Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, January 30, 2020

خوش آمدید


سچ کہتے ہو!
ہم ایسے تو نہ تھے! ہم کبھی ایسے نہ تھے!
ہم نے تو ہجرت کر کے آنے والوں کو ہمیشہ سر آنکھوں پر بٹھایا۔ ہمارے گھروں کی دیواروں پر یہ شعر کندہ ہوتا تھا؎
درین خانہ ہر کس کہ پا می نہد
قدم بر سر و چشمِ ما می نہد
کہ اس گھر میں جو کوئی قدم رکھتا ہے، وہ قدم زمین پر نہیں، ہمارے سر اور ہماری آنکھوں پر رکھتا ہے۔
ہم نے ہجرت کر کے آنے والوں کو کب خوش آمدید نہیں کہا۔ مشرقی پاکستان میں ہمارے بھائی آئے تو ہم نے کھلی باہوں سے استقبال کیا۔ یہاں تک کہ محکموں کے محکمے ان کے سپرد کر دیئے۔ ریلوے اور پوسٹل کے شعبوں میں انہی کی اکثریت تھی! جائیدادیں خریدیں! بستیاں بسائیں! آبادیوں کی آبادیاں انہی کے نام تھیں! 
مغربی پاکستان میں ہجرت کر کے آنے والوں کو ہم نے دلوں میں بسایا، آنکھوں پر بٹھایا۔ رشتے گانٹھے! محبتیں تقسیم کیں! یہاں تک کہ من تو شدم تو من شدی کی صورتِ احوال کو عملاً رائج کیا!
تم بھی ہمیں بہت عزیز ہو! تم ہمارے مہمان ہو! اے مہاجر پرندو! اے ہمارے صحرائوں میں پناہ لینے والے مسافرو! اے ہماری جھیلوں کے کنارے اترتے ننھے فرشتو! ہم تمہیں صدقِ دل سے خوش آمدید کہتے ہیں! ہم تم سے پیار کرتے ہیں! یہ تمہاری محبت ہے کہ قازقستان اور منگولیا سے اڑتے ہو، شمالی ایشیا کے ٹھٹھرتے میدانوں سے کوچ کرتے ہو تو کہیں اور جانے کے بجائے ہمیں میزبانی کا شرف بخشتے ہو! تم پامیر کی چوٹیاں عبور کرتے ہو تو ہمارے دلوں میں چراغ جل اٹھتے ہیں! پھر تم کوہ ہندو کش کی بلندیوں کو چومتے ہوئے جنوب کا رُخ کرتے ہو! یہ تمہاری دل آویزی ہے کہ چولستان اور بلوچستان کے ریگ زاروں کو اپنا مسکن بناتے ہو! ہماری جھیلوں کے کنارے پڑائو ڈالتے ہو! تمہارے غول ہماری صبحوں کو سرمئی کرتے ہیں! تمہارے جھُنڈ ہماری شاموں کو بہشت آسا بناتے ہیں۔
تمہارا شکوہ بجا! مگر ان دنوں ہماری کچھ مجبوریاں ہیں! ہمارے اقتصادی سمندر میں بھنّور پڑے ہیں! ہمارے ساحلوں سے کچھ بے رحم موجیں ٹکرا رہی ہیں! ورنہ ہم تمہیں کبھی بھی صَید نہ بننے دیتے! فروخت کرتے نہ عقابوں کا نشانہ بننے دیتے! بس ذرا جرمِ صغیفی کی سزا بھگت رہے ہیں! خود بھی! اور تم بھی ہمارے ساتھ!! 
یہ جو تم گاڈ وِٹ (Bar-Tailed godwit) کی مثال دے رہے ہو، تو تم درست بھی ہو مگر تھوڑے سے غلط بھی ہو! اس پرندے کو، اس تمہارے کزن کو ہم اپنے ہاں لم ڈھینگ کہتے ہیں! یہ الاسکا سے اُڑتا ہے۔ وزن اس کا تم سے بہت کم ہوتا ہے! حجم میں بھی یہ تم سے چھوٹا ہے! یہ تم سے بھی زیادہ طویل پرواز کرتا ہے۔ گیارہ ہزار کلو میٹر! آٹھ دن اور نو راتیں!! اس دوران یہ اترتا ہے نہ رکتا ہے! آرام کرتا ہے نہ سوتا ہے! سورج طلوع ہو یا غروب! برف کے طوفان ہوں یا خشک آندھیاں یہ اڑتا رہتا ہے! بغیر کچھ کھائے پیے! نیچے سمندر گزرتے ہیں، پہاڑ، بستیاں! شہر، ملک اور برِّ اعظم! دماغ اس کا دو حصّوں میں منقسم ہے! دورانِ پرواز ایک حصّہ دماغ کا جاگتا ہے، دوسرا سوتا ہے! چند گھنٹوں بعد جاگنے والا حصہ سو جاتا ہے اور سویا ہوا بیدار ہو جاتا ہے۔ زمین کے شمالی کنارے سے اڑنے والا یہ پرندہ نویں دن، کرۂ ارض کے انتہائی جنوبی کنارے پہنچتا ہے اور نیوزی لینڈ کی جھیلوں پر اترتا ہے!
کیا کہا تم نے؟ کہ نیوزی لینڈ میں لم ڈھینگ کو تو کوئی شکار نہیں کرتا۔ نہ ہی فروخت کرتا ہے ع
بجا کہتے ہو، سچ کہتے ہو پھر کہیو کہ ہاں کیوں ہو
نیوزی لینڈ کا ہم سے کوئی مقابلہ نہیں! اس کے وہ مسائل نہیں! وہ اقتصادی دریوزہ گری سے بچا ہوا ہے! جو مجبوریاں ہمیں پا بہ زنجیر کیے ہوئے ہیں، وہ ان سے آزاد ہے!
لیکن ہم تمہیں یقین دلاتے ہیں کہ بہت جلد ہماری جھیلیں، ہمارے صحرا تمہارے لیے محفوظ ہو جائیں گے! پھر ہم بھی تمہیں کہہ سکیں گے؎
جس سمت میں چاہے صفتِ سیلِ رواں چل
وادی یہ ہماری ہے، یہ صحرا بھی ہمارا
تم یوں کرو کہ کچھ عرصہ کے لیے یہاں آنا موقوف کر دو! ہمیں تھوڑا سا وقت دو! اس اثنا میں ہم سر توڑ کوشش کریں گے کہ آزاد اور خود مختار ہو جائیں! آئی ایم ایف کی سنہری زنجیریں توڑ دیں! کشکول دریا بُرد کر دیں! اس وقت تو ہمارے پاس رنگا رنگ کشکول ہیں۔ سفید، ارغوانی، قرمزی اور سرخ! ایک کشکول ڈالروں کے لیے ہے۔ ایک میں یو آن ڈالتے ہیں! ایک میں ریال اور ایک میں دینار! وضع دار بھی ہم بہت ہیں! کشکول بدست جاتے ہیں تو خصوصی چارٹرڈ جہازوں میں، ڈیزائنر ملبوسات زیبِ تن کیے ہوئے!!
مگر تا بہ کے؟ یہ سب نہیں چلے گا!
اگر خود مختار قوم کی حیثیت سے زندہ رہنا ہے تو ہمیں کشکول توڑنے ہوں گے! افرادی قوت آئی ایم ایف سے لینے کے بجائے اپنے لوگوں پر بھروسہ کرنا ہو گا! ہم دوسروں کے سامنے دستِ سوال دراز کرنا ترک کریں گے تو اپنے صحرائوں کے مالک خود بنیں گے! تب ہم اپنے مہمانوں کی حفاظت کر سکیں گے! ہماری جھیلیں ہماری اپنی ہوں گی! پھر ہم تمہیں خوش آمدید کہیں گے! تم دعا کرو! اپنے پنکھ پھیلا کر دعا کرو کہ وہ دن جلد آئے جب ہم اپنے آپ کو رہن رکھنا چھوڑ سکیں! ہم شکاریوں کو خوش آمدید کہنے کے بجائے منہ سے حرفِ انکار نکال سکیں!! 
مگر مہمان پرندو! ایک بات کا ہم تمہیں یقین دلاتے ہیں کہ یہ کشکول سازی ہمارے عوام کا نہیں، ہماری قیادتوں کا کارنامہ ہے! یہ ہماری لیڈر شپ کا شاخسانہ ہے! اس دھرتی کے عوام عزت نفس کی حفاظت کرنا جانتے ہیں! یہ وہ عوام ہیں جو مہنگائی میں، پانی، گیس اور بجلی کی قلت میں، طوفان اور سیلابوں میں زندہ رہنا جانتے ہیں! عوام نے کبھی اجازت نہیں دی کہ دوسرے ملکوں کے بادشاہوں کی دی ہوئی رقم سے بیرون ملک رہائش گاہیں خریدو! عوام نہیں چاہتے کہ ہمارے رہنما دوسروں کے دیئے ہوئے جہازوں پر سفر کریں! محلات میں رہیں! عشرت کی زندگی گزاریں! عوام تو تمہارے جیسے ہیں! معلوم اور بے بس! تم بھی تو بے بس ہو! برف گرتی ہے تو جنوب کی طرف ہجرت کرتے ہو! گرما آتا ہے تو شمال واپس چلے جاتے ہو! یہی حال ہمارے عوام کا ہے! کبھی پٹرول پمپوں کے سامنے قطاریں باندھ لیتے ہیں، کبھی بازاروں میں دکانوں کے آگے!
رات ہمیشہ نہیں رہنی! اندھیرے نے چھٹنا ہے! صبح نے طلوع ہونا ہے اور ضرور ہونا ہے! اس ملک نے قائم رہنا ہے۔ قائم رہنے کے لیے اقتصادی خود مختاری لازم ہے! اگر سنگا پور، ملائیشیا، تھائی لینڈ اور ہانگ کانگ اقتصادی آزادی حاصل کر سکتے ہیں تو پاکستان بھی کر کے رہے گا! وہ دن ضرور آئے گا جب ہم اپنے فیصلے خود کریں گے! اپنی شرحِ مبادلہ خود طے کریں گے! بجلی، گیس اور ٹیلی فون کے ریٹ خود طے کریں گے! ہماری قیادت سرمایہ کاری باہر نہیں، اندر کرے گی! فخر سے کوئی نہیں کہے گا کہ میرے بچے غیر ملکی ہیں! تب پاکستانی ہونے پر فخر کیا جائے گا! تب کارخانے ملک سے باہر نہیں، ملک کے اندر لگیں گے! بینک کار ہمارے اپنے ہوں گے، ماہرین اقتصادیات ہم دساور سے نہیں لیں گے! تب تم ہجرت کر کے آنا! اور دیکھنا ہم کس طرح تمہاری حفاظت کرتے ہیں اور تمہاری زندگی کی ضمانت دیتے ہیں!

