نے سیالکوٹ اور لاہور کے سفر اس تحقیق میں کیوں کر کیے، یہ داستان ابھی پڑھنی ہے۔

Friday, July 10, 2020

عمر میں پچاس سال کا اضافہ

ابھی سورج طلوع نہیں ہوا تھا۔ خلقِ خدا نے دیکھا کہ آسمان پر سفید رنگ کے حروف ظاہر ہو رہے ہیں۔ یہ ایک اعلان تھا جو سب کو نظر آ رہا تھا۔ اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کہ ہر دیکھنے والے کو یہ اعلان اس کی اپنی زبان میں دکھائی دے رہا تھا۔
اکیسویں صدی میں کیسے کیسے ناقابل یقین واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ کیا کسی نے سوچا تھا کہ کورونا دنیا کے پونے آٹھ ارب افراد کو ان کے گھروں میں نظر بند کر دے گا اور لوگ ایک دوسرے سے دور بھاگیں گے۔ یہ محیرالعقول واقعہ بھی، جس کا ذکر کیا جا رہا ہے، اسی اکیسویں صدی کا کرشمہ ہے!
آسمانوں پر لکھا ہوا اعلان یہ تھا کہ تمہاری زندگی میں پچاس سال کا اضافہ کیا جا سکتا ہے! مگر اس کے لیے ایک شرط ہے۔ اپنی زندگی کے خفیہ گوشے چار افراد کو بتا دو۔ نمبر ایک: بیوی یا شوہر، نمبر دو: پڑوسی، نمبر تین: تمہارا افسر، نمبر چار: تمہارا ماتحت۔
کچھ گھنٹے تو لوگ حیرت سے گنگ رہے! پھر انہوں نے سوچا کہ پچاس سال! پوری نصف صدی! سودا بُرا نہیں! ساٹھ سے اوپر والوں نے تو باقاعدہ جشن منائے۔ اس کے بعد ہر ایک نے دل کڑا کیا۔ پہلے بیوی کو اپنے سارے کرتوت، بے وفائیاں، چھپا کر رکھے ہوئے بینک اکائونٹس، سب کچھ بتایا۔ پھر بیوی نے وہ سب کچھ شوہر کو بتایا جو اس سے چھپا کر رکھا ہوا تھا۔ چونکہ مفاد مشترکہ تھا اس لیے دونوں نے حوصلے سے سب کچھ سنا پھر پڑوسیوں کی باری آئی۔ عورتوں نے پڑوسی عورتوں سے اور مردوں نے پڑوسی مردوں سے اپنی اپنی زندگی کے نہفتہ پہلو شیئر کیے۔ سب کچھ بلا کم و کاست بتایا اس لیے کہ معلوم تھا‘ اگر دیانت داری سے راز افشا نہ کیے تو پچاس سال مزید نہیں ملیں گے۔ 
پھر لوگوں نے دفتروں، کارخانوں، کھیتوں، تعلیمی اداروں، ہسپتالوں، بحری جہازوں، ریلوے سٹیشنوں پر اپنے سینئرز اور اپنے ماتحتوں کو اپنے اپنے کچے چٹھے سنائے۔ کاروبار میں کیا کیا بد دیانتیاں کیں۔ حکومت کو، کمپنی کو، شراکت داروں کو، گاہک کو، سپلائرز کو کیسے کیسے دھوکے دیئے۔ کتنا ناروا مال بنایا۔ ہر ایک کو پچاس سال کا بونس نظر آ رہا تھا۔ سب نے حوصلے، خاموشی اور سنجیدگی سے ایک دوسرے کے چہروں سے نقاب اترتے دیکھے۔
