Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, February 27, 2020

……خدا کے لئے یہ نیکر رہنے دو!


پہلے فرغل اُترا۔ پھر صدری!
پھر کرتا اتار کر ایک طرف رکھ دیا۔ کچھ عرصہ بعد پاجامہ گیا۔
اب صرف زیر جامہ رہ گیا۔ یعنی نیکر! وہ جو اردو کو انگریزی حروف تہجی میں لکھنے پر مُصر ہیں یعنی رومن اردو! وہ اس نیکر کو بھی اتارنے پر تُلے ہوئے ہیں!
خدا کے بندو! رحم کرو! اردو پر رحم نہیں کرتے تو قوم پر رحم کرو! کم از کم اپنے آپ پر تو کرو! اُن سے عبرت پکڑو جو تمہارے شمال میں ہیں اور تمارے شمال مغرب میں ہیں! اپنے آپ کو بے برگ و یار کیوں کرتے ہو؟ اپنی ٹہنیاں اپنے ہاتھوں سے کیوں کاٹتے ہو!انہی ٹہنیوں پر تو تمہارے آشیانے ہیں! اپنے آشیانے اپنے ہاتھوں سے نہ اجاڑو! اپنے بچوں کو‘ اپنی آنے والی نسلوں کو یوں بے گھر نہ کرو! حروفِ تہجی تمہارا گھر ہیں! سکرپٹ ہی تو ایک قوم کی پہچان ہوتی ہے۔ آج تاشقند اور دو شنبہ‘ خجند اوربخا را‘ سمر قند اور استانبول‘ باکو اور قوینہ کے رہنے والے اپنے اجداد کی قبروں پر لکھے ہوئے کتبے تک نہیں پڑھ سکتے! وہ تو مجبور تھے۔ مقہور اور معتوب تھے! لینن اور سٹالن نے ان کی گردنوں پر پاؤں رکھے۔ کمال اتاترک کی خدمات بہت! گیلی پولی کا معرکہ اس کے سر کا تاج ہے تاہم جدیدیت کی دُھن میں اس نے حکماً اور جبراً‘ رسم الخط بدل دیا۔ مگر تمہیں کیا مجبوری ہے؟ تم پر تو کوئی جبر نہیں! استعمار ہے نہ حکومت کا حکم! پھر یہ ای میلوں میں‘ وٹس ایپ پر‘ ایس ایم ایس میں‘ ٹوئٹر اور فیس بک پر‘ اردو کو انگریزی حروف میں کیوں لکھ رہے ہو؟ تن پر جو یہ زیر جامہ‘ یہ نیکر رہ گئی ہے‘ اسے اتارنے پر کیوں ضد کر رہے ہو؟ کیا برہنہ ہونا چاہتے ہو؟ کیا الف ننگا ہونے کا ارادہ ہے؟ کیا اپنے مستقبل کو بے چہرہ کرنا چاہتے ہو؟ غلط کر رہے ہو! کاش کوئی تمہیں روکے! جسے تم سرسری سمجھتے ہو‘ یہ پختہ ہوتا جا رہا ہے! جسے تم Casualکہہ رہے ہو یہ تمہاری عادت بنتی جا رہی ہے!
کیا کہا؟ انگریزی استعمار کی مہربانی تھی کہ انہوں نے رسم الخط نہ بدلا؟ کیا کہہ رہے ہو کہ وہ روسی استعمار سے بہتر تھے؟ کہاں بہتر تھے؟ روسیوں نے ترکستان کی زبان نہیں بدلی صرف رسم الخط بدلا۔ انگریزوں نے تو تمہاری زبان ہی چھین لی! فارسی اور اردو کی جگہ انگریزی مسلّط کی۔ راتوں رات تمہارے سکالر‘ ناخواندہ ہو گئے۔ تمہارے علما پر فرسودگی کی چادر تن گئی! تم اعلیٰ تعلیم یافتہ سے ایک جاہل قوم بن گئے۔ یہی وہ چاہتے تھے۔ یہی میکالے کا خواب تھا! یہی ولزلے اور کرزن کی تدبیر تھی۔ بیک جنبشِ قلم انہوں نے تمہیں تمہارے آٹھ سو سالہ ورثے سے محروم کر دیا! آج تم اپنے ماضی کے بغیر ہو! آج تم اپنی زبان کو ولی دکنی سے شروع کرتے ہو حالانکہ اس دیار میں تم اس سے سینکڑوں برس پہلے آ چکے تھے۔ حکومت تمہاری تھی! 1200ء سے بہت پہلے تمہاری راجدھانیاں یہاں قائم ہو چکی تھیں۔ یہ اور بات کہ پہلا سلطان‘ قطب الدین ایبک 1208ء میں دہلی کے تخت پر بیٹھا!
انگریزی استعمار نے تمہارا رسم الخط بدلا‘ بازو کاٹنے کی کیا ضرورت تھی! چھرا تو گردن پر چلانا تھا۔ تمہاری زبان چھین لی۔ آج تمہارے بچوں کو اُس ادب کا‘ اُس ثقافت کا‘ اس تہذیب کا‘ اس علمی سرمائے کا کچھ پتہ نہیں جو گیارہویں صدی عیسوی سے لے کر اٹھارہویں صدی عیسوی تک پیدا کیا گیا۔ بیدل کے وہ نام سے ناآشنا ہیں۔ فیضی اور ابوالفضل کون تھے‘ ان کی شہرئہ آفاق تصانیف کون کون سی ہیں‘ کچھ پتہ نہیں! امیر خسرو کا تعارف موسیقی کے حوالے سے ہے۔ اللہ اللہ! ان کا خمسہ‘ جس نے وسط ایشیا اور ایران میں تہلکہ برپا کر دیا اور جو مدرسوں‘ مکتبوں ‘ یونیورسٹیوں‘ خانقاہوں اور درباروں میں صدیوں پڑھا پڑھایا گیا‘ آج اپنے ہی دیس میں نامعلوم کا درجہ رکھتا ہے! نظیری‘ صائب‘ طالب آملی‘ ابو طالب کلیم کو تو چھوڑیئے‘ وہ جو یہاں پیدا ہوئے۔ یہیں مرے‘ یہیں دفن ہوئے‘ انہیں بھی کوئی نہیں جانتا! غالب کا فارسی کلام کسی کو نہیں معلوم! وہ جو اردو پڑھا رہے ہیں‘ وہ بھی اس سے بے خبر ہیں۔ اقبالؔ کے کلام کا اسی فی صد حصّہ اُس ملک میں اجنبی ہے جس ملک کا خواب اقبال ہی نے دیکھا تھا! کوئی پوچھے کہ کیا قلی قطب شاہ اور ولی دکنی سے پہلے تم لوگ ان پڑھ تھے؟ جاہل تھے؟ گوشت کچّا کھاتے تھے؟ جسم پر پتے لپیٹتے تھے؟ غاروں میں رہتے تھے؟ تو کیا جواب دو گے؟
کیا چال تھی استعمار کی! آ کر‘ محکوموں کی نفسیات سمجھنے کیلئے پہلے ان کی زبانیں پڑھیں۔ فارسی سیکھی‘ اردو پڑھی! سنسکرت کے عالم بنے۔ کئی تو ہفت زبان تھے! مگر تمہارے جسم سے لباس اتار گئے۔ تمہارا ماضی تار تار کر کے کچرے میں پھینک گئے۔ تمہارا حال بے حال کر گئے۔
چلو! مانا! زمانہ آگے بڑھ رہا ہے۔ پہلے پوسٹ کارڈ ختم ہوا۔ پھر وہ خط! جو لفافے میں بند ہوتا تھا! عید کارڈ ماضی کا قصّہ بن گئے۔ شادی کے دعوتی کارڈ چند دنوں کے مہمان ہیں۔ مانا یہ سوشل میڈیا کا عہد ہے۔ یہ بھی مان لیتے ہیں کہ لمبے چوڑے القابات‘ ضروری نہیں! ''بحضور فیض گنجور قبلہ و کعبہ استاد گرامی مدظلکم العالی‘‘ لکھنے کی اب فرصت ہے نہ حاجت! ای میل اور وٹس ایپ نے ابتدائیہ بھی اڑا دیا اور خط کا اختتامیہ بھی منسوخ کر دیا۔ اب کوئی نہیں لکھتا کہ ''جناب کا نیاز مند‘ طالبِ دعا‘‘مگر سوشل میڈیا پر اپنی زبان کو تو نہ چھوڑو! اپنے رسم الخط کو اپنے ہا تھوں گڑھا کھود کر دفن تو نہ کرو! پوری عرب دنیا سوشل میڈیا اپنی زبان میں برت رہی ہے۔ پورا ایران ای میل اپنے رسم الخط میں لکھ رہا ہے۔ اطالوی‘ المانوی‘ پرتگالی‘ روسی‘ کسی نے زبان چھوڑی نہ سوشل میڈیا پر اپنا رسم الخط ترک کیا۔ تم ہو کہ اردو‘ انگریزی حروف میں لکھتے ہو۔ پڑھنے والا اذیت میں مبتلا ہوتا ہے۔ لکھتے وقت تم خود ایک بلائے بے درماں سے گزرتے ہو۔ اُسی ''کی بورڈ‘‘ پر اردو کے حروف تہجی موجود ہیں مگر تم رومن اردو لکھ کر تیتر رہتے ہو نہ بٹیر! نشانِ عبرت بن جاتے ہو اور افسوس! احساس تک نہیں ہوتا کہ اپنی تضحیک خود کر رہے ہو!
دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے سے لے کر آج تک جاپان کا امریکیوں سے گہرا تعلق ہے۔ پہلے زیردست رہے۔ پھر ٹیکنالوجی کی بساط بچھا کر غلبہ حاصل کر لیا۔ مگر ستر اسی سالہ رسم و راہ کے باوجود اپنا رسم الخط نہ چھوڑا۔ یہی عزمِ صمیم چین کوریا اور تھائی لینڈ کا رہا۔ بنگالیوں نے اپنی زبان‘ اپنے سکرپٹ کی خاطر زندگیاں قربان کر دیں! وطن الگ کر لیا‘ تمہیں ہوش ہے نہ فکر!
یہی لیل و نہار رہے اور یہی طور اطوار رہے تو کل‘ کیا عجب‘ غالبؔ اور اقبالؔ کا اردو کلام پڑھنے سے بھی جاؤ! فیضؔ‘ مجیدؔ امجد‘ پطرسؔ بخاری‘ مشتاق احمد یوسفی‘ شفیق الرحمن‘ منیرؔ نیازی‘ جون ایلیا‘ احمد ندیم قاسمی سب تمہارے لیے ایسے ہی ہو جائیں گے‘ جیسے ترکستانیوں کے لیے آج علی شیرنوائی‘ جامی‘ نظامی اور بو علی سینا ہیں! پھر یہ زیر جامہ بھی اتر چکا ہوگا! تو پھر کیا جنگلوں میں بسیرا کرو گے؟
تمہارے پاس تو کوئی اردوان بھی نہ ہوگا۔ اردوان نے کوشش کی ہے کہ ترکی کو اپنا کھویا ہوا رسم الخط واپس مل جائے۔ اس کا کہنا تھا کہ اپنے بزرگوں کے مزاروں پر لگے ہوئے وہ کتبے تو پڑھنے کے قابل ہو جاؤ‘ جنہیں دیکھنے کیلئے کرئہ ارض سے سیاح امڈے چلے آتے ہیں۔ مگر پورا مغرب خم ٹھونک کر کھڑا ہو گیا کہ یہ تو عثمانی عہد واپس لانا چاہتے ہیں یہ تو آٹو من رسم الخط دوبارہ ''مسلّط‘‘ کرنا چاہتے ہیں! کیا عجب اردوان کامیاب ہوجائے! مگر تم نے ایک بار اپنا رسم ا لخط کھو دیا تو یاد رکھو تمہارے حکمرانوں میں تو اتنا ادراک ہی نہیں کہ ایسے تہذیبی اور ثقافتی مسائل کی تفہیم کر سکیں۔ جو صرف دولت کے انبار اکٹھے کرنا جانتے ہوں یا صرف انتقام لینا‘ وہ رسم الخط یا زبان کی اہمیت کیا سمجھیں گے!
بیرون ملک جاتے ہیں تو تارکین وطن کے بچوں کی حالتِ زار دیکھ کر رونا آتا ہے! اپنے حروف سے ناآشنا! اپنی زبان سے دُور! کئی حساس ماں باپ وہاں کُڑھتے ہیں اور خواہش رکھتے ہیں کہ بچے اپنی زبان اپنے رسم الخط سے مربوط رہیں مگر بس نہیں چلتا۔ دل مسوس کر رہ جاتے ہیں! تم تو اپنے وطن میں ہو! تمہیں کیا مجبوری ہے کہ رومن اردو کو فروغ دے رہے ہو عبرت پکڑو اُن نسلوں سے جو آج مجہول النسب ہیں! ورنہ تم بھی بے نام و نشان ہو جاؤ گے!