Monday, January 27, 2020

اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ


کیا آپ نے کسی ایسی یونیورسٹی کا نام سنا ہے جس میں فزکس کا استاد جغرافیہ پڑھا رہا ہو، جغرافیے کا استاد انگریزی ادب پر لیکچر دیتا ہو، سنسکرت کا ماہر عربی زبان پڑھاتا ہو اور اقتصادیات کا پروفیسر مصوری کا درس دیتا ہو!
دنیا میں شاید کہیں بھی ایسا تعلیمی ادارہ نہ ہو! ماضی میں نہ حال میں! مستقبل میں بھی کوئی امکان نہیں! اس لیے کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا! 
مگر ایسا ہمارے ہاں ہو رہا ہے! وزیر اعظم کی کابینہ کو اگر ادارہ مان لیا جائے، جو کہ حقیقت میں ادارہ ہی ہے! تو اس ادارے میں بالکل یہی کچھ ہو رہا ہے۔ جو کام پوری دنیا میں نہیں ہوتا وہ ہمارے ہاں ہوتا ہے۔ یہاں ایک واقعہ یاد آیا۔ ایک زمانے میں یہ کالم نگار، بسلسلہ مزدوری مرکزی وزارتِ ثقافت میں تعینات تھا! ایک وفد جاپان بھیجنا تھا۔ دو نام موقع اور کام کی مناسبت سے جاپانی سفارت خانے کو بھیجے گئے۔ پراسیس کافی لمبا تھا۔ سفارت خانے نے یہ نام اپنی حکومت کو ارسال کیے۔ وہاں کئی مراحل سے گزر کر یہ نام فائنل ہوئے۔ جب روانگی میں کچھ ہی دن باقی تھے تو ہمارے وزیر (وزیر ثقافت) نے نادر شاہی حکم دیا کہ ایک نام تبدیل کر کے ایک اور صاحب کا نام بھیجا جائے۔ وزیر صاحب کو قائل کرنے کی کوشش کی گئی کہ ایسا نہ کریں مگر وہ شاید کسی سے پکّا وعدہ کر چکے تھے۔ بہر طور تبدیل شدہ نام سفارت خانے کو بھیجا گیا۔ وہاں سے ایک سینئر سفارت کار بنفس نفیس ہانپتا کانپتا آیا کہ اب اس مرحلے پر ایسا کرنا نا ممکن ہے۔ باتوں باتوں میں اس نے زچ ہو کر کہا کہ: ''جاپان میں ایسا نہیں ہوتا...!‘‘ اس کالم نگار نے سفارت کار کو چائے کا گرم کپ پیش کرتے ہوئے مسکرا کر جواب دیا کہ ''پاکستان میں ایسا ہوتا ہے !‘‘
آپ وزیر اعظم کی کابینہ کے روزمرہ کے بیانات پر غور فرمائیے۔ عجیب و غریب صورتِ احوال دکھائی دے گی! وزرا دنیا کے ہر موضوع پر میڈیا میں بات کر رہے ہیں‘ سوائے اُس کے جس کا تعلق ان کے قلم دان سے ہے۔ ہوا بازی کے وزیر صاحب اطلاع دے رہے ہیں کہ کرونا وائرس سے بچائو کے لیے حفاظتی انتظامات کر لئے گئے ہیں اور یہ کہ پنجاب میں آٹے کا کوئی بحران نہیں! گویا، صحت اور خوراک کے محکمے بھی ہوا بازی میں شامل سمجھیے! اگر آٹے کا بحران نہیں ہے تو وزیر اعظم نے خصوصی کمیٹی کیوں تشکیل دی ہے جو بحران کی وجوہات اور ذمہ داروں کا تعین کرے گی؟ اور کیا ہوا بازی کے وزیر کو محکمہ صحت نے کوئی خصوصی بریفنگ دی ہے جس کی بنیاد پر وہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ کرونا وائرس سے بچائو کے لیے انتظامات مکمل کر لئے گئے ہیں؟
معاون خصوصی برائے احتساب فرماتے ہیں کہ آئین ایک دستاویز ہے کوئی صحیفہ نہیں! تو کیا اب آئین بھی احتساب کے دائرۂ کار میں آ گیا ہے؟ ماضی کے ایک آمر کا قول یاد آ رہا ہے کہ آئین کیا ہے؟ کاغذ کا ایک ٹکڑا! مانا کہ آئین صحیفہ نہیں! مگر یہ ایک ایسی دستاویز ضرور ہے جس نے ملک کی لسانی، نسلی اور جغرافیائی اکائیوں کو ایک وحدت میں پرو رکھا ہے! یہ کہہ کر کہ یہ صحیفہ نہیں، آخر کیا کہنا چاہتے ہیں؟ آئین کی اہمیت کو گھٹانے سے احتساب کے عمل کو کیا فائدہ ہو گا؟ کاغذ کے جس ٹکڑے کے حوالے سے ماہانہ تنخواہ مل رہی ہے، وہ بھی تو کوئی صحیفہ نہیں!
ایک اور رکن نے وزیر اعظم کی مسکراہٹ کو قاتلانہ قرار دیا ہے! اس مسکراہٹ کو دیکھ کر پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں! ان کی شخصیت میں ایسا جادو ہے جو کسی اور کے پاس نہیں! اور یہ کہ لوگ ان کے چلنے کی وڈیوز بنا کر اپ لوڈ کرتے ہیں! اس بیان پر کیا تبصرہ ہو سکتا ہے! ہاں یہ سوال ضرور پوچھا جانا چاہئے کہ کیا کابینہ میں خوشامد کی کوئی الگ وزارت موجود ہے یا یہ ذمہ داری سب ارکان مل جل کر باہمی تعاون سے نبھا رہے ہیں؟
سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر کا فیصلہ ہے کہ مہنگائی کی وجہ نون لیگ کی قیادت ہے! گویا یہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ مہنگائی ایک حقیقت ہے!
رہی اپوزیشن تو وہاں بھی، لیڈر اپنے آپ کو ہر موضوع پر بات کرنے کا اہل سمجھتا ہے! شیڈو کابینہ کا ہمارے ہاں کوئی تصور نہیں! چانڈیو صاحب کچھ اور فرماتے ہیں، نفیسہ شاہ کچھ اور، اور خواجہ آصف کچھ اور! ''شیڈو کیبنٹ‘‘ کا ترجمہ ''حزبِ مخالف کی کابینہ‘‘ کہا جا سکتا ہے! مہذب اور ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں حزب اختلاف اپنے ارکان کو مختلف محکمے تفویض کرتی ہے۔ کسی کو خوراک، کسی کو سائنس و ٹیکنالوجی، کسی کو خارجہ امور، وغیرہ! آج اگر حزبِ اختلاف میں شیڈو کابینہ کا وجود ہوتا تو حزبِ اختلاف کا صرف ایک نمائندہ... آٹے کے بحران پر پوری ریسرچ کر کے قوم کے سامنے حقائق لاتا۔ مگر جیسی حکومتی کابینہ ہے، ویسی ہی حزبِ اختلاف ہے! پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے درمیان کوئی فنی اور ٹیکنیکل کوآرڈی نیشن موجود نہیں! خارجہ امور ہوں یا اقتصادی صورتحال، خوراک کی قلت ہو یا سمگلنگ کا ایشو، کسی موضوع پر حزبِ اختلاف کوئی تعمیری بات کرنے سے قاصر ہے کیونکہ تیاری مفقود ہے! محنت کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں! قرضوں اور برآمدات درآمدات کے اعداد و شمار جو بتائے جاتے ہیں، سب ایک دوسرے سے مختلف ہیں! ہونا یہ چاہئے کہ ٹیلی ویژن پر وزیر خزانہ کا، حزبِ اختلاف کی شیڈو کابینہ کے وزیر خزانہ سے مناظرہ ہو۔ اسی طرح حزبِ اختلاف پر لازم ہے کہ ہر شعبے میں قوم کو اپنا مؤقف اعداد و شمار کے ساتھ بتائے تا کہ رہنمائی ہو سکے! افسوس! ہمارے سیاست دان، کیا حکومتی اور کیا حزبِ مخالف، کسی موضوع پر ٹھوس، سنجیدہ گفتگو کرنے کے اہل نہیں! ان کی پشت پر تحقیقی ٹیمیں ہی نہیں جو انہیں مواد مہیا کریں اور رہنمائی کریں! یوں قوم لا علمی کے تھپیڑے کھا رہی ہے! کنفیوژن کا دور دورہ ہے! ایسے قابلِ اعتبار تھنک ٹینک بھی ناپید ہیں جو قوم کو صحیح صورت احوال سے آگاہ کریں۔ جو نام نہاد تھنک ٹینک پیش منظر پر چھائے ہوئے ہیں ان کی فنڈنگ غیر ملکی ادارے کر رہے ہیں۔ ان کی نیت کیا ہے؟ یہ جاننا مشکل نہیں!
قسمیں کھانے کا رواج الگ زور پکڑ رہا ہے۔ بات بات پر قسم کھانے سے منع فرمایا گیا مگر یہاں ہر چھوٹے بڑے معاملے پر قسمیں کھائی جا رہی ہیں۔ وہ بھی دوسروں کے حوالے سے! شیخ رشید کہتے ہیں کہ وہ عمران خان کی دیانت داری کی قسم کھا سکتے ہیں۔ فواد حسن فواد اپنی عزیز ترین شے کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ نواز شریف کرپشن سے پاک، ایک دیانت دار شخص ہے! اس قسم کے فیصلے کرنے کے لیے خالقِ کائنات نے حشر کا دن متعین کر رکھا ہے مگر ہم دنیا ہی میں فیصلے صادر کر رہے ہیں اور وہ بھی دوسروں کی طرف سے! کوئی ہے جو ان صاحبان کو بتائے کہ آپ اپنی فکر کیجیے! وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعظم نواز شریف کتنے دیانت دار ہیں، یہ فیصلہ دنیا میں دنیاوی عدالتیں اور آخرت میں خدائی عدالت کرے گی! دنیا کی عدالتیں اُن شہادتوں پر تکیہ کرتی ہیں جو ان کے سامنے پیش کی جائیں! یہ شہادتیں جھوٹی بھی ہو سکتی ہیں، نامکمل بھی! مگر آخرت میں خدائی عدالت کو چکمہ نہیں دیا جا سکے گا! وہاں اپنے اعضا گواہی دے رہے ہوں گے۔ پوری زندگی کی وڈیوز دکھائی جا رہی ہوں گی! دعا یہ کرنی چاہئے کہ روزِ حشر جب زندگی کی وڈیو چل رہی ہو تو سکرین اتنی بڑی نہ ہو کہ سب دیکھ رہے ہوں! یہی کیا کم مصیبت ہوگی کہ انسان خود اپنے اعمال... سارے کے سارے، تمام جزئیات اور تفصیلات کے ساتھ دیکھ رہا ہو گا! خدا کی پناہ اگر یہ سب کچھ، سب لوگ دیکھیں! اس لیے پروردگار کی عیوب چھپانے والی صفت کا ہر وقت ورد کرتے رہنا چاہئے وہ ستارالعیوب ہے یعنی عیوب پر پردہ ڈالنے والا! ورنہ وہ جو فرمایا گیا ہے کہ ''اِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ‘‘ (جس دن اعمال نامے نشر کیے جائیں گے) تو اگر نشر کرنے کا مفہوم وہی ہے جو ہم میڈیا کے حوالے سے سمجھتے ہیں تو جو کچھ پیش آ سکتا ہے، اس کا محض تصّور ہی رونگٹے کھڑے کرنے کے لیے کافی ہے!

Thursday, January 23, 2020

نہیں! ڈاکٹر عشرت حسین صاحب! نہیں


ہمارے ایک دوست کے صاحبزادے نے اسلام آباد کے مضافات میں دو کنال کا قطعۂ زمین خریدا۔ تعمیر شروع ہوئی تو صاحبزادے ملک سے باہر جا چکے تھے۔ بجلی، گیس اور پانی کے کنکشن کے لیے مالک کے دستخط کئی دستاویزات پر ضروری تھے۔ اس کا آسان حل والد نے یہ سوچا کہ قطعۂ زمین، بیٹے کے نام سے اپنے نام پر منتقل کرا لیا جائے۔ وفاقی دارالحکومت کی کچہری میں گئے۔ یہ کالم نگار ساتھ تھا! متعلقہ عملے نے بتایا کہ پچیس ہزار روپے لگیں گے! اس پر وضاحت کی کہ زمین کا یہ ٹکڑا اس وقت خریدا ہے نہ کوئی کمرشل سرگرمی ہے، بیٹے کے نام سے باپ کے نام پر منتقل کرانا ہے۔ پچیس ہزار روپے کس بنیاد پر؟ کیا اس کی رسید ملے گی؟ عملے میں جو نسبتاً سینئر کھڑپینچ تھا، اس نے ایک ادائے حاکمانہ سے جواب دیا کہ ''ریٹ‘‘ بتا دیا ہے‘ انتقال کرانا ہے تو کرا لیجیے، نہیں کرانا تو نہ کرائیے۔
ہم لوگ واپس آ گئے۔ دوسرے دن متعلقہ افسر (غالباً ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو) کو فون کیا۔ ان کے معاون (پی اے) نے ''تفتیش‘‘ کی۔ گریڈ پوچھا، تسلی کی کہ ''سائل‘‘ کس عہدے پر فائز ہے‘ پھر اپنے افسر سے بات بھی کرائی، ان کا موبائل فون بھی عنایت کیا۔ افسر صاحب بھلے آدمی تھے۔ یا شاید سرکاری ملازمت اور گریڈ کا کرشمہ تھا۔ مہربانی سے پیش آئے۔ متعلقہ عملے کے پاس بھیجنے کے بجائے ہمیں اپنے دفتر ہی میں بٹھایا، چائے کے ساتھ بسکٹ بھی منگوائے۔ وہیں رجسٹر منگوائے گئے۔ دستخط ہوئے، انگوٹھے لگے۔ آپ کا کیا خیال ہے کتنی فیس دی ہو گی اس انتقال کے لیے! صحیح طور پر یاد نہیں مگر صرف چودہ یا پندرہ سو روپے ادا کیے جو سرکار کے خزانے میں گئے۔
یہ پیپلز پارٹی کا زمانہ تھا یا مسلم لیگ نون کا یا جنرل مشرف صاحب کا، یاد نہیں! آج تحریک انصاف کا عہد ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے، تحصیلوں، کچہریوں، پٹوار خانوں میں صورتِ حال بدل گئی ہو گی؟ نہیں! وہی ہے! جوں کی توں! جس کو غلط فہمی یا خوش فہمی ہے کسی کچہری، کسی تحصیل میں جا کر دیکھ لے۔ زمین کا یا جائیداد کا انتقال کرانے کے مراحل پوچھ لے۔ نچلی سطح کے ہرکارے‘ پیش کار، نائب قاصد سے لے کر متعلقہ عملے تک مٹھی گرم کیے بغیر کام ہو جائے تو ازراہِ کرم اطلاع دے۔
مگر کیا یہ حقیقت ڈھکی چھپی ہے؟ کیا کوئی دعویٰ کر سکتا ہے کہ نئے پاکستان میں کچہریوں سے رشوت کا سدِّ باب کر دیا گیا ہے؟ نہیں! ہر کچہری میں، ہر تحصیل میں، ریونیو کے ہر دفتر میں، آج بھی رشوت کا بازار گرم ہے۔ 
سول سروسز اصلاحات پر وزیر اعظم کے مشیر ڈاکٹر عشرت حسین نے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ تھانوں میں رشوت یا سفارش کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا اور یہ کہ سکولوں اور ہسپتالوں کا احوال بھی بُرا ہے! 
ملک بھر میں پھیلے ہوئے سینکڑوں تحصیل دفتروں اور کچہریوں میں کھلے عام چلتی پھرتی رشوت اور سفارش کا ذکر ڈاکٹر عشرت حسین نے نہیں کیا۔ ان کے بیان سے تاثر یہ ملتا ہے کہ تھانے، سکول اور ہسپتال خراب ہیں، جب کہ کچہریاں صاف شفاف ہیں! محکمۂ مال (ریونیو) کا ذکر نہ کرنے کے صرف دو اسباب ممکن ہیں، ایک سبب یہ ہو سکتا ہے کہ ڈاکٹر عشرت صاحب کو معلوم ہی نہ ہو کہ ریونیو کے دفتروں میں کیا ہو رہا ہے! دوسرا سبب یہ ہو سکتا ہے کہ انہیں معلوم تو ہے مگر انہوں نے اس کا ذکر کرنا مناسب نہ سمجھا۔ دونوں صورتوں میں انہوں نے اپنے منصب سے انصاف نہیں کیا اور ثابت کیا کہ وہ سول سروسز ریفارمز کے قلم دان کے اہل نہیں! 
ان کا تعلق اصلاً سول سروس کے ڈی ایم جی گروپ سے ہے، جماعت اسلامی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بندہ جماعت اسلامی سے نکل جاتا ہے مگر جماعت اس کے اندر سے نہیں نکلتی۔ یہی حال سول سروس کے اس مخصوص گروپ کا ہے۔ بڑے سے بڑے منصب تک پہنچ کر بھی ڈپٹی کمشنری نہیں بھولے گی۔ ڈاکٹر عشرت حسین کو کچہریوں میں ذلیل و رسوا ہوتی ہوئی خلقِ خدا اس لیے نظر نہیں آتی کہ کچہریوں کے ناخدا اس مخصوص گروپ کے افسر ہیں۔ پروفیسر اشفاق علی خان مرحوم ان افسروں کو ''لگان جمع کرنے والے‘‘ کہتے تھے!
ڈاکٹر صاحب آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا ادارہ بھی ختم کرانے کے در پے ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے سفارشات تیار کی ہیں۔ کیا آڈیٹر جنرل کا ادارہ ختم کرنے کی رائے دیتے وقت انہوں نے موجودہ اور سابق آڈیٹر جنرل صاحبان سے اس موضوع پر گفتگو کی؟ ان کے سالہا سال کے تجربے سے استفادہ کیا؟ لگتا ہے ڈاکٹر صاحب محکمہ ریونیو کے علاوہ ہر جگہ اصلاحات کا بلڈوزر چلانا چاہتے ہیں۔ مانا، تھانے خراب کارکردگی دکھا رہے ہیں۔ سکول اور ہسپتال بھی... مگر تحصیل دفتروں اور کچہریوں سے رشوت کا ناسور کون ختم کرے گا؟ اس کا تو آپ ذکر ہی نہیں فرما رہے!!
جو لوگ مسئلے کا حصہ (Part of problem) ہیں، وہ مسئلے کو کیا حل کریں گے! بیوروکریسی وزیر اعظم کے وژن اور کوشش کو ناکام کرنے پر تلی ہوئی ہے اور اسی بیوروکریسی کے ایک معروف نمائندے کو اصلاحات کا کام سونپ دیا گیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے عہدِ اقتدار میں لاکھ نقائص سہی، مگر ایک کام اُس زمانے میں تاریخ ساز ہوا کہ ڈپٹی کمشنر کا انگریزی ادارہ ختم کر کے ضلعی حکومتیں قائم کی گئیں۔ یہ ایک ایسا قدم تھا جس نے پاکستان کو کئی سال آگے کر دیا تھا۔ کہاں ڈپٹی کمشنر جو کمشنر اور چیف سیکرٹری کو خوش کرنے اور اپنی اگلی تعیناتی کی فکر میں لگا رہتا تھا۔ اس کا ضلع سے جذباتی تعلق تھا نہ اس نے پھر یہاں آنا ہوتا تھا۔ اور کہاں ضلع ناظم جو عوام میں سے تھا۔ اس نے یہیں رہنا تھا۔ مخالف اس کی نگرانی کر رہے ہوتے تھے۔ اس نے ووٹ لینے تھے۔ اسے کام کرنا پڑ رہا تھا۔ ترقیاتی منصوبے اُس زمانے میں ضلع ضلع، تحصیل تحصیل بنے، پروان چڑھے اور پھلے پھولے۔ افسوس! بعد میں آنے والے حکمران ڈپٹی کمشنر کو دوبارہ عوام پر مسلّط کر کے انگریزی استعمار واپس لے آنے میں کامیاب ہو گئے۔ بیورو کریسی عوام سے ہے نہ عوام کی اُس تک رسائی ہے! سات جنوری کے ایک حالیہ مضمون میں مثال دے کر بتایا گیا کہ بیورو کریسی، وزیر اعظم کے سٹیزن پورٹل کو کس طرح ناکام کر رہی ہے اور وفاقی دارالحکومت کا چیف کمشنر کس طرح شہریوں سے بات کرنے کا روادار نہیں! مگر وفاقی سیکرٹری کیپیٹل ایڈمنسٹریشن سے لے کر وزیر اعظم تک... کسی نے اس صورت حال کا نوٹس نہیں لیا۔ وزیر اعظم کا پورٹل نچلی سطح کے اہل کاروں کو قابو کر لیتا ہے مگر اعلیٰ بیورو کریسی کے لیے یہ ایک تماشے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا!
سول سروس اصلاحات، سول سروس کا کوئی سابق یا موجودہ رکن کبھی نہیں کر سکے گا۔ یہ کام عوامی نمائندوں کا ہے۔ وزیر اعظم اگر سول سروس اصلاحات میں سنجیدہ ہیں تو انہیں کسی اعلیٰ تعلیم یافتہ عوامی نمائندے کو یہ کام سونپنا چاہئے۔ اعتزاز احسن، رضا ربانی، احسن اقبال، قمر زمان کائرہ، ندیم افضل چن جیسے لوگ یہ بھاری پتھر اٹھا سکتے ہیں! ڈاکٹر عشرت حسین صاحب آخری بار کسی گائوں میں کب گئے ہیں؟ کسی کچہری میں انتقال کا کام انہیں کب پڑا ہے؟ جو عوام بیوروکریسی کے ہاتھوں ہر روز، ہر ساعت، ہر آن، عزتِ نفس پارہ پارہ کرا رہے ہیں، ان عوام سے ڈاکٹر صاحب کا کیا تعلق ہے؟ جنرل پرویز مشرف کے عہد میں بھی وہ اصلاحات کے مدارالمہام تھے۔ اس کا نتیجہ کہاں ہے اور کیا ہے؟
ہے تمنا مجھے ابنائے زمانہ سے یہی
مجھ پہ احسان جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا

Tuesday, January 21, 2020

اتحادیوں کے غمزے عشوے



‎سوال یہ ہے کہ اتحادی جماعتوں کو حکومت گرا کر حاصل کیا ہوگا؟

‎اس امر کا امکان صفر ہے کہ عمران خان ''اِن ہاؤس‘‘ تبدیلی کے لیے راضی ہوں گے۔ ہار ماننا ان کی سرشت میں نہیں! اگر انہیں دیوار سے لگایا گیا تو وہ اسمبلی توڑ کر نئے انتخابات کرائیں گے۔ اس صورت میں کیا ضمانت ہے کہ اتحادی جماعتوں کو پھر اتنی ہی نشستیں حاصل ہوں گی؟ کیا خبر کون نئی حکومت بنائے گا! یہ بھی ممکن ہے کہ اتحادیوں کو اِس وقت جو کچھ حاصل ہے‘ نئے انتخابات کے بعد اُس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں!