یہ سب دو دن کے اندر ہی ہو گیا۔ کسی نے چانس نہ لیا کہ تاخیر کرے۔ سب نے شرط پوری کر دی۔ نتیجہ ظاہر ہونا شروع ہو گیا۔ اسی اسی، نوے نوے سال کے بوڑھے، بوڑھیاں جو زندہ درگور پڑی تھیں، اٹھ بیٹھیں۔ جو ساٹھ کے پیٹے میں تھے ان میں تیس سال کی توانائی آ گئی۔ عورتوں کے چہروں سے جھریاں صاف ہو گئیں۔ دنیا میں ٹھہرائو آ گیا۔ خوشی کی لہر ایک کنارے سے اٹھی اور دوسرے کنارے تک دلوں کو گرما گئی۔
شروع میں تو سب ایک دوسرے کے رازوں کے حوالے سے یہ سوچ کر خاموش رہے کہ دوسروں کو بھی ان کے بارے میں سب کچھ پتہ ہے مگر چند ماہ ہی گزرے تھے کہ انسانی جبلّتیں عود کر آئیں۔ بدلی ہوئی زندگی کے نتائج ظاہر ہونا شروع ہو گئے۔ صورت حال عجیب و غریب ہو گئی۔ میاں باہر نکلتا تو بیوی چھپ کر تعاقب کرتی۔ بیوی کی باتیں سننے کے لیے شوہر فون ریکارڈ کرتا۔کسی بات پر جھگڑا بڑھتا تو بچوں کے سامنے ایک دوسرے کو طعنے دیتے۔ ماں بچوں کو الگ بٹھا کر باپ کے بارے میں اور باپ الگ بٹھا کر ان کی ماں کے بارے میں بتاتا۔ دونوں غبار نکالتے۔ اس سے بچوں کی نفسیات، خود اعتمادی، والدین کے لیے احترام سب کچھ تہس نہس ہو گیا۔ کچھ بچے برافروختہ ہو کر گھروں سے نکل بھاگے۔ کچھ نے نشہ آور ادویات میں پناہ ڈھونڈی، چڑچڑا پن آ گیا۔ ماں پر اعتماد رہا نہ باپ پر۔ بات بات پر بہن بھائیوں میں لڑائیاں ہونے لگیں۔
پڑوسی عورتوں نے جو کچھ اپنے بارے میں اُگلا تھا، اسے تو بھول گئیں‘ مگر دوسری عورتوں کے بارے میں داستانیں چلانا شروع کر دیں۔ ایک ایک کوچے، ایک ایک محلّے میں کہانیاں عام ہونے لگیں۔ ''اسے دیکھو معزز بنی پھرتی ہے۔ ساس کے ساتھ یہ کیا۔ بہو کو یہ دھوکہ دیا۔ شوہر سے پہ چھپایا‘‘۔ مردوں کا بھی باہر نکلنا دوبھر ہو گیا۔ چوہدری صاحب، ملک صاحب، خان صاحب، راجہ صاحب قدم قدم پر بے عزت ہونے لگے۔ بڑے بڑے عمائدین، مخیر حضرات، کیا مولانا‘ کیا پنڈت سب منہ چھپانے لگے۔
کاروبار رُک گئے۔ کوئی کسی پر اعتبار کرنے کو تیار نہ تھا۔ سب کا ماضی کھلی کتاب کی طرح سامنے تھا۔ قرض دینے کی سکیمیں ختم ہو گئیں۔ صنعت و حرفت کا پہیہ رک گیا۔ زرعی سرگرمیاں ماند پڑنے لگیں۔ طلبہ اساتذہ پر آوازے کسنے لگے۔ افسر ماتحتوں کو طعنے دیتے اور ماتحت افسروں کے کپڑے اتارتے۔ میڈیا میں وزیروں کے خفیہ کارنامے سامنے آنے لگے۔ حکومتیں ناکام ہونے لگیں۔ بین الاقوامی معاہدوں کی ساکھ صفر سے نیچے چلی گئی۔ پھر وارداتیں ہونے لگیں۔ کہیں بیوی میاں کو زہر دے کر موت کے گھاٹ اتار رہی تھی۔ کہیں میاں‘ بیوی اور اس کے رشتہ داروں پر حملے کر رہا تھا۔ سوکنوں نے ایک دوسرے کے گھروں پر چڑھائیاں کر دیں۔ نفرتیں چاروں طرف موت بن کر رقص کرنے لگیں۔ پڑوسی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ انسان انسان کو کاٹنے لگا۔ اعتبار دنیا میں عنقا ہو گیا۔ اعتماد کا لفظ صرف لغت میں رہ گیا۔
