Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, March 31, 2020

سہیلی بوجھ پہیلی



گھر میں بیٹھے ہیں تو کیا کریں؟
بچوں کے ساتھ لڈو کھیلی۔ کیرم بورڈ کھیلے۔ اس میں میرا نواسہ ہاشم مجھے مات کر دیتا ہے۔ کتابیں پڑھتے ہیں۔ ٹی وی دیکھتے ہیں۔ سب گھر والے کسوٹی بھی کھیلتے ہیں۔ ویسے ایمانداری کی بات ہے کھیل کے دوران ''روند‘‘ (Cheating) نہ کی جائے تو مزہ نہیں آتا۔ دیانت داری سے کھیلنے کا لطف خاک نہیں ثواب حاصل کرنے کیلئے اور بہت سے کام ہیں۔
ایک دلچسپ شغل پہیلیاں بوجھنا ہے۔ ہمارے لڑکپن میں یہ کھیل عام تھا۔ کورس کی کتابوں میں بھی ایک دو سبق پہیلیوں کے ضرور ہوتے تھے۔ کچھ تو آج تک یاد ہیں۔ جیسے ہری تھی‘ من بھری تھی‘ راجہ جی کے باغ میں‘ دو شالہ اوڑھے کھڑی تھی۔ یہ مکی کا بھٹہ (چھلّی) ہے۔
کچھ اور بجھارتیں دیکھئے:۔
٭ ذرا سی بچی‘ اتنا لمبا پراندہ (یہ سوئی دھاگہ ہے)
٭ ایک کٹورا‘ اس میں دو رنگا پانی (انڈا)
٭ دو سگے بھائی‘ کبھی اکٹھے‘ کبھی جدا (دروازے کے دو کواڑ)
٭ خود تو جا رہے ہو‘ ساتھ کون ہے؟ (سایہ!)
٭ اگلی اچھی ہے نہ پچھلی‘ مگر جو درمیان میں ہے اس پر میں قربان (جوانی)
٭ چھوکری کے سر پر راکھ کی ٹوکری (چلم)
٭ ذرا سی لڑکی‘ چھوٹے چھوٹے دانت کھا کھا کر سیر نہ ہو‘ گٹھری بھر کر لائے (درانتی)
٭ ایک قلعے میں بُرج ہزار‘ بُرج بُرج میں تھانیدار‘ دیکھو یار سپاہی کیسے بن ہتھیار کریں لڑائی (بھڑوں کا چھتہ)
٭ پیٹ سے نکالو پسلی میں مارو (ماچس)
٭ چار ستون ہلتے آئیں‘ دو پنکھے ساتھ چلائیں (ہاتھی)
یہ پہیلیاں آپ گھر والوں کو بٹھا کر پوچھئے‘ ان کی ذہانت کا امتحان لیجئے‘ مگر آئیے‘ پہلے میں اور آپ ''سہیلی بوجھ پہیلی‘‘ کا کھیل کھیلیں۔
بتائیے‘ پاکستان کا سب سے زیادہ طاقت ور طبقہ کون سا ہے؟
آپ کا جواب ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور مسلح افواج۔ مگر جواب غلط ہے!
یہ طبقہ ہوگا طاقت ور مگر اتنا بھی نہیں! ان کے اندر احتساب کا کڑا سسٹم ہے۔ آڈٹ ان کا سخت ہے۔ ایک خاص عمر کے بعد ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ کورٹ مارشل ہوتے ہیں۔ سول عدالتوں میں حاضر ہوتے ہیں۔ ٹیکس ان پر ٹھیک ٹھاک لگتا ہے۔ پھر یہ جان کی بازی بھی لگاتے ہیں۔ ہزاروں شہید ہو چکے۔ نہیں! پھر کوشش کیجئے۔
اب آپ کا جواب ہے سیاست دان۔
مگر افسوس یہ بھی درست نہیں!
سیاست دان طاقت ور ترین طبقہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ان کو تو پھانسیاں لگیں۔ گولیوں سے شہید ہوئے۔ جیلوں میں ٹھونس دیئے جاتے ہیں۔ الیکشن ہار جائیں تو طاقت کا بھرکس نکل جاتا ہے۔ ایف بی آر سے لے کر ایف آئی اے تک‘ نیب سے لے کر پولیس تک سب ان کے پیچھے لگے رہتے ہیں‘ کردار کشی ان کی سب کرتے ہیں۔ دفاع کم ہوتا ہے۔ عدالتیں نااہل قرار دے دیتی ہیں۔ عوام الگ محاسبہ کرتے ہیں‘ اقتدار ملے تو کانٹوں کی سیج ثابت ہوتا ہے۔ چوبیس گھنٹے میڈیا کی نظروں میں رہتے ہیں۔ رہی سہی کسر ان کے آپس کے جھگڑے نکال دیتے ہیں۔ ایک دوسرے کو بے نقاب کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ نہیں جناب! یہ سب سے زیادہ طاقت ور نہیں!
اب آپ کہتے ہیں سب سے زیادہ طاقت ور طبقہ عدلیہ ہے۔ مگر یہاں بھی آپ سے چوک ہو گئی۔ عدلیہ کی چاندنی تو چار دن کی ہوتی ہے۔ ریٹائرمنٹ کی تلوار سروں پر لٹکی رہتی ہے۔ کہاں گئے چودھری افتخار؟ کہاں ہیں ثاقب نثار؟ ایف بی آر سے یہ بچ نہیں سکتے۔ سپریم جوڈیشل کونسل انہیں ہلنے نہیں دیتی۔ وکلا کی جانب سے کیا سلوک کیا جاتا ہے ‘ اس کا بیان نہ کرنا ہی بہتر ہے! ماضی کے عسکری حکمرانوں نے ان پر ایسی ایسی قدغنیں لگائیں کہ یہ بے بس ہو کر رہ گئے۔
تو کیا آپ سول بیورو کریسی کو سب سے زیادہ طاقت ور طبقہ گردانتے ہیں؟ آپ کے خیال میں یہ سیاست دانوں کو‘ حکمرانوں کو‘ آمروں کو انگلیوں پر نچاتے ہیں‘ اپنا الّو سیدھا کرتے ہیں! کمائیاں کرتے ہیں۔ ٹھاٹھ سے رہتے ہیں۔ بیگمات ان کی قابلِ رشک معیارِ زندگی سے لطف اندوز ہوتی ہیں۔ مگر ایک بار پھر آپ کا جواب غلط ہے!
انگلیوں پر نچانے والے بیورو کریٹ دس پندرہ فی صد سے زیادہ نہیں۔ اکثریت افسر شاہی کی آج بھی دیانت دار ہے اپنی اوقات میں رہتی ہے۔ ایسٹا کوڈ کی تلوار ان کے سروں پر لٹکی ہے۔ چارج شیٹ ہوتے ہیں۔ ترقیاں رک جاتی ہیں۔ برطرف کر دیئے جاتے ہیں۔ دور افتادہ مقامات پر کٹھن زندگیاں گزارتے ہیں۔ نیب پیچھے لگی رہتی ہے۔ ٹیکس تنخواہوں سے‘ انہیں پوچھے بغیر ہی‘ کاٹ لیا جاتا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد روپے کے دس ملتے ہیں۔ میرؔکی طرح خوار پھرتے ہیں۔ کوئی پوچھتا نہیں! نہیں!
آپ غلط ہیں۔ پھر سوچئے!
سبحان اللہ! کیا کہا آپ نے؟ میڈیا؟
واہ جناب واہ! قربان آپ کی ذہانت کے! میڈیا کیسے طاقت ور ترین طبقہ ہو گیا ہے؟ خدا کا خوف کیجئے! جو کچھ میڈیا کے ساتھ ہوتا ہے‘ خدا دشمن کو بھی اس سے محفوظ رکھے۔ ظفر علی خان‘ محمد علی جوہر‘ شورش کاشمیری سے لے کر آج کے اخبار اور چینل تک۔ بندشیں ہی بندشیں نظر آ رہی ہیں۔ الطاف  بھائی نے تو اس میڈیا کو رسیوں سے باندھ کر رکھا ہوا تھا۔ یہ بھی ٹیکس سے‘ تھانوں سے‘ عدالتوں سے مستثنیٰ نہیں! ان پر پابندیاں بھی لگ جاتی ہیں۔ پیمرا سر پر بیٹھا ہے وزارتِ اطلاعات والے چھریاں تیز کرتے رہتے ہیں۔ نوکری سے فارغ کر دیے جاتے ہیں یہ تو کمزور طبقہ ہے! پھر سوچئے!
اب آپ نے کہا ہے کہ جاگیردار‘ سردار‘ زمیندار طبقہ طاقت ور ترین ہے! تیس برس پہلے آپ کا جواب درست ہونے کا امکان تھا مگر آج نہیں! یہ تو زوال پذیر ہیں مسلسل زوال پذیر! منتخب اداروں کو دیکھئے‘ تیس چالیس سال پہلے ان کی تعداد اسمبلیوں میں کیا تھی اور آج کیا ہے؟ پہلے سے کہیں کم!
کھاد‘ بیج اور زرعی مشینری کی قیمتوں نے انہیں بے بس کر رکھا ہے۔ اوپر اوپر سے ٹھاٹھ باٹھ دکھاتے ہیں۔ اندر سے حالت پتلی ہے۔ جاگیریں بیچ رہے ہیں۔ قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکتے۔ زرعی پیداوار کی قیمتوں کا منڈی میں اتار چڑھاؤ انہیں کبھی اوپر لے جاتا ہے کبھی نیچے پٹخ دیتا ہے! ہاریوں کو موقع جب بھی ملتا ہے‘ ان کی جڑیں کاٹنے لگتے ہیں۔ ایک دوسرے کا قافیہ الگ تنگ کرتے ہیں! زرعی زمینوں پر کارخانے لگتے جا رہے ہیں۔ ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنتی جا رہی ہیں۔ اس طبقے کے ستارے گردش میں ہیں۔ آگے چلئے! آپ کے باقی جوابات بھی درست نہیں! کبھی آپ  تاجروں کا نام لیتے ہیں کبھی صنعتکاروں کارخانہ داروں کا   -کبھی ٹرانسپورٹ طبقے کو طاقت ور ترین قرار دیتے ہیں کبھی ٹرکوں ویگنوں بسوں ٹیکسیوں کے ڈرائیوروں کو! پھر آپ ڈاکٹروں کا نام لیتے ہیں۔ پھر وکیلوں کے طبقے کو آپ سب سے زیادہ پاور فُل کہتے ہیں! مگر نہیں! آپ تو درست جواب کے نزدیک بھی نہیں پہنچ رہے۔ سوچئے۔ پھر سوچئے!
اشارے دے دیتا ہوں‘مگر فائنل درست جواب آپ نے خود دینا ہے! 
غور سے سنئے۔ یہ جو سب سے زیادہ طاقت ور طبقہ ہے۔ یہ ہر قسم کے قانون سے برّی ہے‘ اسے نیب چھُو سکتی ہے‘ نہ ایف بی آر والے اس پر ٹیکس لگا سکتے ہیں۔ ایف آئی اے والے ان سے خائف ہیں۔ جو بھی سیاسی دور ہو‘ مارشل لا ء کا‘ سول آمریت کا‘ جمہوریت کا‘ یہ طبقہ دن دونی رات چوگنی ترقی کرتا ہے۔ اس پر ملک کے کسی قانون کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ اگر یہ طبقہ کوئی فیصلہ کر لے‘ کچھ ٹھان لے‘ کچھ طے کر لے‘ تو ملکی حکومت کیا‘ پوری دنیا کی طاقتیں اسے یہ فیصلہ بدلنے پر مجبور نہیں کر سکتیں! خلق ِ خدا بھی لاکھ چلائے‘ روئے‘ منت سماجت کرے‘ دلیل دے‘ وکیل کرے‘ یہ طبقہ سرِ مُو اپنے مؤقف سے انحراف نہیں کرتا۔ایک اور اشارہ! حکومتیں اس طبقے سے خائف رہتی ہیں۔ اس کی خوشامد کرتی ہیں۔ چاپلوسی کرتی ہیں۔ اس طاقت ور ترین طبقے کے پاس اپنی افرادی قوت ہے! ہزاروں میں نہیں‘ لاکھوں میں! اس افرادی قوت پر بھی ملک کا کوئی قانون‘ کوئی عدالت کوئی تھانہ‘ کوئی چھاؤنی‘ کوئی فوج اثر انداز نہیں ہو سکتی!ایک اور اشارہ سن لیجئے۔ وسائل اس طبقے کے پاس لامحدود ہیں! کوئی آڈٹ‘ کوئی احتساب‘ کوئی حساب کتاب‘ کوئی اکاؤنٹ فرم‘ اس کے وسائل‘ اس کی دولت‘ اس کے روپے پیسے کا حساب کر سکتا ہے نہ گِن سکتا ہے‘ نہ اندازہ لگا سکتا ہے! یہ طبقہ جس کو چاہے مروا دے‘ جس کو چاہے عوام کی آنکھوں کا تارا بنا دے۔ جس کو چاہے‘ بوٹیاں نچوا دے‘ جس کو چاہے‘ زیرو سے ہیرو بنا دے۔دماغ لڑائیے! سوچئے اور اگر بوجھ لیں تو بلند آواز سے گریز کیجئے۔بس آہستہ سے میرے کان میں بتا دیجئے۔ اس کے بعد زرہ بکتر اور خود پہن کر‘ ہو سکے تو روپوش ہو جائیے۔