بشکریہ روزنامہ دنیا

بیورو کریسی… وزیر اعظم کی خدمت میں چند گزارشات


یہ قصّہ اُن دنوں کا ہے جب سربراہ حکومت کا تعلق ملتان سے تھا۔ ملتان ہی سے تعلق رکھنے والے ایک پروفیسر صاحب کو بنگلہ دیش میں ہائی کمشنر یعنی سفیر تعینات کر دیا گیا۔ ان پروفیسر صاحب کے والد گرامی ایک معروف سیاست دان تھے اور ڈھاکہ کے تھے۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی علیحدگی کے ہنگامے میں وہ مرکز نواز قوتوں کے ساتھ تھے اور متحدہ پاکستان کے حامی؛ چنانچہ بنگلہ دیش حکومت کے نزدیک ناپسندیدہ شخصیت تھے۔ بنگلہ دیش انہی کے صاحبزادے کو بطور سفیر کیسے قبول کرتا؟ چنانچہ یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی!
یہ ایک معمولی سی مثال ہے، اس حقیقت کی کہ ہماری حکومتیں، ہمارے سیاستدان، ہماری سیاسی جماعتیں، بیوروکریسی کے حوالے سے ہمیشہ کوتاہ بیں رہیں! دور اندیشی سے کوسوں دور! ذاتی، گروہی، علاقائی اور جماعتی مفادات، قومی مفاد پر غالب رہے۔ گزشتہ پچاس ساٹھ سال کی بیرون ملک تعیناتیوں کا مطالعہ کر لیجیے۔ میرٹ کی دھجیاں اڑائی جاتی رہیں۔ جو ڈپٹی کمشنر، ایس پی پروٹوکول ڈیوٹی کے تحت، وزیر اعظم یا صدر کو ہوائی اڈے پر رخصت کرتا رہا، یا اس کا استقبال کرتا رہا وہ بیرون ملک تعیناتی کے لیے منتخب ہوتا رہا۔ اسامی زراعت سے متعلق تھی یا تجارت سے، افسر عموماً ضلعی انتظامیہ کے پس منظر سے ہوتا۔ اور یہ تو حال ہی میں ہوا کہ ماڈل ٹائون قتل عام فیم بیوروکریٹ کو گزشتہ حکومت نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں سفیر مقرر کر دیا۔
مسلح افواج کا سول سروسز میں مقررہ کوٹا ہے۔ یہ کوٹا بھی میرٹ کی نظروں میں کم ہی آیا۔ کبھی کسی کا داماد فوج سے سول سروس میں آتا رہا، کبھی کسی کا لخت جگر! بعض خوش بخت ایسے بھی تھے جو حکمرانوں کے اے ڈی سی رہے۔ اس قرب نے آسانی پیدا کر دی اور کیپٹن یا میجر سے ڈپٹی کمشنری تک کا سفر سہل ہو گیا۔
کیا ''تبدیل شدہ‘‘ پاکستان میں صورت حال مختلف ہے؟ ہرگز نہیں! ہم جیسے عامی تو شور و غوغا کرتے رہے مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنے! اب ہمارے ایک دوست صحافی نے بھی کہ حکمرانوں سے قربت رکھتے ہیں، اسی پیش منظر کا ماتم کیا ہے! گویاع
چمن تک آ گئی دیوارِ زنداں! ہم نہ کہتے تھے!
گزشتہ حکومت سے کیا شکوہ تھا؟ یہی کہ میرٹ کے بجائے ایک مخصوص برادری اور ایک خاص شہر کو فوقیت دی جاتی تھی! بیوروکریسی کا گروہ‘ جو اس شہر کے نام سے معروف تھا، وفاق پر چھایا ہوا تھا۔ وزیر اعظم کے دفتر پر مخصوص برادری حکمرانی کر رہی تھی۔ ایڈوائزر بھی اسی برادری سے تھا اور دیگر اربابِ قضا و قدر بھی!
بد قسمتی سے آج بھی منظر نامہ وہی ہے۔ اب مخصوص برادری کے بجائے ایک مخصوص صوبے سے، ایک مخصوص لسانی حوالے سے، وفاقی بیوروکریسی کی ٹاپ اسامیوں کو پُر کیا جا رہا ہے! جھکائو واضح طور پر نظر آتا ہے۔ بد قسمتی یہ ہے کہ پورے ملک کا اقتدار سنبھالنے کے باوجود ہم اپنی پرانی پوزیشن کو بھولتے نہیں! ہم وزیر اعظم ہو جاتے ہیں مگر لیڈر نون ہی کے یا قاف ہی کے یا پی پی پی ہی کے یا تحریک انصاف ہی کے رہتے ہیں۔ ہم مرکزی حکومت کی سربراہی کا تاج پہن لیتے ہیں، مگر تعلق وہی پرانا تازہ رکھتے ہیں۔ ملتان والا یا سندھ والا یا کے پی والا! یوں، توازن بگڑ جاتا ہے! افسر شاہی یاس کا شکار ہو جاتی ہے، عوام میں سے جو بیوروکریسی کے ڈھانچے سے واقفیت رکھتے ہیں، وہ سمجھ جاتے ہیں کہ بوتل پر لیبل نیا ہے، اندر وہی صوبائی، جماعتی یا ذاتی مشروب ہے! ایک برادری دوسری کی جگہ لے لیتی ہے! ایماندار، محنتی اور خوفِ خدا رکھنے والے بیوروکریٹ اُسی طرح کونوں کھدروں میں بیٹھے ضائع ہوتے رہتے ہیں۔ بقول میرؔ
گھُٹ گھُٹ کے جہاں میں رہے جب میرؔ سے مرتے
تب یاں کے کچھ اک واقفِ اسرار ہوئے ہم
بیوروکریسی کے ضمن میں ایک اہم پہلو ایسا ہے، جس پر بد قسمتی سے کوئی حکمران توجہ نہ دے سکا۔ فوجی اور جمہوری حکمران اس حوالے سے ایک جیسے بے نیاز یا بے خبر رہے! بیورو کریسی صرف ضلعی انتظامیہ یا صرف پولیس کا نام نہیں! یہ بہت سی پیشہ ورانہ سروسز کا مجموعہ ہے۔ امتحان سب ایک ہی دیتے ہیں، جسے مقابلے کا یا سی ایس ایس کا امتحان کہتے ہیں، مگر شعبے بہت سے ہیں! اس میں فارن سروس بھی ہے، انکم ٹیکس اور کسٹم کا شعبہ بھی (یعنی ایف بی آر)، آڈٹ اینڈ اکائونٹس بھی ہے، کامرس اور ٹریڈ بھی ہے، اطلاعات بھی، ڈاک خانہ جات بھی، ریلوے بھی، ملٹری کی زمینیں اور چھائونیاں بھی! بد قسمتی سے چوٹی کی بیوروکریسی پر صرف ایک گروپ غالب ہے۔ ضلعی انتظامیہ کا! مثال کے طور پر ''اصلاحات کمیشن‘‘ کو لے لیجیے‘ ڈاکٹر عشرت حسین صاحب جس کے سربراہ ہیں۔ اس کمیشن میں بھی اکثریت اسی ایک گروہ ہی سے ہے! کابینہ ڈویژن ہو یا اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، یا وزیر اعظم کا دفتر، ہر جگہ ایک ہی گروہ چھایا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ملک صرف ایک گروہ نہیں، تمام سول سروس چلا رہی ہے۔ اس میں ڈاکٹر انجینئر اور ماہرین اقتصادیات بھی شامل ہیں۔ آخر ریلوے چل رہی ہے۔ پوسٹ آفس کا محکمہ خدمات انجام دے رہا ہے۔ کسٹم اور انکم ٹیکس کے افسر محصولات اکٹھے کر کے ملکی خزانے میں جمع کر رہے ہیں۔ وفاق سے لے کر صوبوں تک آڈٹ اینڈ اکائونٹس کے افسر اور اہلکار کام کر رہے ہیں۔ اکائونٹنٹ جنرل کے دفاتر مصروفِ عمل ہیں۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان مقننہ کی مسلسل مدد کر رہا ہے۔ برآمدات اور درآمدات کے شعبے چل رہے ہیں۔ اندرون ملک اور بیرون ملک اطلاعات کے مراکز کام کر رہے ہیں۔ پولیس بیوروکریسی کا ایک اہم اور حساس حصہ ہے؛ چنانچہ سول سروس ان تمام گروہوں کا مجموعہ ہے۔ اب جب وزیر اعظم کے دفتر میں براجمان بیورو کریسی اِدھر اُدھر نظر دوڑاتی ہے تو یرقان زدہ آنکھ کو اپنے گروہ کے علاوہ کچھ اور دکھائی نہیں دیتا۔ یہی کم نظری کابینہ ڈویژن اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ''اکابر‘‘ کو لاحق ہے۔ اگر کوئی حکمران اس خطرناک عدم توازن سے آگاہ ہو تو انہیں کہے کہ ؎
خوبصورت بہت ہو تم لیکن
دوسروں کا بھی کچھ خیال کرو
بیورو کریسی میں انصاف یا نا انصافی کرنے میں اہم ترین کردار وزیر اعظم کے دست راست کا ہوتا ہے جسے ''پرنسپل سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر‘‘ کہتے ہیں! ماضی اس ضمن میں نا قابلِ رشک مثالوں سے بھرا ہوا ہے۔ ایک صاحب برسوں کی معطلی (یا بر طرفی) کے بعد وطن واپس آئے۔ پرنسپل سیکرٹری لگے۔ بقایا جات وصول کیے۔ اپنے آپ کو پھر اپنی قریبی عزیزہ کو ترقی دلوائی اور بیرون ملک تعیناتی لے کر یہ جا وہ جا۔ ایک اور صاحب پرنسپل سیکرٹری کی پوسٹ سے ہٹے تو اپنے آپ کو پانچ سال کے لیے محتسب لگوا لیا۔ ایک اور صاحب نے ترکیب نمبر چھ استعمال کی۔ متعلقہ فائل روکی اور اشتہار کے نتیجہ میں درخواست دینے والوں کو منظر سے ہٹا کر ایک اتھارٹی کے مدارالمہام بن گئے۔ یعنی اکثر نے اپنے ''مستقبل‘‘ کی حفاظت کی اور ریٹائرمنٹ کے بعد تازہ چراگاہ کا بندوبست کیا۔ 
ہم وزیر اعظم کی خدمت میں التماس کرتے ہیں کہ ان نازک پہلوئوں پر غور فرمائیں اور بیوروکریسی کے ایک گروہ کو نہیں، بلکہ تمام بیوروکریسی کو ساتھ لے کر چلیں۔
اسی طرح اس روایت کا خاتمہ ہونا چاہئے کہ ''پرنسپل سیکرٹری‘‘ ریٹائرمنٹ کے بعد گھی شکر والی ایک اور تعیناتی لے اُڑے۔ ایسی نازک اسامیوں پر تعینات افراد کو بے غرض اور خدا ترس ہونا چاہئے۔ سب کو ایک آنکھ سے دیکھیں اور گروہی ترجیحات سے بالاتر ہو کر صرف اور صرف ملک کے نقطۂ نظر سے خدمات سر انجام دیں

بشکریہ  روزنامہ دنیا

Monday, February 24, 2020

………ہر معاملے میں جوتے تلاش کرنے کا عمل


لکھنؤ کی اُس دعوت میں ایک سکھ مہمان بھی تھا۔
میزبان نے ملازم کو بلایا۔ رقم دی اور حکم دیا کہ جا کر بازار سے دہی لے آئو۔ ملازم جیسے ہی کمرے سے نکلا‘ میزبان نے کمنٹری شروع کر دی! کہ اب میرا ملازم کمرے سے باہر نکل کر جوتے پہن رہا ہے۔ اب حویلی سے باہر نکلا ہے۔ اب سامنے والی دکان سے دہی خرید رہا ہے۔ اب واپس آ رہا ہے۔ اب حویلی میں داخل ہوا۔ اب صدر دروازے سے ہمارے اس کمرے کی طرف آ رہا ہے۔ اب اس نے جوتے اتارے۔ اور یہ لیجیے ‘ آ گیا۔ عین اسی لمحے ملازم کمرے میں داخل ہوا۔ اور دہی کا برتن مالک کی خدمت میں پیش کر دیا۔
سکھ مہمان‘ واپس پنجاب پہنچا تو اس نے بھی احباب کو دعوت پر بلایا۔ لکھنؤ کے نواب کی نقل میں اس نے بھی ملازم کو بلا کر دہی لانے کا حکم دیا۔ اس کے باہر نکلتے ہی اس نے کمنٹری بھی اسی انداز میں شروع کی کہ اب باہر نکلا۔ اب جوتے پہن رہا ہے۔ اب بازار پہنچا ہے۔ اب دہی خرید رہا ہے۔ اب واپس آ رہا ہے۔ اب جوتے اتار رہا ہے۔ یہ لیجیے ‘ آ گیا۔
مگر ملازم کمرے میں نہ داخل ہوا۔ چند لمحے اور گزر گئے۔ سکھ نے غصّے میں بلند آواز سے پوچھا... اوئے کدھر مر گئے ہو؟ نوکر نے کمرے کے باہر سے جواب دیا... حضور! ابھی تو گیا ہی نہیں! ابھی تو جوتے تلاش کر رہا ہوں!
یہ پرانا لطیفہ آج یوں یاد آیا کہ جیسے ہی ایران میں موجود کورونا وائرس کے مریضوں کی خبر پھیلی‘ سعودی عرب نے اپنے شہریوں اور اپنے ملک میں مقیم غیر ملکیوں کے ایران جانے پر پابندی عائد کر دی! ہم نے کیا کیا؟ ہم نے ''ایمرجنسی ڈکلیئر کر دی! آج تک کسی کو معلوم نہ ہوا کہ ایمرجنسی ڈکلیئر کرنے سے مراد کیا ہے؟ 
جوتے تلاش کرنے کا عمل ہر شعبے میں جاری ہے۔ فیصلہ سازی (Decision making) کا وجود ہی کوئی نہیں! یہی طے نہیں ہو رہا کہ چین میں موجود طلبہ کو واپس لانا ہے یا وہیں رہنے دینا ہے۔مسئلہ کابینہ‘ عدالتوں اور میڈیا کے درمیان گیند کی طرح لڑھک رہا ہے۔
چین نے چھ دنوں میں ہزار بیڈ کا ہسپتال بنا دیا۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ اسلام آباد کا نیا ایئر پورٹ کتنے عرصہ میں بنا؟ 2007ء میں اس کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ دو سال پہلے مکمل ہوا۔ وہ بھی کئی مسائل ہنوز حل ہونے ہیں۔ یعنی گیارہ برس لگے!
2005ء میں زلزلہ آیا۔ بالاکوٹ شہر تباہ ہو گیا۔ ایک منصوبہ ''نیو بالا کوٹ سٹی‘‘ شروع کیا گیا۔ اُس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے سنگ بنیاد بھی رکھا۔ پندرہ سال ہو گئے۔ ابھی تک کچھ بھی نہیں ہوا۔ اس مجرمانہ تاخیر کا الزام وفاقی حکومت صوبے پر دھر رہی ہے۔ صوبہ وفاق کو مجرم گردانتا ہے۔ دوسرے ملکوں نے کروڑوں کی امداد دی تھی۔ کہاں گئی؟ کسی کو معلوم نہیں۔ ایک سابق چیف جسٹس نے یہاں کا دورہ کیا۔ کمیٹی بنائی۔ وفاق کو حکم دیا کہ فنڈز دے۔ نہ جانے کتنے برس‘ کتنے عشرے اور گزر جائیں گے! ایک مردہ‘ بے حس قوم کی ساری علامات پوری پوری ہم میں موجود ہیں! یہ الگ بات کہ ہم مانتے نہیں اور اپنے آپ کو ایک سپیرئیر قوم قرار دیتے ہیں!
صوبوں کا مسئلہ لے لیجیے! موجودہ حکومت نے اپنی انتخابی مہم میں اسے ایک بڑا ایشو قرار دیا تھا۔ ہارس ٹریڈنگ بھی اس لالچ میں ہوئی۔ اب پیش منظر پر کچھ بھی نہیں! ستر برس گزرے‘ وہی صوبے ہیں جو تھے! ٹانک‘ ڈی آئی خان‘ بنوں کے لوگ پشاور جاتے ہیں‘ بہاولپور کے لاہور! کوہستان اور مانسہرہ کے پشاور! بجائے اس کے کہ انتظامی بنیادوں پر نئے صوبے بنا کر عوام کو سہولت مہیا کی جاتی‘ مسئلے کو سیاسی‘ لسانی اور نسلی الجھنوں میں ڈال کر ایسا بکھیڑا کھڑا کر دیا گیا ہے کہ ہشت پہلو بن گیا ہے! طعن و تشنیع‘ دشمنیاں‘ مخالفتیں‘ سب کچھ ہو رہا ہے‘ سوائے اُس اصل کام کے جو کرنے کا ہے! یوں لگتا ہے آئندہ سو برس اسی طرح گزر جائیں گے اور نئے صوبوں کا ایشو‘ کالا باغ ڈیم کی طرح عزت اور غیرت کا مسئلہ بنا رہے گا!
جیسی روح ویسے فرشتے! عوام بھی وہی ہیں جو حکومت ہے۔ حکومت بھی وہی ہے جو عوام کی فطرت ہے! فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے بجلی اور گیس کے بل ادا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ساتھ ہی وہی پرانا مسئلہ... شناختی کارڈ اور سیلز ٹیکس والا! ستر برس میں ان تاجروں سے یہی طے نہ ہو سکا کہ ہفتہ وار تعطیل جمعہ کے دن کرنی ہے یا اتوار کے دن! کسی بازار‘ کسی مارکیٹ کا کچھ طے نہیں! جمعہ کو کون سے بازار کھلے ہیں‘ کون سے بند ہیں؟ کسی کو نہیں معلوم! حکومت جس دن کا کہے گی‘ اس کے خلاف ہڑتال کر دی جائے گی! خود بھی طے نہیں کرنا! زندہ قوموں کی یہی نشانی ہے؟
آرمی چیف کی مدت میں توسیع کے مسئلے کو کس طرح ہم نے جگ ہنسائی کا سبب بنایا۔ حکومتی عمائدین نے نا اہلی کی انتہا کر دی۔ یہاں تک کہ عدالتوں کو مداخلت کرنا پڑی! ٹاپ بیوروکریسی نے گائودی پن کا ثبوت دیا۔ نالائقی کا لفظ اس ناکامی کا کلی طور پر احاطہ ہی نہیں کر سکتا۔
جوتے تلاش کرنے کا عمل ہر طرف جاری ہے۔ کسی شعبے میں بھی فیصلہ سازی نہیں دکھائی دیتی۔ قومی ایئر لائن پر غور کر لیجیے۔ کلنک کے ٹیکے کی طرح ہمارے ماتھے پر سجی ہے! جو حکومت آتی ہے‘ اعلانات کرتی ہے۔ وعدے ہوتے ہیں۔ عزمِ صمیم دکھایا جاتا ہے۔ ایک نیا ایم ڈی یا چیئر مین لایا جاتا ہے۔ پھر اسے نکال دیا جاتا ہے۔ ہر سال اربوں کا خسارہ ہو رہا ہے۔ ملکوں کے ملک‘ شہروں کے شہر قومی ایئر لائن کے دائرۂ پرواز سے نکل رہے ہیں۔ اندازہ لگائیے‘ بھارتی ائیر لائن کا ایک جہاز ہر روز آسٹریلیا سے براہ راست بھارت کی طرف پرواز کرتا ہے اور ایک بھارت سے آسٹریلیا کی سمت! اور اگر یہ کالم نگار بھول نہیں رہا تو ایک پرواز سڈنی سے اور ایک میلبورن سے روزانہ آ جا رہی ہے۔ دوسری طرف ہماری پرواز جو صرف بنکاک تک جاتی تھی‘ وہ بھی کئی برسوں سے معطل ہو چکی ہے! کوئی فیصلہ ساز قوم ہوتی‘ چین کی طرح‘ سعودی عرب یا یو اے ای کی طرح‘ سنگاپور یا ملائیشیا کی طرح... تو ایک دن میں ہی یہ بیمار‘ اپاہج‘ بے دست و پا ائیر لائن‘ نجی شعبے کے سپرد کر دیتی! یہاں یونینوں کے ڈر سے‘ فیصلہ سازی کی ہمت ہی نہیں!
سٹیل مل پر غور کیجیے۔ کیسے کیسے سکینڈل بنے۔ کئی چیئر مین جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجے گئے۔ کئی سیاسی جماعتوں نے اس بھنے ہوئے گوشت کی قاب سے نوالے تر کیے اور کھائے مگر مل کو نفع نہ نصیب ہوا۔ ایسے ایسے سربراہ آئے جنہوں نے چارج لے کر بیلنس شیٹ منگانے کے بجائے صرف یہ پوچھا کہ سربراہ کو مراعات کیا کیا ملیں گی اور گاڑیاں اُسے اور اس کے اہل خانہ کو کتنی دی جائیں گی؟ یہی مل نجی شعبے کی تحویل میں دی جاتی تو نفع آور ہوتی! المیے کا ایک عبرت ناک پہلو یہ بھی ملاحظہ کیجیے کہ ایسا وزیراعظم اس ملک پر حکومت کرتا رہا جس کی اپنی سٹیل ملیں منافع کماتی رہیں اور قومی سٹیل مل نقصان اٹھاتی رہی۔ پھر ایک ایسا وزیراعظم بھی ملا جس کی ذاتی ائیر لائن وارے نیارے کر رہی تھی اور اسی کے عہدِ زریں میں قومی ائیر لائن خسارے میں تھی! کیا کیا لطیفے اس ملک کے ساتھ نہ ہوئے۔ کیا کیا کھیل نہ کھیلے گئے!
منطق پوچھتی ہے یہ کیسے ممکن ہے؟ کورونا وائرس پاکستان میں نہیں پھیل رہا؟ پروازیں ہر روز آ رہی ہیں۔ جا رہی ہیں۔ ایران متاثر ہو چکا۔ کئی ممالک اور! خدا نہ کرے ایسا ہو مگر دل نہیں مانتا! حکومتی اطلاعات پر کسی کو اعتماد ہے نہ اعتبار! ہر حقیقت پر ہر حکومت پردہ ڈالنے کی کوشش کرتی ہے! انکار کیا جاتا ہے۔ پھر تاویل! ایسی ایسی تاویلیں کہ ہنسی آتی ہے!
یہاں ایک اور سوال در آتا ہے! سول اور ملٹری تو ایک صفحے پر ہیں! کیا باقی ادارے بھی ایک صفحے پر ہیں؟ کراچی سرکلر ریلوے کی طرح‘ چین میں مقیم طلبہ کا ایشو بھی عدالتوں تک جا پہنچا ہے۔ اس نازک موڑ پر ہم آہنگی کی ضرورت ہے! دوسری طرف حکومت میڈیا کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑی ہے!؎
زار رونا چشم کا کب دیکھتے
دیکھیں ہیں لیکن خدا جو کچھ دکھائے

بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, February 20, 2020

دوسروں کی میزبانی پر کب تک انحصار کریں گے؟؟


آزاد ہے! افغانستان آزاد ہے! روسی ہار کر چلے گئے۔ امریکی شکست کھا گئے۔ نیٹو افواج نے دھول چاٹی۔ مجاہد اور غازی سرخرو ہوئے!
آزاد ہے! افغانستان کے پہاڑ، افغانستان کی زمین، افغانستان کے کوہ و دشت، سب آزاد ہیں! رہے افغان! تو چالیس لاکھ تو پاکستان میں ہیں! لاکھوں دنیا کے دوسرے ملکوں میں! امریکہ سے لے کر نیوزی لینڈ تک‘ جاپان سے لے کر کینیڈا کے مغربی ساحل تک‘ جہاں بحرالکاہل کے کنارے خوبصورت ترین بستیاں آباد ہیں۔ افغان بکھرے پڑے ہیں۔

ملک باشندوں سے ہوتے ہیں یا پہاڑوں، درّوں اور خالی مکانوں سے؟؎
زندگی حسنِ بام و در تو نہیں……
چند اینٹوں کا نام گھر تو نہیں

مسجد نبوی کے شمالی کنارے پر، بڑے بڑے ہوٹل ہیں۔ ان میں بازار ہیں اور ڈیپارٹمنٹل سٹور۔ ایک نوجوان سے عطر کی سب سے چھوٹی شیشی کی قیمت پوچھی! وہ قندھار کا تھا۔ پوچھا واپس قندھار کب جا رہے ہو؟ کہنے لگا: کبھی نہیں! کبھی بھی نہیں! کیوں؟ وہاں کبھی امن نہیں ہو سکتا!! 