‎مسلم لیگ ق اس وقت کسی گھاٹے میں نہیں! پنجاب عملاً اُس کی جیب میں ہے۔ پرویز الٰہی صرف صوبائی اسمبلی کے 
‎سپیکر ہی نہیں‘ اور بھی بہت کچھ ہیں! پنجاب کی بیورو کریسی سے ان کے دیرینہ روابط تازہ ہو گئے ہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ ناصر درانی اگر اُس وقت پیش منظر سے غائب نہ بھی ہوتے تو قاف لیگ کی موجودگی میں پنجاب بیورو کریسی کا رُخ وہ مقصدیت کی طرف کبھی نہ موڑ سکتے اور کچھ عرصہ بعد اپنی ناکامی کے پیش نظر ہٹ جاتے۔ ایک کمزور اور غیر مؤثر وزیراعلیٰ قاف لیگ کی لیڈر شپ کو خوب راس آ رہا ہے۔ رہا وفاق تو اگرچہ ایک ہی وزارت ان کے پاس ہے ‘مگر وہ وزارت انتہائی اہم ہے۔
‎یہی وہ وزارت ہے ‘جو ایم کیو ایم اور جے یو آئی جیسی ''سمجھ دار‘‘ جماعتوں کی ارضِ موعود 
(Promised Land) 
‎رہی ہے! الغرض‘ قاف لیگ کے پاس ملول ہونے کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ہے!

‎ایم کیو ایم کی رنجش‘ حسبِ معمول وقتی ہے۔ یہ بار گیننگ کا دنیا بھر میں مانا ہوا طریقہ ہے۔ پیپلز پارٹی نے اسے سندھ حکومت میں شمولیت کی پیشکش کی ہے مگر پیپلز پارٹی کراچی اور حیدر آباد کے لیے کتنی فنڈنگ مہیا کر سکتی ہے؟ برائے نام! وفاقی حکومت کو خدا حافظ کہہ کر ایم کیو ایم کو نقصان تو ہو سکتا ہے‘ فائدہ کچھ نہ ہوگا!

‎ایم کیو ایم کا معاملہ باقی تین اتحادی جماعتوں سے مختلف ہے۔ یکسر مختلف!! کاش وفاق‘ سندھ‘ خیبر پختونخوا اور خاص طور پر پنجاب اُن اسباب کا ادراک کر سکے جو ایم کیو ایم کے تولّد
 (Genesis) 
‎کا باعث بنے۔ یہ ایک دردناک کہانی ہے۔ اور انصاف کی متقاضی ہے!

‎یہ اعتراض اکثر و بیشتر سننے میں آتا ہے کہ سال گزرنے کے باوجود ایم کیو ایم والے اپنے آپ کو مہاجر کہتے کہلواتے ہیں! مگر زمانی لحاظ سے یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ انہوں نے مہاجر کہلوانا کب اور کیوں شروع کیا۔
‎کیا کسی کو یاد ہے کہ جئے سندھ کا نعرہ کب لگایا گیا؟ ولی خان کی پارٹی پختون حوالے سے کب سے سیاست میں ہے؟ بلوچستان میں نسلی اور لسانی حوالے سے پارٹیاں ایم کیو ایم سے پہلے وجود میں آئیں یا بعد میں؟ حقائق تلخ ہیں!
‎مہاجروں کے مہاجر بننے سے بہت پہلے سندھیوں‘ پختونوں اور بلوچوں نے اپنی اپنی قومیت کے جھنڈے بلند کیے۔ مہاجر اُس وقت مہاجر نہ تھے۔ صرف اور صرف پاکستانی تھے۔ اردو بولنے والے پڑھے لکھے نوجوان‘ جب تلوار مارکہ مونچھوں والے سندھی وڈیروں کو کراچی کی شاہراہوں پر کلاشنکوف برداروں کے حصار میں دیکھتے تو سہم جاتے۔ کراچی میں دو ایسی ثقافتیں آمنے سامنے تھیں جو بُعد المشرقین پر واقع تھیں۔ ایک طرف اندرون سندھ اور اندرونِ بلوچستان کے جاگیردار‘ زمیندار اور سردار‘ جن کے پاس محلات تھے اور مسلح ملازموں کے دستوں کے دستے‘ دوسری طرف اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ شائستہ‘ نرم گفتار اردو بولنے والے! پس ردّ ِعمل ناگزیر تھا!

‎الطاف حسین نے جب کراچی یونیورسٹی میں مہاجر طلبہ آرگنائزیشن کا ڈول ڈالا اُس وقت کراچی یونیورسٹی میں لسانی اور نسلی بنیادوں پر ایک درجن سے زیادہ طلبہ تنظیمیں مصروفِ سیاست تھیں! سندھی‘ بلوچی‘ کشمیری‘ براہوی اور دوسری علاقائی شناختیں رکھنے والے طلبہ کسی نہ کسی چھتری کے سائے تلے کھڑے تھے۔ یہ صرف اردو بولنے والے تھے جن کے پاس پاکستان کے علاوہ کوئی شناخت نہ تھی اور اس شناخت کو اہمیت دینے کے لیے کوئی تیار نہ تھا۔ جب ہر طرف علاقائی اور لسانی چھتریاں بہار دکھا رہی تھیں تو اردو سپیکنگ طلبہ نے بھی اپنی چھتری تان لی کہ ع

‎ایں گناہیست کہ در شہرِ شمانیز کننّد!

‎مہاجر طلبہ تنظیم کے بعد ایم کیو ایم کی تشکیل ہوئی۔ تاہم اردو بولنے والوں کی بدقسمتی اس کے بعد بھی ختم نہ ہوئی۔ ردِّعمل ہمیشہ انتہا پسندانہ ہوتا ہے۔ گالی کا جواب تھپڑ میں دینا انسانی فطرت کا خاصہ ہے۔ ایم کیو ایم ردّ ِعمل میں بنی تھی اس لیے انتہا پسندی کا شکار ہو گئی۔ الطاف حسین اور حواری توازن کھو بیٹھے! جو کچھ ہوا تاریخ کا حصہ ہے۔ بدقسمتی کی انتہا یہ ہوئی کہ الطاف حسین آخر میں غدار ثابت ہوئے! نظیری نیشاپوری کے بقول ؎

‎یک فالِ خوب راست نشد برزبانِ ما
‎شومئی چغد ثابت و یُمنِ ہما غلط

‎کوئی فال بھی درست نہ نکلی۔ الو کی نحوست صادق آئی اور ہما کی خوش بختی غلط ثابت ہوئی!

‎ایم کیو ایم کا المیہ یہ ہے کہ سندھ کی (صوبائی) حکومت انہیں کبھی بھی نہیں مل سکتی! اندرونِ سندھ کے دیہی علاقوں کے لیے وہ اجنبی ہیں! عملاً اس وقت سندھ دو حصّوں میں منقسم ہے۔ ایم کیو ایم کے مسائل کا منطقی حل تو یہ ہے کہ اس تقسیم کو قانون کا لبادہ پہنا دیا جائے اور کراچی کو بھی دو حصّوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ آخر اردو بولنے والی کمیونٹی اپنی تقدیر کی خود مالک کیوں نہیں ہو سکتی؟

‎ایم کیو ایم کی سنجیدہ لیڈر شپ کو ایک اور چیلنج بھی درپیش ہے۔ یہ اس لیڈر شپ کو نظر آ رہا ہے یا نہیں‘ بہرطور موجود ضرور ہے! الطاف حسین نے اردو بولنے والے جس نوجوان سے کتاب اور قلم چھین کر اُسے کلاشنکوف اور بوری پکڑائی تھی‘ اسے دوبارہ کتاب اور قلم کی طرف راغب کرنا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ چیلنج ایم کیو ایم کی لیڈر شپ کو نظر آ رہا ہے؟

‎تحریر کا آغاز اس سوال سے ہوا تھا کہ اتحادیوں کو حکومت سے نکل کر‘ یا حکومت گرا کر‘ فائدہ ہو گا یا نقصان کا اندیشہ؟ مگر اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان کی حکومت کا خاتمہ پاکستان کے لیے نفع مند ثابت ہو گا یا خسارے کا سودا؟ استحکام کا تقاضا یہ ہے کہ اس حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنی چاہیے تاکہ کھرے اور کھوٹے کو الگ کیا جا سکے۔ اس میں شک نہیں کہ ابھی تک اس حکومت کی ٹوپی میں سرخاب کا کوئی ایک پَر بھی نہیں لگ سکا! ہر محاذ پر مایوسی ہے! مگر اس کا علاج صبر اور استقلال ہے‘ ہر راہرو کے ساتھ تھوڑی دیر چلنا کوئی علاج ہے نہ شفا ہی ممکن ہے!

‎وزیراعظم مہاتیر محمد نے اپنے تازہ ترین بلاگ میں یہی کہا ہے کہ تبدیلی کے عمل کو بار آور ہونے میں کم از کم دو سال ضرور لگتے ہیں۔ پالیسیاں ایک ہفتے میں بن جاتی ہیں مگر ان کا نفاذ مرحلہ وار ہوتا ہے۔پنجاب کے وزیراعلیٰ سے لے کر نوکر شاہی کی رعونت اور عوام دشمنی تک اس حکومت کے مسائل لاتعداد ہیں جن میں سے بہت سے‘ حکومت کے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ اس کے باوجود‘ ملکی استحکام اور سیاسی پختگی کا تقاضا ہے کہ حکومت اپنا عرصہ پورا کرے۔ پانچ سال بعد عوام خود فیصلہ کریں گے۔ کارکردگی ایسی ہی رہی‘ جیسے اب تک رہی ہے تو انتخابات روزِ مکافات ثابت ہوں گے۔