Monday, March 30, 2020

لشکروں میں سے ایک لشکر


کچھ باتیں جو فہم و ادراک سے باہر تھیں‘ سمجھ میں آنے لگی ہیں؎
اقبال تیرے عشق نے سب بل دیئے نکال
مدت سے آرزو تھی کہ سیدھا کرے کوئی
ایک ذرۂ ناچیز‘ جو نظر بھی نہیں آتا‘ جس کے بارے میں حتمی طور پر یہ بھی نہیں معلوم کہ جاندار ہے یا بے جان! پورے کرۂ ارض کو لے کر بیٹھ گیا ہے! اور کروڑوں ‘ اربوں‘ کھربوں کی تعداد میں! کہ ہر ملک‘ ہر شہر‘ ہر قصبے‘ ہر گائوں‘ ہر گلی میں موجود ہے! جب سنتے تھے کہ آسمانوں اور زمینوں کے لشکر سب اللہ ہی کے لیے ہیں‘ تو ذہن میں بلبلہ اٹھتا تھا کہ کون سے لشکر؟ سو ایک لشکر اٹھا ہے اور اس نے انسان کو جکڑ کر رکھ دیا ہے! اور جب پڑھتے تھے کہ زمین پر جتنے درخت ہیں اگر قلم بن جائیں‘ سمندر اگر روشنائی بن جائیں اور پھر سات سمندر اور بھی روشنائی کے آ جائیں‘ تب بھی اللہ کی باتیں نہ ختم ہوں۔ تو کون جانے کہ اللہ کی باتیں کیا ہیں! کس کو خبر کورونا جیسی کتنی زندہ یا بے جان مخلوقات اور بھی اس زمین اور اس کی فضا میں موجود ہیں!
جہاز ائیرپورٹوں پر کھڑے ہیں‘ اُڑ نہیں سکتے‘ گاڑیاں پورچوں میں ہیں‘ بیکار ہیں۔ پارک‘ سیرگاہیں‘ کلب‘ جم خانے ویران پڑے ہیں۔ ریستورانوں میں خاک اڑ رہی ہے۔ بڑے بڑے مال جو گاہکوں سے چھلک رہے ہوتے تھے‘ قبرستان بنے ہیں۔ دوستوں کی محفلیں خواب و خیال ہو گئیں۔ اعزہ و اقارب کے گیٹ ٹو گیدر ماضی بعید کا قصّہ لگنے لگے ہیں۔ شادی بیاہ کی تقاریب‘ جنم دنوں کی یاد میں برپا کی جانے والی رونقیں‘ سب ختم ہو گئیں۔ کوئی رخصتی ہے نہ استقبال! کوئی امام ضامن ہے نہ راکھی! جنازہ گاہیں تک پس ماندگان کو ترس گئی ہیں۔ گلی کوچے سُونے پڑے ہیں۔ کھیل کے میدانوں میں ہُو کا عالم ہے۔ بیگمات جو چائے تک خود نہ بناتی تھیں اور انڈا تک نہ ابالتی تھیں‘ تین وقت کھانے پکا رہی ہیں‘ برتن دھو رہی ہیں‘ جھاڑو دے رہی ہیں‘ اور تو اور چور‘ ڈاکو اور راہزن تک بے روزگار ہو گئے۔ موت کا خوف نقب لگانے دیتا ہے نہ کھڑکی کی جالی کاٹنے دیتا ہے۔
نسوانی ملبوسات کی دکانیں‘ جہاں خریدار خواتین کی لڑائیاں ہوتی تھیں‘ عزاداری کر رہی ہیں۔ برانڈز کی عالی شان دکانیں جو آدھی رات تک قمقموں سے جگمگ جگمگ کرتی تھیں‘ کچھ بند ہیں اور کچھ کھل کر پچھتا رہی ہیں۔صرّاف دمکتے زیورات‘ شیشے کے ڈبوں میں رکھے دروازوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ انواع و اقسام کی نان پکانے والے تنور تپش کا ذائقہ تک بھول چکے۔ حجام قینچیوں‘ استروں کو دیکھ دیکھ کر آہیں بھرتے ہیں۔ کہاں انتظار میں بیٹھے‘ اخبار پڑھتے‘ گپ لگاتے گاہک اور کہاں خالی بیمار کرسیاں! وہ جو قرض واپس لینے کے لیے پھیرے پر پھیرے ڈالتے تھے مگر مقروض ہاتھ نہ آتے تھے‘ اب جانتے ہیں کہ مقروض گھر میں موجود ہے مگر اُدھر کا رخ نہیں کرتے! پیروں کے نذرانے‘ بھکاریوں کی بھیک‘ غنڈوں کے بھتّے‘ داداگیروں کے جگّا ٹیکس‘ حرام خوروں کی رشوتیں‘ چاپلوس غرض مندوں کے تحفے تحائف‘ سب اس بے جان وائرس کی نذر ہو چکے ‘ جسے پکڑا جا سکتا ہے نہ مارا جا سکتا ہے؎
اے گروہِ عاشقاں! اس درد کا چارہ کوئی
جس کی صورت ہی نہیں‘ وہ دیکھ پائیں گے کہاں
پیش گوئیاں کرنے والے‘ زائچے کھینچنے والے‘ فال نکالنے والے‘ ستاروں کی چال دیکھ کر تاریخیں طے کرنے والے‘ ہاتھوں کی لکیروں میں مقدر کے دوڑتے گھوڑے دیکھ لینے والے‘ روزانہ کی بنیاد پر ہاروسکوپ کی دکانیں چمکانے والے۔ سب بے روزگار بیٹھے ہیں۔ قحط سالی کے بغیر ہی عشق کا کاروبار بند ہو چکا ہے‘ ایک ایک لمس کو ترسنے والے‘ کوسوں دور بھاگتے پھرتے ہیں۔ کہاں کے عارض و لب‘ کون سے کاکلِ خمدار! معشوق سے چھ چھ فٹ کے فاصلے ماپے جا رہے ہیں۔ غالب کا شعر متروکاتِ سخن میں شامل ہو چکا؎
غنچۂ نا شگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں
بوسے کو پوچھتا ہوں میں منّہ سے مجھے بتا کہ یوں
اب بلّی کسی کا راستہ نہیں کاٹتی کیوں کہ راستوں پر چلنے والے کہیں نظر نہیں آتے۔ گھر ہیں یا قبریں جہاں لوگ زندہ و سلامت گویا دفن ہو گئے ہیں اور جسموں میں جان نہیں کہ باہر نکل سکیں۔ تصّور کیجیے‘ الاسکا سے لے کر نیوزی لینڈ تک‘ فن لینڈ سے لے کر جنوبی افریقہ کے ساحل تک‘ پورے کرۂ ارض پر زندگی ساکت ہے۔ ساکت اور بے حس! صُور نہیں پھُنکا مگر سناٹا ہے‘ ایسا سنّاٹا کہ مکھی اُڑے تو اس کے پروں کی آواز سماعت کو گولی کی طرح لگے۔ انسان کا بس نہیں چل رہا کہ زمین کے مدار سے باہر نکل کر‘ کسی اور سیارے میں پناہ لے۔ ایسا ممکن ہوتا تو صاحبانِ استطاعت مریخ اور زہرہ جا چکے ہوتے۔ نظر نہ آنے والے بے جان ہتھیار نے سب کو یوں بے بس کر رکھا ہے کہ طبقاتی امتیاز ختم ہو چکا ہے۔ ہسپانیہ کی شہزادی ہے یا برطانیہ کا وزیراعظم‘ منسٹر ہے یا ایم این اے‘ کروڑ پتی ہے یا قلاش‘ فقیر ہے یا سخی‘ سب کے اوسان خطا ہیں۔ سب یکساں لاچار ہیں اور خطرے کے سامنے ایک جیسے بے آسرا! بڑے بڑے تیس مار خان قسم کے ملحد پروردگار کو پکارنے لگ گئے؎
آ جائو گے حالات کی زد میں جو کسی دن
ہو جائے گا معلوم خدا ہے کہ نہیں ہے
ایمان والے چھتوں پر چڑھ کر اذانیں دے رہے ہیں اور بے ایمان توبہ تائب ہو رہے ہیں۔ جن کے جگر گوشے سمندر پار ہیں‘ وہاں جا سکتے ہیں نہ انہیں واپس ہی بلا سکتے ہیں‘ یا قسمت! یا نصیب! کب ملاقات ہو!
پھر حالیؔ یاد آتے ہیں۔ نا امیدی کے افق پر آس کی روشنی دکھائی دیتی ہے؎
بس اے نا امیدی! نہ یوں دل بجھا تو
جھلک اے امید اپنی آخر دکھا تو
ذرا نا امیدوں کی ڈھارس بندھا تو
فسردہ دلوں کے دل آ کر بڑھا تو
ترے دم سے مُردوں میں جانیں پڑی ہیں
جلی کھیتیاں تو نے سر سبز کی ہیں
ساری بے بضاعتی کے باوجود‘ انسان سخت جان ہے۔ کئی وبائیں‘ کئی جنگیں‘ کئی سیلاب‘ کئی طوفان دیکھ چکا ہے۔ پیدا کرنے والے نے زمین پر اسے اپنا نائب بنا کر بھیجا تو سخت جانی بھی عطا کی! ہر ابتلا میں بچ نکلتا ہے۔ قدرت ہمت عطا کرتی ہے اور دست گیری کرتی ہے! جس دستِ غیب نے یہ لشکر اتارا ہے‘ وہ اسے واپس بیرکوں میں بھی بھیجے گا۔ امتحان کے یہ دن گزر جائیں گے۔ رسّی کھینچنے والا‘ رسی ڈھیلی کر دے گا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس بھٹی سے کندن بن کر نکلیں گے؟ یا ویسے کے ویسے کورے؟ جو دولت آج بیکار ہے‘ کیا اُس کی خاطر ہم پھر خون سفید کر لیں گے؟ اب جب ہم نے جان لیا کہ گاڑیاں‘ جاگیریں‘ کارخانے کچھ بھی کام نہیں آنے کے تو انہیں محفوظ کرنے کے لیے اور مزید حاصل کرنے کے لیے کیا ہم پھر رشتے اور تعلقات دائو پر لگانا شروع کر دیں گے؟ کیا فریب دہی‘ دروغ گوئی‘ دھاندلی اور ڈھٹائی کی طرف ہم لوٹ جائیں گے؟
اگر ایسا ہوا تو یہ بھی یاد رہے کہ یہ لشکر‘ خدا کے لشکروں میں آخری لشکر نہیں!!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, March 26, 2020