پھر خود کشیاں شروع ہو گئیں۔ بزنس مین، صنعت کار، جاگیر دار، ٹائیکون کوڑی کوڑی کو محتاج ہو گئے۔ کسی نے زہر کھا لیا۔ کوئی پلیٹ فارم سے پٹڑی پر کود گیا۔ کوئی چلتی گاڑی سیدھی سمندر میں لے گیا۔ سیاست دان پبلک کا سامنا کرنے کے بجائے پنکھوں سے لٹک کر جھول گئے۔ شک، عناد، نفرت، قطع کلامی سے زندگیوں میں زہر بھر گیا۔ خواب آور گولیاں کروڑوں کی تعداد میں بکنے لگیں۔ ماہرینِ نفسیات خود پا گل ہو گئے۔ ابھی پچاس برس کا بونس ملے دو سال بھی نہیں ہوئے تھے کہ زندگی ہر ایک کو کھلنے لگی۔ ایک ایک دن کاٹنا عذاب ہو گیا۔ قیامت سے پہلے قیامت آ گئی۔
لوگوں کو احساس ہو گیا اور بدرجۂ اتم احساس ہو گیا کہ یہ گھاٹے کا سودا تھا۔
قدرت جو سمجھانا چاہتی تھی سمجھا چکی تھی۔ یہ جو خالق نے مخلوق کو علمِ غیب نہیں دیا اور پردہ رکھا تو یہی وہ اصل روح ہے جس سے زندگی میں جان ہے۔ عمر کی طوالت نعمت نہیں، عمر میں برکت اصل نعمت ہے۔ جس طرح بدن کی جلد نے انتڑیاں، پھیپھڑے، گردے اور عملِ انہضام چھپا کر رکھا ہے اسی طرح قدرت نے دلوں میں موجود بد نیتی، جھوٹ اور کینہ بھی چھپا دیا ہے تا کہ زندگی کا پہیہ چلتا رہے۔
پھر گرجے، مندر، مسجدیں، عبادت گاہیں انسانوں سے بھر گئیں۔ صدقے، خیراتیں، قربانیاں دی جانے لگیں۔ مخلوق گڑگڑائی۔ روئی کہ قدرت پچاس برس کا بونس واپس لے لے۔ اور اس کے بدلے میں پردہ پوشیاں واپس آ جائیں۔ سب ایک دوسرے کے ماضی کو بھول جائیں۔ بچے ماں باپ کا اور شاگرد اساتذہ کا احترام کرنے لگیں۔ کاروبار چل پڑیں۔ ساکت و جامد دنیا پھر سے رواں ہو جائے۔ 
جو کچھ نہاں ہے، عیاں ہو جائے تو بیوی، بچے، احباب، کولیگ تو دور کی بات ہے، ماں باپ، سگی اولاد کو نہ برداشت کریں۔ یہ وہی ہے ستّر مائوں سے زیادہ شفیق جو انسان کی ساری خیانتوں، منافقتوں، شقاوتوں، عہد شکنیوں، حیلہ کاریوں اور عیاریوں کے باوجود پردہ پوشی کرتا ہے۔ عزت دیئے رکھتا ہے، رزق فراہم کرتا ہے۔ اور دلوں میں باہمی محبت ڈالتا ہے؎
شکر نعمت ہائی تو، چند انکہ نعمت ہائی تو
عذرِ تقصیراتِ ما، چند انکہ تقصیراتِ ما

Thursday, July 09, 2020

مندر

آڈرے ٹرشکے (Audrey Truschke) معروف سکالر اور محقق ہیں۔ نیو یارک کی ایک یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ ابتدا ہی سے مشرقی کلچر، مشرق کی ہسٹری اور مشرقی زبانوں سے دلچسپی تھی۔ سنسکرت پر عبور رکھتی ہیں۔ فارسی، اردو اور ہندی بھی جانتی ہیں۔ مغلوں کی تاریخ پر پڑھا بھی بہت اور لکھا بھی بہت!