Sunday, January 19, 2020

ظلِّ الٰہی


فاتحہ پڑھ کر قبرستان سے نکل رہا تھا کہ ایک مخنی سی آواز نے چونکا دیا ''مجھے بھی ساتھ لے چلو‘‘۔ حیران ہو کر اِدھر اُدھر دیکھا۔ ایک قبر بالین سے کھلی ہوئی تھی۔ ایک مردہ اندر سے جھانک رہا تھا۔ اُس کے سر پر تاج تھا۔ کتبہ دیکھا تو محمد شاہ رنگیلا کا نام لکھا تھا۔ میں فوراً کورنش بجا لایا اور عرض گزار ہوا۔ ''عالی جاہ! جو حکم آپ کا‘‘۔
آپ باہر نکلے۔ چغہ درست کیا۔ فرمانے لگے ''بھائی! مرے ہوئے دو اڑھائی سو سال ہو گئے‘ سوچا تمہاری دنیا دیکھ آئیں! سنا ہے بہت کچھ ایسا ہے ‘جو ہمارے زمانے میں نہیں تھا۔ سنا ہے سڑکوں پر دوڑنے والی مشینیں ہیں‘ ہوا میں اڑن کھٹولے ہیں! نام و پیام سمندر پار والوں سے بھی کرنا ہو تو چند ثانیے لگتے ہیں! متحرک تصویروں والا ڈبہ ہر گھر میں موجود ہے‘ جس سے آوازیں بھی نکلتی ہیں!‘‘
ظلِّ الٰہی کو لیے گھر آیا۔ تمام اہلِ خانہ نے جھُک کر فرشی سلام کیے۔ آپ لائونج میں صوفے پر تشریف فرما ہوئے‘ سامنے ٹی وی چل رہا تھا۔ ٹک ٹاک لڑکیوں کا شہرۂ آفاق پروگرام آن ائر تھا۔ بادشاہ سلامت نے پوچھا؛ بھئی یہ کیا قصہ ہے؟
نہ چاہتے ہوئے بھی سارا قصہ سنانا پڑا۔ حکمِ حاکم تھا۔ کیا کرتا۔ مانا کہ آپ کا عہدِ اقتدار 1719ء سے 1748ء تک صرف انتیس برس رہا‘ مانا کہ آپ نے کوہِ نور ہیرا‘ تختِ طائوس اور بہت کچھ اور‘ گنوا دیا‘ مگر تھے تو ہمارے بادشاہ!
ٹِک ٹاک لڑکیوں کے واقعات جہاں پناہ نے بہت دلچسپی سے سنے۔ وزارتِ خارجہ کا ذکر آیا تو حیران ہوئے‘ پوچھا‘کیا آج کل وزارتِ خارجہ میں اس قسم کی چھنال عورتیں بھی بلا روک ٹوک آتی جاتی ہیں؟کیا اندر جانے کے لیے پرچی نہیں بنتی؟ اندر بیٹھے ہوئے کسی بڑے آدمی کی سرپرستی اور ضمانت کے بغیر آخر کوئی کیسے اندر جا سکتا ہے؟‘‘۔
پھر حیران ہو کر پوچھنے لگے...'' کیا حکومت نے اب تک پتہ نہیں چلایا کہ یہ عورتیں اتنی حساس وزارت کے اندر کیسے جا پہنچیں؟ کیا متعلقہ وزیر کو مطلق کوئی پروا نہیں؟‘‘
یہ کالم نگار کیا کہتا! ایک طرف بادشاہ سلامت کے سوالات‘ دوسری طرف حکومتِ وقت! ہم اِدھر کے نہ اُدھر کے!
ظلِّ الٰہی نے حریم شاہ کے متعدد انٹرویو سنے اور بار بار سنے۔ جب اس نے فخر سے بتایا کہ فلاں کو میں بہنوئی کہتی ہوں‘ تو حیران ہوئے! ظلِّ الٰہی کے کمنٹ یہاں دہرائے نہیں جا سکتے!
پھر فرمایا...''بھئی ! ناچ گانے والی بہت سی عورتیں ہمارے دربار سے بھی وابستہ تھیں‘ مگر کیا مجال کہ کاروبارِ مملکت میں دخیل ہوں! جب حکومت کا کام اور تفریح آپس میں گڈ مڈ ہو جائیں تو نتیجہ تباہی نکلتا ہے! جن وزیروں کے نام اِن ٹک ٹاک لڑکیوں کے ساتھ آئے یا لائے گئے‘ حکومت کو ان سے کچھ تو پوچھ گچھ کرنی چاہیے تھی!‘‘۔
خاصے میں عالی مرتبت نے پلائو نوش فرمایا اور شیرے والے گلاب جامن! فرمایا ہمارے جدِّ امجد شہنشاہ اورنگ زیب بریانی پسند فرماتے تھے۔ ان کے ایک شہزادے کے پاس‘ ایک باورچی تھا کہ کمال بریانی پکاتا تھا۔ شہنشاہِ معظم نے وہ باورچی اپنی تحویل میں لینا چاہا ‘مگر شہزادہ طرح دے گیا! بہر طور‘ جدِّ امجد جب شہزادے کے پاس تشریف لے جاتے تو اس کے باورچی کی تیار کردہ بریانی کی فرمائش ضرور کرتے!
قیلولہ سے اٹھے تو کہنے لگے؛بھائی میاں! وہ تصویری ڈبہ پھر چلائو‘ کیا دلچسپ ایجاد کفار نے پیش کی ہے! ہم نے تو جامِ جمشید صرف داستانوں میں پڑھا تھا۔ ان نصرانیوں‘ یہودیوں نے تو اسے نا صرف ایجاد کیا‘ بلکہ گھر گھر پہنچا دیا!
تعمیل ِ ارشاد میں ٹیلی ویژن آن کر دیا۔ بدقسمتی کہ عین اس وقت ''بُوٹ‘‘ کا واقعہ پیش آیا۔ بادشاہ سلامت کا چہرا غصّے سے سرخ ہو گیا! فرمایا... ''ملک کے حساس ترین اور باوقار ادارے کو اِن لوگوں نے بازیچۂ اطفال بنا کر رکھ دیا! ہم تو پاکستانی عساکر کے لیے ہمہ وقت دست دعا ہیں!‘‘ پھر فرطِ جذبات سے اُٹھے‘ انگشتِ شہادت آسمان کی طرف اٹھائی اور یوں گویا ہوئے...''بخدا! پاکستانی مسلح افواج نہ ہوتیں تو ایران سمیت سارا مشرقِ اوسط‘ بھارت کے رحم و کرم پر ہوتا اور مودی کو خوش کرنے والی ریاستوں کا درجہ سکم اور بھوٹان سے زیادہ نہ ہوتا۔ یہ پاکستانی افواج ہیں‘ جو بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کے راستے میں سدِّ سکندری بنے ہوئے ہیں! خدا انہیں سلامت رکھے اور ان کے وقار میں کبھی کمی نہ آئے!‘‘
بہت دیر افسوس کرتے رہے کہ اب لوگ میڈیا کی میزوں پر بُوٹ لا رکھتے ہیں! پھر ایک سوال اچانک یوں داغا کہ میں پریشان ہو گیا...''بھئی! اینکر نے فوراً پروگرام جاری رکھنے سے انکار کیوں نہ کر دیا؟ اس پر لازم تھا کہ فوراً‘ ایک ثانیہ توقف کیے بغیر‘ بوٹ کو ہٹوا دیتا۔ لگتا ہے کہ وہ بھی اس ناقابلِ رشک حرکت میں برابر کا قصور وار ہے! مگر چونکہ میڈیا سے ہے‘ اس لیے اس کے خلاف کوئی کارروائی ہونے سے رہی!‘‘۔
ظلِّ الٰہی نے شہر شہر‘ جگہ جگہ لنگر سرکاری سرپرستی میں کھولے جانے کا بھی نوٹس لیا۔ فرمایا: ہم تو چینی کہاوت سنتے تھے کہ مچھلی دینے کے بجائے مچھلی پکڑنا سکھائو کہ روزگار لگ جائے۔ اگر لوگوں کو مفت روٹی کا چسکا پڑ گیا تو کام کیسے کریں گے؟
پھر حیران ہوئے کہ بڑی بڑی تنخواہیں اور مراعات پانے والے بیورو کریٹ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے بیویوں کو خیرات دلواتے رہے۔ کہنے لگے: ہم تو ایسے بدبختوں کا زن بچہ کو لہو میں پسوا دیتے تھے۔ ایسے سرکاری ملازمین کو بھاگتے گھوڑوں کے پیچھے بندھوا دینا چاہیے! سرکاری خزانے کی لوٹ مار... وہ بھی سرکاری اہلکاروں کے ہاتھ سے ... ناقابلِ تصّور ہے اور ناقابلِ معافی!
ائر کنڈیشنر سے گرم ہوا خارج ہوتی دیکھ کر عالی جناب حیران ہوئے! کہنے لگے بھائی! ہمارے عہد میں خس کی ٹٹیاں ہوتی تھیں ‘مگر وہ صرف گرمیوں میں کام آتی تھیں! سرما میں دہکتی انگیٹھیاں ہوتی تھیں‘ چپان اور صدری پہنتے تھے‘ جن میں روئی ہوتی تھی! بس یوں سمجھو کہ چلتی پھرتی رضائیاں تھیں!
میں نے اپنے غریب خانے کا سب سے اچھا کمرہ جہاں پناہ کی شب باشی کے لیے آراستہ کیا‘ مگر شومئی قسمت! کہ شام کو پھر ٹیلی ویژن کے سامنے تشریف فرما ہو گئے۔ خبر چل رہی تھی کہ حکومت نے حکم دیا ہے کہ تصوف کو شاملِ نصاب کیا جائے! حیران ہوئے کہ تصّوف تو عمل کا نام ہے‘ پھر یہ کہ ہر استاد‘ ہر سکول ‘ ہر کالج یہ حساس مضمون پڑھانے کا اہل نہیں! اس کا تعلق باطن سے ہے۔ صوفیا پڑھاتے نہیں تھے‘ عمل سے اپنے پیروکاروں کو سکھاتے تھے۔ یہ عبادت اور ریاضت کا مضمون ہے۔ اس کا نصاب طے کرنا اور پڑھانا ہر کہ و مہ کے بس کی بات نہیں!‘‘
یہ کہا اور اُٹھ پڑے۔ چغہ زیب تن کیا‘ کہنے لگے‘ میاں! ہم تمہاری اس آج کل کی دنیا سے خوش نہیں ہوئے! بس ہمیں قبرستان چھوڑ آئو!‘‘ میں نے منت کی‘ ہاتھ جوڑے کہ جہاں پناہ! قسمت سے قدم رنجہ فرمایا ہے! ایک رات غم خانے میں بسر کریں گے تو ہماری خوش بختی ہوگی‘ مگر فرمایا کہ ہم اب رکنے کے نہیں! پھر سلسلۂ تیموریہ کے آخری چشم و چراغ کے شعر آبدیدہ ہو کر پڑھے؎
اسے چاہا تھا میں نے کہ روک رکھوں
مری جان بھی جائے تو جانے نہ دوں
کیے لاکھ فریب کروڑ فسوں
نہ رہا نہ رہا نہ رہا نہ رہا
قبر میں واپس جاتے ہوئے گلے ملے۔ آخری الفاظ درد ناک تھے۔ فرمایا... ''بھائی! کہنے کو تو ہمارا عہد بدنام ہے‘ مگر جو کچھ اب ہو رہا ہے‘ اس کا ہمارے عہد میں سوچا بھی نہ جا سکتا تھا!‘‘۔

Thursday, January 16, 2020

اب گاؤں میں بھی کیا رہ گیا ہے


بہت دنوں بعد گائوں جانا ہوا۔ زخم ہرے ہو گئے! پپڑی جمے زخموں کو ناخن سے کھرچنے میں جو درد انگیز لذت نصیب ہوتی ہے، وہ ملی! ؎
نہ پوچھ حال مرا، چوبِ خشکِ صحرا ہوں
لگا کے آگ جسے کارواں روانہ ہوا
قحط الرجال کا یہ عالم ہوا ہے کہ ہم جیسے بھی بزرگوں میں شمار ہونے لگے! کم ہی افراد گائوں میں رہ گئے ہیں جنہیں ہم چاچا یا ماما کہہ سکیں! ہمارے پڑوسی حاجی محمد ایک سو چار برس کی عمر پا کر کوچ کر گئے۔ گائوں کے واحد وکیل ملک عبداللہ رخصت ہو گئے۔ ہم فاتحہ خوانیوں کیلئے رہ گئے! 

رخصت تو بہت کچھ ہو گیا۔ وہ گائوں ہی نہ رہا جس میں‘ میں پلا بڑھا تھا۔ وہ دستار پوش، تہمد باندھنے والے گم ہو گئے جو راتوں کو چراغوں کی روشنی میں رقص کرتے تھے۔ جو راتوں کو کسی خوف کے بغیر سفر کرتے تھے۔ گھڑ سواری کے ماہر تھے۔ بھاگتے ہوئے گھوڑوں پر، نیزوں سے کھونٹے یوں اکھاڑ لیتے تھے جیسے بجلیوں کا سفر ہو۔ آنکھوں کو خیرہ کر دینے والا۔ جو ایک ایک ہاتھ سے دو دو سرکش بیلوں کی رسیوں کو کمانڈ کرتے تھے ، جو اس قدر تیز چلتے تھے کہ ہم جو اس وقت نوجوان تھے، ان کا ساتھ نہ دے سکتے!

وہ دادیاں، نانیاں، پُھپھیاں، ماسیاں قبروں میں جا لیٹیں جو راہ چلتے گلی میں روک کر کندھوں پر ہاتھ پھیرتی تھیں! جن کی زبان سے نکلا ہوا ہر فقرہ ادب کا نمونہ ہوتا تھا۔ جو استقبال کرتے وقت کہتی تھیں، چاند نکل آیا ہے، پھول کھل اٹھے ہیں! مردہ زندگی میں جان پڑ گئی ہے! 

سب کچھ چلا گیا! وہ درخت کٹ گئے جن کی بغل میں قبریں تھیں، جہاں دیئے جلائے جاتے اور راہگیر وہاں سلام کرکے اپنے ہاتھوں کو چوم کر اپنے ماتھوں پر لگاتے۔ جہاں تالاب تھے جن کے کنارے ہم ریت کے گھر بناتے تھے، وہاں اب کھیت ہیں! جہاں کھیت تھے وہاں قبرستان ہیں! جہاں قبرستان تھے وہاں جھاڑ جھنکار سے بھرے جنگل ہیں! پہلے ہر قبرستان میں ایک راکھا ہوتا تھا۔ خود رو گھاس کاٹتا تھا۔ وہ راکھے غائب ہو گئے۔ ایک ادارہ تھا ختم ہو گیا۔ قبرستان میں گیا تو رونا آیا۔ کمر کمر تک خود رو گھاس، پیلے زرد پودے، کپڑوں کو چمٹتے کئی طرح کے کانٹے، قبریں چھپی ہوئیں، قبروں کے درمیان جو پتلے پتلے پگڈنڈی نما راستے تھے، نشان کھو بیٹھے؎
وہ گھاس اُگی ہے کہ کتبے بھی چُھپ گئے اظہارؔ
نہ جانے آرزوئیں ہم نے دفن کی تھیں کہاں
پورے گائوں میں ایسا آدمی نہیں ملتا جسے ماہانہ معاوضہ دیا جائے اور وہ قبرستان کی دیکھ بھال کرے۔ اور تو اور، وہ رنگین کپڑوں کے چیتھڑے جو قبرستان میں درختوں کے ساتھ لگے ہوتے تھے، کہیں نہیں دکھائی دیتے! اب قبرستان میں داخل ہوتے وقت یہ بھی کون کہتا ہو گا: السلام علیکم یا اہلَ القبور!! اب تو دل چاہتا ہے یہ سلام آج کل کے زندوں کو کیا جائے! جو مر گئے، وہ تو مر گئے، جو زندہ ہیں وہ بھی کہاں زندہ ہیں!!

اب گائوں والوں کو پہلے بتانا پڑتا ہے کہ آ کر لسّی پینی ہے، مٹی کے پیالے میں‘ ورنہ جگ اور شیشے کے گلاس لا کر سامنے رکھ دیتے ہیں اور کوک کی بوتل! شیور کی مرغی نے یہاں بھی حکومت سنبھال لی ہے! مکی کی روٹی کی باقاعدہ فرمائش کرنا ہوتی ہے، ورنہ یہاں بھی بریانی نظر آنے کا احتمال ہے! جب سے کسان سے کیش چھین لی گئی ہے، گائوں میں شہد، خالص گھی، دیسی مرغیوں اور دیسی انڈوں کا کال پڑ گیا ہے۔ جو رقم بجلی کے بلوں سے بچتی ہے، موبائل فون کمپنیوں کی تجوریوں میں چلی جاتی ہے۔ اب ہمارے حصّے کی دیسی مرغیاں اور انڈے شہروں اور قصبوں سے آنے والے کوکڑی (مرغیوں اور انڈوں کے بیوپاری) لے جاتے ہیں۔ ان مرغیوں کو شہر میں وہی مشکوک فیڈ کھلائی جاتی ہے جو فارمی مرغیوں کی خوراک ہے۔ یوں یہ دیسی رہتی ہیں نہ فارمی! شاید انہی کو گولڈن کہا جاتا ہے۔ شہر کے لوگ انہیں دیسی سمجھ کر بھاری قیمت پر خریدتے ہیں۔ ہم جیسے دیہاتی اصل رکھنے والے ان شہریوں پر ترس بھی کھاتے ہیں اور ہنستے بھی ہیں! 

گائوں کی ایک بچی سے پوچھا: کس کلاس میں پڑھتی ہے، کہنے لگی: بی اے فائنل میں۔ ہر روز پندرہ میل دور فتح جنگ کے کالج میں جاتی ہے۔ کہا کتابیں دکھائو! حیرت سے آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ''کورس‘‘ کی ساری کتابیں شرح اور خلاصوں کی کتابیں تھیں۔ اصل کوئی نہ تھی۔ پوچھا ناول کون سا ہے کورس میں؟ کہنے لگی: ہیمنگوے کا اولڈ مین اینڈ سی! پوچھا کہاں ہے؟ کہنے لگی: یہی ترجمہ ہے اور ''شرح‘‘ ہے جو پروفیسروں نے تجویز کی ہے! یعنی اصل ناول کی بچوں بچیوں نے شکل تک نہیں دیکھی! پڑھنے کا کیا سوال ہے! ہم نے بی اے کیا تھا تو چارلس ڈکنز کا اولیور ٹوسٹ، برنارڈ شا کا آرمز اینڈ دی مین اور برٹرینڈ رسل کے مضامین (Essays) سب کے اصل متون پڑھے تھے۔ اینتھالوجی آف ماڈرن انگلش پوئٹری کی ساٹھ کی ساٹھ نظمیں زبانی یاد ہو گئی تھیں۔ اب بھی بہت سی حافظے میں محفوظ ہیں! بچی سے پوچھا: ہیمنگوے کہاں کا تھا؟ کب تھا؟ کچھ پتہ نہیں! اس نے بتایا کہ جن لیکچرر عورتوں کے تبادلے ہوئے ان کی جگہ خالی پڑی ہے! اسامیاں منتظر ہیں!؎
گر ہمیں مکتب و ہمیں مُلّا/ کارِ طفلاں تمام خواہد شُد
یہ کالج اور یہ اساتذہ! پیداوار کی کوالٹی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے! مانا کہ قصبوں اور بڑے شہروں کے تعلیمی اداروں میں فرق ہوتا ہے مگر اتنا اندھیر کبھی نہیں تھا کہ اصل کتابیں ہی نہ تجویز کی جائیں! ایسے میں موجودہ حکومت کا ''یکساں نصابِ تعلیم‘‘ کا نعرہ بے سود ہے کیونکہ نصاب اگر ٹیسٹ پیپرز اور شروح کی بیساکھیوں سے پڑھایا جائے گا تو کارِ لا حاصل ثابت ہو گا! 