پاکستان نے افغان مہاجرین کی میزبانی کے چالیس سال مکمل کر لیے ہیں۔ اس ''خوشی‘‘ میں ایک خصوصی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا! کانفرنس میں اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری اور وزیراعظم پاکستان نے شرکت کی! یہ کیسی آزادی ہے! یہ آزادی کی کیسی جدوجہد ہے! چالیس چالیس سال دوسرے ملکوں میں گزر گئے! نسلوں کی نسلیں وہیں پیدا ہوئیں! وہیں جوان ہوئیں! کاروبار وہیں کیے۔ رشتے ہوئے، مگر افغانستان آزاد ہے!
افغانستان آزاد ہے! مشرقی صوبے کپسیا میں ملیشیا کے 9 ارکان ہلاک ہو گئے۔ حکومت کے حمایتی تھے مگر افغان تھے! ہرات میں عسکریت پسندوں نے عدالت کے ایک جج کو پرسوں رات گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ سرکاری ملازم تھا مگر افغان تھا! ہفتے کے دن دو پولیس افسران کو مار دیا گیا۔ دونوں افغان تھے! مگر خدا کا شکر ہے افغانستان آزاد ہے!! 

افغان عورت نے ہرات کے گورنر سے پوچھا: عالی جاہ! جنت اچھی یا فرانس؟ گورنر نے اعتماد سے جواب دیا کہ اس میں کیا شک ہے جنت اچھی ہے! ابدی بہشت کا عارضی دنیا سے کیا مقابلہ؟ مگر عورت نے جواب الجواب دیا کہ عالی جاہ نہیں! ایسا ہوتا تو آپ کا بیٹا فرانس میں نہ ہوتا اور میرا بیٹا شہادت کے راستے جنت نہ سدھارتا!

ایک طبقہ ہمارے ہاں بھی تھا۔ اب بھی ہے! جو افغانستان کے تہوّر کو‘ ان کی قوّتِ غضب کو سراہتا ہے! خوب مدح و ستائش کرتا ہے۔ EULOGIZE کرتا ہے! فخر سے بتاتا ہے کہ افغان بہادر ہیں۔ بچہ بچہ بندوق چلانا جانتا ہے۔ نشانہ اس کا خطا نہیں جاتا! مگر افغان بچوں کی نشانہ بازی پر قصیدے پڑھنے والوں کے اپنے بچے؟؟ وہ کہاں ہیں؟ یا ان کے بچوں نے افغان بچوں کے شانہ بشانہ بندوقیں چلائیں؟ کیا یہ بھی نشانہ باز بنے؟ نہیں! ان کے ہاتھوں میں کتاب تھی! قلم تھا! آئی پیڈ تھا اور لیپ ٹاپ تھا! یہ تو بہترین تعلیمی اداروں میں پڑھے۔ پھر امریکہ اور ولایت میں پڑھنے گئے۔ بیٹے بھی بیٹیاں بھی۔ اب بزنس کر رہے ہیں۔ کوئی کے پی کے ہسپتالوں کو میڈیکل سازوسامان سپلائی کرتا ہے۔ کوئی سوئٹزرلینڈ کی طرب گاہ میں کاروبار کر رہا ہے۔ کچھ لیڈر بننے کے مراحل طے کر رہے ہیں اور کانفرنسوں میں بلائے جاتے ہیں! ایک زمانہ تھا کہ لیڈری وراثت میں نہیں ملتی تھی۔ خمسہ لکھنے والے شہرۂ آفاق شاعر نظامی گنجوی نے بیٹے کو نصیحت کی تھی؎
جائ کہ بزرگ بایدت بود
فرزندئی من نداردت سود
میرا بیٹا ہونا کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا، جہاں بڑائی کی ضرورت ہو گی، اپنے روزِ بازو یا زورِ قلم سے بڑا بننا ہو گا! 

مگر یہ پرانے زمانے کی باتیں ہیں۔ اب خانقاہ، مدرسہ، اسمبلی کی نشست اور جاگیر کیساتھ بڑائی بھی وراثت میں منتقل ہو جاتی ہے!

اجڑ گئے! افغان اجڑ گئے! برباد ہو گئے! سکول‘ کالج‘ یونیورسٹیاں بند ہو گئیں! شاہراہیں ٹوٹ گئیں۔ سڑکیں نہیں، وہاں اب پگڈنڈیاں ہیں! بازار نہیں، قطار اندر قطار کھوکھے ہیں! سردیوں میں لباس مکمل نہیں! اناج ہیں نہ ادویات! ایک جوراب، ایک کاپی، ایک کمربند تک نہیں بنتا وہاں! سریا ہے یا سیمنٹ، گندم ہے یا گوشت، گھی ہے یا دال، سب کچھ باہر سے آ رہا ہے! کچھ مانگ کر، کچھ سمگلنگ سے! کچھ ایران سے، زیادہ تر پاکستان سے! کچھ اغوا برائے تاوان سے، کہ اغوا برائے تاوان ہی وہاں کی سب سے زیادہ نفع آور صنعت ہے! افغانوں نے اس فن کو انڈسٹری بنا دیا۔ اس کے ڈانڈے ہمارے علاقہ غیر تک پھیل گئے! 

پھر ایک اور MYTH پھیلایا گیا‘ اور خوب خوب پھیلایا گیا! ایک دل پذیر افسانہ! کہ امریکہ کو ناکوں چنے چبوا دیئے! امریکہ کو شکست ہو گئی! امریکہ نے دھول چاٹی!

امریکہ کی شیطنت کی کون ہے جو برائی نہیں کرتا! امریکی حکومت دنیا کی سب سے بڑی انتہاپسندہے! اس کی خفیہ ایجنسیاں، پانامہ سے لے کر جاپان تک، ہر جگہ اپنا جال پھیلائے ہوئے ہیں۔ وہ فساد پھیلاتی ہیں، حکومتیں گراتی ہیں‘ تختے الٹتی ہیں! اسلحہ بیچنے والا یہ ملک، دادا گیری کرتا ہے۔ 

سب درست! مگر افغانستان میں اسے کیسے شکست ہوئی؟ خدا کے بندو! اس کا مقصد یہ تو نہیں تھا کہ افغانستان کو فتح کرکے ریاست ہائے متحدہ کی ایک اور ریاست بنا لے! اس کا مقصد افغانستان کو برباد کرنا تھا۔ تہس نہس کرنا تھا! انفراسٹرکچر کو‘ جو کچھ باقی تھا‘ روندنا تھا! لوگوں کو بے گھر کرنا تھا۔ آپس میں لڑانا تھا! اس میں امریکہ کامیاب ہوا اور خوب کامیاب ہوا! جو بغلیں بجا رہے ہیں کہ امریکہ کو شکست ہوئی، ان سے کوئی پوچھے کہ امریکی زیادہ مرے یا افغان؟؟ شہر کس کے برباد ہوئے؟ امریکہ کے یا افغانستان کے؟ لاکھوں مہاجر دنیا میں بے گھر، بے وطن پھر رہے ہیں۔ وہ افغان ہیں یا امریکی؟ کتابوں، کاپیوں، پنسلوں، کپڑوں سے محروم بچے امریکی ہیں یا افغان؟

بٹ گئے! افغان بٹ گئے! گروہوں میں بٹ گئے! اور سب گروہ متحارب! سب مسلّح! سب خون آشام! خونریزی پر تلے ہوئے، ہمہ وقت قتل و غارت میں مصروف! سرکاری فوج کے ارکان بھی افغان انہیں مارنے والے طالبان بھی افغان! افغانوں کو پتھر کے زمانے میں پہنچا کر امریکہ واپس جا رہا ہے! لیکن کہاں واپس جا رہا ہے؟ اس کے اڈے یہیں ہوں گے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ امریکی فوجیوں کے ساتھ امریکی ''مشیر‘‘ امریکی ٹھیکیدار اور امریکی ''سویلین‘‘ بھی رخصت ہو جائیں گے تو وہ غلط فہمی میں ہے!! امریکہ کا مقصد ملکوں کو فتح کرنا نہیں! ان کا اپنے ساتھ الحاق کرنا نہیں! امریکہ جب حملہ کرتا ہے تو مقصد اس ملک کو برباد اور بے یار و مددگار کرنا ہوتا ہے! عراق کے ساتھ یہی ہوا۔ عراق آج بھی خون میں نہایا ہوا ہے! سنی، شیعہ، عرب، کرد سب ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہیں! یہی مقصد اس کا افغانستان میں تھا! جو ویت نام کی مثال دیتے ہیں وہ نہیں جانتے کہ ویت نام اپنے پائوں پر کھڑا ہو گیا ہے تو ایک استثنا ہے۔ ویت نام کو فائدہ یہ بھی تھا کہ نسلاً ایک اکائی تھا۔ مذہبی فرقے نہیں تھے! افغانستان عقیدوں، مسلکوں، زبانوں، نسلوں اور عصبیتوں میں بٹا ہوا ہے! وحدت اگر تھی تو پارہ پارہ ہو چکی ہے! 1747 سے لے کر، جب افغانستان بطور ریاست وجود میں آیا، 1979 تک، جب روسی آمو پار کر کے اندر گھسے، پختونوں نے غیر پختونوں پر حکومت کی پھر روسیوں سے مقابلہ ہوا تو تاجک اور ازبک پوری قوت کے ساتھ ابھرے! اب یہ غیر پختون اس طرح دب کر نہیں رہ سکتے جیسے دو سو تیس سال رہ چکے! المیہ یہ ہے کہ پختون اکثریت نئے منظرنامے کو تسلیم نہیں کرنا چاہتی! وہ ابھی تک خوابوں کی دنیا میں ہے۔ احمد شاہ ابدالی کا زمانہ واپس نہیں آ سکتا! 

چالیس برس! نصف صدی سے صرف دس سال کم! پاکستان افغانوں کی میزبانی کے چالیس سال مکمل کرنے پر کانفرنس منعقد کر رہا ہے! پاکستان سے جو کچھ ہوا، کیا! اپنے دروازے کھولے، خوراک دی! رہائش بھی! لباس بھی! کاروبار بھی! بدلے میں کیا ملا؟ منشیات اور اسلحہ کی ریل پیل!

مگر کیا یہ افغانوں کے لیے فخر کا مقام ہے؟ یا انہیں سوچنا چاہئے؟ کب تک دوسروں کی میزبانی پر انحصار کریں گے؟؟