2017ء میں انہوں نے اورنگ زیب عالم گیر پر ایک کتاب تصنیف کی۔ ایک سو چالیس صفحات کی اس کتاب پر بھارت میں بہت لے دے ہوئی۔ بی جے پی کے ہم نوائوں کو آڈرے ٹرشکے کی صاف گوئی پسند نہ آئی۔ آڈرے نے دلائل اور حوالہ جات سے ثابت کیا تھا کہ جن چند مندروں کو اورنگ زیب نے گرایا تھا، اس کی وجوہ مذہبی نہیں، سیاسی تھیں اور سکیورٹی سے متعلق تھیں۔ اس کے مقابلے میں جن مندروں کی اس نے کفالت کی، جنہیں جاگیریں، زمینیں اور رقوم دیں، ان کی تعداد بہت زیادہ تھی۔
پاکستان میں آج کل جو بحث چل رہی ہے، اس کے پیشِ منظر یہ مناسب محسوس ہوا کہ یہ اور کچھ اور معلومات شیئر کی جائیں۔ اس حقیقت کا تذکرہ بے جا نہ ہو گا کہ برِّ صغیر کے مسلمانوں کی اکثریت بالعموم، اور مذہبی طبقات بالخصوص اورنگ زیب عالم گیر کو ایک پرہیز گار اور دیانت دار بادشاہ سمجھتے ہیں اور اس کی حکومت کو، باقی مغل بادشاہوں کے اقتدار کے مقابلے میں، اسلامی قرار دیتے ہیں۔ فقہ حنفی کی نمایاں ترین کتاب ''فتاویٰ عالم گیری‘‘ اورنگ زیب ہی نے مرتب کرائی۔ اس کی تالیف میں آٹھ برس لگے۔ درجنوں نامور علما اور فقہا نے اس میں حصّہ لیا، اورنگ زیب نے ہر مرحلے پر نگرانی کی۔ دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ وقتاً فوقتاً اس کے مختلف حصے پڑھوا کر سنتا تھا اور اپنی رائے دیتا تھا۔
تخت نشینی کے نویں سال اورنگ زیب نے گوہاٹی (آسام) کے اومانند مندر کے بارے میں ایک فرمان جاری کیا، اس کی رُو سے اُس زمین کی تصدیق کی جو حکومت نے مندر کو پہلے دی تھی۔ ساتھ ہی ٹیکس جمع کرنے کا اختیار بھی تفویض کیا۔ 1680ء میں اس نے حکم جاری کیا کہ ہندو جوگی بھگونت گوسائیں کو، جو بنارس میں گنگا کے کنارے رہتا تھا، پریشان نہ کیا جائے۔ 1687ء میں اورنگ زیب نے بنارس کے ہندوئوں کو زمین دی تا کہ برہمنوں اور نیک فقیروں کے لیے رہائش گاہیں تعمیر کی جائیں۔ 1691ء میں (وفات سے سولہ سال قبل) ہندوئوں کے مقدس مقام چتر کوٹ میں آٹھ دیہات پر مشتمل جاگیر دی تا کہ بالا جی مندر کے اخراجات پورے کیے جا سکیں۔ خاندیش (وسطی ہندوستان) میں مقیم ایک برہمن رنگ بھاٹ کو بادشاہ نے 1698ء میں زمین دی جس کے عوض کوئی کرایہ یا ٹیکس نہیں لیا گیا۔ یاد رہے‘ یہ بادشاہ کے زندگی کے آخری آٹھ نو سال تھے۔ پہلے مغل بادشاہوں نے ایک ہندو فرقے ''جنگم‘‘ کو 1564ء میں جاگیر عطا کی تھی‘ وہ ان سے چھین لی گئی۔ ایک مقامی با اثر مسلمان انہیں پریشان کر رہا تھا۔ 1672ء میں اورنگ زیب نے اُس سے بچایا۔ جو ناجائز کرایہ (یا محصول) لیا گیا تھا‘ 1674ء میں وہ بھی واپس کرایا۔
جَین فرقے کے پیروکاروں کو اورنگ زیب نے سرکاری خزانے سے گجرات میں کئی زمینیں دیں۔ وفات سے چار سال پہلے اورنگ زیب نے فرمان جاری کیا کہ جین پنڈت جینا چندر سُوری کو تنگ نہ کیا جائے۔