ان خاک اڑاتے قریوں، ان دور افتادہ بستیوں میں جو جوہر قابل توجہ سے محروم ہے‘ اس کا کیا بنے گا؟ سارا مسئلہ مواقع کا ہے! کم ذہانت کے بچے بچیاں، زیادہ وسائل اور بہتر مواقع کے ساتھ آگے نکل جاتے ہیں۔ ان سے کہیں زیادہ ذہین و فطین طلبا و طالبات صرف اس لیے تابندگی سے محروم رہ جاتے ہیں کہ مواقع مفقود ہیں اور وسائل محدود! تعلیمی ادارے غیر معیاری! کورس کی صحیح کتابیں ناپید! پڑھانے والے اور پڑھانے والیاں اخلاص سے عاری! سب کچھ ڈنگ ٹپائو! ہیرے‘ لعل اور جواہر مٹی میں رُل رہے ہیں! زرِ خالص ریت میں بکھرا پڑا ہے! افرادی قوت کا ضیاع اس قدر ہے کہ سوچیں تو کپکپی طاری ہو جاتی ہے! کوئی مداوا نہیں! کوئی حل نہیں! حکومتی ادارے نا اہل اور بے نیاز! نجی شعبہ اندرونِ ملک سے گریزاں کہ بزنس کے اپنے مسائل ہیں، اپنی ترجیحات اور اپنی حرکیات!

گائوں گائوں، قسم قسم کی گاڑیوں کی بہتات ہے۔ ہر شخص کی جیب میں موبائل فون ہے مگر کیا یہ ترقی کی علامات ہیں! کیا ان سے ذہنی سطح تبدیل ہو سکتی ہے؟ کیا مائنڈ سیٹ متاثر ہو رہا ہے؟ نہیں! ہرگز نہیں! موبائل فون شہروں میں بھی ہر خاکروب، ہر مزدور، یہاں تک کہ ہر بھکاری کے پاس موجود ہے! اس سے مائنڈ سیٹ کیا خاک بدلے گا! گائوں گائوں جھگڑے، مقدمہ بازیاں، قطعِ علائق، نسل در نسل دشمنیاں اسی طرح چلی آ رہی ہیں! کسی نے اپنے کھیت کے قریب راستہ روکا ہوا ہے، کسی نے ووٹوں کی بنیاد بنا کر دوسرے سے تعلق توڑا ہوا ہے۔ کوئی مسجد کی کھڑپینچی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہ سب کچھ پچاس برس پہلے بھی تھا مگر اُس وقت ان سیّئات کے ساتھ ساتھ کچھ حَسَنات بھی تھیں! مسجد میں ٹھہرے ہوئے مسافر کو کھانا ضرور ملتا تھا! گائوں آنے والے رشتے دار واپس جاتے تھے تو ان کے سامان میں خالص شہد بھری بوتل، ایک کلو خالص گھی، ایک توڑا مونگ پھلی، ایک بوتل دودھ سے بھری، اور دس بارہ دیسی انڈوں کا تحفہ ہوتا تھا! تب نانیاں، دادیاں، خالائیں، پھپھیاں صدقے قربان ہوتی تھیں۔ قربانی کا جانور گائوں سے بھیج دیا جاتا تھا۔ اب آپ اصلاً گائوں کے ہیں تب بھی سرسوں کا ساگ اتوار بازار سے خریدنا ہے اور مکئی کا آٹا اُس ڈرائیور سے منگوانا ہے جو کشمیر یا ایبٹ آباد کا ہے! اب گائوں میں بزرگوں کی قبریں ہیں جو عید، شبِ برات پر بلا لیتی ہیں! یا شاید ہم وقت سے پیچھے رہ گئے؎
شوکتؔ ہمارے ساتھ عجب حادثہ ہوا
ہم رہ گئے، ہمارا زمانہ چلا گیا

Tuesday, January 14, 2020

دھکّا کس نے دیا تھا؟


کیا آپ کو معلوم ہے چمگادڑ آرام کیسے کرتی ہے؟
یہ آرام کرنے کے لیے سر کے بل لٹکتی ہے۔
پنجے بناوٹ میں ایسے ہوتے ہیں کہ درختوں کی شاخوں میں پھنس جاتے ہیں۔ یوں یہ پاؤں اوپر اور سر نیچے کر کے گھنٹوں، بلکہ پہروں، محوِ استراحت رہ سکتی ہے!
اُلّو رات کو جاگتا ہے۔ ہمارں ہاں اُلّو نحوست کی علامت ہے اور مغرب میں دانائی کی! یہ دن کو سوئے نہ سوئے رات کو بیدار ضرور رہتا ہے۔ جو لوگ رات کو دیر تک جاگتے ہیں اور صبح کو چست اور ایکٹو رہنے سے معذور ہیں انہیں ''نائٹ آؤل‘‘ کہا جاتا ہے۔ اقبال نے اُلّو کو رات کا شہباز کہا ہے ؎
معلوم نہیں ہے یہ خوشامد کہ حقیقت
کہہ دے کوئی اُلّو کو اگر رات کا شہباز
حیرت ہے کہ کچھ لوگ چمگادڑ سے یہ امید باندھے تھے کہ یہ آرام کرتے وقت الٹا لٹکنا چھوڑ دے گی۔ درخت سے نیچے اترے گی اور بیڈ روم میں جا کر مسہری پر، اسی طرح سوئے گی جیسے آدم زاد سوتے ہیں۔ اگر ایسا نہ کر سکی تو کم از کم درخت کی ٹہنی پر سیدھا بیٹھ کر آرام کرے گی۔
اُلّو سے وہ یہ توقع کر رہے تھے کہ رات کو جاگنا ترک کر دے گا۔ سحر خیزی اپنائے گا اور شرفا کی طرح رات شروع ہوتے ہی سو جائے گا۔ یوں محاورہ تبدیل ہو کر اس طرح ہو جائے گا۔
Early To Bed And Early To Rise Makes An Owl Healthy, Wealthy And Wise!
مگر چمگادڑ اور اُلّو‘ دونوں نے ان کی امیدیں پورا کرنے سے انکار کر دیا۔ دونوں کی مجبوری تھی۔ اُن کے جسموں اور ذہنوں کی ساخت ہی ایسی ہے! چمگادڑ قدرت نے بنائی ہی ایسی ہے کہ الٹا لٹکے بغیر اسے نیند نہیں آتی۔ اُلّو کا باڈی کلاک اسے دن کو جاگنے نہیں دیتا اور رات کو سونے نہیں دیتا۔ اب آپ خود انصاف کیجیے چمگادڑ اور اُلّو کی جو مذمت ہو رہی ہے کیا اس مذمت کا کوئی جواز بنتا ہے؟
مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔ یہ کیسے مومن ہیں جو نواز شریف جیسے سیاست دان سے بار بار ڈسے جا رہے ہیں اور اب بال کھول کر، پٹکے کمر سے باندھ کر، نوحہ خوانی کر رہے ہیں! پہلے خود ایک بیانیہ تخلیق کیا۔ پھر اسے نواز شریف سے وابستہ کیا۔ میاں صاحب کو عزیمت کا تاج پہنایا۔ میاں صاحب کے اپنے مفادات تھے، اپنا ایجنڈا تھا۔ وہ ماضی کی طرح عیش و آرام کی زندگی گزارنے ملک سے باہر چلے گئے ہیں اور کیے گئے سمجھوتے کی پارلیمنٹ میں لاج رکھی ہے، تو وہ حضرات جنہوں نے بیانیہ خود تخلیق کیا تھا اور عزیمت کا تاج خود ہی خیالی سر پر پہنایا تھا‘ بیٹھے رو رہے تھے! کوئی مذمت کر رہا ہے! کوئی تاویل! وہ لطیفہ انہیں بالکل یاد نہیں آ رہا جس میں ایک بچہ پانی میں ڈوب رہا ہوتا ہے۔ ایک شخص پانی میں چھلانگ لگا دیتا ہے۔ بچہ اس سے چمٹ جاتا ہے۔ دونوں باہر نکل آتے ہیں۔ جب لوگ بچے کو بچانے پر اس کی تعریف کر رہے ہوتے ہیں تو وہ غصّے سے پوچھتا ہے کہ مجھے دھکاّ کس نے دیا تھا؟
یہ سیاست دان! اور عزیمت؟ یہ سیاست دان اور بیانیہ؟؟ گویا توقع تھی کہ پوپ اسلامی وفد کی قیادت کرے گا اور جاپانیوں کی خوراک مچھلی کے بجائے اونٹ کا گوشت ہوگی! بات اُس وقت شروع ہوئی جب میاں صاحب نے ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگایا۔ نزع کے وقت تو توبہ بھی قبول نہیں ہوتی! ووٹ کی عزت تخت سے اتر کر یاد آئی! مہینوں پارلیمنٹ میں نہیں آتے تھے، مہینوں کابینہ کا اجلاس نہیں ہوتا تھا۔ فیصلے، مطلق العنان بادشاہ کی طرح کرتے تھے۔ صاحبزادی اقتدار میں شریک تھیں! کون سے ووٹ لیے تھے ان کی بیٹی نے؟ وزیر تھیں نہ پارلیمنٹ کی رکن! بھتیجا ایم این اے تھا مگر عملاً پنجاب کا حکمران! اُس وقت ووٹ کو عزت کیوں نہ دی؟
عزیمت کا راستہ وہ نہیں چُنتے جن کا طرزِ زندگی میاں صاحب جیسا ہوتا ہے! جس کی اتنی بھی Concentration نہ ہو کہ اپنے بارے میں آیا ہوا عدالتی فیصلہ ہی خود پڑھ لے، جس کی زندگی کا ڈھب یہ ہو کہ دوپہر مری میں تو، شام لاہور میں! وطنِ اصلی لندن اور وطنِ اقتدار پاکستان! جس کی سوچ کا محور ناشتے‘ ظہرانے اور عشائیے کی تفصیلات ہوں، جو کئی پاکستانیوں کو مار دینے والے دھماکے کے کچھ دیر بعد کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ ٹریڈ سے شکوہ کر رہا ہو کہ ظہرانہ ''کمزور‘‘ تھا، وہ عزیمت کا راستہ اختیار کرے گا؟ واہ! جناب! واہ! ع
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
اور یہ بھی انصاف نہیں کہ صرف میاں صاحب یا میاں صاحبان سے سہل پسندی کا شکوہ کیا جائے اور مفاد پرستی کا طعنہ دیا جائے! کون ہے سیاست دانوں میں جس نے عزیمت کا راستہ اختیار کیا؟ بے نظیر بھٹو نے جنرل پرویز مشرف سے این آر او کر کے اپنے اقتدار کا راستہ صاف کیا‘ یہ الگ بات کہ فائدہ کسی اور کو پہنچا! کراچی سے لے کر رائے ونڈ تک‘ گجرات سے لے کر پشاور تک! ڈیرہ اسماعیل خان سے لے کر کوئٹہ تک‘ سب ایک ہی منزل کے مسافر ہیں! مولانا فضل الرحمن آج ''عزیمت‘‘ کے راستے پر ہیں تو سبب سب جانتے ہیں! اپنی ذات کی اتنی فکر ہے کہ جس اسمبلی میں لختِ جگر بیٹھا ہے، اُسی کو لپیٹنا چاہتے ہیں! ضیاالحق کی شوریٰ سے لے کر آج کے ایوان تک... سارے چہرے وہی ہیں! تو پھر صرف میاں صاحبان ہی سے کیا شکوہ! ہمیں اہل سیاست کی ایک پوری نسل ایسی ملی ہے جو اقتدار کے علاوہ کوئی نصب العین نہیں رکھتی!
کسی کو کیا پڑی ہے کہ نظریات کے لیے، بیانیے کے لیے، قوم ملک کے لیے، اپنا آرام تج دے۔ زندانوں کی صعوبتیں سہے! اپنی خاندانی سپریمیسی کے لیے لڑائی لڑنے میں جو مزا ہے، وہ سول سپریمیسی کی جنگ میں کہاں ہے!
توسیع کے حق میں نواز شریف نے پارٹی کو ووٹ ڈالنے کا حکم دیا تو اس میں حیرت ہی کیا ہے؟ میاںصاحب کو ایک آرام دہ زندگی چاہیے! وزیراعظم ہاؤس میں نہیں تو جدہ کے کسی محل میں یا لندن کے کسی محل میں!
عزیمت کا راستہ وہ چنتے ہیں جن کے Stakes ہائی نہیں ہوتے! جنہوں نے محلات‘ کارخانے‘ جائیدادیں‘ بینک بیلنس نہیں بچانے ہوتے! جو اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے حکمرانی کے خواب محفوظ نہیں رکھنا چاہتے۔ عزیمت کا راستہ نیلسن منڈیلا یا مرسی جیسے دیوانے چنتے ہیں! یہ فرزانوں کا کام نہیں! زرداری صاحب بھی دیوانے نہیں فرزانے تھے۔ صدر بنے تو فیصلہ کر لیا کہ کسی A کو نہیں چھیڑنا۔ آرام سے پانچ سال قصرِ صدارت کے مزے لوٹے! میاں صاحب بھی فرزانے ہیں! اگر باقر خانیاں بنوانے کے لیے بھی الگ باورچی ضروری ہو تو کیا ضرورت ہے قید و بند میں پڑنے کی اور اسمبلی میں ووٹ نہ دینے کے لیے ڈٹ جانے کی! کل کے ایک اخبار میں اُن کے ایک حمایتی اخبار نویس نے بھی شہادت دے دی ہے کہ خود چل کر وکٹری کا نشان بناتے ہوئے قطر والوں کے جہاز میں سوار ہوتے وقت ان کی حالت کسی طور بھی نزعی نظر نہیں آ رہی تھی!! نعیم صدیقی نے کہا تھا ؎
یہ لا اِلٰہ خوانیاں جائے نماز پر
سولی پہ چڑھ کے نغمہ یہ گاتے تو جانتے
عزیمت دکھانے والوں کی ساخت ہی اور ہوتی ہے! عشروں کی ''محنت‘‘ سے کھڑی کی گئیں دولت کی ایمپائرز ووٹ کو عزت دینے کے لیے کوئی نہیں منہدم کرتا۔ جنہوں نے صعوبت کی راہ اختیار کرنی ہو وہ دولت کے انبار جمع ہی نہیں کرتے‘ وقت آئے تو دامن جھاڑ کر دار و رسن کی جانب چل پڑتے ہیں
میرِ سپاہ ناسزا، لشکریاں شکستہ صف
آہ و تیرِ نیم کش جس کا نہیں کوئی ہدف
تیرے محیط میں کہیں گوہرِ زندگی نہیں
ڈھونڈ چکا میں موج موج دیکھ چکا صدف صدف