پَھل سے لدی ٹہنی نیچے کی طرف جُھکتی ہے


''استاد محترم!
مطلع کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے فارس (ایران) کی سرزمین پر ایسے افراد ملے ہیں جو زرخیز ذہن اور صائب رائے کے مالک ہیں۔ یہ لوگ حکمرانی کے اہل ہیں؛ چنانچہ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ انہیں موت کے گھاٹ اتار دوں! جناب کی رائے اس ضمن میں کیا ہے؟‘‘
''جن افراد کو تم نے فتح کیا ہے، انہیں قتل کرنا بے سود ثابت ہو گا۔ قانونِ قدرت کے مطابق، اس سرزمین سے ایسی ہی ایک اور نسل اٹھ کھڑی ہوگی۔ ان لوگوں کی فطرت، ان کے ملک کی ہوا اور پانی سے بنتی اور پختہ ہوتی ہے۔ تمہارے لیے بہترین راستہ یہ ہے کہ یہ جیسے بھی ہیں انہیں قبول کر لو۔ انہیں اپنے نظام میں جگہ دو اور کھپائو اور مہربانی سے ان کے دل جیتو!‘‘
یہ سوال سکندرِ اعظم نے پوچھا تھا اور جواب اس کے استاد ارسطو نے دیا تھا۔ مفتوحہ لوگوں کو اپنا معاون بنانے کا اس سے بہتر طریقہ دنیا نے آج تک نہیں سیکھا!
شیر شاہ سوری نے ہمایوں کو برِّصغیر کی سرزمین سے باہر نکال کر دم لیا۔ افغانستان (اس زمانے میں یہ نام نہیں تھا) پہنچ کر بھائیوں سے خطرہ نظر آیا۔ ایران جانے کے سوا چارہ نہ تھا! پہلا ایرانی شہر، بارڈر کراس کرنے کے بعد ہرات پڑتا تھا۔ شاہ طہماسپ نے ہرات کے گورنر کو ہدایت کی کہ ہمایوں کا شایانِ شان استقبال کیا جائے۔ طہماسپ اس سلسلے میں کتنا حساس تھا، اس کا اندازہ اس سے کیجیے کہ ابوالفضل نے اکبر نامہ میں جو ہدایات بادشاہ کی طرف سے نقل کی ہیں وہ چودہ صفحات پر مشتمل ہیں! اور ان سے ایک ہدایت یہ تھی کہ ہمایوں کے لیے جو نان تیار کی جائے اس کا آٹا دودھ اور مکھن میں گوندھا ہوا ہو اور اس میں سونف، تِل اور خشخاش ملائی جائے۔ کسی اور موقع پر یہ ہدایات قارئین سے شیئر کی جائیں گی۔
بہرطور، ہمایوں بادشاہ کے دارالحکومت پہنچا اور ایک برس وہیں رہا۔ ایک بار پکنک پر تھے۔ قالین بچھائی گئی۔ شاہ ایران بیٹھا۔ ہمایوں قالین کے کنارے پر تھا۔ آلتی پالتی مار کر بیٹھتا تو ایک زانو، ننگی زمین پر آتا۔ بجلی کی سی تیزی سے ہمایوں کے ایک مصاحب نے خنجر سے ترکش کو چاک کیا اور اس کا کپڑا وہاں رکھ دیا جہاں زانو رکھا جانے والا تھا۔ اس سرعت، چابکدستی اور جان نثاری سے طہماسپ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا! پوچھا: ایسے جانثاروں کی موجودگی میں، مغلوں نے سلطنت کیسے کھو دی؟ ہمایوں نے وسطی ایشیا سے ساتھ آئے ہوئے سرداروں کی باہمی رنجشوں کا ذکر کیا۔ طہماسپ نے ایک نصیحت کی۔ ایسی‘ جو آبِ زر سے لکھی جانے کے قابل ہے۔ کہا کہ سلطنت دوبارہ ملے تو مقامی لوگوں پر انحصار کرو! ہمایوں کو تو قدرت نے موقع نہ دیا مگر اکبر نے اسی نظریے پر عمل کر کے سلطنت کو استحکام بخشا۔ یہ راجپوت‘ جاٹ اور دیگر مقامی قومیتیں تھیں، جنہوں نے مغلوں کے ہاتھ مضبوط کیے اور حکومت میں شریک کیے گئے! 
کیا کوئی عقل مند، کوئی رجلِ رشید حواریوں میں ایسا ہے جو یہ نکتہ سمجھائے؟ کوئی ہے جو عالی مرتبت کو بتائے کہ ع
نہد شاخِ پُر میوہ سر بر زمین
ثمردار ٹہنی ہمیشہ نیچے کی طرف جھکتی ہے۔
مودی نے جب کشمیر پر وار کیا، آئین کو مسخ کیا اور اہلِ کشمیر کی زندگی جہنم بنا ڈالی تو وہ وقت تھا جب وزیر اعظم کو قومی سطح پر اجماع کا اہتمام کرنا چاہئے تھا۔ یہ حکمران کا فرض ہے کہ اپوزیشن کی طرف قدم بڑھائے، ہاتھ آگے کرے اور پکڑ کر انہیں اپنی طرف مائل کرے! قوموں کی زندگی میں ایسے مواقع آتے ہیں جب جھگڑے، اختلافات سب بالائے طاق رکھنا پڑتا ہے۔ یہ خاندان کا سربراہ ہوتا ہے جو سب کو اکٹھا کرتا ہے۔ دشمن حملہ کرے تو سب ایک ہو جاتے ہیں۔ بھائی سے قطع تعلقی بھی ہو تو جب کوئی بیگانہ بھائی پر حملہ کرے، خون پکارتا ہے، ابلتا ہے، چین سے نہیں بیٹھنے دیتا۔
یہ افتاد وائرس کی جو پڑی ہے، یہ آزمائش کی گھڑی ہے! وزیراعظم پر لازم تھا کہ تمام پارٹیوں، تمام سیاسی زعما کو دعوت دیتے، ساتھ بٹھاتے۔ ایک متفقہ لائحہ عمل طے کرتے۔ مگر افسوس! اپوزیشن تو دور کی بات ہے، صوبائی حکمرانوں کے ساتھ بھی ہم آہنگی نہ ہو سکی۔ ایک حریفانہ کشمکش ہے جو واضح طور پر نظر آ رہی ہے! دراڑیں ہیں جو پیش منظر کو بد نما کر رہی ہیں! وزیراعظم کے ہاتھ میں گرمالا ہے نہ سیمنٹ! حالانکہ یہ گھر کی دیواروں کو گرانے کا نہیں، اونچا کرنے کا وقت ہے! 
لاکھ اختلافات سہی، بلاول، شہباز شریف، مولانا فضل الرحمن، اسفندر یار ولی پاکستانی تو ہیں۔ اپنی اپنی جماعتوں کے سربراہ تو ہیں۔ ان کے ارد گرد ان کے حمایتی بھی پاکستانی ہی ہیں۔ وزیراعظم انہیں اپنے ساتھ بٹھاتے، ان کی سنتے، اپنی سناتے، ہاں، ان حضرات میں سے جو وزیراعظم کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کرتے‘ اپنے آپ کو بے نقاب کر لیتے۔ قوم پر ان کی اصلیت ظاہر ہوتی۔ وزیراعظم سرخرو ہو جاتے!