نوجوان محقق احمد سرفراز چند روز پہلے ایک انتہائی اہم کتاب منظرِ عام پر لے کر آئے ہیں۔ یہ کتاب جس کاعنوان ''ہندو مندر اور اورنگ زیب عالم گیر کے فرامین...‘‘ ہے‘ ڈاکٹر بی این پانڈے کی تصنیف ہے۔ ڈاکٹر پانڈے (وفات 1998ء) کانگرسی تھے۔ نہرو کے قریبی رفقا میں سے تھے۔ یو پی اسمبلی کے رکن رہے۔ الٰہ آباد کے میئر رہے۔ راجیہ سبھا کے دو بار رکن رہے۔ چار سال اوڑیسہ کے گورنر رہے۔ ان کی متعدد تصانیف میں ''اسلام اور انڈین کلچر‘‘ اور ''اورنگ زیب‘‘ بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر پانڈے کی جس تصنیف کا ہم احمد سرفراز صاحب کے حوالے سے ذکر کر رہے ہیں، اس کے مرتب مولانا مفتی عطاالرحمن قاسمی ہیں۔ مولانا آزاد اکیڈمی نئی دہلی نے اسے 2001ء میں شائع کیا۔
احمد سرفراز کہتے ہیں کہ ڈاکٹر پانڈے نے جب 29 جنوری 1977ء کو بھارتی پارلیمنٹ میں ثابت کیا کہ اورنگ زیب مندروں اور گوردواروں کو جاگیریں اور عطیات دینے والا تھا تو پارلیمنٹ پر سکتہ طاری ہو گیا اور کسی کو مخالف کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ اورنگ زیب نے ایک سو ستر بیگھے زمین ستیا کنڈھ کے لیے وقف کی۔ لال قلعہ کے نزدیک واقع جین مندر کو اورنگ زیب وظیفہ دیتا تھا۔ کئی مندروں کے نگران سنتوں کے پاس بادشاہ کے اصل فرامین آج بھی محفوظ ہیں۔ اورنگزیب کی خادمہ مس جولیا عیسائی تھی۔ اس کیلئے چرچ کی تعمیر اور دیگر اخراجات کے ضمن میں شاہی فرمان جاری ہوا جو آج بھی نئی دہلی کے گول ڈاکخانہ چرچ میں آویزاں ہے۔
اجین کے مندر میں ہر وقت دیا جلتا ہے۔ اسے بجھنے نہیں دیا جاتا۔ تمام حکومتیں اس دیے کو روشن رکھنے کے لیے وسائل فراہم کرتی رہیں۔ اورنگ زیب نے اس روایت کو برقرار رکھا اور وسائل مہیا کیے۔ 1685ء میں ایک ہندو ناگر سیٹھ کو اورنگ زیب نے احمد آباد میں مندروں کی تعمیر کے لیے زمین عطا کی۔ آڈرے ٹرشکے اور ڈاکٹر پانڈے کی کتابوں میں بہت سے حوالے مشترک ہیں۔ ڈاکٹر پانڈے ٹیپو سلطان کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ جس قلعہ میں سلطان متمکن تھا وہاں مسجد تھی اور قدیم مندر بھی تھا۔ سلطان ٹیپو ہر سال ایک سو چھپن مندروں کو تحائف اور چڑھاوے بھجواتا تھا!
''دی نیو لیم‘‘ دہلی سے شائع ہونے والا معروف جریدہ ہے۔ 15 جنوری 2019ء کی اشاعت میں بھرت ڈوگرا لکھتے ہیں ''انتہا پسند تنظیمیں مسجد، مندر کا تنازعہ اس شدت سے کھڑا کر رہی ہیں کہ بہت سے لوگ مسلم حکمرانوں کو مندروں کے دشمن سمجھنے لگ گئے ہیں، اس سے زیادہ کوئی بات حقیقت کے خلاف نہیں ہو سکتی۔ یقینا کچھ واقعات مندروں کے انہدام کے پیش آئے مگر اس سے کہیں زیادہ مثالیں مسلمان بادشاہوں کی مندر نوازی کی ملتی ہیں۔ مسلمان بادشاہ کئی مندروں کی تعمیر اور نگہداشت کیلئے وسائل فراہم کرتے رہے۔ ان میں ایودھیا، متھرا اور کئی اور اہم مندر شامل ہیں...‘‘