Tuesday, February 18, 2020

کس کا دروازہ کھٹکھٹائیں؟


کوئی ہے‘ جو ہمیں ان قاتلوں سے بچائے؟
اس ملک کی زمین ان وحشیوں سے بھر گئی ہے۔ یہ درندے ہر طرف‘ ہر بستی‘ ہر شہر‘ ہر قریے میں دندنا رہے ہیں! انسان ان کے لیے گاجر مولی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے! زندگی‘ دوسروں کی زندگی‘ ان کے لیے ایک گیند ہے جسے یہ اچھالتے پھر رہے ہیں!
کوئی نہیں جو انہیں روکے! ان کی موٹی گردنوں میں پٹہ ڈالے! یہ چوپایوں کی طرح ہیں‘ بلکہ ان سے بھی بدتر! اُولئک کالْاَنَعام! بَلْ ہُمْ اَضَلَ ! چوپائے تو پھر بھی انسانوں پر رحم کر جاتے ہیں۔ بعض تو ان کی جان بچاتے ہیں۔ بلیاں چھوٹے بچوں کی حفاظت کرتی ہیں۔ کتے جان چھڑکتے ہیں۔ گھوڑا کبھی اُس گھر کا راستہ نہیں بھولتا جہاں اس کا مالک اسے چارہ اور دانہ ڈالتا ہے۔ کبوتر فضاؤں میں دور تک جاتے ہیں مگر سرِ شام اپنے ٹھکانے پر‘ اپنے مالک کے حضور‘ پہنچ جاتے ہیں! مگر اس ملک کے لوگوں کا واسطہ جن وحشیوں سے پڑا ہے‘ وہ جانوروں سے بدتر ہیں! قانون ان کے لیے اُس مٹی کے برابر ہے ‘جو ان کے جوتوں کے نیچے لگی ہے! انسانیت کا ان سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا جنگ کے دوران دشمن فوج کے سپاہی کا ہوتا ہے۔ رحم کا لفظ ان کی لغت میں موجود نہیں!
کوئی ہے جو ہمیں ان قاتلوں سے بچائے؟ ریاست اس ضمن میں ناکام ہو چکی ہے! مکمل ناکام! حکومت بے نیاز ہے! بے نیازی اس سیاق و سباق میں نرم ترین لفظ ہے! کوئی ہے جو اقوام متحدہ کی توجہ اس جانب مبذول کرے؟ انسانی حقوق کی تنظیمیں کہاں ہیں! ان قاتلوں کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھتی؟ احتجاج کیوں نہیں ہوتا؟
کیا وہ جو منتخب اداروں میں تشریف فرما ہیں‘ ان قاتلوں کی چیرہ دستی سے واقف نہیں؟ بالکل ہیں! مگر یہ بڑے لوگ‘ یہ معززین‘ یہ معاشرے کا بالائی طبقہ خود ان قاتلوں کی دستبرد سے محفوظ ہے! رہے عوام تو ان کی حیثیت ٹشو پیپر سے زیادہ نہیں! ووٹ لینے کا وقت ہو تو ان ٹشو پیپروں کو استعمال میں لائیے۔ پھر کوڑے دان میں پھینک دیجیے! اگلے انتخابات تک ان کی ضرورت نہیں! جو ہار گئے انہیں بھی نہیں! جو جیت گئے انہیں بالکل نہیں!
کیا منتخب اداروں میں کوئی ایسا رجلِ رشید ہے جو حکومت سے پوچھے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں‘ یا تین برسوں میں‘ یا ایک برس میں‘ کتنے افراد ڈمپروں‘ ٹریکٹر ٹرالیوں اور گنّا ڈھونے والے چھکڑوں کے نیچے آ کر کچلے جا چکے ہیں؟ یہ حادثے نہیں قاتلانہ حملے ہیں! ایسے قاتلانہ حملوں میں ملوث کتنے مجرموں کو سزائے موت دی گئی؟ یا عمر قید؟ یا جو بھی سزا تھی‘ کیا دی گئی؟ کیا ان کے ڈرائیونگ لائسنس منسوخ کیے گئے؟ کیا اُن کے مالکوں سے پوچھ گچھ ہوئی‘ جنہوں نے پتھر کے زمانے کے ان وحشیوں کو شاہراہوں پر کھلا چھوڑ رکھا ہے؟
یہ بنیادی طور پر انتظامیہ کی ذمہ داری ہے؟ ضلعی انتظامیہ کی! ٹریفک پولیس کی! میونسپلٹیوں اور شہری کارپوریشنوں کی! مگر بیورو کریسی وہ مست اونٹ ہے جو وفاق اور پنجاب میں حکومت کے کنٹرول سے باہر ہے! یکسر باہر! دور دراز کے اضلاع کا کیا ذکر خود وفاقی دارالحکومت پر راج کرنے والی بیورو کریسی کا رویہ استعمار سے بدتر ہے! اس کی صرف ایک مثال ملاحظہ ہو! وفاقی دارالحکومت کی مصروف ترین شاہراہ ''ایکسپریس وے‘‘ ہے جو جہلم‘ چکوال‘ دینہ‘ گوجر خان کے علاوہ سینکڑوں دیگر آبادیوں کو دارالحکومت سے ملاتی ہے۔ گزشتہ حکومت نے اس شاہراہ کا زیادہ حصّہ سگنل فری کر دیا تھا اور وسیع بھی! گلبرگ سے لے کر روات تک ایک چھوٹا سا ٹکرا رہ گیا تھا۔شاہد خاقان عباسی کی وزارتِ عظمیٰ نے دس ارب روپے اس کی تکمیل کے لیے مختص کیے۔ ماشاء اللہ موجودہ حکومت نے عوام کی ''محبت‘‘ میں یہ رقم واپس لے لی!
مگر ظلم بالائے ظلم یہ ہوا کہ چلو شاہراہ سگنل فری اور وسیع تو نہ ہوئی‘ ضلعی انتظامیہ نے ٹرک مافیا کو بھی کھلی چھٹی دے دی۔ شاہراہ پر ٹرکوں کا قبضہ یوں ہے کہ ٹریفک گھنٹوں رکی رہتی ہے۔ ایکسپریس وے کی بیسیوں آبادیاں‘ مذکورہ بالا شہروں کے علاوہ‘ جھولیاں اٹھا اٹھا کر ذمہ داروں کو بد دعائیں دے رہی ہیں۔ چیف کمشنر وفاقی دارالحکومت سے بات کرنے کی بارہا کوشش کی گئی۔ مکمل ناکامی ہوئی۔ بیورو کریسی عام شہری سے بات کرنے کی روادار تھی نہ ہے! تنگ آ کر وزیراعظم کے ''سٹیزن پورٹل‘‘ پر فریاد کی۔ پورٹل نے داد رسی تو کیا کرنا تھی‘ ہنسی کا انتظام کیا کہ چیف کمشنر کے خلاف شکایت اسی چیف کمشنر کو بھیج دی‘ پھر یہ سارا قصّہ اخبار میں لکھا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ سیکرٹری داخلہ جناب یوسف نسیم کھوکھر اس صورت احوال کا نوٹس لیتے۔ ان کی شہرت اچھی ہے مگر افسوس! پورٹل کو جس طرح ان کے ماتحت غیر مؤثر کر رہے ہیں‘ اس سے لگتا ہے وہ بھی بے نیاز ہیں! پورٹل کا ڈر صرف نچلے درجے کے سرکاری اہلکاروں کو ہے۔ رہی بالائی سطح کی افسر شاہی‘ تو وہ تو گتکا کھیلنے کی ماہر ہے! برستی بارش میں باہر نکلے تو ایک بوند بھی سر پر نہ پڑنے دے ؎
ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں
جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے
ڈمپروں‘ ٹریکٹر ٹرالیوں اور چھکڑوں کے ہاتھوں برپا ہونے والے قتلِ عام کی طرف واپس آتے ہیں! ستّر کا عشرہ تھا۔ ہم چند دوست‘ سی ایس ایس کے امتحان کی تیاری کر رہے تھے۔ ایک پرچہ مسلمان ملکوں کی جدید تاریخ کا تھا جس میں ہم عصر تحریکوں کا مطالعہ کرنا تھا۔ قدیم تاریخ پر تو بے شمار مواد میسر تھا۔ ہم عصر تحریکوں پر کچھ بھی نہیں مل رہا تھا۔ اِدھر اُدھر ہاتھ پاؤں مارے۔ ایک صا حب نے نسخہ بتایا کہ خلیل حامدی کی تصنیف ''عالمِ اسلام کے افکار و مسائل‘‘ پڑھو۔ نسخہ کیا تھا۔ نسخۂ کیمیا تھا۔ انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک سب احوال حامدی صاحب نے کوزے میں دریا کی طرح بند کر دیا تھا۔ تجسّس بڑھا تو ان کے بارے میں مزید جاننے کی خواہش ہوئی۔ معلوم ہوا جدید عربی کے ماہر ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف! کیا آپ کو معلوم ہے اتنے جید سکالر کا انجام کیا ہوا؟ لاہور کے نواح میں ان کی گاڑی کو گنا ڈھونے والی ایک ٹرالی نے کچل دیا۔ اتنا بڑا عالم لاقانونیت کی بھینٹ چڑھ گیا ؎
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
پروفیسر ڈاکٹر طیب منیر‘ انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی میں اردو ادب و زبان کے صدرِ شعبہ تھے۔ ایک شفیق استاد‘ ایک جینوئن سکالر‘ کچھ عرصہ پہلے ان کی چھوٹی سی کار پر ایک قاتل ڈمپر چڑھ دوڑا جسے ایک وحشی چلا رہا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے سینکڑوں شاگرد‘ عقیدت مند اور دوست آہ و زاری کرتے رہ گئے!
کل کیا ہوا؟ وفاقی دارالحکومت کے نواح میں ایک ڈمپر نے پھر انسانوں کا شکار کیا۔ اندھا دھند اوور ٹیک کرتے ہوئے بارہ نشستوں والی گاڑی کو وحشیانہ ٹکر ماری۔ پانچ موقع پر دم توڑ گئے۔ تین ہسپتال لے جاتے ہوئے جاں بحق ہوئے۔ ڈمپر کا ڈرائیور جائے واردات سے فرار ہو گیا۔ مرنے والوں میں ایک ڈاکٹر بھی تھا۔ جو سرکاری ہسپتال میں تعینات تھا۔کیا ایکشن لے گی اس پر وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ؟ ضلعی انتظامیہ کا کیا کردار ہے؟ کسی ایک ڈمپر‘ ٹرالی یا چھکڑے کے ڈرائیور کو سزائے موت دی جائے تو صورت حال مکمل طور پر بدل جائے‘ مگر یہ قانون سازی کون کرے؟ وہ جو اسمبلیوں میں فروکش ہیں ان کے پاس تو قوی ہیکل ڈبل کیبن‘ پجارو اور لینڈ کروزر ہیں! ان کے آگے پیچھے تو محافظوں‘ نقیبوں اور حاجبوں کی گاڑیاں ہیں جو ان کے لیے حفاظتی غلاف کا کام کرتی ہیں!
لوگ کب تک قتل ہوتے رہیں گے؟کون ذمہ دار ہے؟ ریاست؟ حکومت؟ کس کا دروازہ کھٹکھٹائیں؟ اقوام متحدہ کا؟مہذب ملکوں میں ایسی گاڑیاں زرعی گاڑیاں شمار کی جاتی ہیں اور صرف مخصوص حالات میں عام شاہراہوں پر آتی ہیں!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, February 17, 2020

ہنگامہ ہے کیوں برپا


بات کا آغاز دادا خان نوری سے کرتے ہیں۔
1992ء میں جب سوویت یونین کا انہدام ہوا اور ترکستان کی ریاستیں آزاد ہوئیں تو جو پاکستانی پہلے پہل وہاں پہنچے ان میں یہ کالم نگار بھی شامل تھا۔ معروف صحافی مختار حسن مرحوم نے دادا خان نوری سے ملنے کے لیے کہا۔ تاشقند پہنچ کر مشہور ہوٹل چار سو قیام کیا۔ شہر کی سیر کی اور فارغ ہوا تو دادا خان نوری کو تلاش کیا۔ وہ اس وقت ازبکستان یونین آف جرنلسٹس کے اہم عہدیدار تھے اور بطور ادیب جانی پہچانی شخصیت تھے۔ اس کے بعد وہ کئی بار پاکستان آئے۔ اکثر و بیشتر قیام، غریب خانے ہی پر ہوتا۔ ان دنوں میں جناب اسداللہ محقق کے حضور، انفرادی طور پر، ازبک زبان سیکھ رہا تھا۔ استاد اسداللہ محقق، نمل (نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز) میں تاجکی پڑھا رہے تھے۔ ہفت زبان تھے۔ ازبک مادری زبان تھی۔ روسی، پشتو، فارسی، اردو اور عربی پر عبور تھا۔ دو سال ان سے ازبک پڑھتا رہا۔ کچھ عرصہ بعد وہ افغانستان واپس چلے گئے۔ سننے میں آیا کہ وہ رشید دوستم کے ایڈوائزر رہے۔ واللہ اعلم۔ ان کی واپسی کے بعد ان سے کسی قسم کا رابطہ نہ ہو سکا!
ایک بار، دادا خان نوری جب غریب خانے پر قیام فرما تھے تو چند دوستوں کو ان سے ملاقات کے لیے دعوت دی۔ دادا خان نوری، تاشقند یونیورسٹی کے شعبۂ ہندی کے طالب علم رہے تھے۔ اردو بول لیتے تھے مگر اس دن مناسب یہی سمجھا کہ کوئی ترجمان ہو؛ چنانچہ استاد اسداللہ محقق کی خدمت میں درخواست کی کہ ترجمانی کے فرائض سر انجام دیں۔ انہوں نے ترجمانی کی۔ سوال و جواب کی ایک طویل نشست رہی۔ اس کے بعد کئی وفود کے ساتھ بھی استاد محقق بطور ترجمان کام کرتے رہے۔ یہ وفود ترکی سے بھی تھے‘ قازقستان سے بھی اور ازبکستان سے بھی!
غور کیجیے! دادا خان نوری تاشقند سے تھے۔ استاد محقق مزارِ شریف سے تعلق رکھتے تھے۔ وفود کبھی وسطی ایشیا سے آتے تو کبھی ترکی سے! مگر زبان سب کی ایک تھی۔ لہجے کا تھوڑا بہت فرق تھا۔ اس لیے کہ اصلاً سب ترک تھے! بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ شمالی افغانستان کو ''ترکستان  صغیر‘‘ بھی کہتے ہیں!
یہ رام کہانی سنانے کا پس منظر وہ شور و غوغا اور ہائو ہُو ہے جو وزیر اعظم کے بیان پر برپا ہوا ہے۔ انہوں نے ہندوستان پر ترکوں کے چھ سو سالہ اقتدار کی بات کی۔ پھر ایک بحث چل نکلی۔ سوشل میڈیا ایک شترِ بے مہار ہے جو کسی بھی سمت روانہ ہو سکتا ہے۔ یوں بھی، سوشل میڈیا کی مہربانی سے ہر نیم خواندہ شخص دانش و تحقیق کے موتی بکھیرنے پر تُلا ہے۔ ''علم‘‘ کے ایسے ایسے ''نادر‘‘ نمونے دیکھنے میں آ رہے ہیں کہ ہاتھ بے اختیار کانوں کو اُٹھ جاتے ہیں۔ خارج از وزن شاعری پر داد و تحسین کے وہ ڈونگرے برستے ہیں کہ ابکائی آنے لگتی ہے! غالبؔ، میرؔ، اقبالؔ، فرازؔ اور فیضؔ کے نام سے مضحکہ خیز شاعری پوسٹ کی جا رہی ہے اور پڑھنے والے نابغے اسے انہی کی شاعری سمجھ کر داد دے رہے ہیں۔ سارا زور اس بات پر ہے کہ اتنے LIKES ملے ہیں۔ کچھ مرد اور خواتین باقاعدہ التماس کرتی ہیں کہ ان کی پوسٹ کو لائک کیا جائے۔ الغرض؎
ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی/ اب آبروئے شیوۂ اہلِ نظر گئی
اس کالم نگار کو وزیر اعظم عمران خان سے اختلافات ہیں، شکوے بھی اور شکایتیں بھی! وفاق اور پنجاب میں بیوروکریسی کا سانڈ ان کے کنٹرول سے مکمل باہر ہے۔ بزدار صاحب کے انتخاب کا مسئلہ معمہ ہے جو شاید تادیر لا ینحل رہے! شاہراہوں کی تعمیر اور دیگر فلاحی منصوبوں کی طرف ان کی توجہ بالکل نہیں۔ شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ شاہراہوں کی تعمیر کے لیے شریف برادران بدنامی کی حد تک مشہور ہو چکے ہیں اس لیے اس شعبے سے مکمل احتراز کرنا چاہیے! اگر فی الواقع ایسا ہے تو قابلِ تحسین ہرگز نہیں! کچھ جاہ طلب افراد کو انہوں نے وزارتیں اور ایڈوائزری عطا کی۔ اس پر بھی یہ کالم نگار مسلسل معترض رہا ہے۔ اب بھی ہے! مگر ان سب اعتراضات اور شکووں کے باوجود، کالم نگار یہ بھی سمجھتا ہے کہ عمران خان کی ہر بات جس طرح درست نہیں ہو سکتی، اسی طرح ہر بات غلط بھی نہیں ہو سکتی! یہ جو ناقدین کا رویہ ہے کہ آٹا گوندھتے ہوئے ہلتی کیوں ہے، قطعاً غیر منطقی اور متعصبانہ ہے۔ عمران خان، غیر سنجیدگی سے از راہِ تفنن بھی کچھ کہہ دیں تو تنقید کا طویل سلسلہ چل پڑتا ہے۔ جیسے ٹیکے اور حوروں والی بات تھی۔
ترکوں کی حکومت کے حوالے سے جو کچھ خان صاحب نے کہا، اسے بھی یار لوگ لے اڑے۔ کچھ عبقری تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ سلطنتِ عثمانیہ کا اقتدار ہندوستان پر کبھی نہیں رہا! گویا ترک صرف سلطنتِ عثمانیہ کا نام ہے!
تاریخی سچائی یہ ہے کہ ترک اصلاً وسط ایشیا سے اٹھے۔ سلجوق تھے یا اناطولیہ کے ترک یا عثمانی ترک، اصل سب کی وسط ایشیا سے ہے۔ حافظ شیرازی جب ''ترکِ شیرازی‘‘ کا ذکر کرتے ہیں تو مطلب یہ ہے کہ ترک شیراز میں بھی تھے۔ سنکیانگ کے ایغور بھی ترک ہیں۔ قزاقستان، کرغزستان، ازبکستان، ترکمانستان سب ترکوں کے دیار ہیں۔ ان ریاستوں کو کہتے ہی Turkic ہیں۔ سب سے بڑا المیہ ترکی زبان کے ساتھ ہوا۔ اس وقت ترکی کئی قسم کے رسم الخط میں لکھی جا رہی ہے۔ یعنی استانبول کا ترک، مزار شریف کے ترک سے، تاشقند اور آستانہ کے ترک سے بات تو کر سکتا ہے، اس کا لکھا پڑھ نہیں سکتا۔ بالشوک انقلاب کے بعد، 1920ء کی دہائی کے آغاز میں، کمیونسٹوں نے ترکستان کو مختلف ریاستوں میں بانٹ دیا اور رسم الخط، جبراً، لاطینی کر دیا تاکہ وہ عالمِ اسلام سے کٹ جائیں۔ نہلے پر دہلا یہ ہوا کہ کمال اتاترک نے اس کے بعد، ترکی میں رسم الخط لاطینی کر دیا۔ ماسکو کے حکمرانوں نے جب دیکھا کہ وسط ایشیائی ترکوں اور ترکی کا رسم الخط ایک ہو گیا ہے تو انہوں نے دوسرا جبری اقدام اٹھایا اور وسط ایشیائی ریاستوں کا رسم الخط، لاطینی سے روسی (CYRILLIC) کر دیا۔ یوں آج ترکی چار مختلف حروف تہجی میں لکھی اور پڑھی جا رہی ہے۔ ترکی میں لاطینی، وسط ایشیا میں روسی، افغانستان میں فارسی رسم الخط ہے اور سنکیانگ کے معتوب ترکوں کا رسم الخط ان سب سے مختلف ہے۔
جہالت کا ایک شاخسانہ یہ بھی دیکھیے کہ کچھ عرصہ پہلے جب صدر اردوان نے لاطینی کے بجائے اصل ترکی حروف تہجی (یعنی فارسی، عربی رسم الخط) کے احیا کی بات کی تو یورپ اور امریکہ میں شور مچ گیا کہ آٹومن رسم الخط کو دوبارہ زندہ کیا جا رہا ہے! حالانکہ آٹومن (عثمانی) رسم الخط کا وجود ہی نہیں!
ہندوستان میں پہلا مسلمان سلطان قطب الدین ایبک دہلی کے تخت پر 1208ء میں بیٹھا۔ وہ ترک ہی تو تھا! اس کا تعلق ترکستان سے تھا۔ التتمش اور بلبن بھی ترک تھے۔ پھر خلجی آئے۔ خلجی اگرچہ (موجودہ) افغانستان میں مقیم تھے مگر اصلاً ترک ہی تھے۔ فرق صرف یہ تھا کہ دہلی کے ترک، خلجیوں کو حقارت سے دیکھتے تھے۔ اس لیے کہ یہ افغانستان رہ کر، اصل ترکی رسم و رواج سے نا آشنا ہو چکے تھے۔ غیاث الدین تغلق کا باپ ترک اور ماں ہندوستانی تھی۔ لودھی، پہلے غیر ترک تھے جو دہلی کے تخت پر بیٹھے۔ معروف پختون خاندان دو ہی گزرے ہیں جنہوں نے ہندوستان پر حکومت کی۔ لودھی اور سُوری!
رہے مغل تو، وسط ایشیا دراصل ایک کٹھالی (Melting Pot) ہے جس میں تمام دھاتیں پگھل کر اپنی اصلیت کھو چکیں۔ مغل اپنے آپ کو ہمیشہ تیموری کہتے رہے۔ تیمور مغل تھا یا منگول یا ترک، روایات مختلف ہیں۔ بہر طور یہ طے ہے کہ ہمایوں تک مغلوں کی زبان ترکی ہی تھی۔ گلبدن بیگم کی تصنیف 'ہمایوں نامہ‘ ترکی ہی میں لکھی گئی۔ آج بھی ازبکستان جائیں تو وہاں بابر کی شہرت، فاتح سے زیادہ شاعر کی ہے۔ 1992ء میں تاشقند کا پہلا سفر کیا تو وہاں ایک صاحب نے بابر کے دیوان کا اردو ترجمہ عنایت کیا۔ یہ قلمی نسخہ تھا۔ افسوس کہ کھو گیا! فارسی کا غلبہ مغل خاندان پر ہمایوں کے ایران جانے اور واپس آنے کے بعد شروع ہوا۔
اتنا بھی غلط نہیں کہا عمران خان نے۔ ایک فرسودہ، پامال شدہ شعر یاد آ رہا ہے، یوں بھی یہ قضیہ، فرسودہ شعر ہی کا مستحق ہے؎
ہنگامہ ہے کیوں برپا، تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکا تو نہیں ڈالا، چوری تو نہیں کی ہے

بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, February 13, 2020

عمر کٹ جائے آنے جانے میں


یہ میری آنکھیں مُند کیوں رہی ہیں؟ یہ خون میں لرزش سی کیوں ہے؟ یہ رگوں میں لہو ہے یا مشعلیں جل رہی ہیں؟
یہ راستہ جس پر گاڑی دوڑ رہی ہے، کیا وہی ہے جس پر اونٹنی اِس کائنات کے مقدس ترین سوار کو لے کر چلی تھی؟ ہمارا کوچوان بتاتا ہے کہ یہ وہی راستہ ہے! یہ رخسار بھیگ کیوں رہے ہیں؟ یہ راستہ ہے یا نور کی لکیر ہے! ہم یہاں رینگ رینگ کر کیوں نہیں چل رہے! ہم ایک ایک کنکر کو، مٹی کے ایک ایک ذرے کو چوم کیوں نہیں رہے!
وہ آٹھ دن کا سفر تھا۔ دو بے یار و مددگار راہِ ہجرت کے مسافر اور ایک بدرقہ! چشمِ فلک نے ایسا قافلہ اس سے پہلے دیکھا نہ اس کے بعد! پندرہ صدیاں ہو چکیں۔ کھرب ہا کھرب زائرین اس قافلے کے تتبّع میں، مکہ سے مدینہ اور مدینہ سے مکہ کا سفر کر رہے ہیں۔ قیامت تک کرتے رہیں گے!
دنیا کی کوئی لغت، فنونِ لطیفہ کی کوئی صنف، اظہار کا کوئی ذریعہ، ابلاغ کا کوئی ڈھنگ، اُن جذبات کی ترجمانی نہیں کر سکتا جو زائر کے دل میں اُس وقت ابھرتے ہیں جب وہ مدینۃ النبی میں داخل ہوتا ہے۔ مدینۃ النبی! جس کے درختوں پر پرندے آسمانی ہیں! جس کے کوچوں میں کنکر ہیرے اور پتھر موتی ہیں! جس کی ہوائیں بہشتی ہیں۔ جس کی فضا جنت کو چھو کر آتی ہے ۔ یہاں وہ مقدس پائوں پڑے تھے جو اصحابِ رسول کے سینوں پر پڑے اور سینے ستاروں سے بھر گئے۔ یہاں وہ مسجد ہے جو گارے اور کھجور کی ٹہنیوں سے بنی، آج جس میں لاکھوں افراد بیک وقت جمع ہو کر درود و سلام پڑھتے ہیں اور سجدہ ریز ہوتے ہیں! ہر بادشاہ، ہر شہنشاہ، ہر حکمران کی یہی خواہش تھی کہ اپنے ہاتھوں، اپنے عہد میں، اس مسجد کے لیے کچھ کر جائے! جس رسولﷺ نے امت کے لیے فاقے کیے، اُس کی امت آج آسودہ حال ہے! مسجد میں قیمتی پتھر لگے ہیں، گراں بہا قالینیں ہیں! جھاڑ اور فانوس ہیں! عنبر اور عود کی خوشبوئیں ہیں! مسجد کے چاروں طرف اعلیٰ درجے کی اقامت گاہیں ہیں۔ اشیائے خور و نوش کی افراط ہے! دنیا بھر کے پکوان اور میوہ ہائے تازہ و شیریں میسّر ہیں! مالِ تجارت سے بازار بھرے ہیں۔ یہ سب اُن فاقوں کا صدقہ ہے جو آپﷺ نے کیے۔ یہ سب اُن پتھروں کا کمال ہے جو بھوک کی وجہ سے آپﷺ نے پیٹ پر باندھے! یہ سب اُس چٹائی کا معجزہ ہے جس پر جسمِ اطہر استراحت فرماتا تھا تو جسمِ اطہر پر چٹائی کے نشان پڑ جاتے تھے۔ یہ سب اُس ریت کا اعجاز ہے جس پر آپﷺ تشریف فرما ہوتے تھے۔ صبح آپﷺ سے پوچھ کر شعائیں بکھیرتی تھی۔ ستارے اجازت لے کر طلوع ہوتے تھے۔ چاند انگلی کے اشارے سے دو حصّوں میں بٹ جاتا تھا۔
مکّہ سے مدینہ کا بے یارو مددگار سفر! راستے میں سراقہ بد نیتی سے سامنے آیا۔ گھوڑے کے پائوں زمین میں دھنس گئے۔ تائب ہوا! مقدس لبوں سے خوشخبری ملی کہ کسریٰ کے کنگن پہنو گے! پھر اس نے امیرالمومنین عمر فاروقؓ کے عہدِ مبارک میں کسریٰ کے کنگن پہنے! یہ بھی ہجرت کا معجزہ تھا!
مکہ سے مدینہ کا کیا ہی انوکھا، اچھوتا سفر تھا! ہر روز اہلِ یثرب اپنے گھروں، اپنی دکانوں، اپنے کارخانوں سے نکلتے اور مکہ سے آنے والے راستے پر جا بیٹھتے! وہ راستہ دیکھتے کہ ان کا مہمان آ رہا ہے یا نہیں! کبھی اونچی چٹانوں پر، کبھی اونچے درختوں پر، پھر شام کا اندھیرا پھیلنے لگتا۔ وہ نا امید ہو کر گھروں کو لوٹ جاتے۔ دوسرے دن پھر آتے اور راستہ دیکھنا شروع کر دیتے۔ وہ جس مہمان کے منتظر تھے، ویسا مہمان دنیا کے کسی اور شہر کو، کسی اور شہر کے مکینوں کو آج تک نصیب نہیں ہوا۔ پھر بخت نے یاوری کی! یثرب کی گلیوں کی قسمت جاگ اٹھی! وہ اونٹنی کے دائیں بائیں چل رہے تھے اور ان کے دل اچھل اچھل کر حلق تک آ رہے تھے کہ اونٹنی کہاں بیٹھتی ہے۔ پھر اونٹنی، خالقِ کائنات کی رضا سے، اُس گھر کے سامنے بیٹھی جس کا مکین آج قسطنطنیہ میں محوِ خواب ہے! کیا معجزہ تھا اس مسافر اونٹنی کا! سینکڑوں سال پر محیط سلطنت عثمانیہ کا ہر حکمران اپنا دورِ حکومت حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار پر حاضری سے آغاز کرتا! شاید ہی کوئی ایسا مسلمان ہو جو استانبول آئے اور آپؓ کے مزار پر نہ حاضر ہو! کیا میزبانی تھی جس کا شرف ابو ایوب انصاریؓ کو ملا! اب بھی آپ لاکھوں، کروڑوں زائرین کی میزبانی فرما رہے ہیں! قیامت تک یہ میزبانی جاری رہے گی!
مسجد نبوی میں امام مالکؒ حدیث کا درس دیتے تو فرطِ ادب سے نامِ نامی زبان پر نہ لاتے! بس یہ کہتے کہ اس قبر میں سونے والے نے یہ فرمایا ! مدینہ کی گلیوں میں امام مالکؒ برہنہ پا چلتے کہ جوتے پہنے تو بے ادبی ہو گی!
چشمِ تصوّر سے فضا میں اٹھ کر دیکھیے! کرۂ ارض سے کتنے فاصلے مدینۃ النبی کی سمت رواں ہیں! ہر آن! ہر لمحہ! ہر لحظہ! اس وقت بھی جب گناہوں کا یہ پُتلا مسجد نبوی کے ایک کونے کے پاس بیٹھ کر یہ سطور لکھ رہا ہے! اُس وقت بھی جب لوگ یہ سطور اخبار پر اور انٹرنیٹ پر پڑھ رہے ہوں گے، یہ قافلے مسلسل مدینہ کی طرف رواں ہیں! انڈونیشیا سے‘ فجی سے، نیوزی لینڈ سے، جاپان سے، وسطی ایشیا سے، جنوبی ایشیا کے ملکوں سے، شرقِ اوسط سے، افریقہ سے، یورپ سے، امریکہ سے!
یہاں مالدیپ سے آئے ہوئے زائر ہیں! چینی ہیں جن کی داڑھیوں کے بال صرف ان کی ٹھوڑیوں پر ہیں! افغان ہیں جن کی کالی پگڑیوں کے سرے ان کی کمر کمر تک ہیں! ایک زائر کو دیکھا جس نے لمبے بالوں کی پونی کی ہوئی تھی! عبائوں اور چغوں والے بھی تھے۔ پتلونوں والے بھی! تہمد پوش بھی! شلوار قمیصوں والے بھی! عورتیں ڈھکے ہوئے چہروں والی اور کھلے چہروں والی! مشرقِ بعید والے زرد رُو بھی تھے۔ مغرب کے سفید فام بھی! افریقہ کے زنگی بھی، جنوبی ایشیا اور مصر کے گندمی بھی! اس زمین پر، اس آسمان کے نیچے، کوئی اور ایسا ملک نہیں جہاں بیک وقت اتنی زبانوں، اتنی نسلوں، اتنے لباسوں، اتنی مختلف قامتوں والے لوگ اکٹھے ہوں اور سارا سال، آتے رہیں جاتے رہیں! حافظ محمد ظہورالحق ظہور نے کہا تھا؎
طیبہ جائوں اور آئوں پھر جائوں
عمر کٹ جائے آنے جانے میں
کئی سال ہوئے یارِ طرحدار شعیب بن عزیز نے شکوہ کیا تھا اور کیا ہی شیریں شکوہ تھا کہ اس فقیر کا یہ شعر؎
کئی موسم مجھ پر گزر گئے احرام کے ان دو کپڑوں میں
کبھی پتھر چوم نہیں سکتا کبھی اذنِ طواف نہیں ہوتا
اُن کے عمر ے پر چھایا رہا۔
آج جامیؔ ہوتے تو شکوہ تو کیا کرتا، ان کے پائوں پکڑ کر شکریہ ادا کرتا، خراجِ تحسین پیش کرتا! حسّان بن ثابت کی نعت کو تو استثنیٰ حاصل ہے۔ آپﷺ کے حضور پڑھی! اس نعت کا کیا جواب ہو سکتا ہے! اس کے بعد جامیؔ کی نعت کا بھی جواب نہیں! ادھر اس عاصی نے مدینہ کا رُخ کیا، ادھر زبان پر اشعار رواں ہو گئے! 
زمہجوری برآمد جانِ عالم/ ترحم یا نبی اللہ ترحم/ نہ آخر رحمۃ اللعالمینی/ ز محروماں چرا غافل نشینی!/ بروں آور سر از بُرد یمانی/ کہ روئے تست صبحِ زندگانی/ شبِ اندوہِ ما را روز گرداں/ ز رویت روز ما فیروز گرداں/ بہ تن در پوش عنبر بوئی جامہ/ بسر بر بند کافوری عمامہ/ ز حجرہ پائے در صحنِ حرم نہ/ بفرقِ خاک رہ بوساں قدم نہ!
ہجر سے کُل عالم کی جان نکلی جا رہی ہے ! رحم فرمائیے اللہ کے نبی! رحم فرمائیے! آپ رحمۃ اللعالمین ہیں، محروموں سے کیوں بے نیاز ہیں؟ یمنی چادر سے اپنا مبارک سر باہر نکالیے کہ آپ کا چہرہ ہی تو زندگی کی صبح ہے! ہماری اندوہناک رات کو دن کر دیجیے اور اپنے رُخ انور سے ہمارے دن کو ظفر یاب فرما دیجیے! عنبر کی خوشبو والا ملبوس زیب تن فرمائیے! سر پر کافوری عمامہ رکھیے! حجرۂ پاک سے حرم کے صحن میں قدم رنجہ فرمائیے۔ آپ کی خاکِ رہ کو چومنے والے منتظر ہیں۔ ان کے سر پر پائے  مبارک رکھیے - ۔……………………………
بشکریہ  روزنامہ دنیا

Tuesday, February 11, 2020

…گلہ جو حرم کو اہلِ حرم سے ہے



جس شہر کو جہانوں کے پروردگار نے آخری رسولﷺ کی ولادت کے لیے منتخب کیا‘ اس میں آج تیسرا دن ہے!

ہوا نرم اور لطیف ہے‘ موسم سرد نہ گرم! فضا خوشگوار ہے‘ دل کو طمانیت بخشنے والی! نمازِ فجر کا حرم کی آخری چھت پر اپنا ہی لطف ہے۔ میٹھی میٹھی خنکی! بغیر بازوؤں کا سویٹر پہن لیا جائے تو یہ لطف زیادہ ہو جائے! پھر جوں جوں دن چڑھتا ہے‘ ٹمریچر بڑھتا ہے یہاں تک کہ ظہر کے وقت 27کے لگ بھگ ہو جاتا ہے!

مسجد الحرام ایک دنیا ہے! دنیا سے الگ ایک اور دنیا۔ اندر کی آنکھ کھلی ہو تو بہت کچھ دکھائی دیتا ہے۔ وہ نوجوان عورت جو اپنے بوڑھے باپ کے ساتھ کھڑی زار و قطار رو رہی تھی۔ زندگی میں پہلی بار‘ سامنے بیت اللہ دیکھ کر‘ جذبات قابو میں کم ہی رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہی ہوا۔ ہچکی بندھ گئی! پھر اس کے باپ نے اس کے کاندھے پر دستِ شفقت رکھا اور باپ بیٹی مطاف کی طرف چل پڑے۔ وہ نوجوان جو بوڑھے باپ کی ویل چیئر دھکیل رہا تھا۔ وہ عرب عورت جو جاتے جاتے مسجد کے ملازم کے ہاتھ میں کچھ رقم پکڑا گئی تھی! پانچ چھ برس کا وہ بچہ جو احرام میں ملبوس ایک اور ہی مخلوق لگ رہا تھا۔ وہ بڑھیا جس کی کمر کمان کی طرح دُہری تھی اور طواف کیے جا رہی تھی۔ وہ دیہاتی عورت جو طواف کے دوران‘ اپنے سے آگے چلنے والی اپنی عزیزہ کی عبا کو مسلسل پکڑے چلی جا رہی تھی۔ وہ احرام پوش نوجوان جو طواف کے دوران خشوع و خضوع سے سیلفیاں کھینچ رہا تھا۔ وہ شُرطہ جو خواتین کو تقریباً ہانک رہا تھا۔ ایک جگہ بیٹھتی تھیں تو اٹھا دیتا تھا۔ پھر وہ دوسری جگہ پڑاؤ ڈالتی تھیں‘ وہاں سے بھی اٹھا دیتا تھا۔ کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے خواتین کے وجود کو یہاں سخت مجبوری کی وجہ سے برداشت کیا جا رہا ہے! قرون اولیٰ میں غالباً اتنی سختی اور اس قدر بندشیں نہیں تھیں!

حرم کے باہر‘ چاروں طرف جو خالی جگہ ہے اور جہاں نماز پڑھی جاتی ہے‘ دیہاتی عورتوں کے تصرف میں ہے۔ یہ زیریں طبقے سے تعلق رکھنے والے وہ خاندان ہیں جو رہائش کرائے پر لینے کی سکت نہیں رکھتے! ان کا سامان ساتھ ہوتا ہے۔ رات دن یہیں رہتے ہیں! جو روکھا سوکھا‘ میسر آیا‘ کھا لیا۔ کیا عجب‘ میزان سے گزرنے کے بعد انہیں فائیو سٹار رہائش گاہیں دی جائیں!؎

یہاں میں محترم ہوں اور وہ نادم کھڑے ہیں
نظر مجھ سے چراتے ہیں وزیر و شاہ میرے

''امت‘‘ کا تصور جسے سیاسی اسلام کے علم برداروں نے کبھی عسکری اور کبھی سیاسی چولا پہنانے کی کوشش کی ہے‘ اپنے جیتے جاگتے وجود میں یہاں نظر آتا ہے۔ یہاں آ کر‘ غور کرنے پر‘ اس حقیقت کا احساس ہوتا ہے کہ یہ تصور‘ بنیادی طور پر‘ روحانی ہے اور مکمل طور پر غیر سیاسی! ہاں اس کا اقتصادی پہلو واضح طور پر نظر آتا ہے۔ ہوٹلوں اور ریستورانوں میں برما کے روہنگیا مہاجر کام کرتے ہوئے عام نظر آتے ہیں! ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً دس لاکھ روہنگیا مسلمان یہاں مختلف ملازمتوں میں کھپے ہوئے ہیں! بنگلہ دیشی اور بھارتی مسلمان‘ لاکھوں کی تعداد میں برسرِروزگار ہیں۔ پاکستان کے بھی لاکھوں خاندان یہاں کی ملازمتوں کے سبب خوشحال ہو رہے ہیں۔ ایک محرک یہ بھی ہے کہ دونوں مقدس شہروں میں غیر مسلموں کا داخلہ بند ہے۔ ورنہ بھارتی ہندو یہاں بھی اُسی طرح چھا جاتے جیسے شرق اوسط کے دوسرے ملکوں میں چھائے ہوئے ہیں۔

خدا کا یہ گھر‘ دنیا کے تمام مسلمانوں کی پناہ گاہ ہے! یہ وہ مسجد ہے جو شیعہ ہے‘ نہ سُنّی‘ شافعی ہے‘ نہ مالکی‘ حنفی ہے‘ نہ حنبلی! یہیں آ کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارے مسلک‘ نفرت یا علیحدگی پسندی کی بنیاد پر نہیں‘ سہولت کی بنیاد پر وجود میں آئے تھے۔ وہ ائمہ‘ جن کے ناموں پر یہ مسلک ظہور پذیر ہوئے‘ ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور اخلاص کے رشتوں میں بندھے ہوئے تھے۔ امام شافعیؒ نے امام مالکؒ کے حضور زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ پھر امام ابو حنیفہؒ کے تلمیذِ خاص امام محمد بن حسنؒ کے شاگرد رہے۔ امام ابو حنیفہؒ امام مالکؒ سے تیرہ سال عمر میں بڑے تھے‘ مگر امام مالکؒ کی مجلس میں بیٹھے تو خاموش اور سرنگوں ہو کر! امام احمد بن حنبلؒامام شافعیؒ کے شاگرد رہے اور قاضی ابو یوسفؒ کے بھی جو حنفی فقہ کے معماروں میں شامل ہوتے ہیں۔ امام ابو حنیفہؒ امام جعفر صادق کے شاگرد رشید  رہے۔ آپ نے امام باقرؒ سے بھی اکتساب کیا۔ امام شافعی ؒامام جعفر صادقؒ کی خدمت میں باقاعدہ حاضری دیا کرتے۔ فرماتے تھے کہ جب بھی امام جعفر صادق ؒکی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ تلاوت کر رہے ہوتے یا نماز میں مصروف ہوتے! 