یہ عجزوانکسار ہے جو حکمرانی کو لمبی زندگی عطا کرتا ہے۔ حریفوں سے ہاتھ ملانے میں انسان کا مرتبہ کم نہیں، زیادہ ہوتا ہے۔ حکمران پوری قوم کا پیشوا ہے۔ بمنزلہ باپ کے ہے۔ بڑے بھائی کی طرح ہے۔ آخر کون سا گڈریا ہے جو کچھ بھیڑوں کو اپنا سمجھے اور کچھ سے بیگانگی برتے۔ 
قیامت کا سماں ہے! تاریخ نے ایسی افتاد پہلے نہیں دیکھی! قلب کی صفائی کا موقع ہے! دشمنی کے بیج دل کی زمین سے نکال باہر پھینکنے کا وقت ہے۔ سیاست میں کوئی جنگ، ذاتی جنگ نہیں ہوتی۔ نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کو معاف نہیں کیا تو کیا حاصل ہوا؟ کچھ پایا نہ جنرل نے کچھ کھویا۔ نفع یا نقصان انسان کے ہاتھ میں نہیں! ذاتِ باری تعالیٰ سب سے زیادہ طاقت ور ہے! یہ ملک کسی کی ذاتی جاگیر نہیں۔ ایوب خان سے لے کر ضیاء الحق تک۔ بے نظیر سے لے کر نواز شریف تک، پرویز مشرف سے لے کر عمران خان تک، سب نے غلطیاں کیں مگر خدمات ملک کے لیے سب کی ہیں! خلوص کا سرٹیفکیٹ انسانوں نے نہیں دینا۔ سو فیصد غلط ہے نہ کوئی صحیح! سب اسی ملک کے باشندے تھے اور ہیں! کوئی کسی کا ایجنٹ تھا نہ ہے! رائے کی غلطی اور بات ہے۔ اذہان ناپختہ بھی ہوتے ہیں۔ سمجھ بوجھ سب میں ایک جیسی نہیں ہوتی۔ عقلِ کل کوئی نہیں! کوئی بھی نہیں! جو دعویٰ کرتا ہے اپنا کھوکھلا پن ظاہر کرتا ہے۔
میکاولی سب کو یاد ہے مگر حکمرانوں کو اس کی ضرورت نہیں۔ ہر شخص میں ایک میکاولی پہلے ہی چھپا ہے۔ اسے مارنے کی ضرورت ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ حکمرانوں کو گلستانِ سعدی کے مندرجات بتائے جائیں۔ ان سے نظام الملک طوسی کا سیاست نامہ پڑھوایا جائے۔ قابوس نامہ کا سبق دیا جائے۔ اخلاقِ جلالی کا کورس کرایا جائے اور عروضی سمرقندی کا چہار مقالہ سنا کر ان کے ذہن نشین کرایا جائے تاکہ وہ حکمرانی کے اسرارورموز سیکھیں، عوام کے دل جیتنے کا فن جانیں اور ملک کے سب طبقات کو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ کرکے، مخالفین کو ساتھ لے کر چلیں اور یوں اپنی قیادت کا لوہا منوائیں۔
ابھی وقت ہے! اب بھی گرمالا ہاتھ میں لے کر، سیمنٹ کے مصالحے سے ان شگافوں کو بھر دیجیے جو عمارت کو خستگی کی طرف لے جا رہے ہیں؎
تو برائے وصل کردن آمدی
نے برائے فصل کردن آمدی
آپ دلوں کو جوڑنے کے لیے آئے ہیں، جدا کرنے کے لیے نہیں! مراد علی شاہ بھی اپنے ہیں، انہیں بلا لیجیے، ان کے سر پر دستِ شفقت رکھیے۔ع
یاد رہ جاتی ہے ایّام نکل جاتے ہیں
کم از کم ان سیاسی رہنمائوں کے ساتھ مل بیٹھنے کی راہ نکالیے جو پارلیمنٹ کے رکن ہیں۔ تاریخ میں اپنا نام مدّبر کی حیثیت سے چھوڑئیے۔ یہ زمانہ خلجیوں اور تغلقوں کا نہیں! یہ چرچل، ڈیگال، لی کوان، مارگریٹ تھیچر اور اینجلا مرکل کا عہد ہے۔ جمہوری دور ہے۔ قائدِاعظم نہرو، پٹیل اور مائونٹ بیٹن کے ساتھ مل کر بیٹھتے رہے۔ 
یہ تو پاکستانی ہیں! مسلمان ہیں!
تحریر کا آغاز ارسطو اور سکندر اعظم سے ہوا تھا۔ ارسطو کی اپنے شاگرد کو نصیحتیں جس کتاب میں مرقوم ہیں اس کا نام سرّالاسرار ہے۔ ارسطو، سکندر کو سمجھانے کے لیے ایک تمثیل سے کام لیتا ہے۔ ایک مجوسی خچر پر سوار کہیں جا رہا تھا۔ اس کے پاس کھانے پینے کا سامان بھی تھا۔ وہیں ایک یہودی پیدل سفر کر رہا تھا، خالی ہاتھ! مجوسی نے یہودی سے اس کا مذہب پوچھا۔ یہودی نے بتایا اور یہ بھی بتایا کہ اس کے لیے غیر یہودی کو قتل کرنا اور اس کا سامان لے لینا جائز ہے۔ اب یہودی نے مجوسی سے یہی سوال کیا۔ مجوسی نے جواب دیا کہ وہ سب کا بھلا چاہتا ہے۔ یہودی نے پوچھا کہ کوئی تمہارے ساتھ ظلم کرے تو تم کیا کرو گے؟ مجوسی نے کہا کہ اوپر ایک خدا ہے جو سب کچھ جانتا ہے اور انصاف کرتا ہے۔ وہ جزا اور سزا کا فیصلہ کرتا ہے۔ پھر یہودی نے کھانا مانگا اور خچر پر سوار کیے جانے کی درخواست کی۔ مجوسی نے خچر اسے دیا مگر وہ خچر بھگا کر فرار ہو گیا۔ راستے میں خچر نے اسے گرایا اور زخمی کر دیا۔ مجوسی بھی پہنچ گیا۔ وہ اپنے خچر پر سوار ہو کر جانے لگا تو یہودی نے پھر منت کی اور معافی مانگی۔ مجوسی نے اسے ساتھ بٹھا لیا اور شہر پہنچ کر اس کے رشتہ داروں کے ہاں جا کر اتارا۔ کچھ عرصہ بعد یہودی مر گیا۔ بادشاہ کو یہ واقعہ معلوم ہوا تو اس نے مجوسی کو اپنا مشیر مقرر کر دیا۔
سبق یہ نہیں کہ یہودی برا تھا۔ سبق یہ ہے کہ خیر، بھلائی، مثبت سوچ اور صلح جوئی کامیابی کی گارنٹی ہے۔