بھرت ڈوگرا لکھتے ہیں کہ اکبر تو مندر نواز تھا ہی، جہانگیر نے بھی مزید اضافے کیے۔ اودھ کے مسلمان نوابوں نے ایودھیا کے مندر کو کئی گرانٹس (رقوم) دیں۔ نواب صفدر گنج کے دیوان نے کئی مندر تعمیر کرائے۔ نواب نے اس مقصد کیلئے زمین دی۔ دستاویزات شاہد ہیں کہ مسلمان بادشاہوں نے چتر کوٹ، بنارس، اجین اور الہ آباد کے مندروں کیلئے سرکاری طور پر فنڈز مہیا کیے۔ دکن کے حکمران ابراہیم عادل شاہ نے کئی ہندو عبادتگاہیں تعمیر کرائیں۔ بہمنی سلطنت کے فرمانروا سلطان علائوالدین ثانی نے اپنے محل کے نزدیک ایک چھوٹا سا خوبصورت مندر تعمیر کرایا۔ پندرھویں صدی کے کشمیری حکمران زین العابدین نے کئی مندر تعمیر کرائے۔
ایودھیا کے سب سے زیادہ مشہور اور اہم مندر کا نام ہنومان گڑھی ہے۔ مہنّت گیان داس اس کا پروہت ہے۔ 1962ء سے وہ اس عہدے پر فائز ہے۔ نومبر 2019ء میں اس نے گلف نیوز کے ایڈیٹر جناب بوبی نقوی کو بتایا کہ یہ مندر 1774ء میں اس 52 بیگھہ زمین پر بنا تھا جو نواب شجاع الدولہ نے مندر کیلئے سرکاری طور پر دی تھی۔ تعمیر بھی نواب ہی نے کرایا۔ ان کے بیٹے منصور علی بھی بہت فیاضی سے مالی امداد دیتے رہے۔ فارسی میں لکھا ہوا اصل فرمان گیان داس کے پاس آج بھی محفوظ ہے۔ وہ اسے فخر سے دکھاتا ہے۔ اسکی تصویر، جس میں وہ مُہر لگا اصل فرمان دکھا رہا ہے، گلف نیوز میں شائع ہوئی۔ مندر کے ساتھ ایک عالی شان مسجد بھی ہے۔

Monday, July 06, 2020

قالین اٹھا کر دیکھیے نیچے کیا ہے

ابھی تک آسمان سے پتھر نہیں برسے۔ ابھی تک بادلوں نے آگ نہیں برسائی۔ ابھی تک وہ چاردیواریاں جہاں بیٹیاں محفوظ نہیں‘ زمین کے اوپر موجود ہیں‘ زمین کے پیٹ میں نہیں گئیں!
متعلقہ وزیر نے درست کہا کہ ''یہ میرے بچے ہیں! میں ان کی حفاظت کروں گا‘‘۔ یہ اور بات کہ ابھی تک معاملہ جہاں تھا‘ وہیں پڑا ہے!
وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے۔ کمیٹی بنا دی گئی! کمیٹی نے رپورٹ دی کہ سکول انتظامیہ نے کمیٹی کے ساتھ تعاون ہی نہیں کیا۔ طالبات سے ملاقات کرائی نہ ڈیٹا فراہم کیا۔ کمیٹی کے بقول سکول انتظامیہ کا مؤقف یہ ہے کہ وہ طالبات کی ذاتی معلومات شیئر نہیں کر سکتے۔ کون سی ذاتی معلومات ؟ سب کچھ تو طالبات نے سوشل میڈیا پر پوری دنیا سے شیئر کر دیا ہے۔ افراد کے نام‘ ان کی تصویریں ان کے پیغامات‘ سب کچھ سوشل میڈیا پر موجود ہے۔ یہ ''تعلیم‘‘ ایک عرصہ سے دی جا رہی تھی۔ ان افراد کے نام بھی مبینہ طور پر دیئے گئے ہیں جن سے طالبات فریاد کرتی رہیں مگر وہ کوڑے کرکٹ کو قالین کے نیچے سرکاتے رہے۔
حکومت ایکشن لینا چاہتی تو کمیٹیوں اور رپورٹوں کے سرخ فیتے میں پڑنے کے بجائے ڈائریکٹ ایکشن لے سکتی تھی!