آج ان پانچوں ائمہ کے نام لیوا ایک دوسرے سے برسرپیکار نظر آتے ہیں تو ہر اس شخص کو تعجب ہوتا ہے جس نے ان ائمہ کرام کے حالات و فضائل کا مطالعہ کر رکھا ہے! ان اماموں کا ایک دوسرے سے تعلق معاندانہ تھا نہ حریفانہ! یہ تو ایک دوسرے سے استفادہ کرتے تھے۔ چاروں سنی امام‘ اہلِ بیت کے حلقہ ٔارادت میں شامل تھے۔ امام ابو حنیفہؒ نے کہ متمول تھے‘ ہمیشہ سادات کی تحریکوں کی خفیہ مالی مدد کی! یہی اصل سبب تھا عباسی خلفاکے اُس ظلم کا جو انہوں نے امام ابو حنیفہؒ پر روا رکھا! 

ان ائمہ کرام کے شاگرد جہاں جہاں پہنچے‘ وہاں وہاں ان کے مسلک کا اور نکتۂ نظر کا رواج پڑا۔ یہ فیض کے وہ دریا ہیں ‘جن کا منبع رسولِ خداﷺ کی تعلیمات ہیں۔ مسجد الحرام اس حقیقت کا سب سے بڑا مظاہرہ ہے۔ تمام مسالک کے پیروکار ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں۔ مالکی فقہ کے پیروکار‘ جو زیادہ تر شمالی افریقہ اور مغربی افریقہ میں رہتے ہیں ہاتھ چھوڑ کر نماز ادا کرتے ہیں!

ایک زمانہ وہ بھی آیا جب عالمِ اسلام‘ اکثر و بیشتر‘ مغربی طاقتوں کی غلامی میں تھا۔ اُس عہد میں حج اور عمرہ کے مواقع‘ آزادی کی تحریکوں کے درمیان رابطوں کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ مسلمان رہنما‘ یہاں آ کر‘ ایک دوسرے سے ملتے‘ تبادلۂ خیالات کرتے‘ تدبیریں سوچتے‘ ایک دوسرے سے استفادہ کرتے‘ اور منصوبہ بندی کرتے۔ آج کے مخصوص حالات میں ان مواقع پر سیاسی سرگرمیاں ممکن نہیں۔ اس میں ایک حکمت یہ ہے کہ مسلمان جو سیاسی حوالے سے پہلے ہی منقسم ہیں‘مزید منقسم نہ ہوں۔

حرم کے چاروں طرف رات کو دن ہوتا ہے پوری رات طواف اور سعی کے مناظر برپا رہتے ہیں۔ عبادت گزار مسلمان رات رات بھر‘ حرم ِپاک میں سجدہ ریز رہتے ہیں۔ بازاروں میں کھانے پینے کی دکانیں ہر وقت کھلی رہتی ہیں۔ عمرہ کے بعد حلق اور قصر کی سہولت مہیا کرنے کے لیے‘ باربر حضرات چوبیس گھنٹے دکانیں کھولے رکھتے ہیں! کھانے کی مقدار اتنی فیاضانہ ہے کہ ایک شخص کا کھانا‘ دو کے لیے کافی رہتا ہے! بازار نمازِ فجر کے فوراً بعد کھل جاتے ہیں!
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ معروف ہوٹلوں کے سلسلے (Chains) مغربی ملکوں کی ملکیت میں ہیں۔ یوں منافع کی رقم‘ جو کثیر مقدار میں ہے‘ مغربی ملکوں (یعنی ہوم Countries)میں پہنچ جاتی ہے۔ سعودی عرب کا مشہور فاسٹ فوڈ ''البیک‘‘ معیار میں کسی بھی مغربی فاسٹ سے کم نہیں مگر نامعلوم وجوہ کی بنا پر‘ بدقسمتی سے‘ اس کی مارکیٹنگ سعودی عرب سے باہر نہیں دکھائی دیتی! مسلمان ممالک اپنا کوئی مشروب بازار میں لا سکے نہ فاسٹ فوڈ کی کوئی چین! انحصار سارے کا سارا‘ اس حوالے سے‘ مغرب پر ہے۔ یوں عالمِ اسلام کی اقتصادی آزادی کا خواب ابھی تک شرمندئہ تعبیر نہیں ہو سکا! یہی تو شکوہ ہے جو مکہ کی سرزمین زبانِ حال سے کر رہی ہے۔ اقبالؔ نے یوں ہی تو نہیں کہا تھا ؎
گلہ ٔجفائے وفا نما کہ حرم کو اہلِ حرم سے ہے
کسی بت کدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی‘ ہرَی ہرَی

Monday, February 10, 2020

کئی موسم گزر گئے مجھ پر احرام کے ان دو کپڑوں میں



''کوئی تکلیف‘ کوئی مسئلہ‘ کوئی پرابلم ہے تو بتائیے! کچھ چاہیے ہو تو حکم کیجیے۔‘‘

ہمارے دوست عامر شہزاد نے پوچھا۔عامر طویل عرصہ سے اس شہر میں رہائش پذیر ہیں‘ جہاں حضرت عبدالمطلب نے خدا کے گھر کو خدا کے سپرد کرتے ہوئے‘ حملہ آور سے اپنے اونٹوں کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا!

“شکریہ عامر بھائی! حرم کے بغلی کوچے میں قیام ہو‘ طواف اور سعی کی سکت ہو‘ پینے کے لیے زم زم ہو‘ کھانے کے لیے سکری کھجور‘ ہرے اور سیاہ زیتون اور طباشیر کے رنگ کا سفید براق پنیر ہو تو کم از کم اس زندگی میں اور کیا چاہیے!‘‘

انسان حیرت کے سمندر میں غرق ہوتا ہے جب آنکھوں کے سامنے ابراہیمؑ کی دعا کی قبولیت کے مناظر دیکھتا ہے! پیغمبر کا معجزہ! ایسا معجزہ نہیں جو صرف آسمانی یا تاریخی کتابوں کے صفحات میں بند ہو! یہ زندہ معجزہ ہے! سامنے برپا ہوتا ہوا! رات دن برپا ہوتا ہوا۔ اس ''وادِِ غیرِ ذِیْ زَرعٍ‘‘ میں‘ اس وادی میں جہاں کھیتی ہے نہ روئیدگی‘ دنیا کی کون سی نعمت ہے جو موجود نہیں! رزق کی افراط‘ اشیائے خوردنی کی بہتات! مالِ تجارت کی ایسی کثرت ہے کہ جس طرح گلیاں اور بازار خلقِ خدا سے چھلک رہے ہیں‘ اسی طرح مال و اموال سے دکانیں اٹی ہوئی ہیں! فائیو سٹار مسافر خانے‘ بیت اللہ کو اپنے حصار میں لیے ہیں! مسافر خانے کیا ہیں ! مہمان خانے ہیں!
''اور اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر روزی میں فضیلت دی‘‘!

صرف آسودہ حال‘ متمول ہی نہیں‘ دنیا کے ہر گوشے سے ہر انکم گروپ کے مسلمان یہاں فروکش ہیں! مستقلاً بھی! عارضی بھی! مزدور بھی! آجر بھی! تاجر بھی! ماتحت بھی! رئیس بھی!
فلک بوس مہمان خانوں کے عقب میں پہاڑیاں ہیں! کیا جانیے! کس کس پہاڑی پر پائے مبارک گئے ہوں! جن پہاڑیوں کے درمیان آخری رسولﷺ‘ بے یار و مددگارتھے‘ اب ان پہاڑیوں کے ارد گرد عشاق کا ہجوم ہے! رات دن صبح شام‘ ہر ساعت! ہر پل‘ ہر آن‘ نامِ نامی لیا جاتا ہے‘ لاکھوں کروڑوں سلام و درود کے ساتھ!

مکہ بھی کیا شہر ہے! شہروں کا شہر! عجائبات اور معجزات کی دنیا! مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہونے والوں کو ان عجائبات اور معجزات کا احساس ہے نہ قدر! پیدائش سے یہ سب کچھ دیکھ دیکھ کر عادی ہو گئے ہیں! اسے ہی Taken for granted کہتے ہیں! جنہوں نے یہ سب کچھ نہیں دیکھا‘ دیکھیں تو مبہوت ہو جائیں! وڈیوز اور یوٹیوب کی وساطت سے اب دیکھ بھی رہے ہیں اگرچہ لائیو دیکھنے کا اثر اور ہے! لاکھوں کروڑوں ان گنت مسلمان‘ ایک دستِ غیب کے اشارے پر ‘ ایک زبانِ غیب کے حکم سے‘ اپنے آپ کو مکمل اطاعت سے میں ڈالے ہوئے ہیں! متابعت کی انتہا ہے! سپردگی ایسی کہ کوئی اس سپردگی کا سوچ بھی نہ سکے! حکم دیا لباسِ فاخرہ اتار دو! اتا ردیا! کہا سفید چادریں اوڑھ لو! اوڑھ لیں! فرمایا: دایاں کندھا برہنہ چھوڑ دو! تعمیل ہوئی! اِترا اِترا کر اِٹھلا کر چلو! ایسا ہی کیا! اب نارمل ہو کر چلو! نارمل چلنے لگے! سبز رنگ کی ٹیوب لائٹوں کے پاس پہنچو تو دوڑو! سب دوڑنے لگ گئے! ہاتھ باندھ لو! باندھ لیے! پیشانیاں زمین پر رکھو! کروڑوں نے ماتھے زمین پر رکھ دیئے! منتشر ہو کر‘ اپنا اپنا رزق تلاش کرو! بازار کھل گئے ‘ دکانیں گاہکوں سے اٹ گئیں! غور کیا جائے تو معجزے ہی معجزے ہیں! نشانیاں ہی نشانیاں ہیں!

کوئی سپہ سالار ہے یہاں نہ حاکم! بس ایک آواز دینے والا آواز دیتا ہے کہ نماز کی طرف آئو! آواز دینے والے کے پاس ڈنڈا ہے نہ بندوق! توپ ہے نہ بم! زبردستی ہے نہ تشدد! مگر جیسے ہی وہ آواز دیتا ہے‘ سب اپنا اپنا کام چھوڑ کر اٹھتے ہیں اور چل پڑتے ہیں! مرد بھی‘ عورتیں بھی! لڑکے بھی ‘ دوشیزائیں بھی! وہ بھی جو پہیوں والی کرسیوں پر ہیں اور وہ بھی جو پائوں گھسیٹ گھسیٹ کر‘ بمشکل چلتے ہیں! ہر چہار طرف سے گلیاں‘ کوچے‘ بازار‘ راستے اٹ جاتے ہیں۔ سب ایک ہی سمت جا رہے ہیں! کوئی عام سرائے سے‘ کوئی فائیو سٹار مہمان خانے سے‘ کوئی دور سے کوئی نزدیک سے!

کوئی موسم ایسا نہیں‘ کوئی مہینہ ایسا نہیں‘ کوئی ہفتہ ایسا نہیں‘ جب یہ انبوہ کے انبوہ‘ مکّہ میں نہ ہوں! جولائی‘ اگست کی قیامت خیز گرمی ہو یا جنوری فروری کا خوشگوار گواراموسم! گروہ کے گروہ رخصت ہوتے ہیں اور گروہ کے گروہ شہر میں پڑائو ڈالتے ہیں! پانی کم ہوا نہ کبھی خوراک کا کال پڑا! گروہوں یا افراد کے درمیان جھگڑے ہیں نہ تو تکار! ایک لطافت ہے نرمی اور ملائمت میں گُندھی ہوئی جو ہر طرف‘ ہر سر پر چادر تانے ہے! کوئی کسی کو پانی پلا رہا ہے‘ کوئی کسی کے لیے جگہ خالی کیے دے رہا ہے‘ کوئی کسی کی رہنمائی کر رہا ہے‘ کوئی کسی کی‘ کسی اور طرح سے مدد کر رہا ہے! زبانیں اپنی اپنی ہیں !لباس الگ الگ‘ کلچر اور ثقافت جدا جدا‘ کھانے کے انداز مختلف‘ مگر پھر بھی سب ایک ہیں‘ ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے‘ رشتے میں بندھے ہوئے‘ روئے زمین پر ایسا منظر کہیں اور دیکھنے میں آیا نہ آئے گا! 

زمانے ہو گئے‘ ایسا ہی ہو رہا ہے! پندرہ صدیوں سے! یہ غیر زرعی وادی‘ یہ بنجر پہاڑیوں والا شہر‘ دنیا کا مرکز چلا آ رہا ہے! تب بھی جب اونٹ اور گھوڑے سواری کا ذریعہ تھے! جب قافلوں کی صورت میں‘ برسوں اور مہینوں پیدل چل کر لوگ یہاں پہنچتے تھے۔ آج ہوائی جہازوں میں بیٹھ کر بھی سب کا رُخ اِسی طرف ہے! صفا اور مروہ کے درمیان راستہ کچا تھا‘ پتھروں ‘ کنکروں سے بھرا ہوا‘ تب بھی حکم کی تعمیل ہوتی تھی‘ آج ٹائلیں ہیں اور قیمتی مرمر‘ آج بھی اطاعت ہے اور فرماں برداری! کل انکار کی مجال تھی نہ آج ہچکچاہٹ ہے! سرِ مُو انحراف نہیں! ہر شخص ‘ ہر مرد‘ ہر عورت سراپا تعمیل ہے!آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا! ایسے زمانے بھی آئیں گے جب ہوائی جہازوں کی موجودہ رفتار پر لوگ ہنسیں گے! جب سواریاں فضائوں میں اڑیں گی! جب دنوں اور گھنٹوں کی نہیں‘ لمحوں‘ لحظوں اور ثانیوں کی بات ہوگی! تب بھی اس شہر کا فسوں یہی ہوگا! خلقِ خدا تب بھی آئے گی! جوق در جوق ! احرام کے دو ہی کپڑے ہوں گے! پتھر چوما جائے گا‘ صفا اور مروہ تب بھی شہزادیوں کی طرح اپنے اپنے مقام پر جلوہ افروز ہوں گی۔ سفر کے ذرائع مختلف ہوں گے! سفر یہی ہوگا! 

سلطنتیں طلوع ہوئیں‘ خاندان غروب ہوئے‘ اموی گئے‘ پھر عباسی! فاطمی پھر وسط ایشیائی! عثمانیوں کا زمانہ فلک تک چھا گیا‘ پھر تاریخ کی گرد میں اوجھل ہوا‘ اب آلِ سعود کا عہد ہے! اس شہر کی عظمت کم نہ ہوئی! سب نے اس کی چاکری کی! سب اس کے غلام رہے! ترکوں نے خدمت کی انتہا کر دی! آل سعود نے توسیع پر توسیع کی! ایسی ایسی سہولیات! جن کا تصور تک نا ممکن تھا! آنے والے وقتوں میں بھی مرکزیت مکہ ہی کی ہوگی! مکہ کسی سلطنت‘ کسی بادشاہ‘ کسی حکومت کا پایۂ تخت نہیں رہا‘ مگر یہاں ایسا تخت بچھا ہے جس کی حکومت دائمی ہے! بادشاہیاں عارضی ہیں! جو کل تھا وہ آج نہیں! جو آج ہے‘ وہ کل نہیں دکھائی دے گا مگر مکہ کی بادشاہی کو زوال نہیں! ہر بادشاہ یہاں سر جھکا کر آئے گا! عجز و انکسار کے ساتھ‘ خدمت کے جذبے سے سرشار! مقدر پر نازاں! چاکری پر فخر کرتا!! 

جس نے مکہ میں احرام کی دو چادریں اوڑھنے کا حکم دیا‘ اس نے مکہ کا موسم بھی اسی حساب سے ترتیب دیا۔ یہاں سرما کے عروج میں بھی درجۂ حرارت سترہ سے کم نہیں ہوتا۔ کھلے آسمان تلے‘ مطاف میں‘ ہزاروں لوگ‘ بے حس و حرکت‘ بے خود ہو کر بیٹھے ہیں۔ سب کی نگاہ اس گھر کی طرف ہے جس پر سیاہ غلاف ہے اور جس کے غلاف کے بالائی حصے پر سنہری سوزن کاری ہے! 