بشکریہ  روزنامہ  دنیا

Tuesday, March 24, 2020

کیا پی ٹی اے اور کابینہ ڈویژن سُن رہے ہیں؟


اگر شہر میں کچھ افراد ہاتھوں میں چھرے لے کر گھوم رہے ہوں‘ کچھ بندوقیں پکڑے ہر طرف ہوائی فائر کرر ہے ہوں اور کچھ چوراہوں پر کھڑے ہو کر عوام میں نشہ آور گولیاں تقسیم کر رہے ہوں تو کیا حکومتی ادارے یہ سب کچھ ہونے دیں گے؟ کیا کوئی ان کا ہاتھ نہیں پکڑے گا؟ انہیں پکڑ کر جیل میں نہیں ڈالے گا؟ کوڑے نہیں مارے گا؟
تو پھر یہ افراد جو یو ٹیوب پر لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں کہ کورونا سازش کے علاوہ کچھ نہیں‘ یہ تمہیں کچھ نہیں کہہ سکتا‘ بے شک ایک دوسرے سے ہاتھ ملاؤ‘ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہو‘ ان کی ویڈیوز بلاک کیوں نہیں کی جا رہیں؟ ایک بہت بڑا ادارہ پی ٹی اے (پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی) سائبر کرام کو کنٹرول کرنے کیلئے قائم ہے ‘وہ اس زہر افشانی کا نوٹس کیوں نہیں لے رہا؟ پی ٹی اے‘ کابینہ ڈویژن کے ماتحت ہے۔ کابینہ ڈویژن براہِ راست وزیراعظم کی نگرانی میں ہے۔ کیا کابینہ ڈویژن کے سیکرٹری کو نہیں معلوم کہ عوام کو اس نازک موقع پر گمراہ کیا جا رہا ہے؟ کیا اُنہوں نے وزیراعظم کو اپنے خدشات سے آگاہ کیا ہے؟ اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کیا کابینہ ڈویژن کو خدشات لاحق بھی ہیں؟ یا بے نیازی کی دبیز چادر تنی ہے؟
یو ٹیوب کی سہولت نے اس ملک میں پہلے سے پھیلی فرقہ واریت کو سو گنا نہیں تو پچاس گنا زیادہ ضرور کر دیا ہے! پہلے یہ فرقہ واریت مذہبی جلسوں میں پھیلائی جاتی تھی۔ ہر فرقہ‘ ہر مسلک‘ اپنی اپنی عبادت گاہ میں اجتماعات منعقد کرتا تھا۔ سننے والے لاکھوں کی تعداد میں نہیں‘ صرف ہزاروں کی تعداد میں ہوتے تھے۔ زہر آلود ‘خطابات سنتے تھے۔ سُن کر باہر آ جاتے تھے۔ آہستہ آہستہ اثرات مدہم ہوتے جاتے تھے‘ مگر یو ٹیوب پر کی ہوئی زہر افشانی تو بار بار سنی جا سکتی ہے۔ جوش‘ ولولہ‘ نفرت کا طوفان‘ اپنے مسلک کی ''سچائی‘‘‘ دوسرے مسلک کا ''جھوٹ‘‘ یہ سب کچھ مدہم پڑتا ہے‘ نہ باسی ہوتا ہے۔ لیپ ٹاپ یا فون کھولئے‘ بٹن دبائیے‘ بیان ایک بار پھر سنیے‘ نفرت تازہ دم ہو جاتی ہے۔
ہمارے واعظین‘ ہمارے مناظر‘ ہمارے مسلکی علماء کرام‘ کفار کی اس ایجاد کو‘ یو ٹیوب کو تلوار کی طرح استعمال کر رہے ہیں۔ چند ویڈیوز کے‘ جو لاکھوں کی تعداد میں دیکھی اور سنی جا رہی ہیں‘ عنوانات دیکھئے اور اندازہ لگائیے کہ تخریب کس رفتار اور کس مقدار میں بروئے کار لا رہی ہے۔
٭ فلاں مولانا کے فتویٰ کا جواب۔
٭ کیا فلاں صاحب بدعتی ہیں؟
٭ کیا فلاںصاحب بدعتی نہیں؟
٭ فلاں مسلک اور فلاں مسلک کے درمیان مناظرہ (کئی ویڈیوز‘ کئی حصّوں پر مشتمل)۔
٭ فلاں کی گستاخی۔
٭ فلاں کی روح جنت میں ہے یا دوزخ میں؟
٭ ایک مولانا صاحب کا دوسرے مولانا صاحب کے حسب نسب پر حملہ اور ان کا جواب۔
٭ فلاں مولانا معافی مانگیں۔
٭ فلاں مولوی صاحب کی طرف سے جواب الجواب۔
٭ کیا عقیدے کا ہاضمہ درست ہے؟
٭ فلاں حضرت کو ماموں کیوں کہا؟
٭ کون حق پر ہے؟ فیصلہ آپ کا۔
٭ یہ کر دو‘ تو مسلک بدل لوں گا۔
یہ محض چند مثالیں ہیں۔ مشتے نمونہ از خروارے۔ صدیوں سے جو مسائل چلے آ رہے ہیں اور لاینحل ہیں‘ انہیں تازہ رکھا جا رہا ہے۔ یوں جیسے کل ظہور پذیر ہوئے ہیں۔ ہر مسلک کے واعظین‘ کچھ عالم‘ کچھ برائے نام عالم‘ یو ٹیوب پر اختلافی مسائل کو ہوا دے رہے ہیں۔ سامعین جھوم رہے ہیں۔ نعرے مار رہے ہیں۔ جوش میں آ کر مٹھیاں بھینچ رہے ہیں۔ ایسی فضا تیار کی جاتی ہے جس میں دوسرے مسلک والا کافر نظر آتا ہے۔ ایک نوجوان مولوی صاحب‘ جن کی ویڈیوز‘ بڑی تعداد میں دیکھی جاتی ہیں‘ خود‘ اپنی زبان سے فرماتے ہیں کہ میں تو بات ہی اختلافی مسائل پر کرتا ہوں!
اگر آپ یہ کہہ کر‘ کندھے اچکا رہے ہیں کہ یہ فرقہ واریت تو شروع ہی سے موجود ہے۔ اب کون سی نئی بات ہو گئی ہے! تو آپ غلطی پر ہیں۔ حضور! یہ یوٹیوب والی فرقہ واریت ہے۔ ہر ویڈیو کے نیچے درست تعداد موجود ہے کہ کتنے لوگوں نے سنا اور دیکھا۔ یہ تعداد لاکھوں میں ہے! ملین در ملین سامعین ان نفرت انگیز ویڈیوز کو آگے پھیلا رہے ہیں۔ پھیلائے جا رہے ہیں۔
ان مسالک کے درمیان مشترک باتیں زیادہ ہیں اور اختلافی کم! مگر ناظرین زیادہ تعداد میں حاصل کرنے کیلئے لازم ہے کہ اختلافی مسائل کو ہوا دی جائے۔ سننے اور دیکھنے والے چسکے لیں۔ ریٹنگ زیادہ ہو۔ آمدنی بھی ہو! شہرت بھی ہو! دلوں میں نفرت کے شعلے بھڑک اٹھیں تو واعظ کو اس سے کیا!
اگر اس ملک میں قانون اور ریاست کا وجود ہے‘ اگر اس ریوڑ کا کوئی چرواہا ہے تو خدا اور رسولؐ کا واسطہ ہے آگ کے ان شعلوں کو بجھاؤ۔ فرقہ پرستی کے سیلاب کے آگے بند باندھو! ورنہ سب کچھ بھسم ہو جائے گا!
ہمارے مذہبی حضرات‘ جس شخص کے خلاف نفرت پھیلانی ہو‘ اسے آن کی آن میں یہودی یا یہودی ایجنٹ قرار دیتے ہیں‘ کیا یوٹیوب کو نفرت پھیلانے کیلئے استعمال کرنے سے پہلے انہوں نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ یو ٹیوب گوگل کی ہے گوگل کی بنیاد لاری پیج اور سرجے برن نے رکھی تھی۔ لاری پیج کی ماں یہودی تھی۔ سرجے برن کے ماں اور باپ دونوں یہودی تھے۔ تو گوگل کا یہ اوزار‘ یوٹیوب‘ ہمارے فرقہ پرست حضرات کو اس قدر محبوب کیوں ہے؟ انہیں تو اس یہودی ایجاد کا مکمل بائیکاٹ کرنا چاہیے!
ہمارے ملک میں جتنی زبانیں‘ جتنی نسلیں اور جتنے قبیلے ہیں‘ اتنے ہی عقیدے اور اتنے ہی مسالک ہیں۔ کارگل سے لے کر کراچی تک‘ واہگہ سے لے کر تفتان تک! سب کی مسجدیں الگ ہیں۔ مدرسے اپنے اپنے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ کم تھا کہ اب یہ ساری ''ورائٹی‘‘ یوٹیوب کے ذریعے گھر گھر‘ دکھائی اور سنائی جا رہی ہے؟ ہونا یہ چاہیے تھا کہ حکومت ثقہ اور متین‘ سنجیدہ اور جید علما پر مشتمل بورڈ بناتی۔ اس میں عوامی نمائندے اور ٹاپ کلاس بیورو کریسی بھی شامل ہوتی۔ یہ سب بیٹھ کر‘ باہمی مشاورت سے فیصلے کرتے کہ کون سی ویڈیو‘ عوام میں پھیلائی جانے کے قابل ہے اور کس پر پابندی لگنی چاہیے۔ یوں لگتا ہے کہ ہم جنگل میں رہ رہے ہیں۔ کوئی حد ہے نہ انتہا! کوئی قانون ہے نہ اصول!
کیا پی ٹی آئی اور کابینہ ڈویژن سُن رہے ہیں؟
جو یو ٹیوب پر لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں کہ کورونا سازش کے علاوہ کچھ نہیں‘ یہ تمہیں کچھ نہیں کہہ سکتا‘ بے شک ایک دوسرے سے ہاتھ ملاؤ‘ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہو‘ ان کی ویڈیوز بلاک کیوں نہیں کی جا رہیں؟ ایک بہت بڑا ادارہ پی ٹی اے سائبر کرام کو کنٹرول کرنے کیلئے قائم ہے ‘وہ اس زہر افشانی کا نوٹس کیوں نہیں لے رہا؟ پی ٹی اے‘ کابینہ ڈویژن کے ماتحت ہے۔ کیا کابینہ ڈویژن کے سیکرٹری کو نہیں معلوم کہ عوام کو اس نازک موقع پر گمراہ کیا جا رہا ہے؟کیا حکومت اور کابینہ ڈویژن سُن رہے ہیں؟