ایک رائے یہ بھی ظاہر ہوئی ہے کہ کچھ قصور طالبات کا بھی ہوگا! یہ رائے ہمارے معاشرے کی مجموعی رویے سے مناسبت رکھتی ہے! قصور آخر میں لڑکی یا عورت ہی کا نکلتا ہے! یہاں تو بڑے بڑے جغادریوں کے وڈیو کلپ موجود ہیں جن میں ان کا ''فلسفہ‘‘ یہ ہے کہ عورت کے ساتھ زیادتی ہو تو اسے خاموش رہنا چاہیے۔ جس معاشرے میں عورت کو‘ آج بھی‘ کم و بیش‘ فرنیچر کا پیس سمجھا جاتا ہے‘ جہاں لڑکے والے آ کر لڑکی کو ''دیکھتے‘‘ ہیں‘ پھر اسے منظور یا رد کرتے ہیں‘ جہاں عورت کو یہ نصیحت کی جاتی ہے کہ جہاں جا رہی ہو وہاں سے جنازہ ہی نکلنا چاہیے‘ جہاں پانچ پانچ برس کی بچیوں کو ساٹھ ساٹھ سال کے بڈھوں سے ''بیاہ‘‘ دیا جاتا ہے اس لیے کہ جرم بچیوں کے باپ یا بھائی نے کیا تھا‘ جہاں عورتوں کے چہرے تیزاب سے مسخ کیے جاتے ہیں اور مجرم پکڑے نہیں جاتے‘ جہاں بیٹی جنم دینے پر عورت کو مارا پیٹا جاتا ہے اور طلاق دے کر گھر سے باہر نکال دیا جاتا ہے‘ جہاں بچہ پیدا نہ کرنے کا نقص ہمیشہ عورت ہی میں دریافت کیا جاتا ہے‘ وہاں ایسی رائے کا اظہار اچنبھے کی بات نہیں! بے شک درجنوں طالبات الزام لگا رہی ہوں‘ موجودہ بھی‘ سابق طالبات بھی‘ پھر بھی قصور کا کچھ حصہ لڑکیوں پر ضرور تھوپنا چاہیے! اس لیے کہ یہاں حرفِ آخر مرد ہی کا چلے گا۔ اسی کے منہ سے نکلا ہوا حرف قانون بنے گا!
ایک تعلیم یافتہ معمر خاتون بتا رہی تھیں کہ انہیں کہیں جانے کے لیے شوہر کے علاوہ بیٹے سے بھی اجازت لینا پڑتی ہے! ماں کے قدموں میں جنت ہو گی تو ہو گی‘ ابھی تو ماں پر حکومت بھی بیٹا کرتا ہے اور اس لیے کہ وہ مرد ہے!!
اس ملک کا بچہ بچہ اسلام کے لیے جذباتی ہے! مگر سنتِ رسولؐ پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں! جہانوں کے سردارﷺ اپنا کرتہ دھو رہے تھے۔ دیکھنے والے نے پوچھا کہ آپ پیغمبر ہو کر کپڑے دھو رہے ہیں۔ فرمایا: اس سے پیغمبری کو کیا فرق پڑتا ہے (مفہوم)۔ جوتے گانٹھتے تھے۔ گھر کا کام کرتے تھے۔ ایک عورت آتی ہے۔ کہتی ہے: یا رسول اللہؐ! میں اپنے میاں کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔ پوچھا کیوں؟ کہتی ہے: مجھے وہ پسند نہیں! آپ مزید کچھ نہیں پوچھتے کہ کیوں پسند نہیں! یہاں عورت سے کوئی پوچھتا ہی نہیں کہ فلاں مرد سے شادی کرنا منظور ہے یا نہیں؟ ذمہ داریاں بھی اس پر ہیں‘ قصور بھی اسی کے سر ہیں۔ ملازمت کرے تب بھی گھر کی ذمہ داریاں نبھائے۔ جیسا بھی ماحول ہو‘ گزر بسر کرے۔ مانا کہ سو فیصد گھروں میں ایسا نہیں۔ خواتین بھی افراط و تفریط کی مرتکب ہوتی ہیں۔ ا یسی ایسی ''بہادر‘‘ خواتین بھی ہیں کہ آتے ہی مرد کو اور اس کے ماں باپ کو ''سیدھا‘‘ کر دیتی ہیں۔ بیٹی کی پیدائش پر خوش ہونے والے خاندان بھی ہیں۔ بہو کو بیٹی سمجھنے والے سسرال بھی یقینا موجود ہیں‘ مگر اوپر جو کچھ عورت کی حالتِ زار پر کہا گیا ہے وہ اکثریت کو سامنے رکھ کر کہا گیا ہے!