دیکھ رہے ہیں! دیکھے جا رہے ہیں اس لیے کہ صرف دو حوالوں سے محض دیکھنے کو نیکی قرار دیا گیا ہے! ایک ‘ کعبہ کو محبت سے دیکھنا نیکی ہے۔ دوسرے ‘ ماں باپ کو محبت سے دیکھنا کارِ ثواب ہے! شاید یہی وجہ ہے کہ والدین کو بھی مجازاً قبلہ و کعبہ کہا جاتا ہے! ایک شاعر کو پہلا مصرع دے کر طرح لگانے کو کہا گیا‘ یعنی دوسرا مصرع لگا کر شعر مکمل کرے۔ پہلا مصرع یہ بتایا گیا ع
میں تھا نماز میں‘ مری کعبے کو پیٹھ تھی
کیا ہوشیار شاعر تھا۔ دوسرا مصرع لگایا اور یوں کہ آج تک جو سنتا ہے‘ سر دھنستا ہے ع
میں تھا امام اور مرا والد تھا مقتدی

Thursday, February 06, 2020

ہماری آہنی ضرب


دنیا بھر میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں کے لیے یہ ایک نیا پیغام تھا! اچھوتا!
جس نے بھی سنا تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا! جسے معلوم ہوا اش اش کر اٹھا۔ تعریف کی۔ ہماری ذہانت اور فطانت کو تسلیم کیا۔
ہمارے دوست چین کو معلوم ہوا تو وہ حیران رہ گیا۔ تائیوان کے حوالے سے ایسی ترکیب اس کے ذہن میں کبھی نہ آ سکی! ہمارے ذہنِ رسا پر اس نے رشک کیا۔ داد و تحسین کے سفارتی پیغام بھیجے!
فلسطینیوں نے سنا تو دنگ رہ گئے! وہ بھی ایسا کرتے تو اب تک اسرائیل پارہ پارہ ہو چکا ہوتا۔ یہودی بستیاں نابود ہو چکی ہوتیں! یروشلم پر مسلمانوں کا علم لہرا رہا ہوتا! دنیا بھر میں بکھرے ہوئے فلسطینیوں کا سیروں خون بڑھ جاتا!
فلپائن کے مسلمانوں کے لیے یہ ایک ستارہ تھا! صبح کا ستارہ! روشنی کا پیغام! مورو ایک مدت سے جدوجہد کر رہے تھے مگر کبھی نہ سوچا کہ آزادی حاصل کرنے کے لیے یہ نسخۂ کیمیا بھی موجود ہے!
یہ تو مسلمانوں کی تحریکیں تھیں! غیر مسلموں نے بھی اس جدید، اچھوتی، تدبیر کو آزمانے کا سوچا۔ سکاٹ لینڈ والے اکثر و بیشتر، برطانیہ سے الگ ہونے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ علیحدہ سکاٹ لینڈ کی تحریک چلانے والے سیاست دانوں نے فیصلہ کیا کہ وہ بھی یہ نسخہ آزمائیں گے! کبھی کبھی ٹیکساس والوں کو بھی دورہ پڑتا ہے کہ وہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے الگ ہوں! ہماری اس ترکیب کا سن کر ان کی بھی بیٹھے بیٹھے لاٹری نکل آئی۔ آزاد ٹیکساس کے علم برداروں نے اس میں بہت دلچسپی لی۔ ایک کمیٹی بنائی جو پاکستان آ کر اس کے اسرار و رموز کا مطالعہ کرے گی! پھر اس کی روشنی میں نئے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی!
کشمیر کے لیے ہمارے اس اقدام نے بھارت کا بھرکس نکال کر رکھ دیا۔ مودی سرکار نے اجلاس پر اجلاس بلائے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کے ذہین ترین دماغ بھی اس کا توڑ نہ سوچ سکے! گھنٹوں بیٹھ کر بحث مباحثہ کرتے رہے مگر مایوسی کے علاوہ بد بختوں کے پلّے کچھ نہ آیا۔
پاکستان کے اس اقدام سے بھارت کی معیشت تباہ و برباد ہو گئی! قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں۔ چاول، آٹا، دالیں، دودھ، گھی کا کال پڑ گیا۔ افراطِ زر کی شرح چالیس فی صد کو چھونے لگی۔ کچھ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کے گھاٹ اتر گئے، جو باقی بچے وہ ہڈیوں کے ڈھانچے بن گئے۔
یہ تو اقتصادی صورتِ حال تھی! بھارتی عساکر پر بھی مصیبت آن پڑی۔ سارے ہتھیار جام ہو گئے۔ توپوں میں کیڑے پڑ گئے۔ ہوائی جہازوں کے پُرزے راتوں رات زنگ آلود ہو گئے۔ رن وے گڑھوں سے بھر گئے۔ پائلٹوں کے معدے خراب ہو گئے۔ ایٹمی صلاحیت جواب دے گئی۔ میزائل لاٹھیوں میں بدل گئے۔ لاٹھیاں ٹوٹ گئیں! بحری جہازوں کے پیندوں میں شگاف پڑ گئے۔ آبدوزیں پانی میں چھپی چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گئیں۔ اور تو اور، بھارتی جرنیلوں کی زبانیں گنگ ہو گئیں۔ ڈاکٹروں کو وجہ سمجھ میں نہ آئی۔ سپاہی ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہو گئے۔ گویا ہاتھیوں نے اپنے ہی لشکر کو روند ڈالا!
مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے پاکستان کے اس اقدام نے معجزوں کے دروازے وا کر دیے۔ وادی کے مسلمان صبح بیدار ہوئے تو ہر طرف بھارتی فوجیوں کی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ منہ ان لاشوں کے کھلے تھے۔ آنکھیں باہر کو نکلی ہوئیں۔ جبراً مسدود کیا ہوا انٹرنیٹ کام کر رہا تھا۔ ای میلیں چل رہی تھیں۔
صورتِ حال نے مودی سرکار کو بے بس کر دیا۔ واشنگٹن میں متعین بھارتی سفیر کو حکم دیا گیا کہ فوراً وائٹ ہائوس سے رابطہ قائم کرے اور صدر ٹرمپ سے درخواست کرے کہ وہ پاکستان کو اس اقدام سے روکیں‘ اور اگر پاکستان نہ رُکے تو صدر ٹرمپ کشمیر کے حوالے سے ثالثی کا کردار ادا کریں۔ جو فیصلہ وہ کریں گے بھارت کو قبول ہو گا!
یہ تو زمین کا حال تھا! آسمانوں پر جو کچھ ہوا، نہ پوچھیے! افلاک پر کھلبلی مچ گئی! فرشتے حیران کہ اس اقدام نے تقدیر کو مخمصے میں ڈال دیا! کاتبِ تقدیر نے مقبوضہ کشمیر کی آزادی کا جو وقت متعین کیا تھا، وہ ابھی ذرا دُور تھا۔ مگر پاکستان کے اس اقدام نے ما بعدالطبیعاتی قوتوں کو آمادہ کیا کہ وقت کا تعین از سرِ نو کریں۔ اس کے ساتھ ہی فرشتوں نے وادی کے مسلمانوں پر رحمتوں کی بارش کی! ڈل جھیل کے پانیوں میں آسمانی لہروں کے ارتعاش نے بہشت کا سا سماں پیدا کر دیا۔ ہر طرف پھول ہی پھول تھے۔ بادل سنہری تھے اور فضائیں عطر بیز! باغ پھلوں سے بھر گئے۔ مسلمانوں کے ماتھے چاندنی منعکس کرنے والے آئنوں میں بدل گئے! بوڑھوں نے الحمدللہ کہا۔ بچوں نے نعرے لگائے، مسلمان خواتین نے پکوان پکا کر مستحقین میں بانٹے۔ مردوں نے شکرانے کی نماز ادا کی!
آخر وہ کیا اقدام تھا جو پاکستان نے کیا اور ہر چہار طرف، دنیا اور ماورائے دنیا میں، یہ تبدیلیاں رونما ہونے لگیں! اے اہلِ وطن! اے اہلِ پاکستان! اے محبانِ اسلام! اے شائقینِ آزادی! اقدام یہ تھا کہ پانچ فروری کو پاکستان بھر میں تعطیل منائی گئی! تعطیلِ عام!!
کشمیر کی آزادی کے لیے یہ تعطیل سنگِ میل سے کم نہ تھی! اس دن ملک بھر میں سکول، کالج، یونیورسٹیاں بند تھیں۔ بینکوں نے کاروبار نہیں کیا۔ دفتر، کیا صوبائی، کیا مرکزی، کیا مقامی، سب بند تھے۔ نجی شعبے نے بھی کام نہ کیا۔ وہ جو دفتر جانے کے بہانے صبح اٹھ کر نماز پڑھتے تھے، چھٹی کی وجہ سے دیر سے اُٹھے۔ ناشتے صبح سات کے بجائے دس بجے ہوئے۔ چونکہ عام تعطیل تھی اس لیے ناشتے میں نہاریاں اڑائی گئیں۔ پراٹھے، پائے، لسّی، مغز نے معدوں میں روشنیاں پھیلا دیں۔ اس کے بعد خواتین نے ٹی وی سکرینوں پر وہ ڈرامے دیکھے جن میں ساس بہو کے درمیان مناقشے اور افرادِ خانہ کے درمیان نا گفتہ بہ معاشقے عام ہیں! مردوں نے پڑوسی ملک کی مقبول عام فلموں سے آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائی۔ پورے ملک میں ہر قسم کی صنعتی، تجارتی اور کاروباری سرگرمی بند ہونے کی وجہ سے صرف چند ارب ڈالر کا خسارہ ہوا‘ مگر یہ جو بھارت کو اس تعطیل کی وجہ سے کھربوں کا نقصان پہنچااس کے مقابلے میں چند ارب ڈالر کے قومی خسارے کی قربانی کیا اہمیت رکھتی ہے۔ تعطیل ایک ضروری اقدام تھا! وہ ہم نے کی! رہے غیر ضروری اقدامات تو ان کی آخر ضرورت ہی کیا ہے۔ ان غیر ضروری اقدامات میں سر فہرست وہ جنگ ہے جو ہمارے سفارت خانوں کو لڑنی چاہیے۔ کشمیر پر کتنے مضامین ہمارے سفارت خاتون کی کوشش سے یورپ، امریکہ، کینیڈا، مشرق وسطیٰ اور دنیا کے دیگر حصوں میں شائع ہوئے؟ لندن، نیو یارک، واشنگٹن، ٹورنٹو، قاہرہ، سڈنی اور ٹوکیو میں ہم نے اس موضوع پر کتنے سیمینار کرائے؟ ہم نے بھارت کی چیرہ دستیاں کہاں کہاں ہائی لائٹ کیں؟ اس ضمن میں ہم نے کچھ بھی نہیں کیا۔ اس لیے کہ ضروری نہیں!
ایک اور غیر ضروری اقدام یہ ہے کہ ہم ایک یومِ کشمیر پر مرتکز ہونے کے بجائے سارا سال کشمیر کا ذکر کریں! ہمارے تعلیمی اداروں میں کشمیر کے موضوع پر سال بھر مباحثے اور مشاعرے منعقد ہوتے رہیں! ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں مقبوضہ کشمیر کی سنگین صورتِ احوال پر مسلسل لکھا اور بولا جائے۔ اس موضوع پر ٹیلی ویژن ڈرامے لکھے اور نشر کیے جائیں! کشمیر کے حوالے سے میلے منعقد ہوں۔ مینا بازار برپا کیے جائیں۔
مگر یہ سب کچھ تو غیر ضروری ہے!
سال میں ایک دن کی تعطیل کافی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے سال میں ایک بار اقبال ڈے مناتے ہیں۔ بقول ضمیر جعفری؎
بپا ہم سال میں اک مجلسِ اقبالؔ کرتے ہیں
پھر اس کے بعد جو کرتے ہیں وہ قوّال کرتے ہیں

Tuesday, February 04, 2020

مجرم ریاست ہے یا شہری؟


نئے سال کی ڈائری خریدنا تھی۔ اس کے لیے بازار گیا تو یہ واقعہ پیش آیا۔
اب تو یہی ہے کہ گھر ہی سے نہ نکلا جائے۔ گوشۂ عافیت میں بیٹھے رہیں تو ان تھپیڑوں سے بچ جائیں جو باہر نکل کر‘ دائیں بائیں سے پڑتے ہیں! چند دن ہوئے ایک دوست سے پوچھا کیسی گزر رہی ہے! کہنے لگے ریٹائرڈ لائف سے لطف اندوز ہو رہا ہوں! سُن کر تعجب ہوا۔ کہا‘ تم تو پابندیٔ وقت اور دیگر اصولوں کے حوالے سے سخت اور طبعاً ''انگریز‘‘ واقع ہوئے ہو! تو اس معاشرے میں جہاں کوئی اصول ہے نہ پابندیٔ وقت جیسی کوئی چڑیا‘ لطف اندوز کیسے ہو رہے ہو؟ اُس نے جواب میں جو فارمولا بتایا اسے سن کر چودہ طبق روشن ہو گئے! کہنے لگا‘ گھر سے باہر نکلنے سے پہلے اپنے آپ کو اچھی طرح سمجھا لیتا ہوں کہ میاں! اب تیار ہوجاؤ! ٹریفک کی چیرہ دستیاں تمہارا انتظار کر رہی ہیں۔ دکاندار بدتمیزی کریں گے‘ ہر شخص جھوٹ بولے گا۔ قطار میں کھڑے ہو گے تو کوئی آ کر قطار بندی کی ایسی تیسی کر دے گا پھل والا چن چن کر خراب پھل ڈالے گا۔ گاڑی پارک کرنے لگو گے تو زُوں سے ایک اور گاڑی آ کر وہاں کھڑی ہو جائے گی۔ دکان سے باہر نکلو گے تو تمہاری گاڑی کے عین پیچھے کوئی اور گاڑی کھڑی ہوگی جس کا ڈرائیور آدھ گھنٹے بعد پہنچے گا! اس سب کچھ کی توقع کر کے گھر سے نکلتا ہوں‘ پھر اگر یہی کچھ پیش آئے تو اچنبھا ہوتا ہے ‘نہ افسوس! نہ پیش آئے تو خوشی سے پھولا نہیں سماتا۔ یوں مزے سے گزر رہی ہے! 
ڈائری کا قصّہ یوں ہے کہ یہ تین چار عشروں پر محیط پرانی عادت ہے! کل کون کون سے ضروری کام کرنے ہیں‘ کس تاریخ کو کہاں جانا ہے‘ یہ سب کچھ ڈائری کے متعلقہ صفحات پر‘ تاریخ وار‘ درج ہو جاتا ہے۔ یوں یادداشت دھوکا دیتی ہے نہ رسوا کرتی ہے ‘اس لیے کہ انحصار یادداشت پر نہیں‘ ڈائری پر ہو جاتا ہے۔ ملازمت کے دوران‘ جو ٹوٹی پھوٹی عزت بنی اس میں ڈائری کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اوپر سے حکم آیا کہ فلاں تاریخ تک یہ کام ہو جانا چاہیے تو فوراً ڈائری پر نوٹ کر لیا مطلوبہ تاریخ کو میز پر رکھی ڈائری کا صفحہ یاد دلا دیتا! نیچے والوں کے ذمے کوئی کام لگایا تو ڈائری پر تاریخ نوٹ کر لی۔ یوں ''صاحب‘‘ سے زیادہ ماتحت ڈائری سے ڈرتے تھے! بچے بھی جانتے تھے کہ جو فرمائش ڈائری پر چڑھا دی گئی‘ پوری ہو جائے گی ورنہ زبانی یاد رہنے کا سوال ہی نہیں تھا۔
بچے بڑے ہوئے تو مشورہ دینے لگے کہ اس سالانہ ڈائری کا قدیم رواج اب چھوڑیئے اور الیکٹرانک ڈائری پر آ جائیے جو موبائل فون میں بھی ہے اور آئی پیڈ میں بھی! مگر وہ جو صفحہ الٹنے کا مزہ ہے وہ الیکٹرانک ڈائری میں کہاں! پھر یہ سالانہ ڈائریاں یوں بھی کارآمد ہیں کہ پرانی یادداشتیں نکال کر واقعات کا تاریخ وار اندازہ لگایا جا سکتا ہے! گزشتہ برسوں کی ڈائریاں محفوظ ہیں اور لائبریری کی کئی شیلفوں پر قابض!
سٹیشنری کی بہت بڑی دکان تھی اور معروف! جس میں گیا! ''ایک صفحہ ایک تاریخ‘‘ والی ڈائری لی اور کاؤنٹر پر آیا۔ چھ سو بیس روپے قیمت تھی! اتفاق یا سوء اتفاق سے پانچ ہزار کا نوٹ تھا۔ افراطِ زر نے پانچ ہزار کے نوٹ کی عزت دھیلے کی بھی نہیں رہنے دی۔ اُن واقعات کو تو چھوڑیئے جو بزرگ سنایا کرتے تھے! دادا جان کی یادداشتوں میں کچھ چیزیں پڑھ کر حیرت ہوتی ہے۔ یہ یادداشتیں فارسی میں لکھی گئی ہیں! گاؤں کے کسی شخص سے پندرہ روپے میں گائے خریدی! بڑے تایا جان کی شادی پر دو سو پینسٹھ روپے خرچ ہوئے۔ بری کی تفصیلات بھی درج ہیں۔ ان میں ریشمی لاچوں کا ذکر ہے اور اطلس کے نسوانی ملبوسات کا بھی! طلائی جوتوں کا بھی جو گاؤں کے کفش سازوں نے بنائے تھے! یہ تو ہم سے پہلی نسلوں کے تذکرے ہیں! خود ہمارا زمانہ بھی اب ماضی قریب کا نہیں‘ ماضی بعید کا لگتا ہے۔ گورنمنٹ کالج اصغر مال راولپنڈی میں زیر تعلیم تھے تو ایک کلاس فیلو کے بارے میں باتیں ہوتی تھیں کہ یہ لوگ اس قدر امیر ہیں کہ ناشتے کا سامان لینے بیکری میں جاتے ہیں تو ہر روز سو کا نوٹ لے کر جاتے ہیں! سلور گرِل پنڈی کا ٹاپ کا ریستوران 
تھا جہاں آسودہ حال بے فکرے شام کو بیٹھک جماتے تھے۔ چائے کا کپ وہاں دس روپے کا ملتا تھا جو رشک آور تھا!