Sunday, January 12, 2020

یہ خود اعتمادی ہے یا …؟


یہ محلّے کا عجیب و غریب گھر تھا۔ ایسا عجیب و غریب کہ ایک چیستان سے کم نہ تھا۔
گھر کے ذرائع آمدن نہ ہونے کے برابر تھے۔ گزر بسر قرضوں پہ ہوتی یا خیرات سے! ایک قرضہ اتارنے کے لیے دوسرا قرضہ لینا پڑتا اور دوسرا قرضہ اتارنے کے لیے تیسرے قرضے کا اہتمام کرنا پڑتا۔ کبھی مٹی کے تیل کا کنستر کوئی صدقے میں لا دیتا۔ کبھی یہ کہہ کر کوئی گھی کا ڈبہ دے دیتا کہ رقم بعد میں دے دینا۔ اس سب کچھ کے باوجود گھر والے گلے میں پستول حمائل کیے رکھتے اور کمر کے گرد گولیوں بھری پیٹی کسی رہتی۔ محلّے میں وقعت صفر کے برابر تھی مگر جب محلّے کے دو بڑے خاندانوں میں جھگڑا ہوتا تو اس عجیب و غریب گھر والے صلح صفائی کرانے آگے آگے ہوتے۔ یہ اور بات کہ کوئی ان پر توجہ دیتا نہ ان کی کسی بات کی کوئی اہمیت ہوتی! یہ خود ساختہ چودھری تھے! ان پر پنجابی کی وہ ضرب المثل صادق آتی تھی۔ شملہ بڑا ہے۔ دستار کو کلف لگی ہوئی ہے۔ دوسری طرف گھر میں بیوی بھوک سے ایڑیاں رگڑ رہی ہے!
کیا عملی زندگی میں ایسا ہوتا ہے یا اُوپر بیان کی گئی صورت حال محض تصوراتی ہے؟ ہو سکتا ہے آپ کے نزدیک یہ ایک خیالی اور فرضی تصویر ہو مگر کل کا بیان پڑھ کر یقین ہو گیا کہ ہم جن صورتوں کو فرضی خیال کرتے ہیں‘ وہ اصل میں بھی وجود رکھ سکتی ہیں!
''پاکستان مسلم دنیا کیلئے مثال بنے گا۔ اور اس کی قیادت کرے گا۔ کوشش کریں گے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان دوستی کرائیں۔ صدر ٹرمپ سے بھی کہا تھا کہ امریکہ اور ایران کی دوستی کرانے کے لیے ہم تیار ہیں‘‘۔
اللہ اللہ! اب ہم مسلم دنیا کے لیے مثال بنیں گے اور قیادت بھی فرمائیں گے! نہ صرف ایران اور سعودی عرب کے درمیان بلکہ ایران اور امریکہ کے درمیان بھی دوستی کرائیں گے!! ایک پرانی شعر نما کہاوت یاد آ رہی ہے؎
مال گودام سے لے گئی چیونٹی گندم کی اک بوری
جہلم کا دریا‘ سکھر کا پُل دونوں ہو گئے چوری!
انور مسعود نے ایک قطعہ خوب کہا ہے ؎
''راوی‘‘ کا بیاں ہے کہ مرے سابقہ پُل پر
چیونٹی کوئی کہتی تھی کسی فیلِ رواں سے
بے طرح لرز جاتا ہے یہ لوہے کا پُل بھی
جس وقت بھی ہم مل کے گزرتے ہیں یہاں سے
ہے نا وہی محلّے کے عجیب و غریب خانوادے والی بات! باہر اونچا شملہ اور گھر میں بھوک! ذرا مندرجہ ذیل پہلوئوں پر غور فرمائیے!
اوّل: ہماری معیشت کا انحصار آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک پر ہے! یہ دونوں ادارے امریکہ کے خانہ زاد ہیں! آئی ایم ایف کا ایک سابقہ ملازم ہمارے سٹیٹ بینک کا سربراہ ہے! مشیر خزانہ بھی وہیں سے بیعت ہیں! اگر یہ کہا جائے کہ امریکہ کی گود میں بیٹھے ہوئے یہ ادارے ہمارے مالک و مختار ہیں تو قطعاً مبالغہ نہ ہوگا! یوں ہم ایک لحاظ سے امریکہ کے ماتحت ہوئے! کیا کسی کا ماتحت‘ اُسے کہہ سکتا ہے کہ فلاں سے صلح کر لو؟
دوم: قرضوں میں ہمارا بال بال اٹا ہوا ہے۔ مستقبل قریب میں پیدا ہونے والا ہر بچہ لاکھوں کا مقروض ہے! تیل ہم نے ادھار لیا ہے! چین‘ شرقِ اوسط‘ مغرب‘ ہر دروازے پر ہمارا کشکول موجود ہے! انڈسٹری زبوں حالی کا شکار ہے! صنعت کار ملک سے بھاگے ہوئے ہیں۔ اور ویت نام‘ ملائیشیا‘ بنگلہ دیش اور دوسرے ملکوں میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ یعنی ؎
غنیؔ! روزِ سیاہِ پیرِ کنعان را تماشا کُن
کہ نورِ دیدہ اش روشن کند چشمِ زلیخارا
یعقوب علیہ السلام کی قسمت دیکھیے کہ نورِ نظر اُن کا مگر روشن زلیخا کی آنکھوں کو کر رہا ہے!
ہماری بہترین افرادی قوت ملک سے باہر بیٹھی ہے۔ اس لیے کہ عزائم اور اعلانات کے باوجود میرٹ مفقود ہے۔ دعوے اور وعدے سب مٹی مٹی ہو گئے! کوئی اگر اعداد و شمار ڈھونڈے کہ ہر روز کتنے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد‘ دوسرے ملکوں کی امیگریشن کے لیے درخواستیں دے رہے ہیں تو ہماری چودھراہٹ کی قلعی کھُل جائے گی! ہمارا پاسپورٹ‘ رینکنگ میں اسفل السافلین کے مقام پر ہے! صلح کرانے ہم نکلے ہیں امریکہ اور سعودی عرب جیسے ملکوں کی جو ہمارے مربی‘ ہمارے مالک‘ ہمارے مختار‘ ہمارے سرپرست اور ہمارے گارڈین ہیں! ابھی کل کی بات ہے کہ حکم کی تعمیل میں ہم نے ملائیشیا جانے سے انکار کر دیا۔ ہم میں اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ وزارتِ خارجہ سے نچلی سطح ہی کا کوئی وفد بھیج دیتے! ترکی کے صدر نے اعلانِ عام کر کے ہمارا سفارتی راز بھی فاش کر دیا! ہم نکّو بن گئے! سعودی عرب کو وضاحتی بیان جاری کرنا پڑا۔ جو بات چیت سعودیوں سے خفیہ طور پر ہوئی تھی وہ چار دانگِ عالم میں پھیل گئی! ڈپلومیسی میں مہارت کا یہ حال ہے کہ ہم کسی راز کو راز نہیں رکھ سکتے! کون ہم پر اعتماد کرے گا؟
سوم! کیا ایران ہم پر اعتماد کرے گا؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہمیں ایرانیوں اور عربوں کی تاریخ پڑھنا ہوگی۔ یہ جھگڑا آج کا نہیں‘ چودہ سو سال کا ہے! ہم یہ تو کہتے ہیں کہ ایران کی سر زمین سے کلبھوشن آیا‘ ہم چاہ بہار کے حوالے سے شکوہ تو کرتے ہیں‘ ہم یہ گلہ تو کرتے ہیں کہ ایران بھارت کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے مگر ہم اس حقیقت سے نظریں چراتے ہیں کہ ہم مشرق وسطیٰ میں اُن طاقتوں کی گود میں بیٹھے ہیں جن سے ایرانیوں کو جنم جنم دشمنی ہے! مانا یہ ہماری مجبوری ہے! مشرق وسطیٰ کی ان طاقتوں سے ہمارے مراسم مذہبی جذباتی اور اقتصادی حدود تک پھیلے ہوئے ہیں مگر ایران کی بھی تو مجبوریاں ہیں! وہ پھر ہم پر کیوں اعتماد کرے؟ وہ بھارت کے لیے نرم گوشہ کیوں نہ رکھے؟ ایسے میں ہم صلح کے لیے خود ساختہ ایلچی بنیں گے تو ایران ہنسنے کے علاوہ اور کیا کر سکتا ہے!
چہارم! آج کا ایران رومی‘ سعدی اور سنائی والا ایران نہیں! یہ شاہ عباس صفوی والا ایران ہے! شاہ عباس نے ایران کو مسلکی حوالے سے ایک اور ہی ملک بنا دیا۔ صفویوں اور عثمانی ترکوں کے درمیان مسلسل کشمکش رہی۔ یہاں تک کہ شاہ عباس نے یورپ کے ملکوں میں ایلچی بھیج کر انہیں عثمانی ترکوں پر حملہ کرنے کیلئے اکسایا۔ ایسا ہی ایک ایلچی زینل بیگ تھا جو چھ سال تک یورپی دارالحکومتوں میں اسی مقصد کیلئے پھرتا رہا۔ آخر‘ اُس نے مارچ 1609ء میں شاہ عباس کو خط لکھا کہ عیسائی بادشاہوں کی ہمارے ساتھ دوستی فریب کے سوا کچھ نہیں! ان کا اصل مقصد یہ ہے کہ ایرانی اور ترک ایک دوسرے سے لڑ کر تباہ ہو جائیں اور مسلمانوں کے مذہب کا یعنی اسلام کا بھی (بقول ان کے) قصّہ تمام ہو جائے!ایران کو سمجھنے کیلئے زیادہ نہیں تو کم از کم ایک کتاب (شاہ عباس مصنف David Blow کا مطالعہ ضرور کر لیا جائے۔ اس کے بعد صلح صفائی کیلئے ہم باہر نکلیں؎
رہروِ راہِ محبت کا خدا حافظ ہے
اس میں دو چار بہت سخت مقام آتے ہیں
یہ جو محاورے بنے ہیں تو صدیوں کے تجربوں کے بعد بنے ہیں۔ کہتے ہیں‘ جنہاں دے گھر دانے‘ اونہاں دے کملے وی سیانے!
پہلے ہم اپنے گھر کو ٹھیک کریں۔ خود کش دھماکے پھر شروع ہو گئے ہیں۔ کل کوئٹہ میں پندرہ بے گناہ مارے گئے۔گمان ہوتا ہے جیسے دنیا بھر کے دہشت گردوں کی جیبوں میں پاکستانی پاسپورٹ رکھے ہیں! پانی اور روٹی ہے نہ گیس! مگر اسلحہ میں ہر شخص خود کفیل ہے! مہنگائی آسمان تک پہنچ گئی ہے۔ وزیر کہتے ہیں فلاں آٹا کھائو‘ فلاں نہ کھائو! وزیراعظم کہتے ہیں سکون کی زندگی صرف قبر میں ہوتی ہے! عوام سربہ گریباں ہیں کہ اس نصیحت پر کیا کہیں!
ایسے میں ہم امریکہ اور ایران اور عرب اور ایران کے درمیان صلح کرانے نکلے ہیں اور مسلم دنیا کی قیادت کرنے!! سبحان اللہ! سبحان اللہ! مگر ٹھہریئے‘ پہلے یہ فیصلہ کر لیں کہ یہ خود اعتمادی ہے یا کچھ او