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, March 23, 2020

کیا عرب اور ترک علما کی آرا خلافِ شریعت ہیں؟

''دنیا‘‘ ٹی وی پر جناب مجیب الرحمن شامی اور عزیزم اجمل جامی کے پروگرام ''نقطۂ نظر‘‘ میں پاکستان کے معروف اور بہت ہی محترم عالمِ دین نے رُولنگ دی کہ سنتیں اور نوافل گھر میں پڑھیں‘ جمعہ کا خطبہ مختصر ہو؛ تاہم ''مسجدوں کو بند کرنے کا کوئی سوال نہیں۔ جماعت بھی ہو گی۔‘‘ یہ سترہ مارچ کی بات ہے۔
دوسرے دن یعنی اٹھارہ مارچ کو خبر ملی کہ سعودی عرب کی سینئر علما کونسل کے فیصلے کی رُو سے سعودی عرب بھر کی مساجد میں پنجگانہ نماز اور جمعہ کے اجتماعات معطل کر دیئے گئے۔ میدانِ عرفات کو زائرین کے لیے بند کر دیا گیا۔ کونسل کے پچیسویں اجلاس میں اسلامی شریعت کے اس اصول کا حوالہ دیا گیا کہ ''ہر ممکن حد تک نقصان پہنچانے سے رکنا چاہئے‘‘ چنانچہ شریعت کے تحت یہ جائز ہے کہ وہ جمعہ کی نماز اور مساجد میں تمام فرض نمازوں کو روکیں۔ مساجد میں اذان دیتے وقت یہ جملہ کہا جائے کہ ''نماز اپنے گھروں میں پڑھو‘‘ نماز جمعہ کی جگہ گھروں میں چار رکعت ظہر کی ادا کی جائیں۔
انیس مارچ کو ترکی کے روزنامہ ''حریت‘‘ نے اطلاع دی کہ ترکی میں مسجدیں نمازِ جمعہ کے لیے اور دوسرے دن شبِ معراج کے لیے بند ہوں گی! ہاں انفرادی نماز مسجدوں میں ادا کی جا سکے گی۔
پھر پرسوں یعنی 21 مارچ کو ڈیٹ لائن ریاض کے ساتھ خبر ملی کہ مسجدالحرام اور مسجد نبوی کے اندرونی اور بیرونی حصوں میں نماز پنجگانہ اور نماز جمعہ کی ادائیگی پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ قطر میں دوحہ کی مرکزی مسجد غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دی گئی۔ دیگر مساجد جمعہ کے اجتماعات کے لیے بند کی گئیں۔ کویت، عراق اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ملکوں میں نماز جمعہ کے اجتماعات منعقد نہیں کیے گئے۔
ایک عام پاکستانی اس صورت احوال میں کیا کرے؟ وہ اپنے علما کا احترام کرتا ہے۔ اسے پیدائش سے لے کر اب تک یہی بتایا گیا ہے کہ دین کے معاملات میں علما کا فرمان حرفِ آخر ہے۔ یہ ان کا دائرہ کار ہے، اس میں غیر علما داخل نہیں ہو سکتے۔ دوسری طرف اس کی عقیدتوں کا مرکز سر زمینِ حجاز ہے۔ وہاں کے علما کی قیادت میں مسجدِ نبوی اور مسجدِ حرام میں نمازیں ادا کی جاتی ہیں۔ پورے کرۂ ارض کے مسلمان ان کی اقتدا میں حج ادا کرتے ہیں۔ عمرے ادا کرتے ہیں! مشرق وسطیٰ کے دوسرے ممالک عربی بولنے والے ہیں۔ وہ قرآن و حدیث اور مذہبی منابع کو غیر عرب ملکوں کی نسبت بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ پھر ترکی ہمیشہ سے ہماری محبت اور دینی حمیت کا بہت بڑا مظہر رہا ہے۔ سینکڑوں سال تک مرکزِ خلافت تھا۔ اگر سعودی عرب‘ ترکی اور دوسرے مسلمان ملکوں میں پنجگانہ نمازیں اور نمازِ جمعہ کے اجتماعات معطل کر دیئے گئے ہیں تو سوال اٹھتا ہے کہ کیا دین کے علم سے وہاں کے علما نابلد ہیں؟ یا ان کا اسلام ہمارے اسلام سے مختلف ہے؟ یا کیا ہم ان سے بڑے مسلمان ہیں؟ بقول اقبال ؔع
اب تو ہی بتا تیرا مسلمان کدھر جائے؟
میری محترم علماء کرام کی خدمت میں نہایت ادب سے گزارش ہے کہ اس ضمن میں قوم کی رہنمائی فرمائیں۔ دو ہی امکانات ہیں، یا تو سعودی عرب، کویت، یو اے ای، ترکی کے علماء کرام کی اجازت اور وہاں کی حکومتوں کا ایکشن درست ہے یا خلافِ شریعت ہے! اگر درست ہے تو جو ایکشن وہاں کے مسلمانوں کے لیے درست ہے، وہ یہاں کے مسلمانوں کے لیے بھی درست ہونا چاہئے اور اگر وہاں کے علماء کرام کی رائے اور وہاں کی حکومتوں کا نمازِ پنجگانہ اور نماز جمعہ معطل کرنے کا ایکشن خلافِ شریعت ہے تو ہمارے علما کرام اس پر خاموش کیوں ہیں؟ ہمارے علما کرام ماشاء اللہ شریعت کے حوالے سے اس درجہ حساس ہیں کہ شرعی احکام کی ذرا سی خلاف ورزی پر ان کا ٹویٹ یا میڈیائی بیان سامنے آ جاتا ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف جب غیر مسلم پاکستانیوں کے تہوار میں شریک ہوئے تھے تو ہمارے علما نے فوراً ان پر گرفت کی تھی حالانکہ وہ غیر مسلم پاکستانیوں کے بھی اتنے ہی وزیر اعظم تھے جتنے مسلمان پاکستانیوں کے تھے!
اگر ہمارے علماء کرام، عربوں اور ترکوں کے اس خلافِ شریعت اقدام پر خاموش رہتے ہیں تو اس خاموشی کے بھی ممکنہ اسباب دو ہو سکتے ہیں۔ یا وہ اپنے نہاں خانۂ دل میں اس اقدام کو درست سمجھتے ہیں یا اس کے خلاف احتجاج اس لیے نہیں کر رہے کہ مصلحت پسندی سے کام لے رہے ہیں! تو کیا شرعی معاملات میں مصلحت پسندی کا جواز موجود ہے؟
ایک دلیل یہ پیش کی جاتی کہ ان ملکوں کے علما کرام وہاں کی حکومتوں کے ماتحت ہیں اور سرکاری فیصلوں کی مخالفت کرنے کی تاب نہیں رکھتے۔ یہ ہمارے مذہبی طبقے کا مقبول ترین پوائنٹ ہے۔ مگر یہ دلیل دیتے وقت وہ یہ فرض کر لیتے ہیں کہ سرکاری فیصلے ان ملکوں میں اسلام کے خلاف ہوتے ہیں اور علما کرام اہلِ اقتدار سے مرعوب ہو کر خاموش ہو جاتے ہیں۔ یہ دلیل تکبّر کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ کیا ترکی، سعودی عرب اور مشرقِ اوسط کے دیگر ملکوں کے اربابِ حکومت مسلمان نہیں؟ وہ شریعت کے خلاف فیصلے کیوں کریں گے؟
علماء کرام کا سرکاری سرپرستی میں ہونے یا کام کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ حکومت سے مرعوب ہو کر، یا ڈر کر، یا مجبور ہو کر، ہاں میں ہاں ملائیں گے! خود ہمارے ہاں شریعت سے متعلق سب سے بڑا ادارہ اسلامی نظریاتی کونسل، سرکاری باڈی ہے۔ بظاہر آئینی ادارہ کہلانے کے باوجود، اس کے ارکان کی نامزدگی سو فیصد سرکار کی مرہون منت ہے۔ اس کے ارکان کسی مقابلے کا امتحان دے کر نہیں آتے نہ جمہوری طریق سے منتخب ہوتے ہیں۔ ان کے چنائو میں روابط سے لے کر اہلیت تک سب کچھ گڈ مڈ ہوتا ہے اور کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس سے زیادہ اہل شخص کونسل کے باہر موجود نہیں! یہ ارکان حکومت کے خزانے سے تنخواہ لیتے ہیں اور مراعات بھی! تو کیا یہ ارکان فیصلے حکومت وقت کی طرف دیکھ کر، اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں؟؟
سرکاری سرپرستی میں کام کرنے والے علما کی ایک کلاسیکل مثال فتاویٰ عالم گیری کی ہے۔ احناف کو متعدد منتشر حوالوں سے بے نیاز کرنے کے لیے اورنگ زیب عالم گیر نے اپنے وقت کے جیّد علما پر مشتمل ایک عالی شان کمیٹی بنائی جنہوں نے سالہا سال کی محنتِ شاقہ کے بعد فتاویٰ عالم گیری کو تالیف کیا، ان علما کرام کے لیے بادشاہ نے سرکاری خزانے سے وظائف مقرر کیے۔ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ حکومتوں سے وابستہ علما کرام کے فیصلے قابلِ اعتبار نہیں ہوتے تو فقہ حنفی کی اس معتبر اور عہد ساز کتاب کی کیا وقعت رہ جائے گی؟
کوئی مانے یا نہ مانے، کسی کو یہ بات کڑوی لگے یا اتنی کھٹی کہ گلے میں خراش پڑ جائے سچ یہ ہے کہ پاکستان میں جہاں تک  مساجد ، مدارس اور علماء کرام کا تعلق ہے  ایک قسم کی طوائف الملوکی کا دور دورہ ہے-وزیر اعظم کے حکم سے تعلیمی ادارے بند ہوئے تو مدارس نے دو دن تک اس حکم کی خلاف ورزی کی ۔ پاکستان بڑے مسلمان ملکوں میں واحد ملک ہے جہاں مساجد نجی شعبے کی تحویل میں ہیں اور حکومت کے ہر فیصلے سے بے نیاز! مصر سے لے کر ترکی تک، ملائیشیا سے لے کر سعودی عرب، یو اے ای، قطر اور کویت تک، مسجدیں ریاست کی تحویل میں ہیں۔ اسی لیے ان ملکوں میں حکومتیں علماء کرام کو قائل کرنے کی محتاج نہیں! انہوں نے وہی کچھ کیا جس کا مشورہ ماہرین نے دیا اور علماء کرام نے تائید کی! ہمارے ہاں اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو گا کہ '(ایک معروف ٹی وی اینکر کی اطلاع کے مطابق) لاہور کی ایک مشہور بڑی مسجد میں جمعہ کے روز اردو تقریر چالیس منٹ پر محیط تھی ‘ جس کا لب لباب یہ تھا کہ کورونا اصل میں مسجدیں بند کرنے کی سازش ہے! ایک وڈیو جو وائرس ہو چکی ہے آپ نے بھی دیکھی ہوگی، اس میں ایک عالم دین پورے جوش و خروش سے عوام کو تلقین کررہے ہیں کہ ایک دوسرے سے ہاتھ ملائو اورصفوں میں کندھے سے کندھا ملائو۔ مولانا ذاتی گارنٹی دیتے ہیں کہ کچھ نہیں ہوگا!! سامعین نے ان کی تائید کی!!