پانچ ہزار روپے کا نوٹ اس وسیع و عریض عظیم الشان دکان کے کاؤنٹر والے کو دیا۔ چھ سو بیس روپے کاٹے۔ باقی پیسے دیے اور دوسرے گاہک کی طرف مصروف ہو گیا۔ اچانک خیال آیا کہ یہ پیسے تو کم ہیں۔ نوٹ پانچ ہزار کا دیا تھا۔ بقایا اس نے یوں دیا جیسے ایک ہزار روپے کا نوٹ دیا ہو! کھڑا رہا جب وہ دو تین گاہک بھگتا چکے اور میری طرف متوجہ نہ ہوئے تو بتایا کہ رقم پوری نہیں دی! ایک عجیب انداز سے بولے دیتا ہوں جناب! دیتا ہوں! کہا کہ پوری رقم دیے بغیر آپ مجھے فارغ کیے بیٹھے ہیں اور دوسرے گاہکوں کو ڈیل کر رہے ہیں! اس پر وہ جز بز ہوئے اور سرزنش کے انداز میں گویا ہوئے کہ صاحب! کیا ہو گیا! دینے ہی تو لگا ہوں! چار ہزار روپے واپس ملے۔ ایک جھٹکا تو لگ چکا تھا۔ احتیاط سے گنے۔ دس روپے اب بھی کم تھے! بتایا تو چارو ناچار دس روپے تو دیے مگر خیرات دینے کے سٹائل میں! کہنے لگے غلطی ہو گئی تھی! پوچھا کہ کبھی غلطی سے کسی گاہک کو زیادہ رقم بھی دی؟
یہ جو ہم میں تھوڑی تھوڑی رذالت‘ کچھ کچھ سفلہ پن‘ کچھ فرومائیگی‘ دوں ہمتی اور ساتھ ہی کم ظرفی پائی جاتی ہے تو انگریزوں نے اپنی لغت میں ایک لفظ جامع نکالا ہے جو کم و بیش ان سب ''صفات‘‘ کو اپنے دامن میں لے لیتا ہے۔ اسے Wretchedness کہتے ہیں! یعنی بدقسمتی‘ بدبختی اور کمینگی کا ملغوبہ! قابلِ رحم! ہم عجیب و غریب قوم ہیں! سوشل میڈیا پر نظر دوڑایئے تو ہم میں سے ہر شخص ولی اللہ نظر آئے گا ایسے ایسے بھاشن کہ بڑے بڑے گرو طفلانِ مکتب لگیں ‘مگر عملی زندگی میں یہ سارے بھاشن‘ یہ تمام مواعظ‘ یہ دوسروں کو دی جانے والی نصائح‘ راکھ کے ڈھیر میں بدل جاتی ہیں! 

ترجیحات کا عالم یہ ہے کہ لاکھوں روپے کا رکشا لینے والا چند سو کے ہیلمٹ کی خاطر خود سوزی کر رہا ہے! ٹریفک ہماری قومی پستی کی واضح مثال ہے! کیا ہمیں نہیں معلوم کہ ہم غلط کام کر رہے ہیں؟ پیدل سڑک عبور کرنے والے کے لیے ایک لحظہ رکنے کو کوئی تیار نہیں! خود غرضی کا بدترین مظاہرہ ہر لمحے ہر ثانیہ ہو رہا ہے! پارکنگ اندھوں کی طرح کی جاتی ہے! ٹرک ڈرائیور کو تو چھوڑ دیجئے کہ وہ ٹُن ہے اور ان پڑھ بھی وہ سفلہ جو مرسڈیز چلا رہا ہے‘ اس کی گاڑی سے خالی شاپنگ بیگ‘ کیلوں کے چھلکے اور سگرٹ کی خالی ڈبیا باہر پھینکی جا رہی ہے! ڈرائیونگ لائسنس کی تجدید کے لیے سب سے بڑے ڈاکخانے جانا ہوا۔ متعلقہ کھڑکی پر لکھا تھا وقفہ برائے نماز! اڑھائی بجے کا وقت تھا! بہت دیر انتظار کیا۔ وقفے کے آغاز کا وقت ہوتا ہے‘ ختم ہونے کا نہیں! تنگ آ کر بڑے صاحب کے پاس گیا‘ صورتِ احوال بتائی تو انہوں نے حل یہ نکالا کہ چائے منگوائی اور حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ شروع کر دیا۔ لائسنس کی تجدید تو ہو گئی مگر ایک گھنٹہ ضائع ہوا میرا بھی! اُن کا بھی! اور وقفہ برائے نماز کا بورڈ جوں کا توں رہا!
ہماری اصلاح کے لیے پولیس کی ضرورت ہے نہ واعظین کی! ریاست کیا کیا کرے گی! کیا یہ بتانا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ جگہ جگہ کوڑا کرکٹ نہ پھیلائیں! دوسرے انسان کو بھی انسان سمجھیں! اپنے آپ کو موت کے منہ میں نہ ڈالیں! قطار میں کھڑے ہونے کو توہین نہ سمجھیں! ریاست نے شاہراہ عبور کرنے کے لیے اوور ہیڈ پُل بنا کر دیا۔ 
کیا اب ریاست ہر شخص کو فرداً فرداً کہے کہ حضور والا! شاہراہ عبور کرنے کے لیے پُل استعمال کیجیے اور تیز رفتار ٹریفک کے منہ میں اپنی زندگی نوالہ بنا کر نہ ڈالیے! یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی کو بتائیں کہ وہ رہا باتھ روم! پھر وہ شخص بیٹھے بیٹھے نشست گیلی کر دے اور شکوہ کرے کہ یہ تو بتا دیا کہ باتھ روم وہ ہے‘ یہ نہیں بتایا کہ ضرورت پڑنے پر اس کے اندر بھی جانا ہے!
ہم میں سے ہر ایک کو حکومتوں سے شکوہ ہے اور سیاسی جماعتوں سے! بیورو کریسی سے اور اسٹیبلشمنٹ سے! عمران خان سے اور نواز شریف سے! زرداری سے اور فلاں فلاں سے! مگر ہم اپنے گریبان میں کب جھانکیں گے؟ اس کالم نگار سمیت‘ ہر شخص دوسرے پر تنقید کر رہا ہے‘ اپنے آپ کو غلطیوں سے پاک فرشتہ گردانتا ہے! فرد کے طور پر‘ شہری کے طور پر۔ انسان کے طور پر۔ مسلمان کی حیثیت سے‘ جو ذمہ داریاں مجھ پر عائد ہیں‘ اُن کا کیا بنے گا؟ صائب تبریزی ہمارے بارے میں کہہ گیا ہے اور خوب کہہ گیا ہے

سبحہ در کف ، توبہ بر لب ، دل پر از شوق گنہ 
معصیت۔  را  خندہ  می   آید ز  استغفارِ  ما
ہاتھ میں تسبیح ہے! لب پر توبہ ہے اور دل گناہ کے ذوق سے بھرا ہے! ہمارے استغفار پر خود معصیت کو ہنسی آ رہی ہے!

بشکریہ روزنامہ  دنیا

Monday, February 03, 2020

اونٹ کے ساتھ کوہان تو ہو گی


اُس بچے کی کہانی ہم سب نے بارہا سنی ہے جس کی دعوے دار دو عورتیں تھیں۔ دونوں ماں ہونے کا دعویٰ کر رہی تھیں۔ منصف نے فیصلہ کیا کہ بچے کو کاٹ کر دو حصوں میں بانٹ دیا جائے، تاکہ دونوں کو ایک ایک حصہ مل جائے۔ ایک نے فیصلہ مان لیا۔ دوسری نے کہا کہ خدا کے لیے ایسا نہ کرو‘ سارے کا سارا بچہ دوسری عورت ہی کو دے دو! یہی اصل ماں تھی!
حزبِ اختلاف کی جماعتیں مطالبہ کر رہی ہیں کہ چین میں موجود طلبہ کو واپس لایا جائے۔ یہ حُبِّ علی نہیں، بغضِ معاویہ ہے! اگر حزبِ اختلاف ان طلبہ سے سچی ہمدردی رکھتی تو یہ مطالبہ کبھی نہ کرتی۔ حکومت کا فیصلہ، کہ یہ طلبہ چین ہی میں رہیں گے اور اس مرحلے پر واپس نہیں آئیں گے، ایک صائب فیصلہ ہے!
جس ملک میں پولیو ٹیموں کے عملے کو گولیاں مار کر قتل کر دیا جائے، اُس ملک کی مجموعی فضا کا اندازہ کرنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں! ہم کسی بھی ایمرجنسی کے لیے کبھی تیار نہیں پائے گئے۔ سیلاب کو لے لیجیے۔ ہر سال آتے ہیں اور ہر سال ہمارا وہی حال ہوتا ہے جو پہلے سال تھا۔ کوئی پیش بندی کبھی نہیں ہوئی۔ ہاں حکمران فوٹو سیشن کا اہتمام کراتے رہے۔ پانی کا مسئلہ دیکھ لیجیے! کتنے ڈیم بنے؟ حدِّ نگاہ تک اس مسئلے کا حل نہیں دکھائی دے رہا!
خدا نہ کرے، وائرس یہاں پہنچ گیا تو سب سے پہلے چہرے پر چڑھانے والے ماسک مہنگے ہوں گے پھر مارکیٹ سے غائب کر دیئے جائیں گے اور بلیک میں بکیں گے! کوئی انجکشن یا دوائی ہوئی تو وہ مافیا کے نرغے میں آ جائے گی! ڈاکٹر مریضوں کے جسم سے اپنا اپنا حصّہ الگ کاٹیں گے۔ رمضان کا مہینہ ہر سال ہمیں بے نقاب کرتا ہے! پھل کئی گنا زیادہ مہنگے ہو جاتے ہیں۔ صارفین کو سوشل میڈیا کے ذریعے بائی کاٹ کرنا پڑتا ہے۔ سموسوں سے لے کر جلیبی تک ہر شے کے نرخ بڑھ جاتے ہیں! پھر عید آتی ہے تو ہماری ''عظمت‘‘ دو چند ہو کر ظاہر ہوتی ہے۔ مہذب دنیا میں ایسے مواقع پر اشیا ارزاں کی جاتی ہیں۔ ان گنہگار آنکھوں نے کفار کے ملکوں میں، کرسمس کو تو چھوڑیئے‘ ڈیپارٹمنٹل سٹوروں میں رمضان کی آمد پر مسلمانوں کے لیے سیل کے بورڈ دیکھے ہیں۔ ہمارے ہاں تاجر ہر عید کو اپنی زندگی کی آخری عید سمجھ کر لُوٹ سیل نہیں، صرف لُوٹ لگاتے ہیں۔ یہاں تک کہ بچوں کے لباس اور جوتے تک سفاکی سے کئی گنا زیادہ قیمتوں پر فروخت کیے جاتے ہیں! بسوں اور ویگنوں کے کرائے سہ چند ہو جاتے ہیں۔ عشروں سے سعودی عرب میں کولڈ ڈرنک اور چائے ایک ریال سے اوپر نہیں گئی۔ آپ کا کیا خیال ہے حج جیسا اجتماع ہمارے ہاں ہوتا تو کیا قیمتیں اسی طرح رُکی رہتیں؟
حزبِ اختلاف کس برتے پر وائرس زدہ اور دوسرے طلبہ کو واپس منگوانا چاہتی ہے! جس ملک میں ڈاکٹر بغیر ضرورت کے صحت مند لوگوں میں سٹنٹ ڈال رہے ہوں، وہ بھی جعلی! جس ملک میں لیبارٹریاں ڈاکٹروں کے ساتھ معاملات طے کرتی ہوں۔ آپریشن تجویز کرنے والا ڈاکٹر، سرجن سے حصہ چاہتا ہو، اس ملک میں وائرس زدگان سے جو سلوک ہو گا، بچہ بھی جان سکتا ہے! ابھی تو اُن تین مریضوں کے قتل کو چند ہی ہفتے ہوئے ہیں جنہیں امراضِ قلب کے خصوصی ہسپتال میں حملہ آوروں نے دن دیہاڑے نشانہ بنایا تھا۔ آکسیجن کی نلکیاں نوچی گئیں۔ وینٹی لیٹر ہٹائے گئے۔ بستر تک الٹ دیئے گئے۔ قاتل اس جنگل میں ابھی تک ''لا پتہ‘‘ہیں! 
ہمارے طلبہ کا چین میں جس طرح خیال رکھا جا رہا ہے، اس کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے! خدا را! سیاست کیجیے مگر انسانی جانوں کی قیمت پر نہیں! حکومت کا قافیہ تنگ کرنا ہے تو کوئی اور ایشو ڈھونڈیے!
اور یہ جو مہنگائی کا ذکر ، اپنے خاص اسلوب میں شیخ صاحب نے کیا ہے، اس پر تعجب کیسا؟ آخر کبھی کبھار وہ بھی تو سچ بول سکتے ہیں! یوں بھی عربی محاورے کی رُو سے یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ کہنے والا کون ہے؟ یہ دیکھنا چاہئے کہ کہا کیا جا رہا ہے! مہنگائی سے انکار کرنا اب حکومتی عمائدین کے بس میں بھی نہیں رہا۔ جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے! اس کی دو بنیادی وجوہ ہیں! اوّل: یہ ایک برہنہ حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف جہاں بھی ڈیرے ڈالتا ہے، مہنگائی آسمان تک جاتی ہے۔ آج تک کسی ملک کی معیشت اس ادارے کے ہاتھوں نہیں سنوری! سٹیٹ بینک کے گورنر‘ جو آئی ایم ایف سے آئے ہیں، اس سے پہلے مصر میں تھے۔ مصر میں افراطِ زر کی شرح 20 فیصد سے اوپر جا چکی ہے! آئی ایم ایف اور مہنگائی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ غالباً دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا جس کے ارد گرد کچھ اشعار مشہور ہوئے؎
کہا ہم چین جائیں گے، کہا تم چین جائو گے
کہا جاپان کا ڈر ہے‘ کہا جاپان تو ہو گا
کہا کابل چلے جائیں‘ کہا کابل چلے جائو
کہا افغان کا ڈر ہے‘ کہا افغان تو ہو گا
کہا ہم اونٹ پر بیٹھیں‘ کہا تم اونٹ پر بیٹھو
کہا کوہان کا ڈر ہے، کہا کوہان تو ہو گا
آئی ایم ایف آئے گا تو مہنگائی تو ہو گی
دوسرا عامل وزیر اعظم کی اقتصادی ٹیم میں ہم آہنگی کا نہ ہونا ہے۔ ابتدا ہی سے ٹیم اختلافات کا شکار رہی ہے! وزیر خزانہ اسد عمر کے ساتھ حکومت نہ نبھا سکی۔ پھر سرمایہ کاری بورڈ کے سربراہ ہارون شریف مستعفی ہو گئے۔ اس کے ساتھ وفاقی سیکرٹری خزانہ یونس ڈھاگہ بھی پیش منظر سے ہٹ گئے یا ہٹا دیئے گئے۔ ان تبدیلیوں کی تہہ میں آئی ایم ایف کی پالیسیاں تھیں‘ جن سے یہ حضرات غیر مطمئن تھے۔ اب ایف بی آر کے سربراہ شبر زیدی طویل رخصت پر چلے گئے ہیں۔ اس کا سبب ''مبینہ طور پر‘‘ مشیرِ خزانہ سے اختلافات ہیں! وزیر خزانہ کا پس منظر آئی ایم ایف سے جڑا ہوا ہے جب کہ شبّر زیدی کھلے دل و دماغ کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ دوسری طرف یہ بھی نوٹ کیجیے کہ انہی دنوں سٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر بھی نئے لائے گئے ہیں۔ ان کا بیک گرائونڈ بھی آئی ایم ایف کا ہے‘ جہاں یہ مختلف مناصب پر فائز رہے!
شبر زیدی واپس آتے ہیں یا نہیں! یہ ایک بڑا سوال ہے! اگر وہ نہیں آتے تو اس کا مطلب ہے کہ ایف بی آر کا سربراہ پا بہ زنجیر ہے اور جو کچھ کرنا چاہتا ہے نہیں کر سکتا! یہ وزیر اعظم کے لیے لمحۂ فکریہ ہو گا۔ غیر ملکی اداروں کا اژدھا ہمارے جسم کے گرد اپنے آپ کو دن بدن زیادہ کستا جا رہا ہے!
شبر زیدی کے رخصت ہو جانے سے یاد آیا کہ یہ منظر اس سے پہلے بھی ہم دیکھ چکے ہیں۔ وزیر اعظم نے باقاعدہ اعلان کیا تھا کہ پنجاب کے پولیس نظام کو بدلنے کے لیے ناصر درانی کو لا رہے ہیں۔ ناصر درانی چند دنوں کے اندر اندر عہدہ چھوڑ کر چلے گئے۔ اس کے بعد کسی نے اصلاحات کا ذکر سنا نہ ناصر درانی کی رخصتی کی وجہ ہی کسی نے بتائی! اب یہ اوپن سیکرٹ ہے کہ سب سے بڑے صوبے میں بیوروکریسی کی تعیناتیوں پر ایک اتحادی جماعت کا غلبہ ہے! پولیس کے کئی سربراہ تبدیل کیے جا چکے۔ ایسے میں سندھ حکومت سے یہ امید رکھنا کہ وہاں آئی جی سیاست دانوں کی ریشہ دوانی سے آزاد ہو کر کام کرے گا، سادہ دلی ہے یا زیادتی! پولیس جس طرح پہلے حکمرانوں کی کنیز بن کر گزارہ کر رہی تھی، آج بھی اسی صورت حال میں ہے! اگر اس حوالے سے تبدیلی کی تمنّا ہے تو یہ کام پنجاب سے شروع ہونا چاہئے۔ ورنہ یہی ہو گا جو اب ہو رہا ہے۔ سندھ حکومت کی سب سے بڑی دلیل ہی یہی ہے کہ اگر پنجاب میں پولیس کا سربراہ کئی بار بدلا جا چکا ہے تو سندھ میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟
 

powered by worldwanders.com