Thursday, January 09, 2020

تنویر آغا

وفاقی سیکرٹری خزانہ تو وہ بعد میں بنا۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے عالی مرتبت منصب پر اس کا فائز ہونا تو ماضی قریب کا واقعہ ہے، میرا دوست وہ پہلے سے تھا۔ بہت پہلے سے ع
نصف صدی کا قصّہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں
1971ء کا دسمبر تھا، جب میں سی ایس ایس کے امتحان کے نتیجہ میں سیکشن افسر تعینات ہو کر ٹریننگ کے لیے کراچی پہنچا۔ اُن دنوں مقابلے کا یہ امتحان واقعی مقابلے کا امتحان ہوتا تھا۔ صرف کراچی، لاہور اور لندن امتحانی مراکز تھے۔ عمر کی حد پچیس برس تھی۔ 
قیام کے اوائل میں ایک دن طبیعت بہت بجھی بجھی سی تھی۔ پنجاب سے کوئی کراچی جائے تو شروع میں وہاں کے سخت رطوبت زدہ موسم کی وجہ سے اس پر اضمحلال کی ایک عجیب کیفیت طاری ہوتی ہے۔ اعضا شکنی کا عالم اور بخار کی سی حالت! ابھی رفقائے کار سے دوستیوں کی بنیاد نہیں پڑی تھی۔ بس اتنا معلوم تھا کہ یہ تنویر آغا ہے اور تربیت میں ہمارا ساتھی ہے۔ کہنے لگا: اظہار‘ کیا حال ہے؟ کہا: کیفیت عجیب سی ہے‘ سوچ رہا ہوں نوکری چھوڑ کر واپس اسلام آباد چلا جائوں۔ کہنے لگا: میرے ساتھ آئو! وہ جمشید روڈ پر اپنے گھر میں رہتا تھا۔ وہیں لے گیا۔ اپنی امی جان سے ملوایا۔ پھر بتایا کہ تھوڑی دیر میں تم ٹھیک ہونے والے ہو۔ اہلِ کراچی کو یہ علاج خوب آتا ہے۔ چائے سے بھری چینک آ گئی۔ دو پیالیاں تیز چائے کی پینے کے بعد کیفیت یکسر بدل گئی۔ اعضا شکنی رہی نہ اضمحلال!
یہ اس دوستی کا آغاز تھا جو پچاس برس پورے عروج پر رہی۔ یہاں تک کہ کل آٹھ جنوری 2020ء کو تنویر آغا مجھے چھوڑ کر خود آسمان کی طرف چل دیا اور جسم کو زمین کے نیچے بھیج دیا۔ رومی نے کہا تھا؎
بروزِ مرگ چو تابوتِ من روان باشد
گمان مبر کہ مرا دردِ این جہان باشد
موت کے دن جب میرا تابوت لے کر جا رہے ہوں گے تو یہ نہ سمجھنا کہ مجھے اس جہان کی فکر ہو گی۔
ایک برس کراچی گزرا۔ ساجد حسن، اختر احسن، پرویز رحیم راجپوت، ظہیر مشتاق سید اور دیگر احباب ساتھ تھے۔ یہ سب ٹاپ کے مناصب تک پہنچے۔ ہم میں سے کچھ نے ایک بار پھر مقابلے کا امتحان دیا۔ بلال، تنویر آغا، مرزا شکیل مبرور اور یہ کالم نگار آڈٹ اینڈ اکائونٹس سروس میں آ گئے۔ پرویز رحیم راجپوت پولیس کو سدھار گیا۔
مزید ایک سال ہماری تربیت فنانس سروسز اکیڈمی والٹن میں ہوئی۔ وہاں خالد رضوی اور سکندر عسکر بھی ہمارے ساتھ شامل ہو گئے۔ قرۃ العین حیدر کی بھتیجی نورالعین حیدر بھی ہمارے ساتھ تھیں۔
تربیت کے مراحل تمام ہوئے تو مختلف شعبوں میں تعیناتیاں ہوئیں۔ پھر ازدواج کے مراحل آ گئے۔ میری شادی کے ایک برس بعد میرا چوبیس سالہ بھائی انوارالحق ایک حادثے کا شکار ہو کر چل بسا۔ تنویر آغا کے والد مرحوم ان دنوں کویت کے پاکستانی سفارت خانے میں ملازم تھے۔ انہوں نے تنویر کو گاڑی لے کر دی تھی۔ ہمارے ساتھیوں میں کسی اور کے پاس تب گاڑی نہیں تھی۔ تنویر نے مجھے اور میرے والد مرحوم کو گاڑی میں بٹھایا اور اس جگہ لے گیا جہاں حادثہ ہوا تھا۔ والد مرحوم وہاں بیٹھ کر گریہ کرتے رہے۔ تب انہوں نے ایک درد ناک مرثیہ کہا ع
قمقموں کے شہر میں گُل ہو گیا میرا چراغ
میری منگنی ہوئی تو میرے سسر مرحوم سے تنویر کی بھی ملاقات ہوئی۔ بعد میں اکثر مجھے کہتا ''دلہن کے ساتھ اچھا سلوک کیا کرو، ورنہ میں میجر صاحب مرحوم کو حشر کے دن کیا منہ دکھائوں گا؟‘‘
لاہور کی تربیت کے دوران دو ماہ کراچی بھی رہنا تھا۔ یہ عرصہ میں تنویر کے گھر رہا۔ اس کی امی جان کے ہاتھوں کے پکے ہوئے کھانے کھائے اور ناشتے کیے۔ اسلام آباد میں وہ میرے ہاں قیام کرتا۔ میرے پاس اُن دنوں ویسپا تھا۔ اس پر سوار کرا کر میں اُسے اِدھر اُدھر لے جاتا۔
اس کی والدہ کی وفات ہوئی تو جی سکس ٹو والی امام بارگاہ میں، میں جنازے میں شریک تھا۔ والد گرامی میرے سب دوستوں سے محبت اور شفقت سے ملتے۔ تنویر کے ساتھ ان کا خصوصی پیار تھا۔ ایک بار میرے ہاں قیام پذیر تھا۔ کئی دنوں تک اس کے والد صاحب کا کویت سے خط نہ آیا۔ وہ پریشان ہو گیا اور رو پڑا۔ ابا جی نے دعا کی۔ پھر میں اسے لال مسجد کے سامنے تار گھر لے گیا۔ کویت کی فون کال بُک کروائی۔ ٹیلی گرام دیا۔ رابطہ ہوا تو اس کی جان میں جان آئی۔ میری والدہ مرحومہ اٹک کے خاص سٹائل میں خاگینہ بنایا کرتیں۔ وہ اسے آملیٹ کہتا۔ یہ اس کی پسندیدہ ڈش تھی!
ہم فیلڈ میں تعینات رہے۔ فیلڈ میں سہولیات نسبتاً زیادہ ہوتی ہیں۔ اس نے مشکل راستہ چنا اور فیلڈ چھوڑ کر مرکزی سیکرٹریٹ چلا گیا۔ جن دنوں وہ وزارت خزانہ میں جوائنٹ بجٹ تھا‘ رات گئے تک دفتر بیٹھتا۔ اس تعیناتی کو سزا والی تعیناتی کہا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ وہ ریاض کے پاکستانی سفارت خانے میں پوسٹ رہا۔ ایک بار جدہ پہنچ کر اسے فون کیا۔ ضد کی اور مچل گیا کہ تم نے ریاض ضرور آنا ہے‘ مگر وقت نہیں تھا کہ میں اس کے حکم کی تعمیل کرتا!
پھر وہ ورلڈ بینک چلا گیا۔ وہاں بھارتیوں کے ساتھ اس کے معرکے رہے۔ وہ چاہتا تو بعض دوسرے بیوروکریٹس کی طرح ان معرکوں پر زیبِ داستاں کے لیے خوب بڑھا چڑھا کر لکھتا مگر ذاتی تشہیر اس کے ایجنڈے پر کبھی نہ رہی۔ خاموشی سے کام کرتا۔ تقریر و تحریر پر مکمل دسترس تھی۔ بلا کا ذہین تھا۔ اپنے ہم عصروں اور رفقاء کار سے کئی فرسنگ آگے! میں ہمیشہ اس کی ذہانت پر رشک کرتا!
وفاقی سیکرٹری خزانہ اس کی مشکل ترین تعیناتی تھی۔ وسائل محدود تھے‘ ہر چہار طرف سے مطالبات کا بے پناہ ہجوم۔ وفاقی سیکرٹری خزانہ کو ویسے بھی سولہ اٹھارہ گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔ میں ایڈیشنل سیکرٹری تھا اور تنویر کا ماتحت! دفاع کے تمام مالیاتی معاملات میرے پاس تھے اور مجھے ASMF کہا جاتا تھا یعنی ایڈیشنل سیکرٹری ملٹری فنانس! کہتے ہیں کسی کی اصلیت جاننا ہو تو اس کے ساتھ سفر کیجیے مگر ایک اور طریقہ کسی کی اصل جاننے کا یہ ہے کہ اس کے ماتحت بنیں۔ بڑے بڑے خاندانی لوگ دوستوں کے افسر لگ کر بے نقاب ہو جاتے ہیں اور اندر کا سفلہ پن باہر آ جاتا ہے۔ تنویر آغا نے تین سال کی ماتحتی میں ایک لمحہ بھی یہ احساس نہ ہونے دیا کہ وہ افسر ہے اور میں ماتحت! زینب کی پیدائش پر بیرونِ ملک جانا تھا۔ چھٹی مانگی تو بجٹ کے دن تھے۔ کہنے لگا: تم ڈیفنس بجٹ کے انچارج ہو‘ کیسے جا سکتے ہو! میں نے کہا: بجٹ بنا کر دے کر جائوں گا‘ نہیں چھٹی دو گے تو دوست تمہیں لعن طعن کریں گے۔ ہنس پڑا۔ ہمارا غیر تحریری معاہدہ یہ تھا کہ میں سرکاری اجلاسوں میں اسے آپ کہہ کر مخاطب کرتا۔ اجلاس ختم ہوتے ہی پھر تم اور تو تکار! اس اثناء میں اس کا ایک نہفتہ پہلو سامنے آیا۔ اعصاب کی حد درجہ مضبوطی اور کمال درجہ کی بے خوفی! ایک اجلاس وزیر خزانہ کے کمرے میں ہو رہا تھا۔ ایک اعلیٰ شخصیت اضافی بجٹ کا تقاضا کر رہی تھی۔ تنویر نے ماننے سے انکار کر دیا اس لیے کہ گنجائش نہیں تھی۔ دوسروں کے بجٹ میں الٹا تخفیف ہو رہی تھی۔ وہ شخصیت کہنے لگی ''ہم تنی ہوئی رسّی پر چل رہے ہیں‘‘ تنویر نے ایک ثانیہ توقف کیے بغیر کہا '' آپ کی تو رسّی ہی نہیں ہے، چلیں گے کیا‘‘! وزیر موصوف دم بخود تھے! ایک اور اعلیٰ سطحی اجلاس میں ایک اور شخصیت وزارت خزانہ کے ایک اہلکار پر چیخی! 
تنویر نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ''چلائیے مت! یہ میرا کولیگ ہے‘‘! اس شخصیت کو اس اہلکار سے معذرت کرنا پڑی! 
پھر خالقِ کائنات نے اسے مزید عروج بخشا! وہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے منصب کے لیے منتخب کیا گیا۔ ہم چند دوست اسے مبارک دینے اس کے دفتر گئے۔ میں نے معانقہ کر کے اس کا گال تھپتھپایا۔ 
ابھی ہم بیٹھے ہوئے ہی تھے کہ اسے ''بہت اوپر‘‘ سے کوئی فون آیا۔ فون رکھ کر اٹھا اور مجھے کہنے لگا: اِدھر آئو اب میں تمہارا گال تھپتھپائوں! تمہیں گریڈ بائیس میں ترقی دے دی گئی ہے۔ پھر اس نے مجھے کہا کہ پہلے انکل کو (یعنی اپنے والد گرامی) کو اطلاع دو۔ میں نے بتایا کہ جا کر، ان کے پائوں پکڑ کر یہ اطلاع دوں گا۔ آڈیٹر جنرل کا منصب وزیر مملکت کا ہوتا ہے۔ میں پھر اس کا ماتحت تھا۔ یعنی گریڈ بائیس میں اس کا دستِ راست! زینب چھوٹی سی تھی۔ میں نے اسے گود میں اٹھایا ہوا تھا۔ تنویر ملا تو میں نے زینب سے کہا کہ یہ انکل مجھے ڈانٹتے ہیں۔ ا س نے توتلی زبان میں باز پرس کی کہ نانا ابو کو کیوں ڈانٹتے ہیں؟ تنویر نے اسے کہا کہ میں تو صرف ڈانٹتا ہوں تمہارے نانا مجھے مارتے بھی ہیں!
ان مناصبِ عالیہ پر ہوتے ہوئے کسی کو ذاتی نقصان نہ پہنچایا۔ نچلے درجے کے ملازمین کے لیے دل بہت بڑا تھا۔ دستر خوان دوستوں کے لیے تو وسیع تھا ہی، ملازمین کے لیے بھی گویا لنگر چلتا رہتا۔ بیرون شہر سے آنے والے دوست ہفتوں اس کے ہاں قیام کرتے۔ مسلکی یا لسانی تعصب اس کے چہرے سے کوسوں دور تھا۔ 
تنویر نے اپنے والد مرحوم کی خوب خدمت کی۔ اس کا صلہ آخرت میں تو ملے گا ہی، دنیا میں یہ ملا کہ اس کے تینوں فرزندوں رضا، سلمان اور ذیشان نے تیمارداری میں کوئی دقیقہ فروگزاشت کیا‘ نہ اپنی ملازمتوں کی پروا کی! یاسمین بھابھی کی اپنی صحت عرصہ سے ڈانواں ڈول ہے۔ تنویر انہیں تنہا کر گیا‘ اور ہم دوستوں کو زندگی کے اس باقی ماندہ غیر یقینی سفر پر حیران و پریشان چھوڑ گیا؎
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور

 

Tuesday, January 07, 2020

وزیراعظم کا پورٹل۔ نوکر شاہی کا نیا فٹ بال


دوست عزیز رؤف کلاسرا نے اسلام آباد کی بربادی پر نوحہ خوانی کی ہے۔ یہ فقیر بھی کئی بار سینہ کوبی کرچکا ہے۔ لارڈ کلائیو اور وائسرائے کرزن کی ذہنیت رکھنے والے بیورو کریٹ اسلام آباد کی تقدیر کے مالک و مختار ہوں گے تو نتیجہ وہی برآمد ہوگا جو ہم دیکھ رہے ہیں!
وزیراعظم کا سٹیزن پورٹل اس اُوپر سے کالی اور اندر سے گوری نوکر شاہی کا نیا شکار ہے۔ اسے یہ فٹ بال کی طرح ٹھوکریں مارر ہے ہیں۔ کم درجے کے اہلکاروں کے لیے تو یہ پورٹل ہو سکتا ہے مؤثر ہو‘ مگر جن کے ہاتھوں میں اصل اقتدار ہے‘ وہ اس پورٹل کے ساتھ یوں کھیل رہے ہیں جیسے حکومت نہ ہو بازیچہ ہو! اس حقیقت میں کیا شک ہے کہ نوکر شاہی‘ وزیراعظم عمران خان کی اصلاحات کو ناکام کرنے پر تُلی ہوئی ہے اور ایک حد تک کامیاب بھی ہو چکی ہے!
یہ تجربہ سنا سنایا نہیں‘ ذاتی ہے۔ جو حشر پورٹل کا ہوا‘ اس پر ہنسی آتی ہے اور رحم بھی! یہ کالم نگار وفاقی دارالحکومت کے جس حصے میں رہتا ہے‘ وہاں کا ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے خلق ِخدا عاجز آ چکی ہے! چونکہ تعلق میڈیا سے ہے اس لیے کچھ شرفا‘ جو اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے‘ آئے اور سر جوڑ کر بیٹھے کہ کیا کیا جائے۔ چونکہ مسئلہ چیف کمشنر کے دائرہ کار میں پڑ رہا تھا اس لیے طے ہوا کہ چیف کمشنر سے وقت لے کر ان سے ملاقات کی جائے اور بتایا جائے کہ یہ آپ کا فرض ہے جو ادا نہیں ہو رہا۔ چیف کمشنر سے بات کرنے کا قرعۂ فال کالم نگار کے نام نکلا۔
یہ چار ستمبر 2019ء تھا جب اس کالم نگار نے چیف کمشنر اسلام آباد کو فون کیا۔ پرائیویٹ سیکرٹری مسٹر مشتاق نے بتایا کہ وہ سیٹ پر نہیں ہیں۔ آئیں گے تو بات کرائیں گے۔ فون نمبر‘ نام نوٹ کرایا۔ پھر معلوم ہوا کہ صاحب‘ سی ڈی اے کے چیئرمین بھی ہیں۔ وہاں فون کیا۔ پرائیویٹ سیکرٹری مسٹر رفاقت نے بتایا کہ مصروف ہیں۔ فارغ ہوں گے تو بات کرائیں گے۔ وہاں بھی نام اور فون نمبر نوٹ کرایا۔ یہ بھی وضاحت کی کہ سائل اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے‘ ذمہ دار شہری ہے اور ٹیکس ادا کرتا ہے اور چیف کمشنر سے کسی مسئلے پر بات کرنا چاہتا ہے۔ اگلے دن پانچ ستمبر کو پھر دونوں جگہ فون کیا اور عرضداشت دہرائی۔ بات نہ ہو سکی۔ چھ ستمبر کو پھر یہ سارا عمل دہرایا گیا‘ سات اور آٹھ ستمبر کو سنیچر اور اتوار تھا۔ نو ستمبر پیر کے دن پھر سائل نے کوشش کی۔ یہ عمل جاری رہا تاوقتیکہ معاونین (پرائیویٹ سیکرٹریز) نے عاجز آ کر صاف کہا کہ جناب! ہمارا کام تو صاحب کو بتانا ہے۔ وہ بات کریں یا نہ کریں ان کی صوابدید ہے!
انیس دن انتظار کرنے کے بعد یہ واضح ہو گیا کہ چیف کمشنر سے بات کرنا ممکن نہیں! ایک قانون پسند شہری کا بنیادی حق ہے کہ اسے پبلک سرونٹ تک رسائی حاصل ہو تاکہ وہ اپنے حقوق کی حفاظت کر سکے! چنانچہ 23ستمبر کو سٹیزن پورٹل پر شکایت رجسٹر کرائی۔ شکایت کا نمبر تھا 15230919-4768571
متن یہ تھا :
''ایک شہری اور ایک ٹیکس دہندہ کی حیثیت سے چیف کمشنر صاحب سے بات کرنا چاہی تاکہ کچھ معاملات پر احتجاج کیا جا سکے۔ چار ستمبر کو فون کیا۔ پانچ چھ اور نو ستمبر کو بھی فون کیا پرائیویٹ سیکرٹریوں مسٹر مشتاق اور مسٹر رفاقت کو پیغام لکھوائے‘ چیف کمشنر سے بات نہیں ہو سکی۔ شکایت یہ ہے کہ وہ قابلِ رسائی (Accessible) نہیں ہیں!!‘‘
اس شکایت کی کیٹیگر ی ''انسانی حقوق‘‘ اور ''حقوق سے انکار‘‘ تھی! شکایت کے ساتھ کیا ہوا؟ اس کی تاریخ وار تفصیل قارئین کی بصارت پر ناروا بوجھ ہوگا اور کالم کی صنف کے ساتھ زیادتی! مختصراً یہ کہ پہلا کھلواڑ شکایت کے ساتھ یہ ہوا کہ جس چیف کمشنر کے خلاف شکایت تھی‘ یہ اُسی کے ماتحت ڈپٹی کمشنر کو بھیج دی گئی‘ یعنی ع
یکی برسرِ شاخ ‘بُن می برید
کہ جس شاخ پر بیٹھا تھا‘ اُسی کو کاٹ رہا تھا۔ کیا پاکستان کی نوکر شاہی میں یہ ممکن ہے کہ کوئی اپنے افسرِ بالا سے بازپرس کرے کہ آپ ایک شہری کے لیے قابل رسائی کیوں نہیں؟
ڈپٹی کمشنر کیا کر سکتا تھا؟ اُس نے خط و کتابت شروع کر دی۔ سائل سے پوچھا گیا کہ تفصیل بتائیے‘ سائل نے پھر عرض گزاری کہ صاحب بہادر! تفصیل اس سے زیادہ نہیں کہ ساری ممکن کوششوں کے باوجود چیف کمشنر سے بات نہیں ہو سکتی! کہا گیا کہ ''اپنے پوائنٹ کی تشریح کیجیے‘‘ جواب میں عرض کیا گیا کہ تفصیل بتائی جا چکی ہے اور یہ کہ چیف کمشنر کے خلاف شکایت اُس کے ماتحت کو بھیجنا پورٹل کے ساتھ مذاق ہے! اس کا جواب یہ دیا گیا کہ تفصیلات مہیا کیجیے!
یہ فٹ بال کئی دن ٹھوکریں کھاتا رہا! پھر کہا گیا کہ ڈپٹی کمشنر بات کرنا چاہتے ہیں! عرض کیا گیا کہ ناقابلِ رسائی چیف کمشنر صاحب ہیں! ڈپٹی کمشنر نہیں! پھر کہا گیا کہ چیف کمشنر صاحب کے دفتر حاضر ہوں! اس کے جواب میں شکایت کنندہ نے پھر ساری صورت حال بتائی کہ''معاملے کو اس لیے لٹکایا جا رہا ہے کہ چیف کمشنر کو ذمہ داری سے بچایا جا سکے! ایشو یہ ہے کہ چیف کمشنر ناقابل رسائی ہیں اور وہ شہری کی کسی کال کو درخور ِاعتنا نہیں گردانتے۔ ڈپٹی کمشنر سے بات کا کوئی فائدہ نہیں! جیسا کہ وزیراعظم نے ہدایت کی ہے‘ معاملہ چیف کمشنر سے سینئر اتھارٹی کی سطح کا ہے۔ چیف کمشنر پابند ہے کہ اپنی نارسائی کی وجہ بیان کرے‘‘۔چیف کمشنر سے بات کیا ہونی تھی شکایت مسلسل فٹ بال بنی رہی! یہاں تک کہ چھ دسمبر کو ''جزوی داد رسی کر دی گئی‘‘ کہہ کر نمٹا دی گئی۔
یہ ہے حشر وزیراعظم کے پورٹل کا جو اعلیٰ نوکر شاہی کر رہی ہے! اصولی طور پر چیف کمشنر کے باس کو چیف کمشنر سے پوچھنا چاہیے تھا کہ کیا ایک یا دو ماہ کے بعد بھی آپ سائل سے بات نہیں کر سکتے؟ اگر ایسا ہے تو پھر اُس ٹیلی فون کا کیا فائدہ جس کا بل حکومت ادا کر رہی ہے؟
بستی کے شرفا کو جب بتایا گیا کہ چیف کمشنر صاحب سے ملنا تو درکنار‘ بات کرنا بھی ناممکن ہے تو ان کا ایک ہی کمنٹ تھا کہ جب اعلیٰ ترین درجے سے ریٹائر ہونے والا بیورو کریٹ‘ جس کا میڈیا سے بھی تعلق ہے‘ چیف کمشنر سے بات نہیں کر سکتا تو ہما و شما کا کیا حال ہو گا ؛ ع
قیاس کن زگلستانِ من بہارِ مرا
چیف کمشنر صاحب کا عوام کے ساتھ رویہ دیکھ کر انگریز ڈپٹی کمشنروں کے واقعات یاد آ گئے۔ عید کے موقع پر علاقے کے جاگیردار‘ زمیندار‘ معززین‘ حاضر ہوتے تھے اور کوٹھی کے لان میں کھڑے ہو کر صاحب بہادر کا انتظار کرتے تھے کہ درشن ہو تو عید مبارک عرض کی جائے! طویل انتظار کے بعد اندر سے ملازم آتا تھا اور خوش خبری دیتا تھا کہ صاحب نے عید مبارک قبول کر لی ہے یہ سن کر‘ انتظار کرنے والے‘ جنہوں نے طّرے باندھے ہوتے تھے اور اچکنیں زیب تن کر رکھی ہوتی تھیں‘ ایک دوسرے سے گلے ملتے تھے کہ مبارک ہو! صاحب بہادر نے عید مبارک قبول کر لی ہے!
زمانہ بدل گیا۔ مہذب ملکوں میں ایک عام شہری وزیروں اور وزراء اعظم سے بھی بات کرسکتا ہے‘ یہاں شہر کا افسر اعلیٰ رسائی سے کوسوں دور ہے! فیڈ بیک کا کوئی وسیلہ نہیں! نوکر شاہی اپنی دنیا میں مست ہے! کنویں سے باہر کیا ہو رہا ہے؟ کچھ خبر نہیں! ایسے میں رؤف کلاسرا ایک بار نہیں‘ سو بار نوحہ خوانی کرے کہ اسلام آباد برباد ہو رہا ہے‘ کچھ اثر نہیں ہوگا!
نواز شریف ہو یا عمران خان‘ نوکر شاہی کا مخصوص گروپ اُن کی اصلاحات کو سبوتاژ کرتا رہے گا! اصل رکاوٹ وزرا نہیں‘ نوکر شاہی ہے! جن عوام کے خون پسینے کی کمائی سے یہ نوکر شاہی دنیا کے بہترین معیارِ زندگی سے لطف اندوز ہو رہی ہے اور نوابوں جیسے ٹھاٹھ باٹھ سے رہ رہی ہے‘ انہی کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھتی!
سوری! جناب وزیراعظم! آپ کی خوش نیتی‘ آپ کا عزمِ ِصمیم‘ اس نوکر شاہی کی موجودگی میں کچھ نہیں کر سکتا نہ کچھ کر سکے گا!