Thursday, March 19, 2020

بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور! کب تلک؟


امریکہ اور میکسیکو کے درمیان واقع سرحد تین ہزار ایک سو پچاس کلومیٹر طویل ہے۔ دنیا کے کوئی سے دو ملکوں کے درمیان یہ دسواں طویل ترین بارڈر ہے۔ ہر سال 99 کروڑ افراد اس پر آتے اور جاتے ہیں۔
یہ سرحد جتنی طویل ہے۔ اتنی ہی پراسرار ہے۔ دونوں ملکوں کے جرائم پیشہ افراد کے لیے جنت سے کم نہیں! دونوں ملکوں کے مافیا یہاں سرگرم ہیں۔ قتل، منی لانڈرنگ، اسلحہ کی سمگلنگ، منشیات کی ٹریفک، اغوا برائے تاوان، دلّالی، دستاویزات کے بغیر آمدورفت، قمار بازی، غرض ہر قسم اور ہر نوعیت کے جرائم یہاں سرزد کیے جاتے ہیں۔
ان جرائم کا ایک دلچسپ شاخسانہ میکسیکو میں دیکھنے میں آیا۔ میکسیکو کی حکومت جب اپنے ملک میں اس مافیا کے سرغنوں پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرتی تو وہ چھپ جاتے اور ہزار کوشش اور تمام حکومتی مشینری کی کاوشوں کے باوجود پکڑے نہ جاتے۔ وجہ یہ تھی کہ اندرون ملک، دیہی علاقوں کے مقامی لوگ ان سرغنوں کی پوری پوری حفاظت کرتے۔ انہیں پناہ گاہیں فراہم کرتے، انہیں حکومتی کارندوں سے پوشیدہ رکھتے اور ان کے رازوں کی حفاظت کرتے۔ وجہ کیا تھی؟ دنیا میں کوئی شے مفت نہیں میسّر آتی۔ احسان کیا جائے تو تبھی بدلے میں احسان ملتا ہے۔ وجہ یہ تھی کہ یہ مافیا ان علاقوں کے لیے وہ تمام فلاحی کام سرانجام دیتے جو حکومت اپنی نا اہلی اور بد انتظامی یا غلط ترجیحات کی وجہ سے نہ کر پاتی۔ مجرموں کا یہ گروہ لوگوں کے لیے شاہراہیں بناتا، ہسپتال اور سکول فراہم کرتا اور ہر مشکل میں ان کی مدد کرتا۔ مقامی لوگ اس قدر احسان مند ہو جاتے کہ انہیں اپنا سمجھ کر، انہیں پناہ گاہیں فراہم کرتے!
یہ انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔ عوام سب سے پہلے کیا چاہتے ہیں؟ حکمران کی نیکی اور دیانت داری یا بنیادی ضروریات کی فراہمی؟ یقینا وہ سہولیات کو ترجیح دیں گے جو ان کی زندگیوں کو سہل بناتی ہیں۔ اس مسئلے پر ایک اور زاویے سے غور فرمائیے، ایک گھرانے میں باپ، جو گھرانے کا سربراہ ہے، اہل خانہ کو نیکی کی تلقین کرتا ہے۔ انہیں ہر وقت احساس دلاتا ہے کہ وہ ایک دیانت دار، اصول پسند اور صاحب ایمان شخص ہے۔ اخلاقیات پر درس دیتا ہے۔ نیک ہستیوں کے قصّے سناتا ہے۔ مگر عملاً گھر میں ویرانی کا سماں ہے۔ دیوار خستہ ہے تو باپ اس سے بے نیاز ہے۔ کسی کمرے کی چھت گر پڑی ہے تو مدتوں اسی حالت میں پڑی ہے۔ راشن کئی کئی ہفتے نہیں آتا۔ پانی کا انتظام ناقص ہے۔ افراد خانہ دھکے کھا رہے ہیں مگر صاحب خانہ کو فکر ہے نہ اس میں اتنی قابلیت ہے کہ گھر کے معاشی اور سماجی مسائل حل کر سکے۔
دوسری طرف ایک اور گھرانے میں صاحبِ خانہ اپنی دیانت کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے نہ وعظ و نصیحت سے سمع خراشی کرتا ہے۔ وہ نیک بھی نہیں؛ تاہم گھر کے ایک ایک پہلو کا خیال رکھتا ہے۔ دیوار گری تو فوراً دوبارہ کھڑی کروا دی۔ چھت نیچے آن پڑی تو مرمت شروع ہو گئی۔ راشن وقت پر آتا ہے۔ افرادِ خانہ کی جملہ ضروریات کا بطریقِ احسن خیال رکھا جاتا ہے۔ اب یہ فیصلہ آپ خود کیجیے کہ دونوں میں سے کون اپنے اپنے گھرانے میں مقبول ہے!
تاریخ سے ایک اور مثال دیکھیے! 1930ء کے عشرے میں جب عالمی کساد بازاری نے معیشت پر پنجے گاڑے تو امریکہ ان ممالک میں شامل تھا‘ جو سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس کساد بازاری کا آغاز ہی امریکہ سے ہوا۔ بیروزگاری تیس فیصد تک پہنچ گئی۔ ہزاروں لوگ بے گھر ہو گئے۔ بینکوں کا دیوالیہ نکل گیا۔ امریکی صدر روز ویلٹ نے تعمیر نو کا آغاز کیا۔ بے شمار اقدامات کیے گئے۔ ان اقدامات کی روح یہ تھی کہ تعمیراتی سرگرمیاں شروع کی جائیں تاکہ لوگوں کو روزگار ملے۔ اہم ترین ادارہ جو بنایا گیا، اس کا نام ''ورکس پراگرس ایڈمنسٹریشن‘‘ تھا۔ یعنی تعمیراتی کام۔ نئی شاہراہیں، ڈیم، پُل اور عمارات تعمیر کی گئیں۔ پہلے سال ہی تیس لاکھ افراد کو روزگار ملا۔
جب آپ شاہراہوں کی تعمیر روک دیتے ہیں۔ پُل نہیں بناتے، ٹرانسپورٹ کے لیے سٹیشن نہیں تعمیر کرتے تو یہ ایک دو دھاری تلوار ہے جو آپ خلقِ خدا پر چلا رہے ہوتے ہیں۔ ایک طرف تو ذرائع آمد و رفت کا قحط پیدا کر رہے ہیں، دوسری طرف تعمیراتی سرگرمیاں روک کر لاکھوں افراد کو بے روزگاری کی کھائی میں پھینک رہے ہیں!
بدترین صورت حال پنجاب میں ہے۔ جو توانائی، سرگرمی اور تیاریاں ڈینگی سے لڑنے کے لیے ماضی میں دیکھی گئیں، آج کے بحران میں اُس توانائی، اس سرگرمی اور ان تیاریوں کا عشرِ عشیر بھی نظر نہیں آ رہا۔ عوام سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ ان کی آنکھیں بھی ہیں اور دماغ بھی! اس سونے کا کیا فائدہ جس سے کانوں میں پیپ پڑ جائے۔ لوگوں کا فائدہ اس میں ہے کہ ڈرائیور جو بھی ہے جیسا بھی ہے، گاڑی چلتی رہے۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ وہ نشہ کرتا ہے یا تہجد پڑھتا ہے۔ ان کا مفاد اس میں ہے کہ سفر جاری رہے! اس نیکو کار ڈرائیور کا کیا فائدہ جس کی ''اہلیت‘‘ کے نتیجے میں گاڑی سڑک کے درمیان کھڑی ہو اور مسافر فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوں!
اس سب سے بڑے صوبے کو ایک متحرک، توانا، فعال اور انتھک سربراہ کی ضرورت ہے اور سخت ضرورت! ایسا جس کی جسمانی سکت بھی قابلِ شک ہو، اور ذہنی اعتبار سے بھی اپنے ماتحتوں سے برتر ہو! ہونا یہ چاہئے تھا کہ کورونا وائرس کا شور پڑتے ہی سسٹم بن جاتے۔ صوبے میں داخل ہونے والے ہر شخص کی جانچ پڑتال ہوتی۔ متعدد راستے بند کر کے صرف اتنے راستے کھلے رکھے جاتے جن کی نگرانی ممکن تھی۔ ڈاکٹروں کی ٹیمیں بنا دی جاتیں۔ صوبے کا سربراہ چین کا ہنگامی دورہ کرتا۔ وہاں سے متعلقہ معلومات براہ راست لیتا، کچھ سیکھتا، کچھ، آ کر، اپنے افسروں اور منیجروں کو سکھاتا۔ ہر روز بلا ناغہ اجلاس ہوتے جن میں کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا۔ بحث ہوتی، نئے سے نیا لائحۂ عمل وضع کیا جاتا!
محنتِ شاقہ اور کڑی نگرانی کے نتیجے میں آج ہزاروں متاثرین، ٹائم بم کی صورت نہ اختیار کرتے!
صدیوں کے تجربے کے بعد دنیا نے یہی تو سبق سیکھا ہے کہ ہر کام کے لیے صرف اس فرد کو مامور کیا جائے جو اس کا اہل ہے۔ کبھی کہا گیا کہ رائٹ مین فار دی رائٹ جاب! کبھی مذہب نے متنبہ کیا کہ امانتیں صرف اہل لوگوں کے سپرد کرو۔ کبھی عوام نے ایک مجموعی فضا سے یہ فیصلہ کیا کہ کون ان کے لیے زیادہ سود مند ہے اور کون محض بوجھ! 
اس میں کیا شک ہے کہ سندھ کی انتظامیہ سبقت لے گئی ہے۔ نتائج اس پروردگار کے ہاتھ میں ہیں جس کی مٹھی میں جہانوں اور زمانوں کی طنابیں ہیں۔ مگر جو اقدامات سندھ میں کیے گئے ہیں، جو تیز رفتاری دکھائی گئی ہے اور جس سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا ہے، وہ نہ صرف قابلِ رشک ہے بلکہ قابلِ تقلید بھی ؎
اب اُس کا کرم ہے گھٹا بھیج دے
کہ ہم نے تو جو بیج تھے، بو دیے
جناب وزیر اعظم نے چالیس افراد تک کے جمع ہونے کی جو اجازت مرحمت کی ہے اس کی منطق سمجھ میں نہیں آ رہی! چالیس کیوں؟ عوام کا کوئی بھی اکٹھ، خواہ بیس افراد ہی کا کیوں نہ ہو، خطرناک ہے۔ سماجی سرگرمیاں ساری کی ساری موقوف کر دینی چاہئیں۔ ایک طرف ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ بغیر سخت ضرورت کے گھروں سے نہ نکلا جائے، دوسری طرف چالیس کے اجتماع کی بات ہو رہی ہے۔ جس بلند سطح پر جناب وزیر اعظم تشریف فرما ہیں، اس لیول پر کسی ہندسے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ دوسرے ملکوں میں ''لاک ڈائون‘‘ کی تجاویز زیر غور ہیں، ہم بقیہ دنیا سے الگ تو نہیں! اب تک سارے وسائل مجتمع کر کے وینٹی لیٹر، ماسکس، تشخیصی کٹس اور دیگر طبی سامان، معتدبہ مقدار میں فراہم کر دینا چاہیے تھا۔ مناسب مقامات پر قرنطینوں کا انتظام ہو چکا ہوتا۔ مگر بقول شاعر؎
بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک
ہم کہیں گے حالِ دل اور آپ فرمائیں گے کیا

Tuesday, March 17, 2020

…ڈوب مرنے کا مقام



ٹی پارٹی سے کم و بیش ہر شخص واقف ہے۔ دوست احباباعزہ و اقارب مل بیٹھتے ہیں۔ چائے پیتے ہیں۔ آج کل ''ہائی ٹی‘‘ کی اصطلاح رائج ہے۔ یعنی چائے کے ساتھ کیکمٹھائیاںسموسےکباب وغیرہ! ایسی ہی کسی پارٹی کے اختتام پر ظفرؔ اقبال نے کہا؎

گھر والی کے واسطےبچی نہ پیالی چائے کی

کتے بلّے آن کر کھا گئے کیک مٹھائیاں

جو بادہ نوشی کرتے ہیںوہ اپنے لحاظ سے ڈرنکنگ پارٹیاں مناتے ہیں۔ غالبؔ اپنی مے گساری پر کبھی پردہ نہیں ڈالتے تھے۔