تعلیمی ادارے میں پردے کے پیچھے سے جو کچھ ظاہر ہوا‘ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ اس پہلو کی تفہیم کے لیے ذرا اس پوسٹ پر نظر دوڑائیے جو کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر وائرس ہو رہی ہے۔
تاریخی ڈرامہ ارطغرل دیکھنا چھوڑئیے اپنے ڈرامے دیکھیے! اپنا کلچر دیکھیے:
ایک چینل لگایا۔ ڈرامے میں رنگ رلیاں منائی جا رہی تھیں۔
دوسرا ڈرامہ لگایا: اس میں بھی ایسا کچھ ہی ہو رہا تھا!
ایک اور چینل لگایا: باس اپنے ملازم کی عزت میں نقب لگا رہا ہے۔
ایک اور چینل لگایا: سسر بیٹے کی حرمت کے پیچھے پڑا تھا۔
ایک اور ڈرامے میں ایک لڑکی کے پیچھے پانچ بھیڑئیے لگے ہیں۔
کیا یہ ہمارا کلچر ہے؟ یا پھر یہ مصنفوں‘ پروڈیوسروں اور ڈائریکٹروں کے گھروں کا کلچر ہے؟ پاکستان میں رہنے والا عزت دار انسان یہ ڈرامے فیملی کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتا۔سوشل میڈیا پر چینلوں اور ڈراموں کے نام بھی درج ہیں؛ تاہم پرنٹ میڈیا کی اپنی حدود و قیود ہیں اس لیے یہ (اصل) نام حذف کر دئیے گئے ہیں۔ یہ کثافت چھوٹی سکرین پر ایک عرصہ سے پھیلائی جا رہی ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ان ناقابلِ دید ڈراموں میں کام کرنے والے اداکاروں میں ہی سے کچھ ایسے بھی ہیں جو مبینہ طور پر ان گراں بہا طاقت ور تعلیمی اداروں میں پڑھانے کے مقدس کام پر مامور ہیں! کہاں یہ تصور کہ استاد باپ ہوتا ہے اور اخلاق سکھاتا ہے اور کہاں یہ قیامت کہ ڈراموں میں نا مناسب کردار ادا کرنے والے ایکٹر تعلیمی اداروں میں بھی سرنگیں لگا چکے ہیں!
چلیے‘ اسے استثنائی معاملہ سمجھ لیتے ہیں۔ یقینا ایک آدھ مثال ہی ایسی ہوگی! مگر اصل سوال یہ ہے کہ جب ہر روز چینلوں پر ایسے کھیل دکھائے جائیں گے جن میں محرم اور غیر محرم کی تمیز نہیں ہوگی‘ گھروں کے اندر حرمتیں پامال ہوتی دکھائی دیں گی۔ مقدس رشتوں کی حدود پامال کرنے کے مظاہرے ہوں گے‘ تو نژادِ نو پر کیا اثر پڑے گا؟ ہم کون سی فصل تیار کر رہے ہیں؟ کس نوعیت کے بیج بو رہے ہیں؟ کیا ہم خاندانی نظام کو انتشار کی نذر کرنا چاہتے ہیں؟
کچھ ذمہ داری والدین کی بھی ہے۔ بچوں کو اتنا رسمی اور خوف زدہ نہ کیجیے کہ کسی ایسی قباحت کی شکایت کرتے ہوئے ڈریں اور کئی بار سوچیں۔ ان کے معاملات اور مسائل میں دلچسپی لیجیے۔ بات بات پر ٹوک کر ان کی خود اعتمادی کو مجروح نہ کیجیے۔ دن بھر کی روداد ان سے سنیے اور دلچسپی لے کر سنیے۔ تبھی وہ آپ سے اپنی ہر بات شیئر کریں گے۔
ایک انگریزی معاصر میں ایک خاتون نے ایک اور آپشن بھی بتایا ہے۔ اس کی بیٹی اسی ادارے میں زیر تعلیم تھی۔ اس نے گارڈ کی مشکوک نظروں کی شکایت کی۔ خاتون نے اسے عبابا پہنا کر بھیجنا شروع کر دیا۔ یہاں مذہب کو درمیان میں نہ لائیے۔ اسے حفاظتی ہتھیار کے طور پر دیکھیے۔ کورونا سے بچنے کے لیے ماسک بھی تو پہن رہی ہیں‘ ہوس ناک نظروں سے محفوظ رہنے کے لیے یہ بھی کر دیکھیے۔ اگرچہ یہاں بچائو کی گارنٹی پھر بھی نہیں!

 

 

powered by worldwanders.com