Sunday, January 05, 2020

چُوڑیاں بنوانی ہیں


چُوڑیاں بنوانی ہیں! کیا آپ میری مدد کر سکتے ہیں!
آپ کہیں گے کہ بازار میں چوڑیاں بنی بنائی دستیاب ہیں! وہاں سے خرید لوں! مگر بات یہ ہے کہ میں آرڈر پر بنوانا چاہتا ہوں۔ سپیشل چوڑیاں! خصوصی طور پر! ایسی کہ اس سے پہلے اتنی خوش نما قیمتی چوڑیاں بنی ہی نہ ہوں!
آرڈر پر چیز بنوانے کا اپنا ہی مزا ہے! ترقی یافتہ ملکوں میں اسے اب بہت لگژری سمجھا جاتا ہے۔ اسے ''کسٹم میڈ‘‘ کہتے ہیں! زیادہ لوگ بنے بنائے گھر خریدتے ہیں۔ کچھ خود بنواتے ہیں۔ یہ با ذوق ہوتے ہیں یا بہت زیادہ امیر! وہاں ریڈی میڈ ملبوسات کی انڈسٹری زوروں پر ہے۔ ہمارے ہاں آج بھی درزی کی حکومت ہے۔ خواتین کے ملبوسات سینے والے درزیوں کی دکانوں پر ہجوم رہتا ہے۔ امرا کی خواتین فل ٹائم درزی پالتی ہیں جو صرف انہی کے لیے کام کرتے ہیں! مردانہ ملبوسات ماپ پر کسٹم میڈ بنوانے کا رواج اب مغربی ملکوں میں نہ ہونے کے برابر ہے! ہاتھ سے کام کرنے والے ہنر مند از حد گراں ہیں! درزی ہو یا الیکٹریشن‘ یا پلمبر، ہاتھ لگانے کے بھی سو ڈالر لے لیتے ہیں! وفاقی دارالحکومت میں ایک معروف مارکیٹ تھی۔ سراج کورڈ (Covered) مارکیٹ! ساری چھتی ہوئی! منہدم کر دی گئی۔ اس میں ایک درزی تھا۔ جالندھر ٹیلر! شیخ امین اس کا مالک تھا! اگر یہ کہا جائے کہ جڑواں شہروں میں وہ سرفہرست تھا تو مبالغہ نہ ہو گا! مغربی ملکوں کے سفیر اس کے خصوصی گاہک ہوتے تھے۔ آرڈر پر سوٹ سلوانے کا چسکا انہیں ایسا پڑتا کہ پاکستان سے چلے جانے کے بعد بھی اسی سے ملبوسات بنواتے۔ ہر شے فانی ہے اور ہر شخص بھی! شیخ امین کو مرحوم ہوئے سالہا سال ہو چکے۔ جہاں سراج کورڈ مارکیٹ تھی وہاں اب میدان ہے ع
زمین گردش میں ہے اس پر مکاں رہتا نہیں ہے
سر سید احمد خان 1869ء میں بحری جہاز کے ذریعے یورپ گئے تو فرانس کے جنوبی ساحل پر اترے۔ ان کے ایک ہم سفر کے پاس مناسب لباس نہ تھا۔ کسی نے بتایا کہ بازار جائیے اور تیار ملبوس خرید لیجیے۔ ایک دکان پر گئے۔ بقول سر سید وہاں مِس صاحبہ بیٹھی تھیں۔ منٹوں میں ان کے ساتھی کو اپنی پسند اور اپنے ماپ کا ملبوس مل گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ 1869ء سے پہلے ریڈی میڈ ملبوسات کی صنعت یورپ میں پائوں جما چکی تھی!
کسٹم میڈ جوتے آج پاکستان میں بھی خال خال ہیں! وہ جنہیں شوق لیے پھرتا ہے، اپنے اپنے مخصوص کفش سازوں کو خوش رکھتے ہیں۔ کاکول ایبٹ آباد میں ایک زین ساز (SADDLER) تھا۔ شاید زبیر اس کا نام تھا۔ اس کا بنیادی پیشہ تو زیر تربیت افسروں کی گھڑ سواری کے حوالے سے زینوں کا اہتمام و انصرام تھا مگر جوتے (شُوز) بنانے کا بھی ماہر تھا۔ بڑے بڑے برانڈز (باس، ارمانی، چرچ وغیرہ) کے جوتوں کی نقل میں ایسے با کمال جوتے بناتا کہ اصل اور نقل میں تمیز کرنا مشکل ہو جاتا۔ کمزوری اس میں یہ تھی کہ ہر ماہر کاریگر کی طرح وعدے کا کچا تھا۔ پھیرے ڈلواتا رہتا۔ آج کل کہیں راولپنڈی میں ڈیرے ڈالے بیٹھا ہے۔
میں بازار میں دستیاب چوڑیاں نہیں خریدنا چاہتا! یہ تو ہر کہِ و مہِ کے لیے ہیں۔ مجھے کسٹم میڈ خصوصی چوڑیاں درکار ہیں۔ کانچ کی ہوں یا دھات کی، یا پلاسٹک کی یا زرِ خالص کی، ہوں ٹاپ کلاس! ایسی کہ دیکھنے والا اش اش کر اٹھے اور پہننے والی کی کلائیاں سورج کو شرما دیں!
مجھے یقین ہے کہ آپ حیدر آباد، سندھ جانے کا مشورہ دیں گے۔ پاکستان میں چُوڑی سازی کا سب سے بڑا مرکز وہیں ہے۔ سینکڑوں دکانیں چوڑی سازی اور چوڑی فروش کا کام کرتی ہیں۔ اتفاق یا حسنِ اتفاق ہے کہ بھارت میں جو شہر چوڑیوں کے لیے مشہور ہے، اس کا نام بھی حیدر آباد ہے۔ یہ اور بات کہ یو پی کا قصبہ فیروز آباد چوڑیوں کی صنعت کا باوا آدم ہے۔ روایت ہے کہ وہیں سے ایک ماہر چُوڑی ساز رستم استاد، تقسیم کے وقت حیدرآباد سندھ پہنچا اور اس خوبصورت، نازک، نسوانی صنعت کا ڈول ڈالا۔ حیدر آباد سندھ کی تین سوغاتیں مشہور ہیں۔ پلّہ مچھلی، بمبے بیکری کا کیک اور چوڑیاں!
مجھے یہ خصوصی چوڑیاں اپنے گھر یا خاندان کی کسی خاتون کیلئے نہیں چاہئیں! عہدِ شباب میں مَیں اور بیگم چاند رات نکلتے اور خاندان کی سبھی چھوٹی بڑی خواتین کے لیے چوڑیاں خرید کر لاتے۔ اب جن بڑے شہروں کا لقمہ ہم لوگ بنے ہوئے ہیں، وہاں چاند رات تو ہوتی ہے مگر مشاغل اس رات کے بدل گئے ہیں! یوں بھی آج کل کی لڑکیوں کو چوڑیوں اور زیورات کا شوق نہیں! یہ زمانہ مصنوعی (آرٹی فیشل) جیولری کا ہے! ہر شے یہاں تک کہ محبت اور تپاک بھی مصنوعی ہے تو جیولری کیوں نہ مصنوعی ہو!
بھئی! مجھے یہ خصوصی، خوبصورت، بے مثال چوڑیاں اپنے اُس شیر دل پولیس کے جوان کے لیے بنوانی ہیں جس نے گزشتہ ہفتے ایک چینی سے مار کھائی اور اس صدقِ دل سے کھائی کہ ہونٹ کٹ گئے اور چہرہ پھٹ گیا۔ ٹریفک کی ڈیوٹی پر مامور اس پولیس مین نے چینی کو ''نو پارکنگ ایریا‘‘ میں گاڑی کھڑی کرنے سے منع کیا تو چینی نے اُس کے چہرے پر مکا مارا اور زد و کوب کیا۔ پھر اس شیر جوان پولیس مین کو ہسپتال پہنچایا گیا! چینی کو حوالات میں بند کر دیا گیا۔
غیر ملکیوں کے حوالے سے ہم جس احساسِ کمتری کا شکار ہیں، اس کے پیشِ نظر چینی کچھ دیر کے بعد رہا ہو چکا ہو گا۔ اس احساسِ کمتری کو ہم وسعتِ قلبی کا نام دیتے ہیں یا مہمان نوازی کا! یہ مہمان نوازی اُس عرب نے بھی دکھائی تھی جس نے سردی میں اونٹ کو اپنا منہ خیمے کے اندر کر لینے کی پیشکش کی تھی! آج افغان مہمان پورے ملک کے اطراف و اکناف میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ جنرل صاحب کے عہدِ ہمایونی میں امریکی ''مہمان‘‘ ویزوں کے بغیر آتے رہے۔ اور اب ہمارے زرد فام مہمان ہمارے مالک بننے کے لیے تیار بیٹھے ہیں! عرب بھائی کشمیر کے معاملے میں حمایت کریں یا نہ کریں، ہمارے صحرا، اُن کی شکار گاہیں ہیں اور نایاب پرندے اُن کا صَید!
چینی مہمان نہتا تھا اور پولیس والا میزبان بھی نہتا تھا۔ پولیس والا اپنا دفاع تک نہ کر سکا! خلوص سے مار کھائی اور ہسپتال جا پہنچا! ہماری پولیس بہادر ہے! بہت بہادر! مگر یہ بہادری اُس وقت غائب ہو جاتی ہے جب مقابلے میں آنے والا ہتھکڑی میں نہ ہو! ہمارے ہاں ''پولیس مقابلے‘‘ مشہور ہیں۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ کسی ''پولیس مقابلے‘‘ کی کوئی تصویر، کوئی وڈیو، کوئی فُٹیج، کبھی نہیں نظر آئی! ہماری پولیس کی بہادری اُس وقت قابلِ دید ہوتی ہے جب کوئی ملزم تھانے میں ہو، بالخصوص وہ ملزم جس کا آگا پیچھا کوئی نہ ہو، جس کے سر پر کسی ایم این اے یا وزیر کا ہاتھ نہ ہو۔ جس کے لیے اوپر سے فون نہ آئے! ایسا کوئی بے یار و مددگار ملزم یا مشکوک، پولیس کے ہتھے چڑھ جائے تو بقول غالبؔ؎
پھر دیکھیے اندازِ گل افشانیٔ گفتار/ رکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مرے آگے
گل افشانیٔ گفتار کے علاوہ، جسمانی سزائیں ایسے ملزموں کو کمال بہادری سے دی جاتی ہیں۔ کچھ اس اثنا میں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ آج تک کسی داروغے پر قتل کا مقدمہ نہیں چلا۔
ایک روایت یہ بھی ہے کہ زد و کوب کرنے والا چینی بھائی کنگ فو (مارشل آرٹ) کا ماہر تھا! سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے پولیس والوں کو مارشل آرٹ یا جوڈو کراٹے وغیرہ نہیں سکھائے جاتے؟ بہت سوں کی تو توندیں، اُن کے جلو میں چلتی نظر آتی ہیں! اپنا دفاع کرنے سے بھی قاصر ہیں! ایک حکایت ہے کہ کسی مُرغے نے اونچی جگہ پر بیٹھ کر اذان دی! نیچے لومڑی کھڑی تھی! کہنے لگی، اذان تو تم نے دے دی! اب نیچے اتر کر نماز پڑھائو۔ مرغے نے کہا کہ میں تو موذن ہوں! امام صاحب دیوار کے اُس طرف قیلولہ کر رہے ہیں! لومڑی نے وہاں جا کر دیکھا تو ایک ایسا جانور سو رہا تھا جو لومڑی کو تر نوالہ بنا سکتا تھا۔ لومڑی بھاگی! مُرغے نے پوچھا: کہاں جا رہی ہو! جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھنی؟ کہنے لگی: وضو ٹوٹ گیا ہے۔ دوبارہ کر کے آئوں گی! ہماری پولیس کی بہادری بھی تھانے تک محدود ہے! کوئی برابر کا سامنے آئے تو وضو دوبارہ کرنا پڑتا ہے
 

powered by worldwanders.com