تبھی کہا؎

یہ مسائلِ تصوّف یہ ترا بیان غالبؔ

تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

اور کبھی اپنی توبہ شکنی کا تذکرہ کیا؎

غالبؔ چھُٹی شراب پر اب بھی کبھی بھی

پیتا ہوں روزِ ابر و شبِ ماہ تاب میں

برِّ صغیر میں مینگو پارٹیاں بھی شروع سے چلی آ رہی ہیں۔ تب سے جب آم کو مینگو کہنے والے انگریز ابھی وارد نہیں ہوئے تھے۔ مغل عہد میں انبہ یعنی آم کی تعریف میں قصیدے لکھے گئے۔ علامہ اقبالؒ کے دوست احباب بھی مینگو پارٹیاں منعقد کرتے تھے۔ علامہ ان میں باقاعدہ شریک ہوا کرتے۔ بیمار ہوئے تو ڈاکٹروں نے زیادہ سے زیادہ ایک آم کھانے کی اجازت دی۔ کوشش فرماتے کہ وہ ایک آم کلو بھر کا ہو! اکبر الہ آبادی سے علامہ کا دلی تعلق تھا۔ انہوں نے علامہ کے لیے لنگڑا آم بھیجا۔ یاد نہیں آ رہا کہ اس حوالے سےیہ مشہور شعر اکبرؔ کا ہے یا علامہ کا؎

اثر یہ تیرے انفاسِ مسیحائی کا ہے اکبرؔ

الہ آباد سے لنگڑا چلالاہور تک پہنچا

ایک زمانہ تھا کہ ہر آئٹم کی الگ الگ پارٹی ہوتی تھی۔ کبھی صرف حلیم کی! کبھی پارٹی اس لیے منعقد ہوتی کہ پائے کھائے جائیں۔ یا صرف نہاری پارٹی۔ جب تک کھانے میں ایک ایک آئٹم رہامزہ تھا اور برکت بھی! کثرت سے قدر بھی گئی اور مزہ بھی! بیک وقت کئی کئی پکوان سامنے ہونے سے لطف و انبساط کا وہ عالم نہ رہا جو ایک ہی شے دل بھر کر کھانے سے ہوتا تھا۔ سامنے نہاری ہوپائے بھیحلیم بھیمولی بھرے پراٹھے بھیبکرے کے گوشت کا قورمہ بھیتو کیا کھائیں گے اور کیا چھوڑیں گے! ہاں حلیم سے یاد آیا کہ حلیم مذکر تھا۔ پنجاب پہنچا تو جنس بدل گئی اور مونث ہو گئی۔ یوں بھی اہلِ پنجاب سے یہ شکوہ کیا جاتا ہے کہ گندم کو گندم کمے ساتھ کھاتے ہیں یعنی حلیم کے ساتھ روٹیجبکہ گندم حلیم میں پہلے سے موجود ہے! حلیم تو حلیم ہےہم اہلِ پنجاب آم کے ساتھ بھی روٹی کھاتے ہیںخربوزے کے ساتھ بھی اور حلوے اور کھیر کے ساتھ بھی۔ اسے فقیری ہی کہیے کہ لازم نہیںروٹی کھانے کے لیے قورمہ ہی ہو!

انتظار حسین نے اپنی خود نوشت میں بتایا کہ نہاری لاہور میں کیسے وارد ہوئی! ہمارے دوستحضرت شائق الخیری کہ سول سروس سے ریٹائرڈ ہیںکھانے کے دوراننہاری دو تین بار گرم کراتے ہیں - ان کے داداعلامہ راشد الخیری اردو ادب کا ایک قد آور نام ہے! اردو ناول نگاری کے سرخیل تھے۔ نوّے سے زیادہ تصانیف ہیں! صبحِ زندگیشامِ زندگیشبِ زندگیگدڑی کا لال اور بنت الوقت کے علاوہ کئی تصانیف آج کل کے محاورے کی رُو سے ہِٹ ہوئیں۔ ان کا جاری کردہ جریدہ ''عصمت‘‘ بھی اپنے دور میں مقبول رہا۔ ''الزہرا‘‘ کے عنوان سے حضرت بی بی فاطمہ ؓکی سوانح لکھی اور با وضو ہو کر لکھی۔ سُنّی اور شیعہ دونوں طبقوں میں بے حد مقبول ہوئی۔ علامہ راشد الخیری کی زندگی ہی میں آٹھ ایڈیشن شائع ہوئے۔ 

بات نہاری پارٹی سے چلی تھی۔ علامہ راشد الخیری کی سوانح پڑھ کر شائق الخیری صاحب کی ''نہاری پسندی‘‘ کا راز بھی کھُلا۔ نہاری کی دعوتوں کا شوق راشد الخیری کو بہت تھا۔ جاڑوں میں ایک بار احباب کو ضرور کھلاتے۔ ایک ایسی ہی دعوت میں مولانا محمد علی جوہراپنے بڑے بھائی مولانا شوکت علی کے ساتھ شریک تھے۔ آگے کا ذکر سوانح نگار یوں لکھتے ہیں :

''دونوں بھائیوں اور ان کے ساتھیوں نے دلی کی نہاری خوب مزے لے لے کر کھائی۔ مولانا محمد علی نے اپنے ہاتھ سے تین نلیوں کا گودا نکالا۔ تیسری نلی ختم کر رہے تھے کہ مولانا شوکت علی نے کہا ''محمد علی ذرا روٹی اٹھانا‘‘ ان کا ہاتھ روٹی کی طرف بڑھا اور ادھر مولانا شوکت علی نے ہاتھ بڑھا کر گودا جو مولانا محمد علی نے نلی سے جھاڑا تھااٹھا کر منہ میں رکھ لیا۔ مولانا محمد علی نے مسکرا کر کہا: سگ باشبرادرِ خورد مباش!‘‘

لیکن یہ سب کچھ تمہید تھی۔ اصل بات جو کرنی مقصود ہےاور ہے! ٹی پارٹیمینگو پارٹینہاری پارٹیتو آپ نے دیکھی اور سنی ہیں۔ دو دن پہلے اُسی دِلّی میں جہاں نہاری کھائی جاتی تھیایک اور پارٹی منعقد ہوئی۔ یہ کس شے کی پارٹی تھی؟ دل تھام کر سنیے۔ یہ ''گئو موتر‘‘ پارٹی تھی۔ یعنی گائے کا پیشاب پینے کی۔ اس میں دو سو کے قریب انتہا پسندبی جے پی کے پیروکار شامل تھے۔ مرد بھیعورتیں بھی! نئے ملبوسات پہنےگلوں میں ہار ڈالےعورتیں زیورات سے لدی‘ ''گئو موتر‘‘ کے جام کے جام لنڈھائے گئے۔ کہا یہ گیا کہ کورونا وائرس کا علاج ہے۔ اس سے پہلے آر ایس ایس کے ''محقق‘‘ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ گائے کا گوبر اور پیشاب کینسر کا تیر بہدف علاج ہے۔ نہاتے وقت یہ انتہا پسندصابن کی جگہ گوبر استعمال کرتے ہیں!

انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ بھارت کے سائنسدانڈاکٹرپروفیسر خاموش ہیں! یا ان کی سنتا کوئی نہیں! کون سی ریسرچ کا نتیجہ ہے یہ؟ مغربی محقق جب کوئی نتیجہ نکالتے ہیں تو سالہا سال نہیںعشروں پر تحقیق محیط ہوتی ہے۔ جو لوگ دوسروں کو معاف کر دیتے ہیں اور دلوں میں جذبۂ انتقام نہیں پالتےان پر ریسرچ کی گئی تو ستّر اسّی سال لگے۔ لوگوں کا ایک بڑا گروپ چُنا گیا۔ انہیں سالہا سال نگرانی میں رکھا گیا۔ تب جا کر ثابت ہوا کہ معاف کرنے والوں کو دل کی بیماریاں کم اور منتقم مزاج مردوںعورتوں کو زیادہ لاحق ہوئیں۔

یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ مقصود ہندو مذہب کی تنقیص یا تضحیک نہیں! اگر یہ ہندو مذہب کا حصّہ ہوتا تو ہمارے بزرگ بتاتے کہ تقسیم سے پہلے انہوں نے ہندوئوں کو یہ ''مشروب‘‘ پیتے دیکھا۔ ہندو پاکستان میں بھی رہتے ہیں۔ وہ یہاں کے با عزت شہری ہیں اور اتنے ہی پاکستانی ہیں جتنے باقی سب ہیں! بی جے پی والے ہندو ایسے ہی ہیںجیسے یہودیوں میں صیہونی! کئی یہودی صیہونیت کے خلاف ہیں۔ یقینا بھارت میں سمجھدار اور ذی شعور عناصر موجود ہیںمگر حکومت ادتیاناتھامیت شاہ اور مودی جیسے متعصّبتنگ نظر اور جنونی ہندوئوں کے ہاتھ میں ہے۔ غلاظت پینے اور غلاظت جسم پر ملنے والے ان انسان نما جانوروں سے خیر کی توقع عبث ہے! عقل کے اندھوں کو یہ سمجھانا نا ممکن ہے کہ جو ہندو نہیںوہ بھی انسان ہیں۔ انہیں بھی بھارت میں جینے کا حق حاصل ہے

حیرت ہے کہ مغرب کا میڈیاجو مسلمانوں کا مذاق اڑانے میں دیر نہیں لگاتااس غلاظت نوشی کی مذمت کر رہا ہے نہ تضحیک کر رہا ہے۔ کیا عجببی جے پی کے پیروکارامریکہکینیڈا اور یورپ میں بھی ایسی پارٹیاں منعقد کریں! کیا مغربی حکومتیں اس وحشیانہ عمل کی اجازت دیں گی؟ 

انسان ذلّت کے گہرے گڑھوں میں پہلے بھی گرتا رہا ہے۔ کبھی آگ کی پرستش کرتا رہاکبھی انسانی خون بہا کر دیوتائوں کو راضی کرتا رہا۔ کبھی اپنے جیسے انسانوں کو خدا کا درجہ دیتا رہامگر انسانیت اس سطح پر کبھی نہیں اتری تھی جس سطح پر مودیبھارتیوں کو لے آیا ہے! یہ پست ترین سطح ہے! ذلیل ترین! دیکھیے یہ درندےغلاظت نوشی کے بعداگلا ایسا قدم کیا اٹھائیں گےجو انسانیت کے لیے مزید ڈوب مرنے کا مقام ہو!



 

powered by worldwanders.com